سوال و جواب
سوال
یہاں ہمارے ساتھی اس بات سے منفی (negative) ہورہے ہیں کہ وہ دعوتی کام کرتے ہیں، لیکن لوگ تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ اس کا حل کیا ہو، اور اپنے دعوتی ساتھیوں کو کیسے سمجھایا جائے۔ (طارق بدر، پاکستان)
جواب
جو لوگ دعوت کے معاملے میں اس طرح کی منفی بات کہتے ہیں، ان کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ قرآن میں نبیوں کا تذکرہ ہے۔ انبیا ء وہ لوگ ہیں، جو دعوت کا معیاری ماڈل تھے۔ انھوں نے جب لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی تو اکثریت نے منفی رد عمل کا اظہار کیا۔ چنانچہ قرآن میں اس تجربے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یَاحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا یَأْتِیہِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُونَ ( 36:30 )۔یعنی افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے مقابلے میں منفی رد عمل کے باوجود انبیاء اپنا دعوتی کام کرتے رہے۔ انھوں نے لوگوں کی شکایت نہیں کی، اور نہ اپنا دعوتی کام چھوڑا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انبیاء جو دعوتی کام کرتے تھے، وہ مدعو کے لیے نہیں کرتے تھے، بلکہ اللہ کے لیے کرتے تھے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء دعوت کے کام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ دعوت کا کام کریں، ان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اس ماڈل کو اپنے سامنے رکھیں۔مثلاً پیغمبر اسلام آخری پیغمبر ہیں۔ آپ کی مثال بتاتی ہے کہ دعوت کا ایک اصول ری پلاننگ ہے۔ مکی دور کا طریقہ موثر نہیں ہوا، تو آپ نے دعوت کا دوسرا منصوبہ بنایا، اور یہ دوسرا منصوبہ اتنا زیادہ کامیاب ہوا کہ پوری قوم نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا۔ اس نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا ایک اصول ری پلاننگ ہے۔ اگر ایک طریقہ (method) موثر نہ ہو، تو داعی کو چاہیے کہ وہ دوسرے طریقہ کا تجربہ کرے۔ عین ممکن ہے کہ دوسرا طریقہ اللہ کی مدد سےکامیاب ثابت ہو۔
سوال
ایک سلفی عالم نے تقریر کی کہ چند لوگوں کا منہج دعوت کلام وفلسفہ اور اسلوب عصر حاضر ہے۔ مگر سلفیوں کا استدلال وحی کے مطابق ہے۔ پھر یہ آیت پڑھی:قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ ( 21:45 )یعنی کہو کہ میں بس وحی کے ذریعہ سے تم کو آگاہ کرتا ہوں، لا بالکلام ولا بالفلسفة (علم الکلام اور فلسفہ سے نہیں)۔اس پر میرا سوال یہ ہے کہ عصرحاضر کا ایک داعی اسلوب عصر کو اپناتا ہے تو کیا اس کو فلسفہ کہا جائے گا، اور اس کو وحی سے إنذار نہ کرنے کا ہم معنی قرار دیا جائے گا؟ (حافظ سید اقبال احمد عمری، تامل ناڈو)
جواب
’’وحی کے ذریعہ یا وحی کے موافق انذار‘‘ کسی مخصوص مسلک کے مطابق انذار نہیں ہے۔ اس میں سارا قرآن شامل ہے ۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت یہ ہے:سَنُرِیہِمْ آیَاتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِی أَنْفُسِہِمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ ( 41:53 )۔ اس آیت کے مطابق، آفاق و انفس کے مطالعے سے معلوم ہونے والی تمام نشانیاں اس میں شامل ہیں۔ آپ انفس اور آفاق کا مطالعہ کریں، اور اس سے حاصل کردہ معلومات کو اپنی دعوت میں استعمال کریں تو وہ سب انذار بالوحی میں شمار ہوگا۔ اگر آپ غور کیجیے تو آفاق و انفس کی نشانیوں میں سارے ثابت شدہ علوم شامل ہوجاتے ہیں۔ انذار بالوحی کسی فقہی مسلک پر مبنی انذار نہیں ہے، بلکہ سارے حقائق فطرت اس میں شامل ہیں۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ ( 42:30 ) ۔ اس آیت کے مطابق، اگر آپ ایسا کریں کہ مسلمانوں کو نصیحت کریں کہ دوسرے کے ظلم کی شکایت کرنا چھوڑیں ۔ہر ایسے تجربے کو خود اپنے محاسبہ کے خانے میں ڈالیں تو یہ بھی انذار بالوحی ہوگا، کیوں کہ قرآن سارا کا سارا وحی ہے، اور وحی یہ بتاتی ہے کہ جو مصیبت کسی کو پیش آتی ہے، وہ اس کی اپنی ہی کمزوریوں کی بنا پر ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے قومی مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا ، وحی کے خلاف ہے، اور مسلمانو ں کو خود اپنی اصلاح کی ترغیب دینا، وحی کے مطابق ہے۔ کیوںکہ قرآن کی یہ آیت ہم کو ایسا ہی بتار ہی ہے۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا ( 4:63 )۔ یعنی اور ان سے ایسی بات کہو جو ان کے دلوں میں اتر نے والی ہو۔ اس آیت میں قول بلیغ کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کا کام اس طرح کرو کہ پہلے مدعو کا مطالعہ کرو، مدعو کے ذہن کو سمجھو، اور پھر ایسے انداز میں اس سے بات کہو، جو اس کے ذہن کو ایڈریس کرنے والی ہو۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، سارے انسانی علوم دعوت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ مدعو کی نفسیات کو جاننے کے لیے جس علم کی ضرورت ہو، وہ سب علم دعوت کا مطلوب علم بن جاتا ہے۔ داعی کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ حسب استطاعت ہر اس علم سے واقفیت حاصل کرے، جو مدعو کو مطمئن کرنے والا ہو،حتی کہ حدود کے اندر کلام اور فلسفہ اور عصری اسلوب بھی۔
قرآن کی ایک آیت یہ ہے:وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ( 6:108 )۔ قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسی بات نہ کہو، جو مدعو کو مشتعل کرنے والی ہو۔ اس آیت کے مطابق، ہم کو بہت زیادہ محتاط زبان میں کلام کرنا چاہیے۔ اشتعال دلانے والا کلام (provocative speech) سے مکمل احتراز کرنا چاہیے۔ اگر غور کیجیے تو آج کل مسلمانوں کا سارا لکھنے اور بولنے والا طبقہ مدعو کے خلاف لکھنے اور بولنے میں مصروف ہے۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ تمھیں اس آیت کے مطابق، لکھنا اور بولنا چاہیے۔
انذار بالوحی کسی محدود اسلوب کلام کا نام نہیں ہے۔ اس میں سارا قرآن، ساری حدیث، ساری سنت شامل ہے۔ اس کے مطابق مسلم رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ جدال احسن کا طریقہ اختیار کریں (النحل، 16:125 )۔ وہ مناظرہ بازی کو بالکل ختم کردیں۔ وہ عادلانہ کلام کا طریقہ اختیار کرے، وہ عدل کے خلاف ہر گز نہ جائے(المائدہ، 5:8 )، الغاء فی الکلام نہ کریں(فصلت، 41:26 )، یعنی عیب زنی کا طریقہ اختیار نہ کریں۔ اس طرح کی سینکڑوں باتیں ہیں، جو انذار بالوحی میں شامل ہیں۔ جب کہ مسلمان عام طور پر اس کے خلاف طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان تمام باتوں کے لیے مسلمانوں کو نصیحت کرنا انذار بالوحی میں شامل ہے۔
سوال
انسان کے اندر گویا ایک پیمانہ رکھ دیا گیا ہےجس کو ہم ضمیر کہتے ہیں جس کے ذریعے وہ اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکے۔ یہاں پر یہ بات سمجھ آتی ہے کہ عام حالات میں اپنے عمل کا ذمہ دار خود انسان ہے، اور نتیجہ کے طور پر جزا اور سزا کا حق دار بھی۔ دوسرا ہے عقیدہ کا معاملہ, جو انسان کو اکثر وراثت اور ماحول سے ملتا ہے۔اسلام میں ہم کو بتایا جاتا ہے کہ ان معاملات میں جن کے اندر انسان کو تمیز حاصل ہے، ہوسکتا ہے اس کی غلطی پر اس کو معاف کردیا جائے، اور وہیں عقیدہ کے معاملہ میں جہاں کسی طرح کے شکوک کا سامنا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو رعایت نہیں دی جائے گی۔ کیا کچھ غیر مناسب نہیں لگتا۔ (ایک قاریٔ الرسالہ، ممبئی)
جواب
یہ سوال ایک غلط مفروضہ پر قائم ہے۔ سوال میں کہا گیا ہے کہ عقیدہ کا معاملہ انسان کو اکثر وراثت اور ماحول سے ملتا ہے۔یہ جملہ ایک غلط بنیاد پر قائم ہے۔ عقیدہ کا معاملہ ہرگز وراثت اور ماحول کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ سنجیدہ غور و فکر کے بعد حاصل ہونے والے یقین کا معاملہ ہے۔ آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کی کوشش کے ذریعہ اپنے عقیدہ کو درست بنائے۔ کیوں کہ اللہ کے یہاں صرف درست عقیدہ ہی قبول کیا جائے گا۔ غلط عقیدہ اللہ کے یہاں قابل قبول نہ ہوگا۔
آپ کا یہ جملہ بھی درست نہیں ہے کہ ان معاملات میں جن کے اندر انسان کو تمیز حاصل ہے، ہوسکتا ہے اس کی غلطی پر اس کو معاف کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی غلطی کی معافی اپنے آپ نہیں ہوجاتی، کسی غلطی کی معافی صرف اس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی کو اس پر ندامت (repentance) ہو، وہ دل سے توبہ کرے۔ وہ اپنی زندگی کے لیے نیا فیصلہ لے۔ اس کو قرآن میں توبۂ نصوح (التحریم، 66:8 ) کہا گیا ہے۔ توبۂ نصوح کے بغیرغلطی ، غلطی ہی رہے گی۔ توبۂ نصوح کے بغیر ہرگز کوئی غلطی معاف نہ ہوگی۔
سوال
ایک صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:مزاج کاملیت پسند ہے، جو جذباتی نقصان ہوگیا، دل آج تک اسی میں پھنسا ہوا ہے۔ کچھ اسباب کی بنا پر معاشرے میں جو مل رہا ہے، وہ دل سے قبول تو نہیں، لیکن کیا صبر کرکے جو مل رہا ہے اس پر گزارا کیا جائے، یہ سوچ کر کہ جو ملا ہے وہ اسی دنیا تک ہے۔ اور من پسند چیز آخرت میں ملے گی۔ (ایک قاری الرسالہ، پاکستان)
جواب
آپ نے جس تجربے کا ذکر کیا ہے، اس کا تعلق آخرت سے یا جنت سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق صرف دنیا کے بارے میں قانونِ فطرت سے ہے۔ موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ ہر آدمی پیدائشی طور پر حوصلہ مند (ambitious)پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس عارضی دنیا میں محدودیت (limitations) کا قانون ہے۔ اس لیے یہاں ہر شخص کو اس کے اپنے حوصلے کی نسبت سے کم ملتا ہے۔ تاریخ میں کوئی بھی شخص ایسا پایا نہیں جاتا، جس نے اپنے حوصلے کے بقدر دنیا کو حاصل کیا ہو۔
اس حقیقت کی بناپر اس دنیا میں انسان کے لیے دانشمندی یہ ہے کہ وہ — حقیقت پسند بنے، یعنی زیادہ چاہے، مگر کم پر راضی ہوجائے۔ موجودہ دنیا کا یہ قانون قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ( 2:155 )۔ یعنی اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔
یہ آیت موجودہ دنیا کے مادی قانون کو بتا رہی ہے۔ اس دنیا میں ایسا ہوگا کہ یہاں انسان کو مختلف پہلوؤں سے نقصان کا تجربہ ہوگا۔ کسی شخص کے لیے اس دنیا میں نقصان سے بچنا ممکن نہیں، نہ صالح لوگوں کے لیے ،اور نہ غیر صالح لوگوں کے لیے۔ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف ایک چوائس ہے، اور وہ صبر ہے۔ صبر کوئی بزدلی کی بات نہیں۔ صبر دانش مندی کی بات ہے۔ صبر کا مطلب ہے، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی ملے ہوئے پر کرنا، اور جو نہیں ملا اس کو خدا کی اسکیم آف تھنگس (scheme of things) کے خانے میں ڈال دینا ہے۔ یعنی جو ملا اس کو اپنا سمجھنا، اور جو نہیں ملا اس کے بارے میں اس اصول پر راضی ہوجانا کہ وہ خدا کا فیصلہ تھا، اور خدا کے فیصلے کو کوئی بدل نہیں سکتا۔
سوال
میں خدا سے کوئی قلبی تعلق محسوس نہیں کرتا، صرف جنت کی لالچ یا جہنم کا خوف مجھے عبادت کی جانب مائل کرتا ہے۔ اسی طرح میرا یہ سوال بھی ہے کیا اچھے اعمال کی بنیاد پر صرف جنت ملے گی، دنیا میں جو آرزوئیں ادھوری رہ گئی تھیں، وہ نہیں ملیں گی۔( جہانزیب کمال، کراچی)
جواب
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ جو بات کہہ رہے ہیں وہ انسانی نفسیات کے خلاف ہے۔ اس لیے مجھے شک ہے کہ آپ نے خود اپنے آپ کو دریافت نہیںکیا۔ اللہ رب العالمین اور جنت دونوں کو ماننا ایک دوسرے سے متعلق ہیں۔ جو آدمی اللہ رب العالمین کا طالب ہو گا، وہ اسی کے ساتھ جنت کا طالب بھی بن جائے گا۔ دونوں عقیدے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جنت کا طالب ہونا، اور خدا سے بے تعلق ہونا دو متضاد حالتیں ہیں۔ کیوں کہ جنت ایک مطلوب چیز ہے، اور اس مطلوب کو دینے والا (giver) صرف اللہ رب العالمین ہے۔ ایسی حالت میں بالکل فطری بات ہے کہ آپ دونوں کو لیں،یا دونوں کو چھوڑ دیں۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جنت ان افراد کے لیے ہے جو اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کریں۔ جو افراد اپنے اندر جنتی شخصیت بنائے، وہی جنت میں بسائے جانے کے قابل ٹھہریں گے۔ یہ مبہم قسم کے اعمال کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ اپنی شخصیت کی تعمیر کا معاملہ ہے۔
دنیا کی آرزوئیں پوری ہوئیں یا نہیں ۔ یہ اصل مسئلہ نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی آدمی نے جنت کے معیارکے مطابق اپنے آپ کو مستحق امیدوار (deserving candidate) بنایا یا نہیں بنایا۔ جنت میں جو افراد داخل کیے جائیں گے، وہ کبھی اس احساس سے دوچار نہ ہوں گے کہ اس کی فطری آر زوئیں پوری نہیں ہوئیں۔کیوں کہ جنت میں جو اعلیٰ معیار کی نعمتیں ملیں گی، اس میں وہ پوری طرح اس کے خواہش کی تکمیل موجودہوگی۔
õõõõõ
ایک نوجوان عالم دین، محمد طلحہ ندوی(بجنور) 26 مارچ 2019کو صدر اسلامی مرکز سےملنے کے لیے ان کے آفس میں آئے ، اور نصیحت کی درخواست کی، تو صدر اسلامی مرکز نے ان کو یہ نصیحت کی
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ ٹھہر ٹھہر کر بولنا سیکھیں، کبھی تیز تیز نہ بولیں، تاکہ سننے والا ہر بات کو پکڑتا چلاجائے، یہی طریقہ رسول اللہ کا تھا أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ یُحَدِّثُ حَدِیثًا لَوْ عَدَّہُ العَادُّ لَأَحْصَاہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر3567؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2493)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات اس طرح بولتے تھےکہ اگر کوئی گننے والا گننا چاہتا تو شمار کرلیتا۔
(2) سیاسی مسائل، اور شکایت کے مسائل اور دینی اختلاف کے مسائل پر بولنا بالکل چھوڑ دیں،ان کو ممنوعات کلام میں شمار کریں۔اگر آپ نے ان دونصیحتوں پر عمل کیا، تو ان شاء اللہ، آپ ایک نئے انسان بن جائیں گے۔
نوٹ ہر انسان کو اس کے خالق نے کسی خاص صلاحیت کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عطیۂ الٰہی کو دریافت کرے، اور اس کو منصوبہ بند انداز میں استعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں