ایک انٹرویو
مندرجہ ذیل انٹرویو ریاض (سعودی عرب) سے شائع ہونے والے مجلہ اوج (مطبوعہ شمارہ نمبر 4، 1439/2018) نے لیا تھا۔ یہاں اس انٹرویو کا متعلق حصہ نقل کیا جار ہا ہے:
سوال: مسلمانوں کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ اس وقت مادی والحادی فکر اور اسلام و ایمان کے درمیان ایک آئڈیولاجیکل ٹکراؤ ہے۔ چوں کہ ہر ٹکراؤ کا ایک اسلحہ ہوتا ہے، تو ان مادی اور الحادی فکر رکھنے والوں کا مشہور ہتھیار کیا ہے،جس کے ذریعہ وہ دور جدید میں اہل ایمان اور مسلم نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں؟
جواب: اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں لوگوں کے اندر تبدیلی آئی ہے۔ بیسویں صدی کا دور نظریاتی دور تھا۔ اس زمانے میں چیزوں کو نظریاتی اعتبار سے جج (judge) کیا جاتا تھا۔ مگر مارکسزم کے زوال کے بعد یہ ذہن ختم ہوگیا۔ اب ساری دنیا میں چیزوںکو ان کی افادیت کے اعتبار سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اگر نظریے کا حوالہ دیں تب بھی حقیقت میں ان کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ترقی کا راز کیا ہے۔ مادی ترقی کے اعتبار سے وہ کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔
مسلمان چوں کہ ابھی تک روایتی دور میں جی رہے ہیں، اس لیے نئے دور کے لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے ساتھ ترقی کا سفر جاری نہیں ہوسکتا۔ لوگ خواہ الفاظ جو بھی بولیں، لیکن پس منظر میں جوبات ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ اسلام کے روایتی ورزن کو لے کر ترقی کا سفر طے نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کے روایتی ورژن کی پیروی کرنے سے مسلمان مستقل طور پر پسماندہ کمیونٹی بنے رہیں گے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو اس کے روایتی ورزن سے نکال کر ماڈرن ایج کے اعتبار سے اس کو متعارف کرانا ہوگا۔ تاکہ اسلام دور جدید کے لوگوں کو سمجھ میں آسکے۔یہ اسلام کی تعلیمات میں تبدیلی کی بات نہیں ہے، بلکہ دور جدید کی زبان میں اسلام کو متعارف کرانے کی بات ہے۔
سوال: دورِ جدید میں پھیلنے والے لامذہبیت اور سیکولرزم کا سبب کیا ہے، آپ کی نظر میں اس کا علاج کیا ہوسکتا ہے؟
جواب: یہ بات جو کہی جاتی ہے، وہ در اصل اسلام کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ اسلام کے روایتی ورزن کے اعتبار سے ہے۔ اسلام کے روایتی ورزن کے اعتبار سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ اسلام کا تعلق زندگی کے سارے پہلو سے ہے۔ میں سمجھتا ہوںکہ یہی سوچ سب سے بڑا سبب ہے کہ مسلمانوں کا ذہین طبقہ کیوں سیکولرزم کی طرف مائل ہورہا ہے۔ مگر یہ سوچ بذات خود غلط ہے۔ جہاں تک میں سمجھتاہوں اسلام کا تعلق اصلاً انسان کے مذہبی امور سے ہے، جیسا کہ خود پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا تھا: إِذَا کَانَ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ دُنْیَاکُمْ فَشَأْنَکُمْ بِہِ، وَإِذَا کَانَ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ دِینِکُمْ فَإِلَیَّ(مسند احمد، حدیث نمبر 24920) ۔ یعنی کوئی چیز اگر دنیا کے معاملہ سے متعلق ہو تو تم اس کو زیادہ جانتے ہو اور اگروہ بات دین کے متعلق ہو تواس کی ذمےداری میرے اوپر ہے۔
مذہبی دائرے کے سوا اسلام انسان کو پوری آزادی دیتا ہے۔ مثلا ًروایتی اسلام میں رسول اللہ کے بارے میں کوئی کریٹیکل کمنٹ دینا شتم رسول کا حکم رکھتا ہے، اور شتم رسول ایک ایسا جرم ہے، جس کی سزا قتل ہے۔ جب کہ قرآن و سنت دونوں میں اس پر سزا کا براہ راست ثبوت نہیں ملتا۔ تفصیل کے لیے میری کتاب، شتم رسول کا مسئلہ ملاحظہ ہو۔
شتم رسول پر سزا آج کے انسان کے لیے قابل قبول نہیں۔ موجودہ زمانے کی فکر، اظہار خیال کی آزادی (freedom of expression) پر قائم ہے۔ اس بنا پر لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام کے ساتھ دنیا میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ اسلام ان مسائل کی بنیاد پر دوسری قوموں سے اتحاد میں رکاوٹ ہے، اور اتحاد کے بغیر ترقی کا کوئی پلان نہیں بنایا جاسکتا۔ جدید ذہن کے لیے اسلام کا یہ نظریہ مستقل طور پر قیام امن میں رکاوٹ ہے، اور قیامِ امن کے بغیر کوئی ترقی کا کام عملاً ممکن ہی نہیں۔ اس معاملے کا حل صرف اسلام کے پر امن پیغام کو عام کرنا اور شتم کرنے والے کے ساتھ اس معاملے میں افہام و تفہیم کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔
سوال: آپ مسلم مفکرین اور لکھنے والوں کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے، بطور خاص اس لیے کہ آپ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ آپ نے جب بھی کسی فکر پر تنقید کرنے کا ارادہ کیا، تو اس کے بارے میں ہزاروں صفحات پڑھا ہے؟
جواب: مسلم مفکرین اور لکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جدید فکر (modern thought) ان کے خلاف ایک چیلنج ہے۔ مگر بہ غور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جس چیز کو جدید فکر کہا جاتا ہے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلام مخالف نہیں ہے، وہ عین موافق اسلام ہے۔ مسلم مفکرین کی یہ غلطی ہے کہ انھوں نے جدید فکر یا جدید تہذیب کو اسلام کا مخالف سمجھ لیا۔ اس بنا پر ان کے اور جدید ذہن کے درمیان غیر ضروری ٹکراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ذہن اور جدید تہذیب پوری کی پور ی اسلام کے موافق ہے۔ حقیقت کےاعتبار سے دیکھیے تو اسلام اور جدید فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔
اصل مسئلہ فکر جدید کو بدلنے کا نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی سوچ کو بدلنے کا ہے۔ اس کے بعد کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ مسلمانوں کا مزاج یہ تھا کہ ہر نئی چیز کے خلاف ہوجانا۔ تو جب کلونیلزم کا دور آیا تو وہ ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اسی چیز نے اصل مسئلہ پیدا کیا۔ تو اسی ذہنیت کو بدلنا ہے۔میری ان کو نصیحت ہے کہ وہ جدید فکر کے خلاف اپنی منفی مہم کو بند کردیں۔
سوال: آنے والے دنوں میں آپ اسلام کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں؟
جواب: اسلام کا مستقبل بہت ہی اچھا ہے، بشرطیکہ مسلمان اپنے کو بدلیں۔ موجودہ زمانے کی کوئی چیز اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن مسلمان ہر چیز کو اسلام کے خلاف سمجھنے لگتے ہیں، اور ہر چیز کے خلاف لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً جب پرنٹنگ پریس آیا تو ابتداء میں ترکی کے شیخ الاسلام نے اس کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا۔ یہ دورِ جدید سے علماء کی بے خبری کا مسئلہ تھا، نہ کہ غیر مسلموں کی اسلام سے مخالفت کا۔اس لیے ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنی سوچ کو بدلیں۔
سوال: آپ کے بچپن یا جوانی کا کوئی واقعہ ، جس کو آپ ابھی تک یاد کرتے ہوں، اور اس کا آپ کی شخصیت پر آج تک اثر ہو؟
جواب: میں تو سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ جو واقعہ مجھے یاد رہتا ہے، وہ وہی سبق ہے جو میرے استاذ امین احسن اصلاحی سے مجھے ملا۔ ایک روز قرآن کی کلاس میں یہ آیت سامنے آئی:أَفَلَا یَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ کَیْفَ خُلِقَت ( 88:17 )۔ یعنی کیا وہ اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا۔ استاذ محترم نے اس موقع پر طلبہ سے پوچھا کہ اونٹ کے سم پھٹے ہوتے ہیں یا جڑے ہوتے ہیں۔ یعنی بیل کی مانند پھٹے ہوتے ہیں یا گھوڑے کی مانندجڑے ہوئے۔ اس وقت ہماری جماعت میں تقریبا 20 طالب علم تھے۔ مگر کوئی بھی شخص یقین کے ساتھ اس کا جواب نہ دے سکا۔ ہر ایک اٹکل بچو سے کبھی ایک جواب دیتا، اور کبھی دوسرا جواب۔
اس موقع پر استاد محترم نے ہم لوگوں کو سمجھایا کہ تمھارے جوابات سے اندازہ ہو تاہے کہ تم لوگ اونٹ کے سم کی نوعیت نہیں جانتے۔ پھر انھوں نے عربی کا مقولہ سنایا: ا ادری نصف العلم (میں نہیں جانتا، آدھا علم ہے)۔ اس کی تشریح انھوں نے کی کہ اگر تم لوگ یہ جانتے کہ تم اونٹ کے سم کے بارے میں بے خبر ہو تو گویا کہ اس معاملہ میں تمھارے پاس آدھا علم ہوتا۔ کیوں کہ اپنی لاعلمی کو جاننے کے بعد تمھارے اندر یہ شوق پیدا ہوتا کہ تم اپنے علم کو مکمل کرنے کے لیے یہ معلوم کرو کہ اونٹ کے سم کیسے ہوتے ہیں۔ اگر لا ادری (میں نہیں جانتا) کا شعور تمھارے اندر بیدار ہوتا تو اونٹ پر نظر پڑتے ہی تم اس کے سم کو غور سے دیکھتے، اور پھر تم اس کے نہ جاننے کو جاننا بنا لیتے۔
مدرسہ کا یہ واقعہ میرے لیے اتنا موثر ثابت ہوا کہ یہ میرا عمومی مزاج بن گیا کہ میں ہر معاملہ میں اپنی ناواقفیت کو جانوں، تاکہ میں اس کو واقفیت بنا سکوں۔ علمی تلاش کا یہ جذبہ مجھے ابتداء ً مدرسہ سے ملا تھا۔ بعد کو میں نے اس موضوع پر مغربی مصنفین کی کچھ کتابیں پڑھیں، مثلاً اسپرٹ آف انکوائری (Spirit of Inquiry)۔ ان سے معلوم ہوا کہ تجسس کا یہی جذبہ تمام علمی ترقیوں کی اصل بنیاد ہے۔ اس کی ایک مشہور مثال یہ ہے کہ ہزاروں لوگوں نے سیب کو درخت سے گرتے دیکھا تھا۔ مگر اس معاملہ میں وہ اپنے ’’لا ادری‘‘ کو نہیں جانتے تھے، اس لیے وہ حقیقت سے بے خبر رہے۔ نیوٹن پہلا شخص ہے، جس نے اس معاملہ میں اپنے ’’لاادری‘‘ کو جانا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ’’ادری‘‘ کے درجہ تک پہنچ گیا۔
اس کے برعکس، مسلم علماء دور جدید کو نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے فتوی دے کر یہ ظاہر کیا کہ ادری ان العصر الجدید حرام (میں جانتا ہو ںکہ دور جدید حرام ہے)۔جب کہ انھیں کہنا یہ چاہیے تھاکہ لاادری ما ھوالعصر الجدید (میں نہیں جانتا کہ دورجدید کیا ہے )۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہوتے کہ دور جدید کو جانیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں۔
جب انھوں نے دور جدید کو جانے بنا ایک قدم اٹھایا تو اس کے نتیجے میں انھوں نے اس ادری (میں جانتا ہوں) کلچر کی بنیاد پر ہر چیز کو حرام قرار دے دیا، اوریہی وہ چیز ہے جو سیکولر تعلیم یافتہ مسلمانوں کے اسلام سے دور ہونے کا سبب بن رہی ہے۔ جب کہ میں ہر چیز کو سب سے پہلے لاادری (میں نہیں جانتا ہوں)کے خانے میں ڈالتا ہوں۔ اس کے بعد موضوعی اعتبار سےیہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
سوال: وہ کیا پروگرام ہیں، جس کے بارے میں آپ اللہ سے یہ تمنا کرتے ہیں کہ وہ اس کو پورا کرے؟
جواب: میری صرف ایک تمنا ہے۔ حدیث میں آیا ہےکہ اللہ ہر گھر میں اسلام کا کلمہ داخل کرے گا، روایت کے الفاظ یہ ہیں: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللَّہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی بڑا یا چھوٹا گھر باقی نہیں رہے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کا کلمہ داخل کرے گا۔ میری خواہش ہے کہ اس حدیث میں بیان کردہ پراسس کا میں حصہ بن جاؤں۔یہاں تک کہ یہ ریَلٹی بن جائے، اور قرآن کی آیت ، لیکون للعالمین نذیرا ( 25:1 )، کے مطابق سارے عالم تک قرآن کا میسج آف انذار پہنچ جائے۔
My greatest desire is to become a part of this historical process, the process of the spreading of the word of God, until it becomes a reality.
سوال: آپ کی ایک اہم کتاب الاسلام یتحدی (مذہب اور جدید چیلنج) ہے۔ کیا آپ کا یہ ارادہ ہے کہ اس کو نئے سائنسی انکشافات کے اعتبار سے اپ ڈیٹ (update) کی جائے، تاکہ وہ موجودہ دور کے اعتبار سےاپ ٹو ڈیٹ (up to date) ہوسکے؟
جواب: جہاں تک کتاب کو اپ ڈیٹ کرنے کی بات ہے، تو میں اس کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ اس میں جو مباحث موجود ہیں، وہ ابھی تک ریلیونٹ ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ ایک ہسٹاریکل بک بن چکی ہے۔ اس میں کسی اپ ڈیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت میں سارا فوکس دعوت پر دیتا ہوں ، اور دعوتی فوکس کے اعتبار سے اس معاملہ میں میری ایک نئی کتاب آئی ہے، اظہار دِین۔ یہ کتاب فی الوقت اردو زبان میں موجود ہے۔
سوال: آپ مسلم نوجوانوں کو کن کتابوں کے پڑھنے کا مشورہ دیں گے، تاکہ وہ فکری اعتبار سے مضبوط ہوسکیں؟
جواب: میں انھیں دو کتابیں پڑھنے کامشورہ دوں گا۔ ایک ہے ، اللہ یتجلی فی عصر العلم (اردو ترجمہ :خدا موجود ہے)۔ یہ جان کلوور مونسما کی کتاب The Evidence of God in an Expanding Universeکا عربی ترجمہ ہے۔ اس سے انھیں معلوم ہوگا کہ سائنس اسلام کے خلاف نہیں ہے، اور دوسری کتاب جس کومیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا، وہ یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West
اس کتاب سے انھیں معلوم ہوگا کہ دورِ جدید کی فکر کیا ہے۔
سوال: ہم کیوں نوجوان مسلم عورتوں میں دینی انحراف دیکھتے ہیں،اس کا سبب کیا ہے؟
جواب: اس کی وجہ صرف ایک ہے، اسپرٹ (تقوی، محبتِ الٰہی اور اخلاق )کے بجائے ظواہرِ دین پر غلو کی حد تک زور دینا۔ مثلاً پردہ پر غیر ضروری زور دینا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو کام پردہ کے باہر جائز نہیں ہے، اس کو انھوں نے پردے کی آڑ میں جائز کر لیا ہے:
What is not allowed outside the purdah, they are allowing inside the purdah.
اِس زمانے میں برقعہ والی عورتیں زیادہ فیشن کرتی ہیں۔ یہ برقعہ پر ظواہر دین پر غلو سے پیدا ہونے والا ری ایکشن ہے۔ پیغمبر ِ اسلام کی بیوی عائشہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تربیت نتیجہ خیز کیسے ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا: إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْہُ سُورَةٌ مِنَ المُفَصَّلِ، فِیہَا ذِکْرُ الجَنَّةِ وَالنَّارِ، حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الإِسْلاَمِ نَزَلَ الحَلاَلُ وَالحَرَامُ، وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَیْءٍ:لاَ تَشْرَبُوا الخَمْرَ، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الخَمْرَ أَبَدًا، وَلَوْ نَزَلَ:لاَ تَزْنُوا، لَقَالُوا:لاَ نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا، لَقَدْ نَزَلَ بِمَکَّةَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنِّی لَجَارِیَةٌ أَلْعَبُ:بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُہُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْہَى وَأَمَرُّ[ 54:46 ] وَمَا نَزَلَتْ سُورَةُ البَقَرَةِ وَالنِّسَاءِ إِلَّا وَأَنَا عِنْدَہُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر4993 )۔ یعنی سب سے پہلے جو چیزیںنازل ہوئیں، ان میں ایک مفصل کی سورت ہے۔ اس میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے ۔ پھر جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے، اس کے بعد حلال وحرام (کے احکام) اترے ، اگر ابتداہی میں یہ اترتاکہ شراب نہیں پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی بھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتاکہ زنا نہیں کرنا تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے بجائے مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی : بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی وامر ( بلکہ قیامت ان کے وعدہ کا وقت ہے اور قیامت بڑی سخت اور بڑی کڑوی چیز ہے)۔ اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی ۔ (اس کے برعکس،) سورۃ البقرہ اور سورۃ النساء اس وقت نازل ہوئی ، جب کہ میں ( مدینہ میں )آپ کے پاس آگئی تھی ۔
سوال: موجودہ دور میں امت کی حالت کے اعتبار سے کمی کہاں ہے؟
جواب: صرف ایک دور جدید سے بے خبری۔موجودہ دور کو سمجھنے کے لیے مودودی اور سید قطب کی کتاب کو نہ پڑھا جائے، بلکہ اس کتاب کو پڑھا جائے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West
سوال: آپ کے اعتبار سے قرآن کا مطلوب انسان کون ہے، جیسا کہ آپ کی ایک کتاب بھی اسی نام سے ہے؟
جواب: داعی انسان۔ قرآن کا سب سے زیادہ فوکس دعوت پر ہے،اور قرآن کا مطلوب انسان وہی ہے جو قرآن سے اس کو دریافت کرے،اور قرآن کا داعی بن جائے۔
سوال: وہ پانچ اہم افکار کیا ہیں، جن پر آپ نے اپنی فکری اور تجدیدی پروگرام میں فوکس کیا؟
جواب:وہ پانچ افکار درج ذیل ہیں:
(1) معرفتِ خداوندی (realization of God)
(2) مثبت سوچ (positive thinking)
(3) دعوت الی اللہ
(4)نفرت (hate) کا کلی خاتمہ، منفی سوچ کا کلی خاتمہ، مغرب کو اسلام کا دشمن سمجھنے کے بجائے، اس کو اسلام موید سمجھنا۔
(5) سیاسی ٹارگٹ کے بجائے، آخرت رخی زندگی کواپنا ٹارگٹ بنانا۔
سوال: آپ کی زندگی بھر کی حکمت کا کوئی خلاصہ ۔
جواب: پرابلم کو اگنور کرنا، اورمواقع کو دریافت کرکے اس کو اویل کرنا۔
To ignore the problem and avail of the opportunity by discovering it.
**********
اٹھارھویں صدی میں قدیم زمانی حالات ختم ہوگئے۔ اب کسی قوم کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ قدیم طرز کا سیاسی ایمپائر قائم کرے۔ مسلمانوں کی سیاسی تحریکوں کو جو ناکامی ہوئی، وہ کسی دشمن کی ’’سازش‘‘ کی بنا پر نہ تھی، وہ صرف اِس لیے تھی کہ موجودہ زمانے میں اٹھنے والے مسلم رہنما زمانے کی تبدیلی سے بے خبر تھے۔ اِس بنا پر وہ ایسی سیاست کے چیمپئن بنے رہے جو نئے دور میں سرے سے ممکن ہی نہ تھی۔اب جو لوگ مسلم تحریکوں کی ناکامی کو دشمن کی ’’سازش‘‘ قرار دے کر مضامین اور کتابیں لکھ رہے ہیں، وہ صرف اپنی بے دانشی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں