خدا کی دریافت
انسان کی تاریخ میں غالباً ایک ایسا واقعہ ہے، جو سب سے بڑی حقیقت ہونے کے باوجود عملاً ایک غیر دریافت شدہ حقیقت (missing discovery) بن گیا۔ انسان نے خدا کی تخلیق کو دریافت کیا، لیکن انسان خود خالق کو دریافت کرنے میں ناکام رہا۔ بظاہر خدا (God) اہل مذاہب کا سب سے بڑا موضوع (subject) رہا۔ لیکن اہل مذاہب کے یہاں خدا فنی (technical)بحثوں کا موضوع بن گیا۔ اہل مذاہب عملاً خدا کو ایک حی و قیوم (the Living, the All-Sustaining) خدا کے طور پر دریافت کرنے میں ناکام رہے۔
اہل مذاہب نے خدا کو اقراری ایمان کا حصہ تو بنایا، لیکن وہ ایسے خدا کو دریافت نہ کرسکے، جو ان کے لیے حبّ شدید اور خوف شدید کا ذریعہ (source) بن جائے۔ اللہ رب العالمین نے پانچ سو سال پہلے طبیعی سائنس (physical science)کو وجود بخشا۔ سائنس اس معاملے میں ایک تائیدی علم کی حیثیت سے ابھرا۔ سائنس اپنی حقیقت کے اعتبار سے تائیدی ڈیٹا (supporting data) کی حیثیت رکھتا تھا۔ لیکن اہل مذاہب اس حقیقت کو دریافت نہ کرسکے۔ انھوں نے سائنس کو مذہب کا ایک شعبہ سمجھنے کے بجائے، میتھمیٹکس کا ایک شعبہ سمجھا، اور اس کو سیکولر علم کے خانے میں ڈال دیا۔
مذہب انسان کو خدا کا عقیدہ دیتا ہے۔ لیکن خدا کو کامل معنوں میں ایک زندہ حقیقت بنانے میں سائنس کے علوم ایک مددگار علم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آدمی صحیح ذہن کے ساتھ سائنس کو پڑھےتو سائنس اس کے مذہبی ادراک میں اضافہ کرنے کا سبب بن جائے گا۔جو لوگ اس معاملے میں تجربہ کرنا چاہتے ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ پہلے آپ مذہبی کتابوںکا مطالعہ کرکے اپنے اندر خدا کا عقیدہ پیدا کیجیے، اس کے بعد آپ حسب ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجیے:
The Evidence of God in an Expanding Universe, by John Clover Monsma, published by G.P. Putnam's Sons
(اردو ترجمہ:’خدا موجود ہے‘، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشر، نئی دہلی)
God Arises, by Maulana Wahiduddin Khan, published by Goodword Books, New Delhi (’ مذہب اور جدید چیلنج‘:اردو ترجمہ)
فطرت کا قانون
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ( 7:188 )۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
قرآن کی یہ آیت بظاہر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کررہی ہے۔ لیکن وہ اپنے عمومی انطباق کے اعتبار سے ساری انسانی تاریخ پر محیط ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں فائدہ اور نقصان کا تعلق بہت زیادہ مستقبل بینی سے ہے۔ اگر آدمی مستقبل کو جانے تو وہ بڑے بڑے فائدے حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن مستقبل کو نہ جاننے کی بنا پر انسان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔یہ معاملہ عام انسانی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت پوری انسانی تاریخ کو بیان کررہی ہے۔
یہاں ایک تقابل کے ذریعے بہت بڑی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات کی ایسی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا، جس میں اس کو نقصان نہ پیش آئے۔ انسان کی ہر منصوبہ بندی میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے، اس لیے انسان کو بار بار نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس، کائنات کا معاملہ ہے۔ کائنات اللہ رب العالمین کی تخلیق ہے۔ کائنات میں ہر لمحہ بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں۔ مثلاً سورج روزانہ اپنے مقررہ وقت پر نکلتا ہے۔ حتیٰ کہ شمسی نظام کا ایسا المنک (almanac) بنایا جاتا ہے، جو ہزاروں سال کی مدت تک ٹھیک ٹھیک نقشہ پیشگی طور پر بتاتا ہو۔ اس کے برعکس، انسان کسی بھی حال میں اس قسم کی بے عیب منصوبہ بندی (zero-defect management)پر قادر نہیں۔ یہ تقابل اللہ رب العالمین کے وجود کا ایک بین ثبوت ہے۔ایک طرف انسان کا معاملہ ہے کہ وہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ پر قادر نہیں، دوسری طرف خالق کائنات نے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام مسلسل طور پر کائنات میں قائم کررکھا ہے۔تقابل کا اصول (تعرف الاشیاء باضدادہا) کو اپلائی کیجیے تو اس سے آپ کی معرفت رب میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
زیرو ڈیفکٹ کائنات
سیکنڈ ورلڈ وار (1939-1945) کے زمانے میں ایک تصور پیدا ہوا، جس کو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کہا جاتا ہے۔اس موضوع پر بہت سے آرٹکل اور بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ جلد ہی یہ تصور ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پھیل گیا۔کئی ملکوں، مثلا ًامریکا اور جاپان، وغیرہ میں اس تصور کو بڑے پیمانے پرعمل میں لانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن لمبے تجربے کے بعد یہ مان لیا گیا کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور ناقابل حصول ہے۔اس موضوع پر انٹرنیٹ میں کافی مواد موجود ہے۔ آپ نمونے کے طور پر حسب ذیل آرٹکل پڑھ سکتے ہیں:
The Concept of Zero Defects in Quality Management by Chandana Das (www.simplilearn.com)
دور جدید میں صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے پیمانے پر یہ کوشش کی گئی کہ زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ قائم کیا جائے۔ اس موضوع پر بڑی تعداد میں ریسرچ ہوئی اور کتابیں لکھی گئیں۔بیسویں صدی کے تقریباً پورے دور میں یہ کام جاری رہا۔ مگر اس مقصد میں مکمل ناکامی ہوئی۔ حالاں کہ دورِ جدید کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں نے اس عمل میں حصہ لیا۔ مثلاً امریکا اور جاپان وغیرہ۔ دوسری طرف عین اسی وقت دور جدید کے سائنسی مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ فطرت کا نظام، مثلاً ستاروں اور سیاروں کی گردش ،وغیرہ، انتہائی حد تک بے خطا انداز میں قائم ہیں۔ اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ کل ٹھیک ٹھیک کس وقت سورج نکلے گا، اور کس وقت ٹھیک وہ غروب ہوگا، تو آپ آج ہی اس کو نہایت درست انداز میں معلوم کرسکتے ہیں۔
ایک طرف یہ تجربہ ہے کہ انسانی دنیا میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا تصور مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے، اور دوسری طرف انسان کے سوا جو مادی دنیا ہے، اس میں یہ تصور کامل طور پر موجود ہے۔ مثلاً اگر آپ یہ جاننا چاہیں کہ 15 اپریل 2025 کو سورج کب طلوع ہوگا، اور کب غروب ہوگا تو پیشگی طور پر آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ 15 اپریل کو دہلی میں سورج کے طلوع اور غروب کا وقت حسب ذیل ہوگا:
طلوع آفتاب (Sun rise) 05:56
غروب آفتاب (Sun set) 18:46
سورج کے طلوع و غروب کےبارے میں یہ وقت اسی صحت (accuracy) کے ساتھ ساری دنیا کے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پوری مادی دنیاکا نظام کامل صحت کے ساتھ چل رہا ہے۔ مادی دنیا کی سائنس کو اسٹرانومی ، فزکس، کیمسٹری، وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس مادی دنیا کا ریکاڑد ہزاروں سال پہلے، اور ہزاروں سال بعد تک معلوم کیا جاسکتا ہے، اور کسی ادنی فرق کے بغیر وہ یہی رہے گا۔ اس دنیا کے بارے میں اب تک کوئی فرق ریکارڈ نہیں کیا گیا ہے۔
آپ غور کیجیے کہ وہ مادی دنیا جو براہ راست خالق کے مینجمنٹ کے تحت چل رہی ہے، وہ شروع سے اب تک اسی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر قائم ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان کی دنیا میں ، انسان جو منصوبہ بناتا ہے، مثلاً انڈسٹری کی دنیا ، وہاں انتہائی کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یعنی ایک طرف اسپیس میں ڈیوائن مینجمنٹ کو دیکھیے، جو زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر مسلسل چل رہا ہے۔ دوسری طرف ہیومن مینجمنٹ کو دیکھیے۔ اس دوسری دنیا میں تقریباً ایک صدی کی مسلسل کوشش کے باوجودد زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔اس معاملے میں اگر آپ کو ہیومن مینجمنٹ کا تجربہ جاننا ہو، تو آپ انٹرنیٹ پر موجود اس مضمون کو پڑھیے:
Zero Defects, a term coined by Mr. Philip Crosby in his book "Absolutes of Quality Management" has emerged as a popular and highly-regarded concept in quality management—so much so that Six Sigma is adopting it as one of its major theories. Unfortunately, the concept has also faced a fair degree of criticism, with some arguing that a state of zero defects simply cannot exist. Others have worked hard to prove the naysayers wrong, pointing out that “zero defects” in quality management doesn’t literally mean perfection, but rather refers to a state where waste is eliminated and defects are reduced. It means ensuring the highest quality standards in projects. What Do We Mean by Zero Defects: From a literal standpoint, it’s pretty obvious that attaining zero defects is technically not possible in any sizable or complex manufacturing project. (www.simplilearn.com. accessed on 13.03.19)
اب اس دو طرفہ تجربے کے اوپر مشہور فارمولے کو منطبق (apply) کیجیے کہ چیزیں اپنے ضد سے سمجھ میں آتی ہیں(تعرف الاشیاء باضدادہا):
in comparison that you understand
قرآن کی مختلف آیتوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اور انسان کے باہر بقیہ کائنات میں جو نظام ہے، دونوں میں تقابل (comparison)کرکے دیکھو۔ یہ تقابلی مطالعہ(comparative study) بتائے گا کہ دونوں دنیاؤں میں بنیادی فرق ہے۔ انسان کی دنیا میں انسان جو نظام بناتا ہے، اس میں ساری کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ یہ مان لیا گیا کہ انسان کی دنیا میں اس تصور کا حصول ممکن نہیں۔ دوسری طرف خدا کی قائم کردہ مادی دنیا میں یہ تصور پوری تاریخ میں انتہائی صحت (accuracy) کے ساتھ قائم ہے۔
اس فرق پر جب مذکورہ فارمولا کو منطبق کیا جائے تو خود انسانی تجربے کے مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات کا مالک ایک برتر ہستی ہے، یعنی اللہ رب العالمین۔ انسان کی دنیا اور فزیکل سائنس (exact sciences) کی دنیا میں جو فرق ہے، وہ فرق خدا کے وجود کا ایک قطعی ثبوت ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ ( 67:3-4 ) ۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔
اسی طرح ایک آیت یہ ہے: أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ ( 50:6 )۔ یعنی کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا، ہم نے کیسا اس کو بنایا اور اس کو رونق دی اور اس میں کوئی رخنہ نہیں۔ موجودہ زمانے میں کائنات کے بے خطا نظام کی یہ دریافت اللہ رب العالمین کی ایک صفت کو ثابت شدہ بنا رہی ہے۔ اور وہ ہے: لَا تَأْخُذُہُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( 2:255 )۔ یعنی اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
قرآن میں ہے کہ پیغمبر موسیٰ نے خدا کو دیکھنا چاہا،لیکن اپنی محدودیت کی بنا پر وہ خدا کو دیکھ نہیں سکے (الاعراف، 7:143 )۔ اس واقعے پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان خدا کی ذات کو دیکھ نہیں سکتا۔ البتہ وہ اس کی صفات کا تجربہ کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسا ن اللہ کی تخلیق پر غور کرے، تو وہ تخلیق کا علم حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی خدا کی تخلیق کے ذریعے خدا کے وجود کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔ اس میں خدا کی معرفت حاصل کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خدا کی صفات کا مطالعہ کرکے خدا تک پہنچے۔ انسان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ خدا کی ذات کا براہ راست مطالعہ کرکے وہ خدا کا عارف بن جائے۔ فلاسفہ اور صوفیا ، دونوں نے یہ غلطی کی کہ انھوں نے خدا کا براہ راست مطالعہ کرکے خدا کو جاننا چاہا۔ مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔سائنس نے خدا کے مطالعے کا بالواسطہ طریقہ اختیار کیا، اور اس میں کامیابی حاصل کی۔مثلاً بگ بینگ (Big Bang) کے مطالعے کے ذریعے یہ دریافت کرنا کہ کائنات تقریباً تیرہ بلین سال پہلے وجود میں آئی، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں