خبرنامہ اسلامی مر کز- 264
٭ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت جو اہم کام ہو رہا ہے ، وہ ہے دنیا کے تمام انسانوں تک خدا کا پیغام ان کی قابلِ فہم زبانوں میں پہنچ جائے۔ اس سلسلے میں گڈ ورڈ بکس کی یہ کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ زبانوں میں قرآن کے ترجمے شائع کیے جائیں۔ اب تک گڈ ورڈ بکس سے 20 سے زائد تراجم قرآن نیشنل و انٹرنیشنل زبانوں میں چھپ چکے ہیں۔ اب اس سلسلے میں ایک اورترجمہ شامل ہوچکا ہے۔ فلپینو زبان (Filipino language) میں قرآن کا ترجمہ چھپ چکا ہے۔فلپینو زبان فلپائن کی قومی زبان ہے۔نیز سنہالی زبان میں ترجمۂ قرآن حاصل ہوچکا ہے، اور جلد ہی اس کی چھپائی کا کام بھی شروع ہونے کی امید ہے۔ واضح ہو کہ سنہالی یا سنہالا زبان سری لنکا کی ایک اہم زبان ہے۔
٭ 5 مئی 2018 کو مشہور رائٹر اور سابق صحافی مسٹر آسولڈ پریرا (Oswald Pereira) صدر اسلامی مرکز کو اپنی کتاب بطور تحفہ دینے کے لیے آئے۔ انھوںنے ایک کتاب ترتیب دی ہے،اس کتاب کا نام ہے How to Create Miracles in Our Daily Life ۔اس کتاب میں انھوں نے صدر اسلامی مرکز کے چھ مضامین شائع کیے ہیں۔ یہ کتاب اسپریچوالٹی کے موضوع پر ہے۔
٭ 5 مئی 2018 کو انٹرنیشنل پیمانے پر امن اور روحانیت کے لیے کام کرر ہے تین لوگوں کا ایک گروپ صدر اسلامی مرکز سے ملنے کے لیے ان کے آفس نظام الدین ویسٹ میں آیا۔ ان تینوں کے نام یہ ہے: مز لکشمی مینن، مسٹر بین بولر (Ben Bowler) اور مز ینیی (Yanni)۔ یہ پیس اور اسپریچوالٹی کے معاملات میں سی پی ایس انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، اور آخر میں انھیں صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتابوں کا ایک ایک سٹ دیا گیا۔
٭ جناب عیاض احمد، سی پی ایس جمشید پور 31 مئی 2018کو اطلاع دیتے ہیں کہ ٹیم ممبر جناب خالد صاحب (فاؤنڈر و صدر MSITI مینگو) نے سن رائز فاؤنڈیشن کی صدر مز دیپیکا موئترا کو ترجمۂ قرآن دیا۔ مز موئترا اسلام سے بہت متاثر ہیں، اور رمضان کے کچھ روزے بھی رکھتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کو بہت شانتی ملتی ہے۔اسی طرح 9 جون 2018 کو ایک دوسرے ٹیم ممبر مسٹر شہنواز قمر نے جمشید پور کی مشہور شاعرہ مسز نرملا ٹھاکر کو ترجمہ ٔ قرآن بطور رمضان گفٹ دیا۔ جسے انھوں نے بہت ہی خوشی اور شکریے کے ساتھ لیا۔
٭ جناب ڈاکٹر محمد اسلم خان صاحب کی اطلاع کے مطابق، 4 جون 2018کو سی پی ایس سہارن پور کی جانب سے مسٹر پون کمار (آئی اے ایس)، مسٹر راہل پانڈے (آئی اے ایس) کو صدر اسلامی مرکز کی کتاب، گاڈ ارائزز(God Arises) اور دوسری کتابیں بطور تحفہ دی گئیں۔ مسٹر پون کمار بذاتِ خود کئی کتابوں کے مصنف اورایک متلاشیٔ حق انسان ہیں۔
٭ خواجہ کلیم الدین صاحب (سی پی ایس امریکا) کی اطلاع کے مطابق 7 جون 2018 کو انھیں ایک چرچ میں دعوت دی گئی، تاکہ وہ وہاں موجود کرسچین سامعین کے ساتھ اسلام کے تعلق سے انٹرایکشن کریں۔ انھوں نے وہاں شرکت کی، اور تمام لوگوں سے تبادلۂ خیال کیا، اور تمام لوگوں کو صدر اسلامی مرکز کی انگریزی کتاب ، لیڈنگ اے اسپریچول لائف بطور گفٹ دیا۔ واضح ہو کہ وہاں سامعین کی تعداد 30 تھی۔
٭ ۸جون 2018 کو گڈورڈ بکس کے ڈائریکٹر اور سی پی ایس انٹرنیشنل ، نئی دہلی کے ٹرسٹی مسٹر ثانی اثنین خان نے سی پی ایس دہلی کی ممبر مز ماریہ خان کے ساتھ امریکن سفارت خانہ (نئی دہلی) میں منعقدہ افطار پارٹی میں شرکت کی، اور امریکی سفیر اور دیگر ڈپلومیٹ کو انگریزی ترجمہ قرآن بطور گفٹ دیا۔ جب سفارت خانے کے ذمے داران سے سی پی ایس انٹرنیشنل کی سرگرمیوں پر گفتگو ہوئی تووہ لوگ اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ آئندہ سال سے افطار پارٹی کے موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل (دہلی)کی ممبر مز ماریہ خان کو وہ رمضان کے موضوع پر تقریر کے لیے دعوت بھی دیں گے۔
٭ سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کے ممبران نے اس مرتبہ عید(2018) کی نماز پارلیمنٹ ہاؤس اسٹریٹ کی مسجد میں ادا کی، اور وہاں آنے والے تمام لوگوں کو ترجمہ قرآن اور صدر اسلامی مرکز کی دیگرکتابیں بطور تحفہ دیں۔ جن لوگوں نے یہ تحفہ حاصل کیا، ان میں مسٹر غلام نبی آزاد، مسٹر شہنواز حسین، وغیرہ سیاسی لیڈران بھی شامل ہیں۔ واضح ہو کہ سی پی ایس انٹرنیشنل ہر سال عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقعے کو بطور دعوتی مواقع استعمال کرتی ہے، اور مسلمان و غیر مسلموں کے درمیان ترجمۂ قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کرتی ہے۔
٭ 16 جون 2018 کو سردار موہندر سنگھ (ڈائریکٹر بھائی ویر سنگھ ساہتیہ سدن، دہلی ) نے عید کی مبارک باد دینے کیے صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اس وقت ان کو پنجابی ترجمۂ قرآن اور دوسری کتابیں بطور تحفہ دی گئیں۔ سردار موہندر سنگھ نے صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کے ریویو میں تعاون کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
٭ سی پی ایس امریکا کے متحرک ممبر ڈاکٹر وقار عالم صاحب نے رمضان کے موقع پر دعوت کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ انگریزی ترجمۂ قرآن کے ساتھ کچھ گفٹ آئٹم رکھ کر تمام یہود و کرسچین پڑوسیوں کو ان کے گھر جاکر یہ گفٹ دیا۔ تمام لوگوں نے بہت ہی خوشی اور شکریے کے ساتھ یہ گفٹ قبول کیا۔ کئی لوگوں نے ترجمہ قرآن دیکھ کر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔
٭Mr Cem Simsek ترکی کے ایک لائسنس یافتہ ٹورسٹ گائڈ ہیں۔ وہ استانبول میں گائڈ کا کام کرتے ہیں، اور پچھلے سات سالوں سے وہ اپنے ٹورسٹوں کے درمیان دعوتی کام بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے ٹورسٹوں کو اسلام کا تعارف کرواتے ہیں، اور ان کو ترجمۂ قرآن دیتے ہیں۔
٭ اسلامی مرکز کا مشن نہ صرف انڈیا میں پھیل رہا ہے، بلکہ پڑوسی ملک پاکستان میں بھی الرسالہ مشن کو بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے۔ پاکستان کے مختلف ناشرین کتب صدر اسلامی مرکز کی کتابوں کو شائع کر رہےہیں۔ان کے علاوہ سی پی ایس پاکستان کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم وجود میں آچکی ہے، جس کے ذریعے اسلامی مرکز کی اردو میگزین، ماہنامہ الرسالہ اور انگلش میگزین اسپرٹ آف اسلام پاکستان میں چھاپی جاتی ہیں، اورپاکستان میں انھیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ صدر اسلامی مرکز کی کتابیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ان کے ذریعے اسلامی مرکز کا پیغام پاکستان کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے۔ذیل میں پاکستان کے چند قارئین کا تاثر دیا جا رہا ہے:
■ جناب طارق بدر صاحب (کو آرڈی نیٹر، سی پی ایس، پاکستان) لکھتے ہیں: پاکستان میں مختلف مقامات کا سفر کرنے کےبعد میں نے یہ جانا کہ مولانا کی فکر کی قبولیت ان کی ذاتی مقبولیت سے زیادہ ہے۔تقریباً تمام علمائے کرام ان سے واقف ہیں، اور ان کی تصانیف کا مطالعہکرچکے ہیں۔حتیٰ کہ آپ سے اختلاف کرنے والے علما بھی دین کے لیےآپ کی خدمات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتے ۔ہمارے پاس مولانا کی 20 مختلف عنوانات پر ایسی کتابیں ہیں جن کو جامعہ اشرفیہ (لاہور) پاکستان نے شائع کیا ہے۔ یہ ادارہ پاکستان میں دیوبندی مکتبۂ فکر کا ایک بہت بڑا طباعتی ادارہ ہے۔ پچھلے سال انہوں نے 2000 کے قریب مولانا کی کتابیں ہمیں عطیہ کیں، جن میں ظہور اسلام، اسلام اور عصر حاضر، دین کی سیاسی تعبیر وغیرہ شامل ہیں۔ہمیں چاہیے کہ اس قسم کےمواقع سے فائدہ اٹھائیں، اور اس مشن کو آگے بڑھائیں۔
■ مولانا کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ فائدہ ہواہے کہ آخرت اور مابعد الموت کے بارے میں میرے اندر فکری بیداری پیدا ہوئی ہے، اور عمل کو شعوری انداز میں کرنے کی کوشش کرنے لگا ہوں۔ مولانا کی کتابوں سے میرے اندر وہ استعداد ہوگئی ہے، جس سے جدید تعلیم یافتہ حضرات میری باتوں کو سمجھ سکیں۔ جمعہ کے بیان میں ان مثالوں کو بیان کرنےسے لوگوں کےدلوں میں دین پر عمل کرنے کاشوق پیداہوگیا ہے۔ مجھے دعوت دینے کے طریقے آگئے ہیں،اورمسائل کو نظر انداز کرکے مواقع پہچاننے کا ذہن میرے اندر مولانا کی کتابوں سے آیا ہے۔ اس طرح کے بے شمار فائدے ہیں، جو میں نے حضرت کی کتابوں وتصنیفات کے مطالعے سے حاصل کی ہیں۔اللہ ہمیں مزید استفادہ کرنے کی توفیق دے (محمد صدیق، امام مسجد، کوئٹہ)
■ میرا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔مجھے بچپن سے مذہبی لٹریچر کو پڑھنے کا شوق تھا۔میرے والد کا تعلق جماعتِ اسلامی سے تھا۔ میں نے بچپن میں جماعتِ اسلامی کے کسی میگزین میں پہلی مرتبہ مولانا کا نام تعبیر کی غلطی کے کتاب کے حوالے سے سنا تھا۔ لیکن اس وقت کتاب تک رسائی نہ ہوسکی۔2015 میں اس کتاب تک رسائی ہوئی۔ اس کتاب کے مطالعے نے مجھے بے حد متاثر کیا۔چنانچہ میں نے مولانا کی مزید کتابیں ڈاؤنلوڈ کیں، اور ان کا مطالعہ کیا،تو مجھے لگا کہ میں ایک نئی دنیا سے متعارف ہو گیا ہوں۔اس کے بعد میں نے مولانا کی انٹرنیٹ پر موجود تمام تقریروں کو ڈاؤنلوڈ کرکے سنا، جس سے مجھے کافی فائدہ ہوا۔اس وقت میں ابوظہبی میں Quran distributer ہوں، اوراپنے دوستوں کو مولانا کی کتابیں دے کر انھیں ان کا مطالعہ کرنے پر ابھارتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے لٹریچر نے میری زندگی کا رخ تبدیل کیا ۔میں پہلےسیاسی اسلام کاکو ماننے والا تھا، اب میں خود کو ایک داعی سمجھتا ہوں۔ اس کے علاوہ جو تبدیلیاں میرے اندر پیدا ہوئی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: (1)میں ایک شعوری مسلمان بن گیا ہوں۔ (2)میرے اندر غیر مسلم کے لیے خیرخواہی پیدا ہوئی ہے۔ (3)دعوت کی اسپرٹ پیدا ہوئی۔ (4)آخرت کی جواب دہی کا شدید احساس ۔ (5)میرے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا ہوا ہے۔ (6)معمولی لغزش کے بارے میں بھی میں بہت حساس ہوگیا ہوں۔ (7)تکبر کے بجائےتواضع کو اپنا چکاہوں۔ (8)نمازوں کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا۔ (9)دنیا سے بے رغبتی۔ (10)میرے اندر سے نفرت اور انتقام کا جذبہ حیرت انگیز حد تک کم ہوچکا ہے۔ ( 11 )اور سب سے بڑھ کریہ کہ اب میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں بھی تدبر اور توسم کا طریقہ اختیار کرتا ہوں۔یہ تمام خصائص میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔اس لیے میں مولانا کا بہت احسان مند ہوں۔محمد عامر قریشی (کوھاٹ پاکستان)، مقیم حال ابو ظہبی۔
■ مولانا صاحب کی تعلیم میں ایک سبق بہت نمایاں ہے ۔ وہ یہ کہ معاملات کو گہرے تدبر ، غیر جانبدارانہ انداز میں ، اور سچائی کے ایک طالب علم کی طرح دیکھنا ، سننا اور پڑھنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا صاحب کی تحریروں کی ریکارڈنگ کر کےلوگوں کے درمیان پھیلانے کی کوششیں کرتا ہوں تاکہ جس علم و حکمت سے مجھے فائدہ پہنچ رہا ہے، ان کو دوسرے لوگوں تک بھی آواز کی صورت میں منتقل کرسکوں ۔ (ڈاکٹر خالد سعید، کراچی)
■ مولانا ایک ایسے صوفی ہیں جنہوں نے اللہ سے قربت کا بہت ہی آسان راستہ بتایا ہے ، اس میں نہ ہی تصوف کی پیچیدگیاں ہیں اور نہ ہی کوئی ابہام۔ مولانا کے نظریے کی یہ خاص بات ہے کہ آپ صرف اور صرف توحید کے قائل ہیں۔ پیری مریدی سے نکل کر صرف اور صرف اللہ کی ذات سے مضبوط رشتہ قائم کرنا ، آپ کی تعلیم کا خاصہ ہے۔ (عبد الغفور کندی، کے پی کے)
■ مولانا کی باتیں حوصلہ افزا اور دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہیں۔ ان کی ہر تحریر منفی جذبات کے خلاف اینٹی بائیوٹک کی طرح کام کرتی ہیں ۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین (احمد شاہ جمالی، ڈی جے خان)
■ اگر ہم اپنے ارد گرد موجود اسلامی سوچ(روایتی مذہبی سوچ) کا جائزہ لیں تو ایک منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر جگہ اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے دشمنی ہے، لیکن جب ہم مولانا کی تحریروں کو پڑھتے ہیں تو ایک positive احساس بیدار ہوتا ہے، جو بتاتا ہے کہ ہمارے لیے موجودہ زمانے میں کیا مواقع ہیں، اور ہمارےطرز عمل میں غلطی کیا ہے،جس کوہمیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا کی تحریریں فطری انداز میں کلام کرتی ہیں۔ میں جب کبھی مولاناکو پڑھتا ہوں، مجھے اپنے اندر ایک سکون محسوس ہوتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے مجھے میری کھوئی ہوئی کوئی چیزمل گئی یا میں نے اپنی تلاش کا حقیقی حل پا لیا۔ (فیصل عبد الرشید، کراچی)
■ کن الفاظ کے ساتھ مولانا وحیدالدین صاحب کا شکریہ ادا کیا جائے۔ بات اگر کی جائے ان کی تحریروں اور ان کے پیغامات کی تو لاجواب۔ مولانا تو اندھیرے میں امید کا چراغ اور مایوسی میں امید و حوصلہ دینے والے شخص ہیں۔ اگر ایک شخص زندگی کی بازی ہار بیٹھا ہو، اور وہ خودسوزی کے لے تیار ہو ، اس وقت مولانا صاحب کا ایک قول ایسےانسان کو زندگی کی امید دینے کے لیے کافی ہے۔مولاناہار کر جیتنے کا پیغام دیتے ہے ،میل جول اور اتفاق و بھائی چارےکا درس دیتے ہیں ۔خود اعتمادی کا بیج بوتے ہوئے اپنی ذات کی پہچان کرواتے ہیں۔اس عظیم انسان کے کام تاریخ میں ہمشہ زندہ و جاوید رہیں گے۔ (شہزادہ بابل جان، کوئٹہ)
■ مولانا صاحب کی تحریروں کو پڑھنے سے پہلے میرے اندر بہت ہی زیادہ منفی سوچ موجود تھی، مولانا کو پڑھنے کے بعد میرے اندر بہت زیادہ بدلاؤ آیا ہے۔ منفی سوچ مثبت سوچ میں بدل چکی ہے۔ (حسن افضل، ملتان)
■ مولانا کی تحریر کا فوکس امن ہے ، شروع میں یہ بہت broad term محسوس ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ امن کی اہمیت ذاتی زندگی میں روشناس ہونا شروع ہوئی ۔ پھرپیغمبر اسلام کی زندگی کو جیسے مولانا نے لکھااس سے امن کا مطلب بہت clear ہوتا چلا گیا۔ صبر ، بردباری ، صاف دلی ، اللّہ کی بندگی ، اللّہ کی مخلوق کی خدمت ، اصل جہاد ہے۔ مولانا نے ان دینی اصطلاحات کے درست معنی کو سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ۔ جب سوچ کو درست سمت میں فوکس کر دیا جائے تو علم کے راستے خود کھلتے ہیں۔ مولانا نے سمت بھی دکھائی ہے،اور فوکس بھی رکھا ہے۔ اسی وجہ سے نظریات اور مقصد حیات اللّہ کے دین کے مطابق ڈھالنے میں بہت آسانی ہونے لگی۔ سکون سچ سے ملتا ہے۔ ایسے میں قران کا سچ اصل حقیقت سے بیان کر کے سکون کے متوالوں کو ایک راہ دکھا دی ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے ، مولانا کے ایک کتابی سٹال کے دوران انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں اسٹیج پر شور و غل سن کر ایک صاحب نے مجھے کہا کہ ان لوگوں نے مولانا کو نہیں پڑھا، اس لیے شور کر رہے ہیں ۔ اگر پڑھ لیں تو خاموش ہو جائیں گے۔ اس سے بڑا کیا change ہوگا کہ مولانا کی تحریر انسان کو بولنا نہیں، سکونِ خاموشی سکھاتی ہے۔ مولانا کی تحریروں اور لیکچرز سے میں اور میری اہلیہ نے اپنے آپسی ، دنیوی اور معرفتی معمولات کو بہت improve کیا ہے۔ جزاک اللّہ ۔ ( شاہد رانا، اسلام آباد)
واپس اوپر جائیں