منصوبۂ تخلیق
خد اکے منصوبۂ تخلیق (creation plan)کا اصل ماخذ قرآن ہے۔ قرآن گویا اس منصوبۂ تخلیق کا مستند متن (authentic text) ہے۔ سائنس تخلیق کے مطالعے کا علم ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سائنس اس قرآنی متن کی کمنٹری (commentary)ہے۔ یہ کمنٹری وہی چیز ہے، جس کو حدیثِ رسول میں تائیدِ دین بذریعہ غیر اہلِ دین کا نام دیا گیا ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)
فلکیاتی سائنس (astronomy)کی تحقیق کے مطابق کائنات کا آغاز تقریباً 13 بلین سال پہلے بگ بینگ (Big Bang)سے ہوا۔ خلا (space) میں اچانک ایک کاسمک بال (cosmic ball) ظاہر ہوا۔ اس کاسمک بال کے اندر بہت تیز دھماکا ہوا۔ سائنس داں اس کو بگ بینگ کا نام دیتے ہیں۔ اس کاسمک بال کے اندر وہ تمام پارٹیکل موجود تھے، جن سے موجودہ کائنات بنی ہے۔ اس دھماکےکے بعد کاسمک بال کے تمام پارٹیکل روشنی کی اسپیڈ سے بھی زیادہ تیز رفتار کے ساتھ خلا میں بکھر گئے۔یہ پارٹیکل اگر اسی طرح سفر کرتے رہتے اور خلا کی وسعتوں میں بکھر جاتے تو کائنات وجود میں نہ آتی۔ مگر ایک سکنڈ کے اندر پارٹیکل کی رفتار کم ہوگئی۔اس طرح پارٹیکل جمع ہونا شروع ہوئے، اور پھر تمام ستارے اور سیارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں۔سائنسی معلومات کے مطابق، پارٹیکل کے اجتماع سے بننے والی اس دنیا کو چھ دوروں (periods)میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(1) بگ بینگ (Big Bang) (2) سولر بینگ (Solar Bang)
(3) واٹر بینگ (Water Bang) (4) پلانٹ بینگ (Plant Bang)
(5) اینمل بینگ (Animal Bang) (6) ہیومن بینگ (Human Bang)
تخلیقِ کائنات کے آخری مرحلہ میں زمین پر وہ حالات پیدا ہوئے جن کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہا جاتا ہے۔ ایک سائنسداں نے درست طور پر کہا ہے کہ پوری کائنات انسان کے لیے کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) ہے۔ اس کے بعد سیارۂ ارض (planet earth) پر خدا نے آدم (انسان ) کو پیدا کیا، اور آدم کے جوڑے حوا (Eve) کو۔ اس کے بعد مختلف احوال سے گزرتے ہوئےزمین پر انسان کی تاریخ بننا شروع ہوئی۔ خدا نے انسان کو کامل آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ انسانی تاریخ کو مینج (manage) کرنے کا کام خدا نے اپنے کنٹرول میں رکھا۔تاریخ کو مینج کرنے کا کام اس طرح ہوا کہ تاریخ مطلوب رخ پر سفر کرے، وہ مطلوب رخ سے بھٹک کر ڈی ریل (derail) نہ ہونےپائے۔ یہ خدائی منصوبہ اس طرح زیرِ عمل لایا گیا کہ تاریخ کا سفر مطلوب رخ پر جاری رہے، اوراسی کے ساتھ انسانی آزادی بھی پوری طرح برقرار رہے۔
God decided to manage history while maintaining human freedom.
انسانی تاریخ کو مینج کرنے کا یہ کام طویل مدت کے اندر مختلف صورتوں میں انجام پایا، جس کےبنیادی اجزاء غالباً وہی ہیں جن کو آنے والی سطروں میں بیان کیا گیا ہے۔ واضح ہوکہ مینجمنٹ کا مقصد تاریخ کو کنٹرول کرنا نہیں تھا، بلکہ ہر موڑ پر تاریخ کو ری ڈائریکشن (redirection) دینا تھا، تاکہ تاریخ کو ٹوٹل ڈی ریلمنٹ (total derailment) سے بچایا جاسکے۔ تاریخ کو مینج کرنے کا یہ کام نارمل کورس میں نہیں ہوا، بلکہ اس کو جس میتھڈ (method) کے ذریعے کیا گیا، اس کو شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment)کہا جاسکتا ہے۔
انسانی تاریخ کی ابتدا
قرآ ن اور بائبل کے مطابق آدم اور حوا کو پیدائش کے بعد سیارۂ ارض پر بسایا گیا۔ ان کی نسل دھیرے دھیرے دجلہ اور فرات کے درمیان اس مقام پر مرتکز ہوگئی، جس کو میسوپوٹامیا (Mesopotamia) کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سفر کی سہولتیں موجود نہ تھیں۔ اس لیے لمبے عرصے تک آدم کی نسل اسی علاقے میں آباد رہی۔ لیکن آبادی کا یہ اجتماع خالق کے نقشے کےمطابق نہ تھا۔ خالق کو مطلوب تھا کہ آدم کی نسل محدود رقبے سے نکلے، اورپورے کرۂ ارض پر پھیل جائے۔ اس مدت میں آدم کی نسل میں جمود آچکا تھا۔ ان کی نسلوں کے درمیان متفرق قسم کی برائیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اس وقت خدا نے ان کے درمیان پیغمبر نوح کو بھیجا تاکہ وہ ان کو صحیح رہنمائی دیں۔ مگر اپنے جمود میں وہ اتنے زیادہ کنڈیشنڈ ہوچکے تھے کہ کچھ افراد کے سوا ان کی اکثریت نے پیغمبر نوح کی بات کو اختیار نہیں کیا۔
اس لیے خدا نے یہ کیا کہ اس علاقہ میں ایک بڑا طوفان (great flood) آیا۔ اس مدت میں ان کے پیغمبر نوح نے ایک بڑی کشتی تیار کی۔ پیغمبر نوح نے اس ابتدائی انسانی نسل کے منتخب افراد کو اس کشتی پر سوار کیا۔ اس کے بعد یہ کشتی طوفان کے بہاؤ کے تحت چلتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ جودی پہاڑ پر پہنچ کر رک گئی(ھود، 11:44 )۔ یہ پہاڑ موجودہ ترکی کے ساحلی علاقے پر واقع ہے۔ آدم کی نسل جودی پہاڑ کے علاقے میں اتری اور پھر دھیرے دھیرے 3 بر اعظموں میں پھیل گئی، یعنی ایشیا، یورپ اور افریقہ ۔
ڈیزرٹ تھراپی
آدم کی یہ نسل توالد و تناسل کے ذریعے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ دوبارہ ان کے اندر جمود (stagnation) آیا۔ ان کے اندر فطرت کی پرستش (nature worship) کا کلچر پھیل گیا۔ خاص طور پر سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش۔ اس وقت پیغمبر ابراہیم ان کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے۔ انھوں نے لمبی مدت تک تبلیغ کی کوششیں جاری رکھی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں قوم کے کچھ افراد نے اصلاح قبول کی۔ مگر قوم کی اکثریت بگاڑ کے راستے پر قائم رہی۔
اس وقت خدا کی ہدایت کے تحت پیغمبر ابراہیم نے اپنے کام کی نئی پلاننگ کی۔ انھو ں نے چند افراد کے ایک چھوٹے گروپ کو لے کر عراق سے ہجرت کی۔ یہ قافلہ 3 افراد پر مشتمل تھا، پیغمبر ابراہیم، ان کی بیوی ہاجرہ، اور ان کے بیٹے اسماعیل۔ یہ لوگ عراق سے ہجرت کرکے عرب کے اس مقام پر آئے، جہاں اب مکہ واقع ہے۔ اُس وقت یہ پورا علاقہ ایک صحرائی علاقہ تھا، یعنی ایک غیر متمدن علاقہ ۔ اس وقت خالق کا یہ منصوبہ ہوا کہ تمد ن سے دور اس علاقہ میں ایسی قوم تیار کی جائے جو فطرت کے ماحول میں پرورش پائے، اور اس وقت کے تمدنی بگاڑ سے محفوظ رہے۔ یہ ایک صحرائی منصوبہ تھا۔ اس کو اس اعتبار سے ڈیزرٹ تھراپی (desert therapy) کہا جاسکتا ہے۔ صحرا کے اس سادہ ماحول میں اس قوم کے اندر فطری طور پر توالد و تناسل کا عمل شروع ہوا، جس کے ذریعے اس قوم میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً ڈھائی ہزار سال میں ایک نسل بن کر تیار ہوگئی، جس کو بنواسماعیل کہا جاتا ہے۔یہ نسل ایک نہایت جان دار نسل تھی، جس کو ایک مغربی مفکر نے نیشن آف ہیروز (a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔
بنو اسماعیل کا رول
وہ لوگ جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے، وہ انھیں بنی اسماعیل کی نسل سے تھے۔ ان کا زمانہ ساتویں صدی عیسوی کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں ہر جگہ دنیا میں جبری بادشاہت کا نظام تھا۔ اس وقت عرب کی سرحد پر دو بڑی سلطنتیںتھیں- ایرانی سلطنت (Sasanid Empire)، رومی سلطنت (Byzantine Empire) ۔ یہ سلطنتیں جابر سلطنتیں تھیں۔ ان کی وجہ سے اس وقت کی دنیا میں آزادانہ سوچ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس لیے ترقی کا عمل رکا ہوا تھا۔ اس زمانے کی ان سلطنتوں نے خود آغاز کرکے ٹکراؤ کی صورت پیدا کی۔ اس کے نتیجے میں اصحابِ رسول سے ان کا ٹکراؤ ہوا، اور آخر کار مختلف احوال سے گزرتے ہوئےدونوں سلطنتوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور شروع ہوا۔اس واقعہ کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : اس نے نگاہ کی اور قومیں پراگندہ ہوگئیں، ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے، قدیم ٹیلے جھک گئے:
He stood, and measured the earth: he beheld, and drove asunder the nations, and the everlasting mountains were scattered, the perpetual hills did bow (Habakkuk, 3:6 )
سیاسی جبر کے اس نظام کا خاتمہ ایک بے حد مشکل کام تھا۔ لیکن خدا کی توفیق سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ دونوں سلطنتوں میں باری باری ٹکراؤ ہوا۔ پہلے ایرانیوں نے رومیوں کو بری طرح شکست دی۔ اس کے بعد رومیوں نے جوابی اقدام کرکے ایرانی سلطنت کو توڑ ڈالا۔ یہ دونوں واقعہ دس سال کی مدت میں ہوا۔ جس کا ذکر قرآن میں سورہ الروم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ اس طرح بنو اسماعیل کو یہ موقع ملا کہ وہ آسانی کے ساتھ دونوں جابرانہ سلطنتوں کا خاتمہ کر دے، اور دنیا میں آزادی کے دور کا آغاز ہو۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں پہلی بار آزادانہ سوچ (free thinking) اور ترقی کا دروازہ کھلا، اور آخر کار دنیا توہماتی دور سے نکل کر سائنٹفک دور میں داخل ہوگئی۔
اس انقلاب کے بعد ایشیا ، افریقہ اور یورپ میں مسلم دور کا آغاز ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہ تھا کہ شام اور فلسطین کے وہ علاقے مسلم اقتدار کے تحت آگئے، جن کو مسیحی لوگ مقدس مانتے تھے۔ اس کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ شام و فلسطین کے مقدس علاقوں کو مسلمانوں (بنواسماعیل) کے قبضہ سے واپس لیں۔ اس مقصد کے لیے مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگ کا ایک سلسلہ چھڑگیا۔ یہ جنگی سلسلہ جس کو صلیبی جنگ (crusades) کہا جاتا ہے، وہ تقریباً دو سو سال تک جاری رہا۔ لیکن مسلمان اس زمانے میں اتنا زیادہ طاقت ور ہوچکے تھے کہ دو سو سال کی متحدہ جنگ کے باوجود یورپ کی مسیحی قوموں کو کامل شکست ہوئی، جس کو مؤرّخ گبن نے ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) کہا ہے۔ یہ شکست مسیحی قوموں کے لیے ایک دھماکے کے مانند تھی۔ اس دھماکے نے مسیحی قوموں کے اندر نئی سوچ کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ابتداء ًنشاۃ ِثانیہ (Renaissance) اور پھر مغربی تہذیب (western civilization) کا دور آیا، اور دنیا کی تصویر یکسر بدل گئی۔
جدید تہذیب کا آغاز
صلیبی جنگوں میں شدید شکست کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ اس سوچ کو ایک مبصر نے اسپریچول کروسیڈس (spiritual crusades) کا نام دیا ہے۔ صلیبی جنگوں میں ناکامی کے بعد یورپ کی مسیحی قوموں میں نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کا دور آیا۔ اس سے مسیحی قوموں کا ذہن ٹرگر (trigger)ہوا۔ اس سے ان کے اندر نئی سوچ پیداہوئی۔ یہ سوچ پیدا ہوئی کہ ہم جنگ کے میدان میں مسلمانوں سے نہیں جیت سکتے۔ اس لیے اب ہمیں اس معاملے میں نئی پلاننگ کرنا چاہیے۔ اس طرح دھیرے دھیرے یہ ہوا کہ مسیحی قوموں کے اندر جنگ کے میدان کے بجائے بڑے پیمانے پر فطرت (nature)کا میدان مطالعے کا موضوع بن گیا۔وہ دھیرے دھیرے مکمل طور پر فطرت کے رموز کو دریافت کرنے میں مشغول ہوگئے۔ ان دریافتوں کے بعد دھیرے دھیرے دنیا میں وہ دور آیا، جس کو ٹکنالوجی کا دور (age of technology) کہا جاتا ہے۔ اس پراسس کا آخر ی نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی قومیں دنیا کی غالب قومیں بن گئیں۔ یہ واقعہ کسی سازش کے تحت نہیں ہوا، بلکہ ایک فطری عمل (natural process)کے تحت پیش آیا۔
ٹکنالوجی کی اسی دریافت کا یہ نتیجہ تھا کہ جدید تہذیب (modern civilization) وجود میں آئی۔ صنعتی انقلاب (industrial revolution) کا دور دنیا میں آیا۔ ٹکنالوجی کی صورت میں ایک عظیم خزانہ نیچر میں چھپاہوا تھا، وہ سب دریافت ہوا، اور آخر کار یہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی، جس کو سائنسی تہذیب کا دور کہا جاتا ہے۔
دو عالمی جنگیں
ترقیات کے نتیجے میں فطری طورپر قوموں میں رقابت (rivalry) شروع ہوگئی۔ اس رقابت نے بڑھتے بڑھتے عالمی جنگ کی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں دو بڑی جنگیں پیش آئیں، جن کو پہلی عالمی جنگ (1914-1918)اور دوسری عالمی جنگ (1939-1945) کہا جاتا ہے۔ تاریخ کے دوسرے بڑے واقعات کی طرح ان جنگوں میں بھی فطرت کے اسباب اپنا کام کر رہے تھے، اور اسی کے نتیجے میں دونوں عالمی جنگیں پیش آئیں۔ لیکن تاریخ کے دوسرے منفی واقعات کی طرح ان جنگوںکا بھی براہِ راست طور پر کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں فطری طور پر ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔ وہ یہ کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ اس تجرباتی سوچ کے تحت انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ اس دور کو دورِ جنگ کے بجائے دورِ امن کا نام دیا جاسکتا ہے۔
دونوں عالمی جنگوں کا نتیجہ بتاتا ہے کہ ان جنگوں میں کسی بھی قوم کو کوئی بھی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ان جنگوں میں اگر کسی کو جیت ہوئی تو اس کی جیت بھی پرک وکٹری (pyrrhic victory) کے ہم معنی تھی۔ مثلاً برطانیہ بظاہر اس جنگ میں کامیاب ہوا، لیکن جنگ کے نتیجے میں وہ اتنا زیادہ کمزور ہوگیا کہ اس کو اپنے ایشیائی مقبوضات سے دستبردار ہونا پڑا، وغیرہ۔
عالمی جنگوں کے بعد فطری اسباب کے تحت قوموں کے اندر نئی سوچ جاگی۔ انھوں نے جنگ کے طریقے کے بجائےامن کے طریقے میں کامیابی کے راستے کو تلاش کیا، اور آخر کار اس تلاش میں وہ کامیاب ہوئے۔ عالمی جنگوں کا نتیجہ یہ تھا کہ دنیا میں پہلی بار اقوامِ متحدہ کی صورت میں مبنی برامن عالمی اتحاد کا دور شروع ہوا۔ دنیا کی تمام قوموں کے اتفاق سے یہ مان لیا گیا کہ کسی مقصد کے حصول کے لیے اب جنگ کا طریقہ ایک متروک طریقہ ہوگا۔ تمام قوموں نے انسان کی فکری آزادی کو عالمی اصول (universal norm) کے طور پر تسلیم کرلیا۔
دورِ امن کا مظاہرہ (demonstration)
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مختلف قوموں نے عالمی دباؤ کے تحت اپنی تعمیرِ نو کا پر امن منصوبہ شروع کیا، اور واضح طور پر اس میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح عملی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ جنگ کے نتیجے میں جو چیز ملتی ہے، وہ صرف بربادی ہے۔ اس کے برعکس، مبنی برامن منصوبہ یقینی طور پر کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کی جو تنظیم ِنو ہوئی ،یہ اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کو مجبور کن حالات میں اپنے زیر قبضہ علاقوں کو چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد برطانیہ نے پرامن بنیادوں پر اپنی تعمیرِ نو کا منصوبہ بنایا۔ اس نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے نئے نئے میدان دریافت کیے۔ مثلاً ایجوکیشن اور ٹورزم ،وغیرہ۔ اس پر امن منصوبہ بندی کے ذریعے برطانیہ نے دوبارہ وہ سب کچھ حاصل کرلیا، جس کے لیے پہلے بے فائدہ طور پر جنگ اور فتوحات کا طریقہ اختیارکیا جاتا تھا۔
یہی معاملہ یورپ کے دوسرے ملک فرانس کا ہوا۔ فرانس میں جنرل ڈیگال کے اقتدار کا دور آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ نو آبادیاتی نظام فرانس کے لیے صرف کمزوری کا سبب بنا ہے۔ ان کالونیوں میں فرانس کو مسلسل طور پر متشددانہ مزاحمت کا سامنا کر نا پڑتا تھا۔ اس متشددانہ مزاحمت کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ فرانس نیوکلیر سائنس اور ترقیاتی دوڑ میں دوسری قوموں سے پیچھے ہوگیا ۔ چنانچہ جنرل چارلس ڈیگال کی قیادت میں فرانس نے اپنے تمام افریقی مقبوضات کو یک طرفہ طور پر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد فرانس کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی اقتصادیات کو پرامن منصوبے کے تحت از سرِ نو منظم کرے۔ نتیجہ بتاتا ہے کہ فرانس اس نئی منصوبہ بندی کے معاملے میں پوری طرح کامیاب رہا۔ مثلاً آج ہوابازی (aviation) کے معاملے میں فرانس امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ جب کہ اس سے پہلے فرانس اس معاملے میں بہت پیچھے تھا۔
یہی معاملہ جرمنی کا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اس عزم کے ساتھ شامل ہوا تھا کہ وہ پورے یورپ کا قائد بنے گا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ جرمنی یورپ کا سب سے کمزور ملک بن گیا۔ ان جنگوں کے نتیجے میں جرمنی نے اپنے جغرافی رقبے کا تقریباً ایک تہائی حصہ کھودیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جرمنی نے اپنی نئی منصوبہ بندی شروع کی۔ یہ منصوبہ بندی اپنی نوعیت میں بڑی عجیب تھی، یعنی باقی ماندہ جرمنی (remaining part of Germany) کی بنیاد پر اپنی تعمیرِ نو کرنا۔ یہ شاید تاریخ میں ایک انوکھی منصوبہ بندی تھی۔ یہ منصوبہ بندی کامیاب رہی، او ر آج جرمنی یورپ کی نمبر ایک طاقت بنا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ اس نے اپنے کھوئے ہوئے جغرافی رقبے کو دوبارہ کامیابی کے ساتھ حاصل کرلیا۔
اسی قسم کی انقلابی مثال جاپان میں پائی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان بظاہر دنیا کا سب سے زیادہ برباد ملک بن چکا تھا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ جاپان کو نیوکلیر بمباری کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر جاپان کی بربادی نے جاپان کے مدبرین کے اندر نئی سوچ پیدا کی۔ اس ناقابلِ برداشت حادثے کو انھوں یکسر بھلا دیا۔جاپان کےمدبرین نے اس منصوبہ پر اپنی قوم کو یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ اگر امریکا نے 1945میں ہمارے ہیروشیما اور ناگاساکی کو تباہ کیا تھا تو اس سے پہلے 1941میں ہم امریکا کے پرل ہاربر کو تباہ کرچکے تھے۔ اس طرح معاملہ برابر ہوگیا۔ ماضی کو بھلاؤ، او ر مستقبل کی تعمیر کرو۔ اس طرح جاپان کے ذریعے یہ مثال قائم ہوئی کہ کس طرح بربادی کے بعد نئی پلاننگ کے ذریعے دوبارہ ایک بڑی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ گویا حالات کی زبان تھی، اور تاریخ میں خالق کا مینجمنٹ اسی طرح حالات کے دباؤ کے تحت اپنا کام کرتا ہے۔
تائیدِ عام
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ الطبرانی نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے: إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ہُمْ مِنْ أَہْلِہِ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640) ۔ یعنی ضرور اللہ تعالی اسلام کی مدد ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو دین میں سے نہ ہوں گے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِر (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی ضرور اللہ تعالی اس دین کی مدد فاجر انسان کے ذریعے کرے گا۔ یہ در اصل اسلام کے حق میں ایک پیشین گوئی (prediction) ہے۔ یہ پیشین گوئی الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ حدیث کی اکثرمشہور کتابوں میں آئی ہے۔
اس حدیث پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عالمی حالات میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process) شروع ہوگا، جو اس حد تک پہنچے گا کہ اللہ کے دین کو عمومی اعتراف (general acceptance) کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔ یہ وقت وہ ہوگا جب کہ اپنے اور غیر (we and they)کا فرق مٹ جائے گا۔ کچھ لوگ اگر مومنین ہوں گے تو بقیہ لوگ مؤیدین (supporters) بن جائیں گے۔ اس طرح اہلِ ایمان کو یہ موقع ملے گا کہ وہ کسی بھی قسم کی حقیقی رکاوٹ کے بغیر اللہ کے دین کو سارے عالم میں پہنچائیں۔ اللہ کی کتاب کو ہر گھر میں داخل کردیں ۔
حالات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دور عملاً دنیا میں آچکا ہے۔ اب اشاعت اسلام کے لیے دوسری قوموں کی طرف سے کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں۔ اب اگر رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے تو صرف اس وقت جب کہ مسلمان خود اپنی کسی غلطی کی بنا پر لوگوں کو غیر ضروری طور پر اپنا مخالف بنالیں۔وہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی پالیسی اختیار کرکے دوسروں کے اندر ایسا ردعمل (reaction) پیدا کریں کہ جو ان کے لیے عملاً موافق اقوام بنے ہوئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پران کے مخالف بن جائیں۔
تاریخ کے فائنل رول کا زمانہ
اللہ رب العالمین کائنات کا خالق ہے۔ اس نے ایک منصوبے کے تحت انسان کو پیدا کیا۔ اس منصوبے کے تحت رب العالمین نے انسان کو یہ موقع دیا کہ وہ کامل آزادی کے ساتھ زمین (planet earth) پر آباد ہو، اور کامل آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری کرے۔ لیکن اسی کے ساتھ خالق انسانی تاریخ کو مینج کرتا رہا۔ مینجمنٹ کے اسی واقعے کو قرآن میں تدبیر امر (السجدۃ، 32:5 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
انسانی تاریخ کے بارے میں اللہ رب العالمین کا نقشہ یہ تھا کہ انسانی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے تاریخ کو اس طرح مینج کیا جائے کہ فطرت کے تمام امکانات دریافت ہو کر سامنے آجائیں۔ خالق نے یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا کہ انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) باقی رہے، اور ترقی کا عمل بھی پوری طرح جاری رہے، اور اس پراسس کے نتیجے میں فطرت میں چھپی ہوئی ٹکنالوجی دریافت ہو،جو آخر کار ایک مکمل تہذیب (civilization) کی صورت اختیار کرلے۔ پھر انسانی تاریخ مختلف حالات سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے کہ دنیا میں کمیونی کیشن کا دور آئے، امن کا دور آئے، صنعتی تہذیب کا دور آئے، بڑے پیمانے پر انسان کی نقل و حرکت (mobility) کا دور آئے، علوم کی ترقی کا دور آئے، عالمی انٹرایکشن کا دور آئے، کامل آزادیِ خیال کا دور آئے، کھلے پن (openness) کا دور آئے، وہ تمام حالات پیدا ہوجائیں جب کہ وہ دعوتی پلاننگ کی جاسکے، جس کے ذریعے انسان پر کامل معنوں میں اتمام حجت کا واقعہ انجام پائے۔ غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو حدیثِ رسول میں شہادتِ اعظم (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938) کہا گیاہے۔
اب انسانی تاریخ اکیسویں صدی کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ اس دور میں عالمی شہادت کے تمام موافق حالات مکمل طور پر وقوع میں آچکے ہیں۔ اب پوری طرح ممکن ہوگیا ہےکہ اس دعوتی نشانے کو عملاً ظہور میں لایا جائے، جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں کی گئی ہے: لَا یَبْقَى عَلَى ظَہْرِ الْأَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَةَ الْإِسْلَامِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23814)۔ یعنی روئے زمین پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں باقی رہے گا، مگر اللہ اس میں اسلام کے کلمے کو داخل کردے گا۔
عالمی شہادت کا یہ تکمیلی واقعہ امتِ محمدی کے ذریعے انجام پانا ہے۔اس کے مطابق امتِ محمدی کا آخری رول شہادتِ اعظم کی انجام دہی ہے۔ اس واقعے کی عملی صورت یہ ہے - خدا کے کلام (قرآن) کا معیاری ترجمہ ہر زبان میں تیار کرکے اس کو پورے کرۂ ارض پر پھیلانا تاکہ قوموں کی اپنی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں اللہ کی ہدایت ہر ایک کے پاس پہنچ جائے، اور اقامتِ حجت کاواقعہ پیش آجائے، تاکہ وہ معاملہ سامنے نہ آئے،جس کا بیان قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ ( 7:172 )۔ یعنی قیامت کے دن انسان عذر کریں کہ ہم کو اس کی خبر نہ تھی۔
٭ ٭ ٭ ٭٭٭
موجودہ زمانے میں کمیونی کیشن بہت بڑی نعمت ہے، مگر اس نعمت کا اصل استعمال یہ ہے کہ اس کو اسلامی دعوت کے لیے استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے جدید کمیونی کیشن کو اب تک اسی اصل کام کے لیے استعمال نہ کیا جاسکا۔ اسلامی دعوت یہ ہے کہ اسلام کے مثبت پیغام کو قومی اور سیاسی آلائشوں سے پاک کرکے خالص ربّانی انداز میں پھیلایا جائے۔ جدید کمیونی کیشن نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ دعوت کا کام عالمی سطح پر انجام دیا جاسکے۔ جدید کمیونی کیشن کا اصل استعمال یہی ہے۔ جدید کمیونی کیشن کے دعوتی استعمال کے بعد، اس کے دوسرے استعمالات بھی جائز ہوسکتے ہیں۔ مگر دعوتی استعمال کے بغیر اس کے دوسرے استعمالات کا کوئی جواز نہیں۔
واپس اوپر جائیں