ڈائری 1986
18جنوری1986
میری ڈائری میں2جولائی،1983 کی تاریخ میں ایک لمحاتی تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے آج میں صبح کے وقت دہلی میں اپنے کمرہ کے باہر سورج کی روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ اچانک میرے اوپر وہ تجربہ گزرا، جوگویا ایک حدیث قدسی کی تصدیق تھی۔
یہ قدسی حدیث الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ حدیث کی کئی کتابوںمیں بیان کی گئی ہے۔مثلاً صحیح البخاری، مسند احمد وغیرہ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایامَا یَزَالُ عَبْدِی یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّہُ، فَأَکُونَ أَنَا سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہِ، وَبَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُ بِہِ، وَلِسَانَہُ الَّذِی یَنْطِقُ بِہِ، وَقَلْبَہُ الَّذِی یَعْقِلُ بِہِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7833)۔ یعنی، میرا بندہ برابر نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرتا ہو، پس میں اس کا سمع (کان) بن جاتاہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتاہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کی زبان بن جاتاہوں جس سے وہ بولتا ہے، اور اس کا دل بن جاتاہوں، جس سے وہ سمجھتا ہے۔
اس حدیث میں انہی ایمانی کیفیات کو الفاظ کی شکل میں بتایا گیاہے جو ایک مومن بندے پر گزرتے ہیں۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ جیسے ایک لمحہ کے لیے میرا دیکھنا میرے لیے، بلاتشبیہ، خدا کا دیکھنا بن گیا ہے۔مگریہ تجربہ میرے لیے خدا کی ذات پر یقین میں اضافہ کا ذریعہ بن گیا۔میں نے کہا کہ خدایا، میں اپنے عاجز مطلق ہونے اور تیرے قادر مطلق ہونے کا اقرار کرتا ہوں اورتیری ساری صفات پر کامل یقین رکھتا ہوں ۔یہ رمضان1403ھ کی 21 تاریخ تھی۔اس دن شام کو میں نے افطار کرتے ہوئے پانی پیا۔ٹھنڈا شفاف پانی جب میرے حلق سے گزرا تو مجھ پر ایک عجیب لمحاتی احساس طاری ہوا۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ پانی کا گھونٹ میرے لیے ہدایت میں تبدیل ہو گیا۔پانی کا حلق سے اترنا میرے لیے ہدایت اترنے کے ہم معنیٰ بن گیا۔پانی اورہدایت میرے اندر تھوڑی دیر کے لیے ایک ہوگئے۔
ایک صاحب سے ان تجربات کا ذکر ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہی ڈاکٹرسی وی رمن (وفات 1970ء) والا معاملہ ہے۔نوبل انعام یافتہ سائنس داں ڈاکٹر رمن سے کسی نے کہا کہ سائنس دانوں کی دریافتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اکثر اتفاقاً ہوئی ہیں۔سائنس داں تجربات کرتا رہتا ہے کہ اتفاق سے کوئی چیز سامنے آ جاتی ہے اور وہ ایک نئی دریافت بن جاتی ہے۔ڈاکٹر رمن نے جواب دیا— ہاں،مگر ایسا اتفاق صرف سائنس دانوں ہی کو پیش آتا ہے
But it only happens to scientists
یہ تجربات اگرچہ لمحاتی ہوتے ہیں۔مگر یہ لمحات اسی شخص پر گزرتے ہیں جو برسوں سے اپنی زندگی اسی رخ پر لگائے ہوئے ہو۔
20جنوری1986
ایک اخبار میں آزادی سے پہلےکی ایک رپورٹ پڑھی کہ 1945 میں جنرل شاہ نواز خان (1914-1983)، کرنل پریم سہگل (1917-1992)،اور کرنل گربخش سنگھ ڈھلوں (1914-2006) گرفتار ہوئے تھے۔ان پر برطانوی راج کے خلاف بغاوت کا الزام تھا۔اس کے بعد مقدمہ چلا جس میں وہ رہا ہو گئے۔لال قلعہ سے رہائی کے بعد صبح سویرے وہ لاہور اسٹیشن پہنچے۔یہ 1946 کا واقعہ ہے۔اس روز لاہور اسٹیشن پر اتنی زبردست بھیڑ تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔لاہور اسٹیشن کی طرف جانے والی تمام سڑکیں ان لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں جو سہگل ، ڈھلوں اور شاہ نواز کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہو رہے تھے۔جب گاڑی پلیٹ فارم پر رکی تو عوام نے نعرہ لگایا
لال قلعہ سے آئی آواز سہگل ڈھلوں شاہ نواز
تینوں ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ ریل کےڈبے سے باہر آئے۔دوسرے ہی لمحے آزاد ہند فوج کے ان جیالوں کو پھولوں کے ہاروں سے اس طرح لاد دیا گیا کہ وہ پھولوں کے تین ڈھیر دکھائی دینے لگے۔سہگل، ڈھلوں،شاہ نواز، ہندوستان میں ہندو،سکھ،مسلم اتحاد حاصل کرنے کے مضبوط ارادے کے علامت تھے۔’’ہندو مسلم سکھ اتحاد‘‘ آزادی سے پہلے کے ہندوستان میںجتنا با معنٰی لگتا تھا آج وہ اتنا ہی بے معنی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی سے پہلے سب کا نشانہ خارجی اقتدار تھا۔آزادی کے بعد سب کا نشانہ داخلی مخالفت بن گیا۔جو لوگ خارجی نشانہ پر متحد تھے وہ داخلی نشانہ پر آتے ہی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔صرف جدا نہیں ہوئے بلکہ آپس میں لڑنے لگے— اس دنیا میں وہی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے جو انقلاب سے پہلے بھی تعمیری نشانہ دیتی ہو اور وہ انقلاب کے بعد بھی لوگوں کو تعمیری نشانہ دے۔ایسی تحریک صرف وہی ہو سکتی ہے جو آخرت کی بنیاد پر اٹھائی جائے۔
21 جنوری1986
20جنوری 1986 کی صبح کو میں انڈین ایئر لائنز کی فلائٹ نمبر 439 کے ذریعے دہلی سے حیدرآباد گیا اور 21 جنوری کی شام کوفلائٹ نمبر 539 سے واپسی ہوئی۔دہلی سے حیدرآباد جاتے ہوئے جہاز کے اندر حسب معمول اعلانات شروع ہوئے۔اناؤنسر نے دوسری باتوں کے ساتھ کہا— کیپٹن مصطفیٰ جہاز کے پائلٹ ہیں
Captain Mustafa is in command
انڈین ایئر لائنز میں،میںنے بہت سفر کیے ہیں۔ مگر ’’کیپٹن مصطفیٰ‘‘ جیسا لفظ پہلی بار سننے میں آیا۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اب اس ملک کی اعلیٰ سروسوں میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں۔وہ تاریک ماضی سے نکل کر روشن مستقبل کی طر ف بڑھ رہے ہیں۔
جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے بارے میں صرف ’’نکالے جانے‘‘ کی خبریں ہیں، انہیں ’’داخل کیے جانے‘‘ کی خبروںکا بھی اظہار کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو تصویر کا دوسرا رخ معلوم ہو سکے۔ ہندوستان کے مسلم لیڈر ملک کے اندر اور ملک کے باہر صرف ایک ہی بات کرنا جانتے ہیں اور وہ تعصب اور امتیاز ہے۔وہ تصویر کے دوسرے رخ کا مطلق ذکر نہیں کرتے۔قرآن کے الفاظ میں یہ لوگ مطففین ہیں اور خدا کے قانون میں مطففین کے لیے ہلاکت ہے، نہ کہ نجات۔
اس سفر میں حیدرآباد میں ایک تجربہ گزرا جس کے بعد میری زبان پر یہ الفاظ تھے اس دنیا میں آدمی کو مستقبل کی خاطر ماضی کو بھولنا پڑتا ہے۔یہاں آدمی کو سبھی کچھ چھوڑنا پڑتا ہے تاکہ وہ دوبارہ پاسکے۔یہاں رکنا پڑتا ہے تاکہ از سر نو آگے بڑھنے کا راستہ کھلے۔یہاں دینا پڑتا ہے تاکہ دوبارہ اضافہ کے ساتھ مل سکے۔یہاں چپ رہنا پڑتا ہے تاکہ آدمی کوبولنے کے لیے الفاظ مل سکیں۔یہ دنیا کھو کر پانے کی جگہ ہے۔یہاں دے کر لیا جاتا ہے۔
اس سفر میں میرا ایک اورتاثر یہ ہے یہ ممکن ہے کہ آپ کسی چیز پر بلا استحقاق قبضہ کر لیں مگر یہ ناممکن ہے کہ آپ کسی چیز پر اپنے بلا استحقاق قبضہ کو باقی رکھ سکیں۔
22 جنوری1986
ایک مقام کے مسلمان نے بتایا کہ ان کے یہاں عیدگاہ کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی اور اس موقع پربستی میں شیرینی تقسیم ہونے والی تھی۔مذکورہ مسلمان نور محمد نے اپنے ایک ہندو پڑوسی سے کہا کہ تم بھی چلو اور اپنے حصے کی شیرینی حاصل کرو۔ہندو نے عذر کیا۔بار بار پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم لوگ مسجد اور عید گاہ کی نیو میں گائے کی سینگ ڈالتے ہو اور اس کا بال اس کے اندر دفن کرتے ہو۔ایسی حالت میں ایک ہندو کیسے وہاں جا سکتا ہے۔اس نے مزید کہا کہ عید گاہ کا مطلب ہم کو بتایا گیا ہے’’عید گائے‘‘۔یعنی جس کی بنیاد میں گائے دفن کی جائے وہ عید گاہ ہے۔ایک اور مسلمان نے بتایا کہ مسجد میں اذان ہو رہی تھی۔موذن نے کہا کہ’’اللہ اکبر،اللہ اکبر‘‘۔یہ سن کر ایک ہندو بولامیاں جی،اکبر بادشاہ تو کب کا مر گیا،ابھی تک تم لوگ اسی کو پکارے جا رہے ہو۔
یہ باتیں بظاہر بہت لغو معلوم ہوتی ہیں۔مگر اس کی ذمہ داری کم از کم 50 فیصد خود مسلمانوں پر بھی ہے۔مسلمانوں نے اسلام کا حقیقی تعارف اس ملک کی بڑی آبادی کے سامنے پیش نہیں کیا، مگراپنی جھوٹی سیاست سے ہزاروںانسان کےدلوں میں نفرت پیدا کی۔اسی کی وجہ سے ان کے درمیان ایسے قصے مشہور ہوئے۔جب دو قوموں میں نفرت ہو تو اسی طرح جھوٹی باتیں ایک دوسرے کے خلاف پنپنے لگتی ہیں۔
1947سے پہلے کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے۔ایک کانگریسی مسلمان نے ایک مضمون شائع کیا۔یہ مضمون اصلاً ادب کے موضوع پر تھا۔مگر اس میں ضمناً انگریزی تہذیب کا بھی مذاق اڑایا گیا تھا۔مضمون نگار نے لکھا تھا کہ انگریزی زبان ایسی بری زبان ہے کہ اس میں جاکر سیدھے الفاظ بھی بگڑ جاتے ہیں۔مثلاً الہ آباد انگریزوں کی زبان میں آل بیڈ(Allahbad)بن جاتا ہے اور لالہ ان کی زبان میں پاپی(Poppy) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
دوسروں کےبوائق (شر)سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی سب سے آسان تدبیر یہ ہے کہ اپنے بوائق سے دوسروں کو محفوظ رکھا جائے۔اس معاملہ میں شکایت اور احتجاج سے کوئی فائدہ نہیں۔
23 جنوری1986
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی بربادی کی واحد سب سے بڑی وجہ ان کا جھوٹا فخر ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلمان دوسروں سے پیچھے ہو گئے۔وہ دور جدید میں ترقی کی بنیاد کھو بیٹھے۔مگر شاعروں اور خطیبوں نے انہیں جھوٹے فخر کی غذا دے کر مدہوشی میں مبتلا کردیا۔ظفر علی خان نے مولانا حالی کے خلاف بہت سی نظمیں لکھی تھیں۔ایک بار انہوںنے لکھا
ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے میدان پانی پت کی طرح پائمال ہے
حالی چونکہ پانی پت کے رہنے والے تھے اسی لیے ردیف و قافیہ ملا کر ان کے خلاف ایک شعر تیار ہو گیا۔انہی ظفر علی خاں کا ایک شعر ہے
چلے ہم لکھنؤ سے بارہ بنکی مسلماں سیر ہیں ہندو چھٹنکی
حقیقت کے اعتبار سے معاملہ اس شعر کے بالکل برعکس ہے۔مگر بارہ بنکی اور چھٹنکی (چھٹانک بھر ، معمولی، حقیر) کا قافیہ شاعر کے لیے کافی ہو گیا کہ وہ حقیقت واقعہ کے خلاف ایک بات ثابت کر کے لوگوںسے خراج تحسین حاصل کر سکے۔
24 جنوری 1986
برادرم جناب محسن عثمانی صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوںنے ایک صاحب کا تاثر بیان کیا۔یہ تاثر انہیں کے الفاظ میں یہ تھا— ’’دوسرے علما کی تحریروں سے اسلاف پر اعتماد پیدا ہوتا ہے اوروحیدالدین خاں کی تحریروں سے اسلاف پر بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے‘‘۔
میں نے کہا کہ یوں نہ کہیے۔ بلکہ اس طرح کہیے— ’’دوسرے علما کی تحریریں اسلاف تک پہنچا کر چھوڑدیتی ہیں اور وحیدالدین کی تحریریں آدمی کو آگے خدا تک لے جاتی ہیں‘‘۔
دور زوال میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ قومیں خدا سے کٹ کر اپنے افراد پر اٹک جاتی ہیں۔وہ اپنے بزرگوں میں جینے لگتی ہیں۔بزرگوں کا تذکرہ، بزرگوں کی عظمت سے فخر کا جذبہ لینا،بزرگوں کی کہی ہوئی باتوں سے وابستہ ہو جانا،یہی بعد کے لوگوں کا دین ہوتا ہے۔ایسی حالت میں جب ان کے سامنے براہ راست خدا کی بڑائی بیان کی جاتی ہے اور ان کو براہ راست قرآن و سنت کی طرف بلایا جاتا ہے تو ایسے لوگ اس قسم کی باتوں سےاجنبیت محسوس کرتے ہیں۔ایسا دین ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ میں اپنی تحریروں میں اپنی ذات کی طرف نہیں بلاتا بلکہ خدا کی طرف بلاتا ہوں۔پھر لوگوں کو کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی ہے۔کیا خدا کی طرف بلانا بھی ایسی چیز ہے جس میں کوئی غلطی ہو؟
25 جنوری1986
آج پرنسپل نفیس احمد صدیقی(نظام الدین ایسٹ) تشریف لائے۔ان کے پاس السٹریٹڈ ویکلی (دسمبر1985) کی کاپیاں تھیں جن میں مسٹر ارون شوری (پیدائش 1941)نے مسلم پرسنل لا پر تین قسطوں میں مضمون شائع کیا ہےاور شاہ بانو کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کودرست ثابت کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ شاہ بانو کو طلاق کے بعد ان کا شوہر پانچ سو روپے ماہانہ مستقل گزارہ دے۔
میں نے کہا کہ اس معاملے میں رائے قائم کرنے کے دو طریقے ہیں۔ایک نقلی ، دوسرا عقلی۔ نقلی اعتبار سے طلاق کے بعد گزارہ دینے کا اصول قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔قرآن اور حدیث میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔تمام فقہا اس پر متفق ہیں کہ طلاق سے پہلے عورت کے لیے نفقہ ہے اور طلاق کے بعد عورت کے لیے متاع۔
شریعت میں نفقہ کا لفظ مینٹیننس(Maintenance)کے لیے ہے اور متاع کا لفظ پراوزن (Provision)کے لیے۔مگر ایک مولوی آدمی مینٹیننس کو وقتی رقم اور پراوزن کو مستقل گزارہ کے معنی میں بولے تو انگریزی داں طبقہ اس کا مذاق اڑائے گا۔مگر عربی الفاظ(نفقہ اور متاع) کے سلسلے میں انگریزی داں حضرات یہی غلطی کر رہے ہیں۔وہ قرآن سے متاع کا لفظ لیتے ہیں اور اس کو اس مفہوم میںاستعمال کرتے ہیں جس کے لیے شریعت میں نفقہ کا لفظ آیا ہے۔
دوسری بات میں نے یہ کہی کہ عقلی معیار پر ان حضرات کا نقطۂ نظر درست ثابت نہیں ہوتا۔جدید مغربی دنیا نے اس اصول کو اختیار کیا کہ مرد پر لازم ہے کہ وہ طلاق کے بعد بھی اپنی سابقہ بیوی کو گزارہ دے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی سوسائٹی میںپچاس فیصد سے زیادہ لوگ بے نکاح عورتوں کے ساتھ رہنے لگے تاکہ علیحدگی کی صورت میں وہ عورت کو گزارہ دینے کے قانون سے بچ جائیں۔ یہ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ طلاق کے بعد گزارہ کو لازم قرار دینا مسئلہ کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ مسئلہ کو اور بڑھا دیتا ہے۔
26 جنوری 1986
عبداللہ مصطفی صاحب ایک امریکی نو مسلم ہیں۔ان کا سابق نام اسٹیواسکلر تھا اور ان کا سال پیدائش1947ہے۔انہوں نے 1969میں اسلام قبول کیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد وہ گیارہ سال تک مختلف مسلم ملکوں کا سفر کرتے رہے۔اسی درمیان میں انہوں نے عربی اتنی سیکھ لی کہ وہ عربی زبان میں بخوبی گفتگو کر سکتے ہیں۔وہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں سے بے حد شاکی ہیں۔میں نے پوچھا کہ مسلم ملکوں کا سفر کرنے کے بعد آپ کا آخری تاثر کیا تھا۔انہوں نے جواب دیاکہ (مسلمانوں کو دیکھ کر) میں بہت زیادہ دل شکستہ ہوگیا تھا، یہاں تک کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ میں اسلام سے نکل جاؤں گا
کنت محزوناً جداً حتی ظننت ان اخرج من الاسلام
ان کا خیال ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا اصل مرض پیرانوئیا (paranoia)ہے۔یعنی جھوٹی بڑائی کا جنون۔مسلمان فرضی طور پر اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اور جب دنیا ان کی فرضی بڑائی کو تسلیم نہیںکرتی تو وہ ساری دنیا کے خلاف جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔وہ ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔
وہ اردو نہیں جانتے، اس لیے ہمارے لٹریچر سے براہ راست واقفیت حاصل نہیں کر سکتے۔ تاہم کئی ملاقاتوں میں، میں نے اپنے لٹریچر کا خلاصہ ان کے سامنے رکھا۔وہ بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے جو افکار ہیں انہی افکار پر مبنی لٹریچر آج مغربی قوموں میں اسلام کے تعارف کے لیے درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید قطب شہید وغیرہ کی کتابوں کے ترجمے انگریزی زبان میں کیے گئے ہیں،مگر وہ مغرب میں اس کی تبلیغ کے لیے کارآمد نہیں۔کیونکہ ان میں اسلام کو قومی فخر کے انداز میں پیش کیا گیا ہے، نہ کہ اس اصولی اور فطری انداز میں جیسے کہ آپ پیش کرتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں