کائنات میں خدا کی گواہی
زمین پر زندگی کے پائےجانے کے لیے اتنے مختلف حالات کی موجودگی ناگزیر ہے کہ ریاضیاتی طورپر یہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ اپنے مخصوص تناسب میں محض اتفاقاً زمین کے اوپر اکٹھا ہوجائیں۔ اب اگر ایسے حالات پائے جاتے ہیںتو لازماً یہ ماننا ہوگا کہ فطرت میں کوئی ذی شعور رہنمائی موجود ہے جوان حالات کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔
زمین اپنی جسامت کے اعتبار سے کائنات میں ایک ذرہ کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی مگر اس کے باوجود ہماری تمام معلوم دنیاؤں میں اہم ترین ہے۔ کیونکہ اس کے اوپر حیرت انگیز طور پر وہ حالات مہیا ہیں جو ہمارے علم کے مطابق اس وسیع کائنات میں کہیں نہیں پائے جاتے۔
سب سے پہلے زمین کی جسامت کو لیجئے۔ اگر اس کا حجم کم یا زیادہ ہوتا تو اس پر زندگی محال ہوجاتی۔ مثلاً یہ کرۂ زمین اگر چاند اتنا چھوٹا یعنی اس کا قطر موجودہ کی نسبت سے ¼ہوتا تو اس کی کشش ثقل، زمین کی موجودہ کشش کا 1/6 رہ جاتی۔ کشش کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہوجاتا کہ وہ پانی اور ہوا کو اپنے اوپر روک نہ سکتی جیسا کہ جسامت کی اسی کمی کی وجہ سے چاند میں واقع ہوا ہے۔ چاند پر اِس وقت نہ تو پانی ہے اور نہ کوئی ہوائی کرہ۔ ہوا کا غلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بے حد سرد ہوجاتا ہے اور دن کے وقت تنور کی مانند جلنے لگتا ہے۔ اسی طرح کم جسامت کی زمین کشش کی کمی کی وجہ سے پانی کی اس کثیر مقدار کو روک نہ سکتی جو زمین پرموسمی اعتدال کو باقی رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسی بنا پر ایک سائنسداں نے اس کو عظیم توازنی پہیہ (great balance wheel) کا نام دیا ہے(Man Does not Stand Alone, p. 28 )۔اور ہوا کا موجودہ غلاف اڑ کر فضا میں گم ہوجاتا تو اس کا حال یہ ہوتا کہ اس کی سطح پر درجہ حرارت چڑھتا تو انتہائی حد تک چڑھ جاتا اور گرتا تو انتہائی حد تک گر جاتا۔ اس کے برعکس اگر زمین کا قطر، موجودہ قطر کی نسبت سے دگنا ہوتا تو اس کی کشش ثقل بھی دگنی بڑھ جاتی۔ کشش کے اس اضافہ کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا، جو اس وقت زمین کے اوپر پانچ سو میل کی بلندی تک پائی جاتی ہے، وہ کھنچ کر بہت نیچے تک سمٹ جاتی۔ اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15 تا 30 پونڈ کا اضافہ ہوجاتا جس کا ردِ عمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا۔اور اگر زمین سورج سے اتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کشش ثقل ڈیڑ سوگنا بڑھ جاتی۔ ہوا کے غلاف کی دبازت گھٹ کر پانچ سو میل کے بجائے صرف چار میل رہ جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا کا دباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جاپہنچتا۔ اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کا نشوونما ممکن نہ رہتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن ایک سو پچاس پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر ہوجاتا اور اس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی۔ کیوں کہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیر مقدار میں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے اور اس طرح کے پھیلےہوئے ریشوں کا نظام ایک خاص درجہ کی جسامت ہی میں پایا جاسکتا ہے۔
بظاہر ہم زمین کے اوپر ہیں مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم اس کے نیچے سر کے بل لٹکے ہوئے ہیں۔ زمین گویا فضا میںمعلق ایک گیند ہے جس کے چاروں طرف انسان بستے ہیں۔ کوئی شخص ہندستان کی زمین پر کھڑا ہو تو امریکا کے لوگ بالکل اس کے نیچے ہوں گے اور امریکا میں کھڑا ہو تو ہندستان اس کے نیچےہوگا۔ پھر زمین ٹھہری ہوئی نہیں ہے بلکہ ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل گھوم رہی ہے۔ ایسی حالت میں زمین کی سطح پر ہمارا انجام وہی ہونا چاہیے جیسے سائیکل کے پہیے پر کنکریاں رکھ کر پہیے کو تیزی سے گھمادیا جائے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک خاص تناسب سے زمین کی کشش اور ہوا کا دباؤ ہم کو ٹھہرائے ہوئے ہے۔ زمین کے اندر غیر معمولی قوت کشش ہے جس کی وجہ سے وہ تمام چیزوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور اوپر سے ہوا کا مسلسل دباؤ پڑتا ہے۔ اس دو طرفہ عمل نے ہم کو زمین کے گولے پر چاروں طرف لٹکا رکھا ہے۔ ہوا کے ذریعہ جو دباؤ پڑتا ہے وہ جسم کے ہر ایک مربع انچ پر تقریباً ساڑھے سات سیر تک معلوم کیا گیا ہے۔ یعنی ایک اوسط آدمی کے سارے جسم پر تقریباً280 من کا دباؤ۔ آدمی اس وزن کو محسوس نہیں کرتا۔ کیونکہ ہوا جسم کے چاروں طرف ہے۔ دباؤ ہر طرف سے پڑتا ہے اسی لیے آدمی کو محسوس نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پانی میں غوطہ لگانے کی صورت میں ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ہوا جو مختلف گیسوں کے مخصوص مرکب کا نام ہے، اس کے بے شمار دیگر فائدے ہیں جن کا بیان کسی کتاب میں ممکن نہیں۔
نیوٹن اپنے مشاہدہ اور مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ تمام اجسام ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ مگر اجسام کیوں ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔ اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔ چنانچہ اس نے کہا کہ میں اس کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کرسکتا۔
وائٹ ہیڈ (A. N. Whitehead) اس کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’نیوٹن نے یہ کہہ کر ایک عظیم فلسفیانہ حقیقت کا اظہار کیاہے۔ کیونکہ فطرت اگر بے روح فطرت ہے تو وہ ہم کو توجیہہ نہیں دے سکتی۔ ویسے ہی جیسے مردہ آدمی کوئی واقعہ نہیں بتا سکتا۔ تمام عقلی اور منطقی توجیہات آخری طورپر ایک مقصدیت کا اظہار ہیں۔ جب کہ مردہ کائنات میں کسی مقصدیت کا تصور نہیں کیاجاسکتا‘‘۔(The Age of Analysis, p. 85 )
وائٹ ہیڈ کےالفاظ کو آگے بڑھاتے ہوئے میں کہوں گا کہ کائنات اگر کسی صاحب شعور کے زیر انتظام نہیںہے تو اس کے اندر اتنی معنویت کیوں پائی جاتی ہے۔
زمین اپنے محور پر چوبیس گھنٹے میں ایک چکر پورا کرلیتی ہے۔ یا یوں کہیے کہ وہ اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے۔ فرض کرو اس کی رفتار دو سو میل فی گھنٹہ ہو جائے اور یہ بالکل ممکن ہے، ایسی صورت میں ہمارے دن اور ہماری راتیں موجودہ دن اور رات کی نسبت سے دس گنا زیادہ لمبے ہوجائیں گے۔ گرمیوں کا سخت سورج ہر دن تمام نباتات کو جلادے گا۔ اور جو بچے گا وہ لمبی رات کی ٹھنڈک میں پالے کی نذر ہوجائے گا۔ سورج جو اس وقت ہمارے لیے زندگی کا سرچشمہ ہے،اس کی سطح پر بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ کا ٹمپریچر ہے اور زمین سے اس کا فاصلہ تقریباً نوکرور تیس لاکھ میل ہے۔ اور یہ فاصلہ حیرت انگیز طورپر مسلسل قائم ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اگر یہ فاصلہ گھٹ جائے، مثلاً سورج نصف کے بقدر قریب آجائے تو زمین پر اتنی گرمی پیداہو کہ اس گرمی سے کاغذ جلنے لگے اور اگر موجودہ فاصلہ دگنا ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زندگی باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی جب موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسرا غیر معمولی ستارہ آجائے۔ مثلاً ایک بہت بڑا ستارہ ہے جس کی گرمی ہمارے سورج سے دس ہزار گنا زیادہ ہے۔ اگر وہ سورج کی جگہ ہوتا تو زمین کو آگ کی بھٹی بنا دیتا۔
زمین 23 درجہ کا زاویہ بناتی ہوئی فضا میں جھکی ہوئی ہے۔ یہ جھکاؤ ہمیں ہمارے موسم دیتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوگیاہے اور مختلف قسم کی نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہیں۔ اگر زمین اس طرح سے جھکی ہوئی نہ ہوتی تو قطبین پر ہمیشہ اندھیرا چھایا رہتا۔ سمندر کے بخارات شمال اور جنوب کی جانب سفر کرتے، اور زمین پر یا تو برف کے ڈھیر ہوتے یا صحرائی میدان۔ اس طرح کے اور بہت سے اثرات ہوتے جس کے نتیجے میں بغیر جھکی ہوئی زمین پر زندگی ناممکن ہوجاتی۔
یہ کس قدر ناقابل قیاس بات ہے کہ مادہ نے خود کو اپنے آپ اس قدر موزوں اور مناسب شکل میں منظم کرلیا۔
اگر سائنسدانوں کا قیاس صحیح ہے کہ زمین سورج سے ٹوٹ کر نکلی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء ً زمین کا درجہ حرارت وہی رہا ہوگا جو سورج کا ہے۔ یعنی بارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ۔ اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا ملنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک زمین کا درجہ حرارت گھٹ کر چار ہزار ڈگری پر نہ آجائے۔ اسی موقع پر دونوں گیسوں کے باہم ملنے سے پانی بنا۔ اس کے بعد کروروں سال تک زمین کی سطح اور اس کی فضا میں زبردست انقلابات ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ غالباً ایک بلین سال پہلے زمین اپنی موجودہ شکل میں تیار ہوئی۔ زمین کی فضا میں جو گیسیں تھیں ان کا ایک بڑا حصہ خلا میں چلا گیا، ایک حصہ نے پانی کے مرکب کی صورت اختیار کی، ایک حصہ زمین کی تمام چیزوں میں جذب ہوگیا اور ایک حصہ ہوا کی شکل میں ہماری فضا میں باقی رہ گیا جس کا بیشتر جزو آکسیجن اور نائٹروجن ہے۔ یہ ہوا اپنی کثافت کے اعتبار سے زمین کا تقریباً دس لاکھواں حصہ ہے — کیوں نہیں ایسا ہوا کہ تمام گیسیں جذب ہوجاتیں۔ یا کیوں ایسا نہیں ہوا کہ موجودہ نسبت سے ہوا کی مقدار زیادہ ہوتی۔ دونوں صورتوں میں انسان زندہ نہیں ہوسکتا تھا، یا اگر بڑھی ہوئی گیسوں کے ہزاروں پونڈ فی مربع انچ بوجھ کے نیچے زندگی پیدا بھی ہوتی تو یہ ناممکن تھا کہ وہ انسان کی شکل میں نشوونما پاسکے۔
زمین کی دوہری پرت اگر صرف دس فٹ موٹی ہوتی تو ہماری فضا میں آکسیجن کا وجود نہ ہوتا جس کے بغیر حیوانی زندگی ناممکن ہے۔ اسی طرح اگر سمندر کچھ فٹ اور گہرے ہوتے تو وہ کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن کوجذب کرلیتے اور زمین کی سطح پر کسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں۔ اگر زمین کے اوپر کی ہوائی فضا موجودہ کی نسبت سے لطیف ہوتی تو شہاب ثاقب جو ہر روز اوسطاً دوکرور کی تعداد میں اوپری فضا میں داخل ہوتے ہیں اور رات کے وقت ہم کو جلتے ہوئے دکھائی دیتےہیں وہ زمین کے ہر حصے میں گرتے۔ یہ شہابیے چھ سے چالیس میل تک فی سکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہیں۔ وہ زمین کے اوپر ہر آتش پذیر مادے کو جلا دیتے اور سطح زمین کو چھلنی کردیتے۔ شہاب ثاقب بندوق کی گولی سے نوے گنا زیادہ رفتار سے آدمی جیسی مخلوق کو محض اپنی گرمی سے ٹکڑے کردیتی۔ مگر ہوائی کرہ اپنی نہایت موزوں دبازت کی وجہ سے ہم کو اس آتشیں بوچھار سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہوائی کرہ ٹھیک اتنی کثافت رکھتا ہے کہ سورج کی کیمیاوی اہمیت رکھنے والی شعاعیں (actinic rays) اسی موزوں مقدار سے زمین پرپہنچتی ہیں جتنی نباتات کو اپنی زندگی کے لیے ضرورت ہے، جس سےمضر بیکٹیریا مرسکتے ہیں، جس سے وٹامن تیار ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
کمیت کا اس طرح عین ہماری ضرورتوں کے مطابق ہونا کس قدر عجیب ہے۔
زمین کی اوپری فضا چھ گیسوں کا مجموعہ ہے جس میں تقریباً 78 فیصدی نائٹروجن اور 21 فیصدی آکسیجن ہے۔ باقی گیسیں بہت خفیف تناسب میں پائی جاتی ہیں۔ اس فضا سے زمین کی سطح پر تقریباً پندرہ پونڈ فی مربع انچ کا دباؤ پڑتاہے جس میں آکسیجن کا حصہ تین پونڈ فی مربع انچ ہے۔ موجودہ آکسیجن کا بقیہ حصہ زمین کی تہوں میں جذب ہےاور وہ دنیا کے تمام پانی کا 8/10 حصہ بناتاہے۔ آکسیجن تمام خشکی کے جانوروں کے لیے سانس لینے کا ذریعہ ہے اور اس مقصد کے لیے اس کو فضا کے سوا کہیں اور سے حاصل نہیںکیا جاسکتا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتہائی متحرک گیسیں کس طرح آپس میں مرکب ہوئیں اور ٹھیک اس مقدار اور اس تناسب میں فضا کے اندر باقی رہ گئیں جو زندگی کے لیےضروری تھا۔ مثال کے طورپر آکسیجن اگر 21 فیصدی کے بجائے پچاس فیصدی یا اس سے مقدار میں فضا کا جزو ہوتا تو سطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت میں آگ پکڑتے ہی سارا جنگل بھک سے اڑ جاتا۔ اسی طرح اس کا تناسب گھٹ کر دس فیصدی رہتا تو ممکن ہے زندگی صدیوں کے بعد اس سے ہم آہنگی اختیار کرلیتی۔ مگر انسانی تہذیب موجودہ شکل میں ترقی نہیں کرسکتی تھی۔ اور اگر آزاد آکسیجن بھی بقیہ آکسیجن کی طرح زمین کی چیزوں میں جذب ہوگئی ہوتی تو حیوانی زندگی سرے سے ناممکن ہوجاتی۔
آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ اور کاربن گیسیں الگ الگ اور مختلف شکلوں میں مرکب ہوکر حیات کے اہم ترین عناصر ہیں۔ یہی وہ بنیادیں ہیں جن پر زندگی قائم ہے۔ اس کا ایک فی ارب بھی امکان نہیں ہے کہ وہ تمام ایک وقت میں کسی ایک سیارہ پر اس مخصوص تناسب کے ساتھ اکھٹا ہوجائیں۔ ایک عالم طبیعیات کے الفاظ میں:
Science has no explanation to offer for the facts, and to say it is accidental is to defy mathematics (p. 33 )
یعنی سائنس کے پاس ان حقائق کی توجیہہ کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔ اور اس کو اتفاق کہنا ریاضیات سے کشتی لڑنے کے ہم معنی ہے۔
ہماری دنیا میں بے شمار ایسے واقعات موجود ہیں جن کی توجیہہ اس کے بغیر نہیں ہوسکتی کہ اس کی تخلیق میںایک برتر ذہانت کا دخل تسلیم کیاجائے۔
پانی کی مختلف نہایت اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ برف کی کثافت(density)پانی سے کم ہوتی ہے۔ پانی وہ واحد معلوم مادہ ہے جو جمنے کے بعد ہلکا ہوجاتا ہے۔ یہ چیز بقا ئے حیات کے لیے زبردست اہمیت رکھتی ہے۔اس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ برف پانی کی سطح پر تیرتا رہتاہے اور دریاؤں، جھیلوں اور سمندروں کی تہہ میں بیٹھ نہیں جاتا۔ ورنہ آہستہ آہستہ سارا پانی ٹھوس اور منجمد ہوجائے۔ یہ پانی کی سطح پر ایک ایسی حاجب تہہ بن جاتا ہے کہ اس کے نیچے کا درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے اوپر ہی اوپر رہتا ہے۔ اس نادر خاصیت کی وجہ سے مچھلیاں اور دیگر آبی جانور زندہ رہتے ہیں۔ اس کے بعد جونہی موسم بہار آتا ہے برف فوراً پگھل جاتا ہے۔ اگر پانی میں یہ خاصیت نہ ہوتی تو خاص طورپر سرد ملکوں کے لوگوں کو بہت بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں جب امریکا میں انڈوتھیا (Endothia) نام کی بیماری شاہ بلوط (Chestnut) کے درختوں پر حملہ آور ہوئی اور تیزی سے پھیلی تو بہت سے لوگوں نے جنگل کی چھتری میں شگاف دیکھ کر کہا ’’یہ شگاف اب پر نہیں ہوں گے‘‘۔ امریکی شاہ بلوط کی بالادستی کو ابھی تک کسی اور قسم کے اشجار نے نہیں چھینا تھا۔ اونچے درجے کی دیر پا عمارتی لکڑی اور اس طرح کے دوسرے فوائد اس کے لیے خاص تھے۔یہاں تک کہ 1900 ء میں ایشیا سے انڈوتھیا نام کی بیماری کا ورود ہوا۔ اس وقت تک یہ جنگلات کا بادشاہ خیال کیا جاتا تھا۔ مگر اب جنگلات میں یہ درخت ناپید ہوچکا ہے۔
لیکن جنگلات کے یہ شگاف جلد ہی پر ہوگئے۔ کچھ دوسرے درخت (Tulip Trees) اپنی نشوونما کے لیے شاید انھیں شگافوں کا انتظار کررہے تھے ۔ شگاف پیدا ہونے سے پہلے تک یہ درخت جنگلات کا معمولی جزو تھے اور شاذ ہی بڑھتے اور پھولتے تھے۔ لیکن اب شاہ بلوط کی عدم موجودگی کا کسی کو احساس تک نہیں ہوتا۔ کیونکہ اب دوسری قسم کے درخت پوری طرح ان کی جگہ لےچکے ہیں۔ یہ دوسرے درخت سال بھر میں ایک انچ محیط میںاور چھ فٹ لمبائی میں بڑھتے ہیں۔ اتنی تیزی کے ساتھ بڑھنے کے علاوہ بہترین لکڑی جو بالخصوص باریک تہوں کے کام آسکتی ہے، ان سے حاصل کی جاتی ہے۔
اسی صدی کا واقعہ ہے۔ ناگ پھنی کی ایک قسم آسٹریلیا میں کھیتوں کی باڑھ قائم کرنے کے لیے بوئی گئی ہے ۔ آسٹریلیا میں اس ناگ پھنی کا کوئی دشمن کیڑا نہیں تھا۔ چنانچہ وہ بہت تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی۔ یہاں تک کہ انگلینڈ کے برابر رقبہ پر چھاگئی۔ وہ شہروں اور دیہاتوں میںآبادی کے اندر گھس گئی ، کھیتوں کو ویران کردیا۔ اور زراعت کو ناممکن بنادیا۔ کوئی تدبیر بھی اس کے خلاف کارگر ثابت نہیں ہوتی تھی۔ ناگ پھنی آسٹریلیا کے اوپر ایک ایسی فوج کی طرح مسلط تھی جس کا اس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔ بالآخر ماہرین حشرات الارض دنیا بھر میں اس کا علاج تلاش کرنے کے لیے نکلے۔ یہاں تک کہ ان کی رسائی ایک کیڑے تک ہوئی جو صرف ناگ پھنی کھا کر زندہ رہتا تھا۔ اس کے سوا اس کی کوئی خوراک نہیں تھی۔ وہ بہت تیزی سے اپنی نسل بڑھاتا تھا اور آسٹریلیا میں اس کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ اسی کیڑے نے آسٹریلیا میں ناگ پھنی کی ناقابلِ تسخیر فوج پر قابو پالیا اور اب وہاں سے اس مصیبت کا خاتمہ ہوگیا۔
قدرت کے نظام میں یہ ضبط وتوازن (checks and balances) کی عظیم تدبیریں کیا کسی شعوری منصوبے کے بغیر خود بخود وجود میں آجاتی ہیں۔
کائنات میں حیرت انگیز طورپر ریاضیاتی قطعیت پائی جاتی ہے۔ یہ جامد بے شعور مادہ جو ہمارے سامنے ہے، اس کا عمل غیر منظم اور بے ترتیب نہیں بلکہ وہ متعین قوانین کا پابند ہے۔ ’’پانی‘‘ کا لفظ خواہ دنیا کے جس خطہ میں اور جس وقت بھی بولا جائے، اس کا ایک ہی مطلب ہوگا— ایک ایسا مرکب جس میں 11 .1 فی صد ہائیڈروجن اور 88 .9 فی صد آکسیجن۔ ایک سائنسداں جب تجربہ گاہ میں داخل ہو کر پانی سے بھرے ہوئے ایک پیالے کو گرم کرتاہے تو وہ تھرمامیٹر کے بغیر یہ بتا سکتا ہے کہ پانی کا نقطۂ جوش 100 سنٹی گریڈ ہے جب تک ہوا کا دباؤ (atmospheric pressure) 760 ایم-ایم رہے۔ اگر ہوا کا دباؤ اس سے کم ہو تو اس حرارت کو لانے کے لیے کم طاقت درکار ہوگی جو پانی کے سالمات کو توڑ کر بخارات کی شکل دیتی ہے۔ اس طرح نقطۂ جوش سودرجہ سے کم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس اگر ہوا کا دباؤ 760ایم-ایم سے زیادہ ہو تو نقطۂ جوش بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہوجائے گا۔ یہ تجربہ اتنی بار آزمایا گیا ہے کہ اس کو یقینی طورپر پہلے سے بتایا جاسکتا ہے کہ پانی کا نقطۂ جوش کیا ہے۔ اگر مادہ اور توانائی کے عمل میں یہ نظم اور ضابطہ نہ ہوتا تو سائنسی تحقیقات اور ایجادات کے لیےکوئی بنیاد نہ ہوتی۔ کیونکہ پھر اس دنیامیں محض اتفاقات کی حکمرانی ہوتی اور علمائے طبیعیات کے لیے یہ بتانا ممکن نہ رہتا کہ فلاں حالت میں فلاں طریق عمل کے دہرانے سے فلاں نتیجہ پیداہوگا۔
کیمیا کے میدان میں نووارد طالب علم سب سے پہلے جس چیز کا مشاہدہ کرتا ہے وہ عناصر میں نظم اور دَوریت ہے۔ سوسال پہلے ایک روسی ماہر کیمیا منڈلیف (Mendeleev) نے جوہری قدر کے لحاظ سے مختلف کیمیائی عناصر کو ترتیب دیا تھا جس کو دَوری نقشہ (periodic chart)کہا جاتا ہے۔ اس وقت تک موجودہ تمام عناصر دریافت نہیںہوئے تھے اس لیے اس کے نقشہ میں بہت سے عناصر کے خانے خالی تھے جو عین اندازے کے مطابق بعد کو پُر ہوگئے، ان نقشوں میں سارے عناصر جوہری نمبروں کے تحت اپنے اپنے مخصوص گروپوں میں درج کیے جاتے ہیں۔ جوہری نمبر سے مراد مثبت برقیوں (protons) کی وہ تعداد ہے جو ایٹم کے مرکز میں موجود ہوتی ہے۔ یہی تعداد ایک عنصر کے ایٹم اور دوسرے عنصر کے ایٹم میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ ہائیڈروجن جو سب سے سادہ عنصر ہے، اس کے ایٹم کے مرکز میںایک پروٹون ہوتا ہے۔ ہیلیم میں دو اور لیتھیم میں تین۔ مختلف عناصر کی جدول تیار کرنا اسی لیے ممکن ہوسکا ہے کہ ان میں حیرت انگیز طورپر ایک ریاضیاتی اصول کار فرما ہے۔ نظم وترتیب کی اس سے بہتر مثال اورکیا ہو سکتی ہے کہ عنصر نمبر 101 کی شناخت محض اس کے 17 \پروٹونوں کے مطالعہ سے کرلی گئی۔ قدرت کی اس حیرت انگیز تنظیم کو ہم دوری اتفاق(periodic chance)نہیں کہتے بلکہ اس کو دوری ضابطہ (periodic law) کہتے ہیں۔ مگر نقشہ اور ضابطہ جو یقینی طور پر ناظم اور منصوبہ ساز کا تقاضا کرتے ہیں، اس کا انکار کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنس اگر خدا کو نہ مانے تو وہ خود اپنی تحقیق کے ایک لازمی نتیجے کا انکار کرے گی۔
’’ 11 اگست 1999ء میں ایک سورج گرہن واقعہ ہوگا جو کارنوال (Cornwall)میں مکمل طورپر دیکھا جاسکے گا‘‘ — یہ محض ایک قیاسی پیشین گوئی نہیں ہے بلکہ علمائے فلکیات یقین رکھتے ہیں کہ نظام شمسی کے موجودہ گردشی نظام کے تحت اس گہن کا پیش آنا یقینی ہے۔ جب ہم آسمان میں نظر ڈالتے ہیں تو ہم لاتعداد ستاروں کو ایک نظام میں منسلک دیکھ کر حیران رہ جاتےہیں۔ ان گنت صدیوں سے اس فضائے بسیط میں جو عظیم گیندیں معلق ہیں وہ ایک ہی معین راستے پر گردش کرتی چلی جارہی ہیں۔ وہ اپنے مداروںمیں اس نظم کے ساتھ آتی اور جاتی ہیں کہ ان کے جائے وقوع اور ان کے درمیان ہونے والے واقعات کا صدیوں پیشتر بالکل صحیح طورپر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پانی کے ایک حقیر قطرے سے لے کر فضائے بسیط میں پھیلے ہوئے دور دراز ستاروں تک ایک فقید المثال نظم وضبط پایا جاتا ہے۔ ان کے عمل میں اس درجہ یکسانیت ہےکہ ہم اس بنیاد پر قوانین مرتب کرتے ہیں۔
نیوٹن کا نظریہ کشش فلکیاتی کروں کی گردش کی توجیہہ کرتاہے۔ اس کے نتیجے میںجے سی ایڈمس (J. C. Adams) اور لاویرے (U. Le Verrier) کو وہ بنیاد ملی جس سے وہ دیکھے بغیر ایک ایسے سیارے کے وجود کی پیشین گوئی کرسکیں جو اس وقت تک نامعلوم تھا۔ چنانچہ ستمبر1846ء کی ایک رات کو جب برلن آبزرویٹری کی دور بین کا رخ آسمان میں ان کے بتائے ہوئے مقام کی طرف کیاگیا تو فی الواقع نظر آیا کہ ایسا ایک سیارہ نظام شمسی میں موجود ہے جس کو اب ہم نیپچون (Neptune) کے نام سے جانتے ہیں۔
کس قدر ناقابل قیاس بات ہے کہ کائنات میں یہ ریاضیاتی قطعیت خود بخود قائم ہوگئی ہے۔
واپس اوپر جائیں