اسلام اور سائنس
اس مختصر مقالہ میں مجھے اس سوال کی تحقیق کرنی ہے کہ مسلمان موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں پیچھے کیوں ہوگئے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان سائنس کی تعلیم میں اس لیے پیچھے ہیں کہ ان کا مذہب سائنس کی تعلیم کا مخالف ہے، یا کم ازکم اس کو پسند نہیں کرتا۔ مگر یہ بات حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن میں کثیر تعداد میں ایسی آیتیں موجود ہیں، جن میں مختلف طریقوں سے اس امر پر زور دیاگیا ہے کہ زمین وآسمان کی چیزوں پر غور کرو۔ پھر کیسے ممکن تھا کہ اسلام کے ماننے والے زمین و آسمان کی چیزوں کا مطالعہ نہ کریں، جس کا دوسرانام سائنس ہے۔ اسلام کے نزدیک کائنات کے مطالعہ کا سب سے پہلا فائدہ معرفت ہے، یعنی مخلوق کے ذریعے خالق کا مشاہدہ کرنا۔ تاہم جب لوگ کائنات کو قابل غور سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں، تو اس سے وہ چیز بھی برآمد ہوتی ہے جس کو سائنس کہاجاتا ہے۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کی اپنی تاریخ بھی اس کی تردید کرتی ہے۔ کیوں کہ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے سائنس کے شعبوں میں زبردست ترقی کی۔ حتی کہ جس زمانہ میں یوروپ کی قوموں نے سائنس کی راہ میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا تھا، اس وقت مسلمان سائنس کی راہ میں شاندار ترقیاں حاصل کرچکے تھے۔ برٹرینڈ رسل نےاس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے کہ 600ء سے 1000 ء تک کے دور کو ہم تاریک دور کہتے ہیں۔ یہ مغربی یوروپ کو غیر واقعی اہمیت دینا ہے۔ اسی زمانہ میں چین میں تُنگ کی حکومت تھی، جو کہ چینی شاعری کا اہم ترین دور ہے، اورکئی دوسرے پہلوؤں سے بہت اہم دور ہے۔ اسی زمانہ میں ہندستان سے لے اسپین تک اسلام کی شاندار تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ اس زمانہ میں جو چیز مسیحیت کے لیے کھوئی ہوئی تھی، وہ تہذیب کے لیے کھوئی ہوئی نہ تھی بلکہ اس کے برعکس تھی:
Our use of the phrase "the Dark Ages" to cover the period from 600 to 1000 marks our undue concentration on Western Europe. In China, this period includes the time of the Tang dynasty, the greatest age of Chinese poetry, and in many other ways a most remarkable epoch. From India to Spain, the brilliant civilization of Islam flourished. What was lost to Christendom at this time was not lost to civilization, but quite the contrary. (Bertrand Russell, A History of Western Philosophy, Woking UK, 1947, p. 420)
زمانہ سے آگے
قرون وسطی میں مسلمانوں نے طب اور سائنس کے میدان میں جوکارنامے انجام دیےہیں، وہ تعجب خیز حد تک عظیم ہیں۔ الرازی (865-932) اور ابن سینا(980-1037) اپنے وقت کے سب سے بڑے ماہرینِ طب تھے، جن کا کوئی ثانی اس وقت کی دنیا میں موجود نہ تھا۔ ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب علم طب پر ایک بنیادی کتاب ہے۔ وہ دنیا کے اکثر طبی اداروں میں بطور نصاب پڑھائی جاتی رہی ہے۔ حتی کہ فرانس میں وہ 1650ء تک داخل نصاب تھی:
Al-Qanun became a classic and was used at many medical schools, at Montpellier, France, as late as 1650 (11/828).
مسلمانوں کے یہ کارنامے عام طورپر مشہور اور معلوم ہیں۔ ان پر بے شمار کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہیں۔ تاہم اس سلسلہ میں ایک سوال ہے، اور یہ سوال اس کی توجیہہ کے بارے میں ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانکا (1984) کے مقالہ نگار نےاس کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:
The greatest contribution of Arabian Medicine was Chemistry and in the knowledge and preparation of medicines; many drugs now in use are of Arab origin, as also are such processes as distillation and sublimation. Often the chemistry of that time was mainly as search for the philosopher's stone, which supposedly would turn all common metals to gold. Astronomers were astrologers and chemists were alchemists. It is, therefore, surprising that, despite all this, the physicians of the Muslim empire did make a noteworthy contribution to medical progress. (11/828)
طب عربی کی سب سے بڑی خدمت کیمسٹری اور دواؤں کے علم اور ان کی تیاری کے بارے میں تھی۔ اکثر دوائیں جو آج استعمال ہوتی ہیں، ان کی اصل عرب ہی ہے۔ اسی طرح تقطیر اور تصعید جیسےعمل بھی۔ اس زمانہ کی کیمسٹری اکثر وبیشتر پارس پتھر کی تلاش کا نام تھی، جس کے متعلق یہ گمان کرلیاگیا تھا کہ وہ تمام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اس زمانہ کے فلکیات داں محض نجومی ہوتے تھے، اور کیمسٹری کے علماء صرف کیمیا گری کرتے تھے۔ اس لیے یہ تعجب خیز بات ہے کہ ان سب کے باوجود مسلم عہد کے اطباء نے طب کی ترقی میں قیمتی اضافے کیے۔
اسلام سائنس کا خالق
یہ باتیں وہ ہیں، جن کا عام طورپر مورخین نے اعتراف کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ جدید سائنس خود اسلام کی پیدا کردہ ہے۔ اسلام بلاشبہ سائنس کے لیے نہیں آیا۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سائنسی انقلاب خود اسلامی انقلاب کی ضمنی پیداوار ہے۔ اسلام اور سائنس کے اس تعلق کو بریفالٹ نےان الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ ہماری سائنس پر عربوں کا قرضہ صرف یہ نہیں ہے کہ انھوں نے حیران کن نظریات دیے۔ سائنس اس سے زیادہ عربوں کی مقروض ہے۔ یہ خود اپنے وجود کے لیے ان کی احسان مند ہے:
“The debt of our science to that of the Arabs does not consist in startling discoveries or revolutionary theories, science owes a great deal more to Arab culture, it owes its existence. The Astronomy and Mathematics of the Greeks were a foreign importation never thoroughly acclimatized in Greek culture. The Greeks systematized, generalized and theorized, but the patient ways of investigation, the accumulation of positive knowledge, the minute method of science, detailed and prolonged observation and experimental inquiry were altogether alien to the Greek temperament. Only in Hellenistic Alexandria was any approach to scientific work conducted in the ancient classical world. What we call science arose in Europe as a result of new spirit of enquiry, of new methods of experiment, observation, measurement, of the development of mathematics, in a form unknown to the Greeks. That spirit and those methods were introduced into the European world by the Arabs. (Robert Briffault, Making of Humanity, p. 34 )
یہ ایک علمی اور تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام سائنس کا خالق ہے۔ سائنس سادہ طورپر مطالعۂ فطرت (study of nature)کا نام ہے۔انسان جب سے زمین پر آباد ہے اسی وقت سے فطرت اس کے سامنے موجود ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فطرت کے مطالعہ اور تسخیر میں انسان کو اتنی زیادہ دیر لگی۔سائنس کی تمام ترقیاں پچھلے ہزار برس کے اندر ظہور میں آئی ہیں۔ جب کہ اصولاً انھیں لاکھوں سال پہلے ظاہر ہوجانا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ قدیم زمانہ میں شرک کا غلبہ ہے۔ شرک اس میں مانع تھا کہ آدمی فطرت کا مطالعہ کرے، اور اس کی قوتوں کو دریافت کرکے انھیں اپنے کام میں لائے۔شرک کیا ہے۔ شرک نام ہے فطرت کو پوجنے کا۔ قدیم زمانہ میں یہی شرک تمام اقوام کا مذہب تھا۔
For the ancient man, Nature was not just a treasure-trove of natural resources, but a goddess, Mother Earth. And the vegetation that sprang from the earth, the animals that roamed the earth’s surface, and the minerals hiding in the earth’s bowels, all partook of nature’s divinity, so did all natural phenomena — springs and rivers and the sea; mountains, earthquakes and lightening and thunder.
غرض زمین سے آسمان تک جو چیز بھی انسان کو نمایاں نظر آئی، اس کو اس نےاپنا خدا فرض کرلیا، اسی کا نام شرک ہے اور یہ شرک اسلام سے پہلے تمام معلوم زمانوں میں دنیا کا غالب فکر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم انسان کے لیے فطرت پرستش کا موضوع (object of worship)بنی ہوئی تھی۔ پھر عین اسی وقت وہ تحقیق کا موضوع (object of investigation) کیسے بنتی۔ یہی اصل وجہ ہے، جس کی بنا پر قدیم انسان اس طرف راغب نہ ہو سکا کہ وہ فطرت کا مطالعہ کرے۔ تمام قدیم زمانوں میں انسان فطرت کو خدا سمجھ کر اس کے سامنے جھکتا رہا ہے۔ فطرت کو مقدس نظر سے دیکھنا، انسان کے لیے اس میں روک بنا رہا کہ وہ فطرت کی تحقیق کرے ،اور اس کو اپنے تمدن کی تعمیر کے لیے استعمال کرے۔
آرنلڈٹائن بی نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ فطرت پرستی (شرک) کے اس دور کو سب سے پہلے جس نے ختم کیا وہ توحید (Monotheism) ہے۔ توحید کے عقیدے نے پہلی بار انسان کو یہ ذہن دیا کہ فطرت خالق نہیں، بلکہ مخلوق ہے۔ وہ پوجنے کی چیز نہیں، بلکہ استعمال کی چیز ہے۔ اس کے آگے جھکنا نہیں ہے، بلکہ اس کو تسخیر کرناہے۔ تاہم جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ توحید کے نظریہ کو پہلی بار اسلام نے عملی طورپر رائج کیا ،تو یہ انقلاب براہ راست اسلام کا کارنامہ قرار پاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خدا کے تمام پیغمبر توحید کا پیغام لے کر آئے۔ ہر دور میں خدا کے جن بندوں نے سچائی کی تبلیغ کی انھوں نے خالص توحید ہی کی تبلیغ کی۔ مگر اسلام سےپہلے کسی بھی دور میں ایسا نہیں ہوا کہ بڑی تعداد میں لوگ توحید کے نظریہ کو مان لیں اور توحید کی بنیاد پر انسانی معاشرہ میں وسیع انقلاب برپا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سے پہلے انسان کبھی توحید کے حقیقی ثمرات سےآشنا نہ ہوسکا۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، خدا کا ہر پیغمبر توحید کا پیغام لےکر آیا۔ مگر پچھلے پیغمبروں کے ساتھ یہ صورت پیش آئی کہ ان کے پیرو ان کے لائے ہوئے دین کی حفاظت نہ کرسکے۔ انھوں نے توحید میں شرک کی آمیزش کردی۔ مثال کے طورپر حضرت مسیح نے خالص توحید کا پیغام دیا، مگر ان کے بعد ان کے پیروؤں نے خود حضرت مسیح کو خدا سمجھ لیا۔ ان کا یہ مشرکانہ عقیدہ مختلف پہلوؤں سے سائنس کی ترقی کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ مثلاً کچھ علمائے فلکیات نے نظامِ شمسی کی تحقیق کی۔ وہ اس حقیقت تک پہنچے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مگر عیسائی علماء ایسے لوگوں کے سخت مخالف ہوگئے۔ اس کی وجہ ان کا مذکورہ مشرکانہ عقیدہ تھا۔ انھوں نے زمین کو خداوند کی جنم بھومی فرض کررکھا تھا، اس لیے ناقابلِ فہم ہوگیا کہ جس زمین پر خدا پیدا ہوا ہو، وہ زمین نظامِ شمسی کا مرکز نہ ہو، بلکہ اس کی حیثیت محض ایک تابع کی قرار پائے۔ اپنے مشرکانہ عقیدہ کو بچانے کے لیے انھوں نے سائنسی حقیقت کا انکار کردیا۔
دوسری بات یہ کہ پچھلے تمام پیغمبروںکامشن صرف اعلان کی حد تک جاسکا، وہ عملی انقلاب تک نہیں پہنچا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھی انسانی تاریخ کے پہلے گروہ ہیں جنھوں نے توحید کو ایک زندہ عمل بنایا۔ انھوں نے اولاً عرب میں شرک (مظاہر فطرت کی پرستش) کا مکمل خاتمہ کیا، اور توحید کو عملی طورپر انسانی زندگی میں رائج کیا۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے، اور قدیم زمانہ کی تقریباً تمام آباد دنیا میں شرک کو مغلوب کردیا۔ انھوں نے ایشیا اور افریقہ کے تمام بُت خانوں کو غیر آباد کر دیا، اور توحید کو ایک عالمی انقلاب کی حیثیت دے دی۔
اہلِ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو عالمی انقلاب آیا، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ توہم پرستی کا دور ختم ہو۔ اب مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹا دیاگیا۔ خدائے واحدانسان کا معبود قرار پایا۔ اس کے علاوہ جو تمام چیزیں ہیں، وہ سب صرف مخلوق بن کررہ گئیں۔انسانی تاریخ میں اسلام کے ظہور سے جو عظیم تبدیلی آئی، اس کا اعتراف ایک امریکی انسائیکلو پیڈیا میں ان الفاظ میں کیاگیا ہے کہ اسلام کے ظہور نے انسانی تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا:
Its advent changed the course of human history.
مظاہر فطرت کو پرستش کے مقام سے ہٹانے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ فوراً انسان کے لیے تحقیق اور تسخیر کا موضوع بن گئے۔ مظاہر فطرت کی تحقیق وتسخیر کے فکر کی ابتدا بالواسطہ انداز میں مدینہ میںشروع ہوئی۔ پھر دمشق اور بغداد اس تحقیق وتسخیر کے عملی مرکز بنے۔ اس کے بعد یہ لہر سمندر پار کرکے اسپین اور سسلی میں داخل ہوئی، وہاں سے وہ مزید آگے بڑھ کر اٹلی اور فرانس تک جا پہنچی۔ یہ تاریخی عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ جدید سائنسی انقلاب تک پہنچ گیا۔ مغرب کا سائنسی انقلاب اس اعتبار سے اسلامی انقلاب کا نقطۂ انتہا ہے۔ وہ توحید کے انقلاب کا سیکولر نتیجہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو اسلام سائنس کا بانی تھا، اور جس کے ماننے والے اپنے ابتدائی دور میں ساری دنیا کے لیے سائنس کے معلم بنے، اسی اسلام کے ماننے والے موجودہ زمانہ میں سائنس کی تعلیم میں دوسروں سے پیچھے کیوں ہوگئے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی ہے۔ مسلمانوں نےابتداء ً جو سائنسی انقلاب برپا کیا تھا، وہ اسپین تک پہنچنے کے بعد مغربی قوموں کی طرف منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد سائنس کی ترقیاں زیادہ تر اہلِ مغرب کے ہاتھوں ہوئیں۔ اس زمانہ میں بھی اگرچہ دنیا کا بڑا حصہ سیاسی طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں تھا، مگر سائنس کی ترقی کا کام صلیبی جنگوں کے بعد مغربی یورپ کے ذریعہ انجام پاتا رہا۔
مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور میں سائنس کے میدان میں جو ترقیاں کی تھیں، اس کا پہلا سب سے بڑا فائدہ ان کو دو سو سالہ صلیبی جنگوں (1095-1270) میں ہوا۔ اس جنگ میں تقریباً سارا یورپ متحدہ طاقت سےمسلم دنیا پر حملہ آور ہوا، تاکہ اپنے مقدس مقامات کو مسلمانوں کے قبضہ سے واپس لے۔ مگر انھیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ ان مہموں میں کروروں جانیں اور بے پناہ دولت قربان کردی گئی،اور جب یہ سب ختم ہوا تو یروشلم بدستور ’’بددینوں‘‘ کے قبضہ میں تھا:
Millions of lives and an enormous amount of treasure were sacrificed in these enterprises. And when all was done, Jerusalem remained in the possession of the “infidels”.
(Pears' Cyclopeadia, 1953-1954, p. 539 )
صلیبی جنگوں کا خاتمہ مسلمانوں کی کامل فتح اور مسیحی یورپ کی کامل شکست پر ہوا۔ مسلمانوں کی فتح ان کے لیےالٹی پڑی۔ اس کے برعکس عیسائیوں کو ان کی شکست کا زبردست فائدہ حاصل ہوا۔ مسلمان اپنی سیاسی فتح پر قانع ہو کر رہ گئے۔ کامیابی کے احساس نے ان کی عملی قوتوں کو ٹھنڈا کردیا۔
اس کے برعکس مسیحی یورپ کو اپنی ناکامی کا یہ فائدہ ملا کہ اس کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ اپنی کمزوریوں کو معلوم کرکے ان کی تلافی کرے۔ چنانچہ اس کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوئے، جنھوں نے زور وشور کے ساتھ یہ تبلیغ کی کہ مسلمانوں کی زبان عربی سیکھو، اور ان کی کتابوں کا اپنی زبان میں ترجمہ کرو۔ یہ رجحان یورپ میں تیزی سے پھیلا۔ مسلمانوں کی اکثر کتابیں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں، جو اس وقت یورپ کی علمی زبان تھی۔ یہ عمل کئی سو سال تک جاری رہا۔ ایک طرف مسلمان اپنی سیاسی کامیابی میں گم تھے، دوسری طرف یورپ علمی میدان میں مسلسل ترقی کررہا تھا۔
یورپ کا یہ علمی سفر جاری رہا۔ یہاں تک کہ 18ویں صدی آگئی جب کہ یوروپ واضح طورپر مسلم دنیا سے آگے بڑھ گیا۔مغربی یوروپ نے سائنس کو جدیدٹکنالوجی تک پہنچایا۔ اس نے دستکاری کی جگہ مشینی صنعت ایجاد کی۔ اس نے دستی ہتھیاروں کی جگہ دور مار ہتھیار بنا لیے۔ وہ برّی طاقت سے آگے بڑھا، اور ابتداء ً بحری طاقت، اور اس کے بعد فضائی طاقت پر قابو حاصل کرلیا۔ اس طرح مغرب بالآخر ایسی طاقت بن گیا، جس کا مقابلہ مسلمان اپنے موجودہ سازوسامان کے ساتھ نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ مغرب جدید قوتوں سے مسلح ہو کر دوبارہ جب مسلم دنیا کی طرف بڑھا تو مسلمان قومیں ان کو روکنے میں ناکام رہیں۔ مغربی قوموں نے مختصر عرصہ میںتقریباً پوری مسلم دنیا پر براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کرلیا۔
صلیبی جنگوںکے بعد مسلمان اپنی سیاسی فتح کے جوش میں سائنس سے دور ہوگئے تھے۔ موجودہ زمانہ میں یہی بات ایک اور شکل میں پیش آئی۔ مغربی قوموں کے مقابلہ میں سیاسی شکست نے موجودہ مسلمانوں کے اندر منفی رد عمل پیدا کیا۔ مغربی قوموں نے ان سے ان کا سیاسی فخر (political pride) چھینا تھا۔ چنانچہ وہ مغربی قوموں سے سخت متنفر ہوکر رہ گئے۔ اپنی رد عمل کی نفسیات کی وجہ سے انھوں نے نہ صرف مغربی قوموں کو برا سمجھا، بلکہ مغربی قوموں کی زبان، اور مغربی قوموں کے ذریعہ آنے والے علوم کو بھی وہ نفرت کی نظر سے دیکھنے لگے۔
ایک صدی کی پوری مدت اسی حال میں گزر گئی۔ مسلمان مغربی قوموں سے نفرت کرتے رہے، یا ان سے ایسی لڑائیاں لڑتے رہے، جو مسلمانوں کی کمتر تیاری کی وجہ سے صرف شکست پر ختم ہونے والی تھی۔ دوسری طرف دنیاکی دوسری قومیں مغربی زبان اور مغربی علم کو سیکھ کر تیزی سے آگے بڑھتی رہیں، یہاں تک کہ دونوں کے درمیان وہ بعید فاصلہ پیدا ہوگیا،جس کی ایک مثال ہم کو ہندستان میں نظر آتی ہے۔ مسٹر کلدیپ نائر (1923-2018)نے لکھا ہے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان تعلیم میں دو سو سال پیچھے ہیں۔ اگر اس کو گھٹایا جائے تب بھی یہ فاصلہ ایک سوسال کے بقدر ماننا ہوگا۔
مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگےبڑھیں، وہ سادہ معنوں میں محض علوم نہ تھے، بلکہ وہ دورِ جدید میں ہر قسم کی ترقی کی بنیاد تھے۔ چنانچہ جن قوموں نے ان علوم کو سیکھا، وہ دنیوی اعتبار سے دوسروں سے آگے بڑھ گئیں۔ مغربی قومیں اور ان کے پیروی کرنے والے تہذیب وتمدن میں مسلمانوں سے بدرجہا زیادہ فائق ہوگئے۔ یہی وقت ہے جب کہ مسلمانوں میں سرسید (1817-1898) اور اس قسم کے دوسرے مصلحین پیدا ہوئے۔ مگر یہاں پہنچ کر مسلم مصلحین سے تیسری غلطی ہوئی۔ وہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہوگئے۔ وہ مغربی تہذیب کی جڑوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہ دیکھ سکے۔ وہ مغرب کی طرف بڑھے۔ مگر ان کا بڑھنا مغرب کی تہذیب سے مرعوبیت کی بنا پر تھا،نہ کہ مغرب کی قوت کے اصل سرچشمہ (سائنس) کو سمجھ کر اس کو اختیار کرنے کے لیے تھا۔ چنانچہ اس قسم کے مصلحین کی ساری توجہ مغرب کی زبان، مغرب کے لٹریچر، مغرب کے تمدنی مظاہر پر رہی۔ یہ مغرب سے قریب ہونے والے بھی مغرب کی سائنس سے اسی طرح محروم رہے، جس طرح مغرب سے دور رہنے والے اس کی سائنس سے محروم تھے۔ سرسید نے انگلستان کا سفر کیا تو وہاں کی خاص چیز جو وہ اپنے ساتھ لائے وہ ایک صوفہ سیٹ تھا۔ اس کے بجائے اگر وہ سائنس کی کتابیں یا کوئی مشین اپنے ساتھ لاتے تو یقیناً وہ ہندستانی مسلمانوں کے لیے زیادہ بہتر تحفہ ہوتا۔ آخر وقت میں جب مسلمان مغربی تعلیم کی طرف مائل ہوئے، اس وقت بھی ان کے ذہن میں ساری اہمیت مغربی تہذیب کی تھی۔ مغربی سائنس سےوہ بدستور دو رپڑے رہے۔
سائنسی شعور
سائنس کے میدان میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کی وجہ اگر مختصر طورپر بتانی ہو تو وہ صرف ایک ہوگی — مسلمانوں میں سائنسی شعور نہ ہونا۔ہندستان کا زمین دار طبقہ جدید تجارت میں پیچھے کیوں ہوگیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر تجارتی شعور موجود نہ تھا۔ یہی واقعہ سائنس کے سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آیا۔ ایک یا ایک سے زیادہ اسباب کی بنا پر مسلمانوں کے اندر جدید دور میں سائنسی شعور پیدا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوںنے سائنس کی تعلیم کی طرف توجہ نہ دی، اور اگر توجہ دی بھی تو ادھوری شکل میں۔
اس کی ایک واضح مثال وہ فرق ہے جو مسلمانوں کے درمیان دینی تعلیم اور سائنسی تعلیم کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے اندر دینی تعلیم کی اہمیت کا شعور موجود تھا، اس لیے انھوں نے اس کا پورا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں سائنسی تعلیم کا شعور موجود نہ تھا، اس لیے وہ اس کا وہ اہتمام نہ کرسکے جس کے بغیر کسی قوم میں سائنسی تعلیم نہیں آسکتی۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم رہنماؤں کو جب جدید علوم کی طرف توجہ ہوئی تو انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں تو بنائیں مگر انھوںنے جدید علوم کی ابتدائی تعلیم کا نظام قائم نہیں کیا، جو کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جب کہ انھیں مسلمانوں میں دینی مدارس کی مثال اس سے بالکل مختلف نمونہ پیش کرتی ہے۔
مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں بڑے بڑے دینی مدرسے قائم کیے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ صرف بڑے بڑے مدرسے قائم کرکے بیٹھ جائیں۔ اسی کے ساتھ انھوںنے یہ بھی کیا کہ پورے ملک میں ابتدائی تعلیم کا مکتب کا نظام قائم کیا۔ یہی ابتدائی مکاتب دراصل وہ ادارے ہیں جو بڑے بڑے دینی مدرسوں کو غذا فراہم کرتے ہیں۔ اگر یہ ابتدائی مکاتب نہ ہوں تو تمام بڑے بڑے دینی مدرسے غیر آباد نظر آئیں۔
یہی بات جدید سائنس کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی ملحوظ رکھنے کی تھی۔ مسلم رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خوراک پہنچانے والے ابتدائی اسکول نہ ہوں، تو کالجوں اور یونیورسٹیوں کو طلبہ کہاں سے ملیں گے۔ ہندستان میں مثال کے طورپر ہندو اور عیسائی بہت بڑے پیمانے پر ابتدائی تعلیم کا نظام قائم کررہے تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے اس مثال سے کوئی سبق نہیں لیا۔ انھوںنے کالج اور یونیورسٹیاں بنانے کے لیے زبردست کوشش کی، مگر ابتدائی اسکول قائم کرنے کی طرف اتنا کم دھیان دیا کہ وہ نہیں کے برابر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہم یہ منظر دیکھتے ہیں کہ مسلم کالج اور اسلامی یونیورسٹی تو ہمارے پاس موجود ہیں مگر اس کے اندر مسلم طلبہ موجود نہیں۔ کیوں کہ ان بڑے اداروں کو غذا پہنچانے والے چھوٹے ادارے نہیں۔ مسلمانوں نے اپنے بچوں کو مذہبی جذبے کے تحت ہندو اور عیسائی یا گورنمنٹ کےابتدائی اسکولوں میں بھیجنا پسند نہیں کیا، اور خود ان کے اپنے ابتدائی اسکول موجود نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کے بچوں کی ابتدائی تعلیم اس انداز پر نہ ہوسکی کہ وہ آگے بڑھ کر سائنس کے شعبوں میں داخلہ لے سکیں۔مسلم رہنماؤں کی اس غفلت کی وجہ جو بھی ہو، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ عملی طورپر یہ ایک بڑا سبب ہے، جس نے مسلم قوم کو سائنسی تعلیم میں پیچھے کردیا۔
بنیادی غفلت
سائنس کی تعلیم میں مسلمانوں کے پیچھے ہونے کا سبب ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ یہ ہوگا— مسلمان انگریز اور انگریزی میں فرق نہ کرسکے۔ انھوں نے استعماری قوموں اور استعماری قوموں کے ذریعے آنے والے علوم کو ایک سمجھا۔ اول الذکر سے سیاسی اسباب کے تحت انھیں نفرت پیدا ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ثانی الذکر سے بھی نفرت کرنے لگے۔ اگر وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرسکتے، تو یقینی طورپر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی سائنسی تاریخ دوسری ہوتی۔
ہر قوم کے کچھ اپنے قومی علوم ہوتےہیں۔ ان قومی علوم سے دوسری قوموں کو دلچسپی نہ ہونا ایک فطری بات ہے۔ مزید یہ کہ دوسری قومیں اگر ان قومی علوم سے دلچسپی نہ لیں تو اس سے انھیں کوئی حقیقی نقصان نہیں ہوتا۔مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک قوم ایک علم کو لے کر اٹھتی ہے لیکن حقیقة ً وہ اس کا قومی علم نہیںہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایک آفاقی علم کی ہوتی ہے۔ یہ علم اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمام قوموں کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ کسی ایک قوم کے لیے۔ وہ انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، نہ کہ کسی قوم کا انفرادی ورثہ۔
قدیم صلیبی جنگوں کے بعد یہی صورت حال مغربی قوموں کے ساتھ پیش آئی تھی۔ اُس وقت مسلمان سائنسی علوم کے حامل تھے، اور اسی بناپر وہ مغربی قوموں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے، اس وقت مغرب کی حیثیت مفتوح کی تھی، اور مسلمانوں کی حیثیت فاتح کی۔ اگر چہ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ مفتوح کےدل میں فاتح کے لیے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ فاتح کی ہر چیز کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے۔ مگر مغربی قوموں نے یہ نادانی نہیں کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔ انھوں نے مسلمانوں سے نفرت کی، مگر مسلمانوںکے علوم کو انھوں نے آگے بڑھ کر لیا۔ نیز اپنی کوششوں سے اس میں اتنے اضافے کیے کہ بعد کی صدیوں میں وہ ان علوم کے امام بن گئے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ وہ دوبارہ تاریخ کو اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب ہوگئے۔
یہی صورت حال موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آئی۔ مغربی قومیں ان کے لیے فاتح کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس لیے مغربی قوموں سے بیزاری ان کے لیے ایک فطری بات تھی۔ مگر یہاں مسلمان اس ہوش مندی کا ثبوت نہ دے سکے کہ وہ مغرب اور مغربی علوم کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھیں۔مغربی قومیں جن علوم کو لے کر آگے بڑھی تھیں، وہ ان کے قومی علوم نہ تھے، بلکہ وہ کائناتی علوم تھے۔ ان کی حیثیت قوت وطاقت کی تھی۔ دور جدید کے مسلم رہنما اگر اس راز کو بروقت جان لیتے، تو وہ مغربی علوم کو مغرب سے الگ کرکے دیکھتے۔ مغربی علوم کو وہ اپنے لیے طاقت سمجھ کر حاصل کرتے۔ وہ ان کو خود اپنی چیز سمجھتے ،نہ کہ غیر کی چیز۔ مگر یہاں دور جدید کے مسلم رہنما اس دانش مندی کا ثبوت نہ دےسکے۔انھوں نے بیک وقت مغرب سے بھی نفرت کی، اور مغربی علوم سے بھی۔ یہی وہ غلطی ہے، جس نے دور جدید میں مسلمانوں کو سائنس میں پیچھے کردیا۔ مسلم رہنماؤں نے ایک لمحہ کی غلطی کی تھی، مگر اس کا نتیجہ مسلم قوم کو صدیوں کی شکل میں بھگتنا پڑا:
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد
زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت شعور کی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، مسلمانوں نے جب صلیبی جنگوں میں مغربی اقوام پر فتح حاصل کی ،تو وہ فتح کے جوش میں مبتلا ہوگئے۔ اس جوش نے انھیں سائنس کی تحقیق سے غافل کردیا۔ اس کے بعد موجودہ زمانہ میں یہی واقعہ ایک اور شکل میں پیش آیا۔ مسلمان مغربی قوموں کے مقابلہ میں مفتوح ہوئے، تو ان کےاندر مغربی اقوام کے خلاف نفرت جاگ اٹھی۔ وہ نفرت کی نفسیات میں مبتلا ہو کر مغربی سائنس کی طرف سے بے رغبت ہوگئے۔ مسلمان اپنی بے شعوری کے نتیجہ میںفاتح کی حیثیت سے بھی نقصان میں رہے، اور مفتوح کی حیثیت سے بھی۔
واپس اوپر جائیں