امن اور اسلام
پیسیفزم(pacifism) ایک مستقل موضوع ہے جس پر صدیوں سے غور وفکر جاری ہے اور اس کے بارے میں اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (۱۹۸۴) میں پیسیفزم پر ایک تفصیلی مقالہ ہے جو ۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ جرمن پروفیسر موہلمان (wilhelm Emil Muhlmann) کا لکھا ہوا ہے جو اس موضوع پر اکسپرٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیسیفزم کے موضوع پر انگریزی میں چھپی ہوئی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
1. E. L. Allen, F.E. Pollard, and G. A. Sutherland, The Case for Pacifism and Conscientious Objection. 1946.
2. Hannah Arendt, On Violence. 1970
3. Raymon Aron, Peace and War. 1962
4. C.J. Cadoux, Christian Pacifism Re-examined. 1940
5. Ted Dunn, Alternatives to War and Violence: A search. 1963.
6. Carl Joachim Friedrich, Inevitable Peace. 1948
7. Richard Gregg, The Power of Non-violence. 1966
8. Aldous Huxley, An Encyclopaedia for Pacifism. 1937.
9. Ralph T. Templin, Democracy and Non-Violence. 1965.
10. Quincy Wright, A Study of War. 1965.
امن پسندی یا مذہبِ أمن (Pacifism) صدیوں پُرانی ایک تحریک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے جنگ کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ انسانی سماج میں مستقل طور پر امن کی حالت قائم ہو۔وہ تحریکیں جن کو عدمِ تشدد کی تحریک (non violent movement) کہا جاتا ہے، اُن کا مقصد جزئی یا بنیادی طورپر یہی رہا ہے۔
پیسیفزم کی یہ تحریک تاریخ کے تقریباً تمام دوروں میں پائی جاتی رہی ہے۔ کبھی مذہبی بنیاد پر اور کبھی فلسفیانہ بنیاد پر اور کبھی اخلاقی بنیاد پر۔ پیسیفزم کے ماننے والوں میںایک گروہ وہ ہے جو امن برائے امن کا قائل ہے۔ اُس کے نزدیک امن کی تعریف ہے عدم جنگ (absence of war)۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو امن کے ساتھ انصاف کو ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ امن کے ساتھ انصاف (peace with justice) کی وکالت کرتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف امن ایک منفی امن (negative peace) ہے اور امن مع انصاف مثبت امن (positive peace) ۔
گاندھی عدم تشدد کے علم بردار تھے۔ مگر کچھ اہل علمکا کہنا ہے کہ گاندھی کا عدم تشدد (non violence) محدود مقصد کے حصول کے لئے تھا۔ اسی لیے وہ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو اچانک ختم ہوگیا۔ اُن کی تحریک کا اصل مقصد برٹش رول کو ختم کرنا تھا، نہ کہ حقیقۃً ملک میں ایک پُر امن سماج قائم کرنا۔
Gandhi's policy of non-violence was not to establish peace in the society, but to stage a coup in order to oust the British rule. He was successful, but not in the first sense rather in the second sense.
امن آزادی کا ایک عمل ہے، نہ کہ مجبوری کا عمل۔ مجبور کن امن جبر ہے وہ امن نہیں۔ امن وہ ہے جو ذہنی انقلاب کے ذریعہ آئے۔ قدیم زمانہ میں رومیوں نے محدود طورپر اپنی ریاست میں امن قائم کیا تھا جس کو وہ رومی امن (Pax Romana) کہتے تھے۔ اسی طرح بیسویں صدی میں سوویت یونین میںبظاہر امن پایا جاتا تھا جس کو کمیونسٹ امن کا نام دیا گیا۔ مگر یہ دونوں جبری امن تھے، اور جبری امن کوئی مطلوب امن نہیں۔
کچھ مفکرین امن کے لئے عالمی ریاست (world state) کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی ریاست کا قیام کبھی ممکن نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پُر امن معاشرہ ذہنی تربیت اور فکری انقلاب کے ذریعہ وجود میںلایا جاسکتا ہے، نہ کہ کسی عالمی حکومت کے مرکزی کنٹرول کے ذریعہ۔ مغرب کی نشأۃ ثانیہ کے بعد بہت سے مغربی مفکرین نے جنگ کے بغیر دنیا کا خواب دیکھا مگر یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔
ڈَچ فلسفی اور ہیومنسٹ اریسمس (Erasmus) ۱۴۶۶ میں روٹرڈم میں پیدا ہوا اور ۱۵۳۶ میں اُس کی وفات ہوئی۔ اُس کی تعلیم یہ تھی کہ انسانیت کا سب سے اونچا آئیڈیل امن اور انسانی اتحاد ہے:
He taught that the highest ideal of mankind would be peace and concord. (13/849)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عملی اعتبار سے امن تمام مطلوب چیزوں میں سب سے بڑا مطلوب ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی مثبت یا تعمیری کام کے لیے انسانی آبادی میںامن کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے سلسلہ میں مذہب کی زیادہ اہمیت نہیں۔ اُن کے نزدیک تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مذہب کے ذریعہ امن کبھی قائم نہ ہوسکا:
Efforts to confirm a lasting peace through religious sanctions have had little effect. (13/846)
راقم الحروف کو اس نظریہ سے اتفاق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ ایک ناقص مطالعہ کی بنیاد پر قائم کیا گیاہے۔ یہ حضرات جب قیامِ امن کے سوال پر غور کرتے ہیں تو وہ اسلام کو حذف کرکے صرف دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں۔ کیوں کہ غلط طورپر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام پورے معنٰی میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام نے پہلی بار عملی طورپر امن کا نظام قائم کیا اور انسانیت کے لئے پُر امن زندگی کے بند راستے کھول دیے۔
یہاں اسلام سے میری مراد اسلام کا دور اوّل ہے جو اسلام کو سمجھنے کے لیے گویا نمائندہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں اسلام کے زیر اثر دو بڑے واقعات ہوئے۔ (۱) امن کے راستہ کی رکاوٹ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا۔ (۲) نظریاتی اور عملی دونوں اعتبار سے امن کا ایک کامل ماڈل قائم کرنا۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کے دور اول میںکچھ لڑائیاں نظر آتی ہیں۔ مگر ان لڑائیوں کا مقصد عین وہی تھا جس کو اہل علم ان الفاظ میں بیان کرتے رہے ہیں—آخری جنگ تمام جنگوں کو ختم کرنے کے لیے:
Last war to end all wars (13/851)
پیغمبر اسلام ۵۷۰ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ ۶۳۲ء میں مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ جیساکہ معلوم ہے، اُس زمانہ میں دنیا میں شہنشاہیت کا نظام قائم تھا۔ یہ نظام ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔ اس سیاسی نظام نے انسانی آزادی کا خاتمہ کردیا تھا۔ بادشاہ کی مرضی واحد فیصلہ کُن طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔
آزادی اور امن کے قیام کے لئے اس جبری نظام کاخاتمہ ضروری تھا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے محدود مدت کے لیے طاقت کا استعمال کیا تا کہ اس نظام کو ختم کردیا جائے۔ یہ نظام اولاً عرب میں ختم کیا گیا۔ اُس کے بعد اُس زمانہ کے دو سب سے بڑے شہنشاہی نظام—رومن ایمپائر اور ساسانی ایمپائر سے اُن کا ٹکراؤ پیش آیا۔ اس ٹکراؤ میںپیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو کامیابی حاصل ہوئی اور دونوں ایمپائر ہمیشہ کے لئے ختم ہوگئے۔
فرانس کے مؤرخ ہنری پرین(Henry Pyrenne) نے اس قدیم نظام کو مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ اہل اسلام اگر اس مطلق شہنشاہیت کو نہ توڑتے تو دنیا میںکبھی آزادی اور امن کا دور نہ آتا۔
جہاد کیا ہے
جہاد کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان جہاد کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں، وہ جہاد نہیں ہے۔ یہ سب قومی جذبات کے تحت چھیڑی ہوئی لڑائیاں ہیں جن کو غلط طورپر جہاد کا نام دے دیا گیا ہے۔
جہاد اصلاً پُر امن جدوجہد کا نام ہے، وہ قتال کے ہم معنٰی نہیں۔ کبھی توسیعی استعمال کے طورپر جہاد کو قتال کے مفہوم میں بولا جاتا ہے۔ مگر لغوی مفہوم کے اعتبار سے جہاد اور قتال دونوں ہم معنٰی الفاظ نہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں قرآن و حدیث سے جہاد کے بعض استعمالات درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا (العنکبوت ۶۹) یعنی جن لوگوں نے جہاد کیا ہماری خاطر تو ہم اُن کو اپنی راہیں دکھائیں گے۔اس آیت میںتلاشِ حق کو جہاد کہاگیا ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا، اللہ کی قربت ڈھونڈھنے کے لیے کوشش کرنا۔ ظاہر ہے کہ اس جہاد کا قتال یا ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں۔
۲۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے: وجاہدوا بأموالہم (الحجرات ۱۵) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اپنے مال سے جہاد کیا۔ اس آیت کے مطابق، اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ایک جہادی عمل ہے۔
۳۔ اسی طرح قرآن میںارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (الفرقان ۵۲) یعنی غیرمومنین کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ قرآن کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے پُر امن جدوجہد کرو۔
۴۔ اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: المجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ (الترمذی، فضائل الجہاد) یعنی مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفس کی ترغیبات سے لڑکر اپنے آپ کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنا جہاد ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لڑائی داخلی طورپر نفسیات کے میدان میں ہوتی ہے، نہ کہ خارجی طورپر کسی جنگ کے میدان میں۔
۵۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحج جہاد (ابن ماجہ، کتاب المناسک) یعنی حج جہاد ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حج کا عمل ایک مجاہدانہ عمل ہے۔ حج کو مطلوب انداز میں انجام دینے کے لیے آدمی کو سخت جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔
۶۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی خدمت کے بارے میں فرمایا: ففیہما فجاہد (البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم اپنے والدین میںجہاد کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا جہاد کا ایک عمل ہے۔
اس طرح کی مختلف آیتیں اور حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کا عمل اصلاً ایک پُرامن عمل ہے۔ وہ کسی مطلوب خدائی کام میں پُر امن دائرہ کے اندر جدوجہد کرنا ہے۔ جہاد کے لفظ کا صحیح ترجمہ پُر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے۔
عُسر میں یُسر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بیشک عسر کے ساتھ یُسر ہے (الانشراح)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا فطرت کے جس قانون پر چل رہی ہے اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہاں ہمیشہ مشکل کے ساتھ آسانی موجود رہے۔ یہاں ہمیشہ رکاوٹ کے ساتھ نکاس کا راستہ باقی رہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ دنیامیںامن کی حالت کو مسلسل قائم رکھنے کا راز کیا ہے۔ وہ ہے— رکاوٹوں سے ٹکرائے بغیر اپنا راستہ نکالنا۔ انسانی سماج میں امن ختم ہونے کا سبب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ افراد یا جماعتوں کے راستہ میں جب بھی کوئی رکاوٹ آتی ہے تو وہ یہ چاہنے لگتے ہیں کہ رکاوٹ کو توڑ کر اپنے لیے ہموار راستہ بنائیں۔ یہی مزاج امن شکنی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اس لیے لوگوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ کوئی مشکل پیش آجائے تو تم اُس کو رکاوٹ نہ سمجھو بلکہ یہ یقین رکھو کہ جہاں مشکل ہے وہیں آسانی بھی ہے۔ جہاں سفر بظاہر رُک رہا ہے، وہیں سے نئے سفر کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔
آپ کسی پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ کی چوٹی سے چشمے جاری ہو کر تیزی سے میدان کی طرف بہہ رہے ہیں۔ ان چشموں کے راستہ میں بار بار پتھر آتے ہیں جو بظاہر چشمہ کا راستہ روکنے والے ہیں۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پتھر کسی چشمہ کا راستہ روک دے۔
اس کا سادہ راز، ایک لفظ میں، اعراض ہے۔ یعنی ٹکراؤ سے بچ کر اپنا راستہ نکالنا۔ چنانچہ جب بھی چشمہ کے سامنے کوئی پتھر آتا ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر چشمہ یہ کرتا ہے کہ دائیں یا بائیں مڑ کر اپنا راستہ نکال لیتا ہے اور آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ وہ راستہ کے پتھر کو ہٹانے کے بجائے خود اپنے آپ کو ہٹا لیتا ہے۔ اس طرح کسی ٹھہراؤ کے بغیر چشمہ کا سفر برابر جاری رہتا ہے۔
یہ فطرت کا سبق ہے۔ اس طرح فطرت عمل کی زبان میں انسان کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ مشکلات سے ٹکرانے کے بجائے مشکلات کو نظر انداز کرو۔ رکاوٹوں کو توڑنے کے بجائے رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنا عمل جاری رکھو۔ اس طریقِ عمل کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم (positive statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی سیرت کامطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اسی پالیسی کو اختیار کیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ ایک ایسا انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے جس میں اتنی کم جانیں ہلاک ہوئیں کہ اُس کو بلاشبہہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
پازیٹیو اسٹیس کو ازم کی یہ پالیسی موجودہ دنیا میں امن کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جنگ کا سب سے بڑا سبب اسٹیٹس کو (statusquo) کو توڑنے کی کوشش ہے، اور امن کے قیام کا سب سے بڑا راز یہ ہے کہ اسٹیٹس کو کو مان کر بقیہ دائرہ میں اپنی تعمیر کی جائے۔
اسلام میں جہاد کا تصور
جہاد ایک عربی لفظ ہے۔ اس کے معنٰی سادہ طور پر کوشش کرنے کے ہیں۔ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے وہ پر امن جد وجہد کے ہم معنٰی ہے۔ توسیعی مفہوم کے اعتبار سے جہاد کو جنگ کے معنٰی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے مگر عربی میںجنگ کے لیے اصل لفظ قتال ہے، نہ کہ جہاد۔
موجودہ زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر جنگ اور تشدد کے معنٰی میں بولا جاتا ہے۔ میڈیا کے کثرتِ استعمال کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو تشدد کا مذہب سمجھا جانے لگا۔ مثلاً لندن کے انگریزی روزنامہ ٹائمس (The Times) میںایک آرٹیکل چھپا ہے جس کا عنوان یہ ہے—ایک مذہب جو تشدد کی اجازت دیتا ہے۔
A religion that sanctions violence
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں پیغمبر اسلام کو رحمت للعالمین کی حیثیت سے متعارف کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو دین لائے وہ دنیا کے لیے دین رحمت تھا۔ ایسے دین کی تصویر متشددانہ مذہب کی کیسے بن گئی۔ جواب یہ ہے کہ دو قسم کی غلط فہمیاں اس خلاف واقعہ تصویر کی ذمہ دار ہیں۔ ایک، نظریہ اور عمل میں فرق نہ کرنا۔ دوسرے، استثناء کو عموم کا درجہ دینا۔
۱۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نظریہ کی روشنی میںعمل کو جانچا جاتا ہے، نہ کہ عمل کی روشنی میں نظریہ کو جانچا جانے لگے۔ مثلاً اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اس کی ممبر قوموں کے رویّہ کو جانچا جائے گا، نہ یہ کہ ممبر قوموں کی عملی روش کی روشنی میں چارٹر کا مفہوم متعین کیاجائے۔ اسی طرح اس مسئلہ کے علمی مطالعہ کے لئے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
مثلاً مسلمانوں کی ایک تعداد ان قبروں کو پوجتی ہے جس میں کسی بزرگ کو کبھی دفن کیا گیا تھا۔ اس کو دیکھ کر بت پرست لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب شرک اور اسلام کے مذہب توحید میں کوئی فرق نہیں ۔ فرق اگر ہے تو صرف یہ کہ ہندو دھرم میں کھڑا کر کے پوجا جاتا ہے اور اسلام دھرم میں لِٹا کر پوجا جاتا ہے۔ مگر یہ تقابل درست نہیں۔ کیوں کہ جو مسلمان قبروں کو پوجتے ہیں وہ ان کا ایک انحرافی فعل ہے۔ اس کا اسلام کی اصل تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی معاملہ جہاد کا ہے۔ جہاد بلا شبہہ ایک پر امن عمل ہے۔ لیکن اگر محمود غزنوی اور اورنگ زیب کی متشددانہ کارروائیوں کو اسلامی جہاد بتایا جائے یا موجودہ زمانہ میں جو مسلمان مختلف مقامات پر اسلام کے نام سے لڑائی چھیڑے ہوئے ہیں ان کو جہاد کہا جائے تو یہ رائے قائم کرنے کا صحیح طریقہ نہ ہوگا۔ صحیح علمی طریقہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کی ثابت شدہ تعلیمات کو اسلامی نظریہ کا ماخذ بنایا جائے اور مسلمانوں کی کارروائیوں کو اس کی روشنی میں جانچا جائے۔ مسلمانوں کا جو عمل اسلام کے نظریۂ جہاد پر پورا نہ اترے اُس کو رد کردیا جائے۔
۲۔ غلط فہمی کا دوسرا سبب استثنائی تعلیم کو عمومی تعلیم کا درجہ دینا ہے۔ قرآن میں تقریباً چھ ہزار آیتیں ہیں۔ ان میںسے بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو جہاد بمعنٰی قتال سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں، زیادہ متعین طور پر اعشاریہ ۵ فیصد (0.5 percent) ۔
اصل یہ ہے کہ قرآن ۲۳ سال کی مدت میں وقفہ وقفہ سے اترا۔ جیسے حالات پیداہوتے تھے اسی کے مطابق اللہ کی طرف سے احکام نازل کر دئے جاتے تھے۔ اس ۲۳ سال کو دو مختلف مدتوں میںتقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک ۲۰ سال کی مدت اور دوسرے تین سال کی مدت۔ ۲۰ سال کی مدت میں قرآن میںوہ احکام اترے جو ایمان، اخلاص، عبادت، اخلاق، عدل، اصلاح سے تعلق رکھتے تھے اور تین سال کی مدت میں جنگ کے احکام اترے جب کہ پیغمبر اسلام کے مخالفوں نے یکطرفہ طورپر حملہ کر کے اہل اسلام کے لیے دفاع کا مسئلہ پیدا کردیا تھا۔ گویا قرآن میں جہاد بمعنٰی قتال کی آیتوں کی حیثیت استثناء کی ہے اور دوسری آیتوں کی حیثیت عموم کی۔
استثناء اور عموم کا یہ فرق ہرجگہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر گیتا ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے۔ اس میں حکمت کی بہت سی باتیں ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ گیتا میں کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں کہ ہے ارجن، لڑائی کے لیے تیار ہو اور جنگ کر۔
O Arjun, be ready and fight. (Chapter 3, 11 )
پوری گیتا کو پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنگ کی بات اس میں استثناء کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر صرف اسی استثنائی حصہ کو لیا جائے اور اس کو جنرلائز کرکے اسی سے گیتا کی مجموعی تعلیم نکالی جائے تو یہ ایک غیر علمی طریقہ ہوگا اور گیتا کوصحیح طورپر سمجھنے میں رکاوٹ بن جائے گا۔
اسی طرح بائبل میںآیا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. (Matthew 10/34)
حضرت مسیح کے پورے کلام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کا یہ قول استثنائی قول ہے۔ یہی ان کی عمومی تعلیم نہیں۔ ایسی حالت میں حضرت مسیح کے پیغام کو متعین کرنے کے لیے ان کے عمومی اقوال کو دیکھا جائے گا۔ بعض استثنائی اقوال کو لے کر مسیح کی عمومی تصویر بنانا درست نہیں ہوسکتا۔
یہی کسی کتاب کے مطالعہ کا علمی طریقہ ہے۔ یہی طریقہ گیتا اور بائبل کے مطالعہ کے لیے بھی درست ہے اور یہی طریقہ قرآن کے مطالعہ کے لیے بھی درست۔
اب قرآن اور حدیث کے حوالوں کی روشنی میں جہاد کا مفہوم متعین کیجئے۔ قرآن کی ایک آیت یہ ہے: والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا، (العنکبوت ۶۹)۔ یعنی جو لوگ اللہ میں جہاد کریں گے اللہ انہیں اپنے راستے دکھائے گا۔ اس آیت میں جہاد سے مراد وہ کوشش ہے جو سچائی کی تلاش میں یا اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کی جائے۔ اس آیت میںایک ایسے عمل کو جہاد کہا گیا ہے جو مکمل طورپر ایک فکری جستجو (intellectual pursuit) کی حیثیت رکھتی ہے۔
کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے
کیا اسلام تشدد کی اجازت دیتا ہے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں دفاع کے لیے لڑنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ ہر مذہبی اور غیر مذہبی سسٹم میں اس کی اجازت ہے۔ مگر تشدد میرے نزدیک اس سے الگ ایک اور فعل کا نام ہے۔ اس پہلو سے اسلام میں قطعاً تشدد کی اجازت نہیں۔ تشدد کا لفظ عام طورپر جس مفہوم میں بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لیے تشدد کا استعمال کیا جائے۔ اور اس قسم کے تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی شخص کسی کو اپنا دشمن سمجھے تو اس بنا پر اُس کے لیے جائز نہیں ہوجاتا کہ وہ اُس کو ختم کرنے کے نام پر اُس کے خلاف تشدد کرنے لگے۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دشمن اور جارح کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اگر کوئی گروہ کسی دوسرے گروہ کے خلاف یک طرفہ طورپر متشددانہ جارحیت کرے تو قرآن کے مطابق، اُس کو حق ہے کہ وہ ایسے جارح کے خلاف دفاعی کارروائی کرے اور بقدرِ ضرورت جوابی تشدد کا استعمال کرے۔ قرآن میںکہا گیا ہے کہ لڑنے کی اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف لڑائی کی جارہی ہے:
Permission of fighting is given to those who are attacked. ( 22 . 39 )
مگر دشمن کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔دشمن کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم عین وہی ہے جو مسیح کی زبان سے بائبل میں اس طرح آئی ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو:
Love your enemy (Luke 6-31)
قرآن میں دشمنانہ سلوک کا جواب دشمنانہ سلوک کے ساتھ دینے سے منع کیا گیا ۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میںدشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (حٰم السجدہ ۳۴)
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق، دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔ اسلام کے مطابق، ہر انسان اصلاً مسٹر نیچر ہے۔ وہ صرف وقتی طورپر کبھی مسٹر دشمن بن جاتا ہے۔ اگر اُس کے ساتھ یک طرفہ حسن سلوک کیاجائے تو وہ اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور ماضی کا دشمن حال کا دوست بن جائے گا۔
اب غور کیجئے کہ کوئی شخص تشدد کیوں کرتا ہے۔ اس کا ایک سبب آئیڈیالاجیکل ایکسٹریمزم ہے۔ جہاں ایکسٹریمزم نہ ہو وہاں تشدد بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ اسلام میں ایکسٹریمزم کو منع کرکے اس قسم کے تشدد کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اسلام نے کہا کہ دین میںکسی قسم کا غلو نہیں (النسائی، ابن ماجہ، احمد)
There is no extremism in the religion of Islam.
اسی طرح تشدد کا ایک سبب غصہ ہے۔ اور اسلام میں غصہ کو ایک بہت بڑی اخلاقی بُرائی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔ (الشوریٰ ۳۷)
اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کے مطابق لوگ ایسا کریں کہ جب انہیں کسی پر غصہ آئے تو وہ اُس کو معاف کردیں، ایسی صورت میں تشدد کی نوبت ہی نہ آئے گی۔
تشدد کو استعمال کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی یہ سمجھ لیتا ہے کہ تشدد ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ اس طاقتور ذریعہ کو استعمال کرکے وہ اپنے مقصد کو حاصل کرسکتاہے۔ مگر قرآن میںاس ذہن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن کے مطابق، تشدد صرف ایک بے نتیجہ قسم کا منفی رد عمل ہے، وہ کسی مقصد کے حصول کا کوئی مؤثراور مفید ذریعہ نہیں۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ کسی سے تمہاری نزاع قائم ہو تو نزاع کو ٹکراؤ تک نہ جانے دو جوآخر کار تشدد بن جاتا ہے۔ بلکہ نزاع کو مصالحانہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردو۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ صلح بہتر ہے (النساء ۱۲۸)
Reconciliation is the best.
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب کسی سے کسی معاملہ میں نزاع کی صورت پیدا ہو جائے تو اُس کے حل کے لیے مصالحانہ طریقِ عمل(conciliatory course of action) اختیار کرو، نہ کہ منازعانہ طریق عمل confrontational course of action) (۔ ظاہر ہے کہ اگر اسلام کی اس تعلیم کو اختیار کیاجائے تو نزاع پیدا ہونے کے باوجود تشدد کی نوبت نہیں آئے گی۔
اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے پیغمبر اسلام کا ایک قول بہت زیادہ مددگار ہوسکتا ہے۔ وہ قول یہ ہے کہ ان اللہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف(صحیح مسلم) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔
پیغمبر اسلام کے اس قول میں فطرت کانظام بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا میںخدا نے فطرت کا جو نظام قائم کیا ہے وہ ایسے اصولوں پر مبنی ہے کہ یہاں کسی مقصد کے حصول کے لیے پُر امن طریقہ زیادہ کار آمد اور نتیجہ خیز ہے۔ اس کے مقابلہ میں پُر تشدد طریقہ تخریب کاری تو کرسکتا ہے مگر وہ کسی مثبت مقصد کے حصول کے لیے نتیجہ خیز نہیں ۔
یہاںیہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمان دونوں ایک چیز نہیں۔ اسلام ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے اور مسلمان اُس گروہ کانام ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اسلام کو اپنے مذہب کے طورپر اختیار کیا۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ مسلمان جوکچھ کریں اُس کو اسلام سمجھ لیا جائے۔
کوئی مسلمان یا مسلمانوں کا کوئی گروہ اگر تشدد کرے تو یہ اُس کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کی زبان سے کہا جائے گا کہ اگر چہ وہ اسلام کا دعویٰ کرـتے ہیں مگر اُنہوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ (الحجرات ۱۴)
اسلام اور دہشت گردی
اگر کوئی شخص کرشچین ٹررزم کا ٹرم استعمال کرے تو کہنے والا کہے گا کہ تم متضاد ترکیب (contradictory term) استعمال کررہے ہو ۔ کرشچین کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ چنانچہ مسیح نے کہا ہے کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو(Love your enemy) کرشچینٹی کی تعلیمات Love پر مبنی ہیں۔ ایسی حالت میں کرشچین ٹررزم کے کوئی معنٰی نہیں۔ مگریہ آدھی سچائی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسیح نے کہا کہ تم اپنے دشمن سے محبت رکھو، مگر اسی کے ساتھ نیو ٹسٹمنٹ کی روایت کے مطابق، مسیح نے یہ بھی کہا کہ یہ نہ سمجھو کہ میں صلح کروانے آیا ہوں بلکہ میں جنگ کروانے آیا ہوں:
Do not think that I came to bring peace on earth. I did not come to bring peace but a sword. ( 10:34 )
پھر کیا وجہ ہے کہ مسیح کے اس واضح قول کے باوجود کوئی شخص کرشچین لوگوں پرٹررزم کا الزام عائد نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ کرشچین لوگ لڑائی نہیں کرتے۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی لڑائی کو نیشنل انٹرسٹ کے نام پر چلاتے ہیں، نہ کہ مسیحی مذہب کے نام پر۔ مثلاً ہٹلر ایک کرشچین تھا۔ اس نے دوسری عالمی جنگ چھیڑی مگر اس نے اپنی اس جنگ کومسیحیت کے نام پر نہیں کیا بلکہ جرمن قومیت کے نام پر کیا۔ اسی طرح امریکہ نے ویت نام میںدس سال سے زیادہ مدت تک جنگ کی مگر اس میں بھی اس نے ایسانہیں کیا کہ وہ اپنی اس جنگ کو کرشچین وار کہے۔ اس کے برعکس اس نے یہ کہا کہ وہ اس جنگ کو امریکی مفاد کے لیے کر رہا ہے۔
کچھ لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ میڈیا اسلام کو ٹررزم کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ مگر میں کہوں گا کہ اس معاملہ میں میڈیا کاقصور نہیں۔ کیوں کہ مسلمان خود اسلام کے نام پر جگہ جگہ تشدد پھیلائے ہوئے ہیں جس کو وہ بطور خود جہاد کا نام دیتے ہیں۔ ایسی حالت میں میڈیا کا رول اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ مسلمانوں کے قول و عمل کو اُن کے اپنے دعویٰ کے مطابق رپورٹ کرتا ہے۔ مسلمان اگر اپنی جنگ کو اپنی کمیونٹی کے انٹرسٹ کے نام پر لڑی جانے والی جنگ بتائیں تو اس کو مسلم کمیونٹی کے نام سے جوڑا جائے گا۔ مگر جب وہ اپنے تشدد کو اسلام کا نام دیتے ہیں تو بالکل فطری ہے کہ میڈیا میں وہ اسلامی تشددکے نام سے رپورٹ کیا جائے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے اصولوں پر مبنی ہیں۔ اسلام کی ۹۹ فیصد آیتیں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر امن ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ تاہم اسی کے ساتھ اس میں بعض آیتیں یا کچھ آیتیں جنگ سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں۔ مگر اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت استثناء کی۔
عسکری دور سے غیر عسکری دور تک
ساتویں صدی کے نصف اول میں جب اسلام کا ظہور ہوا، اُس وقت ساری دنیا میں سیاسی جبر کا وہ نظام قائم تھا جس کو فرانسیسی مؤرخ ہنری پرین نے مطلق بادشاہت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ یہ نظام جبر انسان کو ہر قسم کے خیر سے محروم کئے ہوئے تھا۔ اُس وقت حکم دیا گیا کہ اس مصنوعی نظام کا خاتمہ کر دو تاکہ انسان کے اوپر ان بھلائیوں کا دروازہ کھل جائے جو اللہ نے اُن کے لیے مقدر کیا ہے۔
قرآن (الانفال ۳۹) میںیہ حکم ان الفاظ میں دیا گیا : وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ (اور اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے)۔ اس آیت میں فتنہ سے مراد سیاسی جبر کا وہ قدیم نظام ہے جو آیت کے نزول کے وقت ساری دنیا میں رائج تھا۔ اور دین سے مراد فطرت پر مبنی خدا کا تخلیقی نظام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعی جبر کا نظام ختم ہو جائے اور دنیا میںخدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق حالتِ فطری قائم ہو جائے۔ جس میںہر انسان اپنے عمل کے لیے آزاد ہو، ہر انسان کھلے ماحول میںاپنا ٹیسٹ دے سکے۔
رسول اور اصحاب رسول کی جدو جہد اور اُن کی قربانی سے مذکورہ قدیم نظام ٹوٹ گیا اور دنیا میںوہ نظام آگیا جو اللہ کو مطلوب تھا۔ تاہم یہ ایک عظیم تبدیلی تھی۔یہ وہ انوکھا انقلاب تھا جس کو ہنری پرین نے اس طرح بیان کیا ہے—اسلام نے دنیا کی حالت کو بدل دیا۔ تاریخ کا روایتی ڈھانچہ توڑ کر پھینک دیا گیا۔
Islam changed the face of the globe. The traditional order of history was overthrown.
یہ انقلاب اتنا بڑا تھا کہ وہ اچانک نہیں آسکتا تھا۔ چنانچہ اللہ کی خصوصی مدد سے وہ ایک عمل (process) کے روپ میں جاری ہوا۔ اسلام کے دور اول کا یہ انقلاب گویا ایک دھکا تھا جو تاریخ کو دیا گیا۔اس کے بعد انسانی تاریخ ایک مخصوص رُخ پر چل پڑی۔ ساتویں صدی کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی کے وسط میں اپنی تکمیل تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ قدیم طرز کا جبری نظام دوبارہ زمین پر قائم ہو۔
بعد کے زمانہ میں دوبارہ کسی اور ایمپائر کادنیا میں قائم نہ ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ پچھلی چند صدیوں کے عمل کے نتیجہ میں دنیا میں ایسی ہمہ گیر تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جو کسی نئے ایمپائر کے قیام کی راہ میں فیصلہ کن طورپر رکاوٹ ہیں۔ اب وہ اسباب دنیا میں موجود ہی نہیں جب کہ کوئی سیاسی حوصلہ مند دوبارہ قدیم طرز کا ایمپائر کھڑا کرسکے۔
موجودہ زمانہ میں سیاسی ایمپائر کے قیام کے خلاف جو موانع (deterrents) پیدا ہوئے ہیں اُن کو چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔
۱۔ قدیم زمانہ میں یہ صورت حال تھی کہ جب کوئی بادشاہ فوجی طاقت کے زور پر ایک علاقہ پر قبضہ کرلیتا تھا تو وہاں کے لوگ اُس کو بادشاہ کا فطری حق سمجھ کر اُس کی سیاسی بالا دستی کو قبول کرلیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں ایک بادشاہ کو صرف دوسرا بادشاہ ختم کرسکتا تھا، نہ کہ عوام۔ مگر موجودہ زمانہ میں جمہوریت اور سیاسی آزادی اور قومی حکومت کے تصورات کے نتیجہ میں رائے عامہ اتنی زیادہ بدل چکی ہے کہ اب کسی بیرونی بادشاہ کو وہ اجتماعی قبولیت (social acceptance) حاصل نہیںہوتی جو کسی حکومت کے قیام و بقا کے لیے ضروری ہے۔
۲۔ قدیم زمانہ میں اقتصادیات کاانحصار تمام تر زمین پر مبنی ہوتا تھا اور زمین صرف بادشاہ کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ موجودہ زمانہ میں صنعتی انقلاب نے بے شمار نئے اقتصادی ذرائع پیدا کردیے ہیں۔ یہ نئے ذرائع ہر انسان کے لیے قابل حصول ہیں۔ اس لیے اب عام لوگوں کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ سیاسی حکمراں کے خلاف ایسے آزاداقتصادی وسائل پالیں جو سیاسی حکمراں کے دائرۂ اقتدار کے باہر ہوں۔ اس اقتصادی تبدیلی نے اس بات کو ممکن بنا دیا کہ آج ایسی انقلابی تحریک چلائی جاسکے جس کو روکنا سیاسی حکمراں کے لیے ممکن نہ ہو۔
۳۔ اسی طرح ایک چیز وہ ہے جس کو مانع میڈیا(media deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں میڈیا اور کمیونیکیشن کی ترقی نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے کہ ایک علاقہ میں پیش آنے والا واقعہ فوراً ہی ساری دنیا میں پہنچ جائے۔ تمام دنیا کے لوگ اُس سے پوری طرح با خبر ہوجائیں۔ یہ ایک ایسا چیک (check)ہے جس نے قدیم طرز کے سیاسی ایمپائر کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اب کوئی بادشاہ اپنے اختیارات کا اُس طرح بے خوف استعمال نہیں کرسکتا جو پہلے ممکن ہوا کرتا تھا۔
۴۔ اسی طرح ایک اور چیزوہ ہے جس کو عالمی مانع (universal deterrent) کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والے ادارے، ایسے مستقل چیک ہیں جن کو کوئی سیاسی حکمراں نظر انداز نہیں کرسکتا اور نہ دیر تک اُن کی خلاف ورزی کا تحمل کرسکتا ہے۔
ان عالمی تبدیلیوں کے بعدانسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ قدیم دور اگر عسکری دور تھا تو اب نیا دور غیر عسکری دور ہے۔ قدیم زمانہ میں پُرتشدد طریقہ کو کسی بڑی کامیابی کے لیے ضروری سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب پُرامن طریقہ(peaceful method) کو مطلق طورپر کامیاب طریقہ کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔ اب کسی مقصد کے حصول کی جدو جہد کو اول سے آخر تک اس طرح چلایا جاسکتا ہے کہ اُس کے کسی بھی مرحلہ میں تشدد کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئے۔ وہ مکمل طورپر پُرامن ذرائع کی پابندرہتے ہوئے کامیابی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب پُر تشدد طریقِ کار ایک خلاف زمانہ عمل(anachronism) کی حثییت اختیار کرچکا ہے، اب وہ وقت کے مطابق، کوئی عمل نہیں۔
جہاد بمعنٰی قتال کو تمام علماء حسن لغیرہٖ مانتے ہیں، نہ کہ حسن لذ۱تہٖ۔ اب موجودہ حالات میںیہ کہنا صحیح ہوگا کہ اب جہاد بمعنٰی قتال کا وقت نہیں رہا، اب جہاد بمعنٰی پُر امن جدوجہد کا وقت دنیا میں واپس آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاد بمعنٰی قتال اب منسوخ ہوگیا۔وہ حکماً بدستور باقی ہے۔ یہ نیا معاملہ جو پیش آیا ہے اُس کا تعلق خود حکم کی منسوخی سے نہیں ہے بلکہ احوال کی تبدیلی سے ہے۔ اس کی توجیہہ اس فقہی مسلّمہ میں پائی جاتی ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان۔ (زمان ومکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) یہ امر واضح ہے کہ تبدیلی اور منسوخی میںنوعی فرق پایا جاتا ہے۔
یہ تبدیلی جو موجودہ زمانہ میں پیش آئی ہے وہ عین اسلام کے حق میں ہے اور وہ اسلام ہی کے پیدا کردہ انقلاب کے نتائج میں سے ایک نتیجہ ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے مواقع آخری حد تک کھول دیے جائیں۔ اب اہلِ اسلام گویا آخری طورپر اُس دور میںداخل ہوچکے ہیں جس کی آمد کی دعا رسول اور اصحاب رسول نے ان الفاظ میںکی تھی: ربنا ولا تحمل علینا إصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا (البقرہ) اب اسلام کے دعوتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کسی ٹکراؤ کی ضرورت نہیں۔ اب پُر امن طریقِ کار پر عمل کرتے ہوئے وہ سب کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے جو اسلام میں مطلوب ہے۔
ایک حدیث
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خطبہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک پیش آنے والی ساری باتیں آپ نے ہم کو بتائیں۔ اس خطبہ میں آپ نے اپنی امت کونہایت شدت کے ساتھ سیاسی بغاوت سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی حکمراں خواہ تمہارے نزدیک ظالم ہو، وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے اور تمہارا مال چھین لے تب بھی تم اس کی اطاعت کرو۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا : وانمااخاف علی امتی الائمۃ المضلین، وإذ۱وضع السیف فی امتی لم یُرفع عنہا الی یوم القیامۃ، (سنن ابی داؤد، کتاب الفتن والملاحم، ۴؍۹۵) یعنی میں اپنی امت پر سب سے زیادہ گمراہ کرنے والے لیڈروں سے خائف ہوں، اور جب میری امت میں تلوار داخل ہوجائے گی تو وہ اس سے قیامت تک اٹھائی نہ جائے گی۔
اس قسم کی دوسری حدیثوں کی روشنی میں اس حدیث پر غور کیاجائے تو اس کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سیاسی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ پر تشدد عمل سے روکا اور پُرامن عمل کی نصیحت کی۔ اس لیے کہ پر تشدد عمل کی روایت اگر ایک بار قائم ہو جائے تو اس کے بعد اُس کو ختم کرنا بے حد مشکل ہوجاتاہے۔
حدیث کی کتابوں میںکثرت سے اس قسم کی روایتیں آئی ہیں جن میں آپ نے حکمراں کے خلاف خروج سے آخری حد تک منع فرمایا ہے۔ اس بنا پر علماء نے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ قائم شدہ حکومت کے خلاف کسی بھی عذر کی بنا پر بغاوت کرنا حرام ہے۔ (الغلو فی الدین صفحہ ۴۱۷)
ایک طرف حاکم کے خلاف متشددانہ سیاست کی یہ مطلق ممانعت ہے۔ دوسری طرف روایات میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: افضل الجہاد من قال کلمۃ حقٍ عندسلطان جائر (الترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد، النسائی) یعنی افضل جہاد یہ ہے کہ کوئی شخص ظالم بادشاہ کے سامنے حق کی بات کہے۔
ان دونوں قسم کی روایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ کسی کو کوئی حکمراں شخص ظالم دکھائی دے تب بھی اس کے لئے زیادہ سے زیادہ جس حد تک جانے کی اجازت ہے وہ صرف قولی معنٰی میں اظہار رائے ہے ، نہ کہ عملی معنٰی میں مخالفانہ سیاست چلانا یا حکمراں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اسلام میں صرف پر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے۔ پر تشدد جدوجہد (violent struggle) کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام کی بعد کی تاریخ کا غالباً سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مذکورہ واضح ہدایات کے باوجود بعد کی مسلم نسلوں میں جہاد کے نام پر متشددانہ سیاست کی روایت چل پڑی۔ حتٰی کہ یہ ذہن مسلمانوں پر اتنا زیادہ چھایا کہ دین رحمت (الانبیاء ۱۰۷) ان کے یہاں دین جہاد بمعنٰی قتال بن گیا۔ بعد کی صدیوں میںتیار ہونے والا بیشتر لٹریچر براہ راست یا بالواسطہ طورپر اسی ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
بعد کے زمانہ میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں اُن میں اس ذہن کی عکاسی اس طرح ہوئی کہ صبر واعراض کی آیتوں کے بارے میں لکھ دیا گیا کہ قتال کا حکم اُترنے کے بعد یہ آیتیں منسوخ ہوگئیں۔ احادیث جمع کرکے مرتب کی گئیں تو اُن میں کتاب الجہاد تو نہایت تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا مگر کتاب الدعوہ والتبلیغ سرے سے کسی کتاب میں شامل نہیں۔ یہی حال فقہ کی تمام کتابوں کا ہے۔ فقہ کی کتابوں میں جہاد اور متعلقاتِ جہاد کے احکام نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں مگر دعوت اور متعلقاتِ دعوت کے ابواب کسی بھی فقہی کتاب میںقائم نہیں کئے گئے۔
یہی حال بعد کو پیدا ہونے والے تقریباً تمام اسلامی لٹریچر کا ہوا۔ ابن تیمیہ سے لے کر شاہ ولی اللہ تک، اور شاہ ولی اللہ سے لے کر موجودہ زمانہ کے مصنفین تک، کوئی بھی شخص دعوت کے موضوع پر کوئی کتاب تیار نہ کرسکا۔ اگر کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ ہے تو وہ بھی ایسا ہی ہے جیسے سیاست یا فضائل کی کسی کتاب کا نام دعوت و تبلیغ رکھ دیا جائے۔
اس قسم کے لٹریچر کے تحت مسلمانوں کا جومزاج بنا اُسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں میں ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنے والے لوگ ہیرو بن جاتے ہیں اور جو شخص ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کرے وہ اُن میں غیر مقبول ہو کر رہ جاتاہے۔
اسی بنا پر ایسا ہوا کہ امام حسین کے کردار کو تو ہمارے مقررین اور محررین نے خوب نمایاں کیا مگر امام حسن کا کردار نمایاں نہ کیاجاسکا۔صلاح الدین ایوبی کو مسلمانوں کے درمیان زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ مگر وہ لوگ جنہوںنے تاتاری غارت گروں کو اسلام میں داخل کرکے انہیں اسلام کا خادم بنایا اُن کا کوئی تذکرہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ موجودہ زمانہ میں اُسامہ بن لادن جیسے تشدد کی بات کرنے والے لوگ نہایت آسانی سے مسلمانوں کے درمیان ہیرو بن جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص امن اور احترامِ انسانیت کی بات کرے تو وہ مسلمانوں کے درمیان عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکے گا۔
اس ذہن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عام انسانیت مسلمانوں کا کنسرن (concern) ہی نہ رہی۔ مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ خداکے بندوں کو وہ ’’اپنی قوم‘‘ اور ’’غیر قوم‘‘ میں تقسیم کرکے دیکھنے لگے۔ دعوتی طرزِ فکر کے مطابق، مسلمان اور غیر مسلم داعی اور مدعو قرار پاتے ہیں۔ اس کے برعکس جہادی (بمعنٰی قتالی) طرزِ فکر میں یہ ہوتا ہے کہ مسلمان دوسروں کو اپنا حریف اور رقیب سمجھنے لگتے ہیں۔
مغربی قوموں کے استیلاء کے بعد یہ فرق بہت زیادہ بڑھ گیا۔مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ مغربی قوموں نے اُن سے اُن کا برتری کا مقام چھین لیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں یہ ہوا کہ رقابت مزید اضافہ کے ساتھ نفرت بن گئی۔ مسلمان عام طورپر دوسری قوموں کو دشمن کی نظر سے دیکھنے لگے۔
اسلام اکیسویں صدی میں
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ دور اوّل میں جو انقلاب آیا اُس کاایک پہلو وہ ہے جس کی تکمیل دور اول ہی میں ہوگئی۔ یعنی نزول قرآن کی تکمیل اوراسلامی طرز زندگی کا نظری اور عملی نمونہ دنیا میں قائم ہو جانا۔ یہ نمونہ قرآن اور حدیث اور سیرت اور احوالِ صحابہ کی صورت میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ہے۔ وہ ابدی طورپر انسان کے لیے ربّانی طرز زندگی کا مستند نمونہ ہے۔
دور اول کے اسلامی انقلاب کا دوسرا پہلو وہ ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے تدریج کا طالب تھا۔ چنانچہ وہ لمبی مدت کے بعد اپنی تکمیل کو پہنچا۔ یہ دوسرا پہلو ایک مسلسل عمل (process) کے طورپر انسانی تاریخ میںداخل ہوا۔ یہ تاریخ میں ایک بے حد دور رس تبدیلی کا معاملہ تھا۔ اُس کے لیے ہزار سالہ تغیراتی عمل درکار تھا۔چنانچہ یہ عمل مکہ اور مدینہ سے جاری ہو کر دمشق اور بغداد تک پہنچا۔ اس کے بعد وہ مزید آگے بڑھا۔ وہ اولاً یورپ (اندلس) میںداخل ہوا اور اُس کے بعد وہ ساری دنیا میں پھیل گیا۔ مستقبل میںآنے والے اس انقلاب کا ذکر قرآن میں واضح طورپر موجود ہے۔ یہاں اس سلسلہ میں چند آیتوں کے حوالے نقل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ اور تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لئے ہوجائے۔ (الأنفال ۳۹)
۲۔ آج منکر تمہارے دین کی طرف سے مایوس ہوگئے۔ پستم اُن سے نہ ڈرو، صرف مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا۔ (المائدہ ۳)
۳۔ عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
۴۔ اے ہمارے رب، ہم پر بوجھ نہ ڈال جیسا تونے ڈالا تھا ہم سے اگلوں پر۔ (البقرہ ۲۸۶)
اسلامی انقلاب کے اس دوسرے پہلو کا خلاصہ یہ تھا کہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں لائی جائیں کہ اُس کے بعد اسلام پر عمل کرنا زمانۂ ماضی کے مقابلہ میںآسان ہوجائے۔ پچھلے دور کے اہل ایمان کو جو کام ’’عسر‘‘ کے حالات میں کرنا پڑتا تھا وہ اگلے دو ر کے اہل ایمان کے لئے ’’یُسر‘‘ کے حالات میں انجام دینا ممکن ہوجائے (الانشراح)۔ تیسیر کے اس عمل کے مختلف پہلو ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قدیم زمانہ میں بادشاہت کے تحت سیاسی جبر کا نظام قائم تھا۔ اس نظام کے تحت انسان کو سوچنے یا عمل کرنے کی آزادی حاصل نہ تھی۔ جب کہ آزادی کے بغیر نہ دینی احکام پر عمل کیا جاسکتا اور نہ دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب نے نہ صرف ابتدائی طورپر جبرکے اس نظام کو توڑا بلکہ تاریخ میںایک نیا عمل (process) جاری کیا۔ اس عمل کی تکمیل موجودہ زمانہ میں اس طرح ہوئی ہے کہ آج اہل ایمان کو دینی عمل اور دینی دعوت دونوں کی مکمل آزادی حاصل ہے، الاّ یہ کہ وہ خود اپنی کسی نادانی سے حالات کو مصنوعی طورپر اپنے مخالف بنا لیں۔
اس انقلاب کاایک اور پہلو یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ٹیکنیکل ترقی کے ذریعہ کمیونیکیشن کے جدید ذرائع حاصل ہوگئے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ حق کی دعوت کو تیزی کے ساتھ دنیا کے ہر حصہ میں پہنچایا جاسکے۔
اسی طرح موجودہ زمانہ میں سائنسی دریافتوں نے اس کو ممکن بنا دیا کہ کائنات میں چھپی ہوئی خداکی نشانیاں ظاہرہوں اور خدا کے دین کو خود علم انسانی کی روشنی میں مدلّل اور مبرہن کرسکے۔
بیسویں صدی عیسوی میں یہ عمل اپنی آخری تکمیل تک پہنچ چکا تھا۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ ممکن ہوگیا تھا کہ وہ امن اورآزادی کی فضا میں بخوبی طورپر اللہ کے دین پر عمل کریں اور اللہ کے دین کو دوسری اقوام تک پہنچانے کا دعوتی فریضہ کسی رکاوٹ کے بغیر انجام دیں۔ مگر عین اسی صدی میںمسلمانوں کے نا اہل رہنماؤں نے غلط رہنمائی کرکے اُنہیں ایسی سرگرمیوں میں الجھا دیا جس کا نتیجہ صرف یہ ہوسکتا تھا کہ اہل ایمان جدید مواقع کو استعمال نہ کرسکیں، حتٰی کہ وہ اُن کے شعور سے بھی بے بہرہ ہوجائیں۔ یہ غلطیاں بنیادی طور پر دو قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔
ایک غلطی وہ ہے جو اسلام کی سیاسی تعبیر کے نتیجہ میں پیدا ہوئی۔ اس تعبیر نے غلط طور پر مسلمانوں کا یہ ذہن بنایا کہ وہ اسلام کے کامل پیرو صرف اُس وقت بن سکتے ہیں جب کہ وہ اسلام کے تمام قوانین کو عملاً نافذ کردیں۔ اس سیاسی ذہن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم عوام اپنے حکمرانوں سے لڑ گئے، تاکہ اُن کو ہٹا کر وہ شریعت کا قانون نافذ کرسکیں۔ اس سیاسی بدعت کے نتیجہ میں کوئی خیر تو سامنے نہیںآیا البتہ مسلم دنیا میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں وہ جبر اور ظلم دوبارہ قائم ہوگیا جس کو لمبے تاریخی عمل کے نتیجہ میں ختم کیا گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندوں سے اسلام کی کامل پیروی مطلوب ہے، نہ کہ اسلام کا کامل نفاذ۔
دوسری غلطی وہ ہے جو جہاد کے نام پر موجودہ زمانہ میں شروع کی گئی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دوسری قوموں سے کچھ سیاسی اور مادّی شکایتیں تھیں۔ ان شکایتوں کو پُر امن طریقِ کار کے ذریعہحل کیا جاسکتا تھا مگر پُر جوش رہنماؤں نے فوراً جہاد کے نام پر ہتھیار اُٹھالیے اور دوسری قوموں کے خلاف مسلّح لڑائی شروع کردی۔ اس خود ساختہ جہاد کے نتیجہ میں نہ صرف جدید امکانات ضائع ہوگئے بلکہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اتنی بڑی تباہی سے دوچار ہوئے، جیسی تباہی ماضی کی طویل تاریخ میں اُن کے ساتھ کبھی پیش نہیں آئی تھی۔
مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کے نتیجہ میں مسلمان بیسویں صدی کو کھو چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی ان غلطیوں کی اصلاح کریں گے یا موجودہ صدی کو بھی وہ اُسی طرح کھو دیں گے جس طرح وہ پچھلی صدی کو کھو چکے ہیں۔
واپس اوپر جائیں