قرآن کی دریافت
میری تاریخ پیدائش یکم جنوری 1925 ہے۔ میری باقاعدہ تعلیم ایک عربی مدرسہ میں ہوئی۔ اس مدرسے کے نصاب میں قرآن ایک مرکزی کتاب کی حیثیت سے شامل تھا۔مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میں نے چاہا کہ قرآن کا مزید تفصیلی مطالعہ کروں۔ اس وقت میں اعظم گڑھ میں رہتا تھا۔ وہاں کے ادارہ دار المصنفین میں ایک اچھا کتب خانہ تھا۔ اس کتب خانے میں تقریباً تمام عربی تفاسیر موجود تھیں۔ میں نے وہاں کے کتب خانے میں عربی تفاسیر کی مدد سے قرآن کا مزید مطالعہ شروع کیا۔ کئی برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس مطالعے سے میں نے جانا کہ قدیم عربی مفسرین کے نظریے کے مطابق، اہم اصول یہ ہے کہ آدمی ضروری فنون کے علاوہ قرآن کی آیتوں کا شان نزول یا سبب نزول جانے۔اس طرح قرآن فہمی کے لیے اہم بات شان نزول یا سبب نزول کا جاننا قرار پایا۔
قرآن فہمی کے لیے یہ شرط بظاہر نہایت اہم تھی۔ لیکن شعوری یا غیر شعوری طو رپر ہمیشہ میرے ذہن میں یہ خیال قائم رہا کہ شاید میں کوئی چیز مس (miss) کر رہا ہوں۔ جس کی وجہ سے قرآن کے زیادہ گہرے معانی تک پہنچنے میں میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ بات میرے ذہن میں اس لیے آئی کہ قرآن میں بہت سی آیتیں ہیں، جن میں زمین و آسمان کی آیات (نشانیوں) کا حوالہ ہے، اور یہ کہا گیا ہے کہ ان آیات پر غور کرو۔ مگر مجھے کوئی عربی کتاب ایسی نہیں ملی، جس میں صحیح طور پر زمین و آسمان کی آیتوں کا تدبر و تفکر پر مبنی تفسیری مطالعہ کیا گیا ہو۔ جب کہ قرآن میں متعدد ایسی آیتیں ہیں، جو قاری کو اس کائناتی مطالعہ کی طرف اہمیت کے ساتھ متوجہ کرتی ہیں۔اس سلسلے میں چند آیات کا ذکر آگے آرہا ہے۔
قرآن کا مطالعہ
قرآن معروف معنوں میں ایک مذہبی کتاب نہیں ہے،جس سے مذہبی رسوم (rituals) کی ادائیگی کا طریقہ معلوم کیا جائے۔ بلکہ وہ ایک ایسی کتاب ہے، جس میں پوری انسانی زندگی کے لیے فکری اعتبار سےرہنما تعلیمات دی گئی ہیں۔قرآن کا انداز عام انسانی کتابوں سے مختلف ہے۔ عام انسانی کتابوں کے لیے ریڈنگ (reading) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن کے لیے یہ کرنا ہے کہ اس کا مطالعہ کرنے والا تذَکُّر وتدبر (ص، 38:29 ) کا طریقہ اختیار کرے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن اپنے اسلوب کے اعتبار سے ربانی حکمت کا مجموعہ (collection of divine wisdom) ہے۔ قرآن میں بیان کردہ حقائق کو سمجھنے کے لیے اسی اصول کو اختیار کرنا چاہیے۔
فکری سفر
قرآن کے بارے میں حدیث میں آیا ہے : وَلاَ تَنْقَضِی عَجَائِبُہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)۔ یعنی اس کے عجائب (معانی) کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ قرآن کے معانی کے مختلف پہلو ہیں۔ اہل علم ان پر غور کرکے ہمیشہ اس کے نئے نئے پہلو دریافت کرتے رہیںگے ۔یہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے۔ اگر قرآنی آیتوں کے صرف چند پہلو ہوتے تو قرآن ایک محدود کتاب بن جاتا۔ لیکن قرآن کی آیتوں کے لامحدود پہلو ہیں تو قرآن ایک ابدی کتاب بن گیا ہے، جیسا کہ اللہ رب العالمین کی ذات ایک ابدی ذات ہے۔
قرآن میں بار بار کہا گیا ہے کہ قرآن کی آیتوں پر غور کرو۔ مثلاً: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ( 38:29 )۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ قرآن کی آیتوں میں یہ غور و فکر صرف فنی معنی میں نہیں ہے۔ یعنی یہ اس لیے نہیں ہے کہ قاری آیت کے الفاظ کو حل کرے، اس کے گریمر وغیرہ کو دریافت کرے۔ بلکہ وہ دراصل اس لیے ہے کہ قاری قرآن کی آیتوں میں چھپے ہوئے سبق (lesson) کو تدبر و تفکر کے ذریعے دریافت کرے۔
مثلاًقرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّہَ عَلَى کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ ( 29:20 )۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا، پھر وہ اس کو دوبارہ اٹھائے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن کی اس آیت میں سفر سے مراد نتیجۂ سفر ہے، نہ کہ صورتِ سفر۔جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں ابومنصور الماتریدی نے لکھا ہے:زمین میں چلنے اوردیکھنے کے حکم کا مطلب جسمانی طور پر سفر کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے تخلیقات میں غور کرنا (أمر بإرسال الفکر فیہا)، مثلاً تخلیق کی ابتدا اورجو کچھ اس میں ہے، اس پر غور کرنا ،اور اس کا مطالعہ کرنا (تفسیر الماتریدی، جلد8، صفحہ 216 )۔ مثلاً آپ نے ایک درخت کو دیکھا،اس سے آپ کا مائنڈ ٹریگر ہوا، آپ اس کے آغاز و انجام پر سوچنے لگے۔ آپ نے سوچا کہ زمین پر سوائل (soil) کیسے وجود میں آیا، زمین پر نباتات کی دنیا کیسے آباد ہوئی، انسان کی غذا اور دوسرے اسباب حیات کس طرح وجود میں آئے، وغیرہ۔ اس سوچ نے آپ کو نباتات (plant world) کی دنیا میں پہنچادیا۔پھر نباتات کے عالم کبیر (macro world)سے گزر کر آپ نباتا ت کے عالم صغیر (micro world)تک پہنچ گئے۔ نباتا ت کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک آپ نے ایک پوری دنیا کی سیر کرڈالی۔
کائنات کے اس فکری سفر کے ذریعے آپ نے بہت سے حقائق دریافت کیے۔آپ نے بہت سے چھپے، اور کھلے حقائق کو ازسر نو دریافت کیا، وغیرہ۔یہی وہ حقیقت ہے، جس کا حوالہ قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا ہے۔ یہی معرفت ہے۔ یعنی ان باتوںکو دریافت کرکے ان کو اپنے ذہن کی غذا بنانا۔یہی وہ چیز ہے، جس سے مومن کو معرفت کی غذا حاصل ہوتی ہے۔
قرآن عصر حاضر میں
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں نازل ہوا۔ لیکن قرآن کا خطاب قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں تک وسیع ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کی کچھ آیتیں اس میں وہ ہیں جو ساتویں صدی میں پوری طرح قابل فہم تھیں، لیکن قرآن کی کچھ آیتیں ایسی ہیں ، جو پیشین گوئی (prediction) کی زبان میں ہیں۔ یعنی یہ آیتیں نزول کے اعتبار سے ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہوئیں، لیکن خود قرآن میں ایسے اشارات موجود ہیں، جو بتاتے ہیں کہ یہ آیتیں صرف مستقبل میں پوری طرح قابل فہم ہوں گی۔ یعنی اپنے نزول کے اعتبار سے وہ ساتویں صدی عیسوی کی آیتیں ہیں۔لیکن اپنی معنویت کے اعتبار سے وہ بعد کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں، اپنی تفسیر کے اعتبار سے وہ مستقبل میں پوری طرح قابل فہم ہوں گی۔ ان میں سے چند آیات یہ ہیں:
(1) سَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَتَعْرِفُونَہَا ( 27:93 )۔ یعنی عنقریب وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔
(2) سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ ( 41:53 )۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ قرآن حق ہے۔
(3) أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِہِ ثَمَرَاتٍ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُہَا وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ غَفُورٌ ( 35:27-28 )۔ یعنی کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔ پھر ہم نے اس سے مختلف رنگوں کے پھل پیدا کر دیے، اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ، مختلف رنگوں کے ٹکڑے ہیں اور گہرے سیاہ بھی۔ اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی مختلف رنگ کے ہیں۔ اللہ سے اس کے بندوں میں سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ بیشک اللہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے۔
(4)فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً وَإِنَّ کَثِیرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آیَاتِنَا لَغَافِلُونَ ( 10:92 )۔یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لیے نشانی بنے، اور بیشک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔
ایک مثال
قرآن کے ان حوالوں کی اہمیت اس وقت مجھے زیادہ اہمیت کے ساتھ سمجھ میں آئی، جب میں نے مندرجہ ذیل کتاب پڑھی:
The Bible, the Qur'an and Science: The Holy Scriptures Examined in the Light of Modern Knowledge, by Maurice Bucaille, Robert Laffont, 1982, pp. 269
یہ کتاب اصلاً فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد انگریزی، اور عربی وغیرہ متعدد زبانوں میں چھپ کر شائع ہوچکی ہے۔ اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ دو مغربی سائنسدانوں نے مصر جاکر فرعون کی لاش کو دریافت کیا، اور تحقیق کرکے ثابت کیا کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے، جو حضرت موسی کے زمانے میں سمندر میں غرق ہوا تھا۔ اس موضوع پر راقم الحروف نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب عظمت قرآن میں لکھا ہے۔ اس مقالے کا ایک جزء یہاں نقل کیا جاتا ہے:
تیرھویں صدی قبل مسیح ( 13 th century BC) میں مصر میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کا نام مرنفتاح ( Merneptah) تھا۔ اس کا مقابلہ پیغمبر موسیٰ کے ساتھ پیش آیا۔ مگر قرآن بتاتا ہے کہ وہ پیغمبر موسیٰ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔ البتہ وہ خود بحر احمر (Red Sea) میں غرق ہوگیا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرعون کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُونَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً( 10:92 ) ۔ یعنی پس آج ہم تیرے بدن کو بچائیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے نشانی بنے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی موت کے بعد اس کی لاش نابود نہیں ہوئی، بلکہ وہ باقی رہی۔ بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ سمندر میں غرق ہونے کے بعد اس کی لاش سمندری جانور کھاجائے۔ جسم کی حیثیت سے اس کا وجود باقی نہ رہے۔ لیکن یہاں بتایا گیا کہ فرعون کا جسم بدستور موجود ہے، اور وہ بعد والوں کے لیے ایک عبرت کا نشان بنے گا۔ یہ واقعہ بعد کے لوگوں کے لیے مکمل طور پر ایک غیر معلوم واقعہ بن گیا۔ کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ فرعون کی لاش کہاں موجود ہے۔ تقریباً دو ہزار سال بعد قرآن عرب میں اترا۔ اس میں مذکورہ آیت شامل تھی۔ لیکن بوقت نزول کوئی مسلم یا غیر مسلم اس حقیقت کو جانتا نہ تھا۔ یہ حقیقت تاریخ کا ایک فراموش شدہ واقعہ بنا ہوا تھا۔
لیکن انیسویں صدی کے آخر میں سائنس کے ذریعہ یہ واقعہ پیش آیا کہ فرعون کی لاش دوبارہ انسان کے علم میں آگئی۔ قصہ یہ ہے کہ فرعون کے مرنے کے بعد آل فرعون نے اس کی لاش کو قدیم طریقے کے مطابق مومیائی کرکے محفوظ کردیا، اور اس کو اہرام مصر میں ایک تاریخی یادگار کے طور پر رکھ دیا۔ لیکن بعد کے زمانے میں کوئی بھی شخص اس حقیقت کو جانتا نہ تھا، نہ مصر کے اندر اور نہ مصر کے باہر۔
پروفیسروکٹر لاریٹ (Victor Loret) پہلا شخص ہے جس نے 1898 میں مصر کے ایک قدیم مقبرہ میں داخل ہو کر دریافت کیا کہ یہاں مذکورہ فرعون کی لاش ممی کی ہوئی موجود ہے۔ 8جولائی 1907کو الیٹ اسمتھ (Elliot Smith) نے اس لاش کے اوپر لپٹی ہوئی چادر کو ہٹایا۔ اس نے باقاعدہ سائنسی تحقیق کی، اور پھر 1912میں ایک کتاب شائع کی، جس کا نام ہے شاہی ممیاں(The Royal Mummies)۔ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے ثابت ہوگیا کہ یہ ممی کی ہوئی لاش اسی فرعون کی ہے جو تین ہزار سال حضرت موسیٰ کے زمانے میں غرق کیا گیا تھا۔ ایک مغربی مفکر کے الفاظ میں:
His earthly remains were saved by the Will of God from destruction to become a sign to man, as it is written in the Quran.
فرعون کا مادی جسم خدا کی مرضی کے تحت برباد ہونے سے بچا لیا گیا تاکہ وہ انسان کے لیے ایک نشانی ہو، جیسا کہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔بائبل اور قرآن اور سائنس (The Bible, the Quran and Science) کے مصنف ڈاکٹر موریس بوکائی (Maurice Bucaille) نے 1975 میں فرعون کی اس لاش کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی کتاب میں اس پر جو باب لکھا ہے، اس کا خاتمہ ان الفاظ میں کیا ہے:
Those who seek among modern data for proof of the veracity of the Holy Scriptures will find a magnificent illustration of the verses of the Quran dealing with the Pharaoh’s body by visiting the Royal Mummies Room of the Egyptian Museum, Cairo!
وہ لوگ جو مقدس کتابوں کی سچائی کےلیے جدید ثبوت چاہتے ہیں، وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرے کو دیکھیں، وہاں وہ قرآن کی ان آیتوں کی شاندار تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے بحث کرتی ہے۔ (عظمت قرآن، صفحات 30-31 )۔
قرآن کا موضوع
قرآن کے بارے میں ایک سوال یہ ہے کہ قرآن کا موضوع کیا ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن کا موضوع انسان ہے۔ یہ بات جزئی طور پر درست ہوسکتی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ قرآن کا موضوع اللہ رب العالمین کا منصوبہ تخلیق ہے۔یعنی قرآن کا موضوع انسان کو یہ بتانا ہے کہ وہ اپنے رب کو کس طرح دریافت کرے، اور اپنے رب سے وہ ربط کس طرح قائم کرے، جس کو صِلَۃُ العَبْدِ بِرَبِّہ یا تعلق باللہ کہا جاتا ہے۔اسی کا نام معرفت ہے۔ اس معرفت کے لیے قرآن میں اشارات موجود ہیں۔
انسان کا کام یہ ہے کہ وہ قرآن سے ان اشارات کو جانے، اور ان کو مفصل معنی میں دریافت کرے۔ یہ اسی عمل کا تسلسل ہے، جو پیغمبر اسلام اپنے اصحاب کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ابوذرغفاری کہتے ہیں:تَرَکْنَا رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَا طَائِرٌ یُقَلِّبُ جَنَاحَیْہِ فِی الْہَوَاءِ، إِلَّا وَہُوَ یُذَکِّرُنَا مِنْہُ عِلْمًا، قَالَ:فَقَالَ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا بَقِیَ شَیْءٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ویُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1647)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے جدا ہوئے، اس حال میں کہ کوئی چڑیابھی فضا میں اپنے پروں کو پھڑپھڑاتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دلاتے تھے، اور آپ نے کہا:کوئی بھی چیز جو جنت سے قریب کرے یا آگ سے دور کرے، وہ تمھارے لیے بیان کردی گئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے پیدا ہونے کے بعد انسان کے لیے خدا کی دریافت کے بے شمار آئٹم ہوتے ہیں ، اس دریافت کے ذریعے انسان اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ وہ اس پہلو پر غور و فکر کرکے ایک عارف انسان بنتا ہے۔ مثلاً انسان اگر غور کرے تو وہ پائے گا کہ جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا، اس وقت وہ خارجی دنیا سے کٹا ہوا تھا۔ مگر اس وقت بھی ماں کے پیٹ میں اس کی ضرورت کی تمام چیزوں کی سپلائی جاری تھی۔ اس دریافت سے انسان کے اندر اپنے خالق کے لیے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
اس کے بعد جب انسان مزید غور کرتا ہے تو وہ دریافت کرتا ہے کہ پیدا ہوکر وہ جس دنیا میں آیا ہے،وہاں پر اس کے خالق نے ایک انوکھا نظام قائم کر رکھا ہے، یعنی لائف سپورٹ سسٹم ۔ اس دنیا میں ہر چیز اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ انسان دوست ہے، نہ کہ انسان دشمن۔ ہر چیز کی تخلیق اس انداز میں ہوئی ہے کہ وہ انسان کے لیے نافع بنے، وہ انسان کے لیے نقصان دہ نہ بنے۔ مثلاً سورج کی روشنی فضا میں چھن کر آتی ہے، تاکہ وہ انسانوں کے لیے ضرر رساں نہ ہو۔اس طرح سورج زمین سے بہت ہی درست فاصلے پر ہے، تاکہ وہ انسان کے لیے صرف نفع بخش ہو، ضرر رساں نہ ہو، وغیرہ۔
پھر انسان جب مزید غور و فکر کرتا ہے، تو وہ اس دریافت تک پہنچتا ہے کہ یہ معاملہ کوئی محدود معاملہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے باہر جو یونیورس ہے، وہ پوری کی پوری کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) ہے، یعنی انسان اور کائنات دونوں ایک دوسرے کے لیے مثَنّی (counterpart) ہیں۔ کائنات انسانی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ دونوں کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے، جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ( 45:13 )۔ یعنی اس نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور کرتے ہیں۔
انسان کے لیے سبق
قرآن کی سورہ الرحمن میں دو آیتیںان الفاظ میں آئی ہیں: کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَان۔ وَیَبْقَى وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ ( 55:26-27 )۔ یعنی جو بھی زمین پر ہے، وہ فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کی ذات باقی رہے گی، عظمت والی اور عزت والی۔ ایک شخص کی عمر 90 سال ہوچکی ہو، اور وہ پیچھے مڑ کر دنیا کو دیکھے، جس سے گزرتے ہوئے وہ 90سال کی عمر کو پہنچا ہے تو اس کو اپنے تصور کی دنیا میں دکھائی دے گا کہ اس کے پیچھے دور تک وفات پانے والے انسانوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ یہ قبریں اتنی زیادہ ہوں گی کہ اس کی گنتی ختم ہوجائے گی، لیکن قبروں کی تعداد ختم نہ ہوگی۔ اس کو چشم تصور میں ایک ایسا منظر دکھائی دے گا، جس میں اس کے جیسے بے شمار لوگ کہہ رہے ہوں گےکہ مجھ کو دیکھو، ایک وقت تھا کہ میں بھی تمھاری طرح زمین پر چل پھر رہا تھا، آج صرف میری بھولی ہوئی یاد ہے، میں تم سے بہت دور ایک ایسی دنیا میں پہنچ چکا ہوں ، جہاں تم کوبھی ایک دن آنا ہے۔ تم کو چاہیے کہ تم سب سے زیادہ اس حقیقت پر غور کرو۔ دوسرے انسانوں کے انجام سے اپنے لیے سبق حاصل کرو۔
اس کے بعد اگر وہ آدمی اپنے تصور کی دنیا میں اللہ رب العالمین کو یاد کرے تو اس کو محسوس ہوگا کہ اللہ رب العالمین اپنے تمام جلال و کمال کے ساتھ ایک حی و قیوم ذات کی طرح موجود ہے۔ وہ ہر چیز سے بلند ہے۔ اس وقت اس کو قرآن کی یہ آیت یاد آئے گی: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ( 2:255 )۔ یعنی اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے:
His throne extends over the heavens and the earth
اس حقیقت پر سوچتے ہوئے جب وہ قرآن کے مذکورہ الفاظ کو دہرائے گاتو اپنی بے چارگی، اور اللہ کی عظمت کو سوچ کر اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجائے ۔ اس کو اللہ کی موجودگی (presence) کا اتنا شدید احساس ہوگا کہ وہ بے ساختہ طور پر سجدے میں گر پڑے گا۔
قرآن ایک عالمی کتاب
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں اترا۔ قرآن سادہ طور پر ایک کتاب نہیں، وہ انسانوں کے لیے ابدی ہدایت کی ایک عالمی کتاب ہے۔ چنانچہ قرآن میں ساتویں صدی عیسوی میں یہ اعلان کیا گیا تھا:تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِینَ نَذِیرًا ( 25:1 )۔ یعنی بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وہ جہان والوں کے لئے ڈرانے والا ہو۔
قرآن چونکہ تاریخ کے ابتدائی دور میں اترا تھا، اس لیے اپنے آپ اس کے اندر بہت سے تقاضے شامل تھے۔ مثلاً یہ کہ ابتدائی دور میں یہ مطلوب تھا کہ قرآن کے متن کو یاد کرکے اس کو محفوظ کیا جائے، تاکہ قرآن بعد کی نسلوں تک کامل حفاظت کے ساتھ پہنچ سکے۔ اسی طرح یہ بھی کہ کتابت کے فن کو ڈیولپ کیا جائے، کاغذ تیار کیا جائے، پرنٹنگ پریس وجود میں لایا جائے۔ قرآن کی زبان عربی کو اس طرح محفوظ کیا جائے کہ وہ قیامت تک قابل فہم زبان بنی رہے، قرآن کے اشارات کو تفصیل کی زبان میں بیان کیا جائے، قرآن سے متعلق علوم کو مدون کیا جائے، ایج آف کمیونی کیشن کو دنیا میں لایا جائے، دنیا میں مذہبی آزادی آئے، دنیا میںکشادہ دلی اور کھلا پن (openness) کا دور لایا جائے، قرآنی علوم کی بنیاد پر کتب خانہ وجود میں لایا جائے، قرآن کے ترجمے تمام زبانوں میں قابل فہم انداز میں تیار کیے جائیں، ایسے اسباب پیدا کیے جائیں کہ قرآن ساری دنیا میں قابلِ حصول بن جائے۔ یک طرفہ قربانی کے ذریعے امن کا دور (age of peace) لایا جائے، دنیا میں کامل معنوں میں مذہبی آزادی لائی جائے، لڑائی کے ماحول کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے، وغیرہ۔
ان تقاضوں کی تکمیل کے بغیر یہ ناممکن تھا کہ قرآن ہر دور میں پوری دنیا کے انسانوں کے لیے نذیر (ہدایت نامہ) بنا رہے۔ قرآن کے نزول کے بعد جو تاریخی ترقیاں (historical development) ہوئیں، ان کو قرآن کی تفسیر میں شامل کیا جاتا رہے، تاکہ قرآن ہمیشہ لوگوں کے لیےایک زندہ کتاب بنا رہے۔
قرآن کو ایک ابدی کتاب کی حیثیت سے زندہ کتاب بنائے رکھنے کے لیے اس قسم کے بہت سے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری تھا۔ یہ ایک ایسا کام تھا، جو نزول قرآن سے لے کر قیامت تک جاری رہے۔ امت محمدی جس کی حیثیت حامل قرآن کی تھی، وہ تنہا اس عالمی کام کو انجام نہیں دے سکتی تھی، اس لیے اللہ تعالی نے ایک عظیم منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ امت محمدی براہ راست طور پراس منصوبہ کے جاری رکھنے کی ذمے دار ہو۔ اسی کے ساتھ دنیا کی سیکولر قوموں کے لیے ایسے محرکات (incentives)پیدا کیے جائیں کہ وہ قرآن کے اس عالمی مشن کےلیے انفراسٹرکچرل سپورٹ (infrastructural support) بن جائیں۔
قرآن کی اس عالمی ذمے داری کا ذکر خود قرآن میں مختلف الفاظ میں آیا ہے۔ مثلاً قرآن کے متن کو محفوظ کرنا (الحجر، 15:9 )، قرآن کو عالمی انذار کی کتاب بنانا (الفرقان، 25:1 ) ، آفاق و انفس کی ان آیات کو ظاہر کرنا، جو قرآن کی اعلیٰ تبیین کےلیے اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر رکھ دیا تھا، وغیرہ وغیرہ (فصلت، 41:53 )۔
محفوظ کتاب
قرآن ساتویں صدی عیسوی میں عرب میں اترا۔ اس کا متن عربی زبان میں ہے۔ اسکالرس کا اتفاق ہے کہ قرآن آج بھی اپنی اصل عربی متن کے ساتھ اسی طرح محفوظ ہے، جس طرح وہ ساتویں صدی عیسوی میں تھا۔ مثلاً سر ولیم میور (1819-1905) ایک اعلی تعلیم یافتہ انگریز مستشرق تھا ، جو برٹش حکومت کے دور میں غیر منقسم ہندوستان کی ایک ریاست کا گورنر مقرر ہوا ۔ سر ولیم میور نے ایک کتاب لکھی ، جس کا نام ’’لائف آف محمد‘‘تھا ۔ یہ انگریزی کتاب 1866میں چار جلدوں میں شائع ہوئی۔ قرآن کے بارے میں ان کا ایک اقتباس یہ ہے:
There is probably in the world no other work which has remained twelve centuries with so pure a text...We may, upon the strongest presumption, affirm that every verse in the Quran is the genuine and unaltered composition of Muhammad himself.
قرآن کے نزول کے وقت مختلف باتوں کے علاوہ یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ( 15:9 )۔ یعنی یہ ذکر ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔یہ حفاظت صرف عربی متن کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ ایک جامع معنوں میں ہے۔ یعنی ہراعتبار سے حفاظت۔ قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری طرح صحیح ثابت ہوئی ہے۔
مثلاً نزولِ قرآن کے وقت کی عربی زبان استثنائی طور پر آج بھی ایک قابل فہم زبان کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے۔ اسی طرح نزولِ قرآن کے وقت جو حالات تھے، وہ بھی سیرتِ رسول کی شکل میں آج تک محفوظ ہیں۔ نیز قرآن میں تاریخ کے جو حوالے دیے گئے تھے، وہ بعد کی تحقیق سے درست ثابت ہوئے۔ مثلاً فرعون کے غرق ہونے کے بعد اس کی لاش کا محفوظ ہونا(یونس، 10:92 )۔
قرآن ایکسپلوزن
قرآن خدا کا آخری ہدایت نامہ (final guide book of God) ہے۔ نزولِ قرآن کی ابتدا میں اعلان کیا گیا تھا کہ قرآن اس لیے اترا ہے کہ وہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے نذیر(الفرقان، 25:1 ) بنے۔ نذیر کا مطلب ہے گائڈ بک (guide book) ۔ قرآن عالمی گائڈ بک اس معنی میں نہیں تھا کہ نزول قرآن کے بعد فورا ً وہ ساری دنیا میں خود بخود پھیل کر گائڈ بن جائے۔ خدا کا منصوبہ ہمیشہ تدریجی عمل (gradual process)کے طور پر ہوتا ہے۔ یہی خدائی قانون قرآن کے ساتھ بھی اختیار کیا گیا۔
قرآن کے اترتے ہی خدائی نظام کے تحت ایک عالمی پراسس جاری ہوا، جس کا نقطۂ انتہا (culmination)یہ تھا کہ ایک طرف قرآن محفوظ کتاب (preserved book) کی حیثیت اختیار کرلے، اور دوسری طرف انسانی دنیا میں وہ تمام اسباب مکمل صورت میں دستیاب ہوجائیں، جو قرآن کے عالمی ڈسٹری بیوشن کو ممکن بنادیں۔ تقریباً ہزار سال کے تاریخی عمل (historical process) کے بعد اکیسویں صدی میں یہ اپنی تکمیل تک پہنچا۔ اب اکیسویں صدی میں وہ تمام اسباب کامل صورت میں دستیاب ہوگئے، جو قرآن کی عالمی اشاعت یا عالمی ڈسٹری بیوشن کے لیے ضروری تھے۔
اسباب کے ڈیولپمنٹ کا منصوبہ اتنا بڑا تھا کہ صرف اہل ایمان اس کوروبعمل نہیں لاسکتے تھے۔ چنانچہ اللہ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ دنیا کے تمام انسان اس کی تکمیل میں مصروف ہوگئے۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں تائید دین بذریعہ غیر اہل ایمان کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ صحیح البخاری (حدیث نمبر 3062) میں اس کے لیےتائید دین بذریعہ رجل فاجر (إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ)کے الفاظ آئے ہیں۔ اس حدیث میں فاجر سے مراد سیکولر لوگ ہیں۔ ایک اور روایت میں اس کو’’غیر اہل دین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ھُمْ مِنْ أَھْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ گویا اللہ رب العالمین نے ایسے حالات پیدا کیے کہ پوری عالم انسانیت اس عمل کی تکمیل میں مصروف ہوگئی۔ وہ تمام ترقیاں جن کو کمیونی کیشن کہا جاتاہے، وہ اسی کا نتیجہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو دورِ مواصلات (age of communication) کہا جاتا ہے۔
اہل کتاب سے استفادہ
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ( 16:43 )۔ یعنی اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔اہل علم سے مراد مفسرین کے نزدیک اہل کتا ب ہیں۔’’پوچھ لو‘‘ کا مطلب مطلق معنی میں اہل کتاب کے پاس جاکر ان سے پوچھنا نہیں ہے، بلکہ توسیعی اعتبار سے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس علم و تحقیق کے میدان میں مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں، اس میں وہ اہل کتاب کی تحقیقات سے فائدہ اٹھائیں۔
مثلا ًیہ کہ قرآن میں بہت سی تاریخی حقیقتوں کا بیان ہے۔ پیغمبر نوح کی کشتی، پیغمبر ابراہیم ،پیغمبر موسیٰ (علیہم السلام( اور فرعون کا واقعہ، وغیرہ۔ یہ تاریخی حقیقتیں بائبل میں بھی مذکورہیں۔ دورِ جدید میں جو نئے سائنسی علوم وجود میں آئے ہیں، ان میں سے ایک علم الآثار (Archaeology) بھی ہے۔
آرکیا لوجی ایک ڈسپلن ہے، جس کے ذریعےماڈرن سائنسی اصول کی روشنی میں قدیم انسانی تاریخ، ثقافت اورمحفوظ رہ جانے والی باقیات (remnants) وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ کتابت کے آغاز سے قبل قدیم حجری دور میں جو تہذیبیں دنیا میں موجود تھیں، ان کی تاریخ و ثقافت سے آگاہی حاصل کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے، یعنی آثارِ قدیمہ کی تلاش ۔
چنانچہ موجودہ زمانے میں جہاں دیگر علاقوں میں آثار قدیمہ پر سائنسی اصول کی روشنی میں کام ہوا ہے، وہیں ان علاقوں میں بھی کا م ہوا ہے، جو بائبل یا قرآن میں مذکور تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا کشتیٔ نوح کی ڈسکوری، حضرت ابراہیم کا مقام پیدائش اور مقام ہجرت، فرعون کی لاش ، وغیرہ۔ یہ کام زیادہ تر اہل کتاب، یہود اور کرسچن آرکیولوجسٹوں نے کیا ہے۔ اسی طرح جدید سائنسی تحقیقات جو خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں، وہ بھی ان اہل کتاب نے دریافت کیے ہیں۔لیکن مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ اب مسلمان علما کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ان اہل کتاب کی تحقیقات سے فائدہ اٹھائیں، اور اپنے دین کو یقینِ مزید کی بنیاد فراہم کریں۔
امت محمدی کی ذمے داری
جہاں تک امت محمدی کی دینی اعتبار سے ذمے داریوں کا سوال ہے، وہ امت نے قدیم دور میں بخوبی طور پر انجام دیا ہے۔ لیکن دور جدید میں امت محمدی اس معاملے میں پیچھے رہ گئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جدید دور میں ایسے ڈیولپمنٹ وجود میں آئے، جو سیکولر قوموں کے لیے ایک محرک بن گئے ۔ اس محرک کی بنا پر وہ ان تمام اسباب کو وجود میں لائے،جن کو سائنس اور ٹکنالوجی کی دریافت کہا جاتا ہے۔ یہ اسباب اپنی حقیقت کے اعتبار سے قرآن کے منصوبہ کی عالمی تکمیل کے لیے انفراسٹرکچرل سپورٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔انفراسٹرکچرل سپورٹ کا یہ کام تقریباً تمام تر مغربی قوموں نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے غیرمعمولی کوشش اور ریسرچ کے ذریعے ان تمام اسباب کو ڈیولپ کیا، جو اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے ضروری تھے۔
اسی کے ساتھ خالق کی جانب سے مزید یہ ہوا کہ اس نے عرب کی زمین کے نیچے پٹرول کے خزانے رکھ دیے۔ علم طبقات الارض کے ماہرین (geologist) اس کو جغرافی حادثہ (geological accident) کہتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ عرب کی زمین کے نیچے پٹرول کے خزانے تخلیقِ خداوندی کا حصہ ہیں، جو اس لیے وجود میں آئے، تاکہ امت محمدی اس عظیم کام کی انجام دہی کے لیے ہر ممکن قیمت ادا کرسکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ اسی دور میں ایک حادثہ پیش آیا، جس کی خبر پیشگی طور پر پیغمبر اسلام نے دے دی تھی۔یہ حادثہ فتنۂ دُہَیماء (سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 4242)، یعنی کامل اندھیرا (utter darkness) کا فتنہ تھا۔
اس فتنے کی بنا پر مسلمان کامل طور پر اس سے بے خبر ہوگئے کہ سیکولر قوموں نے اللہ کی توفیق سے وہ تمام اسباب پیدا کردیے ہیں، جن کو استعمال کرکے شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔فتنۂ دہیماء کے بارے میں جو حدیثیں آئی ہیں، ان کا گہرا مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ غالباًاس سے مراد نفرت مغرب (westophobia) کا فتنہ ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عالمی سطح پر ویسٹو فوبیا کا شکار ہوگئے۔ اس لیے وہ اس عظیم نعمت کو دریافت نہ کرسکے، تاکہ وہ اس کو دعوتی مواقع (opportunities) کے طور پر اَوِیل کرے۔
فتنۂ دہیماء یا ویسٹوفوبیا (westophobia) کے ظاہری اسباب کیا تھے۔ وہ یہ تھے کہ مغربی قوموں نے فطرت کے قوانین (natural laws) کو دریافت کیا، اور طاقت کے جدید خزانوں پر عملاً قابض ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں مغربی قوموں اور مسلمانوں کے درمیان ایک نئی کروسیڈس (Crusades) وجود میں آگئی۔ تاریخ میں اس کو کلونیل ازم (colonialism)کا نام دیا گیا ہے۔ اس’’کروسیڈس‘‘میں مغربی قوموں کو فتح حاصل ہوئی۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ ، حتی کہ یورپ کی مسلم سلطنتوں کو زیر کرلیا۔ مثلاً عثمانی ایمپائر، مغل ایمپائر، وغیرہ۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اس سیاسی محرومی کو برداشت نہ کرسکے، اور تقریباً تمام مسلمان مغرب کے خلاف نفرت یا تشدد میں مبتلا ہوگئے، جس کو ہم نے عمومی ویسٹوفوبیا کا نام دیا ہے۔
اس موقع پر مسلم رہنماؤں پر فرض کے درجے میں ضروری تھا کہ وہ مغربی تہذیب اور مغرب کے سیاسی غلبے کو الگ کرکے دیکھیں۔ مگر انھوں نے انتہائی بےخبری کی بنا پر دونوں کو ایک سمجھ لیا۔ مغربی تہذیب (western civilization)حدیث کی پیشین گوئی (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 111 )کے مطابق، اسلام کے لیے تائیدی تہذیب (supportive civilization) کی حیثیت رکھتی تھی۔ مگر مسلم رہنماؤں نے مغربی تہذیب کو مغربی استعمار (western colonialism) کے ہم معنی سمجھ لیا۔
قرآن کی اشاعت
اس درمیان اللہ نے اپنے کچھ بندوں کو توفیق دی کہ وہ قرآن کا ترجمہ ہر زبان میں تیار کریں ۔ ایسا ترجمہ جو لوگوں کے لیے قابل فہم زبان (understandable language) میں ہو،اور ان تراجم کا مطبوعہ شکل (printed format) میں اور ڈیجیٹل شکل (digital format) میں ایڈیشن تیار کرکے ہر قوم میں منظم طور پر پہنچانے کا عمل شروع کیا جائے۔ ہمارے ادارے کے ذریعے اللہ کے فضل سے قرآن کے ڈسٹری بیوشن کا کام برابر کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام میجر زبانوں میں قرآن کا ترجمہ شائع ہوچکا ہے، اوردنیا کے مختلف حصوںمیں برابراس کے ڈسٹری بیوشن کا کام جاری ہے۔
یہ ایک ایسا کام ہے، جو میرے مطالعے کے مطابق، امت مسلمہ کا نمبر ایک کام ہے۔ امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا کی تمام زبانوں میں قابلِ فہم ترجمہ (understandable translation) تیار کرے، اور اس کو اچھی طباعت کے ساتھ لوگوں تک پہنچائے۔ پیغمبر ِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی آخری تقریر فرمائی۔ اس میں آپ نے ایک بڑے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا: کیا میں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ لوگوں نے بلند آواز سے کہا کہ ہاں ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچادیا۔ اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا :اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں نے لوگوں کو پہنچادیا ( أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا:نَعَمْ، قَالَ:اللہُمَّ اشْہَد)صحیح مسلم، حدیث نمبر 1679۔
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ ( 6:19 )۔ یعنی اور مجھ پر یہ قرآن اترا ہے، تاکہ میں تم کو اس سےآگاہ کر وں، اور وہ بھی (آگاہ کریں)جن کو یہ قرآن پہنچے۔ اس ریفرنس سے معلوم ہوا کہ امت کی ذمے داری خدائی پیغام کو انسانوں تک پہنچانا ہے، اوربرابراس مشن میں لگے رہنا ہے۔ امت کی ذمے داری یہ نہیں ہے کہ وہ تمام لوگوں کو کلمہ پڑھوائے۔ پہنچانے کے بعد ذمے داری ان لوگوں کی ہوجاتی ہے، جن کو اللہ کا پیغام پہنچا ہے (یٰس، 36:7 )۔ پہنچانے کے بعد امت کی ذمے داری نارمل حالات کو برقرار رکھنا ہے، نہ کہ اس کو لوگوں کے دلوں میں اتارنا(القصص، 28:56 )۔
یہ امت کی مزید ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اور مدعو کے درمیان سننے اور سنانے کےماحول کو برقرار رکھیں(الانعام، 6:108 )۔ اس معاملے میں امت کو شدت سے یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے اور دوسروں کے درمیان مدعو فرینڈلی (madu-friendly) ماحول برقرار رہے۔ امت یہ کام مطلوب درجے میں اس وقت کرسکتی ہے، جب کہ وہ مدعو سے نفرت مکمل طور پر چھوڑ دے، اللہ کے پیغام کو قابلِ فہم زبان میں مدعو تک پہنچائے۔ مدعو فرینڈلی بیہیویر (madu-friendly behaviour) کو قائم رکھنا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ پیغام کو پہنچانا۔ اس معاملے میں فقہ کا یہ مسلمہ اصول اپلائی ہوتا ہے:مَا لَا یَتِمُّ الْوَاجِبُ دُونَہُ فَہُوَ وَاجِبٌ(الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی، جلد 1، صفحہ 125 )۔ یعنی جس کے بغیر کوئی واجب چیز پوری نہ ہو، وہ واجب ہے۔
قرآن سے دعوت
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی اشاعت پورے دور میں قرآن کے ذریعے ہوئی۔ جو آدمی قرآن کو پڑھتا ہے، وہ پاتا ہے کہ قرآن مذہبی کتابوں میں ایک مختلف کتاب ( different book) ہے۔ قرآن ڈائریکٹ طور پر اللہ رب العالمین کی طرف سے انسان کو مخاطب کرتا ہے۔ مثلاً قرآن کا انداز کلام یہ ہوتا ہے کہ اے انسان، اے بنی آدم، وغیرہ۔ یہ ایک نہایت خصوصی انداز ہے۔ یہ انداز انسان کو متاثر کرتا ہے۔ وہ پاتا ہے کہ خدابراہ راست طور پر اس سے ہم کلام ہے۔ اسی طرح قرآن میں انسان کے مقصد حیات کے بارے میں بے حد تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ یہ اسلوبِ کلام صرف قرآن میں ملتا ہے۔
حتی کہ قرآن کی عربی زبان ایک معجزاتی زبان ہے۔ قرآن کی قرأت (recitation) اپنے آپ میں ایک بے حد موثر قرأت ہے۔ جو آدمی قرآن کی عربی زبان کو ایک قاری کے ذریعے سنتا ہے، وہ صرف سماعت کے ذریعے اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا چشم دید واقعہ ہے۔ یہ واقعہ راقم الحروف کے سفرنامے میں شائع ہوچکا ہے۔ اس کا متعلق حصہ یہاں نقل کیا جاتاہے ۔ یہ واقعہ ایک انٹرنیشنل سیمینار کا ہے، جو لیبیا میں 1976میں منعقد ہوا تھا۔ اس کا عنوان تھا:ندوۃ الحوار الاسلامی المسیحی(اسلام اور عیسائیت کے درمیان ڈائیلاگ)۔ اس سیمینار کا خاتمہ انجیل اور قرآن کی تلاوت پر ہوا۔ دونوں تلاوتیں ایک عیسائی عالم نے کی۔ پہلے اس نے انجیل (متی باب 25 ) عربی میں پڑھی۔ پڑھنے والا پادری نہایت خوش الحان تھا، اور خالص عربی لہجے میں پڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد اس پادری نے قرآن (سورہ البقرۃ اور سورہ العلق ) کی کچھ آیات پڑھیں۔ دونوں تلاوتیں اس نے تجوید اور قرأت کے تمام قواعد کے ساتھ کیں۔ قرآن کو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ شروع کیا، اور آخر میں صدق اللہ العظیم کہا۔
اصل انجیل بلاشبہ ایک خدائی کتاب تھی۔ مگر اس کا موجودہ عربی ترجمہ ظاہر ہے کہ انسان کے قلم سے ہے۔ اس کے برعکس، قرآن کی زبان الہامی زبان ہے۔ جب دونوں کتابوں کے حصے ایک دوسرے کے ساتھ پڑھے گئے، تو یہ گویا خاموش اعلان تھا کہ یہ انسانی کلام ہے، اور وہ خدائی کلام۔ انجیل کی قرأت میں ساری کوشش کے باوجود وہ عظمت پیدا نہ ہوسکی۔ اس کے برعکس، قرآن حیرت انگیز طور پر ایک عظیم کلام کی مانند ہال کے اندر گونج رہا تھا۔ اس کی مجرد سماعت ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ یہ ایک بلند تر خدائی کلام ہے، نہ کہ کوئی انسانی کلام۔
کانفرنس کی کارروائی ختم ہونے کے بعد تمام لوگ ایک بڑے ہال میں چائے پینے کے لیے جمع ہوئے۔ اس وقت کانفرنس کے آخری پروگرام کا اثر ابھی تمام لوگوں کے ذہنوں پر موجود تھا، جب کہ انجیل کی آواز پرقرآن کی آواز چھاگئی تھی، جیسے قرآن نے اس کو نگل لیا ہو۔اس وقت میں جس میز پر بیٹھا تھا، اتفاق سے اس کی دوسری جانب ایک نوجوان پادری تھے، جو ویٹیکن کے دوسرے وفد کے ساتھ آئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ قرآن کو خدا کی کتاب مانتے ہیں، قرأت کے تاثر کے تحت (اس وقت )ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا ،ہاں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوراقم الحروف کا سفرنامہ غیر ملکی اسفار، جلد اول، صفحات 17-18 ) ۔
قرآن اور وضو
حدیث کی کتابوں میں ایک واقعہ اس طرح آیا ہے: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، کَانَ فِی قَوْمٍ وَہُمْ یَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ. فَذَہَبَ لِحَاجَتِہِ، ثُمَّ رَجَعَ وَہُوَ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ. فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ:یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ. أَتَقْرَأُ وَلَسْتَ عَلَى وُضُوءٍ؟ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ:مَنْ أَفْتَاکَ بِہذَا؟ أَمُسَیْلِمَةُ؟ (موطا امام مالک، اثر نمبر 684 )۔ محمدبن سیرین سے روایت ہے، عمر بن الخطاب لوگوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ وہ لوگ قرآن پڑھ رہے تھے۔ عمر اپنی حاجت کے لیے اٹھے۔ پھر (قضائے حاجت کے بعد)واپس آئے اور قرآن پڑھنے لگے۔ تو ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین، آپ (قرآن) پڑھتے ہیں، جب کہ آپ وضو سے نہیں ہیں۔ عمر نے ان سے کہا: کس نے تم کو یہ فتویٰ دیا ہے؟ کیا مسیلمہ (کذّاب)نے ؟
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ بالکل بے بنیاد ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو چھونے کے لیے کوئی شرط نہیں ۔ کیوں کہ قرآن سب کے لیے ہے۔ ہدایت پائے ہوئے لوگوں کے لیے بھی، اور ہدایت کے طالب علموں کے لیے بھی۔ قرآن کے مطالعے کےلیے وضو کی شرط لگانا، ایک بے بنیاد شرط ہے۔ قرآن ہر حال میں پڑھا جاسکتا ہے، خواہ آدمی باوضو ہو، یا بے وضو۔ جس طرح حافظے سے قرآن کوپڑھنے کے لیے وضو کی شرط نہیں ہے، اسی طرح مصحف کو پڑھنے کے لیے بھی وضو کی شرط نہیں ہے۔ حضرت عمر فاروق کا یہ عمل اس معاملے میں ایک روشن حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی نے تدبر قرآن میں سورہ الواقعہ ( 56 )کی آیت 79 کے تحت درست طور پر لکھا ہے کہ جن فقہا نے قرآن کی زبانی تلاوت یا اس کو ہاتھ لگانے تک کے لیے بھی طہارت کی وہ شرطیں عائد کی ہیں جو نماز کے لیے ضروری ہیں ان کے اقوال غلو پر مبنی ہیں۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس وجہ سے وہ ہر پہلو سے لائق تکریم ہے، لیکن وہ ہمارے لیے ہر قدم پر حق و باطل اور خیر و شر کے جاننے کا ذریعہ اخذ و استنباط کا حوالہ اور استدلال کا مرکز بھی ہے۔ اگر اس کو ہاتھ لگانے یا اس کی کسی سورة یا آیت کی تلاوت کرنے یا حوالہ دینے کے لیے بھی آدمی کا طاہرو مطہر اور باوضو ہونا ضروری قرارپا جائے تو یہ ایک ایسی تکلیف مالا یطاق ہوگی جو دین فطرت کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس طرح کی غیر فطری پابندیاں عائد کرنے سے قرآن کی تعظیم کا وہی تصور پیدا ہوگا جس کی تعبیر سیدنا مسیح علیہ السلام نے یوں فرمائی ہے کہ تمہیں چراغ دیا گیا کہ ا س کو گھر میں بلند جگہ رکھو کہ سارے گھر میں روشنی پھیلے ،لیکن تم نے اس کو پیمانے کے نیچے ڈھانپ کر رکھا ہے۔
قرآن کا یہ استعمال ذاتی مطالعے کے لیے بھی کیا جاسکتا ہے، اور تبلیغ و دعوت کے لیے بھی۔ دونوں صورتوں میں وضو کی کوئی شرط نہیں ہے۔ آدمی باوضو ہو، تب بھی درست ہے، اور آدمی بے وضو ہو، تب بھی درست ہے۔ اگر وضو کی شرط لگائی جائے تو غیر مسلموں کو بطور دعوت قرآن پڑھنے کے لیے دینا عملاً ناممکن ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں