خبرنامہ اسلامی مرکز- 274
■ انڈین پلورزم فاؤنڈیشن کولکاتا کی جانب سے 21 ستمبر 2020 کو ایک آن لائن پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ پروگرام کا عنوان تھاوباکے دور میں امن کی تلاش (Search for Peace in the Pandemic )۔ اس پروگرام کو برٹش ہائی کمیشن کولکاتا نے سپورٹ کیا تھا۔ اس پروگرام کو مختلف مذاہب کے نمائندوں نے خطاب کیا تھا۔ اسلام کی نمائندگی مز ماریہ خان ، ممبر سی پی ایس انٹرنیشنل دہلی نے کی تھی۔ مز ماریہ خان کا خطاب کافی پسند کیا گیا۔
■ پدم وبھوشن انڈین گورنمنٹ کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ہے جو سول میدان میں خدمات کے لیے دیا جاتا ہے۔ 2021 میں جن لوگوں گورنمنٹ آف انڈیا کی جانب سے پدم وبھوشن ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، ان میں صدر اسلامی مرکز بھی ہیں۔یہ ایوارڈ صدر اسلامی مرکز کو اسپریچوالٹی کے میدان میں ان کی خدمات کے لیے دیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ سی پی ایس انٹرنیشنل فیملی اور ان کے خیرخواہوں کے لیے یقیناً بوسٹ (boost)کی حیثیت رکھتا ہے تاکہ وہ مزید دلجمعی کے ساتھ دعوت اور تزکیہ کا کام پرامن طریقے سے کریں۔
■سی پی ایس لیڈیز کے ذریعے خواتین کے درمیان دعوتی کام کیا جارہا ہے۔ اس تعلق سے سی پی ایس خواتین کا ایک ویبینار 17 جنوری 2021 کو منعقد ہوا تھا۔ اس میں دعوتی امور پر گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم(نئی دہلی)، ڈاکٹر نجمہ صدیقی(نئی دہلی)، مزفہمیدہ خان (فیض آباد)، مز کوثر اظہار (امریکا) اور ڈاکٹر سفینہ تبسم(سہارن پور، یوپی) نے اس پروگرام کو خطاب کیا۔ مز شبینہ علی(کولکاتا) نے اس پروگرام کو ماڈریٹ کیا تھا۔ اس پروگرام میں یہ طے کیا گیا کہ اب ہر ماہ اسی طرح ایک ویبینار کیا جائے گا، اور دعوتی کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔ خواتین نے یہ بھی کہ طے کیا ہے کہ ہر ہفتے ایک آن لائن قرآن کلاس منعقد کی جائے گی، جس کو مز فاطمہ سارہ(بنگلورو) کنڈکٹ کریں گی۔پھر اس کے بعد پہلا قرآن کلاس 31 جنوری 2021 کو منعقد ہوا ، اور ہر ہفتے برابر یہ کلاس جاری ہے۔ اس گروپ سے جڑنے کے بعدجو تبدیلی آئی ہے، اس سلسلے میں چند خواتین ممبروں نے ذیل کے تاثر دیے ہیں
1۔ خواتین کا یہ گروپ میرے لیے بہت بڑی بات ہے۔یہ گروپ ہمارے لیے آئینہ ہے۔ ہم سب کو اپنی اصلاح میں مدد کرتا ہے۔ (ڈاکٹر سفینہ تبسم، سہارنپور)
2۔ اگر میں اِس لیڈیز گروپ میں نہیں ہوتی تو مجھے اپنی غلطی پر غور کرنا، اور اپنا احتساب کرنا کبھی نہیں آتا (مز شبانہ خاتون، کلکتہ)
3۔ مولانا کی کتابیں میں بہت دنوں سے پڑھتی ہوں۔ لیکن جب اس گروپ میں مولانا کی ٹیچنگس اور ان کی تحریوں پر ڈسکشن ہوا اس نے میری زندگی کے لیے boosterکا کام کیا۔ اللہ تعالی مولاناکو صحت اور زندگی دے۔(مز فہمیدہ خان، فیض آباد، یوپی)
4. After joining this group, I am learning many things at a time today, I am completing 2 months and these 2 months are a complete change for my soul. (Ms Shivani Syed, Delhi)
5. Alhamdulillah! God made arrangement for me to learn through Maulana's team. This group is a blessing for all of us. (Ms. Shah Bano, USA)
6. Thank God for this group which is helping us realize our mistakes. (Dr Naghma Siddiqi, Gurgaon)
■سی پی ایس مشن کی آئڈیالوجی کو اس سے تعلق رکھنے والے افراد مختلف انداز سے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتےرہتے ہیں۔ مثلاًڈاکٹر قاسم ندیم صاحب( پاکستان) صدراسلامی مرکز کی تفسیر تذکیر القرآن کو سوال و جواب کے انداز میں لوگوں تک پہنچارہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیسے کیسے مخفی طریقوں سے سی پی ایس انٹرنیشنل کے کام کو آگے بڑھا رہا ہے، اس کا اندازہ مجھے اس میسج سے ہوا جو پنجاب کے ایک چھوٹے شہر سے مجھے موصول ہوا ہے۔ وہ میسج یہ ہے "السلام علیکم سر!کیا میں اپنے کنٹیکٹس اور گروپس میں اس میسج کو سینڈ کر سکتا ہوں،اور کیا آخر میں اپنے ادارے کا نام اور ایڈریس لکھ سکتا ہوں کیوں کہ اپنے گاؤں میں میں نے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا ہے۔"میںنے اس کو اجازت دے دی، اور یہ لکھا بالکل آپ اس کو استعمال کر کے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھیں، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ قرآن کا پیغام ہمارے پاس لوگوں کی امانت ہے۔اسے ہر زبان میں سارے انسانوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
صدر اسلامی کو ساری دنیا میںپڑھا اور سناجاتا ہے۔اس سلسلے میں ذیل میں چند افراد کے تاثر دیے جارہے ہیں
■ مولانا صاحب کی ذکر کردہ باتوں میں سب سے زیادہ متاثر کن بات جو مجھے لگی ،وہ حدیبیہ کی صلح اور یوسف علیہ السلام کاواقعہ ہے۔ یعنی بغیر کسی نزاع کے مشرک بادشاہ سے عہدے کی درخواست کرنا اور لوگوں کی فلاح کے کام کرنا۔یہ فلاح کاپہلو دین کا اہم ترین پہلو ہے جسے آج کل موضوع نہیں بنایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پوری امت ذہنی اور فکری غلام بنی ہوئی ہے، ان اقوام کی جو غیر نزاعی اعتبار سے کام کرتے ہیں۔حدیبیہ کی صلح سے یہ سبق ملتا ہے کہ بغیر کسی اعتراض کے فریق ثانی کے ساتھ یک طرفہ صلح کرو، تاکہ دعوت کا موقع مل سکے۔(ڈاکٹر فوزیہ انور، کراچی)
■ مولانا صاحب کے اس جملے نے میری زندگی بدل دی— ہر روز انسانوں کی موت اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ اس دنیا میں بظاہر کامیاب آدمی کی خوشی اتنی ہی بے حقیقت ہے جتنا کہ کا بظاہر ناکام آدمی کا غم۔ (دانیال طاہر، کراچی)
■ مولانا صاحب کو اب تک جتنا پڑھ پایا ہوں،ان میں سب سے بڑی بات یہ سمجھ میں آئی ہے کہ زندگی میں ہر بات اورہر کام میں مثبت ذہن کا پہلو اولین ترجیح رہے اور رد عمل کی نفسیات سے حتی الا مکان بچا جائے۔ مولانا نے زندگی میں ہر بات میں بھڑک جانے کو تمام مسائل کی وجہ بتایا ہے ،اور صبر و تقویٰ کواس کا حل۔ الحمد للّٰہ ، یہ اصول زندگی میں بہت حوصلہ عطا کرتا ہے (شجاعت علی، لندن)
■ مولانا وحید الدین خان کی کتاب "اللہ اکبر"بہت عمدہ کتاب ہے۔ یہ آپ کو خدا کے وجود اور اس پر یقین سے لے کر انسانی تخلیق کے حقیقی مقاصد تک لے جائے گی۔یہ کتاب" بندے" میں" بندگی" کے احساس کو اجاگر کرتی ہے، اور اس کو مقصدِ تخلیق سے آگاہ کرتی ہے۔(محمد مجاہد اشرف ،پنجاب یونیورسٹی لاہور )
■ رب کی توفیق سے میں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کافی کتابوں کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا، بلکہ انہیں بار بار پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کی ،جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مولانا صرف ایک عالم دین ہی نہیں بلکہ دورِ جدید کے ایک محقق ، مجدد اور مفسر ہونے کے ساتھ ایک بہترین سائکالوجسٹ بھی ہیں۔مولانا کی کوئی بھی کتاب ہو، اس کا ایک ایک لفظ آپ کے دل و دماغ سے خود بخود ہی تصدیق ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ کو یوں لگتا ہے کہ شاید یہ آپ ہی کے دل کی بات تھی، جو مولانا نے لکھی ہے۔ مولانا ایک ایسا سرمایہ ہیں کہ جن کے لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ شاید ہی ایسا کوئی دوسرا شخص صدیوں تک ہمیں مل سکے ۔ مولانا کی کتابوں میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ ملی وہ یہ کہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے مطابق زندگی گزار لو ۔ اس سے تمھیں خدا مل جائے گا ،اور جب خدا مل گیا تو سب کچھ مل گیا ۔میرا یہ کہنا بھی مبالغہ نہیں، بلکہ حقیقت ہے کہ اگر میں مولانا کو نہ پڑھتا تو شاید آج میں اس دنیا میں نہ ہوتا۔ مولانا کی کتابوں نے مجھے ایک نئی زندگی دی ، مجھے جینے کا ایک انو کھا ڈھنگ دیا ، میرے سامنے زندگی کی حقیقت کو بیان کیا، مجھے خدا سے ملنے کا راستہ دکھایا ۔ مولانا کی کتابوں نے مجھے میری اہمیت بتائی ، میری آنکھوں کے سامنے سے فریب کے پردے اٹھادیے۔ مجھے یہ سکھایا کہ میری زندگی ایک بامعنی زندگی ہے۔ میں دنیا میں بامقصد زندگی گزارنے کے لیے بھیجا گیا ہوں، نہ کہ بے مقصد۔مولانا اور مولانا کی پوری ٹیم میری ہر دعا میں شامل ہے۔ (ابراہیم ،لاہور)
■ مولانا صاحب کو میں نے اسٹڈی کیا ہے۔ مجھے ہر وقت مولانا کے لٹریچر سے امیداورصبر کی غذا حاصل ہوئی ہے۔ میرے خیال میں کامیاب زندگی گزارنے کےلیے یہی دو اصول کافی ہیں۔ (محمّد داؤد سوراب، بلوچستان)
■مولانا صاحب کی کتابوں نے میری زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ یہاں ان میں سے چند باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔1۔میں منفی (negative) سے مثبت (positive) ہوگیا ہوں۔2۔ میرامزاج داعیانہ ہوگیا ہے۔ 3۔سائنس کی ہر ایجاد میرےایمان میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہے۔ 4۔غیر مسلم قوم سے نفرت اب محبت میں بدل گئی ہے۔دوسرے الفاظ میں، مولانا کی کتابوں سے پہلے میں بے شعور (immature) تھا اب میچور (mature) ہوگیا ہوں۔ (گل رحمان، لکی مروت، پختونخوا)
■ مولانا صاحب کی تحریروں اور تقریروں سے میرا تعلق تین سال سے ہے۔ مولانا میں ایک کمال یہ ہے کہ ان کی جو بھی تحریریں ہیں وہ موجودہ دور کے مطابق انسان کی عقل میں صحیح فٹ آتی ہیں۔الحمداللہ، زندگی کا مقصد سمجھ میں آگیا ہے، میرے اندر سےانا(ego) اور ضد اور حسد ختم ہوا ہے۔ میں نے یہ سیکھا ہے اپنے معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ فطرت کے قانون کو بہت قریب سے جانا ہے جس کی وجہ سے حقیقت کے قریب ہوا ہوں۔ (عرفان رحمان،رحیم یار خان، پاکستان)
■ مولانا کی کتابوں کی سب سے بڑی خوبی اس سائنسی دور میں سائنسی اپروچ ہے۔ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں موجودہ ذہن کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں، اور مدلل اور سادہ انداز میں لکھتے ہیں۔مولانا کی کتابیں عالم و طالب، عام و خاص، سائنس دان و آرٹسٹ الغرض سب کے لیے یکساں مفید ہیں۔"مذہب اور سائنس" جیسی کتاب میں مولانا کے مطالعہ پر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی نظر دینی علوم کے ساتھ ساتھ مغربی علوم پر بھی بہت گہری ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے جس طرح منکرِ خداسائنس دانوں اور دیگر مفکرین کی غلطیاںواضح کرکے بیان کی ہیں، یقیناً قابلِ داد ہیں۔(حفیظ الرحمٰن،بونیر ،خیبر پختونخوا)
■ میں مولانا کی کتاب "دین کامل" پڑھ رہا ہوں۔ ابتدائی پندرہ صفحات پڑھ کر میرا دل نرم ہوا۔ کچھ جملے ایسے ہیں جو میرے دماغ کو ہٹ (hit)کرتے ہیں۔ مثلاً ایک عنوان ہے ’’مثل صحابہ ایمان‘‘( صفحہ 13 )۔اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ مثلِ صحابہ ایمان کیا ہے، اور مثلِ یہود ایمان کیا۔ یہ تقابل بہت عجیب ہے۔ مثلِ صحابہ ایمان کیا ہے؟ یہ مثلِ یہود ایمان جاننے سے سمجھ میں آیا۔ اسی طرح ایک جملہ ہے"ایک ایمان وہ ہے جو بس جامد عقیدہ ہو، جو آدمی کے ذہنی اسٹور میں بہت سی چیزوں میں سے ایک چیز کے طور پر پڑا ہوا ہو۔ وہ آدمی کی زندگی کا کل نہ ہو بلکہ وہ اس کا صرف ایک جز ہو۔"میرا تجربہ یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں پڑھتے رہنے سے اصل چیز پر فوکس بنتا ہے، اور دوسرے علما کی کتابیں پڑھنے سے ایسا نہیں ہوتا۔(مولانا عبد الباسط عمری، گلبرگہ، کرناٹک)
■ سچ تو یہ ہے اگر میں نے مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں نہ پڑ ھی ہوتی، اور ڈائریکٹ برٹرینڈ رسل اور کارل مارکس یا چارلس ڈارون، وغیرہ کی کتابیں پڑھنا شروع کردیتا تو میرے لیے صورتِ حال بہت مختلف اور نقصان دہ ہوسکتی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ مجھے مولانا کا تعارف وقت پر ہوگیا ۔ مولانا صاحب ہمارے لیے حقیقت میں ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں، ورنہ جو نام نہاد علما آج ہیں، ان سے کسی ذی شعور آدمی کو سیکھنے اور سمجھنے کوکچھ نہیں ملتا ہے۔ میرے احساسات کو صرف وہی سمجھ سکتے ہیں، جو ان کو پڑھ چکے ہیں ۔اللہ تعالی مولانا کو صحت اور تندرستی کے ساتھ رکھے آمین ۔(عطا المومن فیصل آباد پاکستان )
ثجن چند شخصیات نے مجھ پر سب سے گہرا اثر ڈالا ہے، ان میں ایک نام مولانا وحید الدین خان صاحب کا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ مولانا نے کسی مسئلہ پر اپنی رائے دی ہو، اور مجھے اس سے اختلاف ہواہو۔ بلکہ سچ کہوں تو مرزا غالب کے الفاظ میں—
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
میری تعلیم پہلے کالج میں ہوئی ، پھر میں نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی۔ جدید تعلیم کی بنا پر کئی ایسے سماجی مسائل تھے، جن میں روایتی طبقے کی رائے مجھے کبھی سمجھ میںنہیں آئی۔ لیکن دین کا حوالہ ہونے کی وجہ سے میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا ۔ اس کے بعد جب مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتابیں پڑھی، اور ان کی رائے جاننے کا موقع ملا تو دین کو نئے پہلوسے دیکھنےکا موقع ملا،اوردینی احکام کو سمجھنے کی نئی راہیں کھلیں۔ یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ موجودہ دور میں دین کو قابل فہم اور قابل عمل بنانے میں مولانا کی تحریروں نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ اللہ مولانا وحید الدین خان صاحب کی عمر میں برکت عطا فرمائے اور امت پر ان کے سائے کو تادیر سلامت رکھے آمین ثم آمین۔(عمران صدیقی ندوی، ممبئی)
■ معرفتِ رب،دعوتِ حق،حکمتِ حیات پر مشتمل مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں دورِ جدید میں علما کی اپنی عارفانہ اور داعیانہ زندگی کے لیے ایک انمول خزانہ ہیں۔ یہ فکری زندگی کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہیں۔ایک عالم دین کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں مدارس کے فارغین جدید عالمی اپروچ سے بے خبر ہوتے ہیں۔وہ ان کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دورِ جدید کے تعلق سے ان کا رویہ اس عربی مقولہ کا مصداق ہے: من جہل شیئًا عاداہ (جو کسی چیز سے بے خبر ہو، وہ اس سے دشمنی کرتا ہے)۔حالاں کہ جدید کلچر میں جہاں بظاہر ناپسندیدگی کا پہلو ہے، وہیں بہت سی باتیں عین اسلام کے موافق ہیں۔ بلکہ موافقِ اسلام باتیں زیادہ ہیں۔ اپنے زمانے کو جاننا اور اس کے مطابق رہنمائی دینا ابتداء سے علما کا طریقہ رہا ہے۔اس سلسلے میں ابن عابدین کا ایک بامعنی قول ان الفاظ میں آیاہے:مَنْ جَہِلَ بِأَہْلِ زَمَانِہِ فَہُوَ جَاہِلٌ(مجموعہ رسائل ابن عابدین، صفحہ 131 )۔ یعنی جواپنے زمانے سے لاعلم رہا، پس وہ جاہل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانے کو جانے بغیر اسلام کی طرف صحیح رہنمائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کسی کے دل میں اسلام کی صحیح نمائندگی کرنے کی تمنا ہو، اور اس تعلق سے اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنا چاہتا ہے تو موجودہ دور میں ایک صدی پر محیط تجربات پانے والے عالم دین، داعی ، زمانہ شناس انسان کی علمی تحقیقات اور ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ انھوں نے اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میں پیش کیا ہے۔ جدید دور کے رجحان کے اعتبار سے اسلام کو دینِ رحمت اور دینِ امن کے طور پر مولانا نے واضح کیا ہے۔
اس کے برعکس، عام مسلم اہلِ علم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جنگ کے فضائل کو جانتے ہیں مگر امن کے فوائد سے ناواقف ہیں۔ حالاں کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے دور میں جنگی بہادری دکھانا اور جنگ کو ایمان وعقیدے کی طرح مذہب کا ابدی جزء بتانے کی کوشش کرنا نادانی ، اور اپنے نقصان میں مزید اضافہ کرنا ہے۔یہ جدید دور کے مواقع سے بے خبری کا اعلان ہے۔ پرامن زندگی اور پرامن اقدام ہی اسلام کا مطلوب ہے۔ کیوں کہ اسلام ایک آئڈیا لوجی ہے، اور آئڈیالوجی صرف امن کے حالات میں سمجھی اور سمجھائی جاسکتی ہے۔ مولانا کی تحریروں سے اسلام کی پرامن تصویر واضح ہوتی ہے۔ گویا مولانا کی تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو جو چیز دی ہے وہ یہ ہے — آخرت کی کامیابی کے لیے نظریۂ توحید اور دنیا میں جینے کے لیے نظریۂ امن۔ یہ کانسپٹ اس حدیث کا خلاصہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جنت میں سب سے زیادہ دو چیزوں کی وجہ سے انسان جائے گا، تقویٰ اور حسن اخلاق(تَقْوَى اللَّہِ وَحُسْنُ الخُلُقِ)جامع الترمذی، حدیث نمبر 2004۔ مولانا سید اقبال احمد عمری ،عمرآباد، تامل ناڈو۔
■ آج کل میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب کے سفرناموں کا مطالعہ کررہا ہوں۔میرا خیال یہ ہے کہ مولانا کے سفر ناموں میں زیادہ علمی اور مبنی بر حکمت مواد موجود ہے۔ اس بنا پر سفر نامہ کوپڑھنے میں زیادہ وقت بھی لگتا ہے۔ کیوں کہ اس میں نوٹ کرنے والی باتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام کے متعلق مختلف قسم کے سوالات واعتراضات اسی طرح مختلف اہل علم کے غیراسلامی اور اسلامی نظریات کی بھی سفر نامہ میں وضاحت ہوتی ہے۔مزید یہ کہ مولانا کے سفر نامے پُر حکمت ہوتے ہیں۔ مولانا ہر واقعہ سے کوئی اسلامی ذہن بنانے والا نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ یہ خصوصی صلاحیت اور ملکہ، میرے علم کے مطابق، مولانا کی طرح کسی اور کو حاصل نہیں۔ دوسرے علمائے کرام کے سفر ناموں کا بھی میں نے مطالعہ کیا ہے۔ وہ نیوز پیپر کی طرح ہوتے ہیں، ان سے کوئی ٹیک اوے نہیں ملتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی کتابیں پڑھنے کے بعد دوسروں کی کتابیں ہر اعتبار سے مولانا کی کتابوں کے بالمقابل غیر معیاری نظر آتی ہیں۔ (مولانا جمیل مظہر بجنوری، ممبئی)
■ اودھیش کمارجی (پیدائش 1931)، گاندھی پیس فاؤنڈیشن، نئی دہلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اسپرٹ آف اسلام کے ریگولر قاری ہیں۔ کچھ ماہ سے ان کو یہ میگزین نہیں مل پا رہی تھی، کیوں کہ اسپرٹ آف اسلام اب صرف آن لائن شائع ہورہا ہے۔ ان کی دلچسپی کے پیش نظر سی پی ایس دہلی نے ان کو اسپرٹ آف اسلام کی فوٹوکاپی بھیجی، اور کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کو مولانا کی باتیں بہت زیادہ پسند ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے کہا کہ صرف پسند کی بات نہیں ہے، مولانا صاحب کی باتیں مجھے نراشا سے آشا کی طرف لے جاتی ہیں۔ ان کی کتابیں میرے اندر اُرجا (energy)پیدا کرتی ہیں۔
■ Key learning from Maulana’s books is deconditioning of oneself. It helps in unbiased approach in the various affairs of life. (Mr. Mehar Elahi, Lahore, Pakistan)
■ Every word of Maulana’s writing is purified and has extreme maturity. His sole aim of writing is to create positivity and aim for higher objectives. (Mr. Akhtar Butt, Lahore, Pakistan)
■ I am a student of biology. I believe when a person is really in need of real advice, Allah introduces him to someone who can really help him in his journey. Maulana Wahiduddin Khan is really a mentor for me. When I was striving hard to find my purpose, I read Maulana’s Raaz-e Hayat. This book really inspired me. Then I started looking at this world with a purpose. Maulana’s vision is an inspiration for millions. May Allah bless him with great wisdom and knowledge. May Allah accept his work and give him eternal peace and health. Also, this group is a source of daily reminders with the provision of short tafsir and videos. (Ms. Hamna Junaid, Pakistan)
■ It was the November of 2017. I was on my way to Jammu to attend a friend’s wedding. I had stopped in Delhi for a day. Little did I know then that the one day I chose to stay in Delhi would change the course of my life in such a deep and meaningful way. I remember walking into the study and meeting room of none other than the esteemed Maulana Wahiduddin Khan. He was seated at the other end of the room. I took a deep breath, conscious that I was meeting in person a giant from the tradition of "my other". I had no knowledge of Islam then. Not really the religious type, I decided consciously that I would keep the meeting brief and try my best to understand the celebrated scholar with my limited intellect. "Tell me more about you Miss Jana." He invited me softly as if sensing my nervousness. Dumbstruck that Maulana would be interested in knowing me as a person, I became conscious of the beginning of the dialogue. "I am here to listen Maulana." I mumbled. "The way you have your arm placed tells me that you have a big heart young lady." I suddenly became aware of the way I was sitting. I was waiting like a child to listen to a story from someone from my grandparents’ generation. My heart was indeed opening up with curiosity. A dialogue which I had expected to be as brief as 15 mins given Maulana’s busy schedule turned out to be a life changing 1.5 hours. The aged scholar channelled wisdom so relevant to my life at that moment that I found myself stunned at how he could have known what I needed without any knowledge of my context or even my background. Maulana’s wisdom laid the foundation of my passion for inter-religious dialogue. That one dialogue led to a rare and cherished relationship that I built with the entire team of CPS over the years. From the Kolkata Book Fair to the Parliament of World’s Religions, conferences and zoom calls to take Maulana’s message to more and more people as I built my network, the relationship with my other has only deepened with time. This gratitude note is to acknowledge the man whose vision led me to challenge my own and reshape it to work for a more inclusive future. (Ms. Sohini Jana, Kolkata)
■ When I was in Intermediate Part-1, there was a poem "Night Mail" by W.H Auden in our course of English, and now when I've become a lecturer in English, the same poem is there. Why I'm mentioning this poem is because of the fact that I hadn't been able to understand the metaphorical and hidden meaning of the poem so far. Last night I read Maulana Wahiduddin Khan's short essay "مقصد زندگی" in which he has talked commendably about the purpose of life by using a metaphor of the train. Now as soon as colleges reopen and classes start, I'm determined to teach my students this poem in a quite different way, with a new and purposeful explanation. Last but not the least, Maulana Wahiduddin Khan's books are an ocean in themselves where one could quench one's thirst for knowledge. Each and every word used by him in his books is pregnant with wisdom and spirituality. (Muhammad Waqas Azeem, Sialkot)
■ The biggest contribution of Maulana is the translation of the Quran. This helps every human being irrespective of religious or nonreligious background understand the divine message without difficulty. His translation is understandable which appeals to the conscience of a human being and addresses his mind. (Mr Aslam Baig, Mumbai)
■ Respected sir, I am an officer in Allahabad High Court, and a big fan of Maulana Wahiduddin Khan. I have been reading Al-Risala, in addition to numerous books written by him. In course I happened to peruse a book Tajdeed e Deen written by Maulana. I was extremely impressed by his approach and feel a deep urge and need to translate this book into Hindi. I humbly seek your kind permission to do the same as I have almost equal command on Hindi, English and Urdu languages and have worked as a translator also for around 10 years. (Dr Mohd Shahab, Allahabad)
■ I have 4 servants and one driver, out of which 2 are Muslim. One of them can read English , he was following the Quran that was gifted by you. It is a proper utilization. I have already read it. (Dr Shrismistha Gupta, Kolkatta)
■ I am in Pakistan. I went to my village about 7 hours away from Lahore, surrounded by beautiful mountains. We have a wonderful youth there. I shared Maulana's teachings with him. His response was unbelievable. I had some books and magazines with me, but Tariq Sb sent us more books. Now we're going to have two libraries in two different villages. They were waiting for this treasure. Please ask Maulana to pray for them. May Allah help us all. Ameen. (Ms. Gulzeba Ahmad, Lahore)
■ Sister Farida, I'm a serving inmate at the Windhoek Correctional Facility in Namibia. Firstly, I am humbly knocking on your esteemed office door regarding the above mentioned reference. Secondly, I want to thank you for your free monthly magazines "Spirit of Islam". These books are so interesting that I can't put them down! It's teaching me things that I needed to understand in the Qur'an. I believe that these books are the most convincing soul-winning tool. You will always be in our daily prayers. (Idris Haingura, Namibia)
■ I love this book (Islam and World Peace by Maulana Wahiduddin Khan)! I just finished reading this entire book today and it took me only two weeks to finish it. Masha Allah! This wonderful book contains a wealth of wisdom from the Holy Quran and Hadith/Sunnah which verifies that Islam is Not a religion of violence and that it is actually a religion of peace. As sincere loyal Muslims, our main focus should be to educate and reform individuals by influencing them to grow intellectually and spiritually, and to bring about a revolution within their hearts and minds. Targeting a community as a whole to make a change will lead to failure. We must target the hearts and minds of individuals, which is the key to changing the world, which will eventually lead to a positive successful change in communities, countries, and Nations globally. We must avoid confrontation at all cost and focus on enforcing and maintaining the culture and ideology of peace. Nothing can be accomplished with violence which only leads to destruction of lives and resources. Peace is the only way to success. (Ms Francine, USA)
■ I love this book (Woman between Islam and Western Society by Maulana Wahiduddin Khan). I just completed reading it. Took me two weeks to finish. This book provides wisdom and educational facts that verify that Islam has never declared that women are inferior to men, and that Islam only proves a fact that Allah has created females with a biological difference. Due to this biological difference, this is the reason why particular activities and types of jobs have been declared appropriate for males only and other jobs and activities for females only. God had chosen and blessed the Prophet Muhammad and his companions with the wisdom, talents, power, and gifts to bring about an intellectual revolution. This awesome book contains scientific facts from scholars that verify that the biological nature, that women are different from men in genes and thought process. Nature automatically cast females as the weaker, more delicate sex and men as the stronger sex. This explains why Nature makes different demands upon males and females as a convenient division of labor. Any deviation from Nature always results in punishment from Allah and mankind will always reap the terrible consequences violating the laws of nature! There are very few cases of divorce, children born out of wedlock, teen pregnancy, fornication, adultery, and AIDS in Muslim countries. These type of horrible problems are rare or non-existent in Muslim countries. But here in the United States of America, there is a terrible plague of billions of these immoral cases. This proves that Islam does not treat women as inferior, but grants women a high status in life while acknowledging her different biological makeup and that she is created equal with man, but must be treated differently (delicately) in regard to the division of labor, etc. (Ms Francine, USA)
واپس اوپر جائیں