سوال وجواب
سوال
عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام نے جس طرح سود کو منسوخ کیا اُسی طرح اسلام نے غلامی کو کیوں منسوخ نہیں کیا۔ انسان کو غلام بنانا اور انسان کی خرید و فروخت کرنا پیغمبر اسلام ﷺکے زمانہ میں جاری تھا۔ مگر قرآن وحدیث میں کوئی ایسا صریح حکم نہیں ملتا جس میں یہ اعلان کیا گیا ہو کہ انسان کو غلام بنانا جائز نہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں، وقت کی دوسری سماجی برائیوں کی طرح، یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ آج سے غلامی کا مکمل خاتمہ کردیا گیاہے۔ ایسا کیوں ہے۔ (ساجد خاں، میرٹھ)
جواب
اس معاملہ میں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ غلامی ہے کیا۔ غلامی دراصل زرعی دور (agricultural period) کے ایک ناگزیر تقاضے کے طورپر پیدا ہوئی۔ زرعی دور میں زمین معاش کا واحد ذریعہ تھی، اور زمین صرف چند لوگوں کے پاس ہوا کرتی تھی۔ خرید و فروخت کی چیزیں بھی اُس زمانہ میں بہت کم تھیں۔ اس بنا پر سماج کے وہ لوگ جن کے پاس زمین نہ ہو ،مجبور تھے کہ مزدوری کرکے اپنارزق حاصل کریں۔ تاہم یہ بھی عملاً ناکافی تھا اس لیے اُس زمانہ میں محدودمعاشی ذرائع کی تلافی اس طرح کی گئی کہ انسان بھی تجارت کا ایک مال بن گیا۔
جب یہ حالات پیدا ہوگئے تو غلامی کے ادارے کے خاتمہ کا اچانک اعلان مسئلہ کا حل نہ تھا، بلکہ ایسے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ ایک نیاسماجی مسئلہ پیدا ہو جائے۔ اس قسم کے اعلان کا نتیجہ صرف یہ ہوتا کہ بہت سے لوگ بے روزگار ہوجاتے اور عملاًغلامی سے بھی زیادہ بد تر حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے۔
اس بنا پر اسلام نے غلامی کے خاتمہ کی ابتدا کرتے ہوئے اس برائی کے کلی خاتمہ کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا۔ اس تدریجی طریقہ میں دوسری باتوں کے علاوہ اہم ترین بات یہ تھی کہ اُس دور کو بدل دیا جائے جس میں غلامی جیسے مجبورانہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ معاملہ کے اس پہلو کو میں نے اپنی کتاب ’’اسلام دور جدید کا خالق‘‘ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
دو راول کے اسلامی انقلاب نے ایسے حالات پیدا کیے جو آخر کار صنعتی انقلاب کا سبب بنے۔ یعنی انسانی تاریخ زرعی دور سے نکل کر موجود ہ صنعتی دور میں پہنچ گئی۔ صنعتی دور میں یہ ہوا کہ زمین پر مبنی معاشی ذرائع کی محدودیت ختم ہوگئی۔ اب معاشی حصول کے ان گنت نئے ذرائع پیدا ہوگئے۔ زرعی دور میں اگر معاش کا صرف ایک ذریعہ پایا جاتا تھا تو اب معاش کے لاکھوں نئے ذرائع پیدا ہوگئے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ خود حالات کے زور پر غلامی کا خاتمہ ہو گیا۔ اب ایک طرف تاجروں کو نئی نئی زیادہ نفع بخش چیزیں حاصل ہوگئیں جن کی تجارت کرکے وہ اور زیادہ بڑے منافع حاصل کرسکیں۔ دوسری طرف عام انسان کے لیے بھی اپنی معاش کمانے کے لیے اس کی ضرورت نہ رہی کہ وہ کسی زرعی آقا کی غلامی قبول کرے تاکہ وہ اپنی ضروری معاش حاصل کرسکے۔ بلکہ اُس کے سامنے اَن گنت نئے ذرائع معاش کھل گئے جن میں محنت کرکے وہ اپنے لیے باعزت روٹی حاصل کرسکے۔
یہ بلا شبہہ اسلامی انقلاب کے نتائج میںسے ایک نتیجہ تھا کہ دنیا سے زرعی دورکا خاتمہ ہوا اور صنعتی دور آیا۔ زرعی دور میں معاشی ذرائع بہت محدود تھے مگر صنعتی دور میں معاشی ذرائع غیر محدود حد تک بڑھ گئے۔ اس تبدیلی کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ غلام بننے اور غلام بنانے کے حالات عملاً ختم ہوگئے۔ یہاں تک کہ غلامی کے ادارہ نے اس تبدیلی کے بعد اپنا جواز کھو دیا۔ کہا جاتا ہے کہ غلامی کا خاتمہ انیسویں صدی کے آخر میںامریکہ کے قانونِ انسداد غلامی نے کیا۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ امریکہ کے قانون نے غلامی کو ختم نہیں کیا، غلامی تو اپنے آپ ختم ہوچکی تھی۔ اس قانون نے صرف یہ کیا کہ اُس نے ایک ختم شدہ واقعہ کا باقاعدہ اعلان کردیا۔
سوال
اقلیتی کمیشن کی طرف سے نئی دہلی میں جولائی ۲۰۰۲ میں ایک ہندو۔مسلم سیمینار ہوا تھا۔ جس میں آپ بھی مسلمانوں کی جانب سے شریک ہوئے۔ اس سلسلہ میں آپ کے بارے میں مسلم اُردو پریس میں کچھ عجیب باتیں شائع ہوئی ہیں۔ مثلاً دہلی کے ماہنامہ افکار ملی (اگست ۲۰۰۲) میں آپ کی نسبت سے یہ الفاظ چھپے ہیں: ’’جن دو قابل ذکر شخصیات نے ان مذاکرات میں حصہ لیا ان میں سے ایک مولانا وحید الدین خاں صاحب ہیں۔ خان صاحب کے خیالات سے مسلمان اچھی طرح واقف ہیں۔ اُن کے نزدیک ہر مسئلہ مسلمانوں کا اپنا ہی پیدا کردہ ہے، سنگھ پریوار کے لوگ تو معصوم عن الخطاء ہیں، یہ مسلمان ہی ہیں جوملک میں انتشار اور بدامنی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، مسلمان ہندوؤں کو بالفاظ دیگر سنگھ پریوار کے افراد کو اپنا بڑا بھائی سمجھ کر بابری مسجد اور دیگر متنازعہ امور کے تعلق سے اپنی ضد و ہٹ دھرمی چھوڑ دیں۔ ایسا کرکے ہی مسلمان اس ملک میں ’’عزت‘‘ کی زندگی گذار سکتے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۶۔۷) برائے کرم اس معاملہ کی وضاحت فرمائیں۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
۱۔ کوئی مسئلہ آدمی کوپیش آتا ہے، وہ آدمی کا خود اپنا پیدا کیا ہوا ہوتا ہے، یہ راقم الحروف کی بات نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی بات ہے۔ قرآن میں اس سلسلہ کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم (الشوریٰ ۳۰)۔ اس آیت کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس طرح کیا ہے: اور تم کو جوکچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے۔
مفسر القرطبی نے اس آیت کی تشریح میں ایک حدیث نقل کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یا علی ما أصابکم من مرض او عقوبۃ او بلاء فی الدنیا فبما کسبت ایدیکم (الجامع لأحکام القرآن، الجزء ۱۶، صفحہ ۳۰)۔ یعنی اے علی، جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے، خواہ وہ بیماری ہو یا عقوبت ہو یا کوئی دنیوی مصیبت ہو تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوںکی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کی اس تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی اہلِ ایمان کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آئے تو اس کے بعد اُن کے اندر احتساب خویش کا جذبہ اُبھرنا چاہئے، نہ کہ احتسابِ غیر کا۔ خدائی شریعت کے مطابق، یہی مسئلہ کا حل ہے۔
۲۔ مذکورہ عبارت میں راقم الحروف کے نقطۂ نظر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے نقطۂ نظر کو بار بار الرسالہ میں واضح کیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ اس رشتہ کا تقاضا ہے کہ مسلمان یک طرفہ صبر و تحمل کے ذریعہ دونوں گروہوں کے درمیان معتدل فضا قائم کریں تا کہ دعوت کا عمل موافق فضا میں جاری ہوسکے۔ یہ دعوتی اُصول قرآن میں واضح طورپر موجود ہے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبروں کی زبان سے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں: ولنصبرن علی ماآذیتمونا (ابراہیم ۱۲) یعنی ہم ضرور صبر کریں گے تمہاری ایذاؤں پر۔
۳۔ افکار ملی نے میری طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ ’’یہ مسلمان ہی ہیں جو ملک میں انتشار اور بد امنی پیدا کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات بلا شبہہ خلافِ واقعہ ہے۔ وہ لغویت کی حد تک بے بنیاد ہے۔ میںنے ایسا کبھی نہیں کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میری زبان ہی نہیں۔ افکار ملی کے مضمون نگار کے اندر اگر ادبی شعور ہوتا تو وہ اس جملہ کی ساخت ہی کو دیکھ کر کہہ دیتے کہ یہ صاحب الرسالہ کی زبان ہی نہیں۔ اس طرح کی زبان میں وہ کبھی کلام نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ماہنامہ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میںمیرا کوئی اقتباس پیش نہیں کیا۔
یہاں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ ہندستان میں برٹش حکومت کے زمانہ میں ایک بار وائسرائے کی مشاورتی کونسل میں ایک انگریزی خط پیش کیا گیا۔ اس خط کے لکھنے والے مشہور مسلم لیڈر محمد علی جوہر تھے۔ یہ خط امیر کابل کے نام لکھاگیا تھا۔ خط کے مضمون کے مطابق، محمد علی جوہر نے امیر کابل کو لکھا تھا کہ تم اپنی فوج کو لے کر ہندستان پر حملہ کردو، اندر سے ہم بغاوت کردیں گے۔ اس دو طرفہ دباؤ کے نتیجہ میں انگریز ہندستان کو چھوڑ نے پر مجبور ہوجائیں گے اور ہندستان آزاد ہوجائے گا۔
یہ خط وائسرائے ہند کی جس کونسل میں برائے غور پیش کیاگیا اُس کا ایک ممبر مشہور ’’ظالم‘‘ جنرل ڈائر تھا۔ جنرل ڈائر نے مذکورہ بظاہر غدارانہ خط کو پڑھا تو اس نے صرف اسلوبِ تحریر کی بنیاد پر یہ کہہ کر اُس کو رد کر دیا کہ یہ محمد علی کی زبان ہی نہیں۔
میرے مخالفین اکثر اس طرح کی باتیں میری طرف منسوب کرتے ہیں جو اپنے اسلوب کے اعتبار سے بالکل غیر معیاری ہوتی ہیں۔ میرا ایک معروف اسلوب تحریر ہے۔ ان مخالفین کے اندر اگر جنرل ڈائر کے بقدر بھی علمی اور ادبی ذوق ہوتا تو وہ ان عبارتوں کو دیکھ کر فوراً ہی اُسے رد کردیتے اور کہتے کہ یہ تو صاحب الرسالہ کی زبان ہی نہیں۔
سوال
ہمارے یہاں ایک صاحب پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ میںنے مولانا وحید الدین کو ٹی وی میں دیکھا۔ ایک شخص نے اُن سے ایک سوال کیا تو وہ ہنس پڑے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہنسنا ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے۔ آپ ایک دینی مشن چلارہے ہیں اور دینی مشن ایک سنجیدہ مشن ہوتا ہے، اس لحاظ سے ہنسنا آپ کے شایانِ شان نہیں۔ (ایک قاری الرسالہ، سہارنپور)
مجھے یاد نہیں کہ میںکب اور کس موقع پر کسی کے سوال پر ہنس پڑا تھا۔ تاہم اگر کسی اُلٹے سوال پر مجھے ہنسی آگئی ہو تو یہ کوئی غلط یا ناجائز بات نہیں۔ خواہ مخواہ قہقہہ لگانا بلا شبہہ ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے اور اللہ کے فضل سے مجھے اس قسم کی عادت نہیں۔ البتہ بعض اوقات کوئی شخص ایسا غیر متعلق سوال کرسکتا ہے جس پر ایک سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آجائے۔
قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔ قرآن میںآیا ہے کہ ایک موقع پر حضرت سلیمان؈ کو ہنسی آگئی۔ حضرت سلیمان کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں: فتبسم ضاحکاً من قولہا (النمل ۱۹) یعنی سلیمان اُس کی بات سے مسکرا کر ہنس پڑے۔
اسی طرح حدیث کی کتابوں میںبہت سے ایسے واقعات کا ذکر ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ کو کسی بات پر ہنسی آگئی۔ مثلاً بخاری میںایک صحابی کا واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ راوی بتاتے ہیں کہ صحابی کی بات سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہوگئے۔ فضحک النبی صلی اللہ علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ(فتح الباری، جلد ۱۱، صفحہ ۶۰۴)
سوال
اگست ۲۰۰۲ کا الرسالہ نظر سے گزرا۔ احادیث کو جب آپ عربی میں درج کرتے ہیں تو اس کا ترجمہ ضرور لکھئے۔ بعض اوقات اردو ترجمہ نہیں ہوتا تو اس کے مفہوم کو سمجھتے وقت دقت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً اگست کے شمارے میں صفحہ ۱۱ پر امام رازی کا خیال صرف عربی میں درج ہے۔ صفحہ ۱۵ کے آخری پیراگراف میں بھی حدیث کا ترجمہ ندارد۔ آئندہ سے اس کا خیال رکھیںتو مناسب ہوگا۔ (ظہیر الحق ایم اے، حیدرآباد)
جواب
ماہنامہ الرسالہ صرف ایک پرچہ نہیں، بلکہ وہ ایک مشن ہے۔ مشن ہمیشہ پھیلاؤ چاہتا ہے۔ مشن میں اپنے آپ اشاعت کا مفہوم شامل ہے۔ ایسی حالت میں الرسالہ کے قاری کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ الرسالہ کا مطالعہ مل کر کرے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ الرسالہ میں جب کوئی ایسا عربی حوالہ ہو جو قاری کی سمجھ میں نہ آئے تو اُس کو چاہئے کہ وہ کسی مقامی عالم سے ربط قائم کرے اور اُس سے مل کر عربی عبارت کو حل کرے۔ اسی طرح اگر الرسالہ کا کوئی انگریزی حوالہ سمجھ میں نہ آئے تو یہاں بھی قاری کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ کسی انگریزی داں سے ملے اور اس سے بات کرکے انگریزی عبارت حل کرے۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کے لیے الرسالہ کا مطالعہ صرف مطالعہ نہ رہے بلکہ وہ ربط بڑھانے کا ایک ذریعہ بن جائے۔ یہ بلا شبہہ ربط بڑھانے کا ایک فطری طریقہ ہے۔ اس طریقہ کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ مثلاً اس سے تواضع کی تربیت ہوتی ہے۔ سیکھنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مذاکرہ (dialogue) کا ماحول قائم ہوتا ہے، وغیرہ۔
سوال
ستمبر ۲۰۰۲ کے الرسالہ کے صفحہ۲۳ پر آپ نے حضرت معاویہ کو اچھا منتظم کار بتایا ہے۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ اردو کی بعض کتابوں میں ان پر خیانت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ آپ کی یہ بات معقول نظر نہیں آتی (مقبول احمد، کلکتہ)
جواب
معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے۔ اُن کے اوپر خیانت کا الزام ایک بے بنیاد الزام ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، محدثین نے حضرت معاویہ کی روایت کو قبول کیا ہے اور یہی ایک واقعہ ان کی دیانت اور ثقاہت کے لیے کافی ثبوت ہے۔ معاویہ اگر خدانخواستہ خائن ہوتے تو محدثین ہر گز اُن کی روایت کو قبول نہ کرتے۔
جن لوگوں نے حضرت معاویہ پر خیانت کا الزام لگایا ہے، اُن کا الزام علمی اعتبار سے سراسر بے بنیاد ہے۔ مثلاً آپ کی ذکر کردہ کتاب میں لکھاگیا ہے کہ حضرت معاویہ سرکاری اموال کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اُس کاایک ثبوت ایک تاریخی کتاب کے حوالہ سے یہ دیا گیا ہے کہ ایک بار جب کچھ سرکاری اموال آئے تو حضرت معاویہ نے اُس کے آدھے حصہ کو لوگوں میں تقسیم کیا اور اُس کا آدھا حصہ خود اپنے لیے لے لیا۔ اس بیان کی بنیاد مذکورہ تاریخی کتاب کا یہ جملہ ہے: واخذ النصف لنفسہ (اور آدھا اپنے لیے لے لیا)۔
مگر اس حوالہ کی بنیاد پر خیانت کاالزام درست نہیں۔ کیوں کہ تاریخ کی دوسری زیادہ معتبر کتاب میںاس واقعہ کے ذیل میںیہ الفاظ آئے ہیں: وأخذالنصف لبیت المال (یعنی آدھا مال لوگوں میں تقسیم کیا اور آدھا مال بیت المال کے لیے لے لیا)۔ یہ دوسرا حوالہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے حوالہ میں لنفسہ سے مراد لبیت المال ہے۔ ایسی حالت میں یہ سراسر غیر علمی بات ہے کہ زیادہ صحیح حوالہ کو نظر انداز کرکے مشتبہ حوالہ کی بنیاد پر اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ رائے قائم کی جائے۔
سوال
نئی دہلی کے اردو ماہنامہ زندگی نو (ستمبر ۲۰۰۲) کے شمارہ میںایک امام صاحب کا خط چھپا ہے۔ یہ خط ’’رسائل ومسائل‘‘ کے عنوان کے تحت ہے۔اس خط میں مکتوب نگار نے زندگی نو کے مدیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے: آپ جماعت اسلامی کے آدمی ہیں۔ ’’زندگی نو‘‘ جماعت کا آرگن ہے۔ مگر نہ جانے کیوں آپ نے فروری ۲۰۰۲ کے اشارات (زندگی نو) میں یہ لکھ دیا کہ ’’مگر ریاست اس کی بنیاد نہیں ہے‘‘ (صفحہ ۱۰، سطر: ۱۸)۔ سات الفاظ کا یہ مختصر سا جملہ جماعت کی پالیسی کے خلاف ہے اور یہ وہی بات ہوئی جو کہ جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب کہتے ہیں۔(صفحہ ۷۲)
مکتوب نگار کے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے زندگی نو کے مدیر نے لکھا ہے—ریاست کے قیام کے بغیر احکام الٰہی کے نفاذ کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ لیکن ریاست کا قیام، دین حق کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے۔ دین حق کی بنیاد تو توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان ہے اور وہ تمام عبادات اور اخلاق فاضلہ ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہے۔ اقامت دین کی جدوجہد، مومن کی زندگی کا مقصد ہے۔ قیام ریاست اس کا جزء ہے، لیکن بنیادی ہے۔ اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے (صفحہ ۷۲)
زندگی نو کے مدیر کا یہ جواب اگر چہ اردو زبان میں ہے جو کہ میری مادری زبان ہے۔ اس کے باوجود یہ جواب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ چونکہ اس میںآپ کا نام بھی آگیا ہے اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (ایس اے آفاق، نئی دہلی)
جواب
مذکورہ جواب بلاشبہہ ایک مبہم جواب ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے اس جواب کو سمجھنا ممکن نہیں۔ آپ اس جواب کے الفاظ پر غور کیجئے۔ اس میں ریاست کے تصور کو بنیادی بھی بتایا گیا ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کی حیثیت دین میں بنیادی کیسے ہوسکتی ہے۔ اس جواب میں ایک طرف ریاست کے قیام کو جزئی کام کی حیثیت دی گئی ہے اور عین اُسی کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ لیکن وہ بنیادی ہے۔ یہ متضاد بیان کسی کے لیے بھی قابلِ فہم نہیںہوسکتا۔ آخر وہ کلام کی کون سی قسم ہے جس کے مطابق ایک چیز بیک وقت جزئی بھی ہو اور عین اُسی وقت وہ بنیادی بھی ہو۔
اس شتر گُربہ کلام کاسبب یہ ہے کہ زندگی نو کے ایڈیٹر اپنی فکری غلطی کا کھلا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی نے دین کا جو تصور پیش کیا اُس میں ریاست کی حیثیت بنیادی تھی۔ یہ بات اُن کے پورے لٹریچر میںنمایاں ہے۔ مثلاً اُنہوں نے مبینہ طورپر اقامت ِدین کو حکومت الٰہیہ کے قیام کے ہم معنٰی بتایا۔ اُنہوں نے لکھا کہ: دین کا لفظ قریب قریب وہی معنیٰ رکھتا ہے جو زمانۂ حال میں ’’اسٹیٹ‘‘ کے معنٰی ہیں۔
بانیٔ جماعت کی پیش کردہ دین کی یہ سیاسی تعبیر دلائل کے ذریعہ مکمل طورپر رد ہو چکی ہے۔اب جماعت کے افراد اگر اپنی غلطی کو کھلے طورپر مان لیں تو اُن کے کلام میںتضاد نہ رہے گا۔ لیکن اُن کے اندر غلطی کے اعتراف کی جرأت نہیں۔ اُن کی یہی کمزوری ہے جس نے اُنہیں مذکورہ قسم کی تضاد فکری میںمبتلا کردیا ہے۔ یعنی ایک چیز کو ماننا اوراُسی کے ساتھ اُس کی تردید کرنا۔
زندگی نو کے مذکورہ جواب میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ: ریاست کے قیام کے بغیر احکام الٰہی کے نفاذ کی تکمیل نہیں ہوسکتی (صفحہ ۷۲)۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ اگر یہ اُصول درست ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی پیغمبر کے زمانہ میں دین کا تکمیلی نفاذ نہیں ہو ا جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے۔ حتیٰ کہ خود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی نہیں۔ اس کی ایک دلیل ربا کے بارے میں خلیفۂ ثانی عمر فاروق کا وہ مشہور قول ہے جو ابن ماجہ (کتاب التجارات) اور احمد بن حنبل نے نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
عن سعید بن المسیب قال: قال عمر رضی اللہ عنہ: ان آخر ما نزل من القرآن آیۃ الربا و ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبض ولم یفسّرہا فدعوا الربا والریبۃ۔ (مسند احمد ۱؍۳۶)
ترجمہ: سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن میں سب سے آخری آیت جو اُتری وہ ربا کے بارے میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (جلد ہی) وفات ہوگئی اور آپ نے اُس کی تفسیر نہیں کی۔ پس تم لوگ ربا کو چھوڑ دو اور جس میںربا کا شبہہ ہو اُس کو بھی چھوڑ دو۔
اصل یہ ہے کہ دین کی تکمیل کا تحقق ہمیشہ حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ شرعی احکام کی فہرست کے اعتبار سے۔ قرآن میںیہ اصول بتایاگیا ہے کہ اللہ کسی کو صرف اُس کے وسع کے بقدر مکلف کرتا ہے (البقرہ ۲۸۶) ایسی حالت میں کوئی فرد یا گروہ اگر حالات کے اعتبار سے اپنے وسع (capacity) کے بقدر عمل کرتا ہے تو اُس کا دین اس کے لئے بلا شبہہ مکمل ہوگیا۔ اللہ کے یہاں وہ کامل دین پر عمل کرنے والا قرار پائے گا، نہ کہ ناقص یا نامکمل دین پر۔
سوال
قرآن میںکئی آیتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں سے کہتی ہیں کہ کافروں کو قتل کرو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہادی ہوگئے ہیں اور غیر مسلموں کو قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مثلاً قرآن (البقرہ ۱۹۱) میں یہ آیت ہے: واقتلوہم حیث ثقفتموہم واخرجوہم من حیث اخرجوکم والفتنۃ أشد من القتل ولاتقٰتلوہم عندالمسجد الحرام حتی یقٰتلوکم فیہ فان قٰتلوکم فاقتلوہم کذالک جزاء الکٰفرین(اور قتل کرو اُن کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو اُن کو جہاں سے اُنہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور فتنہ زیادہ سخت ہے قتل سے۔ اوراُن سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس میں جنگ نہ چھیڑیں۔ پس اگر وہ تم سے جنگ چھیڑیں تو اُن کو قتل کرو۔ یہی سزا ہے کافروں کی)۔ قرآن میں جب تک اس طرح کی آیتیں موجودہیں۔ مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ شانتی سے رہنا ممکن نہیں(اشوک سنگھل، نئی دہلی)
جواب
یہ آیت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ جنگ کا حکم کافر کے خلاف نہیں ہے بلکہ مقاتل (حملہ آور) کے خلاف ہے۔ جیسا کہ خوداسی آیت میں کہا گیا ہے: فان قٰتلوکم فاقتلوہم (پس اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی دفاع میں اُن سے جنگ کرو) اسی طرح اسی سورہ میں اس سے پہلے یہ آیت ہے: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا (البقرہ ۱۹۰) یعنی جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں اُن سے تم دفاع میں جنگ کرو، اللہ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے، اور تم خود جارحیت نہ کرو۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں جن چند مقامات پر کافر کا لفظ آیا ہے، اُس سے مراد پیغمبر اسلام کے معاصر منکرین ہیں۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق، کافر کوئی نسل یا قوم نہیں اور نہ یہ لفظ ابدی طورپر ہر غیر مسلم گروہ کے لیے بولا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اہل اسلام نے بعدکے زمانہ کے لوگوں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ کافر یا کفار نہ تھے بلکہ یہ وہی الفاظ تھے جو کہ قومیں خود اپنے لیے استعمال کررہی تھیں۔ مثلاً ہنود، یہود، نصاریٰ، مجوس، بودھ (بوذا) وغیرہ۔ اسلامی اصول کے مطابق، کسی قوم کو اسی لفظ سے پکارا جائے گا جو لفظ اُس نے خود اپنے لیے اختیار کیا ہو۔
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ پیغمبروں نے جب اپنے زمانہ کے غیر مومن لوگوں کو پکارا تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے کافرو، بلکہ یہ کہا کہ اے میری قوم کے لوگو۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے پچاس بار یہ الفاظ آئے ہیں: یا قومی، یا قومِ (اے میری قوم)۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک پیغمبر کو اُس کے مخالفین نے پتھر مارا اور ان کے خون بہنے لگا، اُس وقت پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: رب اہد قومی فانہم لا یعلمون۔ (اے میرے رب، میری قوم کو ہدایت دے کیوں کہ وہ لوگ نہیں جانتے۔ اسی طرح قرآن میں پیغمبروں کے ہم زمانہ غیر مومنین کو اُن کی قوم کا نام دیا گیا ہے۔ مثلاً: قوم لوط، قوم صالح، قوم ہود، قوم نوح، وغیرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کا نظریہ دو قومی نظریہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک قومی نظریہ تھا۔ یعنی جو قومیت پیغمبر کی تھی وہی قومیت پیغمبر کے مخاطبین کی تھی۔ پیغمبر اوراُس کے مخاطبین کے درمیان جو فرق تھا، وہ قومیت کا فرق نہ تھا بلکہ عقیدہ اور مذہب کا فرق تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: لکم دینکم ولی دین (۱۰۹:۶)
قرآن میں الانسان (واحد) کا لفظ ۶۵ بار آیا ہے اورالناس (جمع) ۲۴۰ بار آیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کافر کا لفظ صرف پانچ بار قرآن میں آیا ہے اور اُس کی جمع الکفار ، الکافرون اور الکافرین کے الفاظ ۵۰ بار آئے ہیں—اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس معاملہ میں قرآن کا تصور کیا ہے۔ قرآن کی نظر میں یہ زمین دارالانسان ہے، نہ کہ دارالکفار۔
سوال
تمام مساجد میں اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے۔ اذان کی آواز بعض وقت نہایت گراں محسوس ہوتی ہے۔ جب یہ گرانی افراد ملت کو ہے تو دیگر بندگان خدا کو کس قدر ہوگی۔ اس معاملہ کی وضاحت فرمائیں۔ (حکیم انور علی صدیقی، میرٹھ)
جواب
عرض یہ کہ لاؤڈاسپیکر کا تعلق فتویٰ سے نہیں ہے بلکہ ضرورت سے ہے۔ بوقت ضرورت حسب حالات لاؤڈاسپیکر کا استعمال کیاجاسکتا ہے۔ مگر جہاں لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہ ہو، نیزاُس سے کوئی غیرضروری مسئلہ پیدا ہوتا ہو تو لاؤڈاسپیکر کے استعمال سے احتراز کرنا چاہئے۔ یورپ، امریکہ میں بسنے والے مسلمان، ٹھیک اسی اصول پر عمل کررہے ہیں۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۲ ء کے صفحہ ۴۳ پر لکھے گئے خط سے متاثر ہوکر اپنے تاثرات آپ تک پہنچانے کی اس قدر ترغیب ہوئی کہ لکھے بغیر نہ رہ سکا۔
مذکورہ خط آپ نے عبد السلام اکبانی کے نام لکھا ہے۔ اس میں آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلم لیڈران کرام اور اکابرین زمانہ کے بارے میں لکھا ہے۔ میںاس سے حرف بہ حرف متفق ہوں۔ کیوں کہ ہم بد قسمت کشمیریوں پر ایسے ہی خود ساختہ لیڈروں کی ایک فوج سوار ہوگئی ہے جنہوں نے کروڑوں کی دولت بنائی ہے اور یہ لوگ ناقابل یقین عیش وعشرت کی زندگی بسر کرکے عام غریب اور بے سہارا، نادار اور سادہ لوح عوام کا استحصال کرکے اُنہیں کٹواتے مرواتے ہوئے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سامان عیش بناتے ہیں۔ یہ لوگ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کے مصداق ایک دوسرے کو بڑے بڑے آداب و القاب دے دے کر عام لوگوں کا استحصال کرکے یہاں کشمیر میں قتل و غارت گری کا دور روا رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بتائیں کہ ہم کشمیریوں کی قسمت کس طرح بدل سکتی ہے۔اس وادی گُل پوش میں کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو واقعی قوم کی رہنمائی کرے اور جس کا اندر و باہر ایک ہو اور ایک صادق القول مسلمان ہوتے ہوئے اس پریشان حال قوم کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ (ایک کشمیری مسلمان، اننت ناگ)
جواب
یہ کہنا صحیح نہیں کہ کشمیریوں پر استحصالی لیڈروں کی فوج سوار ہوگئی ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کشمیریوں نے خودسے ایسے لیڈروں کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے۔ کشمیر میں جہاد کے نام پر متشددانہ تحریک خود کشمیری عوام کی مرضی سے اکتوبر ۱۹۸۹ میں شروع ہوئی۔ اُس سے صرف ایک مہینہ پہلے میں کشمیر گیا تھا۔ اُس وقت کشمیریوں کے درمیان مسلّح جہاد کا چرچا شروع ہوچکا تھا۔ سری نگر کے ٹیگور ہال میں میری تقریر ہوئی۔ میں نے کہا کہ جہاد کے نام پر جو مسلّح تحریک آپ چلانے جارہے ہیں وہ صرف کشمیر کے مسائل میںاضافہ کرے گی۔ میںنے اپنی تقریرمیں رسول اللہ ﷺکے ایک واقعہ کی مثال دی۔
آپ کے زمانہ میں مدینہ کی مسجدنبوی میںایک دیہاتی شخص مسجد کے اندر آیا اور اس کو گندہ کردیا۔ لوگ اُس کو مارنا چاہتے تھے مگر آپ نے منع کردیا۔ آپ نے کہا کہ اُس مقام پر پانی بہادو، وہ صاف ہوجائے گا۔ اس سلوک کے بعد وہ شخص اور اُس کا پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
میںنے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مقصد پانی بہا کر حاصل کیا تھا اُس کو آپ خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ اللہ کی توفیق سے میںنے جو کچھ پیشگی طورپر کہا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا ۔اگر چہ اس وقت کشمیریوں نے میری بات پر دھیان نہیںدیا تھا۔ اب کشمیریوں کے لیے صرف ایک ہی صورت ہے۔ وہ توبہ کریں اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پُر تشدد جدوجہد کو چھوڑ کر پُر امن تعمیر کا کام کریں۔
سوال
میں آپ کے الرسالہ کا برابر مطالعہ کرتا ہوں۔ آپ کی بات ہمیشہ دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ مجھے آپ سے ایک سوال کا جواب چاہئے۔ مجھے بچے رکھنے میں زبردست دشواری محسوس ہوتی ہے۔میںنے اپنے دل میں ٹھان لیا ہے کہ میں شادی کے بعد پوری زندگی بے اولاد رہوں گا ۔ اس معاملہ میں آپ اپنے مشورہ سے آگاہ فرمائیں۔ (ڈاکٹر عمر علی، مہاراشٹر)
جواب
اولاد مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اولاد سے غیر معتدل محبت کی بنا پراپنے خرچ کو غیر ضروری طورپر بڑھالیا جائے۔ خرچ کو اپنی آمدنی کے دائرہ میں رکھا جائے تو کبھی اس قسم کا مسئلہ پیدا نہ ہوگا۔ اصل ضرورت خرچ پر کنٹرول کرنے کی ہے، نہ کہ اولاد پر کنٹرول کرنے کی۔
واپس اوپر جائیں