وطن سے محبت
28 مارچ 1998 کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک سیمینار تھا۔ اس کا اہتمام اردو اکادمی، دہلی کی طرف سے کیا گیا تھا۔اس موقع پر میں نے بھی ایک تقریر کی۔ میں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک حب الوطنی کا مسئلہ تھا۔
میں نے کہا کہ 20 ویں صدی میں لمبی مدت تک مسلم مفکرین کسی نہ کسی طور پر اس نظریہ سے متاثر رہے ہیں، جس کو عام طورپر پان اسلامزم (pan islamism)کہاجاتا ہے۔ اس میں دور جدید کے بہت سے مسلم مفکرین کےنام شامل ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کو ایک بین اقوامی برادری سمجھتے تھے، اور مسلمانوں کو ایک عالمی قومیت کا رکن بتاتے تھے۔ اپنے اس نظریے کی بنیاد پر ان کا کہنا تھاکہ قومیت (nationhood) کی بنیاد مذہب پر ہے، نہ کہ وطن پر۔
میں نے کہا کہ میری عمر ہجری کیلنڈر کے لحاظ سے 78 سال ہور ہی ہے۔ میں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ اسلام اوراسلام سے متعلق علوم کے مطالعے میں گزارا ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ قومیت کو مذہب پر مبنی قرار دینا کوئی اسلامی نظریہ نہیں۔ یہ سراسر ایک سیاسی نظریہ ہے، جو مخصوص حالات میں پیداہوا۔ 20 ویں صدی کے نصف اول میں مسلمان قائدین یورپی استعمار کے خلاف تمام دنیا کے مسلمانوں کو ابھارنا چاہتے تھے۔ اپنے اس سیاسی مقصد کے نظریاتی جواز کے لیے انھوں نے مذہبی قومیت کا مذکورہ نظریہ پیش کیا۔ یہ اسلام کا سیاسی استحصال تھا، نہ کہ اسلام کی حقیقی ترجمانی۔
اس معاملہ میں اسلام کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو پولیٹکل سائنس کا نقطۂ نظر ہے، اور جس کو تمام دنیا میں نظری یا عملی طورپر قبول کرلیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قومیت (nationhood) کی بنیاد وطن (motherland) پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دنیا میں پاسپورٹ پر کسی آدمی کی قومیت (nationality) وہی لکھی جاتی ہے، جو وطن کی نسبت سےاس کی ہے، خواہ وہ ایک مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو، یا دوسرے مذہب سے۔ مثلاً انڈیا میں ہر مسلمان یا غیر مسلمان پاسپورٹ میں اپنے آپ کو انڈین لکھتا ہے، برطانیہ میں برٹش، امریکا میں امریکن، وغیرہ۔
مبنی بروطن قومیت کا یہ نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس معاملہ میں اسلام اور بقیہ دنیا میں کوئی اختلاف یا ٹکراؤ نہیں۔ مولانا سید حسین احمد مدنی نے کہا تھا کہ موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا مدنی کا یہ جملہ خبر ہے، وہ انشاء نہیں۔ یعنی یہ ایک واقعہ ہے کہ بقیہ دنیا میں وطن کو قومیت کی بنیاد مان لیا گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام میں بھی قومیت کی بنیاد وطن پر قائم ہے۔
مگر یہ تشریح درست نہیں۔ اس سلسلے میں یہاں میں چند باتیں عرض کروں گا۔ فقہ کا ایک مستقل اصول یہ ہے کہ چیزوں کی اصل ان کا مباح ہونا ہے (الأصل فی الأشیاء الإباحة):
Everything is lawful unless it is declared unlawful.
یہ ایک واضح بات ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں قرآن وحدیث میں کوئی براہِ راست ہدایت موجود نہیں۔ قرآن وحدیث میں نہ یہ کہا گیاہے کہ قومیت کی بنیاد مذہب پر ہے، اور نہ یہ کہ اس کی بنیاد وطن پر ہے۔ اس لیے اس معاملے کو ان امور سے متعلق سمجھا جائے گا ،جن کی بابت پیغمبر اسلام نے کہا:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْیَاکُمْ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2363)۔ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملہ کو زیادہ جانتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک عقیدہ ،عبادت اور آخرت کے معاملات کا تعلق ہے، ان میں مسلمان پابند ہیں کہ وہ شریعت کی رہنمائی کو تاویل کے بغیر قبول کریں، مگر جو امورانتظام دنیا سے تعلق رکھنے والے ہیں، ان میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے حالات کے لحاظ سے جس طریقہ کو درست سمجھے اس کو اختیار کرے۔
اس معاملے میں ایک پیغمبرانہ واقعے سے مزید رہنمائی ملتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یمن میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا اس کا نام مسیلمہ تھا۔ اس نے دو آدمیوں پر مشتمل اپنا ایک سفارتی وفد مدینہ بھیجا ۔انھوں نے مدینہ آکر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی، اور مدعی نبوت کا یہ تحریری پیغام پہنچایا کہ میں نبوت میں آپ کے ساتھ شریک کیا گیا ہوں (فَإِنِّی قَدْ أُشْرِکْتُ فِی الْأَمْرِ مَعَکَ)۔ سفارتی امور پر گفتگو کرنے کے بعد آپ نے ان دونوں سفیروںسے پوچھا کہ اس بارے میں تمہاری ذاتی رائے کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری بھی وہی رائے ہے جو ہمارے صاحب کی رائے ہے۔ یہ سن کر آپ نے کہا کہ خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا (أَمَا وَاَللَّہِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا) سیرة ابن ہشام، جلد2، صفحہ 600۔
پیغمبرِ اسلام کے اس واقعہ سے اسلام کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ بین اقوامی معاملات میں شریعت کا طریقہ بھی وہی ہوگا، جو دوسری قوموں کا طر یقہ ہے۔ دوسری قوموں میں اگر سفیر کی جان کو ہر حال میں محترم سمجھا جاتا ہے، تو اسلام میں بھی اس کو ہر حال میں محترم سمجھا جائے گا۔ اسی طرح اس پر قیاس کرتےہوئے یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ وطنیت کے معاملہ میں دنیا میں جس اصول کو عمومی طور پر مان لیا جائے وہی شریعت میں بھی اختیار کرلیا جائے گا۔ اس معاملہ کو غیر ضروری طورپر عقیدہ اور مذہب کا مسئلہ نہیں بنایا جائے گا۔
ایک بار میں ایک جلسہ میں شریک تھا۔ وہاں ایک صاحب نے اپنی تقریر میں حب وطن کی اہمیت بیان کی، اور کہا کہ اسلام میں بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیاگیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیاہے : حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ (الدرر المنتثرۃ للسیوطی،حدیث نمبر 190)۔یعنی وطن سے محبت کرنا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایک عالم جو اس وقت جلسے میں موجود تھے، انھوں نے اس کی تردید کرتےہوئے کہا کہحُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ کوئی حدیث نہیں ہے، یہ تو صرف ایک عربی مقولہ ہے۔
میں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الإِیمَانِ حدیث نہیں۔مگر وہ سادہ طورپر صرف عربی کا ایک مقولہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا ایک مقولہ ہے ،جو انسانی نفسیات کی ترجمانی کرتاہے۔ محدثین عام طورپر اِس قول کو حدیثِ رسول نہیں مانتے، وہ اِس کو ضعیف یا موضوع قرار دیتے ہیں۔ تاہم کچھ علماء نے اس قول کو معنوی اعتبار سے درست قرار دیا ہے۔ مثلاً آٹھویں صدی ہجری کے مشہور عالم محمد بن عبد الرحمن السخاوی (وفات1497ء) نے اِس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے:لم أقف علیہ، ومعناہ صحیح (المقاصد الحسنۃ، حدیث نمبر 386 ) ۔ یعنی میں اِس سے واقف نہیں، لیکن اس کا مفہوم درست ہے۔ محدثین کے اصول کے مطابق، السخاوی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ یہ قول حدیثِ رسول کے طورپر ان کو نہیں ملا، لیکن دینِ اسلام میں اس کی اصل پائی جاتی ہے۔کتابوں کے ذخیرے میں بہت سی چیزیں ہیں، جو خواہ حدیث رسول نہ ہوں، لیکن وہ یقینی طور پر حدیثِ فطرت ہیں۔ اس بات کو بتانے کے لیے محدثین نے وہ اصول بنایا ہے، جس کو السخاوی کے حوالے سے اوپر بیان کیا گیا ۔
راقم الحروف کا خیال یہ ہے کہ یہ قول اگر کلامِ رسول کے طور پر ثابت شدہ نہ ہو، تب بھی وہ حدیث ِ فطرت ہے۔ جو آدمی حُبّ الوطنی کو فطرت کا جز نہ سمجھتا ہو، وہ جانتا ہی نہیں کہ فطرت کیا چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن سے محبت انسانی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور فطرت کا تقاضا ہونا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ حُبّ الوطنی (patriotism) کو اسلام کا ایک حصہ سمجھا جائے۔
میں نے کہا کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس لیے فطرتِ انسانی کا ہر صحیح تقاضا بھی عین اسلام کا تقاضا ہے۔ مثال کے طورپر حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا ہے کہ حب الام من الایمان (ماں کی محبت ایمان کا حصہ ہے) ۔اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہر مسلمان اس کو اپنا فرض سمجھتاہے کہ اس کے دل میں اپنی ماں سے محبت ہو۔ جس آدمی کے دل میں اپنی ماں کی محبت نہ ہو، وہ اپنے ایمان میں بھی کامل نہ ہوگا کیونکہ فطرت اور ایمان میں کوئی تضاد نہیں۔
وطن سے محبت بھی بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے ایک ایمانی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی جس ملک میں پیدا ہوا، جہاں اُس کی پرورش ہوئی، جہاں کی ہوا میں اس نے سانس لیا، جہاں کے لوگوں سے اس کے تعلقات قائم ہوئے، جہاں اُس نے اپنی زندگی کی تعمیر کی، ایسے ملک سے محبت کرنا انسانی شرافت کا تقاضا ہے، اور اِسی طرح وہ انسان کے ایمان واسلام کا بھی تقاضا ۔
میں نے کہا کہ جو چیز فطرتِ انسانی کا جز ہو، اس کو قرآن وحدیث میں لکھنے کی ضرورت نہیں وہ قرآن وحدیث میں لکھے بغیر ہی شریعت کا ایک لازمی جز ہے۔ قرآن وحدیث میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اے مسلمانو، تم اپنی ماں سےمحبت کرو۔ کیونکہ یہ چیز حکم کے بغیر اپنے آپ ہی فطرت کے زور پر حاصل تھی۔ اسی طرح قرآن وحدیث میں یہ لکھنے کی ضرورت بھی نہیں کہ اے مسلمانو، تم اپنے وطن سے محبت کرو۔ کیونکہ وطن سے محبت انسانی شرافت کا تقاضا ہے، وہ انسان ایک پست انسان ہے جس کے دل میں اپنے وطن کے لیے محبت نہ ہو۔ ایسے گہرے فطری تقاضے کے لیے شریعت میں کسی لفظی حکم کی ضرورت نہیں، وہ اپنے آپ ہر مومن کے دل میں پہلے ہی سے موجود ہوتاہے۔
یہاں ایک معاملے کی وضاحت ضروری ہے۔ بعض انتہا پسند لوگوں نے لکھا ہے کہ ہندستان کے عیسائی اور مسلمان سچے محب وطن نہیں ہوسکتے۔ اس لیےکہ محب وطن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس وطن یا اس جغرافی خطہ کو آدمی مقدس سمجھتا ہو، جہاں وہ پیداہوا ہے۔ ہندو چونکہ اپنے وطن (ماتر بھومی) کو مقدس سمجھتا ہے، اور اس کو معبود کا درجہ دیتاہے۔ اس لیے وہی بھارت کا سچا محبِ وطن (دیش بھکت) ہے۔ عیسائی اور مسلمان چونکہ اپنے مخصوص عقیدے کی بنا پر زمین یا کسی زمینی خطے کو معبود کی طرح مقدس نہیں سمجھ سکتے، اسی لیے وہ بھارت کے سچے دیش بھکت بھی نہیں ہو سکتے۔
یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے خود ساختہ عقیدے کی بناپر اپنی ماں کو معبود مان لے، اور اس کی پر ستش کرنے لگے، تو اس بنا پر اس کو یہ کہنے کا لائسنس نہیں مل جائے گا کہ اس کے سوا بقیہ لوگ اپنی ماں سے محبت نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنی ماں کو معبود نہیں سمجھتے۔ کسی شخص یا گروہ کو بلاشبہ یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی ماں کو یا اپنے وطن کو معبود سمجھنے لگے۔ مگر کسی بھی قانون یا اصول کی بنا پرایسے لوگوں کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ دوسروں کے بارےمیں یہ حکم لگائیں کہ وہ اپنی ماں کو یا اپنے وطن کو معبود مانیں، ورنہ وہ اپنی ماں سے محبت کرنے والے قرار پائیں گے، اور نہ اپنے وطن سے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کا تعلق عالمی سطح پر مانے ہوئے رواج سے ہے، نہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اپنے مفروضہ سے۔ عالمی اور بین اقوامی سطح پر جب یہ مان لیا گیا ہے کہ قومیت کی بنیاد وطن پر ہے، اور وطن سے مرادمعروف معنوں میں جغرافی وحدت ہے، نہ کہ پُراسرار معنوں میں تقدیسی وحدت۔ اس لیے حب الوطنی (patriotism)کا معیار ہر ایک کے لیے یہی ہوگا۔ البتہ ہر ایک کو یہ آزادی حاصل رہے گی کہ وہ اس کے علاوہ کوئی اورعقیدہ پسند کرتا ہو تو اس کو اپنے لیے اختیار کرلے۔
مادرِ وطن کہنا
ایک صاحب نے بذریعہ ای میل یہ سوال کیا کہ انڈیا کو مادرِ وطن کہنا جائز ہے، یا ناجائز۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مادرِ وطن کو جائزیا ناجائز کی اصطلاح میں بیان کرنا اس کو غیر ضروری طور پر شرعی مسئلہ بنانا ہے۔ یہ انتہاپسندی ہے کہ ہر چیز کو جائزیا ناجائز کا مسئلہ بنایا جائے۔ اس مزاج کو شریعت میں غلو کہا گیا ہے، اور قرآن و سنت میں غلو کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی وابصۃالاسدی رسول اللہ کے پاس آئے۔ وہ بہت سا سوال کرنا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے ان کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔ بلکہ یہ کہا:اسْتَفْتِ قَلْبَکَ (مسند احمد، حدیث نمبر18006)۔ یعنی اپنے دل سے فتویٰ پوچھو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات کو شرعی مسئلہ نہ بنائو۔ بلکہ اپنی فطرت کی آواز کی پیروی کرو۔
جو لوگ انڈیا کو مادرِ وطن کہتے ہیں۔ وہ اس معنی میں نہیں کہتے کہ وہ اسی جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوکر نکلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ استعارہ (metaphor) کی زبان ہے۔ اصل یہ ہے کہ مادر وطن سے مراد وہی چیز ہے، جس کو دوسرے الفاظ میں وطن مالوف، مسقط ِرأس، ہوم لینڈ (homeland)، مقامِ پیدائش (birth place) ، جنم بھومی، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اگر بالفرض کچھ لوگ مادر وطن کا لفظ اس معنی میں بولیں کہ وہ وطن کے پیٹ سے اسی طرح پیدا ہوئے ہیں، جس طرح کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ ان کا اپنا معاملہ ہوگا، نہ کہ آپ کا معاملہ۔ آپ مادرِ وطن کا لفظ اپنے مفہوم میں بولیے۔ دوسرے لوگوں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ کس معنی میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی کی ایک حکمت ہے کہ کسی بات کو اس کی منطقی حد (logical end) تک نہ پہنچایا جائے۔
مادر وطن (بھارت ماتا) کی اصطلاح انیسویں صدی کے آخری زمانے میں شروع کی گئی۔ یہ آزادی کی تحریک چلانے والے لیڈروں نے سیاسی مقصد کے تحت استعمال کیا تھا۔ اس اصطلاح کا کوئی مذہبی پس منظر نہیں۔
واپس اوپر جائیں