منفی سوچ اسلام میں نہیں
ایک قوم کے اندر دوسری قوم کے خلاف منفی جذبات اُس وقت پیدا ہوتے ہیں، جب کہ پہلی قوم اپنی کسی مصیبت کا ذمّے دار دوسری قوم کو سمجھ لے۔ مگر اسلام میں اس قسم کی منفی سوچ کی قطعاً گنجایش نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا نے قرآن میں حتمی طور پر اعلان کیا ہے کہ جو بھی مصیبت تمہارے اوپر آتی ہے وہ صرف تمہارے اپنے ہی کیے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ (الشوری30:) اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ، کوئی مصیبت پیش آنے پر صرف یہ کرنا ہے کہ ذاتی احتساب (self-introspection) کر کے اپنی جانب کی کوتاہی کو معلوم کیا جائے جو کہ اصل وجہ ہے۔ اور پھر اس کو درست کیا جائے۔ اِس کے برعکس، اپنی مصیبت کا ذمے دار کسی دوسرے کو قرار دے کر اس کے خلاف نفرت اور انتقام میں مبتلا ہونا، اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔
پیغمبرِاسلام کی حدیثوں میں بھی یہ حقیقت مختلف انداز سے بیاں ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث یہ ہے: لازلتم منصورین علیٰ أعدائکم مادمتم متمسّکین بسنّتی،فان خرجتم عن سنتی سلّط ﷲ علیکم من لایخافکم ولایرحکم، حتیّ تعودوا الیٰ سنّتی (صحیح مسلم) یعنی تم اپنے دشمنوں پر اس وقت تک غالب رہوگے جب تک میری سنت کو پکڑے رہوگے۔ اور جب تم میری سنت سے نکل جائوگے تو اﷲ تمہارے اوپر ایسے لوگوںکو مسلّط کردے گا جونہ تم سے ڈرے گا، اور نہ تم پر رحم کرے گا یہاں تک کہ تم میری سنت کی طرف لوٹ آئو۔
قرآن سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ دشمن خود مسلمانوں کی اپنی غلطی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس سے باہر، خارجی مسئلے کی حیثیت سے، دشمن کا کوئی وجود نہیں۔ قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے: وان تصبرواوتتّقوا لایضّرکم کیدھم شیئاً (آلِ عمران120:) یعنی اگر تم صبر کرو، اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کے لیے اصل مسئلہ، سازش کی موجودگی نہیں ہے بلکہ صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ اگر اہلِ ایمان کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت پائی جائے تو وہ پوری طرح دشمنوں کی سازش سے محفوظ رہیں گے۔ انھیں دوسروں کی طرف سے کوئی گزند پہنچنے والا نہیں۔
اِس اصول کی عملی مثال بھی قرآن میں واضح طور پر موجود ہے۔ ایک مثال غزوۂ اُحد کی ہے۔ پیغمبراسلام کی ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔ اِس غزوہ میں مسلمانوں کوسخت نقصان پہنچا۔ یہ غزوہ واضح طور پر پیغمبرِاسلام کے مخالفین کی زیادتی کی بنا پر پیش آیا۔ اس کا ایک کھُلاہوا ثبوت یہ ہے کہ یہ غزوہ مدینہ کی سرحد پر ہوا۔ یعنی مخالفین اپنے وطن مکّہ سے تین سو میل کا فاصلہ طے کر کے جارحانہ طور پر مدینہ آئے اور مسلمانوں کے وطن پر حملہ کیا۔ لیکن قرآن میں جب غزوۂ احد پر تبصرہ کیا گیا تو اس میں مخالفین کے ظلم اور سازش کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیابلکہ یہ کہاگیا کہ مسلمانوں کی خود اپنی داخلی کوتاہی کے نتیجے میں یہ شدید نقصان انھیں بھُگتنا پڑا۔
غزوۂ احد کے بارے میں قرآن کا یہ تبصرہ، قرآن کی سورہ نمبر3میں اِس طرح آیا ہے:حَتَّى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ (آل عمران 152: ) ۔یعنی جب تم کمزور پڑ گیے اور معاملے میں اپنے درمیان اختلاف کر لیا۔ قرآن کی اِس آیت میں واضح طور پر مسلمانوںکو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اُحد کی شکست اور نقصان کا ذمے دار وہ دوسروں کو قرار نہ دیں۔ بلکہ خود اپنے آپ کو اس کا ذمّے دار سمجھ کر اپنی اصلاح کریں۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے خدا کے ایک اور قانون کو جاننا بہت ضروری ہے۔ اس قانون کا تعلق مخصوص طور پر اہلِ کتاب سے ہے۔ اس خدائی قانون کا اطلاق، پیغمبرِاسلام کے ظہورسے پہلے، سابق اہلِ کتاب، یہود پر ہوا اور اب اس خدائی قانون کا تعلق مسلم امّت سے ہو گیا ہے جو کہ پیغمبرِآخرالزماںکے ظہور کے بعد اہلِ کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اِس خدائی قانون کے تعلق سے یہود کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 17 میں اِس طرح آیا ہے:ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتا دیا تھا کہ تم دوبارہ زمین (شام) میں خرابی کروگے اور بڑی سرکشی دکھائوگے۔پھر جب ان میں سے پہلا وعدہ آیا تو ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے۔نہایت زور والے۔ وہ گھروں میں گھُس پڑے اوروعدہ پورا ہوکر رہا۔ پھر ہم نے تمہاری باری ان پر لوٹادی اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تم کو زیادہ بڑی جماعت بنا دیا۔ اگر تم اچھا کروگے تو تم اپنے لیے اچھا کروگے اور اگر تم برا کروگے تب بھی اپنے لیے بُرا کروگے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے بندے بھیجے کہ وہ تمہارے چہرے کو بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں گھُس جائیں۔ جس طرح اس میں پہلی بار گھُسے تھے، اور جس چیز پر ان کا زور چلے اس کو برباد کردیں۔ بعید نہیں کہ تمہارا رب تمہارے اوپر رحم کرے۔ اور اگر تم پھر وہی کروگے تو ہم بھی وہی کریںگے۔ اور ہم نے جہنم کو منکرین کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے۔ (بنی اسرائیل 4-8 : )
اس آیت میں یہود کی تاریخ کے دو ایسے واقعے کا ذکر ہے جب کہ غیر یہودی حکمراں نے یہودی قوم کے اوپر چڑھائی کر کے ان کو سخت تباہی سے دو چار کیا۔ پہلا واقعہ 586 قبل مسیح میں (عراق) کے غیر یہودی حکمراں\نبو کَدنضر (Nebuchadnezar)کے ذریعے پیش آیا، اور دوسرا واقعہ70عیسوی میں رومی بادشاہ تیتس(Titus) کے ذریعے۔ مگر قرآن میں ان دونوں واقعات کو ظلم کا واقعہ نہیں بتایا گیا۔ یعنی یہ نہیں کہا گیا کے فلاں ظالم حکمراں نے مظلوم یہودیوں کے اوپر متشددانہ کارروائی کی۔ اس کے برعکس، ان واقعات کو خدا نے اپنی طرف منسوب کیا۔ یعنی یہ کہ وہ خدا کے بندے تھے جو خدا کے منصوبے کی تکمیل کے لیے فلسطین بھیجے گیے۔
قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب ہونے کی حیثیت سے مسلمانوں کا معاملہ بھی وہی ہے جو اس سے پہلے یہود کا معاملہ تھا۔ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ جب مسلمانوں میں بگاڑ آجائے تو خدا اپنے بندوں میں سے کسی بندے کے ذریعے مسلمانوں کے اوپر تنبیہی عذاب بھیجے۔ ایسے وقت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس کو ظالم کاظلم نہ سمجھیں، بلکہ خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی تنبیہی سزا سمجھیں۔ ایسے موقع پر مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ کسی کو ظالم فرض کرکے اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا سلسلہ شروع نہ کریں، ذاتی احتساب کے ذریعے اپنی اصلاح میں لگ جائیں۔
اسلام کے ظہور کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے اندر ذاتی احتساب کی یہی سوچ غالب رہی۔ پرنٹنگ پریس اور میڈیا کے دَور سے پہلے مسلمانوں کے لیے پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی چیز زیادہ تر قرآن اور حدیث ہوا کرتا تھا۔ اس لیے ان کی سوچ وہی بنتی تھی جو قرآن اور حدیث کی مذکورہ تعلیم کے مطابق ہو۔ ہر ایسے موقع پر وہ محاسبۂ خویش میں مبتلا ہو جاتے تھے نہ کہ دوسروں کو ملزم ٹھہرا کر ان کے خلاف نفرت اور انتقام کی باتیں کرنے لگیں۔ یہاں اس سلسلے میں پچھلی تاریخ کی دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں۔
تیرھویں صدی میں یہ واقعہ ہوا کہ ’ترکستان کے پہاڑی علاقے میں بسنے والے جنگ جو تاتاری قبائل مسلم سلطنت کے حدود میں داخل ہوئے۔ انھوں نے سمرقند سے لے کر حلَب تک پورے علاقے کو تباہ کر دیا۔ ہر طرف آگ اور خون کے مناظر دکھائی دینے لگے۔ بظاہر یہ دوسروں کی طرف سے جارحیت کا معاملہ تھا مگراس زمانے کے علماء نے اس معاملے میں وہ منفی انداز اختیار نہیں کیا جو موجودہ زمانے کے مسلم رہنما اس طرح کے معاملات میں عام طور پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مشہور مسلم مؤرخ عزّالدین ابن الاثیر (وفات1232:ء) تاتاری حادثے کے زمانے میں موجود تھے۔ انھوں نے خود ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر اپنی کتاب ’’الکامل فی التاریخ‘‘ میں اِس واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ ابنُ الاثیر نے اس واقعے کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:’’کون ہے جس کے لیے آسان ہوکہ اسلام اور مسلمانوں کی ہلاکت کی داستان لکھے۔ اور کون ہے جس کے لیے اس کا ذِکر آسان ہو۔ کاش میری ماں نے مجھے نہ جَنا ہوتا، اور کاش میں اس سے پہلے مرگیا ہوتا اور ختم ہو گیا ہوتا۔ اگر کوئی کہے کہ جب آدم پیدا کیے گیے، اس وقت سے لے کر اب تک ایسا حادثہ انسانیت پر نہیں آیا تو یقینا وہ سچا ہوگا۔‘‘
تاہم ابن الاثیر نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی طرح یہ نہیں کیا کہ وہ تاتاری حملہ آوروں کے خلاف نفرت اور انتقام کی بولی بولنے لگیں۔ او ران کو مجرم قرار دے کر ان کو بددعائیں دیں۔ اِس کے برعکس ابن الاثیر نے جو کیاوہ یہ تھا کہ انھوں نے خود مسلمانوں کو اس حادثے کا سبب قراردیا۔ انھوں نے لکھا کہ ایران کے مسلم حکمراں خوار زم شاہ نے تاتاری تاجروں کو قتل کروایا او ران کے مال کو لوٹ لیا۔ یہ خبر جب تاتاری سردار چنگیزخاں کو پہنچی تو اس نے قسم کھا کر اعلان کیا کہ وہ مسلم سلطنت کو تباہ کر کے رہے گا۔چناںچہ اس نے غضب ناک ہوکر سمرقند کی طرف سے مسلم سلطنت پر حملہ کر دیا، جس کی تکمیل اس کے پوتے ہلاکو خاں نے کی۔ (ابن الأثیر،الکامل فی التاریخ، جلد 12 ،صفحہ 362 )
دوسری مثال لیجیے۔نادر خاں(وفات1747:)ایران کا بادشاہ تھا۔ وہ ظلم اور سخت گیری کے لیے مشہور ہے۔ اس نے 1739میں ہندستان پر حملہ کیا، اور پیش قدمی کرتا ہوا دلّی پہنچ گیا۔ اس نے دلّی میں فتح حاصل کرنے کے بعد یہاں قتلِ عام کروایا۔ اس کا اصل مقصد یہاں سوناچاندی لوٹنا تھا۔ چناںچہ اس نے یہی کیا۔ قتلِ عام کے بعد تختِ طائوس اور کوہِ نور ہیرا اور دوسرے قیمتی اموال لے کر وہ اپنے وطن واپس چلا گیا۔
اِس سنگین واقعے پر بھی اُس وقت کے مسلم علماء کا ردِّعمل موجودہ مسلمانوںجیسا نہیں تھا۔ بلکہ انھوں نے اس کو احتساب کے خانے میں ڈال دیا۔ اس زمانے کے ایک مشہور بزرگ مرزامظہرجانِ جاناں(وفات1586:ء)نے نادر خاں کے واقعے پر اپنا یہ تبصرہ کیا کہ نادرخاں نے جو کچھ کیا وہ نادر خاں کا ظلم نہ تھا بلکہ یہ خود ہمارے اعمال تھے جنھوں نے نادر خاں کی صورت اختیار کرلی:
شامتِ اعمالِ ما، صورتِ نادر گرفت
یہ صرف موجودہ زمانے کی بات ہے کہ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے مذکورہ قسم کے واقعات پر فوراً منفی ردّعمل اختیار کر لیتے ہیں۔ آج کل مسلمانوں کے جس اخبار یا میگزین کو دیکھا جائے تو ہر ایک میں یہ ملے گا کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے واقعات کو دوسری قوموں کے ظلم کے طور پر پیش کیا جارہا ہوگا۔اس قسم کی منفی رپورٹنگ اتنی عام ہے کہ اس میں غالباًکوئی استثناء نہیں۔
میرے تجربے کے مطابق، منفی رپورٹنگ کا یہ طریقہ زیادہ تر موجودہ زمانے میں پرنٹ میڈیا کا دَور آنے کے بعد شروع ہوا۔ جدید صحافت میں خبروں کی رپورٹنگ کا ایک خاص طریقہ ہے جس کو اُلٹا اَہرام (Inverted Pyramid)کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی واقعے کے نقطۂ انتہا سے خبر کی رپورٹنگ کا آغاز کرنا۔
مثلاً نئی دہلی میں دو آدمیوں کے درمیان ایک مالی معاملے میںجھگڑا ہو، وہ بڑھ کر دشمنی بن جائے اور پھر ان میں سے ایک آدمی دوسرے کو مارڈالنے کے درپے ہو جائے۔ وہ اس کا پیچھا کرنے لگے یہاں تک کہ ایک دن وہ اس کو ایک پارک میں تنہا پا جائے اور اس کو قتل کردے۔ اِس واقعے کی خبراگلے دن اخبار میں آئے تو ایسا نہیں ہوگا کہ کہانی کو اس کی واقعاتی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جائے اور پھر آخر میں قتل کی بات لکھی جائے۔ اس کے برعکس خبر کا پہلا جملہ یہ ہوگا: نئی دہلی کے پارک میں قتل۔
واقعہ نگاری کا یہ طریقہ فطرت کے خلاف ہے۔ مثلاً قرآن جو کتابِ فطرت ہے اس میں واقعہ نگاری کی ایک مثال سورہ نمبر 12 میں ملتی ہے۔ اس سورہ میں پیغمبر یوسف کے حالات بتائے گیے ہیں۔مگر اس میںجو اسلوب ہے وہ واقعے کی تاریخی ترتیب کے مطابق ہے۔ واقعہ نگاری کے اس اسلوب میں قاری کا ذہن وہی بنتا ہے جو فطری طور پر اس کا ذہن بننا چاہیے۔ اس کے برعکس مذکورہ صحافتی ترتیب میں قاری کا ذہن غیر فطری ہو جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں واقعہ کا وہ نقشہ نہیں بنتا جو حقیقت کے اعتبار سے تاریخ کا نقشہ ہے۔
رپورٹنگ کے مذکورہ صحافتی طریقے کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہا جاسکتا ہے—کہانی کے نصف ثانی کو نمایاں طور پر بیان کرنا، اور اس کے نصف اوّل کو یا تو غیر مذکور چھوڑدینا یا اس کو ناقص صورت میں بیان کرنا۔ جدید رواج کے مطابق، مسلمانوں کی صحافت میں بھی یہی طریقہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اختیار کر لیا گیا۔ اور پھر وہ اتنا زیادہ عام ہوا کہ موجودہ پریس کے زمانے میں ہرلکھنے اور بولنے والا مسلمان اسی اصول پر لکھنے اور بولنے لگا۔ حالاں کہ یہ غیر فطری طریقہ، اسلام میں نہایت برا سمجھا گیا ہے اور اس کو تطفیف (المطففین1:)کہا گیا ہے۔
رپورٹنگ کے اِس طریقے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا مسلم میڈیا، منفی خبروں سے بھر گیا۔ یہی منفی خبریں ہیں جن کو پڑھ کر ساری دنیا کے مسلمانوں کا ذہن منفی بن گیا۔ اور یہی منفی ذہن ہے جو اپنے نقطۂ انتہاء پر پہنچ کر وہ خوف ناک تشدّد بن جاتا ہے، جس کو القاعدہ یا داعش (آئی ایس آئی ایس) یا بوکوحرام، وغیرہ جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے1967میں اسرائیل اور مصر کے درمیان جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں مصر کو زبردست شکست ہوئی اور اسرائیل نے پیش قدمی کر کے اپنے رقبے کو بہت زیادہ بڑھا لیا۔ اس واقعے پَر عربی، فارسی، انگریزی اور اُردو زبان میں جو رپورٹیں چھپیں یا اس واقعے پر مسلمانوں کی جو کتابیں شائع ہوئیں ان سب میں متفقہ طور پر ایک ہی بات کہی گئی تھی، اور وہ یہ کہ اسرائیل نے مغربی قوموںسے سازش کر کے ظالمانہ طور پر مصر کے اوپر حملہ کیا اور فلسطین میں اپنی وسیع تر حکومت قائم کرلی۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ اصل کہانی کاصرف نصف آخر ہے۔ کہانی کا نصف اول اس میں شامل نہیں۔ کہانی کے نصف آخر کو سامنے رکھیے تو بظاہر یہ معلوم ہوگا کہ یہ اسرائیل کی طرف سے ایک ظلم کا واقعہ تھا۔ لیکن اگر کہانی کے نصف اول کو شامل کر کے غور کیا جائے تو برعکس طور پر یہ معلوم ہوگا کہ 1967میں جو کچھ ہوا اس کی ذمے داری مکمل طور پر خود عربوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ خود عرب قیادت کا ایک نادان اقدام تھا جس کی قیمت اسے ذلّت اور بربادی کی شکل میں بھگتنی پڑی۔
1967میںعربوں کے ساتھ جو المیہ پیش آیا اس پر پیغمبرِاسلام کے یہ الفاظ پوری طرح صادق آتے ہیں:لا ینبغی للمسلم أن یذلّ نفسہ، قیل:و کیف یذل نفسہ، قال:یتعرّض من البلاء لمالا یطیق (مسند احمد،حدیث نمبر23444:) یعنی کسی مسلم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو ذلیل کرے- پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیسے ذلیل کرے گا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ایسی بَلا سے تعرـض کرے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ 1967کی جنگ میں عین یہی صورت پیش آئی۔
یہ قصہ نہر سوئزکی کہانی سے شروع ہوتا ہے۔ نہر سوئز کو مغربی کمپنیوں نے بنایا تھا۔ جو مکمل ہو کر نومبر 1869میں جہازرانی کے لیے کھولی گئی۔ نہر سوئزکا ٹھیکہ برطانیہ اور فرانس کی ایک مشترکہ کمپنی کو حاصل تھا۔ نہر سوئز برطانیہ اور فرانس کی مشترک کمپنی کو پٹے کے طور پر دی گئی تھی۔ یہ پٹہّ1968(lease)میں ختم ہو رہا تھا۔ اس کے بعد حسب معاہدہ، نہر سوئز پوری طرح حکومت مصر کی ملکیت میں آجاتی۔ پٹّے کے ختم ہونے سے پہلے بھی مصری حکومت اور مصری عوام کو اس کے ذریعے بہت سے مالی فائدے مل رہے تھے۔
مگر پٹّہ ختم ہونے سے پہلے مصر کے صدر جمال عبدالناصر (وفات1970:) نے تمام عربوں کی تائید سے ایک اشتعال انگیز واقعہ کیا۔ 29 اکتوبر1956کو انھوں نے اچانک یہ اعلان کردیا کہ آج ہم نے نہر سوئز کو نیشنلائز کر لیا۔ اور اب اس کی ساری آمدنی حکومتِ مصر کو حاصل ہوگی۔(12/844)
جمال عبدالناصر کے اقدام پر سارا عرب رقص کر اٹھا۔ مگر برطانیہ اور فرانس کے لیے وہ ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ چناںچہ برطانیہ اور فرانس نے خفیہ طور پر اسرائیل کی بہت بڑی مددکی۔ اور اس کے ذریعے مصر پر حملہ کرادیا۔ اس حملے میں مصر کی فوجی طاقت کچل کر رہ گئی۔ اسرائیل نے مزید اطرف کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنے رقبے کو پانچ گُنا بڑھا لیا۔
جمال عبدالناصر اگر اِس معاملے میں 12 سال انتظار کرتے تو سوئز کمپنی معاہدے کے مطابق، اپنے آپ ختم ہو جاتی۔ مگر ان کے عاجلانہ اقدام نے مصر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔اور اسرائیل کا رقبہ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ جو چیز 1968میں اپنے آپ مل جاتی اس کو 1956میں پیشگی طور پر حاصل کرنے کی کوشش مصر کے حق میں الٹی ثابت ہوئی۔
اِس طرح اس کہانی کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک حصہ وہ ہے جو نہر سوئز کو غیر حکیمانہ طور پر قبضے میں لینے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جو نہر سوئز پر غیر حکیمانہ قبضے کے بعد بطور ردّعمل پیش آیا۔ اگر اس کہانی کے صرف نصف ثانی کو دیکھا جائے تو اسرائیل ظالم اور سرکش دکھائی دے گا۔ لیکن اگر اس کہانی کے نصف اول کو ملا اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ مصر—اسرائیل جنگ کے بعد عربوں کے ساتھ جو بُری صورتِ حال پیش آئی وہ خود عربوں کی اپنی نادانی کا نتیجہ تھی۔اِس معاملے میں عربوں کا کیس عمل کا کیس ہے اور اسرائیل کا کیس ردّعمل کا کیس۔ اسرائیل کا مزید استحکام، دراصل خود عربوں کی اپنی ناعاقبت اندیشانہ پالیسی کی قیمت تھی جو انھوں نے اَدا کی۔—مگرغلط رپورٹنگ کی بنا پر ایسا ہوا کہ تمام مسلمان، اسرائیل سے نفرت میں مبتلا ہو گیے۔ حالاںکہ اصل صورتِ حال کے مطابق، انھیں خود اپنے احتساب میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔
ایک تقابلی مثال سے یہ معاملہ بخوبی طور پر سمجھ میں آسکتا ہے۔ یہ مثال وہ ہے جو ہانگ کانگ سے تعلق رکھتی ہے۔برطانی استعمار کے زمانے میں انگریزوںنے ہانگ کانگ کو پٹّے پر 99 سال کے لیے لیا تھا۔ پٹّے کی یہ مدت 1997 میں ختم ہو رہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانی ایمپائر کمزور ہوا تو چین نے ہانگ کانگ کی واپسی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ مگر چین نے اپنے آپ کو گفت وشنید کی حد تک محدود رکھا۔ اس نے کبھی اس معاملے میں یہ پروگرام نہیں بنایا کہ وہ ہانگ کانگ میں اپنی فوجیں داخل کرکے اس پر قبضہ کرلے۔اگرچہ ہانگ کانگ کا جزیرہ چین سے ملا ہوا ہے۔ برطانوی حکومت سے چین کی یہ گفت و شنید جاری رہی۔ یہاں تک کہ 1997میں جب پٹّے کی مدت پوری ہوئی تو ہانگ کانگ سے برطانیہ کا اقتدار بھی ختم ہو گیا۔ ہانگ کانگ اب چین کے باقاعدہ قبضے میں ہے۔
1967کی جنگ میں، اسرائیل نے فلسطین، اردن، شام اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ عربوں (فلسطین، اردن، شام، مصر) نے اِس جنگ میں اپنا قیمتی علاقہ کھو دیا۔ مگر ٹھیک اسی قسم کی صورتِ حال میں ہانگ کانگ میں برعکس نتیجہ سامنے آیا۔ یہاں چین نے ایک قیمتی جزیرے کو اپنے علاقے میں شامل کرلیا۔ عربوں نے اپنی ناعاقبت اندیشانہ منصوبہ بندی کی قیمت ادا کی اور چین نے اپنی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کی بنا پر قابلِ ذکر فتح حاصل کی۔
مذکورہ تفصیل بتاتی ہے کہ اسرائیل کا مسئلہ دراصل کسی کے ظلم یا سازش کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ وہ خود عربوں کی اپنی نادانیوں کا نتیجہ تھا۔ موجودہ زمانے کا متشددانہ جہاد سب سے زیادہ فلسطین کی زمین سے اُبھرا ہے۔ تمام عرب اور تمام مسلمان اس جہاد کو انصاف کی لڑائی سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ ایک غیر عاقلانہ اقدام کے نقصان کی تلافی، ایک اور غیر عاقلانہ اقدام سے کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اس قسم کا ہر اقدام فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ خدا کی اس دنیا میں ایسا اقدام کبھی کامیاب ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں