اختیارِ اَیسر— ایک سنّت
حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ یہ روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، المؤطا اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ اِس روایت میں حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی بیان کی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت تین ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے (کتاب المناقب:باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ کتاب الأدب:باب مالا یُستحیا من الحقّ للتفقّہ فی الدّین؛ کتاب الحدود:باب إقامۃ الحدود، والإنتقام لحرمات اللہ) اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختار أیسرہما۔ یعنی جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔
یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اِس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بیان کیاگیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ محدثین نے اِس کی زیادہ تشریح نہیں کی۔ ابنِ حجر کی فتح الباری کو حدیث کا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ابنِ حجر نے اِس حدیث کو تین ابواب کے تحت نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے اِس حدیث کی کوئی واضح تشریح نہیں کی۔ انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ اِس ’تخییر‘ کا تعلق، اُمورِ دنیا سے ہے، مگر انھوں نے امورِدنیا کی کوئی متعین عملی مثال نہیں دی(فتح الباری، جلد 12 ، صفحہ 88 )۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر اصول کا ایک عملی انطباق ہوتا ہے۔ مثلاً اسپریچویلٹی کے عملی انطباق کو اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) کہاجاتاہے۔ اِسی طرح سائنس کے عملی انطباق کو اپلائڈ سائنس (applied science) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت عائشہ کے بیان کردہ پرنسپل کا ایک اپلائڈ پرنسپل (applied principle) ہے، لیکن اِس اپلائڈ پرنسپل کی مثالیں کسی بھی شارحِ حدیث کے یہاں نہیں ملتیں۔ میرے علم کے مطابق، اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی عالم اور مصنف نے حضرت عائشہ کے اِس بیان کردہ اصول کے عملی انطباق کو وضاحت اور تعین کے ساتھ بیان نہیں کیا۔
اسلامی لٹریچرکا یہ خلا، بلا شبہہ ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں نماز کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ : أقیموا الصلوٰۃ ( البقرۃ 43 ) یعنی نماز قائم کرو۔ یہ نماز کے بارے میں اصولی حکم ہے۔ اِس کے بعد یہ سوال تھا کہ اِس اصول کا عملی انطباق کیا ہے۔ علما نے احادیث کا مطالعہ کرکے نماز کی عملی صورت، یا اپلائڈ صلوٰۃ (applied Salah) کے بارے میں بڑی تعداد میںکتابیں لکھیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کو غیر مشتبہ طورپر یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کا عملی فارم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لوگ حکمِ نماز کو توجانتے، لیکن اُس کی عملی صورت سے بے خبر ہونے کی بناپروہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی سے محروم رہ جاتے۔حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے بارے میں بھی یہی چیز درکار تھی۔یہاں بھی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے اُس کے عملی انطباق کو بھی بتایا جاتا، یعنی یہ بتایا جاتا کہ رسول اللہ نے اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کس طرح اِس اصول کو عملی طورپر اختیار فرمایا۔ بد قسمتی سے اِس دوسرے معاملے میں یہ کام نہ ہوسکا۔ چنانچہ اب یہ صورتِ حال ہے کہ حضرت عائشہ کی یہ قیمتی روایت، حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن امت اُس کے عملی انطباق سے بالکل بے خبر ہے۔ خاص طورپر جدید دور میں امت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب سنتِ رسول سے لوگوں کی یہی بے خبری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، ابدی طورپر خدا کے دین کا عملی نمونہ ہیں۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح، جہاد بھی وہی جہاد ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ملے۔ جہاد کاجو نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں موجود نہ ہو، وہ یقینی طورپر جہاد نہیںہے بلکہ وہ کوئی اور چیز ہے، خواہ اُس کو اسلامی جہاد کا نام دے دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسئلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنّا نہ کرو، بلکہ خدا سے عافیت مانگو:
Don't wish for confrontation with your enemy, instead ask for peace from God.
جیسا کہ عرض کیا گیا،حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ما خُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختارَ أیسرہما، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
اس قسم کی احادیث کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو دیکھا جائے اور پھر اِس معاملے کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسلام میں مسلّح جہاد، یا قتال صرف ایک غیر مطلوب انتخاب (undesirable option) ہے، وہ ہر گز کوئی مطلوب انتخاب (desirable option) نہیں۔ پیغمبراسلام کی زندگی کے واقعات واضح طورپر اِس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چنانچہ وہاں کے مشرک سردار آپ کے دشمن بن گیے، پھر بھی آپ کا مشن پھیلتا رہا اور لوگ آپ کے ساتھی بنتے رہے۔ اِس طرح تیرہ سال گزر گیے۔ اب مکہ کے مخالفین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو مارڈالیں۔
یہ 622 عیسوی کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپ کو دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع تھا۔ ایک یہ کہ مکہ کے سرداروں کے حربی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اُن سے مسلّح مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک مکہ اور اطرافِ مکہ میں کئی سو افراد آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن چکے تھے، اِس لحاظ سے آپ کے لیے یہ انتخاب بظاہر ایک ممکن انتخاب تھا۔
آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مسلح ٹکراؤ سے اعراض کریں، خواہ اِس مقصد کے لیے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے، یعنی آپ پُر امن طورپر مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں، آپ نے یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے مسلح ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن ہجرت کا طریقہ اختیار کرکے آپ مدینہ چلے گیے۔ اگر چہ ظاہر پسندوں کی نظر میں یہ کوئی باعزت طریقہ نہ تھا۔ چنانچہ سیکولر مؤرخین نے اِس واقعے کو ہجرت کے بجائے فرار (flight) کا نام دیا ہے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلحِ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ آگیے تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ دعوتِ توحید کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دے سکیں۔ یہ بات مکہ کے سرداروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف باقاعدہ حملہ شروع کردیا۔ اُس وقت آپ نے مکہ کے سرداروں سے گفت و شنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ آپ اور مکہ والوں کے درمیان امن کا سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ گفتگو، حدیبیہ کے مقام پر دو ہفتے تک جاری رہی۔
اِس گفت وشنید کے دوران یہ واضح ہوا کہ فریقِ ثانی اپنی یک طرفہ شرطوں پر اصرار کررہا ہے۔ وہ لوگ اِس معاملے میں کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مان لیا، تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ اِس طرح صلحِ حدیبیہ کا واقعہ انجام پایا، جو گویا آپ کے اور فریقِ ثانی کے درمیان دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اِس واقعے کے ذریعے پیغمبر اسلام نے امت کو یہ نمونہ دیا کہ مسلح ٹکراؤ کا انتخاب کسی بھی حال میں نہیں لینا ہے، کوئی بھی قیمت دے کر ہر حال میں امن کو قائم رکھنا ہے— اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا ء کی۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں— مطالعۂ سیرت، اور امنِ عالم، وغیرہ)
***************************************
کانٹے سے بچنے کی تدبیر یہ ہےکہ آدمی کانٹے سے نہ الجھے ۔وہ کانٹے کے مقام سے کترا کر آگے بڑھ جائے
واپس اوپر جائیں