ڈائری 1986
1 جنوری1986
آج جناب دانیال لطیفی صاحب ایڈوکیٹ (پیدائش 1917) ہمارے دفتر(نظام الدین ویسٹ ،نئی دہلی )میں آئے۔ان سے بہت ہی دلچسپ قانونی باتیں معلوم ہوئیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ کوئی اچھے سے اچھا وکیل بھی ایک سچے گواہ کو توڑ نہیں سکتا۔بشرطیکہ وہ صرف وہی کہے جو اس نے دیکھا ہے۔ وہ اس پر نہ ایک لفظ بڑھائے اور نہ ایک لفظ گھٹائے۔اس سلسلے میں کچھ واقعات بھی انہوں نے بتائے۔
پھر انہوں نے ایک لطیفہ بتایا کہ برطانیہ کورٹ نے ایک مجرم کے لیے سولی کا فیصلہ کیا۔ اس کے بارے میں کورٹ کے الفاظ یہ تھے
He shall be hanged
مجسٹریٹ نے فیصلہ دیکھا تو اس نے کہا کہ میں اس کو سولی نہیں دے سکتا۔کیونکہ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ’’ اس کو لٹکا دیا جائے‘‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ کیسے۔اب میں اس کو سر کی طرف سے لٹکاؤں یا پاؤں کی طرف سے۔اس طرح کے واقعات مختلف ملکوں کی عدالتوں میں پیش آئے۔چنانچہ قانون کے الفاظ زیادہ مکمل کیے گئے۔دانیال لطیفی صاحب سے میں نے کہا کہ ان الفاظ کو لکھ دیجیے۔
دانیال لطیفی صاحب کو ایک کیسٹ ’’جدید امکانات‘‘ دیا گیا تھا۔ آج شام کو ان کا ٹیلی فون آیا کہ انہوںنے اس کیسٹ کو دوبار سنا۔ان کو یہ کیسٹ بہت پسند آیا۔اس بار ان کو ’’حل یہاں ہے‘‘ پڑھنے کے لیے دی گئی ہے۔
2جنوری1986
ابو الطیب احمد بن الحسین المتنبی (وفات 965 ء)عربی زبان کا ایک نامور شاعرہے۔ اس کے اشعار حکمت اور فلسفۂ حیات کے لیے مشہور ہیں۔آج دہلی میں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ان سے میں نے یہ کہا کہ زندہ قوم کے افراد میںا عتراف کی صفت ہوتی ہے، اور زوال یافتہ قوم کے افراد میں اعتراف کی صفت کا فقدان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں میں نے کچھ مثالیں دیں۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔اس کے بعد انہوں نے متنبی کا ایک شعر پڑھا جو یہ تھا— اگر تم شریف کو عزت دو تو تم اس کو اپنا غلام بنا لوگے۔ اور اگر تم کمینہ آدمی کو عزت دو تو وہ سرکشی کرے گا
إِذَا أَنْتَ أَکْرَمْتَ الکَرِیْمَ مَلَکْتَہُ وَإِنْ أَنْتَ أَکرَمْتَ اللَّئِیْمَ تَمَرَّدَا
3جنوری1986
مسٹر بھیکا رام (پیدائش1942ء) یو پی اسمبلی میں ایم ایل اے ہیں۔ وہ آج صبح کو ہمارے دفتر میں آئے۔ ان کے ہمراہ ان کے ساتھی نذرالاسلام صاحب بھی تھے۔ان سے بڑی مفید باتیں ہوئیں۔
مسٹربھیکا رام نے کہا کہ میرے نزدیک مذہب کی اصل تعلیم یہ ہے کہ سب انسان برابر ہوں۔ہر قسم کی اونچ نیچ ختم ہو اور ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان نفرت نہ رہے۔انھوںنے کہا کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے اور اگر اس ملک میں سچا اسلام پیش کیا گیا ہوتاتو آج ہمارا ملک مسلمان ہوتا۔یہاں وہ سب جھگڑے موجود ہی نہ ہوتے جو اب دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ہندی زبان میں اسلام کا مزید مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔میں نے ان کو ’’انسان اپنے آپ کو پہچان‘‘ کا ہندی ترجمہ بطور تحفہ دیا۔
میں نے مسٹر بھیکا رام سے مزید پوچھا کہ اپنا کوئی خاص تجربہ (انوبھو) بتایئے۔انہوںنے کہا کہ لالچ اور ذاتی فائدہ کو چھوڑ کر سبھی لوگوں کے بارے میں سوچنا،سب کے فائدے کو سامنے رکھ کر سوچنا یہی کامیابی کا راز ہے۔آپ لالچ کو تیاگ دیں، تبھی آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
4جنوری 1986
ایک مسلمان لیڈر دہلی آئے اور مجھ سے ملے(نام بتانا مناسب نہیں) ۔ ان کے پاس انگریزی زبان میں تیار شدہ ایک میمورنڈم تھا۔اس کی ایک نقل انہوں نے مجھے دی۔یہ میمورنڈم وہ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔اس میمورنڈم میں مسلمانو ں کی معاشی پسماندگی کا تذکرہ تھا۔اس کے بعد حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مسلمان چونکہ معاشی دوڑ میں ملک کے اکثریتی فرقہ سے پیچھے ہو گئے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو اس وقت تک خصوصی رعایت دی جائے جب تک کہ وہ معاش کے میدان میں اکثریتی فرقہ کے برابر نہ ہو جائیں۔
مذکورہ لیڈر صاحب کو میں پہلے سے جانتا تھا۔مجھ کو معلوم ہے کہ ان کا اپنا بزنس ہے اور ان کےپاس کرائے کے مکانات ہیں۔ان سب سے انھیں (1986ء میں )کم از کم دس ہزار روپے ماہوار آمدنی ہوتی ہے۔جب کہ انھیں لیڈر صاحب کے ایک سگے بھائی ہیں جو مہینہ میں بمشکل پانچ سو روپے کماتے ہوں گے۔میں نے لیڈر صاحب سے کہا کہ آپ کے فلاں سگے بھائی معاش کے اعتبار سے آپ سے پیچھے ہو گئے ہیں۔اس لیے آپ ایسا کریں کہ اپنی آمدنی کا نصف حصہ ہر ماہ اپنے بھائی کو دیتے رہیں،یہاں تک کہ وہ معاشی اعتبار سے آپ کے برابر ہو جائیں۔
یہ سن کر مذکورہ لیڈر ہنسنے لگے۔ ان کی ہنسی کو دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا۔میں نے کہا آپ پر تعجب ہے کہ جو رعایت آپ اپنے سگے بھائی کے ساتھ نہیں کر سکتے ہیں، جو کہ مسلمان بھی ہے، اسی رعایت کا مطالبہ آپ مسلمانوں کے لیے ایک نان مسلم وزیر اعظم سے کرنے جا رہے ہیں۔
ہماری مسلم قیادت آج سب سےزیادہ جس چیز سے بے خبر ہے وہ یہ کہ موجودہ دنیا رعایتوں کی دنیا نہیں،بلکہ مقابلے کی دنیا ہے۔رعایتوں کو تلاش کرنے والا اس دنیا میں اپنے لیے کچھ نہیں پاسکتا۔ ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کو مذکورہ قسم کے جھوٹے نعروں میں نہ الجھائیں ،بلکہ انھیں صاف طور پر بتائیں کہ تم مقابلہ کی دنیا میں ہو۔یہاں تم اہلیت کا ثبوت دے کر پا سکتے ہو۔ اگر تم اہلیت کا ثبوت نہ دے سکو تو یہاں تم کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔
5جنوری1986
شاہ واصف امام صاحب (پٹنہ) اپنے کسی کام سے دہلی آئے تھے۔وہ آج مجھ سے ملنے کے لیے ہمارے مرکز (نظام الدین ویسٹ،نئی دہلی) میں آئے۔وہ دو سال سے الرسالہ پڑھ رہے ہیں اور اردو اور انگریزی دونوں رسالوں کی ایجنسی بھی چلا رہے ہیں۔ان کو میں نے دو کتابیں ہدیۃً دیں— ’’حقیقت کی تلاش ‘‘اور ’’حل یہاں ہے‘‘۔
ان سے میں نے پوچھا کہ ’’الرسالہ‘‘ سے آپ کو کیا ملا۔انہوں نے اس کے جواب میں جو کچھ کہا وہ انھیں کے الفاظ میں یہ تھا’’الرسالہ کے مطالعہ سے پہلے میں کسی شہر کو دیکھ کر اس کے بنانے والے انسانوں کی عظمت میں گم ہو جاتا تھا۔لیکن الرسالہ کے مطالعہ کے بعد یہ حال ہے کہ میں شہر بنانے والے انسانوں کے خالق کی عظمت میں گم رہتا ہوں۔میں سوچنے لگتا ہوں کہ وہ خدا بھی کیسا عظیم ہے جس نے انسان کو یہ صلاحیت دی‘‘۔انہوںنے مزید کہا کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ میں شاہ واصف امام ہوں۔اب میں سمجھتا ہوں کہ میں رب کا بندہ ہوں۔
یہ اللہ کا فضل خاص ہے کہ آج ہزاروں لوگ ہیں جن کے اندر الرسالہ پڑھنے کے بعد اس قسم کا ذہن بنا ہے۔اللہ تعالیٰ الرسالہ کی آواز کو مزید پھیلائے اور اس کو دنیا کی ہر زبان میں پہنچانے کا انتظام فرمائے۔
تقریباً روزانہ ایسے خطوط آتے ہیں یا ایسے افراد سے ملاقات ہوتی ہے جو اس قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔مسلمانوں کے قائدین نے اگرچہ ابھی الرسالہ کی آواز کو اہمیت نہیں دی ہے۔مگر غیرقائدین میں الرسالہ کی آواز بہت بڑے پیمانے پر پھیلی ہے اور روزانہ پھیل رہی ہے۔تاہم اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔حق کی بے آمیز دعوت کے ساتھ ہمیشہ یہی صورت حال پیش آئی ہے۔
6جنوری1986
ایک مسلمان بزرگ ملاقات کے لیے تشریف لائے۔انہوں نے بیٹھتے ہی کہا’’مطلقہ عورت کے نفقہ کے سلسلے میں ہندوستان کی عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے وہ شریعت میں جارحانہ مداخلت ہے۔ آپ اس کے خلاف کیوں نہیں لکھتے‘‘۔موصوف کی مراد شاہ بانو بیگم-محمد احمد اندوری کے مقدمہ سے تھی۔
میںنے کہا کہ آپ سب سے پہلے اپنے جملے کو صحیح کیجیے۔یہ جملہ میرے نزدیک صحیح نہیں۔اصل بات جو ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان خاتون(شاہ بانو بیگم) ہندوستانی عدالت میں گئیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے فلاںملکی قانون کے تحت میرے شوہر سے گزارہ (maintenance) دلوایا جائے۔عدالت نے معاملے کی تفصیلی سماعت کے بعد مسلم خاتون کے دعویٰ کو تسلیم کیا اور خاتون کے اپنے مطالبے کے مطابق فیصلہ دیا کہ مدعا علیہ ان کو 180 روپے ماہوار ادا کرے۔
اس کو آپ عدالت کی جارحیت نہیں کہہ سکتے، کیونکہ جارحیت کرنے والا وہ ہوتا ہے جو اقدام کرے۔اس معاملے میں عدالت نے اپنی طرف سے کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ وہ کوئی اقدام کر سکتی تھی۔اس معاملے میں اگر جارحیت ہوئی ہے تو وہ سراسر مسلم خاتون کی طرف سے ہوئی ہے۔یہ مسلم خاتون(شاہ بانو بیگم) تھیں جنہوں نے بطور خود عدالت میں جاکر مقدمہ پیش کیا اور عدالت سے کہا کہ وہ ان کو ملکی قانون کے تحت مذکورہ رقم دلوائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں عدالت کو جارح قرار دینا اپنی غلطی کو دوسرے کے اوپر ڈالنا ہے۔اگر آپ کو اسلام کا درد ہے تو آپ مسلم مردوں اور مسلم عورتوں کی اصلاح کیجیے۔ان کے اندر یہ ذہن بنایئے کہ وہ اپنے ذاتی جھگڑوں کو عدالت میں نہ لے جائیں، بلکہ کسی کو ثالث (mediator) بناکر آپس میں بیٹھ کر سلجھائیں۔مدینہ کے منافقین اپنے جھگڑے یہودیوں کی عدالت میں لے جاتے تھے تو قرآن نے خود منافقین کو ملزم ٹھہرایا، نہ کہ یہودی عدالت کو( 4:60 )۔
7جنوری1986
پاکستان کے ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔وہ مکتبہ اسحاقیہ(کراچی) کے مالک ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میں نے انڈین ایئر لائنز میں سفر کیا۔میں نے دیکھا کہ پاکستانی لوگ فیاضی کے ساتھ جہاز کے اندر شراب خرید رہے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان میں شراب پر پابندی ہے۔
یہی حال ان تمام مسلم ملکوں کا ہے جہاں اسلامائزیشن کی نام نہاد تحریک چل رہی ہے۔کاغذ پر اور تقریروں میں اسلام کی دھوم ہے، مگر عملاً پورا معاشرہ اسلام کے خلاف چل رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک معاشرے کے افراد میں آمادگی پیدا نہ ہو جائے اسلامی قانون کا نفاذ ایک بے نتیجہ کام ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے مطابق، اسلامی کام کا آغاز قلب ودماغ پر اسلام کے نفاذ سے ہوتا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993)، نہ کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے ذریعہ نفاذِاسلام کا قانون بنا کر اسے بزور نافذ کرنے کی کوشش کرنا۔
8جنوری1986
ایک صاحب ملنے کے لیے آئے۔انہوںنے بتایا کہ ہمارے یہاں ایک عالم آئے تھے۔ انہوں نے سورہ العصر کی تفسیر بیان کی۔اس میں انہوںنے کہا کہ اللہ نے اس سورہ میں یہ فرمایا ہے
’’اے نبی! لوگوں کو بتا دو کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ میں نے محمد کو دے دیا۔اب جس کو لینا ہے وہ تمہارے پاس آ کر لے۔ میرے پاس اب کچھ نہیں‘‘۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے خدا کی کتاب میںکیا کیا تحریفات کی ہیں۔وہ قرآن کے’’متن‘‘ میں تو کوئی اضافہ نہ کر سکے،مگر انہوںنے قرآن کے حاشیے میں وہ سب کچھ لکھ دیا جو پچھلی امتوں نے’’متن‘‘ میں لکھا تھا۔
مسلمانوں نے اگر قرآن کے متن میں کوئی تحریف نہیں کی تو اس کا انھیں کوئی انعام ملنے والا نہیں۔کیونکہ متن میں تحریف سے تو ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔پھر وہ متن میں تحریف کرتے تو کیسے کرتے۔وہ صرف حاشیے میں تحریف کر سکتے تھے اور یہ کام انہوںنے اتنے ہی بڑے پیمانے پر کیا ہے جتنا پچھلی قوموں نے اس سے پہلے متن میں کیا تھا۔
9جنوری 1986
ایک مسلمان بزرگ نے ایک ہندی کتاب کا ذکر کیا۔جو بچوں کے نصاب میں داخل ہے۔انہوںنے بتایا کہ اس میں تغلق بادشاہ پر ایک مضمون ہے۔ اس مضمون میں یہ الفاظ ہیں
’’تغلق تھا تو مسلمان، مگر تھا بڑا دیالو‘‘
مذکورہ مسلمان بزرگ نے شکایت کی کہ نصاب کی کتاب میں اس طرح کی باتیں شامل کرکے نہایت منصوبہ بند طریقے سے بچوں کا ذہن بگاڑا جا رہا ہے کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہوتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر نہیں بلکہ خود مسلم قوم پر ہے۔مسلمانوں نے اپنی یہی تصویر بنائی ہے تو دوسرے لوگ اس کے سوا مسلمانوں کو اور کیا سمجھیں۔میں نے کہا کہ آپ کے ایک بڑے ملی شاعر نے فخر کے ساتھ کہا ہے
تیغوں کے سایہ میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
پھر جب خود آپ کا نمائندہ یہی کہہ رہا ہو تو دوسرے لوگ اس کے سوا کچھ اور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ایک اور صاحب ان کے ساتھ تھے۔انہوںنے کہا کہ انگریز مؤرخین نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ذہنوں کو بگاڑا ہے۔مثلاً ہندوستان کی ایک انگریزی تاریخ میں تین دور کے لیے اس طرح مختلف الفاظ لکھے گئے ہیں
Advent of Aryans
Invasion of Muslims
Influence of the British
یعنی آریہ کی آمد، مسلمانوں کا حملہ اور برطانیہ کے اثرات۔
10جنوری1986
کہا جاتا ہے کہ خدا کے 99 نام ہیں۔لوگ ان ناموں کو یاد کرکے ان کا ورد کرتے ہیں۔مگر یہ نام محض نام نہیں،وہ دراصل خدا کی صفتیں ہیں۔خدا ایک ہے، اس لیے اس کا نام بھی حقیقتاً ایک ہے۔مگر اس کی صفتیں بے شمار ہیں۔ایک حدیثِ رسول کے مطابق، اللہ کے 99 سے زیادہ نام ہیں (مسند احمد، حدیث نمبر 3712)۔
میرا اپنے بارے میں خیال ہے کہ میںنے خدا کی بعض ایسی صفتیں دریافت کی ہیں جو میری اپنی دریافت ہیں، جن کو میں نے اس سے پہلے کتابوں میں نہیں پڑھا تھا۔
مثلاً میںایک باروسیع خلا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اچانک مجھے محسوس ہوا کہ میں خدا کی ایک نئی صفت دریافت کر رہا ہوں۔اس صفت کو self-confidenceکہہ سکتے ہیں۔یعنی خوداعتمادی۔ وسیع خلا میں اتنے بے شمار اجرام کو متحرک کرنا ایک بے حد نازک کام تھا۔خدا نے اتنی بڑی کائنات بنائی اور دوسری طرف انسان کو آنکھ دے دی کہ وہ دیکھے کہ کیا وہ اس میں کوئی بدنظمی یا انتشار پاتا ہے؟غیر معمولی سیلف کانفیڈنس کے بغیر اتنا بڑا اقدام نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح میں نے ایک روز خدا کی ایک اور صفت دریافت کی۔اور وہ ہےپرفکشنسٹ ہونے کے باوجود امپرفکشن سے ڈسٹرب نہ ہونا۔
میرا اپنا یہ خیال ہے کہ مجھے دھوئیںسے چکر آ جاتا ہے۔شور سے میرا ذہن منتشر ہو جاتا ہے۔گندگی کا دیکھنا میں برداشت نہیں کر پاتا۔اسی لیے موجودہ دنیا مجھے وحشت خیز چیز معلوم ہونے لگی ہے۔مگر خدا کامل اختیار کے باوجود انسانوں کی تمام خرافات کو گوارا کیے ہوئے ہے۔خدا حددرجہ معیار پسند ہونے کے باوجود مسلسل طور پرغیر معیاری چیز کو دیکھتا ہے اور وہ ڈسٹرب نہیں ہوتا۔کیسا عجیب قدرت والا ہے خدا۔
11 جنوری1986
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انھیں الرسالہ کے بارے میں یہ شکایت تھی کہ اس میں مسلمانوں پر تنقید ہوتی ہے۔انہوںنے کہا کہ مسلمانوں پر تنقید کرنا اغیار کو خوش ہونے کا موقع دینا ہے۔اس لیے ان کا مشورہ تھا کہ مسلمانوں پرکھلی تنقید نہ کی جائے۔میںنے کہا کہ یہ بات جو آپ فرما رہے ہیں کوئی سادہ سی بات نہیں ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کو قوم پرستی کہا جاتا ہے۔یہ اصولی معاملہ میں حساس ہونے کے بجائے قومی معاملہ میں حساس ہونا ہے۔حقیقت کامجروح ہونا آپ کو نہیں تڑپاتا۔البتہ قومی فخر مجروح ہو تو آپ تڑپ اٹھتے ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے اس مشورے کو قبول نہیں کر سکتا۔
12 جنوری1986
تبلیغی جماعت کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے ایک عالم سے اپنی گفتگو نقل کی۔مذکورہ عالم نے ان سے یہ شکایت کی کہ تبلیغی جماعت کے لوگ جہاد کو چھوڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے جہاد کو نہیں چھوڑا ہے۔البتہ قتال سے ہم الگ رہتے ہیں۔آپ نےخود کتاب’’نورالانوار‘‘ (جلد 1، صفحہ 170-172)میں ہم کو یہ پڑھایا ہے کہ
جہاد حسن لذاتہ ہے، قتال حسن لغیرہ ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین میں اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ جہاد ہے، نہ کہ قتال۔چنانچہ دعوت کا جو کام ہم کر رہے ہیں وہ عین جہاد ہے،اگرچہ وہ قتال نہیں۔پھر آپ کو ہمارے اوپر کیا اعتراض ہے۔
13 جنوری 1986
پچھلی ڈائری دیکھ رہا تھا۔اس میں2نومبر1979 کی تاریخ کے ساتھ حسب ذیل تحریر ملی۔یہ میںنے جمعیۃ بلڈنگ(پرانی دہلی) میں لکھی تھی
آج مولانا محمد شعیب کوٹی اور مسٹرغلام نبی شاہین کشمیری سے گفتگو ہوئی۔یہ دونوں جماعت اسلامی کے سیاسی فکر سے اتفاق رکھتے تھے۔میں نے کہا کہ اس وقت بظاہر لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم دنیا میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کافکر غالب ہے۔مگر بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ یہ فکر مغلوب ہو جائے گا اور الرسالہ کا فکر مسلم دنیا میں غالب فکر کی حیثیت حاصل کر لے گا۔آپ لوگوں کو آج میری یہ بات بہت عجیب معلوم ہوگی۔مگر،ان شاءاللہ، آپ لوگ یہ دیکھنے کے لیے زندہ رہیں گے۔اگرچہ میں شاید اس وقت مر چکا ہوںگا۔
پھر میں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا جو فکر ہے اس کے اندر صرف وقتی قدر ہے۔وہ دائمی قدر کا حامل نہیں ہے۔انیسویں صدی عیسوی کی دنیا میں جو سیاسی افکار اٹھے اور مسلمانوں کے اندر نوآبادیاتی غلبہ کےنتیجے میں دوسرے اسباب سے جو رد عمل پیدا ہوا، اس کے ماحول میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین کا فکر بنا۔یہ فکر مخصوص سیاسی دور کی پیداوار ہے، نہ کہ حقیقتاً اسلام کی پیداوار۔ چنانچہ انہوںنے اسلام کو سیاسی انقلاب کے روپ میں پیش کردیا۔
اسلام کی سیاسی تعبیر بنیادی طور پر اپنے زمانے کے سیاسی حالات کا رد عمل ہے۔ اوریہ زمانہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔آج کا انسان فطرت کی زمین پر کھڑا ہونا چاہتا ہے۔اسلام کی سیاسی تعبیر کی ساری اہمیت سیاسی حالات کی زمین پر ہے۔آنے والا انسان جو فطرت کی زمین پرکھڑا رہنا چاہے گا، اس کے لیے فکری تسکین صرف الرسالہ کے پیغام میں ہوگی اور اس وقت کے آنے میں شاید دس سال سے زیادہ نہیں لگیں گے۔
114 جنوری 1986
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مجھ پر بعض لمحاتی تجربے گزرتے ہیں۔یہ تجربے انتہائی لطیف اور انتہائی حد تک ناقابل بیان ہوتے ہیں۔ان کو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔مگر یہ الفاظ صرف اصل تجربہ کی علامت ہوںگے، نہ کہ اصل تجربہ کا بیان۔ مثلاً میری سابقہ ڈائری میں 22 مارچ،1980 کی تاریخ کے ساتھ ایک تجربہ ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے
آج میں اپنی کتاب ’’عظمت قرآن‘‘ کا دیباچہ لکھ رہا تھا۔اچانک مجھ پر ایک لمحاتی تجربہ گزرا۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں اس کو لکھ رہا ہوں اور خدا کی خصوصی تائید اترر ہی ہے، جس کو میں سکینت کہا گیا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3614) ۔
اسی طرح اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میرے اندر کا غم کچھ الفاظ کی صورت میں ٹپک پڑتا ہے۔یہ سارا عمل بالکل بے اختیارانہ ہوتا ہے۔یعنی میں سوچ سمجھ کر یہ الفاظ نہیں بولتا۔بلکہ یہ الفاظ اپنے آپ ایک بے حد درد انگیز کیفیت کے ساتھ زبان پر آ جاتے ہیں۔مثلاً ایک مرتبہ یہ فقرہ میری زبان پر آ گیا
’’لوگ جنت کا نام لیتے ہیں ۔حالانکہ ان کے اعمال بتاتے ہیں کہ انھیں جنت سے کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
22 فروری 1985 کا ایک لمحاتی تجربہ میری ڈائری میں ان الفاظ میں لکھا ہوا ہے
’’آج دن میں ایک عجیب تجربہ گزرا۔مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں ہر آن ختم ہو رہا ہوں اور ہرآن دوبارہ زندہ ہو رہا ہوں۔جیسے کہ ہرآن میں اپنے موجودہ لمحہ میں ختم ہو رہا ہوں اور ہر آن اپنے اگلے لمحہ میں دوبارہ موجود ہو رہا ہوں‘‘۔
15 جنوری1986
ایک بزرگ نےقرآن کی تفسیر لکھی۔اس کے بعد انہوںنے یہ شعر کہا
روز قیامت ہر کسے با خویش دارد نا مۂ من نیز حاضر می شوم تفسیرقرآں در بغل
ایک معروف عالم دین نے اپنی سیرت کی کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے
’’...سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ (کتاب) خدا کے یہاںقبول اورمصنف کے لیے ذریعۂ مغفرت اور وسیلۂ شفاعت ہو تو وہ سمجھے گا کہ اس کی محنت ٹھکانے لگی اور اسی کو یہ کہنے کا حق ہوگا
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
میرا مزاج اس معاملے میں سراسر مختلف ہے۔میرے ذہن میںکبھی بھی یہ خیال نہیں آتا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ تو کیا لایا تو میں کہہ دوںگا کہ فلاں کتاب لکھ کر لایا ہوں۔
اس قسم کی باتیں مجھے خدا کاکمتر اندازہ(underestimation)معلوم ہوتی ہے۔خدا اس سے بہت برترہے کہ اس کے یہاں ہم اپنی کتاب پیش کریں۔درخت کی ایک پتی بھی انسانوں کی لکھی ہوئی تمام کتابوں سے زیادہ عظیم ہے۔اسی طرح آخرت کی غیر فانی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ کوئی فانی عمل اس کی قیمت دلا سکے۔
میری زبان سے تو جب بھی دعا نکلتی ہے یہی نکلتی ہے کہ خدایا میرے پاس کچھ بھی نہیں۔میں اکثر یہ دعا کرتا ہوں کہ خدایا میرے نامۂ اعمال سے میرے تمام کاموں کو حذف کر دے اور صرف اپنی رحمت کو اس میں لکھ دے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے سوا اور کوئی چیز نہیں جو آدمی کو نجات دینے والی ہو۔
16 جنوری 1986
مولانا رومی کا شعر ہے
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند
(خدا کے سچے دین کو لوگوں نے چار دین بنا دیا اور اس طرح پیغمبر کے دین میں رخنہ ڈال دیا)
اسی طرح کے اشعار اقبال کے یہاں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔مثلاً ان کا یہ شعر
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
اس طرح کی سخت باتوں کے باوجود مسلمان کے یہاں رومی اور اقبال بہت زیادہ مقبول ہیں۔ اس کے مقابلے میں راقم الحروف نے اپنی کتاب’’ تجدید دین‘‘ اور بعض دوسری تحریروں میں اس طرح کی باتیں کہیں تو مسلمان بے حد خفا ہو گئے۔
اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ رومی اور اقبال اس بات کو شعر کی زبان میں کہتے ہیں اور میں اس کو علمی تجزیہ کی زبان میں کہتا ہوں۔ شعر کے اسلوب میں کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔شعر کے ردیف و قافیہ میںکوئی بات نہ فی الواقع غلط ثابت ہوتی ہے اور نہ صحیح۔وہ تو صرف ردیف و قافیہ ہوتا ہے اور بس۔
اس کے برعکس، میرے تجزیاتی مضامین ان باتوں کو ثابت شدہ حقیقت بنا رہے ہیں۔اس میں صحیح صحیح ہو جاتا ہے اور غلط غلط۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کو پڑھ کر ناراض جاتے ہیں۔رومی اور اقبال کے اشعار کو گنگنانے سے ان کے عقیدے متزلزل نہیں ہوتے۔جبکہ میرے مضامین پڑھ کر ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے روایتی عقیدے کی دیوار منہدم ہو رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں رومی اور اقبال پسند کیے جاتے ہیں اور ٹھیک اسی قسم کی بات میں کہتا ہوں تو مجھ سے ناراض جاتے ہیں۔
17 جنوری1986
’’دور جدید‘‘ میں مسلمان سب سے زیادہ پچھڑی ہوئی قوم ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اگر پٹرو ڈالر کی طاقت ظاہر نہ ہوئی ہوتی تو آج مسلمان ایک قسم کے بین الاقوامی اچھوت بن چکے ہوتے۔
اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری لیڈروں پر ہے۔19ویں صدی عیسوی میں جب مغربی اقوام نے مسلم قوتوں پر غلبہ حاصل کیا تو مسلمانوں نے اس اعتبار سے کچھ بھی نہ سوچا کہ آخر وہ کون سی طاقت ہے جس سے مسلح ہو کر مغرب کی قومیں دنیا پر چھا گئی ہیں۔مسلم لیڈر نفرت اور منفی رد عمل کے سوا اس وقت کسی اور چیز کا ثبوت نہ دے سکے۔
اس زمانے میں ایسے شعرا اور خطبا پیدا ہوئے جن کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ وہ مغرب اور مغربی تہذیب کا مذاق اڑاتے ہیں۔اسی میں ایک مثال اکبر الہ آبادی (1846-1921ء) کی ہے۔ان کے اشعار کی کثیر تعداد ایسی ہے، جو مغرب سے نفرت اور استہزا پر مبنی ہیں۔حتیٰ کہ انہوں نے مغرب کی انتہائی مفید چیزوں کا بھی مذاق اڑایا۔مثلاً ان کا ایک شعر ہے
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
اسی طرح ان کا ایک شعرہے
بچوں کے کبھی قتل سے بدنام نہ ہوتا افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اسی قسم کی منفی باتیں تھیں جنھوںنے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے دو سو سال دور کر دیا۔وہ مغرب کی ہر چیز کو نفرت کی نظر سے دیکھتے رہے۔یہاں تک کہ جاگے تو اس وقت جاگے جب کہ دنیا ان سے بہت آگے جا چکی تھی۔ ایک فارسی شاعر کے الفاظ میں— میں ایک لمحہ کے لیے غافل ہوا اور راہ سے سو سال دور ہو گیا
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد
واپس اوپر جائیں