خدا کا عقیدہ
کائنات کا ایک خدا ہے، جو اس کا خالق اور مالک ہے۔ اس خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل خود وہ کائنات ہے، جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے۔ کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ پکار رہی ہے کہ ایک عظیم خدا ہے، جس نے اس کو بنایا ،اور اپنی بے پناہ طاقت سے اس کو چلا رہا ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ ہم کائنات کو مانیں، اور اسی لیے ہم مجبور ہیں کہ ہم خدا کو مانیں۔ کیوں کہ کائنات کو ماننا اس وقت تک بے معنی ہے، جب تک اس کے خالق ومالک کو نہ مانا جائے۔ کائنات اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ کسی بنانے والے کے بغیر بن نہیں سکتی ،اور اس کا نظام اتنا عجیب ہے کہ وہ کسی چلانے والے کے بغیر چل نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے پر آدمی اس طرح مجبور ہے، جس طرح اپنے آپ کو یا کائنات کو ماننے پر۔
آپ سائیکل کے پہیے پر ایک کنکری رکھیں، اور اس کے بعد پیڈل چلا کر پہیے کو تیزی سے گھمائیں تو کنکری دور جاکر گرے گی۔ حالاں کہ سائیکل کے پہیے کی رفتار مشکل سے 25 میل فی گھنٹہ ہے۔ ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، وہ بھی ایک بہت بڑے پہیے کی مانند ہے۔ زمین اپنے محور پر مسلسل ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یہ رفتار سواری کے عام ہوائی جہازوں سے زیادہ ہے۔ ہم اس تیز رفتار زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔ گھر اور شہر بناتے ہیں۔ مگر ہمارا وہ حال نہیں ہوتا، جو گھومتے ہوئے پہیے پر رکھی ہوئی کنکری کا ہوتا ہے۔ کیسا عجیب ہے یہ معجزہ۔
سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ زمین پر ہمارے قائم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ نیچے سے زمین بہت بڑی طاقت کے ساتھ کھینچ رہی ہے، جس کو قوت کشش کہا جاتا ہے،اور اوپر سے ہوا کا بھاری دباؤ ہم کو زمین کی سطح پر روکے رہتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ہم کو زمین پر تھامے ہوئے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہم پہیے کی کنکری کی طرح فضا میں اڑ نہیں جاتے۔ مگر یہ جواب صرف یہ بتاتا ہے کہ ہمارے آس پاس ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑا معجزہ موجود ہے۔ زمین میں اتنے بڑے پیمانے پر کھینچنے کی قوت ہونا، اور اس کے چاروں طرف ہوا کا پانچ سو میل موٹا غلاف مسلسل لپٹا رہنا صرف معاملے کی حیرت ناکی کو بڑھاتا ہے، وہ کسی بھی درجے میں اس کو کم نہیں کرتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز معجزہ ہے۔ آدمی مٹی کے اندر ایک چھوٹا سا دانہ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد حیرت انگیز طورپر وہ دیکھتا ہے کہ مٹی کے اندر سے ایک ہری اور سفید مولی نکلی چلی آرہی ہے۔ وہ دوسرا دانہ ڈالتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اندر سے میٹھا گاجر نکلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح بے شمار دوسری چیزیں۔ کسی دانے کو مٹی میں ڈالنے سے امرود نکل رہا ہے۔ کسی دانے کو ڈالنے سے آم۔ کسی دانے سے شیشم کا درخت نکلا چلا آرہا ہے، اور کسی دانے سے چنار کادرخت۔ پھر ان میں سے ہر ایک کی صورت الگ، ہر ایک کا مزہ الگ، ہر ایک کے فائدے الگ، ہر ایک کی خاصیتیں الگ۔ ایک ہی مٹی ہے، اور ناقابلِ لحاظ چھوٹے چھوٹے بیج ہیں، اور ان سے اتنی مختلف چیزیں اتنی مختلف صفتوں کو لیے ہوئے نکل رہی ہے، جن کی گنتی نہیں کی جاسکتی۔
حیرت ناک معجزوں کی ایک پوری کائنات ہمارے چاروں طرف پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سارے انسان مل کر ایک ذرے کی بھی تخلیق نہیں کرسکتے وہاں ہر لمحہ بےشمار طرح طرح کی چیزیں پیداہوتی چلی جارہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اتنے بڑے معجزے ہیں کہ ان کے کمالات کو انسانی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو بتانے کے لیے ہماری لغت کے تمام الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ ہمارے الفاظ ان معجزوں کے اتھاہ کمالات کو صرف محدود کرتے ہیں۔ وہ کچھ بھی ان کا اظہار نہیں کرتے۔ کیا یہ معجزہ ایک خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آسکتا ہے۔
دنیا کی ہر چیز ایٹم سے بنی ہے۔ ہر چیز اپنے آخری تجزیے میں ایٹموں کا مجموعہ ہے۔ مگر کیسا عجیب معجزہ ہے کہ کہیں ایٹموں کی ایک مقدار جمع ہوتی ہے تو سورج جیسا روشن کرہ بن جاتاہے۔ دوسری جگہ یہی ایٹم جمع ہوتے ہیں تو وہ بہتے ہوئے پانی کی صورت میں رواں ہوجاتےہیں۔ تیسری جگہ ایٹموں کا یہی مجموعہ لطیف ہواؤں کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ کسی اور جگہ یہی ایٹم زرخیز زمین کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔اسی طرح دنیا میں ان گنت چیزیں ہیں۔ سب کی ترکیب ایٹم سے ہوئی ہے۔ مگر سب کی نوعیت اور خاصیت جدا جدا ہے۔ اس قسم کی ایک معجزاتی کائنات اپنی بے شمار سرگرمیوں کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ بہت بڑے پیمانے پر دنیا میں جمع کردیا گیا ہے، اور ہر روز جمع کیا جارہا ہے۔ دنیا کو اپنے لیے قابلِ استعمال بنانے کی خاطر انسان کو خودجو کچھ کرنا ہے، وہ بہت تھوڑا ہے۔ کائناتی انتظام کے تحت بے حساب مقدار میں قیمتی رزق پیدا کیا جاتا ہے۔ ہم اس میں صرف اتنا کرتے ہیں کہ اپنا ہاتھ اور منھ چلا کر اس کو اپنے پیٹ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ارادے کے بغیر خود کار فطری نظام کے تحت غذا ہمارےاندر تحلیل ہوتی ہے، اور گوشت اور خون اور ہڈی اور ناخن اور بال اور دوسری بہت سی چیزوں کی صورت اختیار کرکے ہمارے جسم کا جزء بن جاتی ہے۔
زمین وآسمان کی بے شمار گردشوں کے بعد وہ حیرت انگیز چیز پیدا ہوتی ہے، جس کو تیل کہتےہیں۔ انسان صرف یہ کرتا ہے کہ اس کو نکال کر اپنی مشینوں میں بھر لیتاہے، اور پھر یہ سیال ایندھن انسانی تہذیب کے پورے نظام کو حیرت انگیز طور پر رواں دواں کردیتاہے۔ اسی طرح کائنات کے نظام کے تحت وہ ساری چیزیں بے شمار تعداد اور مقدار میں پیدا کی گئی ہیں، جن پر انسان صرف معمولی عمل کرتاہے، اور اس کے بعد وہ کپڑا، مکان، فرنیچر، آلات، مشینوں، سواریوں اور بےشمار تمدنی ساز وسامان کی صورت میں ڈھل جاتی ہیں۔ کیا یہ واقعات اس بات کے ثبوت کے لیے کافی نہیں کہ اس کا ایک بنانے والا اور چلانے والا ہے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ قدرت اپنے طویل اور ناقابلِ بیان عمل کے ذریعے ہر قسم کی چیزیں تیار کرکے ہم کو دے رہی ہے۔ انسان ان کواپنے حق میں کار آمد بنانے کے لیے بے حد تھوڑا حصہ ادا کرتا ہے۔وہ لوہے کو مشین کی صورت میں ڈھالتا ہے، اور تیل کو صاف کرکے اس کو اپنی گاڑی کی ٹنکی میں بھرتاہے۔ مگر اس قسم کے معمولی عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ خشکی اور تری فساد سے بھرگئے ہیں۔ قدرت نے ہم کو ایک انتہائی حسین اور خالص دنیادی تھی۔ مگر ہمارے عمل نے ہم کو دھواں، شور، غلاظت، توڑپھوڑ، لڑائی جھگڑا اور طرح طرح کے ناقابلِ حل مسائل سے گھیر لیا ہے۔ ہم اپنے کارخانوں یا تمدّنی سرگرمیوں کی صورت میں جو تھوڑا سا عمل کرتے ہیں، وہی عمل کائنات میں بےحساب گنا زیادہ بڑے پیمانے پر رات دن ہورہا ہے، مگر یہاں کسی قسم کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
زمین مسلسل دو قسم کی دوڑ میں لگی ہوئی ہے۔ ایک، اپنے محور (axis)پراور دوسری، سورج کے گرد اپنے مدار (orbit)پر، مگر وہ کوئی شور برپا نہیں کرتی۔ درخت ایک عظیم الشان کارخانہ کی صورت میں کام کرتے ہیں مگر وہ دھواں نہیں بکھیرتے۔ سمندروں میں بے شمار جانور ہر روز مرتے ہیں مگر وہ پانی کو خراب نہیں کرتے۔ کائنات کا نظام کھرب ہا کھرب سال سے چل رہا ہے۔ مگر اس کا منصوبہ اتنا کامل ہے کہ اس کو کبھی اپنے منصوبہ پر نظر ثانی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ بے شمار ستارے اور سیارے خلا میں ہر وقت دوڑ رہے ہیں۔ مگر ان کی رفتار میں کبھی فرق نہیں آتا، وہ کبھی آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ یہ تمام معجزوں سے بڑا معجزہ اور تمام کرشموں سے بڑا کرشمہ ہے، جو ہر لمحہ ہماری دنیا میں پیش کیا جارہا ہے۔ کیا اس کے بعد کوئی اور ثبوت چاہیے کہ آدمی اس کائنات کے پیچھے ایک عظیم خدائی طاقت کو تسلیم کرے۔
پھر زندگی کو دیکھیے۔ فطرت کا کیسا انوکھا واقعہ ہے کہ چند مادی چیزیں خود بخود ایک جسم میں یک جا ہوتی ہیں، اور پھر ایک ایسی شخصیت وجود میں آجاتی ہے، جو مچھلی بن کر پانی میں تیرتی ہے، جو چڑیا بن کر ہوا میں اڑتی ہے۔ طرح طرح کے جانوروں کی صورت میں زمین پر چلتی پھرتی ہے، انھیں میں وہ جان دار بھی ہے، جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ پراسرار اسباب کے تحت ایک موزوں جسم بنتا ہے، اور اس کے اندر ہڈیاں ایک انتہائی با معنی ڈھانچے کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ پھر اس کے اوپر گوشت چڑھایا جاتا ہے۔اس کے اوپر کھال کی تہیں اوڑھائی جاتی ہیں، بال اور ناخن پیدا کیے جاتے ہیں۔ پھر سارے جسم میں خون کی نہریں جاری کی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک خود کار عمل کے ذریعے ایک عجیب وغریب انسان بنتا ہے، جو چلتا ہے، جو پکڑتا ہے، جو دیکھتا ہے، جو سنتا ہے، جو سونگھتا ہے، جو چکھتا ہے، جو سوچتا ہے، جو یاد رکھتا ہے، جو معلومات جمع کرکے ان کو مرتب کرتا ہے، جو لکھتااور بولتا ہے۔ مردہ مادّے سے اس قسم کے ایک حیرت ناک وجود کا بن جانا ایک ایساانوکھا واقعہ ہے کہ معجزے کا لفظ بھی اس کے اعجاز (miracle)کو بتانے کے لیے کافی نہیں۔
اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے مٹی کو بولتے ہوئے سنا اور پتھر کو چلتے ہوئے دیکھا تو لوگ حیران ہو کر اس کی تفصیل دریافت کریں گے۔ مگر یہ انسان جو چلتا پھرتاہے، جو بولتا اور دیکھتا ہے آخر مٹی پتھر ہی تو ہے۔ اس کے اجزاء وہی ہیں، جو ’’مٹی اور پـتھر‘‘ کے ہوتے ہیں۔ مٹی اور پتھر کے بولنے اور دیکھنے کی خبر کو ہم جس طرح عجیب سمجھیں گے، اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعجب ہم کو اس مخلوق پر ہونا چاہیے جس کو انسان کہاجاتاہے۔ بے جان مادّے میں اس قسم کی زندگی اور شعور پیدا ہوجانا کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہاں ایک برتر ہستی ہے، جس نے اپنی خصوصی قدرت سے یہ عجیب وغریب معجزہ رونما کیا ہے۔
انسان اگر اپنے اوپر غور کرے تو بہ آسانی وہ خدا کی حقیقت کو سمجھ سکتاہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی صورت میں ایک ’’میں‘‘ زمین پر موجود ہے۔ اس کی اپنی ایک مستقل ہستی ہے۔ وہ دوسری چیزوں سے الگ اپنا ایک وجود رکھتا ہے۔ یہ ’’میں‘‘ بلا اشتباہ یقین رکھتا ہے کہ وہ ہے۔ وہ سوچتا ہے اور رائے قائم کرتاہے۔ وہ ارادہ کرتاہے، اور اس کو بالفعل نافذ کرتاہے۔ وہ اپنے فیصلہ کے تحت کہیں ایک رویہ اور کہیں دوسرا رویہ اختیار کرتاہے۔ یہی شخصیت اور قوت جس کا ایک آدمی اپنی ’’میں‘‘ کی سطح پر ہر وقت تجربہ کررہا ہے یہی ’’میں‘‘ اگر خدا کی صور ت میں زیادہ بڑےپیمانہ پر موجود ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننا ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو ماننا۔ اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ۔ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِیرَہُ( 75:14-15 )۔ آدمی اپنے واسطے آپ دلیل ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرت کرے ۔
لوگ خدا پر اور خدا کے پیغام پر یقین کرنے کے لیے معجزاتی دلیل مانگتے ہیں۔ آخر لوگوں کو اس کے سوا اور کون سا معجزہ درکار ہے، جو ناقابلِ قیاس حد تک بڑے پیمانے پر ساری کائنات میں جاری ہے۔ اگر اتنا بڑا معجزہ آدمی کو جھکانے کے لیے کافی نہ ہو تو دوسرا کوئی معجزہ دیکھ کر وہ کیسے ماننے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کو ماننے اور اس کے آگے اپنے آپ کو سرینڈر کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ہر وقت ہر آدمی کے سامنے موجود ہے۔ اس کے باوجود آدمی اگر خدا کو اور اس کے جلال وکمال کو نہ مانے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے ،نہ کہ کائنات کا۔
واپس اوپر جائیں