اسلام مکمل ضابطۂ حیات ؟
اسلام مکمل ضابطۂ حیات (complete system of life)ہے— یہ بات درست بھی ہے اور نادرست بھی۔ اگر اس بات کو اختیاری پیروی (following) کے معنی میں لیا جائے تو بلاشبہ وہ درست ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کو نفاذ(enforcement) کے معنی میں لیا جائے تو یقینا وہ ایک نادرست بیان ہے، جس کا قرآن و سنت سے کوئی تعلق نہیں۔
مثلا قرآن میں ہے : یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِیدًا ( 33:70 )۔ یعنی اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ فردِ مومن کو چاہیے کہ وہ جب بولےتو صحیح بات بولے۔ لیکن اگر اس آیت کا مطلب یہ بتایا جائے کہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرو، جس میں لوگوں کو مجبور کردیا جائےکہ صرف درست بات بولنا ہے، نادرست بات ہرگز نہیں بولنا ہے۔ تو آیت کا یہ مفہوم ایک خود ساختہ مفہوم ہوگا ، جس کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی طرح مثلاً قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا( 6:152 )۔ یعنی اور جب تم بولو تو انصاف کی بات بولو۔قرآن کی اس آیت میں ایک انفرادی حکم دیا گیا ہے۔ یعنی ایک فرد مومن کو چاہیے کہ جب وہ بولے تو ہمیشہ سچی بات بولے، وہ کبھی جھوٹ نہ بولے۔ لیکن اگر قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ بتایا جائے کہ اے مسلمانو، تم ایک ایسا سیاسی نظام قائم کرو جس میں لوگوں کو بذریعہ طاقت اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ہمیشہ سچ بولیں، وہ کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ تو یہ اس آیت کا ایک خود ساختہ مفہوم ہوگا۔ جس کا قرآن کی اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی طرح قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ ( 42:13 )۔ یعنی تم الدین کی پیروی کرو۔ یہ آیت ہر فرد مسلم کو یہ حکم دے رہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں خدا کے بتائے ہوئے دین پر چلے۔اس کے برعکس، اگر اس آیت کا مطلب یہ بتایا جائے کہ دین کا مطلب اسٹیٹ ہے۔ اور اہل اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ اس دینی اسٹیٹ کو بزور زمین پر قائم (establish) کریں،اور لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ اس سے انحراف نہ کرنے پائیں۔ اگر کچھ لوگ اس آیت کا یہ مطلب بتائیں تو یہ بلاشبہ آیت کا ایک خودساختہ مفہوم ہوگا۔ اس قسم کے مفہوم کا قرآن کی اس آیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام یقینا مکمل ضابطہ حیات ہے، مگر وہ مکمل ضابطہ انفرادی زندگی میںاختیاری پیروی کے معنی میں ہے، نہ کہ حکومت کی طاقت سے سسٹم (socio-political system) کے نفاذ کے معنی میں۔
اسلام کا نشانہ یہ نہیں ہے کہ حاکمانہ طاقت سے کوئی سیاسی اور سماجی نظام قائم کیا جائے، جس میں لوگوں کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ اپنی زندگیوں میں صرف دینِ خداوند ی کی اطاعت کریں، ان کو اس سے انحراف کی اجازت نہ ہو۔ اس کے برعکس، اسلام کا نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد کے اندر یہ شعور پیدا کیا جائے کہ وہ اللہ سے محبت کریں اور اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اس اسپرٹ کو قرآن میں الربانیۃ (آل عمران 79: ) کہا گیا ہے۔ قرآن کا نشانہ یہ ہے کہ ہر فرد کے اندر یہ ربانی اسپرٹ پیدا کی جائے ۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اس ربانی اسپرٹ کی تعمیل کرے۔ وہ جہاں بھی ہو، جس حال میں بھی ہو، اس ربانی اسپرٹ پر اپنے کو قائم رکھے۔
اسلام کی تعلیم کے مطابق، موجودہ دنیا دار الامتحان (الملک2:)ہے، وہ دار النفاذ (place of enforcement)نہیں ۔موجودہ دنیا میں ہر عورت اور ہر مرد کا امتحان (test)لیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اختیار کو اللہ کے مقرر کردہ صراطِ مستقیم پر چلنے میں استعمال کرتا ہے یا اس سے انحراف کرنے میں۔ امتحان کی اسی مصلحت کی بنا پر موجودہ دنیا میں انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے۔ تاکہ جو چاہے مانے، اور جو چاہے انکار کرے ۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر( 17:29 ) ۔ یعنی اور کہو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، پس جو شخص چاہے اسے مانے اور جو شخص چاہے نہ مانے۔دوسری جگہ فرمایا: لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ ( 88:22 )۔ یعنی تم ان پر داروغہ نہیں ۔
اس لیے قرآن میں ایک اصولی حکم کے طور پرفرمایا: لَا إِکْرَاہَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِنْ بِاللَّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ( 2:256 ) ۔یعنی دین کے معاملہ میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت، گمراہی سے الگ ہوچکی ہے۔ پس جو شخص طاغوت(شیطان) کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے، اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیا جو ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
قرآن میں انسان کے بارے میں خالق کا تخلیقی نقشہ ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا ۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا ( 91:8-10 )۔یعنی پھر اس کو سمجھ دی،اس کی بدی کی اور اس کی نیکی کی۔کامیاب ہوا جس نے اس کو پاک کیا۔اور نامراد ہو ا جس نے اس کو آلودہ کیا۔
خالق کے اس تخلیقی نقشے کے مطابق، ہر عورت اور مرد کو اس کے خالق نے مکمل آزادی دی ہے۔ اس کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے مطابق سوچے اور اس پر عمل کرے۔ یہ تخلیقی نقشہ فطری طور پر ہر ایک کے لیے آزادی کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے مطابق، ضابطۂ حیات مکمل ہو یا غیر مکمل۔ ہر حال میں وہ انسان کے لیے فریڈم آف چوائس کا معاملہ ہے ، نہ کہ کسی اور کی طرف سے جبری نفاذ (compulsory imposition)کا معاملہ ۔ جبری نفاذ کا تصور اس معاملے میں تخلیق کے نظام میں مداخلت کے ہم معنی ہے۔ جو خلاف فطرت ہونے کی بنا پرکبھی ورک (work) کرنے والا نہیں۔
معکوس نتیجہ
مکمل ضابطۂ حیات کے نظریہ کا نتیجہ ہمیشہ معکوس صورت میں نکلے گا۔ مکمل ضابطہ عملاً نامکمل ضابطہ بن کر رہ جائے گا۔ اسلام جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے خیرخواہی کا مذہب ہے، وہ عملاً نفرت اور دشمنی کا مذہب بن کر رہ جائے گا۔
جب آپ کہیں کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات (complete system of life) ہے، تو فوراً ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ نظام (system) پر عملاً ہمیشہ کسی گروہ کا قبضہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق جو قانون یا جو طریقۂ حیات پسند کرتا ہے، اس کو وہ رائج کیے ہوئے ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اس قسم کا ذہن فوراً یہ سوچتا ہے کہ مکمل ضابطۂ حیات کو عملاً رائج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زندگی کے نظام پر اس کا مکمل کنٹرول ہو۔ یہی کام اس کو پہلا کام نظر آتا ہے۔
پھر اس کو دکھائی دیتا ہے کہ اس مکمل کنٹرول کے لیے ضروری ہے کہ ’’حکومت کی باگیں‘‘ کسی اور کے قبضہ میں نہ ہوں، بلکہ خود اس کے قبضہ میں ہوں۔ یہاں سے یہ ذہن بنتا ہے کہ اگر اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر رائج کرنا ہے تو ہم کو زندگی کے نظام پر مکمل غلبہ حاصل کرنا ہوگا۔
اس طرح ذہن کی توجہ تمام تر اس طرف چلی جاتی ہے کہ ’’اقتدار کی باگیں‘‘ کسی اور کے ہاتھ میں نہ ہوں بلکہ آپ کے ہاتھ میں ہوں۔ پھر فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ یہی تصور آدمی کے دماغ پر پوری طرح چھاجاتا ہے۔ پھر فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ذات کا تصور پہلے ثانوی درجہ (secondary position) میں چلا جاتا ہے اور پھر بالآخر رفتہ رفتہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح ذات کا معاملہ ایک رسمی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ذہن پر جو چیز چھا جاتی ہے وہ نظام (system) کو بدلنا ہے ، نہ کہ اپنی ذات کو بدلنا۔ اس اعتبار سے اگر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ مکمل ضابطۂ حیات کا نظریہ عملاً معکوس نتیجہ کا سبب بن جاتا ہے۔ یعنی اس نظریہ کے نتیجہ میں جو چیز ملتی ہے وہ نفرت اور تشدد کا ماحول ہے، جہاں تک نظام زندگی کا تعلق ہے، وہ نہ مکمل معنوں میں حاصل ہوتا اور نہ نامکمل معنوں میں۔ حقیقت یہ ہے کہ مکمل ضابطہ حیات کا تصور کہنے کے اعتبار سے بظاہر جتنا خوبصورت معلوم ہوتا ہے، عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ اتنا ہی زیادہ غلط ہے۔
مکمل ضابطہ، نامکمل اسلام
میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ عرب سے ہوئی۔ وہ اسلام کی انقلابی تعبیر سے متاثر تھے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا: اسلام دین کامل وشامل۔ یعنی اسلام ایک کامل اورجامع دینی نظام ہے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا یہ پسندیدہ نقطۂ نظر ہے۔ کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کچھ اور کہیںگے:
Islam is a complete system of life.
اس قسم کی تعبیر بظاہر اسلام کی جامع تعبیر ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ وہ اسلام کی ایک ناقص تعبیر ہے۔ اس تعبیر کے مطابق اسلام صرف ایک قسم کا مینول بن جاتا ہے۔ مینول خواہ کتنا ہی زیادہ جامع ہو وہ انسان کے صرف جزئی پہلو کا احاطہ(cover)کرے گا۔ مینول خواہ کتنا ہی زیادہ کامل ہو وہ روبوٹ (robot) کے لئے کامل ہوسکتا ہے۔ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ کوئی بھی مینول انسان کے صرف فزیکل پہلو (physical aspect) کو کور (cover) کرتا ہے، وہ انسان کے عظیم تر انٹلکچول پہلو (intellectual aspect)کا احاطہ نہیں کرتا ۔
صحیح یہ ہے کہ اسلام فزیکل معنوں میں کامل مینول نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک مسلسل تفکیری عمل (continuous thinking process) کے معنی میں مکمل عمل ہے۔ اسلام یہ ہے کہ وہ آدمی کے ذہن (mind) کے لئے ایک فکری طوفان (intellectual storm) بن جائے، وہ آدمی کے اندر مسلسل تفکیری عمل (continuous thinking process) جاری کردے۔وہ آدمی کے اندر ایسی تخلیقیت (creativity) پیدا کردے کہ وہ ہر لمحہ معرفت کے آئٹم دریافت کرتا رہے۔ اس کی شخصیت کو مسلسل طورپر ربانیت کی غذا (divine food) ملتی رہے۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کی ان دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے:
إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَآیَاتٍ لِأُولِی الْأَلْبَابِ ۔ الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللَّہَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( 3:190-191 )۔یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اوررات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اوربیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، پس ہم کو آگ کے عذاب سے بچا۔
قرآن کے اس بیان کے مطابق اہل ایمان اُولو الالباب (people of understanding) ہوتے ہیں۔ وہ اپنےاردگرد کی دنیا پر مسلسل طور پر غور کرتے ہیں۔ وہ خدا کی تخلیق میں خدا کی نشانیاں (signs) دریافت کرتے رہتے ہیں۔ ان کا بیدار ذہن فطرت (nature) کے ہر تجربہ میں معرفت کے آئٹم کو دریافت کرتا رہتاہے۔ ان انکشافات کے درمیان اُن کو مسلسل طورپرتخلیق کی معنویت دریافت ہوتی رہتی ہے۔ اس ذہنی عمل (intellectual process) کے نتیجہ میں ان کے اندر وہ ترقی یافتہ شخصیت بن جاتی ہے جس کو قرآن میں مزکیّٰ شخصیت کہاگیا ہے(طہ 76: )۔
مثال کے طورپر دن کی سرگرمیوں سے فارغ ہوکر آپ اپنے بستر پر لیٹے۔ اس وقت آپ کے اندر محاسبہ (introspection) کا عمل جاگ اٹھا۔ آپ اپنے گزرے ہوئے دن پر سوچنے لگے۔ آپ نے دریافت کیا کہ آج کے دن آپ نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط کیا۔ اب صحیح کام پر آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اورغلط کام پر آپ کے اندر ندامت (repentance)کا جذبہ جاگ اٹھا۔ رات کی نماز ادا کرنے کے بعد بستر پر جانے سے پہلے آپ نے اللہ سے معافی مانگی اور یہ عہد کیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں دہرائیں گے ۔
اس طرح سوچتے ہوئے آپ سو گئے۔ پھر آپ صبح کو اٹھے اور فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے آفس گئے۔ یہاں آپ پر مختلف قسم کے تجربات گزرے۔ ہر تجربہ میں آپ کو کوئی ربانی غذاملی۔ مثلاً آپ نے کسی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔بعیدمواصلات (distant communication) کے اس تجربے کے دوران آپ نے دریافت کیا کہ اللہ نے مادّہ (matter)کو انسان کے لئے اس طرح مسخر کردیا ہے کہ مادہ انسان کے حکم پر اس کے تمام کام انجام دے۔
اس کے بعد آپ اپنے کمرہ سے باہر نکلے اور اپنے گھر کے بیرونی حصہ میں بیٹھ گئے۔ یہاں آپ نے دیکھا کہ سورج بلند ہو کر اپنی روشنی آپ تک پہنچا رہا ہے۔ ہوائیں آپ کو آکسیجن سپلائی کررہی ہیں۔ بادل سمندر کے نمکین پانی کو ڈی سالینیٹ(desalinate) کرکے آپ کو میٹھا پانی پہنچا رہے ہیں۔زمین کی مٹی(soil) آپ کے لئے مختلف خوراک اگا رہی ہے، وغیرہ۔
اس منظر کو دیکھ کر آپ کا ذہن ٹریگر (trigger) ہوا۔ آپ مزید سوچنے لگے کہ روڈ پر کاریں دوڑ رہی ہیں۔ اسی طرح آپ کے چاروں طرف مذکورہ قسم کی فطری سرگرمیاں (natural activities) جاری ہیں۔آپ نے سوچا کہ روڈ پر جو سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں اس کے پیچھے ہیومن مائنڈ (human mind) کی پلاننگ کام کررہی ہے۔ پھر فطرت کی دنیا(world of nature) میں جو بامعنی سرگرمیاں مسلسل طورپر جاری ہیں ان کے پیچھے بھی یقیناً کسی ذہن کی پلاننگ کام کررہی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے آپ دریافت کرتے ہیں کہ عالم فطرت کی سرگرمیوں کے پیچھے بھی یقینا کوئی برتر ذہن (Super Mind) ہے، جو سارے معاملات کو نہایت صحت کے ساتھ کنٹرول کررہا ہے۔ یہ سوچ آپ کو خالق تک پہنچاتی ہے اور خالق کے بارے میں آپ کے یقین میں بہت زیادہ اضافہ کردیتی ہے۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کس معنی میں مکمل دین ہے۔ وہ محدود طورپر مینول (manual) کے معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ ربّانیت کے معنی میں ہائی تھنکنگ (high thinking) کا ایک معاملہ ہے۔ جو ہر لمحہ مومن کی شخصیت میں ایمانی اضافہ کرتا رہتا ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت
موجودہ دنیا میں ہر انسان کے لیے مسائل بھی ہیں، اور اسی کے ساتھ مواقع بھی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل انسان کی پیداوار ہیں۔ اس کے مقابلے میں مواقع خالق کا عطیہ ہیں۔ آپ اس معاملے میں مثبت ذہن پیدا کیجیے، آپ یہ کیجیے کہ مسائل کو نظر انداز کیجیے اور مواقع کو تلاش کرکے ان کو اپنے لیے استعمال کیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ مثال کے طور پر ہماری فضا میں ہوا موجود ہے، جو ہماری زندگی کے لیے بے حد مفید ہے۔ اسی کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں فضائی آلودگی بھی موجود ہے۔ ہوا خالق کا عطیہ ہے۔ اس کے مقابلے میں فضائی آلودگی انسان کا اضافہ۔ ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ فضائی آلودگی کو نظر انداز کرکے ہوا کو اپنے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح ہم کو چاہیے کہ ہم مسائل کو نظر انداز کریں، اور مواقع کو تلاش کرکے، ان کو اپنے حق میں استعمال کریں۔ یہی موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔
ت ت ت ت ت ت ت
واپس اوپر جائیں