اسلامی دعوت
The Need for Re-orientation in Islamic Da‘wah
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن دعوت الی اللہ (اسلامی دعوت) تھا۔ آپ نے یہ کام 610 ء میں مکہ میںشروع کیا۔ اُس وقت آپ اِس مشن میں تنہا تھے، پھر دھیرے دھیرے لوگ اسلام قبول کرتے رہے۔اور آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ ابتدائی تیرہ سال تک اسلامی دعوت کا کام اسی طرح چلتا رہا۔ اُس وقت سارا فوکس اسلام کی بیسک آئڈیالوجی پر تھا، یعنی توحید اور آخرت۔
اُس وقت مکہ میں مشرکین کا غلبہ تھا۔ مکی دور کے آخر میں وہاں کے مشرک سرداروں نے محسوس کیا کہ اسلام کی تحریک اُن کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ ا ب انھوں نے سختی کا طریقہ اختیار کیا۔ وہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر تشدد کرنے لگے، یہاںتک کہ انھوںنے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر ڈالیں۔ اِس مقصد کے لیے وہ ضروری تیاریاں کرنے لگے۔ اُس وقت، پیغمبر اسلام کے ساتھیوں میں جوابی مقابلے کا ذہن پیدا ہوا۔ انھوں نے چاہا کہ اپنی طاقت کو مجتمع کرکے وہ مشرکین سے لڑیں۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر لوگوں کو خاموش کردیا کہ تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھے لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے (اصبروا فإنى لم أومر بالقتال) المواہب اللدنیة بالمنح المحمدیةجلد 1، صفحہ 199 ۔
اگر آپ کار پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سفر کریں تو درمیان میں بار بار دوسرے مقامات کو جانے والے راستے آتے ہیں۔ آپ اِن راستوں کی طرف نہیں جاتے، بلکہ اپنی گاڑی کو سیدھے رخ پر چلاتے رہتے ہیں، یہاںتک کہ آپ منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ اسلامی تحریک کا ہے۔ اسلامی تحریک کا اصل نشانہ دعوت الی اللہ ہے، مگر تحریک جب عملاً جاری ہوتی ہے تو سفر کے دوران بار بار موڑ کے مقامات آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ضروری ہوتا ہے کہ تحریک کو کسی اور طرف مڑنے سے بچایا جائے، اور اُس کا سفر دعوت الی اللہ کی منزل کی طرف جاری رکھا جائے۔
مکی دور کے آخر میں اِس قسم کی ایک صورت حال پیش آئی۔ اُس وقت اگر ایسا ہوتا کہ اہلِ ایمان کی جماعت، مشرکین کی جماعت کے ساتھ متشددانہ ٹکراؤ شروع کردے تو اِس کا مطلب یہ تھا کہ اسلامی تحریک، دعوت الی اللہ کی صراطِ مستقیم سے ہٹ کر قتال کی جانب مُڑ گئی۔ ایسا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ مشرک سردار اپنے مقصدمیں کامیاب ہوگئے۔
یہ وقت، دعوت کی سمتِ سفر کی دوبارہ تصحیح (re-orientation) کا تھا۔ اُس وقت پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ ہجرت کیا تھی، وہ فرار (flight) یا پسپائی نہ تھی، ہجرت دراصل ایک تدبیر تھی، جس کے ذریعے پیغمبر اسلام نے اسلامی دعوت کو متشددانہ ٹکراؤ کی طرف مڑنے سے بچایا۔ اِس تدبیر سے آپ کو یہ موقع مل گیا کہ دعوت الی اللہ کا جو کام آپ مکہ میںکررہے تھے، اس کو آپ مدینہ میںجاری رکھیں۔ ہجرت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مقامِ عمل کی تبدیلی تھی، نہ کہ سادہ طورپر ترکِ وطن۔ اِس تدبیر کا غیر معمولی فائدہ ہوا۔ چنانچہ اسلام تیزی سے مدینہ اوراطرافِ مدینہ میں پھیلنے لگا۔
مگر مکہ کے مشرک سرداروں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ انھوںنے اسلامی تحریک کو بزور ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مشرک سردار اُس وقت عرب میں سیاسی لیڈر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُن کو ہر قسم کے ذرائع حاصل تھے۔ ان کو وہ طاقت بھی حاصل تھی، جس کو موجودہ زمانے میں ٹرانس بارڈر ملٹری کیپیبلٹی (trans-border military capability) کہاجاتا ہے، یعنی سرحد کو پار کرکے حملہ کرنے کی صلاحیت۔
اب مکہ کے مشرک سرداروں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی فوج تیار کریں اور اقدام کرکے مدینہ پر باقاعدہ حملہ شروع کردیں۔ اِس معاملہ کا پہلا بڑا واقعہ وہ تھا، جس کو غزوۂ بدر (2 ہجری) کہاجاتا ہے۔ اس کے بعد غزوۂ اُحُد (3 ہجری) کا واقعہ پیش آیا۔ اِس طرح جھڑپوں کی صورت میں کئی متشددانہ واقعات پیش آئے۔
مشرکین مکہ کے جنگی ارادوں نے دوبارہ اسلامی تحریک کے لیے خطرہ پیدا کردیا کہ وہ دعوت الی اللہ کے راستے سے ہٹ کر قتال کے راستے کی طرف مڑ جائیں۔ اُس وقت دوبارہ اُس تدبیر کو اختیار کرنے کی ضرورت تھی، جس کو ہم نے ری اورین ٹیشن (re-orientation) کہاہے۔ اب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص تدبیر کے ذریعے مشرکین سے ختم ِ جنگ کا وہ معاہدہ فرمایا، جس کو معاہدۂ حدیبیہ (Hudaybiyah Agreement) کہاجاتاہے۔ یہ معاہدہ 6 ہجری میں طویل گفت وشنید کے بعد کیا گیا۔ اِس معاہدے میں پیغمبر اسلام نے مشرک سرداروں کی تمام شرطوں کو یک طرفہ طورپر مان لیا، صرف اِس لیے کہ آپ اُنھیں راضی کریں کہ وہ جنگ کا راستہ چھوڑ کر قیامِ امن کے طریقے کو اختیار کرلیں۔اِس معاہدے کا یہ تاریخ ساز فائدہ ہو ا کہ اسلامی تحریک جنگی انحراف سے ہٹ کر دعوت الی اللہ کے راستے پر آگئی۔ اِس کے بعد رسول اور اصحابِ رسول کو یہ موقع ملا کہ وہ نہ صرف عرب میں، بلکہ بیرونِ عرب تک اسلامی دعوت کے کام کو منظم طورپر پھیلا سکیں۔
حدیبیہ ایگری مینٹ کی اِسی غیر معمولی اہمیت کی بنا پر اُس کو فتح مبین (الفتح، 48:1 )کہا گیا ہے، یعنی کھلی ہوئی فتح۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ حدیبیہ ایگری مینٹ فریقِ مخالف کی شرطوں پر کیاگیا تھا۔ حتی کہ اس کے بارے میں صحابہ کی اکثریت کا یہ خیال تھا کہ یہ معاہدہ پسپائی کا معاہدہ ہے۔ اِس کے باوجود کیوں قرآن نے اس کو فتحِ مبین قرار دیا۔
قرآن کا یہ اعلان دراصل فطرت کے اس قانون کا بیان ہےکہ اس دنیا میں ٹکراؤ کے مقام پر پیچھے ہٹنے والے آگے بڑھتے ہیں۔ یہاں شکست پر راضی ہونے والے کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس دنیامیں ہار کا نتیجہ جیت کی صورت میں نکلتا ہے:
Success is the outcome of defeat.
بدقسمتی سے بعد کی صدیوں میں مسلمان اِس پیغمبرانہ حکمت کو بھول گئے۔ حدیبیہ اسپرٹ سے لوگ اتنا زیادہ غافل ہوگئے کہ بعد کی پوری تاریخ میں کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا، جو اِس عظیم حکمت کو سمجھے اور دوبارہ مسلمانوں کے اندر حدیبیہ اسپرٹ کو زندہ کرنے کی کوشش کرے۔ مزید بد قسمتی یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بھی بے خبری کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج ایسے لوگ تو بہت ملیں گے جو حدیبیہ کی بات کو پسپائی قرار دیں گے، لیکن ایسے لوگ تقریباً معدوم ہیں، جو حدیبیہ کے اندر چھپے ہوئے دعوتی امکانات کو سمجھ سکیں۔خلافتِ راشدہ کے بعد اسلام، سیاسی عظمت کے دور میں داخل ہوگیا۔ اب اسلام نے ایمپائر کی صورت اختیار کرلی— اُموی ایمپائر، عباسی ایمپائر، فاطمی ایمپائر، اندلسی ایمپائر، مغل ایمپائر، عثمانی ایمپائر، وغیرہ۔ یہ دور تاریخی اعتبار سے عظمت کا دور تھا، لیکن دعوت الی اللہ کے اعتبار سے وہ انحراف (diversion) کا دور بن گیا۔
اب مسلمانوں میں دعوتی ذہن کے بجائے سیاسی ذہن عام ہوگیا۔ اسی سیاسی ذہن کے تحت یہ کہاجانے لگا کہ مسلمان زمین میں خدا کے خلیفہ (vicegerent of God) ہیں۔ہمارا کام یہ ہے کہ ہم ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کریں۔ اِسی سوچ کے زیرِ اثر یہ نظریہ پیدا ہوا کہ مسلم ممالک ’دارالاسلام‘ ہیں اور غیر مسلم ممالک ’دار الحرب‘ یا ’دارالکفر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس نظریے کا یہ منفی نتیجہ نکلا کہ مسلمان دوسری قوموں کو مدعو کے بجائے حریف اور رقیب کے روپ میں دیکھنے لگے۔ مسلمان عمومی طورپر دعوت الی اللہ کے طریقےسے ہٹ کر سیاسی اقتدار کے منحرف راستے پر چلنے لگے۔
اِن بعد کی صدیوں میںاگرچہ عمومی سطح پر مسلمانوں کا ذہن یہی تھا، لیکن جُزئی طورپر مسلمانوں کے اندر ایسے گروہ اٹھتے رہے، جو غیر سیاسی میدان میں اسلام کو آگے بڑھاتے رہے۔ مثال کے طورپر محدثین نے سیاسی سرگرمیوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو حدیثِ رسول کی خدمت میںلگایا۔ صوفیا نے حکمرانوں سے دوری اختیار کرکے روحانی ارتقا کا کام کیا، جس کا فائدہ دعوت الی اللہ کے اعتبار سے بھی ظاہر ہوا۔ اِسی طرح ایسے علما پیدا ہوتے رہے جنھوں نے سیاسی جہاد سے الگ رہ کر مسجد اور مدرسے جیسے ادارے سنبھال لیے، اور اُن کے ذریعے بالواسطہ طورپر دعوت کی اسپرٹ زندہ رکھی۔
اِسی قسم کی غیر سیاسی شخصیتوں کا ایک بڑا کارنامہ وہ ہے، جو تیرھویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ تاتاری قبائل بعض وجوہ سے مسلمانوں کے مخالف بن گئے۔ انھوںنے ایک بڑا لشکر تیار کرکے عباسی سلطنت پر حملہ کردیا۔ انھوںنے سمرقند سے لے کر بغداد اور حلب تک، مسلم علاقے کو زبردست نقصان پہنچایا۔ انھوںنے ہلاکو خان کے زیر قیادت 1258 ء میں عباسی سلطنت کا خاتمہ کردیا۔ لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ ان تاتاری فاتحین نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ واقعہ اتنا حیرت انگیز تھا کہ مورخین نے اس کا مندرجہ ذیل قسم کے الفاظ میں اعتراف کیا:
The conquerors have accepted the religion of the conquered.
(T.W. Arnold, The Preaching of Islam, London, 1913, p. 2)
The religion of the Muslims had conquered, where their arms had failed. (P.K. Hitti, History of the Arabs, London, 1989, p. 488 )
انیسویں صدی عیسوی میں اسلام کی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوتی ہے۔ اب ایسا ہوا کہ مغربی قومیں جدید سائنس اور جدید ٹکنالوجی سے مسلح ہو کر مسلم علاقوں میں داخل ہوگئیں۔ انھوںنے ایشیا اور افریقہ کے مسلم ملکوں پر براہِ راست یا بالواسطہ قبضہ کرلیا۔ اِس دور کو نوآبادیاتی دور (colonial period) کہاجاتا ہے۔ اِس دور میں دعوت الی اللہ کے نقطۂ نظر سے سب سے بڑا انحراف پیدا ہوا۔ اب تمام دنیا کے مسلمان منفی ردّ عمل کا شکار ہوگئے۔ ہر جگہ ایسے مسلم لیڈر اٹھے، جومغربی قوموں کو اسلام کا دشمن بتا کر ان کے خلاف فکری یا عملی لڑائی لڑنے لگے۔
نوآبادیاتی دور ایک اعتبار سے گلوبل انٹریکشن (global interaction) کا دور تھا۔ جدید کمیونی کیشن کی بنا پر ایسا ہوا کہ ساری دنیا میں لوگوں کی آمد ورفت بڑے پیمانے پر ہونے لگی۔ اِس دوران قدرتی طورپر ایسا ہوا کہ مغربی قوموں کا انٹرایکشن مسلمانوں سے ہونے لگا۔ ایک نیا عملی شعبۂ استشراق (orientalism) پیداہوا جس کے تحت، مغربی علماء بڑے پیمانے پر اسلامی مضامین کا مطالعہ کرنے لگے۔
اسلام ایک فطری مذہب ہے، وہ انسان کی فطرت کو اپیل کرتا ہے، وہ ہر متلاشیٔ حق (seeker) کے لیے، اُس کی اپنی تلاش کا جواب ہے۔ اِس بنا پر ایسا ہوا کہ اسلام خود اپنے زور پر لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں داخل ہونے لگا۔ مغرب کے سنجیدہ افراد اپنے آپ اسلام قبول کرنے لگے۔ مثلاً برطانیہ میں لارڈ ہیڈلے فاروق، ہنگری میں ڈاکٹر عبد الکریم جُرمانوس، آسٹریا میں ڈاکٹر لیوپولڈ اسد، وغیرہ۔ تاہم یہ دعوتی عمل (da'wah process) زیادہ بڑے پیمانے پر جاری نہ ہوسکا۔ کیوں کہ زیادہ بڑے پیمانے پر دعوتی عمل جاری ہونے کے لیے ضرورت ہے کہ مسلمان براہِ راست دعوتی سرگرمیاں انجام دیں۔ مگر ابلیس نے اپنی تزئین کے ذریعے مسلمانوں کو غیر دعوتی کاموں کی طرف متوجہ کردیا۔ اِس بنا پر دعوتی عمل مسلمانوں کی مین اسٹریم (mainstream) میں داخل نہ ہوسکا۔
ابلیس یا شیطان یہ کام کس طرح کرتا ہے، اس کا جواب قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے حکم کے باوجود جب ابلیس، آدم (انسانِ اوّل) کے سامنے نہیں جھکا، تو خدا نے ابلیس کو ملعون قرار دیا۔اِس پر غصہ ہو کر ابلیس نے کہا کہ میں انسان کو تیرے راستے سے بھٹکاؤں گا میں ان کی اکثریت کو تیری رحمت سے دور کردوں گا( لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ أَجْمَعِینَ) الحجر، 15:39 ۔اِس آیت میں ’اِغوا‘ کا لفظ ہے۔ اغوا کے لفظی معنی ہیںسیدھے راستے سے بھٹکانا۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے لیے جہنم مقدر ہوگئی، اِس لیے انتقامی جذبے کے تحت اس نے کہا کہ میں تمام انسانوں کو تیرے راستے سے منحرف کردوں گا:
I will certainly cause them all to deviate.
ابلیس کے پاس انسان کو بھٹکانے کے لیے مختلف طریقے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ وہ ہے جو خاص طورپر اہلِ ایمان کے ساتھ مخصوص ہے۔ اہلِ ایمان کی امتیازی صفت یہ ہے کہ وہ پیغمبر ِ آخرالزماں کے بعد داعی الی اللہ کے حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ حیثیت بیک وقت دو اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ ایک، یہ کہ اگر دعوت الی اللہ کا کام رک جائے تو عام انسانوں کے لیے جنت کی طرف رہنمائی کا عمل ختم ہوجائے گا۔ دوسرے، یہ کہ دعوتی عمل چھوڑنے کی صورت میں خود اہلِ ایمان اپنی اہم ترین حیثیت کھو دیں گے۔ اس لیے اہلِ ایمان کے سلسلے میں ابلیس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اُنھیں دعوت الی اللہ کے کام سے غافل کردے۔
ابلیس یہ کام کس طرح کرتا ہے، اُس کا جواب ’اغوا‘ کے لفظ میں موجود ہے، جس کو ابلیس نے اپنے چیلنج کے وقت استعمال کیا تھا۔اغوا کا لفظی مطلب انحراف (deviation) ہے۔ اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں ابلیس کا طریقہ کیا ہے۔ وہ طریقہ توجہ کو پھیرنا (distraction) ہے۔ اِس کوشش میںاُس کا انحصار تزئین پر ہوتا ہے، یعنی دعوت کے سوا کسی اور چیز کو مزیّن کرکے یہ کوشش کرنا کہ لوگ دعوتی راستے کو چھوڑ کر کسی اور راستے کی طرف سرگرم ہوجائیں۔ دعوتی کام کی اہمیت کو گھٹانا، اور غیر دعوتی کا م کی اہمیت کو بڑھانا، یہ اِس معاملے میں ابلیس کا خاص حربہ ہے، جس کو وہ ہر زمانے کے مسلمانوں کے اوپر استعمال کرتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ نے نو آبادیاتی طاقتوں کو اتنا کم زور کردیا کہ وہ ایشیا اورافریقہ میں اپنے سیاسی قبضے کو باقی رکھنے کے قابل نہ رہے۔ چنانچہ دھیرے دھیرے نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوگیا۔ نوآبادیاتی دور نے مغل سلطنت اور عثمانی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا، اِس کے نتیجے میںعالمی سطح پر مسلمانوں کے اندر مغربی قوموں کے خلاف منفی ذہن پیدا ہوگیا۔ سیاسی ایمپائر کو کھونے کا غم مسلمانوں کے ذہن میں اتنی قوت سے بیٹھ گیا تھا کہ وہ یہ بھی بھول گئے کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے نے اُن کو نئی سیاسی زندگی دے دی ہے۔
پہلے اگر مسلمانوں کے خیال کے مطابق، انھوں نے اپنے پولیٹکل ایمپائر کو کھویا تھا تو اب قومی ریاستوں (nation states) کی صورت میں اُس کو دوبارہ انھوں نے مزید اضافے کے ساتھ حاصل کرلیا ہے۔ چنانچہ اب زمین کے مختلف حصوں میں 57 مسلم ریاستیں قائم ہیں۔ اِن مختلف ریاستوں کو آج جو ذرائع حاصل ہیں، وہ قدیم زمانے میں کسی بھی مسلم ایمپائر کو حاصل نہ تھے۔
جدید حالات نے مسلمانوں کے لیے دعوت کے نقطۂ نظر سے بہت سے نئے امکانات کھول دیے تھے۔ مثلاً کمیونی کیشن، مذہبی آزادی، عالمی انٹریکشن، وغیرہ۔ لیکن مسلمان اِن جدید مواقع کو دعوت الی اللہ کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ دوبارہ ایسا ہوا کہ وہ مختلف قسم کے انحرافات (distractions) کا شکار ہوگئے، اور دعوت کے راستےسے بھٹک کر دوسرے غیر دعوتی راستوں میںسرگرم ہوگئے۔ مثلاً مدعو سے نفرت اور متشددانہ ٹکراؤ، مدعو پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے مناظرہ، اپنا علاحدہ قومی تشخص برقرار رکھنے کے لیے کمیونٹی ورک، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں تقریباً عالمی پیمانے پر مسلم رہنماؤں نے یہ غلطی کی ہے کہ ہر جگہ سیاسی شکایتوں کو لے کر انھوں نے لڑائی چھیڑ دی، کہیں غیر مسلم قوموں سے اور کہیں خود اپنی سرزمین کے مسلم حکمرانوں سے۔ یہ لڑائی مسلم حکومتوں نے نہیں، بلکہ مسلم رہنماؤں نے اس کی قیادت کی۔ یہ بلاشبہ ایک غیر اسلامی فعل تھا۔ غیر مسلم قوموں سے مسلمانوں کو سیاسی، یا قومی شکایتیں لے کر لڑنا نہیں ہے، بلکہ شکایتوں کو نظر انداز کرکے پُرامن طورپر اُنھیں دعوتِ حق کا مخاطب بنانا ہے۔ سیاسی اور قومی شکایتوں کی بنیاد پر مدعوقوموں سے لڑائی چھیڑنا بلا شبہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن میں واضح طورپر یہ حکم دیاگیا ہے کہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ایذاؤں پر صبر کرو۔ شکایتی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، مثبت انداز میں انھیں حق کا پیغام پہنچاتے رہو۔
یہی معاملہ مسلم حکمرانوں کا ہے۔ علما کے اتفاقِ رائے کے مطابق، مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا حرام ہے۔ اِس معاملے میں مسلم رہنماؤں کے لیے کرنے کا کام صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مسلم حکمرانوں سے سیاسی ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے، دعوت اور تعلیم کے میدان میں پُر امن جدوجہد کریں اور ایسا کرتے ہوئے مرجائیں— مگر موجودہ زمانے میں علما اور رہنماؤں کی بڑی اکثریت نے اِس کے خلاف عمل کیا۔ اِس کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کا کام انجام نہ پاسکا، حالاں کہ وہ مسلمانوں کے اوپر فرض کے درجے میں ضروری تھا۔
مسلمانوں کا ایک اور گروہ ہے جس نے مسلم ٹکراؤ کا کام تو نہیں کیا، لیکن انھوںنے ایک اور کام کیا جو عملی ٹکراؤ سے کم نقصان دہ نہ تھا۔ یہ مناظرہ یا ڈبیٹ(debate) ہے۔ یہ لوگ متشدّدانہ ہتھیار استعمال نہیں کرتے، البتہ وہ اسٹیج پر لفظوں کے ذریعے وہی کام انجام دے رہے ہیں، جو دوسرے لوگ مقابلے کے میدان میں ہتھیاروں کے ذریعے انجام دے رہے ہیں۔ اِس قسم کے لوگ اپنے کام کو دعوت کا عنوان دیے ہوئے ہیں، حالاں کہ وہ دعوت نہیں ہے، بلکہ وہ مناظرہ یا ڈبیٹ ہے، اور مناظرہ یا ڈبیٹ کا دعوت سے کوئی تعلق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان شکست خوردہ نفسیات(defeatist mentality) میں مبتلا ہیں۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اِس احساس میں جی رہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں شکست کھاگئے ہیں۔ اب ایک خطیب اسٹیج پر کھڑا ہوتا ہے اور وہ لفظوں کی دنیا میں فاتحانہ مظاہرہ کرکے مسلمانوں کو یہ تسکین دیتا ہے کہ خواہ مقابلے کے میدان میں ہم دوسروں سے ہارچکے ہوں، لیکن اسٹیج کے اوپر ہم اُن کو شکست دے رہے ہیں۔ یہی نفسیات ہے جس کی بنا پر مسلمان ایسے خطیبوں کی باتوں پر تالیاں بجاتے ہیں اور اُس وقت خوب خوش ہوتے ہیں، جب کہ خطیب اسٹیج پر کھڑا ہوکر یہ کہتا ہے — اِن سب لوگوں کے اوپر بلڈوزر چلا دو:
Bulldoze them all!
ت ت ت ت ت ت ت ت
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں وسیع پیمانہ پر یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ آج کے انسان کو اسلام کی دعوت دی جائے ۔ مگر یہ اُسی وقت ممکن ہے جب کہ انسان کو اسلام پھولوں کا ایک گلدستہ معلوم ہو نہ کہ کانٹوں کا ایک مجموعہ ۔ وہ جب اسلام کا تعارف پائے تو اسے محسوس ہو کہ وہ اس کے اپنے دل کی آواز ہے ۔ یہ عین وہی دینِ رحمت ہے جس کی تلاش میں وہ مد توں سے سر گرداں تھا۔اس کے لیے داعی کو مدعو کی زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کرنا ہے ۔ یہ صبر اس لیے ہوتا ہے تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان اعتدال کی فضا باقی رہے ، وہ کسی حال میں بگڑنے نہ پائے ۔ آج کا انسان مذہبِ امن کی تلاش میں ہے ۔ ایسی حالت میں اہل اسلام کو یک طرفہ صبر کر کے ہر حال میں ٹکرا ئو کی روش سے باز رہنا ہے ، تاکہ اسلام کے مذہبِ امن ہونے کی حیثیت مدعو کی نظر میں مجروح نہ ہونے پائے ۔ آج کا انسان دینِ روحانیت کی تلاش میں ہے ۔ ایسی حالت میں اسلام کے داعیوں کو آخری حد تک اس سے پرہیز کرنا ہے کہ وہ اسلام کو اس انداز سے پیش کریں کہ جدید انسان کو وہ صرف سیاسی اور حکومتی نظام کی کوئی اسکیم نظر آئے ۔آج کا انسان اسلام کے دروازہ پر کھڑا ہوا ہے ، اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اسلام کا طالب ہے ۔ دعوت کا عمل اگر درست طور پر کیا جائے تو بیشتر انسان اسلام کو اپنے دل کی آواز پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں