خدا کی دریافت
Discovery of God
خدا کی فلسفیانہ تلاش (philosophical pursuit of God) کی تاریخ قدیم یونان کے دور تک جاتی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ پہلا یونانی فلاسفر تھیلز آف میلٹس (Thales of Miletus)تھا، جس کا زمانہ 624-546 قبل مسیح ہے۔ فلسفہ (philosophy) اپنی حقیقت کے اعتبار سے خالق کی تلاش کا نام ہے۔لیکن فلسفہ کبھی خالق کی دریافت میں کامیاب نہ ہوسکا۔ فلسفہ کا موضوع وجود ہے
Philosophy is the study of general and fundamental questions about existence, knowledge, values, reason, mind, and language.
یہ فلسفہ کے مضمون کا ظاہری بیان ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے فلسفہ خدا (supreme truth)کی علمی تلاش کا دوسرا نام ہے۔ تمام فلسفی کسی نہ کسی عنوان کے تحت حقیقت کی تلاش میں سرگرداں تھے، لیکن کوئی فلسفی اپنی تلاش میں کامیاب نہ ہوسکا۔ برطانی فلسفی برٹرینڈ رسل (1872-1970) کے بارے میں اس کے ایک سوانح نگار نے لکھا ہے کہ برٹرینڈ رسل ایک ایسا فلسفی تھا، جو اپنا کوئی فلسفہ ڈیولپ نہ کرسکا
Bertrand Russell was a philosopher of no philosophy
مگر یہ صرف ایک فلسفی کی بات نہیں۔ بلکہ تمام فلسفیوں کا معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہی ہے۔ حقیقت اعلیٰ (supreme reality) ہر فلسفی کی تلاش کا موضوع رہا ہے، لیکن کوئی فلسفی اپنی تلاش کا جواب نہ پاسکا۔
اس ناکامی کا راز یہ ہے کہ فلسفیوں کو اپنی تلاش کے لیے صحیح میتھڈالوجی کی دریافت نہ ہوسکی۔ قرآن میں صحیح طریق کار (methodology)کی نشاندہی کی گئی تھی، لیکن اس میتھڈالوجی کو انسان صرف اس وقت دریافت کرسکا، جب کہ اٹلی کے سائنس داں گلیلیو گلیلی (1564-1642)نے دوربین کو فلکیاتی مطالعے کےلیے استعمال کیا۔ گلیلیو گلیلی کو ماڈرن سائنس کا موجد (father of modern science) کہا جاتا ہے۔ جدید سائنس کا آغازاس وقت ہواجب انسان نے 1608ء میں ابتدائی طور پر دوربین ایجاد کی۔ گلیلیو نے 1609ءمیں دوربین کو مزید ڈیولپ کیا، اور پہلی بار دوربین کے ذریعے شمسی نظام (solar system) کا مطالعہ کیا۔
اس معاملے کا آغاز حقیقۃً ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیغمبر موسی کے تجربےسے ہوا۔ یہ قصہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے
وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِیقَاتِنَا وَکَلَّمَہُ رَبُّہُ قَالَ رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرَانِی وَلَکِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرَانِی فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَکَ تُبْتُ إِلَیْکَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِینَ ( 7:143 )۔
یعنی اور جب موسیٰ ہمارے وقت پر آگیا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے کہا، مجھے اپنے کو دکھا دے کہ میں تجھ کو دیکھوں۔ فرمایا، تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہے تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلّی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور موسیٰ بےہوش ہو کر گرپڑا۔ پھر جب ہوش آیا تو بولا، تو پاک ہے، میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔
فلاسفہ خدا کی تلاش میں تو سرگرداں رہے، لیکن وہ کبھی یقین کے درجے میں خدا کی دریافت تک نہ پہنچ سکے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کا طریقہ غیر عملی تھا، فلسفیانہ طریقے پر خدا تک پہنچنے والے تمام اہل علم خدا کی تلاش کے لیے صحیح میتھڈ (right method) دریافت نہ کرسکے۔ یہ تمام لوگ خدا کو براہ راست دیکھنا چاہتے تھے، حالاں کہ خدا کی معرفت صرف بالواسطہ انداز میں ممکن تھی۔
ہر ایک نے یہ چاہا کہ وہ خدا کو براہ راست طور پر دریافت کریں، جیسے وہ عالم خلق کی دوسری چیزوں کو دریافت کرتے ہیں ۔ لیکن یہ طریقہ خالق (خدا) کے معاملے میں قابل عمل نہ تھا۔ اس لیے وہ کامیاب بھی نہیں ہوا۔ سیکولر فلاسفہ اور مذہبی متکلمین دونوں کا کیس اس معاملے میں ایک ہی ہے۔
اس معاملے کا صحیح طریق کار کیا ہے۔ اس کی رہنمائی تاریخ میں پہلی بار اسرائیلی پیغمبر حضرت موسی کے قصے میں ملتی ہے۔ پیغمبر موسی ساڑھے تین ہزار سال پہلے قدیم مصر میں پیدا ہوئے۔ ان کا قصہ تفصیل کے ساتھ قرآن میں آٰیا ہے۔ ان کے ساتھ یہ واقعہ کوہ طور پر پیش آیا، جو صحرائے سینا میں 2285 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس واقعہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کو براہ راست نہیں دیکھ سکتا۔ خدا کے وجود کا علم انسان کو صرف بالواسطہ طور پر حاصل ہوتا ہے، یعنی تخلیق (creation)پر غور کرکے خالق (Creator)کے علم تک پہنچنا۔ پیغمبر موسی کے تجربے کی صورت میں یہ رہنمائی تاریخ میں ساڑھے تین ہزار سال سے موجود تھی، لیکن اہل علم کبھی اس طریقہ کار (methodology)کو اختیار نہ کرسکے۔ وہ بدستور اس کوشش میں لگے رہے کہ وہ خالق کو براہ راست دریافت کرسکیں۔
حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہےإِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3062)۔یعنی بیشک اللہ ضرور ہی اس دین کی تائید فاجر آدمی کے ذریعے کرے گا۔ اس حدیث میں الرجل الفاجر سے مراد سیکولر انسان ہے۔ اس طرح حدیث میں مستند طور پر یہ سراغ (clue) موجود تھا کہ اس معاملے میں ایک سیکولر انسان ہوگا جو ابتدائی رہنمائی فراہم کرے گا۔ لیکن فلاسفہ اور مسلم متکلمین دونوں اس معاملے میں صحیح رہنمائی تک نہ پہنچ سکے۔
راقم الحروف لمبی مدت تک اس موضوع پر غور کرتا رہا ہے،اور آخر کار اس دریافت تک پہنچا کہ صحیح البخاری میں جس الرجل الفاجر (سیکولر انسان) کا ذکر ہے، وہ غالباًاٹلی کا سائنسداں گلیلیو گلیلی (Galileo Galilei) ہے، جو چار سو سال پہلے پیدا ہوا۔ اس معاملے میں گلیلیو کا رول چونکہ براہ راست نہیں تھا، بلکہ بالواسطہ تھا۔ یعنی اس کی دریافت سے بالواسطہ طور پر اس سوال کا جواب مل رہا تھا کہ خدا کی دریافت تک پہنچنے کا طریق کا ر (method) کیا ہے۔
گلیلیو گلیلی کے زمانے میں ایک واقعہ ہوا، جس کو نیوٹن کے ایپل شاک (apple shock) کی طرح ٹیلی شاک (tele-shock) کہا جاسکتا ہے، یعنی دوربین کی دریافت۔آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ گلیلیو جدید سائنس کا بانی تھا
Galileo was the “father of modern science.”
یہ ایک حقیقت ہے کہ گلیلیو سے سائنس میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن اس دور کے آغاز کا اصل سبب یہ تھا کہ اس زمانے میں دور بین (telescope) کو 1608 میں ابتدائی طور پر ہالینڈ میں ایجاد کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد 1609 میں گلیلیو نے اس دوربین کا ترقی یافتہ ورزن (developed version)خود سے تیار کیا،اورپہلی بار دور بین کو استعمال کرکے شمسی نظام (solar system)کا جزئی مشاہدہ کیا ۔ اس مطالعے کے ذریعے گلیلیو نے پہلی بار یہ دریافت کیا کہ ارسطو کا قدیم نظریہ غلط تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔
اس نظریے کو علم کی زبان میں ہیلیو سینٹرک تھیَری (heliocentric theory) کہاجاتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے دنیا میں جیو سینٹرک تھیَری (geocentric theory) کا رواج تھا۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جس طرح نیوٹن کی کشش ثقل کا نظریہ ایپل شاک کے واقعے کے بعد دریافت ہوا ، اسی طرح گلیلیو کی دریافت کا آغاز’’ٹیلی شاک‘‘ کے بعد پیش آیا۔ یہی واقعہ جدید سائنس (modern science)کے آغاز کا سبب بنا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دور بین کی ایجاد سے نئے سائنسی دور کا آغاز ہوا، اور اس امکان کو پہلی بار جس نے استعمال کیا، وہ اٹلی کا سائنس داں گلیلیو گلیلی تھا۔
گلیلیو کو جدید سائنس کا بانی اس لیے کہاجاتا ہے کہ گلیلیو نے ایک چیز کو دوسری چیز سے ڈی لنک (delink) کردیا۔ اس تعلق سے ڈاکٹر الکسس کیرل(1873-1944) لکھتے ہیں— گلیلیو نے چیزوں کی ابتدائی صفات کو، جو ابعاد اور وزن پر مشتمل ہیں، اور جن کی آسانی سے پیمائش کی جاسکتی ہے، ان ثانوی صفات سے الگ کردیا، جو شکل، رنگ اور بو وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں، اور جن کی پیمائش نہیں کی جاسکتی۔ کمیت کو کیفیت سے جدا کردیا
Galileo, as is well known, distinguished the primary qualities of things, dimensions and weight, which are easily measurable, from their secondary qualities, form, colour, odour, which cannot be measured. The quantitative was separated from the qualitative. The quantitative, expressed in mathematical language, brought science to humanity. The qualitative was neglected. (Man, the Unknown, New York, 1939, p. 278 )
کیفیاتی پہلو (qualitative aspect) کو کمیاتی پہلو (quantitative aspect) سے الگ کرنے کے معاملے کو الکسس کیرل نے بظاہر ایک منفی واقعے کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہی وہ واقعہ ہے، جو سائنس میں نئے انقلاب کا سبب بنا۔ اس علاحدگی (delinking) نے سائنسی تحقیق کے بند دروازے کو کھول دیا، جو فلسفہ کے زیر اثر سائنس پر بند پڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہر سائنسی شعبہ ، فزکس(physics)، فلکیات(astronomy)، کیمسٹری (chemistry)،وغیرہ ، میں تحقیقات ہونے لگی۔ ان تحقیقات کا براہ راست تعلق مذہب سے نہ تھا، مگر بالواسطہ طور پر وہ پوری طرح مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔ اب یہ ہوا کہ سائنس کے شعبوں میں آزادانہ طور پر تحقیق ہونے لگی۔ اس طرح جو سائنسی دریافتیں ہوئیں، وہ بالواسطہ طور پر خدا کے وجود کو ثابت کرنے والی تھیں۔
عملی طور پر گلیلیو گلیلی کے اس طریقِ کار کا مطلب تھا — اشیاء کے قابل مشاہدہ جزء (observable aspect)کو اشیاء کے ناقابل مشاہدہ جزء (unobservable aspect)سے الگ کردینا۔ اس سے پہلے اہل علم دونوں کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) نہیں کرسکے تھے۔ وہ ناقابل مشاہدہ پہلو کی دریافت میں مشغول ہونے کی بنا پر قابل مشاہدہ پہلو کی دریافت سے محروم بنے ہوئے تھے۔ اب یہ ہوا کہ سارا فوکس چیزوں کے قابل مشاہدہ پہلو پر آگیا۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ قابل مشاہدہ پہلو کو دریافت کرکے ناقابل مشاہدہ پہلو تک پہنچنا ممکن ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ علمی طور پر یہ ممکن ہوگیا کہ قابل مشاہدہ مخلوق کو دریافت کرکے ناقابل مشاہدہ خالق کی بالواسطہ معرفت حاصل کی جاسکے،یعنی وہ طریقہ جس کو استنباطی طریقہ (inferential method) کہا جاتا ہے۔
سائنسی تحقیق میں اس طریق کار کے استعمال کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابل دریافت ہوگئیں۔ چنانچہ بیسویں صدی میں اس موضوع پر بڑی تعداد میں مقالات اور کتابیں لکھی گئی ہیں۔یہاں اس قسم کی صرف ایک کتاب کا حوالہ دیا جاتا ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250(
اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔اس کا عربی ٹائٹل یہ ہے:اللہ یتجلی فی عصر العلم (مترجم: الدمرداش عبد المجید سرحان، مؤسسة الحلبى وشرکاہ للنشر والتوزیع، 1968)۔
راقم الحروف اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے اسی کام کو اپنا اصل موضوع بنایا۔ وسیع مطالعے کے بعد میں نے اس موضوع پر بہت سے مقالے اور کتابیں شائع کیں۔ ان میں سے ایک بڑی کتاب وہ ہے جو اردو زبان میں مذہب اور جدید چیلنج کے نام سے1966 میں شائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کیا۔ عربی ٹائٹل کا نام ہے الاسلام یتحدی۔ یہ عربی ورزن پہلی بار قاہرہ سے 1976میں چھپا اور یہ 196 صفحات پر مشتمل تھا۔اس کے بعد اس کے بہت سے ایڈیشن بار بار شائع ہوتے رہے ۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ، گاڈ ارائزز (God Arises)کے نام سےشائع ہوا۔ یہ کتاب 1987 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔
ان دو پہلوؤں کی تفریق (delinking) کے بعد جو سائنسی معلومات سامنے آئیں، ان کو استعمال کرکے مذہب کی صداقت از سرِ نو ثابت شدہ بن گئی۔ اس موضوع پر راقم الحروف نے کثیر تعداد میں مضامین لکھے ہیں۔ اگلے صفحات پر اس قسم کی کچھ مذہبی صداقتوںکا ذکر کیا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں