انسان کی کہانی
حیوانات کے لیے زندگی صرف ایک بار ہے مگر انسان کے لیے استثنائی طورپر زندگی دوبار ہوتی ہے۔ ہر انسان اصلاً ابدی حیات کا مالک ہے۔ اِس ابدی زندگی کا بہت مختصر حصہ قبل ازموت دورِ حیات میں ہے۔ اور اس کا بقیہ تمام حصہ بعد از موت دورِ حیات میں۔
کائنات کی دوسری چیزیں قانون فطرت کے ماتحت ہیں۔ یہاں کی ہر چیز جبری طورپر وہی کرتی ہے جو اس کے لیے قانونِ فطرت کے تحت مقدر کردیا گیا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان استثنائی طورپر ایک آزاد مخلوق ہے۔ وہ اپنا مستقبل خود اپنے آزاد ارادے کے تحت بناتا ہے۔ وہ اپنی آزادی کا یا تو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط استعمال۔ وہ اپنے مواقع کو یا تو پاتا ہے یا اس کو نادانی کے ساتھ کھو دیتا ہے۔
اس حقیقت کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 95 میں خدا نے یہ اعلان کیا ہے :ہم نے انسان کو بہترین بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا ۔ پھر اس کو سب سے نیچے درجے میں پھینک دیا (التین : 4-5 )
We created man in the best mould, then we cast him down to the lowest of the low.
یہ گویا انسان کے لیے ایک وارننگ ہے جو اس کو اس کے حال اور اس کے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اعلیٰ امکانات کے ساتھ پیدا کیا، مگر انسان اپنے امکانات کا کم تر استعمال کرکے اپنے آپ کو بدترین ناکامی میں ڈال دیتا ہے:
God created man with great potential, but by under-utilizing his potential, he makes himself a worst case of failure.
انسان کی شخصیت ایک دوہری شخصیت ہے— جسم اور روح (یا ذہن)۔سائنسی مطالعہ بتاتا ہے کہ دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں تک انسان کے جسم کا تعلق ہے ،وہ غیر ابدی ہے۔ جب کہ انسان کی روح ایک ابدی وجود کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کی روح ایک غیر مادّی حقیقت ہے۔ وہ مادّی قوانین سے بالا تر ہے۔ جب کہ انسان کا جسم مادی قوانین کے ماتحت ہے اور مسلسل طورپر فنا پذیر ہے۔
حیاتیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کا جسم بہت چھوٹے چھوٹے خلیوں (cells) سے بنا ہے۔ یہخلیات ہر لمحہ ہزاروں کی تعداد میں ٹوٹتے اور ختم ہوتے رہتے ہیں۔ انسان کا نظامِ ہضم گویا ایک خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ یہ فیکٹری مسلسل طورپر خلیّات کی سپلائی کرتی رہتی ہے۔ اِس طرح جسم اپنے وجود کو باقی رکھتا ہے۔ یہ عمل اِس طرح ہوتا ہے کہ ہر چند سال کے بعد آدمی کا جسم بالکل ایک نیا جسم بن جاتا ہے۔ لیکن اس کا روحانی وجود کسی تبدیلی کے بغیر اسی طرح باقی رہتا ہے۔ چنانچہ کہاگیا ہے کہ انسان کی شخصیت تغیر کے درمیان عدم تغیر کا نام ہے:
Personality is changelessness in change.
انسان کی ناکامی کا پہلا مظہر یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے غیر متغیر حصے کو نظر انداز کرتا ہے، اور اپنی شخصیت کے تغیر پذیر حصے کو اچھا بنانے میں لگا رہتا ہے۔ وہ اپنی ساری توجہ فانی انسان کی بہتری میں لگا دیتا ہے، اور ابدی انسان کی بہتری کے لیے وہ نہ کچھ سوچتا ہے اور نہ کچھ کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک محدود مدت گذار کر جب وہ مرتا ہے تو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کا فانی وجود اپنی تمام ظاہری ترقیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے اور اس کا ابدی وجود ترقیات سے محروم حالت میں زندگی بعد موت کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔
یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں انسان کی ناکامی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہہ بدترین ناکامی ہے کہ انسان انتہائی اعلیٰ امکانات (potentials) کے ساتھ پیدا کیا جائے مگر وہ اپنے امکانات کو صرف ناقص طورپر استعمال کرے اور اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے اپنے اِس عدم استعمال کی قیمت دینے کے لیے اپنے ابدی دورِ حیات میں داخل ہوجائے۔
اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان استثنائی طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تصوّراتی فکر (conceptual thought) انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو وسیع کائنات کی کسی بھی چیزمیں نہیں پائی جاتی۔ حتی کہ حیوانات میں بھی نہیں۔ اِسی لیے کہا گیا ہے کہ انسان ایک سوچنے والا حیوان ہے:
Man is a thinking animal.
اِس اعتبار سے دیکھیے تو انسان کی شخصیت دو چیزوں پر مشتمل ہے— غیر تفکیری جسم، اور تفکیری روح۔ جو لوگ اپنے امکانات کو محدود طورپر صرف مادّی دائرے میں استعمال کریں وہ گویا اپنے وجود کے غیر تفکیری حصے کی تو خوب تزئین کررہے ہیں لیکن اپنے وجود کے تفکیری حصے کی ترقی کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ موت سے پہلے کی اپنی تمام عمر جسمانی ترقی (physical development) میں صرف کردیتے ہیں،اور جہاں تک ذہنی ترقی (intellectual development) کی بات ہے وہ اس کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں پر جب موت آتی ہے تو اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اُسی طرح مرجاتے ہیں جس طرح کوئی حیوان مرتا ہے، یعنی اپنے جسم کو خوب فربہ بنانا، اور اگلے دورِ حیات میں اِس طرح داخل ہونا کہ ان کا ذہن تمام ترقیوں سے محروم ہو اور اگلے دورِ حیات میں طویل حسرت کے سوا کچھ اور ان کے حصے میں نہ آئے۔
اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طور پر کل(tomorrow) کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں، بشمول حیوانات، صرف اپنے آج (today) میں جیتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو کل کا شعور رکھتا ہے، اور کل کو نشانہ بنا کر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ گویا کہ بقیہ چیزیں صرف حال (present) میںجیتی ہیں اور انسان استثنائی طورپر مستقبل (future) میں۔
قرآن کے بیان کے مطابق، وہ لوگ بدترین محرومی کا شکار ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو صرف آج کی چیزوں کے حصول میں لگا دیں اور اپنے کل کی تعمیر کے لیے وہ کچھ نہ کریں۔ ایسے لوگ موت سے پہلے کی زندگی میں بظاہر خوش نما دکھائی دے سکتے ہیں لیکن موت کے بعد کی زندگی میں وہ محرومی کی بدترین مثال بن جائیں گے۔ کیوں کہ موت کے بعد کی زندگی میں جو چیز کام آنے والی ہے، وہ ذہنی اور روحانی ترقی ہے نہ کہ دنیوی مفہوم میں مادّی ترقی۔
اِسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان اپنے اندر لامحدود خواہشیں رکھتا ہے۔ اِسی کے ساتھ ہر انسان کے اندر لامحدود صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جن کو استعمال کرکے وہ لامحدود حد تک اپنی خواہشوں کی تکمیل کرے، مگر ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا صرف اتنا استعمال کرپاتا ہے جو اس کو موت سے پہلے کی محدود دنیا میں کچھ وقتی راحت دے سکے۔ مگر آخر کار ہر انسان کا یہ انجام ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِن تمام صلاحیتوں کو لیے ہوئے موت کے بعد والی ابدی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے جہاں وہ ابدی طور پر بے راحت زندگی گذارے، کیوں کہ اُس نے اِس دوسرے دورِ حیات کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال ہی نہیں کیا تھا۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے حقیقت پسندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی اِس طرح کرے کہ اس کی فطری صلاحیتیں بھر پور طورپر اس کے ابدی مستقبل کی تعمیر میں استعمال ہوں۔ وہ اپنے امکانات (potentials) کو سمجھے اور اُن کو اِس طرح استعمال کرے کہ وہ اپنے ابدی دورِ حیات میں ان کا مفید نتیجہ پاسکے۔ وہ اپنے آپ کو اِس بُرے انجام سے بچائے کہ آخر میں اس کے پاس صرف یہ کہنے کے لیے باقی رہے کہ میں اپنے امکانات کو استعمال کرنے سے محروم رہا:
I was a case of missed opportunities.
انسان کے لیے حقیقت پر مبنی منصوبہ بندی یہ ہے کہ وہ موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مادی چیزوں کے معاملے میں صرف ضرورت(need) پر قناعت کرے، اور اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کا بیش تر حصہ اِس پر خرچ کرے کہ وہ موت کے بعد کی زندگی میں ایک مُطہَّر شخصیت (purified personality) کے ساتھ داخل ہو۔ تاکہ اس کو ابدی دورِ حیات کی معیاری دنیا (perfect world) میں عزت اور راحت کی مطلوب زندگی مل سکے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ موت سے پہلے کے دورِ حیات اور موت کے بعد کے دورِ حیات دونوں میں کامیابی کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے آپ کو تیّار شخصیت(prepared personality) بنانا۔ مادّی معنوں میں تیار شخصیت موت سے پہلے کے دورِ حیات میں ترقی کا ذریعہ بنتی ہے، اور روحانی معنوں میں تیار شخصیت اُس دورِ حیات میں کام آئے گی جہاں موت کے بعد آدمی کو رہنا ہے۔
مادی معنوں میں تیار شخصیت یہ ہے کہ آدمی پروفیشنل ایجوکیشن حاصل کرے۔ آدمی کے اندر تجارتی صلاحیت ہو۔ آدمی کے اندر وہ صفات ہوں جن کے ذریعے کوئی شخص لوگوں کے درمیان مقبول ہوتا ہے۔ آدمی قریبی مفاد(immediate gain) کو آخری حد تک اہمیت دیتا ہو، وغیرہ۔
موت کے بعد کے دورِ حیات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو تیار شخصیت درکار ہے وہ ایسی شخصیت ہے جس نے موجودہ دنیا کے مواقع کو روحانی ارتقاء (spiritual development) اور فکری ارتقاء (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔ ایسی ہی شخصیت موت کے بعد کے دورِ حیات میں باقیمت ٹھہرے گی۔
یہ شخصیت وہ ہے جس نے اپنی عقل کو استعمال کرکے سچائی کو دریافت کیا۔ جو شبہات کے جنگل میں یقین پر کھڑا ہوا۔ جس نے خدا کو اپنی زندگی کا واحد کنسرن بنایا۔ جس نے خود پسندی کے جذبات کو کچل کرخدا پرستی کے طریقے کو اختیار کیا۔ جو منفی حالات میں مثبت سوچ پر قائم رہا۔ جس نے نفسانی انسان بننے کے بجائے ربّانی انسان ہونے کا ثبوت دیا۔جس نے مفاد پرستی کے بجائے اصول پسندی کا طریقہ اختیار کیا۔ جس نے اپنے آپ کو نفرت سے بچایا اور اپنے اندر انسانی خیر خواہی کے جذبات کی پرورش کی۔ جس نے آزادی کے باوجود اطاعت(submission) کا طریقہ اختیار کیا۔
نگاہ عبرت
رومن ایمپائر کے عروج کے زمانے میں اس کے اندر بیشتر یوروپ، شرق اوسط اور افریقہ کے شمالی ساحلی ممالک شامل تھے۔ رومیوں نے جو سڑکیں، عمارتیں اور پل بنائے، وہ اتنے شاندار تھے کہ ان کے بنائے ہوئے بعض پل اسپین میں دوہزار سال بعد بھی آج تک باقی ہیں۔ رومن لا ،آج بھی یورپ، امریکا کے قانون کی بنیاد ہے، وغیرہ۔مگر رومن ایمپائر اپنی ساری عظمتوں کے باوجود ختم ہوگئی۔ اب اس کا نشان یا تو پرانے کھنڈروں میں ہے یا ان کتابوں میں جو لائبریریوں کی زینت بننے کے لیے رکھی جاتی ہیں۔
اس طرح کے واقعات سے انسان اگر نصیحت لے تو وہ کبھی گھمنڈ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آنکھ والا وہ ہے جو اپنے عروج میں زوال کا منظر دیکھے، جو اپنی بلند عمارتوں کو پیشگی طور پر کھنڈر ہوتا دیکھ لے۔
واپس اوپر جائیں