عراق ڈائری
تمہید
۱۹۹۱ میںعراق کے صدر صدّام حسین نے کویت میں اپنی فوجیں داخل کرکے اُس پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد امیر کویت کی درخواست پر امریکا نے عراق پر حملہ کردیا اور کویت کو آزاد کرایا۔ اس واقعہ پر میںنے تاریخ وار ڈائری لکھی تھی جو ماہنامہ الرسالہ کے شمارہ مئی ۱۹۹۱ میں چھپی۔ بعد کو یہ مجموعہ پمفلٹ کی صورت میں اُردو میںخلیج ڈائری اور عربی میں یومیّات حرب الخلیج کے نام سے شائع ہوا۔
عراق تیل کی دولت کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ عراقی صدر نے تیل کی اس دولت کا بہت بڑا حصہ فوجی تیاری میں خرچ کردیا۔ یہاں تک کہ ایک اندازہ کے مطابق، عراق دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ یہ فوجی طاقت عراق کے کچھ کام نہ آئی۔ پہلے اقوام متحدہ کے دباؤ کے تحت عراق کو مجبوراً اپنے ہتھیار وںکے ذخیرہ کو خود ہی تباہ کرنا پڑا۔ یہ گویا وہی معاملہ تھا جس کو قرآن میںان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : یخربون بیوتہم بایدیہم (الحشر ۲)
عراقی صدر کی انتہا پسندانہ سیاست مغربی قوتوں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہوئی۔ امریکا نے پہلے صدر صدام حسین کو یہ الٹی میٹم دیا کہ وہ عراق کو چھوڑ کر ملک کے باہر چلے جائیں۔ راقم الحروف نے ۱۵ فروری ۲۰۰۳ کوایک اخباری مضمون لکھا تھا۔ اس میں صدر صدام حسین کو یہ مشورہ دیاگیا تھا کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اہون البلیتین کے فقہی اُصول پر عمل کرتے ہوئے اقتدار چھوڑ کر عراق کے باہر چلے جائیں۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
Option for Saddam Husain
کئی عرب ملکوں نے صدام حسین کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنے ملک میںاُن کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ مگر صدّام حسین بغداد کے اقتدار پر جمے رہے۔ یہاں تک کہ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے صدر صدّام حسین کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ میںنے دوبارہ اس جنگ کی ڈائری لکھنا شروع کیا تھا۔ اس ڈائری کو ماہنامہ الرسالہ میںایک خصوصی شمارہ کے طورپر شائع کیاجارہا ہے۔ اس ڈائری کے لکھنے میں حسبِ معمول میرا رہنما اصول وہی رہا ہے جس کو شیخ سعدی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے—ہر ایک غیر کے خلاف فریاد کرتا ہے۔ مگر سعدی کو خود اپنے آپ سے شکایت ہے:
ہر کس از دستِ غیر نالہ کُند سعدی از دستِ خویشتن فریاد
قرآن کی سورہ نمبر ۱۷ کی ابتدائی آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اُس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اُس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کار سازنہ بناؤ۔ تم اُن لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا تھا، بے شک وہ ایک شکر گزار بندہ تھا۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتادیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین (شام) میں فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے۔ پھر جب اُن میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھس پڑے اور وہ وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری اُن پر لوٹا دی اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کام کروگے تو تم اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم برا کام کروگے تب بھی تم اپنے لیے برا کروگے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اور بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد میں گھس جائیں جس طرح وہ اس میں پہلی بار گھسے تھے اورجس چیز پر اُن کا زور چلے اُس کو وہ برباد کردیں۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہارے اوپر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر وہی کروگے تو ہم بھی وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کو منکرین کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے (بنی اسرائیل ۱۔۸)
قرآن کے اس حصہ میں مکہ کی مسجد حرام سے یروشلم کی مسجد اقصیٰ تک پیغمبرانہ سفر کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے غالباً ۶۲۱ء میں پیش آیا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ کو اس میں یروشلم کی جو نشانی دکھائی گئی وہ کون سی نشانی تھی۔ نشانی (آیت) کا لفظ قرآن میں تاریخی کھنڈروں کے لیے استعمال ہوا ہے (الحجر ۷۵)۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کی نشانی سے مراد مسجدِ اقصیٰ تھی جو اس سفر کے وقت ایک کھنڈر کی حالت میں تھی۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے ، مسجداقصیٰ کو دوسری بار ٹائٹس (Titus) رومی نے ۷۰ء میں مکمل طورپر ڈھا دیا ـتھا۔ پیغمبر اسلام کے سفر کے وقت مسجد اقصیٰ اسی کھنڈر کی حالت میں تھی۔ مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت بعد کو بنو امیہ کی خلافت کے زمانہ میں بنائی گئی۔
یروشلم کی نشانی کو دکھانے کے اس واقعہ کا ذکر کرنے کے بعد فوراً بنی اسرائیل کی تاریخ بتائی گئی جو مسجد اقصیٰ کے کھنڈر سے جڑی ہوئی تھی۔ وہ تاریخ یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو خدا نے پیغمبروں کے ذریعہ اپنا ہدایت نامہ دیا تاکہ وہ اس پر عمل کریں اور دوسری قوموں کو اس سے آگاہ کریں مگر بنی اسرائیل کی بعد کی نسلوں میں بگاڑاورسرکشی آگئی۔ اس کے بعد ان پر خدا کی مختلف تنبیہات آئیں۔ ان تنبیہات کا انتہائی ظہور ۵۸۶ ق م میںہوا جب کہ بابل کے حکمراں بخت نصر(Neouchadnezzar) نے مرکزِیہود یروشلم پر حملہ کرکے مسجدِ اقصیٰ (ہیکل سلیمانی) کو تباہ کردیا۔
مذکورہ قرآنی بیان کے مطابق، اس صدمہ کے بعد یہود کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے توبہ واصلاح کی۔ اس کے بعد خدا نے ان کی مددکی اور ان کو دوبارہ ایک ترقی یافتہ قوم بنا دیا۔ چند نسلیں گزرنے کے بعد بنی اسرائیل میں پھر بگاڑ شروع ہوا۔ دوبارہ اُن کو مختلف تنبیہات بھیجی گئیں۔ مگر ان کا بگاڑ جاری رہا۔آخر کار دوبارہ ۷۰ ء میں رومی حکمراں نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکل سلیمانی (مسجد اقصیٰ) کو تباہ کردیا جو کہ یہودیوں کے لیے عزت اور سرفرازی کی علامت کی حیثیت رکھتا تھا۔ قرآنی بیان کے مطابق، اس کے بعد دوبارہ یہود کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے اپنی اصلاح کی اور پھر دوبارہ وہ خدا کی رحمت کے مستحق قرار پائے۔
یہود کی تاریخ میںاس طرح زوال کے بعد تنبیہات کا آنا اور پھر تباہی سے دوچار ہونے کے بعد ان کا دوبارہ ترقی کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جو یہود کی تاریخ میں واضح طورپر دیکھا جاسکتا ہے۔
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ یہ تباہی یہود کی تاریخ اور ان کے ادب میں ایک تاریخ ساز واقعہ بن ِگئی:
The disaster became the great epoc-making event in Jewish history and literature. (13/48)
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ قرآنی بیان میں لنریہ من آیاتنا (بنی اسرائیل ۱) میں ایک اہم حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ قدیم اہل کتاب (بنی اسرائیل) کی تاریخ میںجس طرح دوبار تنبیہی حادثہ کا واقعہ پیش آیااسی طرح امت مسلمہ میں بھی دو بار تنبیہی حادثہ کا واقعہ پیش آئے گا۔جب ایسا ہوتو امت مسلمہ کے لیے بھی ضروری ہوگا کہ اس کے اندر احتساب اور اصلاح کی تحریکیں اٹھیں۔ اسی احتساب اور اصلاح کے ذریعہ ممکن ہوگا کہ امت مسلمہ دوبارہ خدا کی رحمت کی مستحق بنے جس طرح قدیم اہل کتاب ایسے ہی عمل کے ذریعہ مستحق بنے تھے۔
قدیم اہل کتاب (یہود) پر دوبار جو تنبیہی عذاب آیا وہ اُن کے مرکزی مقام یروشلم میں آیا۔ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کے ساتھ اسی طرح دوبار جو تنبیہی واقعہ پیش آنے والا ہے وہ بھی امت مسلمہ کے تاریخی مرکز بغداد میں پیش آئے گا۔ پہلی بار مرکزِ اقتدار کے طورپر، اور دوسری بار مرکزِدولت کے طور پر۔یہ تنبیہی واقعہ امت کے استیصال کے لیے نہیں ہوگابلکہ یہ دھماکہ خیز واقعہ امت کو جگانے کے لیے اور اس کو دوبارہ زندہ امت بنانے کے لیے ہوگا۔ واضح ہو کہ ایسا واقعہ حجاز کے علاقہ میں نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ حدیث کی صراحت کے مطابق، حجاز کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے محفوظ علاقہ قرار دے دیا ہے۔( مشکاۃ المصابیح ۱؍۴۰)
جیسا کہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ طولِ امد (الحدید ۱۶) سے لوگوں میں قساوت آتی ہے، یعنی قوم کی بعد کی نسلوں میں بگاڑ آجاتاہے۔ یہ بگاڑ بڑھتے بڑھتے جب اپنی آخری حد پر پہنچ جاتا ہے تو خدا کی طرف سے وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو قرآن میں بعثنا علیکم عباداً لنا اولی باسٍ شدید (بنی اسرائیل ۵) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ امت مسلمہ میں یہ واقعہ پہلی بار تیرہویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امت مسلمہ سے حقیقی دینی اسپرٹ نکل چکی تھی اور وہ ایک بے روح ڈھانچہ بن گئی تھی۔ اس وقت چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کی قیادت میں وحشی تاتاریوں کی فوج اٹھی اور اُس نے اس وقت کی عباسی سلطنت کو تباہ کردیا جس کا مرکز بغداد تھا۔
اس تباہی کے بعد مسلمانوں میں احتساب کا جذبہ جاگا۔ انہوں نے اپنی دینی اصلاح کی۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت دوبارہ متوجہ ہوئی اور تاتاریوں کی قوم کو اسلام کی توفیق دی گئی۔ اس کے بعد اسلام کی عظمت کی ایک نئی تاریخ شروع ہوئی جو نو آبادیاتی دور کے آغاز تک قائم رہی۔
اب پچھلے دو سو سال سے دوبارہ مسلمان زوال کی حالت میں مبتلا ہیں۔ اسلام کی اصل روح بے حد کمزور ہو گئی ہے۔ بظاہر مسلمانوں میں دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں مگر تقریباً سب کی سب اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہیں۔ وہ آج کل کی اصطلاح میں کمیونٹی ورک کی حیثیت رکھتی ہیں وہ حقیقی معنوں میں اسلامی ورک یا دینی عمل کی حیثیت نہیں رکھتیں۔
پچھلے دو سوسال میںجب سے مسلمانوں میں یہ بگاڑ آیا اُن پر خداکی طرف سے چھوٹی چھوٹی تنبیہات نازل ہوتی رہیں۔ نو آبادیاتی دور میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے ذریعہ ،فلسطین میں یہود کے ذریعہ ،پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر میںہندوؤں کے ذریعہ، افغانستان میںامریکا کے ذریعہ، وسط مسلم ایشیا میں روس کے ذریعہ، وغیرہ۔ مگر یہ تنبیہات مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کافی نہ ہوسکیں۔ آخرکار مارچ ۲۰۰۳ میں یہ ہوا کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے ذریعہ مسلمانوں پر سخت حملہ شروع کردیا گیا۔ دوبارہ اس حملہ کا مرکز بغداد تھا۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تمام دفاعی قوت بھی عاجز ہوگئی۔
عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کا جو واقعہ پیش آیا وہ بہت غیر معمولی تھا۔ اس جنگ کے آغاز سے پہلے لمبے عرصہ تک امریکا یہ مانگ کرتا رہا کہ صدر صدام حسین اگر عراق کو چھوڑ دیں اور کسی دوسرے ملک میں چلے جائیں تو اُن کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ کئی عرب ملکوں نے پیش کش کی کہ وہ صدام حسین کی میزبانی کے لیے تیار ہیں۔ مگر صدام حسین نے اس پیش کش کو قبول نہیںکیا۔ حالانکہ قریبی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جب کہ مسلم حکمراں نے جلاوطنی کو قبول کرلیا اور باہر کے ملک میں جاکر آرام سے رہنے لگے۔ مثلاً افغانستان کے ظاہر شاہ، مصر کے شاہ فاروق، پاکستان کے نواز شریف، وغیرہ۔ صدام حسین جو فوجی انقلاب کے ذریعہ عراق پر قابض ہوئے تھے وہ بھی ایسا ہی کرسکتے تھے۔ مگر اس معاملہ میں اُن کا دل اتنا سخت ہوگیا کہ وہ اس پیش کش کو قبول کرنے کے لیے راضی نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ امریکا نے عراق پر حملہ کردیا۔
دوسری طرف صدر امریکا جارج بش کا معاملہ بھی تقریباً یہی ہے۔ دنیا کے بیشتر مدبرین اور بہت سے لوگوں نے عراق کے خلاف امریکا کی فوجی کارروائی کی مخالفت کی۔ خود راقم الحروف نے اس معاملہ میں امریکا کو اس اقدام کے خلاف کھلے طور پر متنبہ کیا تھا۔ گیارہ ستمبر ۲۰۰۱کو نیویارک کے ورلڈٹریڈ ٹاور کے حادثہ کے صرف ایک ہفتہ بعد میںنے ایک اخباری انٹرویو دیا تھا جو نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ The Times of India کے شمارہ ۱۶ ستمبر ۲۰۰۱ میںچھپا تھا۔ اس میں میںنے واضح طورپر کہا تھا کہ امریکا کو پر امن ذرائع سے اپنا عمل کرنا چاہئے۔ اگر اس نے فوجی کارروائی کی تو اس کا نتیجہ آخر کار الٹا نکلے گا۔
US aggression would be counter-productive
مگر امریکی صدر جارج بُش نے کسی کے مشورہ کو نہیں مانا اور عراق پر حملہ کردیا۔
ان غیر موافق اسباب کے باوجود عراق کی ہولناک جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ کی ایک امتیازی صفت یہ تھی کہ اس کو ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے T.V.Set پر شروع سے آخر تک دیکھا۔ چونکہ دنیا بھر کے مسلمان اس معاملہ میں صدام حسین کے حامی تھے اور اپنے آپ کو پوری طرح صدام حسین اور عراق کے ساتھ وابستہ کئے ہوئے تھے اس لیے یہ حملہ عملاً ساری دنیا کے مسلمانوں کے خلاف حملہ بن گیا۔ ہر مسلمان مرد اور عورت نے اس کی زد کو اپنے اوپر محسوس کیا۔
یہ مسلمانوں کی تاریخ میں غالباً پہلا موقع تھا کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کی آبادی بیک وقت اپنے اوپر تباہی کو ٹوٹتا ہوا دیکھے مگر وہ اُس کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہ دراصل ایک قسم کا شاک ٹریٹمنٹ(shock treatment) ہے جو خدائی فیصلہ کے تحت پیش آیا۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو جگانا اور اُن کے اندر نظر ثانی کی تحریک چلا کر انہیں دوبارہ صحت مند حالت کی طرف لے جانا ہے۔
شاک ٹریٹمنٹ ہی فطرت کا واحد اصلاحی طریقہ ہے۔ فطرت کا اس طرح کے معاملات میں یہ ابدی اصول ہے کہ تعمیر سے پہلے تخریب کی جائے۔ نیا ڈھانچہ بنانے سے پہلے پر انے بے روح ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مولاناروم نے اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا ہے کہ جب کسی تعمیر کو دوبارہ بنانا ہوتا ہے تو پہلے پرانی تعمیر کو ڈھا دیا جاتا ہے:
چوں بنائے کہنہ آباداں کنند اولاً تعمیر را ویراں کنند
تیرہویں صدی میں بغداد پر تاتاری حملہ کی صورت میں جو تنبیہی واقعہ پیش آیا وہ ایک اعتبار سے امتِ مسلمہ کے لیے خدائی تازیانہ تھا۔ دوسرے اعتبار سے اس واقعہ میںیہ سبق بھی موجود ہے کہ اس تازیانہ کے بعد اُمت کی سرگرمیوں کا رُخ کس سمت میں ہوناچاہئے۔
عام مسلم تاریخوں میں اگرچہ یہ پہلو تقریباً غیر مذکور ہے۔ مگر انگریز مستشرق ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے غیر معمولی تحقیق کے بعداس کو نمایاں کیا ہے۔ اُن کی یہ تحقیق اُن کی کتاب دعوتِ اسلام (The Preaching of Islam) میںتفصیل کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔
یہ تاریخ بتاتی ہے کہ اُس زمانہ کے مسلمانوں کے لیے جب سیاسی اور فوجی راستے عملاً بند ہوگئے تو اُنہوں نے دعوتی رُخ پر اپنی جدوجہد شروع کردی۔ مسلم مردوں اور مسلم عورتوں نے بڑے پیمانہ پر اور خاموش طورپر اسلام کی دعوت کا کام شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ جلد ہی مثبت انداز میں نکلنے لگا۔ یہاں تک کہ صرف پچاس سال کے اندر یہ انقلابی واقعہ پیش آیا کہ تاتاریوں کی اکثریت نے خدا کے دین کو اپنا دین بنا لیا۔ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن مسلمانوں کے سب سے بڑے دوست بن گئے۔
مجھے یقین ہے کہ جس طرح تیرہویں صدی میں تاتاری حملہ کے بعد اسلام کی تاریخ کا ایک نیا دور آگیا تھا اُسی طرح اکیسویں صدی میں دوسری بار امریکی حملہ کے بعد یقینی طور پر اسلام کی نئی زندہ تاریخ شروع ہوگی، وہ تاریخ جس کاپوری انسانیت کو انتظار ہے۔
نئی دہلی، ۷ مئی ۲۰۰۳ وحید الدین
۱۸ مارچ ۲۰۰۳
عراق میںالٹی گنتی (count down) کا عمل شروع ہوگیا۔ آج کے تمام اخباروں کی پہلی سرخی صرف ایک ہے—امریکی صدر جارج بُش کا الٹی میٹم عراقی صدر صدام حسین کے نام، عراق چھوڑو یا جنگ کا سامنا کرو:
Leave Iraq or face war
امریکا کے اس الٹی میٹم میںکہا گیا ہے کہ صدر صدام حسین کو ۴۸ گھنٹہ کے اندر عراق چھوڑ دینا چاہیے۔ ورنہ امریکا اپنے اتحادیوں (برطانیہ،اسپین، وغیرہ) کے ساتھ عراق پر شدید بمباری شروع کردے گا۔
عجیب بات ہے کہ دنیا بھر کے عوام، بشمول امریکی اور برطانوی عوام، اس حملہ کے خلاف ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ امریکا کو اقوام متحدہ کے فیصلہ کی پابندی کرنا چاہئے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ عراق پر یہ حملہ امریکا کی سنگین غلطی ہوگی۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ جارج بُش نے اپنے آپ کو دنیا کا گارجین بنا لیا ہے مگر خود اس گارجین کا گارجین کون ہوگا:
Bush has appointed himself as the guardian of the world, but who will guard the world against the guardian.
۱۹ مارچ ۲۰۰۳
عراق پر امریکی حملہ کے بارے میں سیاسی مبصّرین کاعام طورپر یہ کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ ہوئی تو اس میں امریکا کے مجموعی طورپر سو بلین ڈالر خرچ ہوں گے۔ یہ جنگ نہ صرف عراق کے لیے تباہ کن ہوگی بلکہ خود امریکا کی اقتصادیات بھی اس کے نتیجہ میں شدید نقصان سے دوچار ہو گی۔تاہم امریکا کے لیے یہ ایک وقتی صدمہ ہوگا۔ آخری نتیجہ کے اعتبار سے یہ جنگ امریکا کے لیے ٹھیک اُسی طرح نفع بخش ثابت ہوگی جس طرح دوسری عالمی جنگ امریکا کے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی تھی۔ عراق پر قبضہ کے بعد امریکا وہاں کے تیل کے ذخائر کا اجارہ دار بن جائے گا۔ اس جنگ میں امریکا کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے جدید ترین ہتھیاروں کا تجربہ کرسکے۔ وہ اپنے مہلک ہتھیاروں کا مظاہرہ کرکے اسلحہ کی عالمی منڈی میں اپنی تجارت کو بڑھالے، وغیرہ۔
۲۰ مارچ ۲۰۰۳
۲۰ مارچ ۲۰۰۳ کو امریکا کے فضائی بمباروں نے عراق پر ہوائی حملہ کرکے جنگ کا آغاز کردیا۔ اس جنگ کی تیاری بہت دنوں سے جاری تھی۔آخرمیں امریکا نے عراقی صدر صدام حسین کو یہ الٹی میٹم دیا کہ ۴۸ گھنٹہ میں عراق کو چھوڑ کر باہر چلے جاؤ یا جنگ کا سامنا کرو۔ صدام حسین نے اس الٹی میٹم کو رد کردیا۔ آج صبح الٹی میٹم کا وقت ختم ہونے کے ۹۵ منٹ بعد امریکی صدر جارج بُش کے حکم سے عراق پر ہوائی حملہ کردیا گیا۔
۲۱ مارچ ۲۰۰۳
انگلینڈسے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان کا ٹیلی فون آیا۔ اُنہوں نے عراق پر امریکی حملہ کی مذمت کی۔ میںنے کہا کہ امریکا کا عراق پر حملہ بلا شبہ قابلِ مذمت ہے مگر آپ کو یا میرے سوا دوسرے مسلمانوں کو اس مذمّت کا حق نہیں۔ میںنے کہا کہ پچھلے سیکڑوں سال کے درمیان مختلف مسلم حکمراں مثلاً بابر، غزنوی اور غوری، وغیرہ اسی قسم کے حملے کرتے رہے مگر کسی بھی مسلمان نے نہ پہلے اُس کی مذمت کی اور نہ آج وہ اس کی مذمت کررہے ہیں۔ میںاکیلا مسلمان ہوں جو ان واقعات کی تبریر(justification) نہیں کرتا۔ آپ لوگوں کو یا تودونوں حملوں کو جائز بتانا ہوگا یا دونوں حملوں کو ناجائز قرار دینا ہوگا۔ تضاد فکری کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ میں چونکہ مسلم حکمرانوں کے اس قسم کے جارحانہ حملوں کو قابلِ مذمت سمجھتا ہوں اس لیے مجھے یہ حق ہے کہ میں جارج بُش کے جارحانہ حملہ کی مذمت کروں۔
۲۲مارچ ۲۰۰۳
امریکا نے عراق پر جو حملہ کیا ہے، اس حملہ کو شاک اینڈ آ (Shock and Awe) کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی حیرانی کا جھٹکا۔ آج کے اخباروں میںبتایا گیا ہے کہ صدام حسین اپنے قریبی ساتھیوں اور فوجی جنرلوں کے ساتھ بغداد کے باہر ایک خصوصی میٹنگ کررہے تھے۔یہ میٹنگ نہ کسی بنکر میں تھی اور نہ صدام حسین کے بہت سے محلوں میں سے کسی محل میں۔ اس میٹنگ کو صیغۂ راز میں رکھنے کے لیے اُس کا انتظام ایک نجی مکان میں کیا گیا تھا۔ یہ لوگ یہاں صرف چند گھنٹہ کے لیے جمع ہوئے تھے۔ مگر امریکا کے خفیہ محکمہ کو اس کا علم ہوگیا اور عین وقت پر ٹھیک اُس مقام پر بم گرایا گیا جس سے وہ مکان تباہ ہوگیا۔ امریکی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس حملہ میں صدام حسین یا تو مرگئے یا شدید زخمی ہوگئے۔ عراقی ذرائع نے خود حملہ کی تردید نہیں کی۔ البتہ وہ اس کی تردید کررہے ہیں کہ صدام حسین اُس کی زد میں آئے۔ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ صدام حسین یقینی طورپر اس ہوائی حملہ میں زخمی ہوئے ہیں۔ البتہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ زخمی ہونے والا انسان ریل (real)صدام تھا یا ڈبل (double) صدام۔
۲۳ مارچ ۲۰۰۳
بی بی سی لندن نے ایک رپورٹ نشر کی۔ آج کل مختلف ملکوں میں مسلمان بہت بڑے پیمانہ پر اینٹی امریکا جلوس نکال رہے ہیں۔ بی بی سی کے نمائندے نے اُردن کے ایک جلوس میںشرکت کی۔ وہاں عرب نوجوانوں نے نہایت جوش کے ساتھ جلوس نکالا تھا۔ ایک عرب نوجوان سے بی بی سی لندن کے نمائندہ نے بات کی۔ عرب نوجوان نے کہا کہ صدام ہمارا ہیرو ہے۔ صدام ہی اسرائیل کو کُچل سکتا ہے۔
یہی وہ نفسیات ہے جس کے تحت تمام دنیا کے مسلمان صدام حسین کے حامی بن گئے ہیں۔ ایک بلین مسلمانوں میں شاید میں اکیلا ہوں جو صدام حسین کا حامی نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے صدام حسین کے غلط کاموں پر اُس کی مذمت نہیںکی۔ صدام حسین بعث پارٹی کے ممبر ہیں جو کہ ایک قومی پارٹی ہے، نہ کہ دینی پارٹی۔ صدام حسین نے اپنے فوجی منصب کا غلط استعمال کرکے عراق پر قبضہ کرلیا۔ وہ عراق کے تیل کی دولت میںبے جا طورپر تصرف کررہے ہیں۔ صدام حسین نے بہت سے سیاسی مخالفین کو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر ہلاک کردیا۔ صدام حسین نے ایران اور کویت کے خلاف جارحانہ کارروائی کی۔ رپورٹوں کے مطابق، دین سے اُن کا کوئی تعلق نہیں، وغیرہ۔ ان سب کے باوجود ساری دنیا کے مسلمان صدام کو اپنا ہیرو بنائے ہوئے ہیں۔ یہ اُسی نفسیات کے تحت ہے جس کو لا لحب علیّ بل لبغض معاویۃ کہا گیا ہے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمان، تقریباً سب کے سب، دوسری قوموں کی نسبت سے منفی نفسیات میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اس منفی نفسیات کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے مفروضہ دشمن کی ضد میں صدام حسین کو اپنا ہیرو بنالیا۔
۲۴ مارچ ۲۰۰۳
امریکا نے عراق کے خلاف جنگ یہ کہہ کر شروع کی تھی کہ ہم نے پچھلے مہینوں کے اندر اتنی زیادہ تیاری کر لی ہے کہ ایک ہفتہ کے اندر ہماری فتح کی صورت میں یہ جنگ ختم ہوجائے گی۔ مگر ابھی تک جنگ کے خاتمہ کا کوئی واضح نقشہ دکھائی نہیں دیتا۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۴ مارچ ۲۰۰۳) میں ایک سیاسی مبصّر کا تبصرہ چھپا ہے۔ اُس نے کہا کہ جنگ شروع کرنا آسان ہے مگر اُس کے کورس کے بارہ میں پیشین گوئی کرنا سخت مشکل ہے:
It is easy to start a war but very difficult to predict its course. (p. 11 )
ایک مبصّر نے کہا کہ امریکا نے صدام حسین کی فوجی طاقت کا اندازہ کرکے ایساکہا تھا۔ مگر حملہ کے بعد ایک غیر متوقع صورت پیش آگئی،اور وہ ہے عراقی نیشنلزم کا بھڑک اٹھنا:
US attack has managed to provoke Iraqi nationalism.
یہ مسئلہ صرف عراقی نیشنلزم کا نہیں ہے بلکہ وہ عرب نیشنلزم کا، حتیٰ کہ پوری دنیا کے مسلم نیشنلزم کا ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان امریکا کی نفرت میں جی رہے تھے۔ اس لیے جب اُنہوں نے دیکھا کہ امریکا نے ایک مسلم ملک پر حملہ کر دیا ہے تو اُن کی منفی نفسیات پوری طرح بھڑک اُٹھی۔ وہ تقریباً متفقہ طورپر اس معاملہ میں امریکا کے مخالف اور عراق کے حامی بن گئے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ امریکا نے جو لڑائی چھیڑی ہے وہ صرف عراق کے خلاف نہیں ہے بلکہ پوری مسلم دنیا اُس کی زد میں ہے۔ گویا امریکا نے بھڑ کے چھـتّہ میںہاتھ ڈال دیا۔ اس جنگ میں امریکا کی جیت ہو یا ہار، اُس کو آئندہ اس کی بنا پر سنگین مسائل کا سامنا پیش آئے گا۔
۲۵ مارچ ۲۰۰۳
آج عراقی جنگ کا چھٹا دن ہے۔ اقوام متحدہ اور دنیا بھر کی عوام کی اکثریت امریکا کے اس فوجی اقدام کی مخالف تھی۔ ایسی حالت میں امریکا کی حکومت نے کیوں عراق پر حملہ کیا۔ اُس کا ایک خاص سبب ہے۔ امریکا کے مدبّرین یہ سمجھتے تھے کہ عراق کے عوام صدام حسین کی آمرانہ حکومت کے مخالف ہوچکے ہیں۔ وہ امریکی فوج کو نجات دہندہ سمجھ کر اُس کا استقبال کریں گے مگر غالباً ایسا نہیں ہوا۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۵ مارچ ۲۰۰۳) کی ایک رپورٹ میں یہ الفاظ چھپے ہوئے ہیں:
The earlier expectation was that the Iraqi towns would welcome the Americans as liberators and not require any pacification. (p. 12 )
ہزار سال پہلے مسلم فوجوں نے ایشیا اور افریقہ کے اکثر ملکوں میں نہایت تیزی سے فتح حاصل کرلی تھی۔ اس کاایک سبب یہ تھا کہ ان ملکوں کے عوام اپنے حکمرانوں سے ناراض تھے۔ چنانچہ اُنہوں نے مسلم فوجوں کا استقبال نجات دہندہ کی حیثیت سے کیا مگر آج ایسا نہ ہوسکا۔ اس کا بڑا سبب زمانی فرق ہے۔ قدیم زمانہ کی جنگ صرف میدان جنگ میں دو فوجوں کے درمیان ہوتی تھی۔ عوام براہ راست طور پر اُس کی زد میں نہیں آتے تھے۔ آج کی جنگ نئے ہتھیاروں سے ہوتی ہے۔ اُس کے برے اثرات فوراً ہی عوام تک پہنچنے لگتے ہیں۔ اس بنا پر عوام کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ اُن کے ملک پر حملہ کرنے والے لوگ مصیبت دہندہ ہیں،نہ کہ نجات دہندہ۔
۲۶ مارچ ۲۰۰۳
رپورٹ کے مطابق، امریکا کی فوج میں پندرہ ہزار مسلمان ہیں۔ یہ لوگ ایک قسم کے نفسیاتی بحران میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ کہ وہ امریکا کی فوج میں شامل ہو کر ایک مسلم ملک عراق کے خلاف جنگ کریں یا نہ کریں۔ بتایا گیا ہے کہ ایک امریکی مسلمان جس کا نام اکبر تھا اور کویت میں امریکی فوج کے ساتھ تھا، اُس نے ذہنی پریشانی کے عالم میں امریکی فوجیوں کے ایک کیمپ پر گرینیڈ سے حملہ کردیا اور چھ امریکیوں کو مارڈالا۔
میرے نزدیک اس معاملہ میں امریکی مسلمانوں کے لیے جو چوائس ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ امریکی فوج میں شامل ہو کر مسلم ملک کے خلاف لڑیں یا نہ لڑیں۔ حقیقی چوائس صرف یہ ہے کہ وہ امریکی شہریت کو قبول کریں یا شہریت کو چھوڑ کر امریکا سے باہر آجائیں۔ میرے نزدیک یہ ایک دوعملی (duplicity) کی روش ہے کہ امریکا کی شہریت لے کر وہاں کی مادّی سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور جب امریکا کو کوئی قومی لڑائی پیش آئے تو اُس لڑائی میںامریکا کا ساتھ نہ دیا جائے۔
آج کل اُمّہ کا جو تصور مسلمانوں میں پھیلا ہوا ہے مجھے ذاتی طور پراُس سے اتفاق نہیں۔ میرے نزدیک مسلمان اپنے مذہب کے اعتبار سے عالمی امت ہیں مگر وطن کے اعتبار سے اُن کی وفاداریاں اُسی طرح اپنے وطن کے ساتھ ہونی چاہئیں جس طرح دوسری قوموں کے لوگ اپنے مذہب کے اعتبار سے الگ تشخص رکھنے کے باوجود وطنی معاملات میں بقیہ اہل وطن کے ساتھ ہوتے ہیں۔
۲۷ مارچ ۲۰۰۳
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۲۷ مارچ) میں مسٹر اشوانی کمار کا ایک آرٹیکل چھپا ہے۔ اس آرٹیکل میںوہ عراق کے خلاف امریکا کی جنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ جنگ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ میں امریکا کی عمارتوں پر حملہ کا متناسب جواب ہے:
Does the war represent a proportionate response to 9/11. (p. 12 )
میرے نزدیک یہ ایک غیر متعلق سوال ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کبھی کوئی حکومت برابر کا جواب یا متناسب جواب نہیں دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ تناسُب کا مذکورہ اصول صرف معمول کے حالات میں قابلِ عمل ہے۔ غیرمعمولی حالات میں کوئی بھی تناسُب کے اس اُصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ انتقامی کارروائی کرنے والا ہمیشہ اپنی طاقت کے اعتبار سے جوابی کارروائی کرتا ہے، نہ کہ تناسب کے اعتبار سے۔
۲۸ مارچ ۲۰۰۳
صدر امریکا جارج بُش نے جب عراق پر حملہ کیا تو اُن کا اندازہ تھا کہ یہ جنگ صرف چند دن میں ختم ہوجائے گی۔ اُن کی انٹلی جنس نے اُنہیں بتایا تھا کہ عراق کے عوام صدّام حسین سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے جب امریکی فوجیں عراق میں داخل ہوں گی تو وہ اُن کا استقبال کریں گے۔ عراقیوں نے امریکی اور برطانوی فوجوں کے خلاف کم ازکم وقتی طور پر گوریلا وار چھیڑ دی ہے۔ اُنہوں نے امریکی اور برطانوی فوجو ں کو کچھ نقصان بھی پہنچایا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ عراق کے لوگ صدام حسین کی سخت گیر ڈکٹیٹر شپ کی بنا پر اُن سے نفرت کرتے ہوں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حملہ آور امریکیوں سے ضرور پیار کریں گے۔
دوسری بات جو عراق پر امریکی حملہ کے بعد سامنے آئی ہے۔ وہ یہ کہ ساری دنیا کے مسلمان امریکا کے خلاف ہوگئے ہیں۔ ہر مسلم ملک میں امریکا کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ حتٰی کہ صدام حسین اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کے ہیرو بن گئے ہیں۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۲۸ مارچ ۲۰۰۳) میں مسٹر پریم شنکر جھَا کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اس کا عنوان ہے: Stuck in Iraq ۔ اس مضمون میں وہ موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدام حسین داخلی طورپر عراقیوں میں بہت زیادہ غیر مقبول ہوسکتے ہیں مگر وہ مسلمانوں کے لیے خارجی حملہ کے خلاف مقاومت کی علامت بن گئے ہیں:
While Saddam may be highly unpopular within the domestic Iraqi context, he has become a symbol of resistance to foreign aggression. (p. 16 )
۲۹ مارچ ۲۰۰۳
آج امریکا۔ عراق جنگ کا دسواں دن ہے۔ یہ جنگ امریکا کے لیے بظاہر مشکل ثابت ہورہی ہے۔ مثلاً صدام حسین نے چھاپہ مار دستوں کو حرکت میں لاکر امریکی فوج کی رسد کو وقتی طورپر کاٹ دیا ۔ امریکی فوج کو ضروری سامان پہنچنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اس بنا پر اُن کی پیش قدمی وقتی طور پرسُست ہوگئی ہے۔ ۲۹ مارچ کے انگریزی روزنامہ پانیر(The Pioneer)نے اپنی پہلی خبر کی سرخی ان الفاظ میں قائم کی ہے کہ بُش ویتنا م کے راستہ پر:
Bush goes Vietnam way.
اسی طرح ہندستان ٹائمس کے آج کے اداریہ کا عنوان یہ ہے کہ سنگین نوعیت کا کمتر اندازہ (Grave Misunderestimation)
میڈیا میں جو رپورٹیں آرہی ہیں اُن کے اعتبار سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب امریکی صدر جارج بُش کے لیے شاید دومیں سے ایک کا چوائس ہے۔ یا تو وہ ویتنام کی طرح عراق سے واپسی کا فیصلہ کریں۔ یا وہ بھاری بم گرا کر عراق کو بالکل تباہ کردیں۔ مگر جارج بُش کے لیے دونوں ہی چوائس یکساں طورپر سخت مشکل ہے۔ اگر وہ عراق سے واپسی کا فیصلہ کرتے ہیں تو یہ اُن کے لیے اور امریکہ کے لیے بدترین رسوائی کے ہم معنٰی ہوگا۔ یہ قومی رُسوائی اُن کے لیے غالباً شکست سے زیادہ بُری ثابت ہوگی۔ اور اگر وہ بھاری بم باری کرکے عراق کو تباہ کریں تو جارج بُش کوامریکی عوام کے اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ امریکی تاریخ کی یہ سب سے بڑی قربانی کیوں دی گئی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو آدمی عزت کا سوال بنا لیتا ہے۔ اور پھر وہ کسی بھی حال میں پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
۳۰ مارچ ۲۰۰۳
قدیم زمانہ میں کسی جنگ کی خبر بقیہ دنیا کو برسوں کے بعد پہنچتی تھی۔ مگر آج کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ عراق کے خلاف امریکا کی جنگ کی خبریں ہر لمحہ ساری دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔ حتیٰ کہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے ٹی وی سیٹ پر جنگ کا حقیقی منظردیکھ رہے ہیں۔
اسی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں میں غم اور غصہ کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ مختلف ملکوں سے مسلمان سفر کرکے عراق پہنچ رہے ہیں تاکہ عراقی مسلمانوں کی مدد کریں۔ ایک خبر کے مطابق، ہندستان سے ۶ مسلم نوجوانوں کی ایک ٹیم عراق پہنچی ہے۔ اس ٹیم کی قیادت سعید نوری کررہے ہیں جو بمبئی کی رضا اکیڈمی کے صدر ہیں۔
اس قسم کے امدادی دستوں کا تجربہ بہت پُرانا ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہجرت کی تحریک چلی۔ اس میںہندستان کے مسلمان ہزاروں کی تعداد میں سفر کرکے کابل پہنچے۔ اسی طرح پچھلی امریکا ۔عراق جنگ میں مختلف ملکوں سے لوگ عراق پہنچے تھے۔ اسی طرح طالبان کی تحریک کے زمانہ میں ہزاروں مسلمان افغانستان میںداخل ہوئے تھے۔ مگر یہ تمام مہاجر مجاہدین ایک ہی انجام سے دوچار ہوئے۔ وہ یہ کہ وہ یا تو ہلاک ہوگئے یا بھاگ کر اپنے وطن واپس آئے۔ یقینی طورپر یہی انجام اُن لوگوں کا بھی ہونے والا ہے جو موجودہ جنگ میں عراق پہنچ رہے ہیں۔ اس قسم کے غیر منظم اور غیرتربیت یافتہ لوگ موجودہ جنگ میں کوئی بھی کردار ادا نہیں کر سکتے۔وہ دوسروں کے لیے بھی مصیبت ہیں اور خود اپنے لیے بھی مصیبت۔
۳۱ مارچ ۲۰۰۳
امریکی انتظامیہ کا خیال ہے کہ عراق کے خلاف جنگ میں اُس کی جیت یقینی ہے۔ چنانچہ اُس نے مختلف کمپنیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ عراق کی بعد از جنگ تعمیر میں حصہ لیں۔ خاص طور پر عراق کی تیل کی صنعت کو دوبارہ منظّم کرنے کے لیے۔ امریکی انتظامیہ نے اس مقصد کے لیے جن کمپنیوں کو چنا ہے وہ سب امریکی کمپنیاں ہیں۔ اس پر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اپنا تبصرہ شائع کیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (۳۱ مارچ) کے مطابق، نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ صرف امریکی کمپنیوں کو عراق کی تعمیر نو کے لیے مدعو کرے، اُس بین اقوامی تقسیم میں مزید اضافہ کرے گا جو کہ پہلے ہی سے بڑے پیمانہ پر موجود ہے:
The (US) government's decision to invite only American Corporations... has added to the profound international divisions that already surround the war. (p. 14 )
امریکا اس جنگ میں اقوام متحدہ کی تائید حاصل نہ کرسکا۔ بڑی طاقتیں مثلاً فرانس، روس، چین سب اس معاملہ میں امریکا کے خلاف تھیں ۔ ساری دنیا کے عوام تقریباً ۷۰ فیصد تک امریکا کے مخالف ہوگئے۔ اب اگر تجارتی مفاد کے معاملہ میں بھی امریکا سب سے الگ ہوگیا تو جنگ کے بعد امریکا کو ایسے مسائل پیش آسکتے ہیںجن کا حل آسان نہ ہوگا۔
اپنے آپ کو سُپر پاور سمجھنے کے باوجود، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا نے عراق کے خلاف لڑائی چھیڑ کر اپنے آپ کو ایک مشکل میں پھنسا لیا ہے۔ اب اگر وہ ویتنام کی طرح عراق چھوڑ کر لوٹ جائے تو یہ امریکا کے لیے بہت بڑی بے عزّتی کے ہم معنٰی ہوگا۔ اور اگر وہ اپنی بڑھی ہوئی فوجی طاقت سے عراق کو تباہ کردے تب بھی اندیشہ ہے کہ امریکا کی یہ فتح پِرک فتح (pyrrhic victory) ثابت ہو جو ہار سے کچھ ہی مختلف ہو۔
یکم اپریل ۲۰۰۳
عراق میں جب سے امریکا کی فوجی کارروائی شروع ہوئی ہے، میرے پاس اکثر لوگوں کے ٹیلی فون آتے رہتے ہیں۔ ملک کے اندر سے بھی اور ملک کے باہر سے بھی۔ وہ پوچھتے ہیں کہ صدام حسین کا کیا قصور تھا جس کی بنا پر امریکا نے اُس کے اوپر فوجی حملہ کردیا اور ساری مسلم دنیا کو ذلت اور مصیبت کے غار میں ڈھکیل دیا۔
اس مسئلہ میں سوچنے کا یہ آغاز صحیح نہیں۔ صحیح آغاز یہ ہے کہ اس سوچ کو قرآن سے شروع کیا جائے۔ قرآن میں بار بار مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو (و انتم الاعلون ان کنتم مومنین)۔ اسی طرح فرمایا کہ اللہ منکروں کو مومنین کے اوپر ہر گز راہ دینے والا نہیں( ولن یجعل اللہ للکافرین علی المؤمنین سبیلا)۔اس طرح کی کثیر آیتیں جو قرآن میں ہیں اُ ن کی روشنی میں غور کیا جائے تو یقینی طورپر کہا جا سکتاہے کہ موجودہ قسم کی صورت حال میںہمارے سوچنے کا رُخ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ فلاں غیر مسلم طاقت نے مسلمانوں کو کیوں ذلیل و مغلوب کیا۔ بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ خود مسلمانوں میں وہ کون سی کمزوری آگئی تھی جس کی بنا پر غیرمسلم طاقتوں کو یہ موقع ملا کہ وہ مسلمانوں کو ذلت اور مغلوبیت سے دوچار کریں۔
اصل یہ ہے کہ صدام حسین کا یا اُن کے حامیوں کا قصور امریکا کی نسبت سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی نسبت سے ہے۔ اس اعتبار سے مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کی فوجی کارروائی در اصل اُن کے اوپر ایک خدائی آپریشن ہے (بنو اسرائیل ۵)۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، یہ ایک خدائی تازیانہ ہے، نہ کہ محض ایک امریکی کارروائی۔
حقیقت یہ ہے کہ عراقی لیڈر اس برائی کی علامت بن گئے ہیں جو اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں نے صدام حسین کو اپنا ہیرو بنالیا ہے۔ یہ گویا اس مسلم سیاست کا ایک انتہائی اظہار ہے جو پچھلے تقریباً دوسو سال سے مسلمانوں کے اندر چل رہی تھی ۔ موجودہ زمانہ میں جب مغربی کولونیلزم کا مسئلہ پیدا ہوا تو ساری دنیا کے مسلمانوں میں ایسے لیڈر اُبھرے جو کسی نہ کسی اعتبار سے عداوتی نعروں پر کھڑے ہوئے ـتھے۔ نعرہ کے الفاظ مختلف تھے مگر سب کی اسپرٹ ایک تھی—پان اسلامزم، عرب نیشنلزم، اسلامک فنڈامنٹلزم، مسلم ریوائیولزم، جہاد ایکٹیوزم، اسلامک ریڈیکلزم، ٹوٹل اسلامزم، وغیرہ سب اس کے مظاہر ہیں۔
یہ تحریکیں جو پچھلے دو سو سال کے اندر ساری مسلم دنیا میں پھیل گئیں وہ مشترک طورپر عداوت پر مبنی سیاست کا نتیجہ تھیں۔ جب کہ مسلمانوں کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری تھا کہ وہ دعوت پر مبنی سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔ اس غیر اسلامی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ساری دنیا کو اپنا دشمن فرض کرلیا ۔ اور تمام قوموں سے متنفر ہو کر اُن کے خلاف نظری یاعملی طورپر منفی جہاد چھیڑ دیا۔
۲ اپریل ۲۰۰۳
ایک حدیث میں دریائے فرات کا ذکر آیا ہے جو عراق میں واقع ہے اور جہاں آج کل جنگ ہو رہی ہے۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: یوشک الفرات ان یحسر عن کنز من ذہب فمن حضرہ فلا یاخذ منہ شیئا (صحیح مسلم، کتاب الفتن و اشراط الساعۃ)۔ یعنی قریب ہے کہ فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے، جو کوئی وہاں ہو تو وہ اس میں سے کچھ نہ لے۔
اس حدیث میں واضح طورپر تیل کے ذخائر کی طرف اشارہ ہے جس کو سیّال سونا (liquid gold) کہا جاتا ہے۔ اس سیّال سونے کا بہت بڑا حصہ خدا نے عرب کی سرزمین کے نیچے رکھ دیا تھا۔ اس حدیث کے مطابق، اس سیّال سونے کا خزانہ اس لیے تھا کہ اُس کو خدائی مشن میںاستعمال کیا جائے۔ مگر مسلمانوں نے اس سیّال سونے کو یا تو اپنے ذاتی عیش کے لیے استعمال کیا یا اپنی مہنگی عداوتی سیاست کا بل ادا کرنے کے لیے۔
یہ مہنگی عداوتی سیاست موجودہ زمانہ میں تقریباً تمام مسلم ملکوں میں چل رہی ہے۔ مثلاً مصر، پاکستان، افغانستان، لیبیا، سوڈان، شام، ایران، وغیرہ۔ اس فہرست میں صدام حسین کی قیادت میںعراق نے اس وقت نمبر ایک کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ عداوتی نفسیات کی بنا پر ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو صدام حسین کے ساتھ بریکیٹ کرلیاہے۔ ساری دنیا کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو عراق سے منسوب کررکھا ہے۔ اُن کی اولاد اور اُن کے رشتہ دار خواہ امریکا میں ڈالر کمارہے ہوں مگر وہ تقریباً سب کے سب براہ راست یا بالواسطہ طورپر اینٹی امریکا ا ور پرو عراق بولی بول رہے ہیں۔
یہ صورت حال مسلمانوں کے لیے ایک جرم کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلمان نبی آخر الزماں کی امت ہونے کے اعتبار سے ایک داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی لازمی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دنیا کی قوموں کو دین کی دعوت دیتے رہیں۔ اسی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اُنہیں تیل کی دولت دی گئی تھی تاکہ وہ دعوتی عمل کی ہر ممکن قیمت ادا کرتے ہوئے اس کو نسل در نسل جاری رکھ سکیں۔
مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے یہ عظیم جرم کیا کہ نہ صرف یہ کہ دعوت کا کام نہیںکیا بلکہ داعی اور مدعو کے درمیان نفرت کا جنگل اُگا کر دعوت کے امکانات کو برباد کردیا۔ بظاہر کچھ مسلم گروہ دعوت کا نام لیتے ہوئے نظر آتے ہیںمگر یہ اُن کے جرم میںصرف اضافہ کے ہم معنٰی ہے۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ کوئی دعوت کے نام پر سیاست چلا رہا ہے۔ کوئی دعوت کے نام پر بزنس کر رہا ہے۔ کوئی جزئی اصلاح کررہا ہے اور بطور خود اس کو دعوت کا نام دے رکھا ہے۔ کچھ لوگ کمیونٹی ایکٹوزم جیسی قومی تحریکیں چلا رہے ہیں اور اُس کو دعوت کا نام دیے ہوئے ہیں، وغیرہ۔
۳ اپریل ۲۰۰۳
عراق کے خلاف امریکا کی جنگ کے معاملہ میں ساری دنیا کے مسلمان لکھنے اور بولنے میں مشغول ہیں۔ مگر میرے تجربہ کے مطابق، ہر ایک بس ردّ عمل کی زبان استعمال کررہا ہے۔ اس واقعہ پر کوئی مثبت تبصرہ ابھی تک میرے علم میں نہ آسکا۔ اس معاملہ کی ایک انوکھی مثال یہ ہے کہ ایک مسلم ادارہ جو اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے نام سے قائم ہے اُس نے ۶ صفحہ کا ایک پمفلٹ چھاپا ہے جس کا عنوان ہے—اسلام اینڈ ٹیررزم:
Islam and Terrorism
اس پمفلٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اوراُس کے ساتھی مسلمانوں کو دہشت گرد (terrorist) کہتے ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ مسلمان متشدد ہوسکتاہے مگر اُس کا تشدد صرف سماج دشمن عناصر کے خلاف ہوتاہے تاکہ وہ سماج میں امن اور انصاف قائم کرے:
He should be terrorist only towards the anti-social elements in order to promote peace and justice in society.
یہ بات بلاشبہہ عقل اور اسلام دونوں کے خلاف ہے۔ کسی مسلم فرد یا مسلم تنظیم کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امن اور انصاف قائم کرنے کے نام پر کسی کے خلاف تشدد کرنے لگے۔ وہ صرف پُرامن نصیحت کرسکتا ہے، نہ کہ متشددانہ کارروائی۔
اگر امن اور انصاف کے نام پراس قسم کی متشددانہ کارروائی جائز ہو تو وہ صرف مسلمان کے لیے جائز نہ ہوگی بلکہ وہ ہر ایک کے لیے جائز قرار پائے گی۔ مثلاً امریکا نے عراق کے خلاف جو فوجی کارروائی کی ہے اُس کو وہ آپریشن عراقی فریڈم(Operation Iraqi Freedom) کہتا ہے۔ اب اگر مذکورہ اُصول کو درست مان لیاجائے تو کس دلیل سے کہا جائے گا کہ عراق کے خلاف اُس کا یہ آپریشن غلط ہے۔ اگر مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امن و انصاف قائم کرنے کے نام پر متشددانہ آپریشن کرے تو امریکا کے اس موقف کو بھی جائز تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اپنے دعوے کے مطابق، عراق کی نجات کے لیے جو متشددانہ آپریشن کررہا ہے وہ درست ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ہر ایک کے لیے یہ مشترک اُصول ہے کہ کسی بھی عذر کی بنا پر کسی کو تشدد کاطریقہ اختیار کرنے کا حق نہیں۔ پُر امن عمل ہر ایک کے لیے جائز ہے لیکن پُر تشدد عمل کسی کے لیے بھی جائز نہیں۔
۴ ؍اپریل ۲۰۰۳
آج کی خبروں سے اندازہ ہوتاہے کہ امریکا کی قیادت میںاتحادی فوجوں (Allied Forces) نے صدام ایر پورٹ پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور اُس کا نام صدّام ایر پورٹ کے بجائے بغداد ایرپورٹ رکھ دیا ہے۔ یہ ایر پورٹ بغداد شہر سے صرف بیسکیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ اب بظاہر یقینی ہے کہ جلد ہی امریکی فوجیں بغداد پر قبضہ کرلیں گی اور جلد ہی پورا عراق اُن کے ماتحت ہوجائے گا۔
اس معاملہ کا ایک بے حد سبق آموز پہلو ہے۔ اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ اس حملہ کے خلاف تھا۔ روس، جرمنی، فرانس چین، وغیرہ ممالک امریکا کو اس سے روک رہے تھے۔ تمام دنیا کے مسلمان تقریباً متفقہ طورپر اس معاملہ میں عراق کے حامی اور امریکا کے مخالف بنے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود امریکا نے عراق پر حملہ کردیا اور دنیا کی کوئی ’’رائے عامہ‘‘ اس کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
اس تجربہ میںایک بہت بڑا سبق ہے۔ اکثر مسلم رہنماؤں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کے حق میں دنیا کی رائے عامہ کو ہموار کرناہے اور انٹرنیشنل سپورٹ حاصل کرنا ہے۔ کشمیر اور فلسطین اور افغانستان جیسے متعدد مسائل پر ان لوگوں نے اربوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے کہ اپنے قومی کاز کے لیے انٹر نیشنل حمایت حاصل کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ کا ملنا بھی اتنا ہی بے فائدہ ہے جتنا کہ اس کا نہ ملنا۔عراق کی مثال بتاتی ہے کہ کسی مسئلہ کو انٹرنیشنلائز کرنا صرف ایک نادان خوش فہمی ہے۔ اس کا کوئی بھی حقیقی فائدہ نہیں۔ اگر اس میں فائدہ ہوتا تو عراق کو یہ فائدہ بخوبی طورپر حاصل ہوچکا ہوتا۔
ایک عوامی مثل ہے کہ: بَل تو اپنا بَل۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی قسم کا فائدہ کسی کو خود اپنی طاقت کے ذریعہ ملتا ہے، نہ کہ کسی دوسرے کی طاقت کے ذریعہ۔
ہمارے لیڈر جو طاقت کسی مسئلہ کو انٹرنیشنلائز کرنے میں لگاتے ہیں اُس کو اگر وہ اپنے داخلی استحکام میںلگائیں تو یقینی طورپر وہ زیادہ مفید ہوگا۔
۵ اپریل ۲۰۰۳
صبح کو میںنے ریڈیو کھولا تو اُس پر امریکا کے صدر جارج بُش کی تقریر آرہی تھی۔ اُنہوں نے پُر جوش طورپر کہا کہ عراق میں ہمارا آپریشن کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہم اپنے منصوبہ کے مطابق، مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ عراقی حکومت کے دن اب ختم ہونے والے ہیں:
The days of Iraqi regime are coming to an end.
میں نے یہ الفاظ سنے تو میں نے سوچا کہ زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف صدام حسین کا نہیں ہے بلکہ وہ خود جارج بُش کا بھی ہے۔ اس دنیامیں ہر انسان کاکاؤنٹ ڈاؤن (countdown) ہورہا ہے۔ ہر انسان کی مدت آخر کار ختم ہونے والی ہے۔ ہر انسان آخر کار موجودہ دنیا سے نکل کر آخرت کی دنیا میںپہنچنے والا ہے۔ وہاں ہر آدمی کو اپنے قول و عمل کاحساب دینا ہوگا۔ وہاں ہر آدمی یکساں طورپر خدا کے فیصلہ کو قبول کرنے پر مجبور ہوگا۔
مگر عجیب بات ہے کہ ہر مرد اور عورت کو صرف دوسروں کے اوپر گذرنے والے معاملہ کی خبر ہے۔ خود اپنی ذات پر جو کچھ گذرنے والا ہے اُس کی کسی کو خبر نہیں۔ یہ ایک ایسی بھول ہے جس میں شاید آج کا ہر انسان مبتلا ہے، خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا جاہل، خواہ وہ امیر ہو یا غریب، یہاںتک کہ اس معاملہ میںمذہبی اور غیر مذہبی کے درمیان بھی شاید کوئی فرق نہیں۔
۶ ؍اپریل ۲۰۰۳
عراق پر امریکی حملہ سے پہلے میںنے ایک مضمون انگریزی میںلکھا جس میںصدام حسین کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اقتدار سے ہٹ جائیں اور عراق چھوڑ کر کسی عرب ملک میں چلے جائیں۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو اور عراقی عوام کو بچالیں گے۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
Option for Saddam Husain.
کئی عرب ملکوں نے بھی صدام حسین کو خاموشی کے ساتھ یہی مشورہ دیا تھا۔ مگر صدام حسین نے اس مشورہ کو قبول نہیں کیا اور نادانی کی لڑائی لڑ کر اپنا خاتمہ کرلیا۔ عام طورپر مسلمان اس قسم کے فعل کو عزیمت کہتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ مگر میں اُس کو نادانی کی سیاست سمجھتاہوں۔ اس قسم کی سیاست کا آغاز جدید دور میں سلطان ٹیپو سے ہوا جو بے سروسامانی کے باوجود خود ساختہ طورپر شیر کی لڑائی لڑے اور ۱۷۹۹ میں انگریز کی گولی کا شکار بن گئے۔ اس کے بعد سید احمد بریلوی، جمال الدین افغانی، سید قطب، یاسر عرفات، جیسے بہت سے لوگ اسی قسم کی بے فائدہ قربانی کی مثالیں ہیں۔
اس طرح کے معاملہ میں پوری مسلم قوم اتنا زیادہ جذباتی ہوگئی ہے کہ اب کسی لیڈر کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری صورت ممکن نہیںرہی کہ وہ بطور خود عزیمت سمجھ کر اپنی جان دے دے۔ کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ مسلمانوں میں بزدل شمار ہوگا اور اچانک مسلمانوں کے اندر اپنی مقبولیت کھو دے گا۔
صدام حسین اس غلط روایت کو توڑ سکتے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے کہ اقتدارسے ہٹ کر کسی دوسرے ملک میں جا کر مقیم ہو جاتے اور وہاں ایک انٹرنیشنل یونیورسٹی قائم کرتے تو یہ امت کے لیے اُن کا ایک عظیم کارنامہ ہوتا۔ صرف اس اعتبار سے نہیں کہ اُنہوں نے مسلمانوں کوایک یونیورسٹی دی بلکہ اس اعتبار سے بھی کہ اُنہوں نے اس تباہ کن روایت کو توڑ کر نئی صحت مند روایت قائم کی جس کے مطابق، لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اور عزیمت کا غلط نمونہ قائم کررہے ہیں۔
اسلام کے مطابق، حقیقی عزیمت یہ ہے کہ آدمی غیر نزاعی طریقہ اختیار کرکے اپنے آپ کو بچائے اور اپنی قوتوں کو تعمیر و استحکام کے عمل میں لگا دے۔
۷ ؍اپریل ۲۰۰۳
آج کل عراقی جنگ کے بارہ میں تعلیم یافتہ مسلمانوں کے مضامین کثرت سے مسلم اخباروں اور مسلم جرائد میںآرہے ہیں۔ ان مضامین میںتقریباً مشترک طورپر یہ ہورہا ہے کہ یہ لوگ ڈکشنری کے تمام الفاظ امریکا کی مذمت میں استعمال کررہے ہیں۔ ہر ایک امریکا کے بارہ میں یہ ثابت کرنے میںمشغول ہے کہ اُس کی پالیسی دوہرا معیار پر مشتمل ہے۔ امریکا نے خود تو ہتھیاروں کا ذخیرہ اپنے ملک میںاکٹھا کر رکھا ہے اور عراق سے مطالبہ کرتا ہے کہ تم اپنے ہتھیاروں کو ختم کردو۔وہ خود تو ظالمانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے اور عراقی عوام سے مانگ کرتا ہے کہ تم اپنے یہاں سے ظالم حکمراں کو ہٹاؤ۔ وہ خود تو عراق اور دوسرے مسلم ملکوں کے خلاف تشدد کی کارروائی کرتا ہے اور دوسروں سے کہتا ہے کہ وہ امریکا کے اداروں پر متشددانہ حملے نہ کریں۔مسلم میڈیا آج کل اس قسم کے مضامین سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔
مگر یہ ایں گناہے است کہ در شہر شما نیز کنند کا معاملہ ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق، امریکا کی بے تکان مذمت کرنے والے ان مسلمانوں کا اپناحال یہ ہے کہ اُ ن میںسے جس کے بھی بَس میں ہے وہ اپنے بیٹے اور بیٹی اور اپنے رشتہ داروں کو امریکا میں سٹل کیے ہوئے ہے۔ یہ لوگ جس دوہرے معیار کا الزام امریکا کو دے رہے ہیں اُسی دوہرے معیار میں وہ خود مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں یا چپ رہیں یا اُصول پسندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنے عزیزوں کو امریکا سے واپس بلا لیں۔
جو لوگ امریکا یاغیر امریکا کو دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف اس قسم کے الفاظ بکھیر رہے ہیں اُن کے اوپر قرآن کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں کہ: ہم العدو فاحذرہم (المنافقون ۴) یعنی وہ خود دشمن ہیں، تم اُن سے بچو۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کو عدو قرار دے کر مسلمانوں کے اندر اُن کے خلاف نفرت اور عداوت کی نفسیات پیدا کرنا اسلام کے منصوبہ کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عدو کے ساتھ بھی بہتر سلوک کریں، وہ اپنے عدو کو بھی اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں۔ (حٰم السجدہ ۳۴)
قرآن کے اس بیان کے مطابق، یہ خود سب سے بڑی اسلام دشمنی ہے کہ ایسی باتیں کی جائیں جن سے مسلمانوں کے اندر دوسری قوموں کے خلاف نفرت اور عداوت کے جذبات بھڑک اُٹھیں۔ اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اتنی تلخی بڑھے کہ دعوتی عمل کے امکانات ختم ہوجائیں۔ جب کہ دعوتی عمل ہی اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
۸ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ میںپہلے امریکی فوج فضائی بمباری کرر ہی تھی۔ اُس وقت جنگ کا معاملہ یکطرفہ تھا۔ امریکی مارنے والے تھے اور عراقی مرنے والے۔ لیکن صرف فضائی بمباری سے جنگ کا فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ امریکا اور برطانیہ کی فوج زمین پر اُتر گئی اور عراق کے شہروں میںزمینی راستہ سے گھسنا شروع کیا۔ اب لڑائی دو طرفہ ہوگئی ۔ رپورٹ کے مطابق، دونوں طرف کے ہزاروں فوجی مارے جاچکے ہیں۔
میںنے وائس آف امریکا (ریڈیو) پر امریکا کے صدر جارج بُش کی تقریر سُنی۔ اُنہوں نے پُرجوش طورپر کہا کہ صدّام ختم ہوگیا: (Saddam is finished) ۔ مگر عراق کی جنگ میںصدام حسین کی حیثیت صرف ایک علامت کی ہے۔ در حقیقت اس جنگ میں ساری دنیا کے مسلمان براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر شامل تھے۔ موجودہ صورت ِ حال کے مطابق، تمام دنیا کے مسلمان اس احساس میں جی رہے ہیں کہ امریکا اور دوسری قومیں مسلم دشمن یا اسلام دشمن بن چکی ہیں۔ وہ ہمارا وجود مٹا دینا چاہتی ہیں۔ ایسے حالات میں اصل مسئلہ جنگ کا نہیں ہے بلکہ مذکورہ قسم کی منفی سوچ کا ہے۔ جب تک یہ سوچ نہ بدلے جنگ و تشدد کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے گا، خواہ صدام حسین زندہ ہوں یا زندہ نہ ہوں۔
میںذاتی طورپر اس نظریہ کو بے بنیاد سمجھتا ہوں کہ امریکا یا دوسری قومیں اسلام دشمن ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیدائشی طورپر ہر آدمی اسلام دوست ہے۔ یہ مسلمانوں کی غیر حقیقی سوچ ہے جس کی بنا پر دوسرے لوگ اُن کو منفی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔
۹ اپریل ۲۰۰۳
آج کل دنیا بھر کامسلم پریس ایک ہی بولی بول رہا ہے،اور وہ ہے مذمت کی بولی۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی مسلم اخبار یا جریدہ ایسا نہیں جو ایسی بات لکھے جس میں مسلمانوں کو حوصلہ ملتا ہو۔ مثال کے طورپر ایک مسلم ہفت روزہ نے عراق کی جنگ پر ایک مضمون شائع کیا ہے جس کا عنوان یہ ہے—عراق کی آزادی کا آپریشن یا انسانیت کو غلام بنانے کی مہم:
Operation Iraqi freedom or Enslaving Mankind?
اس مضمون میں بار بار اس قسم کی بات کہی گئی ہے کہ یہ ایک غیر منصفانہ جنگ ہے جس کو بے شرمی کے ساتھ ایک کمزور قوم کے اوپر مسلط کر دیا گیاہے۔ یہ امریکن کولونیلزم (American colonialism) ہے، یہ امریکی امپیریلزم (American Imperialism)ہے۔ آئیے ہم ظالم امریکا کی مخالفت کریں اور مظلوم عراق کی حمایت کریں:
Let us oppose the oppressor and support the oppressed Iraqies
مگر قرآنی نقطۂ نظر سے اصل سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہے۔ موجودہ زمانہ کی مسلم نسلوں میں تقریباً دوسوسال سے سخت جمود (stagnation) آگیا تھا۔ خدا کے قانون کے مطابق، یہ ان کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کا تقلیدی خول ٹوٹے۔ اُن کے ذہن کی کھڑکیاںکھلیں۔ اُن کے اندر احتساب خویش کا جذبہ جاگے۔ وہ نئے زمانہ کی حقیقتوں کو سمجھیں اور دورِ جدید میں اپنا مقام متعین کرنے کی از سرِ نو منصوبہ بندی کریں۔
خدا کایہ قانون ایک عالمی اور عمومی قانون ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے وہ دُگنا اہمیت کا حامل ہے۔ مسلمان آخری نبی کی امت ہیں۔ اپنے اس منصب کی ذمہ داری سے وہ آخری حد تک غافل ہوگئے تھے۔ اب قت آگیا تھا کہ اُنہیں جھنجھوڑ کر جگایا جائے۔ اُن کے بے روح ڈھانچہ میں دوبارہ اسلام کی زندہ روح ڈال دی جائے۔ مسلمانوں کے موجودہ تاریک حال میں مجھے اُن کے اسی روشن مستقبل کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
آج صبح کو حسب معمول میں بی بی سی ورلڈ رسروس پر خبریں سن رہا تھا۔ خبروں میں بتایا گیا کہ عراق کی راجدھانی بغداد امریکی فوجوں نے قبضہ کرلیا اور صدام حسین کی ۲۴ سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ ریڈیو پر بار بار اس قسم کے الفاظ سُنائی دے رہے تھے:
Saddam is gone.
Rule of Saddam is over.
The regime of Saddam is no more.
The power of Saddam is wrecked forever.
Saddam’s authority is collapsed.
خبروں میںبتایا گیا کہ بغداد کے مرکز میں واقع صدام حسین کا دیو پیکر اسٹیچو ٹینک سے توڑ کر گرادیا گیا۔ یہ دیو پیکر اسٹیچو ۲۰ فٹ اونچا تھا اور اُس کو ۲۰۰۱ میںالفردوس اسکوائر میں نصب کیا گیا تھا۔ اس قسم کی مختلف خبریں مسلسل آرہی تھیں۔ خبروں کے درمیان اناؤنسر نے کہا:
The whole Muslim world has plunged into despair.
اُس وقت میں اپنے مطالعہ کے کمرہ میں تنہا کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ الفاظ سنتے ہی بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میںنے روتے ہوئے کہا کہ کیا خدا اب مسلمانوں کا مددگار نہیں۔ کیا خدا نے موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو رد کردیا ہے۔ میں سوچتا رہا، یہاں تک کہ میری سمجھ میں آیا کہ یہ مسلمانوں کو رد کرنے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس بے فائدہ طریقِ کار کو رد کرنے کا معاملہ ہے جو پچھلے دو سو سال سے مسلمان اپنے قائدین کی رہنمائی میں اختیار کیے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانہ میں جب دوسری قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے مغلوبیت کا مسئلہ پیداہوا تو قائدین نے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے جو طریقہ تجویز کیا وہ یہ تھا کہ مسلمان پولیٹیکل اسلام اور ملیٹنٹ جہاد کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ یہ نعرہ مسلمانوں کے اندر خوب مقبول ہوا۔ تقریباً ساری دنیا کے مسلمانوں نے اُسے اختیار کرلیا۔ کسی نے قولی طورپر اور کسی نے عملی طورپر۔
اس پولیٹیکل اسلام اور ملیٹنٹ جہاد میں دنیا بھر کے مسلمانوں نے جو جان و مال کی قربانیاں دی ہیں وہ پوری تاریخ کی تمام مسلم قربانیوں سے بھی زیادہ ہیں۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ تمام قربانیاں حبطِ اعمال کا شکار ہوگئیں۔ اُن کاکوئی بھی مثبت نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ عراق کا حادثہ جس میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے جذبات شامل ہوگئے تھے اس معاملہ کی آخری کڑی ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ خدا نے مسلمانوں کو رد نہیں کیا البتہ اُس متشددانہ طریقِ کار کو مکمل طور پر رد کر دیا ہے جو انقلابی اسلام اور مسلّح جہاد کی صورت میں مسلمانوں نے ساری دنیا میں جاری کر رکھا تھا۔
اب مسلمانوں کے لیے کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ پولیٹکل ایکٹوزم اور وائلنٹ ایکٹوزم کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور امن کے دائرہ میں رہتے ہوئے دعوہ ایکٹوزم کو اختیار کرلیں۔ عراق کا حادثہ اُن کو یہی ربّانی پیغام دے رہا ہے۔
۱۱ اپریل ۲۰۰۳
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (۱۱ اپریل ۲۰۰۳) میںڈاکٹر کرن سنگھ کا ایک مضمون چھپا ہے ۔ اس میں وہ عراق کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ امریکی سینیٹ کے ممبر رابرٹ بائرڈ نے سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ملک کے لیے روتے ہیں۔ عراقی بھی یقینا اپنی مصیبت پر رورہے ہیں۔ بقیہ دنیا عراق اور امریکا دونوں پر رو رہی ہے۔
Senator Robert Byrd said in his speech in the US Senate that he weeps for his country. The Iraqis of course are weeping in agony. The rest of the world, is weeping both for Iraq and for the U.S. (p. 10)
میرے نزدیک عراق کی جنگ کا معاملہ رونے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وہ تجزیہ کرنے کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ غیر معمولی جنگ سادہ طورپر صرف ایک جنگ نہیں تھی بلکہ وہ ایک عالمی امتحان تھا جس میں تمام قومیں فیل ہوگئیں۔ امریکا اور برطانیہ کا کیس یہ ہے کہ اُنہوں نے نعمت کا بھرپوراستعمال کیا مگر انہوں نے منعم کا اعتراف نہیں کیا۔ خدا کی نعمتوں کا اعتراف کیا جائے تو اُس سے تواضع (modesty) پیدا ہوگی اور اگر خدا کی نعمتوں کااعتراف نہ کیا جائے تو اُس سے گھمنڈ اور سرکشی پیدا ہوتی ہے۔ یہی صورت امریکا اور اُس کے حلیفوں کے ساتھ پیش آئی۔ اُنہوں نے اپنی سرکشی کو عراق کے اوپر انڈیل دیا۔
دوسری طرف عراق کا معاملہ یہ ہے کہ اُس کی زمین کے نیچے تیل کے قیمتی ذخائر موجود ہیں۔ صدر صدّام حسین اس قیمتی دولت کے ذریعہ بہت بڑے بڑے تعمیری کام کرسکتے تھے۔ مگر اُنہوں نے اس دولت کا بہت بڑا حصہ ہتھیار اکٹھا کرنے میں لگا دیا۔ یہاں تک کہ عراق دنیا کی چوتھی سب سے بڑی فوجی طاقت بن گیا۔ اس کے بعد صدام حسین نے مزید یہ کیا کہ وہ ہر ایک کے خلاف دھمکی کی زبان استعمال کرنے لگے۔ وہ جنگجوؤں کے سرپرست بن گئے۔ اسی کا رد عمل تھا جو امریکی حملہ کی صورت میں اُن کے اوپر ٹوٹ پڑا۔
تیسری طرف بقیہ ملکوں کا معاملہ ہے۔ ان میں سے کسی بھی ملک نے اس معاملہ میں اصول پسندی کا ثبوت نہیں دیا۔ کسی کا مفاد امریکا سے وابستہ تھا تو وہ امریکا کے ساتھ متحد ہوگیا۔ کسی کا مفاد عراق کے تیل سے جڑا ہوا تھا تو وہ عراق کا حامی بن گیا۔ دنیا کے ۱۹۱ ملکوں میں سے شاید کوئی بھی ملک ایسا نہ تھا جو اس معاملہ میں بااُصول سیاست کا ثبوت دے۔
۱۲ اپریل ۲۰۰۳
لاہور کے اُردو روزنامہ نوائے وقت کا شمارہ ۳ اپریل ۲۰۰۳ مجھے آج کی ڈاک سے ملا۔ اس کے پہلے صفحہ پر ’’ملین مارچ‘‘ (کوئٹہ) کی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ یہ ملین مارچ پاکستان کے متحدہ مجلس عمل کے زیر انتظام کیا گیا تھا۔ اخبار میں اس کی تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: جہاد فرض ہوگیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن، مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد، پروفیسرساجد میر، مولانا سمیع الحق، علاّمہ ساجد نقوی، حافظ حسین احمد، وغیرہ نے تقریر کی۔
اس جلسہ میں پاکستانی رہنماؤں نے جو تقریریں کیں اُن کا خلاصہ اخباری رپورٹ کے مطابق، یہ تھا کہ امریکا نے نہتّے عراقی عوام پر شدید گولہ باری کررکھی ہے۔ امریکا ایک ایک کرکے تمام اسلامی ممالک کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اور برطانیہ مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ امریکا اور اُس کے حواریوں کے خلاف تمام مسلمانوں پر جہاد فرض ہوگیاہے (صفحہ ۶)
مذکورہ اقتباس میں جو بات کہی گئی وہ ایک ادھوری بات ہے۔ ’’تمام دنیا کے مسلمانوں‘‘ پر اگرجہاد فرض ہوگیا ہو تو ایسا نہیں ہوگا کہ دوسرے مسلمانوں پر تو جہاد فرض ہو اور مقررین پر جہاد فرض نہ ہو۔حقیقت یہ ہے کہ جب یہ کہا جائے کہ جہاد فرض ہوگیا ہے تو اس میں اپنے آپ ایک اور چیز شامل ہوجاتی ہے۔ وہ یہ کہ اب میدانِ جہاد سے باہر رہ کر تقریر کرنا حرام ہوگیا ہے۔ جب جہاد فرض ہو جائے تو سب کچھ چھوڑ کر میدانِ جہاد کی طرف بھاگنا چاہئے، نہ کہ میدان جہاد سے الگ رہ کر لفظی تقریر کرنا۔ اسی طرح کی صورت حال میںشاعر نے کہا تھا:
گئے وہ دن کہ تھی مقبول اک دنبے کی قربانی متاع جاں اب ادنیٰ ہدیہ ہے سرکارِ جاناں کا
جیسا کہ معلوم ہے، عراق کی جنگ قدیم انداز کی جنگ نہیںہے۔ یہ میڈیا کے دور کی جنگ ہے۔ آج ہر مسلمان اپنے گھر میں ٹی وی کے سیٹ پر نہ صرف جنگ کی خبریں سُن رہا ہے بلکہ وہ جنگ کے مناظر دیکھ رہا ہے۔ ایسی حالت میں عمومی جہاد کے لیے نہ کسی مارچ کی ضرورت ہے اور نہ کسی تقریر کی۔ اگر واقعتا یہ اسلامی جہاد کا مسئلہ ہو تو ہر مسلمان کو اُسی طرح میدانِ کارزار کی طرف بھاگنا چاہئے جس طرح کوئی باپ اپنے بیٹے پر حملہ ہوتاہوا دیکھے اور اُس کو بچانے کے لیے فوراً بھاگ کھڑا ہو۔ ایسا باپ اپنے بیٹے کی مدد پر دوڑنے کے لیے کسی تقریر کا انتظار نہیں کرے گا۔ اسی طرح اگر یہ اسلامی جہاد کا مسئلہ ہو تو مقررین سمیت تمام مسلمانوں کواپنے آپ میدانِ جہاد کی طرف دوڑ پڑنا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔ کیوں کہ اس معاملہ میںنہ مقررین سنجیدہ ہیں اور نہ سامعین۔
۱۳ ؍ اپریل ۲۰۰۳
قرآن کی سورہ نمبر ۲۷ میںحضرت سلیمان اور ملکۂ سبا کا قصہ بیان ہوا ہے۔ حضرت سلیمان کواللہ تعالیٰ نے عظیم سلطنت عطا فرمائی تھی۔ اُنہوں نے ملکۂ سبا (یمن) سے مطالبہ کیا کہ تم ہماری سیاسی اطاعت (النمل ۳۱) قبول کرو۔ اس موقع پر ملکۂ سبا کے درباریوں نے کہا کہ ہم اطاعت قبول نہیں کریں گے بلکہ ہم لڑیں گے۔ ملکہ ٔ سبا نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے درباریوں سے کہا کہ: بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اُس میں فساد کرتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ اور یہی یہ لوگ کریں گے۔ (۳۴)
قرآن میں ملکۂ سبا کا یہ قول تردید کے بغیر نقل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ملکۂ سبا کی روش کی تصدیق کررہا ہے۔ اس قرآنی آیت کو عراق کے صدر صدام حسین پر منطبق کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صدام حسین کو امریکی صدر کے مطالبہ کو ماننے کا راستہ اختیار کرنا چاہئے تھا، نہ کہ وہ مطالبہ کو ٹھکرا کر ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں۔ صدام حسین نے امریکا کے مقابلہ میں جوراستہ اختیار کیا وہ بہادری کا راستہ نہیں تھا بلکہ بے دانشی کا راستہ تھا۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ بہادری کے نام پر بے دانشی کا طریقہ اختیار کرنا ہمیشہ بدترین بزدلی پر ختم ہوتا ہے۔ یہی صدام حسین کے ساتھ پیش آیا۔ آغاز میں وہ بہادری کے نام پر لڑنے کی باتیں کرتے تھے مگر جب امریکا نے صدام حسین کے محلوں اور بنکروں پر شدید بمباری کی تو وہ بزدل کی طرح روپوش ہوکر بھاگ گئے۔
اصل یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں ناقابل عمل اُصول کا حوالہ دینے کے بجائے حقیقی نتیجہ کو دیکھنا چاہئے۔ اس اعتبار سے یہاں صدام حسین کے لیے یہ ایک کم تر برائی (lesser evil) تھی کہ وہ شخصی اقتدار کو چھوڑ کر ملک کو تباہی سے بچا لیں۔ مگر بد قسمتی سے اُنہوں نے زیادہ بڑی برائی (greater evil) کا طریقہ اختیار کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود بھی تباہ ہوئے اور ملک بھی تباہ ہوگیا۔
۱۴ اپریل ۲۰۰۳
امریکی فوج کے مسلسل حملہ کے نتیجہ میں بغداد کا انتظامیہ درہم برہم ہوگیا۔ صدام حسین اور ان کے ساتھی شہر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پولیس کاپورا نظام ختم ہوگیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ شہر میں زبردست لوٹ مار شروع ہوگئی۔ بغداد کے جن محلوںاور بڑی بڑی عمارتوں کو لوٹ لیا گیا اُن میں سے ایک بغداد کا نیشنل میوزیم تھا۔ اس میوزیم میں انمول قسم کے تاریخی نوادر کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اس واقعہ کی خبر دیتے ہوئے ٹائمس آف انڈیا (۱۴ اپریل ۲۰۰۳) نے لکھا ہے کہ سات ہزار سال کے تاریخی نوادرات کو صرف ۴۸ گھنٹہ میں تباہ کر دیا گیا:
The National Museum of Iraq recorded a history of civilizations that flourished in Mesopotamia more than 7000 years ego. But it took only 48 hours for it to be destroyed. (p. 1)
میسوپوٹامیا اُس زرخیز علاقہ کو کہا جاتا ہے جوعراق کی دو دریاؤں، دجلہ اور فرات کے درمیان واقع ہے۔ مورخین کے مطابق، پہلی انسانی تہذیب اسی علاقہ میں بنی۔ یہ علاقہ سات ہزار سال سے تہذیبوں کا گہوارہ بنا رہا ہے۔ چنانچہ عراق میں کثرت سے تاریخی یادگار یںہیں۔ تیل کے بعد عراق کی سب سے بڑی آمدنی سیاحوں کے ذریعہ ہوتی تھی جو ان تاریخی یادگاروں کو دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ انہی میں سے ایک بغداد کا نیشنل میوزیم تھا۔
عملی اقدام کو ہمیشہ نتیجہ رخی (result oriented) ہونا چاہئے۔ صرف وہی اقدام درست ہے جو مثبت نتیجہ پیدا کرے۔ جو اقدام اپنے عملی نتیجہ کے اعتبار سے تباہ کُن یا غیر مفید ہو، وہ موت کی چھلانگ ہے، نہ کہ زندگی کی طرف اقدام۔ کوئی بھی عذر خواہ بظاہر وہ کتنا ہی خوش نُما ہو بے نتیجہ اقدام کو جائز ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں۔
۱۵ اپریل ۲۰۰۳
کل تک اخباروں کی پہلی سرخی عراق سے متعلق ہوتی تھی۔ آج عراق سُرخیوں کی فہرست میں نمبر دو پر چلا گیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا (۱۵ اپریل ۲۰۰۳) کے پہلے صفحہ کی دوسری سُرخی یہ ہے کہ عراق میںامریکا کا سیاسی مقصد حاصل ہوگیا:
Job done in Iraq.
۱۸ مارچ کوامریکا کی قیادت میں اتحادیوں (US-led coalition) نے عراق پر حملہ شروع کیا تو ساری دنیا کے مسلمان زبردست خوش فہمی میںمبتلا تھے۔ ہر طرف یہ کہا جارہا تھا کہ عراق کا صحرا امریکیوں کا قبرستان بنے گا۔ مسلمان اس بھرم میں تھے کہ صدر صدام حسین نے گھر گھر ہتھیار بانٹ دیے ہیں۔ چالیس دن کے لیے کھانے پینے کا سامان گھروں میں بھَر دیا ہے۔ امریکی فوجیں جب بغداد میں داخل ہوں گی تو شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ہر طرف امریکیوں کی لاش نظر آئے گی۔ مگر عملًاجو کچھ ہوا وہ اس کے برعکس تھا۔ امریکا اور برطانیہ کی فوجوں نے بہت کم وقت میں اور کسی بڑی مزاحمت کے بغیر عراق پر قبضہ کرلیا۔
اصل یہ ہے کہ صدام حسین کے ۲۴ سالہ زمانۂ حکومت میں تیل کی بے پناہ دولت عراق کو حاصل ہوئی۔ مگر اس کا زیادہ حصہ یا تو صدام حسین اور اُن کے قریبی لوگوں کے قبضہ میں چلا گیا یا فوجی مدوں میں خرچ ہوا۔ عوام کی بڑی اکثریت مفلس بنی رہی۔ عراق میں کچھ لوگ تو بہت امیر تھے اور زیادہ لوگ بے حد غریب۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عراقیوں کی اکثریت کے اندر قومی جذبہ ہی پورے طورپر پیدا نہ ہوسکا۔
جب امریکا اور برطانیہ کی فوجیں بغداد میں داخل ہوئیں تو یہاں کی غریب عوام جو پہلے ہی سے عراقی حکومت سے بیزار تھے، اُنہوں نے یہاں کے امیروں کو لوٹنا شروع کردیا۔ صدام حسین اور اُن کے دولت مند ساتھیوں کے شاندار مکانوں کو لوٹ کر جلا دیا۔ امیروں کے گھروں سے کھانے پینے کا سامان لوٹ لیا گیا۔ نفرت سے بھرے ہوئے عوام نے نہ صرف سرکاری عمارتوں کو لوٹا بلکہ وہ بغداد کے عظیم تاریخی میوزیم میں گھس گئے اور اُس کے نہایت قیمتی نوادرات کو لوٹ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ قیمتی چیزیں لوٹی گئیں۔ ان لوٹنے والوں میں پولیس کے لوگ بھی شامل تھے۔
امریکی حملہ کے بعد عراق میں انارکی پھیل گئی۔ حقیقی قومی جذبہ نہ ہونے کی وجہ سے عراقی قوم نے دفاع میںزیادہ حصہ نہ لیا۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر امریکی اوربرطانوی فوجیں بہت جلد عراق پر قابض ہوگئیں۔ تاہم فتح کے بعد کے مسائل ابھی عراق میں باقی ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ جنگ جیتنا آسان ہے مگر امن قائم کرنا مشکل ہے:
It is easy to win a war, but it is difficult to win peace.
۱۶ اپریل ۲۰۰۳
عراق پر جب سے امریکی حملہ شروع ہوا ، ساری دنیا کے مسلم پریس میں اُس کے خلاف مضامین چھپنے لگے۔ ان مضامین میںاکثر وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین (آل عمران ۱۳۹) جیسی قرآنی آیتوں کاحوالہ دے کر پُرجوش طورپر کہا گیاکہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی دولت کو ڈھال بنائیں اور پھر اُنہیں کسی کا کوئی خطرہ نہ ہوگا۔
مثلاً ایک پاکستانی ماہنامہ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا حملہ در اصل گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اور یہ کہ امریکا کا اگلا ہدف پاکستان ہے۔ اور یہ کہ امریکا کی مہم در اصل پورے عالم اسلام کے خاتمہ کی مہم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: امریکا جیسے پاگل ہاتھی سے لڑائی مول لینے کے ساتھ اگر ہم بحیثیت قوم اللہ کا دامن رحمت تھام لیں تو دنیا کی واحد سُپر پاور کے مقابلہ میں کائنات کی واحد سُپریم پاور ہمارے لیے کافی ہوجائے گی۔ (حکمتِ قرآن، لاہور، اپریل ۲۰۰۳، صفحہ ۲)
یہ بڑ ی عجیب بات ہے ۔ یہ حضرات ایک طرف مسلم ملکوں کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں کہ وہاں چند حکمرانوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسلام کی شیدائی ہے۔ کسی جماعت کا یہ کہنا ہے کہ اُس نے ساری دنیا میں دین کی ہوائیں چلا دی ہیں۔ کوئی مسلم تنظیم یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اُس کی کوششوں سے آج کا عہد اسلامی عہد بن چکا ہے۔ کسی ادارہ نے ایسے افراد تیار کرلیے ہیں جن کے لیے مفکّر اعظم اور شیخ العالم جیسے خطابات بھی ناکافی ہیں۔ گویا وہ کام بالفعل انجام پا چکا ہے جس کو کرنے کی تلقین یہ حضرات کررہے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل مسئلہ کام کا نتیجہ نہ نکلنے کا ہے، نہ کہ خود کام نہ ہونے کا۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر دین کے نام پر جو کام ہورہا ہے وہ در اصل ملّی کام (community work) ہے اور اس قسم کی سرگرمیاں جو مسلمانوں کے درمیان جاری ہیں وہ ملِّی سرگرمیوں(community activities)کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کی موجودہ سرگرمیاں حقیقی معنوں میں دین خدا وندی کی سرگرمیاں ہوتیں تو اُن کے اندر وہی صفات پیدا ہوتیں جو رسول اور اصحاب رسول میںپیدا ہوئیں۔ مثلاً خدا کے بندوں کو مدعو سمجھنا اور یک طرفہ بنیاد پر اُن کا خیر خواہ بننا۔ اپنی قومی اور مادّی مصلحتوں پر دعوتی مصلحت کو غالب کرنا۔ اسی طرح دو عملی کی روش سے مکمل طورپر پاک ہونا۔ دشمنی کے باوجود عدل کے طریقہ سے نہ ہٹنا۔ قول اور عمل میںتضاد نہ ہونا۔ دیانت داری (honesty)اور اُصول پسندی پر ہر حال میں قائم رہنا، لین دین کے معاملات میں ہمیشہ ذمہ داری کا ثبوت دینا، وغیرہ۔ یہی چیزیں اسلام کا معیار ہیں۔ مفروضہ دشمن کے خلاف تقریر کرنا اسلام کا معیار نہیں۔
۱۷ اپریل ۲۰۰۳
صبح کو میں بی بی سی ورلڈ سروس پر خبریں سُن رہا تھا۔ اس درمیان دو آدمیوں کا مکالمہ نشر کیا گیا۔ ایک اسلام پسند نوجوان کہہ رہا تھا کہ امریکا اسلام دشمن ہے۔ اُس نے اسلام کو مٹانے کے لیے موجودہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس سلسلہ میں اُس نے ہنٹنگٹن کی مشہور کتاب کا حوالہ دیا۔ دوسرا آدمی ایک امریکی جرنلسٹ تھا۔ اُس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کی لڑائی ٹیررزم کے خلاف ہے، نہ کہ اسلام کے خلاف:
America is fighting against terrorism and not against Islam.
مجھے امریکی جرنلسٹ کے جواب سے بالکل اتفاق ہے۔ امریکا کی پالیسی حقیقۃً پرو امریکا پالیسی ہے، نہ کہ اینٹی اسلام پالیسی۔ عراق پر امریکا کا حملہ اسلام کو مٹانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اُس ٹیررزم کو مٹانے کے لیے ہے جو اعلان کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے کہ اُس کا مقصد امریکی مفادات پر ضرب لگانا ہے اور عملاً وہ ایسا ہی کررہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میرے پاس دو مسلم نوجوان آئے۔ دونوں امریکا کے خلاف بول رہے تھے۔ میںنے کہا کہ اگر آپ کو دو اسکالر شپ ملے۔ایک، عراق کااور دوسرا امریکا کا تو آپ کہاں جائیں گے۔ دونوں نے پُر جوش طورپر کہا کہ ہم عراق جائیں گے۔ اب جب کہ میںیہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ یہ دونوں مسلم نوجوان امریکا جاچکے ہیں اور وہاں اطمینان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اسی طرح ایک بار میری ملاقات چھ پاکستانی نوجوانوں سے ہوئی۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ پاکستان کے نوجوان امریکا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ سب کے سب امریکا کے خلاف بولتے ہیں۔ اُس کے بعد ایک شخص بولاکہ مگر اُن کاحال یہ ہے کہ اگر ایک کمرہ میں دس پاکستانی نوجوان بیٹھے ہوں اور آپ باہر کی کھڑکی سے ایک گرین کارڈ اندر پھینکیں تو سب کے سب اُس کو لینے کے لیے ٹوٹ پڑیں گے۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ آج تمام دنیا کے مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ ہر ایک امریکا کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے مگر جب ذاتی فائدہ کا معاملہ ہو تو ہر ایک فوراً ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے کر امریکہ روانہ ہو جاتا ہے۔ ہر ایک اپنے بیٹے اور بیٹی کو امریکا بھیج کر فخر کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ وہ اب امریکا میں سٹل ہوگئے ہیں۔ یہ بلا شبہہ منافقت ہے۔ اور منافقت کی روش پر کبھی کسی گروہ کو خدا کی مدد نہیں مل سکتی۔
۱۸ اپریل ۲۰۰۳
بی بی سی ورلڈ سروس اپنے سامعین کو کوئی سوال دیتا ہے جس کا جواب وہ ٹیلی فون یا ای میل کے ذریعہ بی بی سی لندن کو بھیجتے ہیں۔ یہ جوابات روزانہ صبح کے نشریہ میں سنائے جاتے ہیں۔ اب چونکہ عراق کی صدام حکومت ختم ہوگئی ہے اور یہ سوال سامنے ہے کہ آئندہ عراق میں کس قسم کی حکومت بنے۔ بی بی سی لندن نے لوگوں کے سامنے یہ سوال رکھا:
Who should rule Iraq in the future?
صبح کے نشریہ میں لوگوں کے جوابات بتائے گئے۔ یہ جوابات دنیا کے مختلف حصوں سے آئے۔ زیادہ تعداد نے یہ کہا کہ عراق میں ڈیماکریٹک رول قائم کیا جائے۔ یعنی عراق پر خود عراق کے لوگ حکومت کریں۔ یعنی وہی نظام جو برطانیہ اور امریکا میںقائم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خالص آئیڈیلزم ہے، اور دنیا میںکبھی آئیڈیلزم چلتا نہیں۔
Ideal cannot be achieved.
خالص اصول کا تقاضا خواہ جو بھی ہو مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا کی حمایت کے باوجود صدام حسین کی حکومت کو امریکا اور برطانیہ نے فوج کشی کرکے ختم کردیا۔ ایسی حالت میں عملی حقیقت یہ ہے کہ فاتح نقشہ بنائے نہ کہ مفتوح۔ اسی حقیقت کو فارسی شاعر نے اس طرح کہا ہے کہ جو تلوار چلاتا ہے اسی کے نام کا سکّہ چلتا ہے۔
ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت اہل عراق کے لیے جن دو کے درمیان انتخاب ہے وہ امریکا کے ماتحت حکومت اور آزاد جمہوری حکومت کے درمیان نہیں ہے بلکہ ان کے لیے انتخاب امریکا کے ماتحت حکومت یا مزید تباہی کے درمیان ہے، ایسی حالت میں شریعت کا اصول اہون البلیتین کا ہے۔
۱۹ اپریل ۲۰۰۳
بی بی سی لندن نے ورلڈ نیوز میں بتایا کہ جمعہ (۱۸ اپریل) کو بغداد کی سڑکوں پر مسلمانوں کا ایک بڑا جلوس نکلا۔ اس جلوس کی قیادت نام نہاد اسلام پسند لوگ کر رہے تھے۔ بغداد کی سڑکوں پر گزرتے ہوئے جلوس اپنے لیڈروں کا دیا ہوا یہ نعرہ لگا رہا تھا—نہ بُش نہ صدام، بلکہ صرف اسلام:
No Bush, No Saddam
Yes yes to Islam
یہ نعرہ بظاہر خوشنما معلوم ہوتا ہے مگر میرے نزدیک وہ ایک خطرہ کی گھنٹی ہے۔ عراق میں اسلام پسند (الاخوان المسلمون جیسی جماعتوں کے لوگ) موجود تھے۔ سابق صدر صدام حسین نے اپنی سخت گیر پالیسی کے تحت انہیں دبا رکھا تھا۔مگر سابق صدر صدام حسین کے خاتمہ کے بعد یہ لوگ دوبارہ عراق میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ اور اگر یہ لوگ زیادہ ابھرے تو یقینی طورپر وہ اسی طرح عراق کو دوبارہ برباد کریں گے جس طرح یہ لوگ مصر، پاکستان، شام، سوڈان، ترکی اور پاکستان جیسے ملکوں کو تباہ کرچکے ہیں۔ میرے نزدیک مذکورہ نعرہ عراق کے لیے ایک خطرہ کی گھنٹی ہے نہ کہ کسی نئے اور بہتر دور کے آنے کی علامت۔ موجودہ زمانہ میں نام نہاد اسلام پسندوں نے اپنی سیاسی تحریکوں کے ذریعہ مسلمانوں کے ذہن کو تخریبی بنا دیا ہے۔ ہر مسلم ملک میں وہ یہ کررہے ہیں کہ حکمراں طبقہ کے خلاف مسلم عوام کو بھڑکاتے ہیں۔ بظاہر اسلام کے نام پر وہ یہ سنگین برائی کررہے ہیں کہ وہ حکمراں اورعوام دونوں کوایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کردیتے ہیں۔ اس خود ساختہ اسلامی سیاست نے ہر مسلم ملک کے بہترین امکانات کو برباد کردیا ہے۔
۲۰ اپریل ۲۰۰۳
دہلی کے ایک مسلمان کبھی کبھی میرے پاس آتے ہیں۔ ان کے اندر وہی منفی سوچ ہے جو عام مسلمانوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ وہ ڈگری والی تعلیم حاصل کئے ہوئے ہیں مگر ان کا مطالعہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ عام مسلمانوں کی طرح ان کی معلومات کا زیادہ تر ماخذ اردو اخبارات ہیں۔ ایک دن گفتگو کے دوران انہوں نے ایسی باتیں کہیں جو علمی اعتبار سے درست نہ تھیں۔ مثلاً ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ قدیم عہد نامہ (Old Testament) اور نیا عہد نامہ (New Testament) میںکیا فرق ہے۔ تیرہویں صدی میں جب تاتاری لشکر نے بغداد کو تباہ کیا تو اس کا سبب کیا تھا، وغیرہ ۔اس کم علمی کے باوجود وہ عراق اور امریکا کے مسائل پر پورے اعتماد کے ساتھ بول رہے تھے۔ وہ صدام حسین کے صد فی صد حامی تھے اور جارج بش کے صد فی صد مخالف۔ میں نے کہا کہ آپ کی علمی استعداد اتنی کم ہے اس کے باوجود آپ عالمی سیاست پر اتنے اعتماد کے ساتھ تبصرہ کررہے ہیں۔ انہوںنے پر جوش طورپر کہا: ہم عالمی سیاست کو خوب جانتے ہیں۔
میرے تجربہ کے مطابق، یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کاعام مزاج ہے۔ نہ صرف سیکولر علوم بلکہ دینی علوم کے بارے میں بھی ان کی معلومات بہت ناقص ہیں۔ اس کے باوجود ہر آدمی زبان اور قلم کا بادشاہ بنا ہوا ہے۔ اپنے خیال کے مطابق، وہ عالمی سیاست کا ماہر ہے۔ مگر کسی کو یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ جس بات کو جانتاہو اسی پر وہ بولے اور جس بات کو وہ نہ جانتا ہو اس کے بارے میں وہ کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔
فارسی کاایک مقولہ ہے —یک من علم را دہ من عقل می باید (ایک من علم کے لئے دس من عقل چاہئے) آج کل بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ یاتو اُن کے پاس ایک من علم نہیں یا اگر ان کے پاس ایک من علم ہے تو ان کے پاس دس من عقل نہیں۔ موجودہ زمانہ میں علمی ذوق نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مادی مفادات کو تو خوب جانتے ہیں مگر علمی اور تاریخی باتوں کے بارے میں ان کی واقفیت بے حد ناقص ہے۔ علم کی اس کمی کا مزید نقصان یہ ہے کہ وہ فن تفکیر (art of thinking) کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ ان کے خواص بھی فن تفکیر سے نابلد ہیں۔ حالانکہ فن تفکیر سے آگہی تبصرہ اور تجزیہ کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔
عراق کی سیاست یا عالمی تناظر میں مسلم سیاست کے بارے میں بظاہر ہر ایک لکھ اور بول رہا ہے مگر یہ سب بیشتر خطابت اور شاعری کی زبان میں ہوتا ہے۔ واقعات کا گہرا تجزیہ کرکے درست رائے تک پہنچنا جیسے کہ ان کا نہ تو کنسرن ہے اور نہ ان کے اندر اس کی استعداد موجود ہے۔
۲۱ اپریل ۲۰۰۳
عراق کے خلاف امریکا کی جنگ ختم ہوگئی ۔ اس جنگ میںجو نقصانات ہوئے ان کا اندازہ کرنا ابھی مشکل ہے۔ بی بی سی لندن نے بتایا کہ اس جنگ میںاب تک امریکی حکومت کے ۲۰ بلین ڈالر خرچ ہوئے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ سے لے کر اب تک امریکا کی اقتصادیات پر جو زبردست اثرات پڑے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ امریکا کے تین سو ہوائی جہاز گراؤنڈ کردئے گئے ہیں۔ امریکا کی ہوائی کمپنیوں کو روزانہ ۵ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، وغیرہ۔
دوسری طرف عراق ہر اعتبار سے تباہ ہوچکا ہے۔ صدر صدام حسین کی ۲۴ سالہ حکومت اچانک ختم ہوگئی۔ صدام حسین نے عراق میں اپنے لیے ۸ عالیشان محل بنائے تھے۔ اُن میں سے ایک، خبر کے مطابق ، ایسا زمین دوز محل تھا جس کے اندر بیس میٹر موٹی زمینی چھت تھی۔ یہ چھت اعلیٰ ٹیکنیک کے ذریعہ لوہے اور دوسرے معدنی اجزاء سے اس طرح بنائی گئی تھی کہ ایٹم بم کے سوا کوئی اور بم اس کو توڑ نہ سکے۔ مگر امریکی فوج نے اُس پر ۲۰۰۰ سے زیادہ تباہ کُن بم برسائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہاڑ جیسی چھت اور پورا محل پگھل کر ایک جامد چٹان کی طرح ہوگیا۔ اس کے اندر جو لوگ چھپے ہوئے ـتھے ان کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہا۔
اس سلسلہ میں عجیب بات یہ ہے کہ امریکا کے زبردست اقتصادی نقصان اور عراق کی غیرمعمولی تباہی کے باوجود صدام کا ابھی تک پتا نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی نہیںمعلوم کہ وہ مرگئے یا زندہ ہیں۔
امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ جو شخص صدام حسین کا سرلائے گا اسے دو لاکھ ڈالر انعام دئے جائیں گے۔
میںسمجھتا ہوں کہ عراق کی یہ جنگ متشددانہ طریقِ کار کا آخری تجربہ ہے۔ ایک طرف صدام حسین نے عراق کی تیل کی دولت کو مسرفانہ حد تک خرچ کرکے زبردست جنگی تیاری کی۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ صدام حسین کی قیادت میں عراق پوری مسلم تاریخ کی سب سے بڑی طاقت بن گیا۔ دوسری طرف امریکا نے جدید ترین ٹکنالوجی کو جنگی سازوسامان کے لیے بھر پور استعمال کیا یہاں تک کہ وہ واحد سپر پاور بن گیا۔ اس طرح دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے سے ٹکراگئیں۔ مگر نتیجہ کے اعتبار سے دیکھئے تو جنگ کا کوئی حقیقی فائدہ کسی کے حصہ میں نہیں آیا۔
عراق کی اس جنگ پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے، میں سمجھتا ہوں کہ دو جنگی طاقتوں کا یہ ٹکراؤ غالباً اس پیشین گوئی کے مطابق تھا جو حدیث میں آئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرات کے علاقہ میں سونے کا پہاڑ نکلے گا جس پر قومیں جنگ کریں گی۔ یہ جنگ قیامت کی قربت کی ایک علامت ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی وہ جنگ تھی اور اب غالباً قیامت کے آنے میں زیادہ دیر نہیں۔
۲۲ اپریل ۲۰۰۳
صدام حکومت میں ناجی صبری عراق کے وزیرخارجہ تھے۔ بی بی سی لندن نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۳ کواُن کا ایک انٹرویو نشر کیا۔ اس میںاُنہوں نے کہا تھا کہ اتحادی ذہنی طورپر جنگ ہارچکے ہیں۔ بغداد کے داخلی دروازوں پر یقینی موت امریکی اور برطانوی فوجیوں کا انتظار کررہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اتحادی فوجیوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے اور ہم اُنہیں اب ایک آخری موقع دیتے ہیں کہ اتحادی فوج تیزی کے ساتھ پسپا ہوجائے ورنہ وہ بہت نقصان میں رہے گی۔ اتحادیوں کی عراق میں مکروہ خواہشات پوری نہیں ہوسکیں، جارحیت ناکام ہوگئی ہے۔ عراقی فوجی، فدائین اور عراقی عوام نے اُن پر جو کاری ضرب لگائی ہے اُسے وہ بہت دیر تک بلکہ صدیوں تک یادرکھیں گے۔ عراق کے خلاف جارحیت میں بہت سے اتحادی مارے گئے ہیں، بہت سے زخمی ہوئے ہیںاور بہت سے اتحادی جنگ سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ اتحادیوں نے جوجھوٹ بولا عراقی فوج نے اُس کا پول کھول دیا۔ شکست اُن کا مقدر اور فتح ہمارا مقدّر بن چکی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا عراق میں شکست کے بعد اب سُپر پاور نہیں رہا (نوائے وقت، یکم اپریل ۲۰۰۳)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم لیڈر کس طرح خیالی بنیاد پر اپنا سیاسی قلعہ تعمیر کرتے ہیں۔ وہ شکست کی خبر کو فتح کی خبر بناتے ہیں۔ وہ پسپائی کو اقدام کی زبان میں بیان کرتے ہیں۔ وہ عجیب و غریب طورپر ناکامی کو بیان کرنے کے لیے کامیابی کے الفاظ پالیتے ہیں۔ یہی واقعہ موجودہ زمانہ میں بار بار ہر جگہ پیش آیا ہے اور یہی واقعہ عراق میں بھی پیش آیا۔
۲۳ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ کا ایک نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مسلم ممالک میں نیٹو (NATO) کے انداز کی ایک دفاعی تنظیم بنائی جارہی ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلامی ممالک کا مشترکہ دفاعی نظام تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نیٹو کی طرز پر میٹو (MATO) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ملیشیا کے وزیر اعظم اور عرب لیگ کے سکریٹری جنرل نے میٹو کی تشکیل کے لیے رابطے شروع کردیے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت مسلم ممالک کی ایک کثیر تعداد میں فوج تیار کی جائے گی اور کسی بھی میٹو ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ ایک مسلم ملک کے سربراہ کے مطابق، اس معاہدے پر دستخط کے لیے مسلم ممالک کے سربراہان حرم شریف میں جمع ہوں گے جب کہ اس کا صدر مقام بھی مکہ میں ہی ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق، میٹو کا نام اور بنیادی تصور بین الاقوامی سیاسی و سفارتی امور کے ایک پاکستانی نژاد رہنما اور عرب لیگ سے تعلق رکھنے والی دو اہم شخصیات نے پیش کیا ہے۔ (نوائے وقت، لاہور، اپریل ۲۰۰۳، صفحہ ۳)
میرے نزدیک یہ محض ایک رژمیہ شاعری ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ اس طرح کا معاملہ پہلے عمل کے اندر ظہور میں آتا ہے اور پھراُسے کاغذ پر لکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے معاملہ میںکبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے وہ کاغذ پر لکھا جائے اور پھر یہ کاغذی الفاظ عمل کی صورت میںڈھل جائیں۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ملک ہیں۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ تمام ملک کسی مسلم ایشو پر متحد ہوگئے ہوں۔ جو لوگ اتنے نازک مسئلہ پر متحد ہو کر رائے بھی نہ دے سکیں وہ آخر متحد ہو کر عمل کس طرح کریں گے۔
۲۴ اپریل ۲۰۰۳
پاکستان کے اُردو روزنامہ نوائے وقت (لاہور) کے شمارہ ۱۳ اپریل ۲۰۰۳ میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف (حال مقیم ریاض) کا ایک بیان چھپا تھا۔ اس میں وہ کہتے ہیں کہ سقوط بغداد عالم اسلام کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ یہ ثابت ہوگیاہے کہ امریکا اور برطانیہ اسلام کے خلاف جنگ کررہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ نے سلامتی کونسل اور عالمی رائے عامہ کو مکمل طورپر نظر انداز کرکے عراق پر حملہ کیا اور معصوم بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا جو کھلی دہشت گردی ہے۔ امریکا نے عراق پر حملہ کرکے ہلاکو خاں اورچنگیز خاں کی یاد تازہ کردی ہے۔ عالم اسلام امریکا اور برطانیہ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرے۔ (صفحہ ۱۶)
یہی بات آج کل تمام دنیا کے مسلمان مختلف الفاظ میں کررہے ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ بالکل بے بصیرتی کی بات ہے۔ اگر بالفرض امریکا اور برطانیہ چنگیز اور ہلاکو کی تاریخ دہرارہے ہیں تو اُس کے مقابلہ میں سبّ و شتم کاکوئی فائدہ نہیں۔ اس کے بجائے لوگوں کو کہنا چاہئے کہ ہم بھی اُس تاریخ کو دہرائیں گے جو چنگیز اور ہلاکو کے معاصر مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ اُس زمانہ کے مسلمانوں نے یہ کیا تھا کہ اُنہوں نے جواب میںاسلامائزیشن آف تاتار کی مہم چلائی۔ یہاں تک کہ تاریخ کو برعکس طورپر بدل دیا۔ اسی طرح آج کے مسلمانوں کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ اسلامائیزیشن آف امریکا کی مہم چلائیں اور دوبارہ تاریخ کے دھارے کو اپنی موافقت میں بدل دیں۔ یہی اسلام کی تاریخ ہے۔ سبّ و شتم کرنا یا مال کے بائیکاٹ کی دھمکی دینا، اس طرح کی باتیں محض بے سود ہیں۔ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے، نہ کہ پیش آمدہ صورت حال کا سامنا کرنا۔
۲۵ ؍اپریل ۲۰۰۳
امریکا اور عراق کی موجودہ جنگ کو عراق کے صدر صدام حسین نے معرکۃ الحواسم کا نام دیا تھا۔ یعنی فیصلہ کن جنگی معرکہ۔ صدر صدام حسین نے یہ کہا تھا تو اُن کے نزدیک اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ جنگ امریکا کی شکست پر ختم ہوگی۔ عراق کی سرزمین امریکی فوجوں کے لیے قبرستان ثابت ہوگی۔ آخرکار امریکا مجبور ہوگا کہ وہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کو لے کر عراق سے بھاگ جائے۔
مگر عملاً اس کے برعکس ہوا۔ امریکا نے نہ صرف فضائی حملہ میں بلکہ زمینی جنگ میں بھی عراق کی فوجوں کو بری طرح شکست دی۔ صدر صدام حسین نے اتنی زبرست تیاری کی تھی کہ وہاں کے جنگی ماہرین کو فخر کے ساتھ میزائل حسین اور کیمیکل علی کہا جانے لگا۔ مگر یہ ساری تیاریاں محض غبارہ ثابت ہوئیں۔ صدر صدام حسین اور ان کے ساتھیوں کے بڑے بڑے دعووں کے باوجود عراقی حکومت کو فیصلہ کن شکست ہوئی۔ صدر صدام حسین اس طرح ختم یا روپوش ہوگئے جس طرح اسامہ بن لادن یا ملّا عمر ہوگئے تھے۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی شاید سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ الفاظ کو حقیقت سمجھ لیـتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے الفاظ بولنے والے کو اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں۔ غالباً موجودہ مسلمانوں کی یہی سب سے بڑی کمزوری ہے جس نے اُنہیں صحیح قیادت سے محروم کر رکھا ہے۔
۲۶ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ شروع ہونے کے بعد مسلم خطباء اور مقررین بڑے بڑے الفاظ بول رہے ہیں۔ اُن کو یقین ہے کہ اُن کے یہ الفاظ امریکا کے بم کے خلاف سپر بَم ثابت ہوں گے اور امریکا اور اُس کے ساتھیوں کو شرمناک انجام سے دوچار کریں گے۔ کچھ لوگ فیاضی کے ساتھ اقبال کے وہ اشعار دہرارہے ہیں جو مسلمانوں کی ناقابلِ تسخیر طاقت کا شاعرانہ اعلان ہیں۔ مثلاً:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
پاکستان کے قاضی حسین احمد صاحب نے لاہور میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ: اسلام کا مستقبل روشن ہے اور یہی پوری دنیا کے لیے ورلڈ آرڈر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکا پوری دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے لیکن امت مسلمہ کے اندر پیدا ہونے والی بیداری کی لہر اس خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دے گی۔ (نوائے وقت: ۲۱ اپریل ۲۰۰۳ صفحہ ۲)
یہ انداز کلام بلا شبہہ اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ رسول اور اصحاب رسول کے زمانہ میں ہر طرح کے ناموافق واقعات پیش آئے۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسو ل اور اصحاب رسول ایسے موقع پر مذکورہ قسم کے الفاظ بولیں۔ اس کے برعکس اُن کا طریقہ یہ تھا کہ جب بھی ایساکوئی حادثہ گذرتا تو وہ داخلی احتساب کرتے۔ لفظی جوش دکھانے کے بجائے وہ اس فکر میں لگ جاتے کہ ہماری وہ کون سی داخلی کوتاہی تھی جس کی بنا پر ہمیں ایسی مصیبت سے دوچار ہونا پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قسم کی شاعری اور خطابت صرف اس بات کی علامت ہے کہ ملّت زوال کا شکار ہو چکی ہے۔ دور زوال میںیہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر عملی قوتیں کم ہوجاتی ہیں۔ اُس وقت ایسے شعراء اور خطباء اُبھرتے ہیں جو بڑے بڑے الفاظ بول کر اُنہیں اس خوش فہمی میں مبتلا کریں کہ وہ اب بھی پہلے کی طرح زندہ حالت میں موجود ہیں۔
۲۷ اپریل ۲۰۰۳
عراق کی جنگ کے زمانہ میں مسلم دانشوروں نے بے شمار مضامین لکھے۔ ان مضامین کا خلاصہ یہ تھا کہ عراق میں ہونے والی ٹریجڈی کی ذمہ داری اُنہوں نے دو چیزوں پر ڈالی—مغربی قوموں کی سازش، اور مسلم حکمرانوں کی غیر جمہوری پالیسی۔ جہاں تک مغربی قوموں کی سازش کا تعلق ہے، وہ پہلے ہی نظر میں قابلِ رد ہے۔ قرآن میں مختلف الفاظ میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اہلِ اسلام کے لیے اغیار کی سازش کوئی مسئلہ نہیں کیوں کہ اللہ اس قسم کی سازشوں کے خلاف اہل اسلام کے لیے کافی ہے۔ ایسی حالت میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ مغربی قوموں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کی بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہوا کہ خدا نے اپنے وعدہ کے باوجود ان سازشوں کو ناکام نہیں بنایا۔
اس معاملہ میں دوسری توجیہہ مسلم حکمرانوں کا غیر جمہوری رویہ بتایا جاتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلم حکمراں اختلاف کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان مسلم حکمرانوں نے اپنے ملکوں میں بیشتر اعلیٰ صلاحیت کے لوگوں کو صرف اس لیے قید یا ہلاک کردیا کہ وہ اسلام پسند تھے اور اُنہوں نے مسلم حکمرانوں کی سیکولر پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس مخالفانہ پالیسی کا اثر یہ ہوا کہ مسلم ممالک سے ڈاکٹر، انجینئر، قانون داں، سائنٹسٹ، مفکرین اور سوشل سائنٹسٹ کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرکے امریکا اور یورپ، وغیرہ میں پناہ گزیں ہوگئی۔ اس کا نتیجہ علمی، سائنسی اور ٹیکنالوجیکل افلاس تھا۔ اور ظاہر ہے کہ جو ملک اپنے اعلیٰ صلاحیت کے افراد کو کھو دے وہ اس قابل نہیں رہتا کہ وہ کسی چیلنج کا جواب دے سکے۔
میں کہوں گا کہ یہ صحیح تصویر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں اصل غلطی خود اسلام پسند لوگوں کی ہے۔ یہ لوگ اپنے ملکوں سے نکل کر مغربی ملکوں میں جس طرح پُر امن اور غیر سیاسی انداز میں رہ رہے ہیں، اگر وہ اسی طرح اپنے ملکوں میں رہتے تو ہر گز اُنہیں ترکِ وطن نہ کرنا پڑتا۔ اُن کے لیے صحیح یہ تھا کہ وہ حکمرانوں سے سیاسی ٹکراؤنہ کرتے ہوئے تعلیم اور اصلاح اور دعوت جیسے میدانوں میں پُرامن کام کریں۔ وہ اُسی طرح سیاسی اعتبار سے بے ضرر بن کر تعمیری شعبوں میں اپنا حصہ ادا کریں جس طرح وہ مغربی ملکوں میں کررہے ہیں تو یقینا اُنہیں اپنے ملکوں میں کوئی رکاوٹ نہ پیش آتی۔
اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا اُن کی صلاحیتیں اُن کے ملک کے لیے بھر پور طورپر کام آتیں۔ مگر ان اسلام پسندوں کی نام نہاد انقلابی پالیسی کا نتیجہ برعکس صورت میں برآمد ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی نام نہاد انقلابی پالیسی ہمیشہ دو میں سے ایک انجام پر ختم ہوتی ہے۔ یا تو اپنے اصول پر اصرار کرنے کی وجہ سے آدمی اپنے آپ کو ہلاک کرلیتا ہے یا ایساہوتا ہے کہ اپنے اصول کو غیر حقیقت پسندانہ سمجھ کر وہ دو عملی کا شکار ہوجاتا ہے۔ یعنی دل میں ایک اصول کو صحیح ماننا اور عملی زندگی میں اُس کے خلاف روش اختیار کرنا۔
۲۸ اپریل ۲۰۰۳
آج کل کثرت سے امریکا کے خلاف مضامین چھپ رہے ہیں۔ ان میں امریکا کو کنڈم کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکا تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گرد (terrorist) ہے۔ امریکا کی آبادی اگرچہ عالمی آبادی کا چار فیصد حصہ ہے مگر وہ دنیا کی ۸۰ فیصد دولت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جان رسکن(John Ruskin) نے بجا طور پر کہا تھا کہ مغرب جنون کی حد تک دولت کا پرستار ہے۔ اُس کے لیے انسانیت یا محبت میں کوئی اپیل نہیں ہے:
The West madly worships Mammon, the God of wealth. For them humanity or love has no appeal.
ٹیررزم کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ متشددانہ طاقت کا ناجائز استعمال جس میں بے گناہ لوگ مارے جائیں۔ ٹیررزم کی اس تعریف کے مطابق، پریزیڈنٹ جارج بُش ٹھیک یہی کام کررہے ہیں:
George Bush has been doing just that.
لوگ امریکا کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدام حسین کو صدام کس نے بنایا۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے صدام حسین کو ہتھیار دیے۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے صدام حسین کو ایران اور کویت کے خلاف حملہ کے لیے اکسایا۔ یہ امریکا ہی تھا جس نے دنیا کو یہ خبر دی کہ صدام حسین فوجی اعتبار سے چوتھی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے۔ اور جب یہ سب کچھ ہو چکا تو امریکا صدام حسین کی سرکوبی کے لیے آگیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکا قدیم ٹیررسٹ ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں اُس کا ٹیررزم پڑوسی ملکوں کے خلاف تھا۔ مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکا نے اپنے ٹیررزم کو دنیا کے دوسرے حصوں تک پہنچا دیا، وغیرہ۔
میرے نزدیک اس قسم کی باتیں بے سود ہیں۔ اصل مسئلہیہ نہیں ہے کہ امریکا دہشت گرد ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ عراق نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے اُس سے بچنے کی تدبیر کیوں نہ کی۔ صدام حسین کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ امریکا سے ٹکراؤ کو اعراض کریں مگر اُنہوں نے غیر ضروری جرأت دکھاتے ہوئے امریکا سے ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیا۔ یہ وہی سیاست ہے جس کو عام زبان میں آبیل مجھے مار کہا جاتا ہے۔
دہشت گرد افراد ہر دور میں پائے گئے ہیں۔ ایسے لوگوں سے نپٹنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ اُن سے لڑائی چھیڑ دی جائے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اُن کے وار کو خالی کردیا جائے اور وار کو خالی کرنے کی یہ پالیسی ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ اُس کی کامیابی کی ضامن صرف ایک چیز ہے اور وہ ہے دانشمندی۔
۲۹ اپریل ۲۰۰۳
صدر صدام حسین کی پہلی غلطی یہ تھی کہ اُنہوں نے اس سادہ حل کو استعمال نہیں کیا کہ پولیٹکل گدّی کو چھوڑ کر امریکا کے وار کو خالی کردیں۔ اس کے بعد جب امریکا نے عراق پر بمباری شروع کردی تو وہ خود تو کسی بنکر میں داخل ہوگئے اور وہاں سے ایک پیغام بھیجا جو اُن کی طرف سے ٹی وی پر سُنایا گیا۔ اُنہوں نے عراقیوں کو للکارا کہ تم لوگ امریکی فوجوں کی گردنیں کاٹ دو۔ اب جب کہ عراق کی جنگ ختم ہوگئی ہے، صدام کی طرف سے ایک خط سامنے آیا ہے۔ یہ خط عربی اخبار القدس میں چھپا ہے جس پر ۲۸ اپریل ۲۰۰۳ کی تاریخ درج ہے۔ اُس میں کہا گیا ہے کہ عراقیو اُٹھو اور امریکا اور برطانیہ کے قبضہ کو ختم کردو۔
یہ خط اگر بالفرض صحیح ہو تب بھی وہ ناقابل لحاظ ہے۔ اس لیے کہ وہ صرف ایک بزدلی کا مظاہرہ ہے۔ صدر صدام حسین اگر زندہ ہیں تو وہ کیوں چھپے ہوئے ہیں۔ خود کسی محفوظ مقام پر روپوش رہنا اور عراقی عوام کو لڑنے کے لیے اُبھارنا نہ قیادت ہے اور نہ بہادری۔ بہادر قائد وہ ہے جو اپنے عوام کے ساتھ لڑے، نہ کہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ کر دوسروں کو لڑائی کے میدان میں جھونک دے۔
۳۰ اپریل ۲۰۰۳
امریکا کا مشہور طیارہ بردار جہاز (ایر کرافٹ کیریر) ایس ایس ابراہم لنکن خلیج سے واپس ہو کر امریکا پہنچا اور لاس اینجلیز کے ساحل پر ٹھہرا۔ یہاں اُس کے اوپر ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام میں امریکا کے صدر جارج بُش نے اپنی ’’تاریخی تقریر‘‘ کی۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ عراق کی جنگ اب ختم ہوچکی ہے:
War in Iraq is now over.
میں نے یہ تقریر بی بی سی ورلڈ نیوز پر سُنی۔ بظاہر یہ تقریر عراق کے خلاف تھی۔ لیکن چونکہ دنیا کے تمام مسلمان اپنے آپ کو عراق کی اس جنگ سے جذباتی حد تک وابستہ کیے ہوئے ـتھے اس لیے جارج بُش کی تقریر کا رُخ گویا تمام دنیا کے مسلمانوں کی طرف تھا۔ میںنے سوچا کہ یہ مسلمانوں کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جب کہ ایک شخص جس کو تمام دنیا کے مسلمان اپنا دشمن سمجھ رہے ہوں، وہ اُنہیں مغلوب کرکے اپنی فتح کا اعلان کرے اور ساری دنیا کے مسلمان بے بسی کے ساتھ اُس کو سننے پر مجبور ہوں۔ میںنے سوچا کہ آج شاید ساری دنیا میں میں اکیلا مسلمان ہوں جو اللہ کے فضل سے اس نفسیات سے خالی ہے۔ کیوں کہ میں نہ امریکا کو اسلام کا دشمن سمجھتا ہوں اور نہ مسلمانوں کو مظلوم اور مقہور گروہ۔
۷ مئی ۲۰۰۳
آج تمام اخبارات میںایک خبر چھپی ہے اُس کو بغیر تبصرہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ صدام حسین کے بیٹے قصّی حسین نے عراق پر امریکی حملہ کے چند گھنٹہ پہلے عراق کے سنٹر ل بینک سے تقریباً ایک بلین ڈالر نکلوالیے ـتھے۔ اتنی بڑی رقم کو لے جانے کے لیے تین ٹریکٹر ٹریلر استعمال کیے گئے تھے۔ اس رقم کو نکالنے کے لیے خود صدام حسین نے اپنے دستخط کے ساتھ حکم دیا تھا۔
اس رقم کو نکلوانے کے لیے صدام حسین کا حکم نامہ اُن کا بیٹا قصی حسین اور ایک پرسنل اسسٹنٹ عابدالحامد محمود لے کر بینک گئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں بینک کے ایک افسر نے کہا کہ صدام حسین کے حکم کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اُس کو بے چوں و چرا مان لیا جائے:
When you get an order from Saddam Hussain, you do not discuss it.
جن امریکی افسروں اور عراقی حکام سے نیویارک ٹائمز نے انٹرویو لیے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ اُنہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ رقم کہا ں گئی ہے۔ البتہ بعض امریکی افسروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں شبہہ ہے کہ یہ رقم شام لے جائی گئی تھی۔
واپس اوپر جائیں