کفر اور کافر کا مسئلہ
بیسویں صدی میں کمیونسٹ نظریہ بڑے پیمانہ پر ساری دنیا میں پھیلا۔ اس کے تحت انسانی سماج کو دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا۔ ایک محنت کش طبقہ (working class) اور دوسرا بورژوا طبقہ۔
بورژوا (bourgeois) ایک فرانسیسی لفظ ہے۔ یہ لفظ اپنے ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے متوسط طبقہ کے لیے بولا جاتا تھا۔ مگر مارکسی فلسفہ کے زیر اثر وہ ایک تحقیری (derogatory) لفظ بن گیا۔ اس نظریہ کے تحت سماج دو طبقوں میں بٹ گیا۔ ایک محنت کش طبقہ جو ہر اعتبار سے معصوم طبقہ کی حیثیت رکھتا تھا اور دوسرا بورژوا طبقہ جو مارکسی تصور کے مطابق، سرمایہ دار طبقہ (capitalist class) کے ہم معنٰی تھا اور جو مارکس کے مطابق، ہر قسم کی سماجی اور اقتصادی برائی کی جڑ تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ کافر کے لفظ کے ساتھ پیش آیا ہے۔ کافر کا لفظ ابتدائی طورپر صرف ایک سادہ مفہوم رکھتا تھا۔ لغوی اعتبار سے کافر کے معنٰی ہیں، انکار کرنے والا۔ مگر بعد کے زمانہ میں کافر کا لفظ ایک تحقیری لفظ (derogatory word) بن گیا۔ موجودہ زمانہ میں نظری اعتبار سے یہ غالباً مسلم اور غیر مسلم کے درمیان سب سے بڑا نزاعی مسئلہ ہے جس سے موجودہ زمانہ کے مسلمان دوچار ہیں۔ ایک مثال سے اس معاملہ کی وضاحت ہوگی۔ اقبال کا خاندان پہلے ایک برہمن خاندان تھا۔ بعد کو وہ لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے:
مرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی برہمن زادۂ دانائے رمز روم و تبریز است
اس شعر میںبرہمن زادہ کا لفظ سننے والوں کو برا نہیں لگتا۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبارسے برہمن زادہ اور کافر زادہ دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ لیکن اگر اقبال کے اس شعر کو بدل کر اس طرح کہا جائے:
کہ کافر زادۂ دانائے رمزروم و تبریز است
اگر شعر میں ایسی تبدیلی لائی جائے تو تمام اقبال پسند لوگ غصہ ہو جائیں گے۔ کیوں کہ برہمن ایک سادہ لفظ ہے جب کہ کافر استعمال کے اعتبارسے ایک تحقیری لفظ بن گیا ہے۔
کمیونسٹ اور بورژوا کی تقسیم نے بیسویں صدی میں غیر کمیونسٹ دنیا کو کمیونسٹ لوگوں سے متنفّر کردیا تھا۔ یہی معاملہ اب مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے مومن اورکافر کی تقسیم نے غیرمسلم دنیا کو مسلمانوں سے بیزار کردیا ہے۔ حتٰی کہ اب اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے لوگ یہ مانگ کرنے لگے ہیں کہ اسلام پر نظر ثانی کرو اور کافر کے لفظ کو اسلام کی لغت سے خارج کرو۔ جب تک اسلام میں یہ ریفارم نہ لایا جائے، مسلم اور غیر مسلم معتدل طورپر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
مگر تجربہ بتاتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے انتہا پسند لوگوں کا نہیں ہے بلکہ اب وہ خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ آج کے صنعتی سماج میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں تعلیم یافتہ مسلمان عام طورپر یہ محسوس کررہے ہیں کہ وہ ’’کافر‘‘ کے رواجی تصور کے ساتھ مشترک سماج میں معتدل طورپر نہیں رہ سکتے۔ وہ شعوری یا غیرشعوری طورپر یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اسلام نے موجودہ زمانہ میں اپنا ریلونس (relevance) کھو دیا ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے اسلام کو لے کر وہ آج کے سماج میں عزت کے ساتھ کس طرح رہیں۔
دہلی میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ ان سے اکثر میری ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میری پیدائش اگرچہ مسلمان کے گھر میں ہوئی مگر اب اسلام پر میرا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب ڈیموکریسی (جمہوریت) ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام انسانیت کو مومن اور کافر کے دو نامساوی طبقوں میں بانٹتا ہے۔ جب کہ ڈیموکریسی سارے انسانوں کو برابر کا درجہ دیتی ہے۔انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا کہ میرے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوگا تو میںاس کے کان میں اذان نہیں دلواؤں گا بلکہ کسی پروفیسر کو بلاؤں گا جو بچہ کے کان میں کہے گا—ڈیموکریسی، ڈیموکریسی، ڈیمو کریسی۔
حقیقت یہ ہے کہ کافر کا مسئلہ صرف غیرمسلم لوگوں کامسئلہ نہیں۔ اب جدید سماج میں وہ بڑے پیمانہ پر خود مسلمانوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلہ کو گہرائی کے ساتھ سمجھا جائے اور اس کے صحیح مفہوم کو سامنے لا یا جائے تاکہ اسلام لوگوں کو وقت کا مذہب معلوم ہو اور مسلم اور غیر مسلم دونوں جدید سماج میں معتدل طورپر دوسروں کے ساتھ رہ سکیں۔
گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ سارا معاملہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ رواجی تصور میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کافر اور غیر مسلم دونوں ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ جو لوگ مسلمان نہیں وہ سب کے سب کافر ہیں۔ یہ بلا شبہہ ایک غلط تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کافر کا لفظ غیر مسلم کے مترادف نہیں:
The word Kafir is not synonymous with non-Muslim.
داعی اور مدعو کارشتہ
شریعت کے اعتبار سے، مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ یہ رشتہ لازم کرتا ہے کہ داعی اپنے مدعو کے ساتھ ہمیشہ معتدل تعلق قائم رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ تاجر کو ہمیشہ کسٹمر فرینڈلی (customer friendly) ہونا چاہئے۔ اسی طرح داعی کا فارمولا یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہمیشہ مدعو فرینڈلی ہو۔
Be always Mad‘u friendly.
مدعو کے حق میں داعی کے اندر خیر خواہانہ جذبات ہونے چاہئیں۔اگر داعی کے اندر مدعو کے لیے یہ مطلوب جذبات موجود ہوں تو وہ ہر گز اس کو پسند نہیں کرے گا کہ وہ ایسے الفاظ بولے جس سے مدعو کے دل میں اُس کے خلاف نفرت پیدا ہوجائے۔ حتیٰ کہ اگر وہ سچا داعی ہے تو اپنے دل میں بھی وہ ایسی بات نہیں سوچے گا۔ دعوت کا جذبہ نفرت کا قاتل ہے۔ داعی کا دل ایک درد مند دل ہوتا ہے۔ ایسے دل کے اندر محبت اور خیر خواہی کے سوا کوئی اور چیز پرورش نہیں پاسکتی۔
قدیم زمانہ میں آرین لوگ جب انڈیا میںآئے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو انہوں نے ملچھ کہا۔ اسی طرح مسیحی علماء نے مسلمانوں کو اپنی کتابوں میں انفڈل (Infidels) لکھا۔ ملچھ اور انفڈل دونوں تحقیری الفاظ (derogatory words) ہیں۔ کہنے والا ان الفاظ کو بول کر خوش ہوتا ہے مگر جس کے بارے میں یہ لفظ بولا گیا ہے وہ اس کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اس معاملہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کئے جائیں جن میںکوئی تحقیری مفہوم (derogatory sense) نہ ہو بلکہ وہ سادہ طورپر صرف اظہار واقعہ کے ہم معنٰی ہو۔
بد قسمتی سے اس معاملہ میں مسلم علماء احتیاط کا پہلو اختیار نہ کرسکے۔وہ اپنی کتابوں میں اور قرآن کے ترجموں میںکافر کے لیے بے تکلف انفڈل کا لفظ استعمال کرنے لگے۔ مثال کے طورپر مولاناعبدالماجد دریابادی نے اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن میں قل یا ایہا الکافرن کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
Say thou: infidels (4:535)
در اصل مسلم علماء اور رہنماؤں کی اسی قسم کی غیر احتیاطی باتیں ہیں جن کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سخت تناؤ پیدا ہوگیا ہے جس کا نتیجہ مختلف ناخوشگوار صورتوں میں سامنے آتا رہتا ہے۔
یہی غلطی قرآن کے اُردو اور فارسی مترجمین نے بھی کی ہے۔ قرآن کے بہت سے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ مگر غالباً صرف ایک مترجم (شاہ عبد القادر) کو چھوڑ کر تمام مترجمین نے اس معاملہ میں بے احتیاطی کا انداز اختیار کیا ہے۔ قل یاایہا الکافرون کے کچھ ترجمے یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
بگو اے کافراں (شاہ ولی اللہ)
کہہ اے کافرو (شاہ رفیع الدین)
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے (اشرف علی تھانوی)
کہہ دو کہ اے کافرو (ابو الاعلیٰ مودودی)
کہہ دو، اے کافرو (امین احسن اصلاحی)
تو کہہ، ائے منکرو (شاہ عبدالقادر)
اس قرآنی آیت کے تحت اکثر مترجمین نے اسی قسم کے ترجمے کئے ہیں۔ اس آیت میں کافر کا ترجمہ درست نہیں۔ بالفرض وہ خالص لغوی اعتبار سے غلط نہ ہو تب بھی وہ دوسری قوموں کے لیے ایک قابل اعتراض لفظ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ترجمہ سے احتراز کیا جائے۔ پھر یہ صرف ترجمہ کی بات نہیں، اسی ترجمہ کی بنیاد پر ذہن بنتا ہے اور تقریر و تحریر میںاس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ترجمہ پوری ملت کی منفی ذہن سازی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ ترجمہ ہم اور وہ (we and they) کا ذہن پیدا کرتا ہے۔ اور اس قسم کا تقسیمی ذہن دعوتی اعتبار سے درست نہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا،غالباً ایک ہی عالم ہیں جنہوں نے قرآن کے ان الفاظ کا درست ترجمہ کیا ہے اور وہ شاہ عبد القادر دہلوی ہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب کا اُردو ترجمہ تمام علماء کے نزدیک نہایت مستند مانا گیا ہے۔ انہوں نے مذکورہ آیت کا ترجمہ ’منکرو‘ کیا ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹ میں قل یاایہا الکافرون (کہو کہ ائے منکرو) کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ طرزِ خطاب پورے قرآن میں صرف ایک بار اسی ایک سورہ میں استعمال ہوا ہے۔ کافر یا کفّار یا کافرون کے الفاظ تو قرآن میںمتعدد بار آئے ہیں۔ مگر ایہا الکافرون جیسے متعین خطاب کی صورت میںاس کا استعمال قرآن میں کسی اور مقام پر نہیں ہوا ہے۔
مفسرین کی رائے کے مطابق، یہاںالکافرون میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی وہ ایک گروہ خاص کے لیے مشخّص طورپر آیا ہے، نہ کہ عمومی طورپر ہر اُس شخص کے لیے جو مسلم گروہ سے باہر ہو۔ ذیل میں کچھ مفسرین کے اقوال درج کیے جاتے ہیں:
(قل یٰایہا الکافرون) المخاطبون کفرۃ مخصوصون قد علم اللہ انہم لایؤمنون (تفسیر النسفی)
و عنی بالکافرین قوماً معینین لا جمیع الکافرین (تفسیر القرطبی)
خطاب لجماعۃ مخصوصۃ (تفسیر المظہری)
قل یٰایہا الکافرون ایک مخصوص خطاب ہے، اُس کو عمومی طورپراستعمال نہیںکیا جاسکتا۔ یعنی قل یٰایہا الکافرون سے مراد ہمیشہ کے لیے صرف قدیم منکرینِ قریش رہیں گے جو پیغمبراسلام کے معاصر تھے اور پیغمبرانہ اتمام حجت کے باوجود، جنہوں نے پیغمبر کی بات کو ماننے سے انکار کیا۔ زمانۂ نبوت کے بعد کے لوگوں کو ایہا الانسان کے لفظ سے خطاب کیا جائے گا، نہ کہ ایہا الکافرون کے لفظ سے۔ اب یہی انداز ِخطاب ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
کافر کا مفہوم
عربی زبان میں کفر کے معنٰی انکار کے ہیں اور کافرکا مطلب ہے، انکار کرنے والا۔ اسلام کے مطابق، کافر ایک کردار ہے، کافر کسی قوم کا اجتماعی لقب نہیں:
Kafir is an individual character rather than a group title of a certain race or community.
کافر وہ ہے جو منکر ہو (One who refuses to accept) ۔قرآن کے اُردو ترجموں میں سب سے زیادہ صحیح ترجمہ شاہ عبد القادر دہلوی کا مانا جاتا ہے۔ اُنہوں نے اپنے ترجمۂ قرآن میں کافر کا ترجمہ منکر کے لفظ سے کیا ہے۔ یہی اس لفظ کا صحیح ترجمہ ہے۔ قرآن کے انگریزی مترجمین اکثر کافر کا ترجمہ اَن بلیور(unbeliever) کے لفظ سے کرتے ہیں۔ یہ ترجمہ صحیح نہیں۔ اَن بلیور کا مطلب غیرمومن یا غیر معتقد ہوتاہے۔ جب کہ کافر کا مطلب صرف غیر معتقد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اتمام حجت کے باوجود ماننے سے انکار کرے۔
دور اوّل میں جب قرآن کی ابتدائی آیتیں اتریں تو ان میں پیغمبر کے مخاطبین کو کافر نہیں کہا گیا بلکہ ان کے لیے انسان جیسے الفاظ استعمال ہوئے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا کہ: یا ایہا الرسول بلغ ما أنزل الیک من ربک…واللہ یعصمک من الناس۔اس آیتمیں دیکھئے۔ یہاں یعصمک من الناس(خدا تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا) کے الفاظ آئے ہیں۔ایسا نہیںہوا کہ یہاں یعصمک من الکفار کا لفظ استعمال کیا جائے۔ قرآن میں کثرت سے اس طرح کی آیتیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ ہر گروہ کے لیے اصلاً انسان جیسا عمومی لفظ استعمال کیا جائے گا۔ کافر کا لفظ صرف ان افراد تک مخصوص رہے گا جن کے لیے خدا نے خود کافر کا لفظ استعمال کیا ہو۔ کافر کا لفظ ایک خدائی اعلان ہے، وہ انسان کا دیا ہوا خطاب نہیں۔
فعل اور فاعل کا فرق
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۹کی پہلی آیت یہ ہے: قل یاایہا الکافرون (الکافرون ۱) اس آیت میںالکافرون سے مراد قدیم مکّہ کے منکرین قریش ہیں۔ ان الفاظ میں قریش کے منکرین کے بارہ میں اتمام حجت کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ تم لوگ اللہ کی نظر میںکافر ہوچکے ہو۔ قرآن میںاس طرح تعین اور تشخص کی زبان میں کسی اور گروہ کے کافر ہونے کا اعلان نہیں کیا گیا۔
قرآن میں دوسرے مقامات پر کفر اور کافر کے الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً فرمایا: فمنکم کافر ومنکم مومن(التغابن ۲)اسی طرح ارشاد ہوا ہے: فمنہم من آمن و منہم من کفر (البقرہ ۲۵۳) ان دوسری قسم کی آیتوں میںفعل کا ذکر ہے مگر مشخّص طورپر فاعل کا ذکر نہیں۔ یعنی یہ تو کہا گیاہے کہ فلاں فعل کا ارتکاب کفر ہے یافلاں فعل کا ارتکاب کرنے والا خدا کی نظر میں کافر بن جاتاہے۔ مگر ان دوسری قسم کی آیتوں میں ایسا نہیں کیا گیا ہے کہ کسی گروہ کو مشخص اور متعین کرکے اُس کے بارہ میں یہ اعلان کیا جائے کہ فلاں فلاں گروہ کافر ہیں۔
قرآنی بیان میں اس فرق سے ایک اصول معلوم ہوتا ہے اور وہ اُصول یہ ہے کہ یہ کہنے کا حق ہر داعی کو ہے کہ فلاںفعل کا ارتکاب کفر ہے۔ مگر یہ حق کسی بھی داعی یا عالم کو نہیںکہ وہ مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں گروہ یا فلاں قوم کافر ہے۔
ایک متوازی مثال سے اس معاملہ کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ : من ترک الصلاۃ متعمداً فقد کفر۔ دوسری حدیث میںیہ الفاظ ہیں کہ بین العبد و بین الکفر ترک الصلاۃ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کرمسلسل نماز ترک کرے تو وہ شریعت کے مطابق، کافر ہو جاتا ہے۔ اس حدیث کو لے کر کوئی مصلح اگر یہ کرے کہ وہ عمومی طور پر ترغیب و ترہیب کے انداز میں مسلمانوں کو نماز کی طرف متوجہ کرے اور ترک صلاۃکی وعید بتائے تو اُس کا ایسا کرنا بالکل جائز ہوگا۔ لیکن اگر کوئی مصلح ایسا کرے کہ وہ نماز نہ پڑھنے والے مسلمانوں کی نام بنام ایک فہرست تیار کرے اور اس فہرست کو لے کر مشخّص طورپر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں مسلمان ترک صلاۃ کی بناپرکافر ہو چکے ہیںتو اُس کا ایساکرنا بالکل غلط ہوگا۔
ٹھیک اسی طرح کوئی داعی یا مصلح قرآن کی آیتوں کو لے کر یہ مسئلہ بیان کرسکتا ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کا ارتکاب کرنے سے کوئی شخص اللہ کی نظر میں کافر ہو جاتا ہے۔ لیکن اُس کا ایسا کرنا اپنی حد سے تجاوز ہوگا کہ وہ غیر مسلم افراد یا گروہوں کے نام لے کر یہ اعلان کرے کہ فلاں فلاں غیر مسلم لوگ کافرہیں۔
اس معاملہ میں فعل اور فاعل کے درمیان فرق کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ وہ مشخّص طورپر فاعل کا اعلان کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان صرف ایک بار قدیم منکرینِ قریش کے بارہ میں کیا ہے جن کے اوپر پیغمبر نے براہ راست اتمام حجت کیا تھا۔ بقیہ انسانوں کے بارہ میں وہ آخرت میں اعلان فرمائے گا۔ ہمارا کام صرف دعوت دینا ہے، نہ کہ لوگوں کے کافر ہونے کا اعلان کرنا۔
کریڈٹ کا مسئلہ
کافر یا منکر کا لفظ بیک وقت دو کردار سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک وہ جس نے کوئی بات پیش کی ہو۔ دوسرا وہ جس نے اس پیش کی ہوئی بات کا انکار کیا ہو۔ ان میں سے ایک کردار کو داعی کہہ سکتے ہیںدوسرے کردار کو مدعو کہہ سکتے ہیں۔
کافر ایک کردار ہے، کافر کسی گروہ کا قومی لقب نہیں۔ کسی گروہ کا کافر قرار پانا ایک بے حد غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس کا مطلب ایک کو انکار کی بنا پر ڈس کریڈٹ (discredit)کرنا اور دوسرے کو اس کے دعوتی عمل کی بنا پر کریڈٹ دینا ہے۔ کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ کا یہ معاملہ فتویٰ یا بیان کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہایت سنجیدہ دعوتی محنت کا طالب ہے۔
اس دعوتی محنت کا معیار ی نمونہ پیغمبر اسلام کا تیرہ سالہ مکی دور ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ کے لوگوں میں دعوتی کام کا آغاز کیا تو آپ کے خطاب کے الفاظ یہ تھے: یا ایہا الانسان۔ اس طرح تیرہ سال لوگوں کو بحیثیت انسان خطاب کرنے کے بعد جب لوگ جان بوجھ کر انکار پر قائم رہے تو آخر میں قرآن کی یہ آیت اتری: قل یا ایہا الکافرون۔اُس وقت بھی یہ ایک براہِ راست خدائی اعلان تھا، نہ کہ خود پیغمبر کا اپنا خطاب۔
اس اصول کے مطابق، ہندستان کے ہندو یا دوسرے ملکوں کے غیر مسلم کی حیثیت اسلامی نقطۂ نظر سے صرف انسان کی ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی کافریا کفار نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ ہندوؤں اور موجودہ زمانہ کے دوسرے غیر مسلموں پر یہ ضروری شرط پوری نہیں ہوئی کہ انہیں مکّی معیار کی تیرہ سالہ دعوت دی جائے اور وہ پھر بھی انکار کریں۔ اسی طرح اُنہیں منکر قرار دینا بھی درست نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جو نزاعات ہیں اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے بارے میں جو شکایتیں ہیں وہ سب کی سب قومی اور مادی ہیں۔ یہ تمام تر اسی طرح کے دنیاوی جھگڑے ہیں جو خود غیر مسلم گروہوں میں ایک دوسرے کے خلاف پیش آتے ہیں۔ اِن نزاعات کو کافر اور مسلم کے درمیان دینی نزاع نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کودو گروہوں کے درمیان دنیوی نزاع کہا جائے گا۔ ان قوموں پر اتمام حجت کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اُن سے ان دنیوی جھگڑوں کو یک طرفہ طورپر ختم کر دیں۔
کفر کا تحقق
کسی شخص کے بارے میں کب یہ متحقق (establish) ہوگا کہ وہ منکر یا انکار کرنے والا بن چکا ہے۔ اس سوال کا جواب خود قرآن میںموجود ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، قرآن کے نزول کا آغاز ۶۱۰ء میں مکہ میںہوا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے ذریعہ مکہ کے لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچاتے رہے۔ اس دعوتی مہم میں آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ اپنے مخاطبین کو کافر کہہ کر خطاب کریں۔اس دوران میںجو آیتیں اتریں ان سب میں انسان جیسے الفاظ تھے۔ آپ نے انہیں اپنی قوم کا حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں اپنا پیغام پہنچایا۔
دعوت کی یہ مہم آپ نے اس طرح چلائی کہ آپ گہرے طورپر ان کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ نے ان کی ایذاؤں پر یکطرفہ صبر کیا۔ آپ نے ان سے کسی بھی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ آپ نے ان سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے آپ کے اور ان کے درمیان مادّی نوعیت کی کوئی نزاع قائم ہو جائے۔ آپ یک طرفہ طورپر ہمیشہ اُن کے خیر خواہ بنے رہے۔ آپ کو ان کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچیں مگر آپ ہمیشہ ان کے لیے دعا کرتے رہے۔
دعوت کی یہ صبرآزما جدوجہد تیرہ سال تک چلتی رہی۔ تیرہ سال کے بعد بھی پیغمبر اسلام نے اپنی زبان سے ان کے لیے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آیت اتری کہ : قل یا ایہا الکفرون (تم کہہ دو کہ اے انکار کرنے والو) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سال کی جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ مخاطبین کا انکار ثابت ہو جائے اور ان کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اے انکار کرنے والو۔ اس قسم کے دعوتی کورس سے پہلے کسی کو منکر یا کافر قرار دینا جائز نہیں۔اب جب کہ پیغمبرانہ معیار کی تیرہ سالہ جدوجہد کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ کسی کو کافر یا منکر قرار دیا جاسکے تو عام لوگوں کے لیے تو ایک سو تیرہ سال کی مدت بھی اس کام کے لیے ناکافی ہوگی۔
کفر کی اصطلاح
مکّی دور میں قرآن میں بعض ایسی آیتیں اُتریں جن کاتعلق بیرون عرب کے غیرمسلموں سے تھا۔ مثلاً قرآن کی سورہ نمبر ۳۰ کے آغاز میں رومیوں (عیسائیوں) کا ذکر ہے جو وقتی طورپر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے تھے۔ مگر آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ غلبت الکفار فی ادنی الارض (روم کے کفار جو مغلوب ہوگئے ہیں) بلکہ یہ فرمایا کہ غلبت الروم فی ادنی الارض (رومی جومغلوب ہوگئے ہیں)۔ اسی طرح سورہ نمبر ۱۰۵ میں یمن کے غیر مسلم حاکم ابرہہ کا ذکر ہے۔ مگر قرآن میں اُس کا ذکر یمن کے ایک کافر حکمراں کے طورپر نہیں کیا گیا بلکہ اصحابِ فیل کے لفظ سے اُس کا ذکر کیا گیا۔
قدیم مکّہ کے منکرین کے لیے قرآن میں کفر اورکافر کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ اس کے بعد اُس زمانہ کے اہل اسلام تمام غیر مسلموں کو کافر کے لفظ سے پکارنے لگیں۔ مثلاً ہجرت کے بعد رسول اور آپ کے اصحاب مدینہ آئے تو انہوں نے یہاںکے لوگوں کو کافر کے لفظ سے خطاب نہیںکیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو جو پہلا خطاب کیا اس میںآپ نے انہیں اے لوگو(ایہا الناس، اتقوا النار ولو بشق تمرۃ) کے لفظ سے خطاب کیا۔اسی طرح مدینہ کے باہر ملک کے اطراف میں بہت سے غیرمسلم قبیلے موجود تھے۔ مگر اُن کو بھی کافرانِ عرب یا کافر قبائل کا نام نہیں دیا گیا۔ بلکہ اُن کے معروف نام سے اُنہیں پکارا گیا۔ مثلاً اہلِ سقیف، اہل نجران، اہل بحرین، وغیرہ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دور اول میں اہل اسلام جب عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں داخل ہوئے تو یہاں مختلف مذہب کے ماننے والے لوگ آباد تھے۔ دو راول کے مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا کہ ان غیر مسلموں کو کافر کے نام سے پکاریں۔ اُنہوں نے ہر ایک کو اُس کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارا۔ مثلاً شام کے مسیحیوں کو مسیحی کہا، فلسطین کے یہودیوں کو یہودی کہا، ایران کے مجوسیوں کو مجوسی کہا، افغانستان کے بودھوں کو بودھ (بوذا) کہا، وغیرہ۔
اسی طرح دور اول کے یہ مسلمان جب ہندستان آئے تو یہاں بھی اُنہوں نے یہی کیا۔ اُنہوں نے یہاں کے لوگوں کو ہندو کہا جو سندھو کا عربی تلفظ ہے۔ ابو الریحان البیرونی (وفات ۱۰۴۸ء) نے ہندستان کا سفر کیا۔ اُس نے سنسکرت زبان سیکھی اور ہندستان کے بارہ میں ایک عربی کتاب تاریخ الہند لکھی۔ اُس میں وہ یہاں کے غیر مسلموں کو ہندو کہتا ہے، نہ کہ کافرانِ ہند۔
ہزا ر سال سے زیادہ مدت تک یہی رواج باقی رہا۔ اب بھی کثرت سے ہندستان اور پاکستان کے علاوہ بقیہ دنیا میں یہی رواج بالفعل قائم ہے۔ مسلمان امریکا اور یورپ کے مختلف ملکوں میں آباد ہیں۔ وہاں اُن کا سابقہ غیر مسلم قوموں سے پڑتا ہے۔ مگر ہر ایک کو وہ اُن کے اپنے اختیار کردہ نام سے پکارتے ہیں، وہ اُنہیں کافر یا کفار نہیں کہتے۔
چند تاریخی مثالیں
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، قرآن میں ایہا الکافرون کے انداز میں خطاب کی مثال صرف منکرین مکّہ کے لیے آئی ہے اور وہ بھی تیرہ سال کے پیغمبرانہ اتمام حجت کے بعد۔ منکرین مکہ کے سوا کسی اور کو اس طرح مشخّص انداز میں خطاب نہیں کیا گیا۔
پیغمبر اسلام ﷺنے جب مکہ میں دعوت کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں آپ نے اس طرح خطاب نہیں کیا کہ یا ایہا الکفار۔ بلکہ قرآن میں یہ آیت اُتری:یا ایہاالانسان ما غرّک بربک الکریم۔ ہجرت کے بعد صحیفۂ مدینہ کا ایک جملہ یہ تھا: للیہود دینہم و للمسلمین دینہم۔ ایسا نہیں ہوا کہ یہ لکھا جائے کہ للکفار دینہم وللمسلمین دینہم۔ فتح مکہ کے بعد عرب کے مشرک قبائل کے وفود رسول اللہ سے گفت وشنید کے لیے مدینہ آئے۔ مگر یہاں بھی خطاب کا انداز یہی تھا: مثلاً یمن کے لوگ مدینہ آئے تو آپ نے فرمایا کہ: اتاکم اہل الیمن۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ اتاکم کفار الیمن۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے اطرافِ عرب کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کیے تو اُن کا انداز بھی یہی تھا۔ مثلاً آپ نے رومی حکمراں کو جو خط لکھا اُس کا پہلا جملہ یہ تھا: من محمد بن عبد اللہ الی ہرقل عظیم الروم۔ اس کے بجائے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ الی ہرقل کافر الروم۔ حجۃ الوداع کے خطبہ میں آپ نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ان اللہ بعثنی کافۃ للناس فادّوا عنی۔ اس میں بھی آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان اللہ بعثنی کافۃ للکفار۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں صحابہ کی فوج ایران میں داخل ہوئی تو روایات کے مطابق، وہاں ایران کے غیر مسلم حکمراں کوخطاب کرتے ہوئے ایک صحابی نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا: لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ اللہ۔ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا کہ یہ کہیں کہ لنخرج الکفار من عبادۃ الکفار الی عبادۃ اللہ۔
اس طرح دور اوّل کے مسلمان جب عرب سے نکل کر بیرونی ملکوںمیں پھیلے تو کسی بھی ملک میں اُنہوں نے لوگوں کو کافر یا کفار کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا بلکہ ہر قوم کو اُسی لفظ سے خطاب کیا جس لفظ کو اُس نے خود اختیار کر رکھا تھا۔ مثلاً مسیحی کو مسیحی، یہود کو یہود، مجوس کو مجوس، بَودھ کو بَودھ، وغیرہ۔
کافر کا تحقق اُس وقت ہوتا ہے جب کہ متعلقہ شخص کے اوپر کامل اتمامِ حجت کیا جاچکا ہو اور اس اتمام حجت کا ماڈل صرف ایک ہے۔ اور وہ پیغمبر اسلام کے دور میں مکّہ کی تیرہ سالہ دعوتی جدو جہد ہے۔ یہ تیرہ سالہ دعوتی عمل ہمیشہ کے لیے دعوت یا اتمام حجت کے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔مزید یہ کہ اتمامِ حجت کے بعد بھی متعین طورپر کسی کے کافر ہونے کا اعلان خدا کی طرف سے ہوگا، نہ کہ داعی کی طرف سے۔
قریش کی مثال
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سال پیدائش ۵۷۰ میں ایک بڑا واقعہ ہوا۔ یمن کے عیسائی حاکم ابرہہ نے ایک بڑی فوج کے ساتھ مکہ کی طرف اقدام کیا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ وہ کعبہ کو ڈھادے۔ مگر اللہ کی خصوصی مدد کی بنا پر اُسے کامیابی نہیںملی۔ قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۵ میں اس تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
۶۱۰ء میں جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو نزولِ قرآن کے اس ابتدائی زمانہ میں قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۶ اُتری۔ اس سورہ کا ترجمہ یہ ہے: اس واسطے کہ قریش مانوس ہوئے، جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس۔ تو اُن کو چاہئے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے اُن کو بھوک میںکھانا دیا اور خوف سے اُن کو امن دیا۔ (قریش ۱۔۴)اس سورہ میں قریش کو صرف قریش کہاگیا، نہ کہ کفار یا کفارِ قریش۔
پیغمبر اسلام توحید کے داعی تھے۔ آپ نے مکّہ میںاپنی دعوت شروع کی تو مسلسل تیرہ سال تک اسی انداز میں لوگوں کو پکارتے رہے کہ اے قریش کے لوگو، اے انسانو، ائے میری قوم ۔ پُر امن دعوتی مہم کی اس پوری مدت میں آپ نے کبھی کافر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتیاں کی گئیں۔ لیکن اُن کے لیے آپ کی خیر خواہی کا جذبہ ختم نہیں ہوا۔ اُن کی ایذاؤں پر یک طرفہ صبر کرتے ہوئے آپ نے اپنی پُر امن دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔ آخر کار تیرہ سال بعد قرآن میں سورہ نمبر ۱۰۹ اتری۔ اس میں پہلی بار خدا کی طرف سے ان الفاظ میں اعلان کیا گیا کہ: قل یٰایّہا الکفرون(کہہ دو کہ ائے انکار کرنے والو)
اس سے معلوم ہوا کہ کافر (منکر) کا لفظ ایک صفت کو بتاتا ہے، نہ کہ کسی قوم کو۔ اگر کافر سے مراد کوئی قوم ہوتی تو قرآن میں آیت کے الفاظ لایلٰف قریش کے بجائے لِایلٰف الکفار ہونا چاہئے تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ کافر کا لفظ صفتِ انکار کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ قومی تعلق کوبتانے کے لیے۔ مزید یہ کہ اس بات کا تحقق کہ کسی کے اندر صفت انکار ہے یا نہیں، قیاس کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ حقیقی تجربہ کی بنیادپر ہوگا۔ اور وہ تجربہ یہ ہے کہ پیغمبر کی سطح پر کم ازکم تیرہ سال تک اعلیٰ ترین معیار کی دعوتی جدو جہد چلائی جائے۔اس کے بغیر خود پیغمبر کے زمانہ میں بھی کسی کو کافر کہنا درست نہیں۔
مناظرہ
بر صغیر ہند میں برٹش حکومت کے زمانہ میںاہل اسلام کے درمیان ایک مبتدعانہ رواج ظہورمیں آیا جس کو مناظرہ کہا جاتاہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دعوت کے بجائے مناظرہ بازی شروع ہوئی جس نے دونوں فرقوں کے درمیان غیر معتدل فضا پیدا کرنے کا کام کیا۔ مسلمان مناظر نے ہندو کے خلاف کتاب لکھی اور اُس کو ’کفر توڑ‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد ہندو مناظر نے مسلمانوں کے خلاف کتاب لکھی جو ’کفر توڑکا بھانڈہ پھوڑ‘ کے نام سے شائع کی گئی۔
اسلام کاطریقہ دعوت ہے جو نصح (خیر خواہی) اور شفقت اور یک طرفہ صبر کے اُصول پر جاری ہوتا ہے۔ جب کہ مناظرہ (debate) کا مقصد فریقِ ثانی کو شکست دینا ہوتا ہے۔ مناظر کا نشانہ فریق ثانی کو ہرانا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اس قسم کی زبان بولتا ہے کہ اُن کے اوپر بلڈوزر چلا دو:
Bulldoze them all.
اس سے دونوں گروہوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے جو طرح طرح کے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔
دار الدعوہ
دار الکفر یا بلاد الکفارکے الفاظ عباسی دور میں استعمال کیے گیے۔اس سے پہلے یہ اصطلاحیں اہل اسلام کے درمیان رائج نہ تھیں۔ میرے نزدیک یہ اضافہ درست نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ جو ملک اسلامی ملک ہواُس کو دارالاسلام کہا جائے اور بقیہ تمام ملکوں کو دار الدعوہ کہا جائے۔ دار الاسلام کے سوا ہر ملک دار الدعوہ ہے، خواہ وہ مسلمانوں کے حق میں بظاہر دشمن ہی کیوں نہ ہو۔
قرآن میں پیغمبر اسلام کی نسبت سے ارشاد ہوا ہے: وہذا کتاب انزلنہ مبرک مصدق الذی بین یدیہ ولتنذر ام القری ومن حولہا (الانعام ۹۳)- یعنی یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے اُتاری ہے، برکت والی ہے، تصدیق کرنے والی اُن کی جو اس سے پہلے ہیں۔ اور تاکہ توڈرائے اُم القری کو اور اُس کے آس پاس والوں کو۔
قرآن کی اس آیت میں ام القری سے مراد مکہ ہے۔ جب یہ آیت اُتری، اُس وقت مکّہ غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا۔ حتیٰ کہ کعبہ کو بتوںکا مرکزبنا دیاگیا تھا۔ مگر اس آیت میں قدیم مکّہ کو دار الکفر یا مدینۃ الکفرنہیںکہا گیا بلکہ أم القریٰ کہا گیا اور وہاں انذار، بالفاظ دیگر، دعوت کاحکم دیاگیا۔ اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ وہ تمام مقامات جہاں غیر مسلموں کا غلبہ ہو وہ اسلامی اصطلاح میں دار الدعوہیا دارالانذار قرار پائیں گے۔ ایسے کسی بھی مقام کے لیے دار الکفر یا بلاد الکفار جیسے الفاظ کا استعمال درست نہ ہوگا۔
کسی ملک کا حوالہ جب جغرافی اعتبار سے دینا ہو تو اُس کا ذکر اُس نام سے کیا جائے گا جس نام سے وہ عمومی طورپر معروف ہے۔ مثلاً سری لنکا کو سری لنکا اور جنوبی کوریا کو جنوبی کوریا۔ اور جب اہلِ اسلام کی ذمہ داری کے اعتبار سے کسی ملک کا حوالہ دینا ہو تو اُس کو دار الدعوہ کہا جائے گا۔ دار الدعوہ کا لفظ جغرافی تقسیم کو نہیں بتاتا بلکہ وہ اہلِ اسلام کی دعوتی ذمہ داری کو بتاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں