توحید— انسانیت کی منزل
خدا انسانیت کی منزل ہے۔ اس دنیا میں وہی انسان کامیاب ہے جو ایک خدا کو اپنا سب کچھ بنالے۔ ہر انسان ایک نامکمل وجود ہے۔ خدا کے ساتھ وابستہ ہو کر وہ اپنے آپ کو مکمل کرتا ہے۔ خدا انسانیت کے تمام تقاضوں کی واحد تکمیل ہے۔
ہر انسان ایک روحانی تلاش میں ہے۔ ہر انسان اپنے لئے سکون واعتماد کا ایک مرکز چاہتا ہے۔ یہ مرکز صرف ایک خدا ہے۔ خدا انسان کی روحانی تلاش کا واحد جواب ہے۔ جس انسان نے خدا کو پالیا، اس نے گویا وہ سب کچھ پالیا جس کو وہ اپنے فطری تقاضے کے تحت پانا چاہتا ہے۔
موجودہ دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے انسان کو ایک دستور حیات درکار ہے جو اس کو بتائے کہ لوگوں کے درمیان اس کو کس طرح رہنا ہے اور کس طرح نہیں رہنا ہے۔جو اس کو زندگی کی گائڈ بک عطا کرے۔ انسان کی اس طلب کا ماخذ بھی خدا ہے۔ خدا ہی انسان کو وہ قابل اعتماد رہنمائی دیتا ہے جس کی مدد سے وہ روشنی اوراندھیرے میں یکساں طورپر درست سفر کرسکے۔
خدا انسان کا خالق او رمالک ہے۔ وہی اس کا حق دار ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ زندگی کیا ہے اور موت کیا ہے۔ انسانیت کا قافلہ کہاں سے شروع ہوا اور وہ کہاں جارہا ہے۔ وہ صحیح راستہ کیا ہے جس پر چل کر وہ بھٹکے بغیر منزل پر پہنچ سکے۔
ہر انسان کی سب سے پہلی اور سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ اس خدا کو پائے، وہ اپنے آپ کو خدا سے وابستہ کرے، وہ اس سے محبت کا تعلق قائم کرے ۔ وہ اپنی پوری زندگی کا رخ خدا کی طرف موڑ دے۔ خدا رخی زندگی (God-oriented life) ہی اس دنیا کی واحد درست زندگی ہے۔ جو ایسی زندگی کو اپنائے وہی کامیاب ہے اور جو ایسا نہ کرسکے وہی محروم اور ناکامیاب۔
کائنات کا نور
قرآن کی سورہ نمبر 24 میں بتایا گیا ہے: اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ(النور: 35 ) اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی اس پوری کائنات میں جہاں بھی کوئی روشنی ہے وہ خدا کی ذات سے ہے۔ خدا اگر روشنی نہ دے تو کہیں اور سے کسی کو بھی روشنی ملنے والی نہیں۔
سورج اگر نہ ہو تو زمین پرہر طرف اندھیرا چھا جائے۔ اسی طرح اگر ستارے نہ ہو ں تو ساری کائنات گہری تاریکی میں ڈوب جائے۔ خدا نے ساری کائنات میں بے شمار تعداد میں انتہائی روشن قسم کے متحرک اجسام پھیلا دئے ہیں جو کائنات کے ہر حصہ کو مسلسل طورپر روشنی کا تحفہ دے رہے ہیں۔ اگر یہ کائناتی انتظام نہ ہو تو دنیا اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تاریکی کا ایک بھیانک غار بن جائے گی۔
یہ مادی روشنی کا معاملہ ہے۔ یہی معاملہ فکری اور روحانی روشنی کا ہے۔اس دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو ضرورت ہے کہ اس کے ذہن کو وہ رہنمائی ملے جس کی روشنی میں وہ صحیح طور پر سوچے اور اس کو وہ روحانی خوراک ملے جو اس کے سینہ میں حکمت حیات کا باغ اگا دے۔ اس فکری اور روحانی روشنی کا سرچشمہ بھی صرف اور صرف خداوند ذوالجلال ہے۔ یہ روحانی روشنی بھی ایک خدا کے سوا کہیں اور سے انسان کو ملنے والی نہیں۔
علمِ توحید
توحید کا عقیدہ اسلام میں اساسی عقیدے کی حیثیت رکھتا ہے۔ توحید کے موضوع پر عربی اور دوسری زبانوں میں بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپ اِن کتابوں کو پڑھیں تو اُن میں آپ کو غرض و غایت کے اعتبار سے، اِس طرح کے الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے: علمِ توحید سب سے افضل علم ہے۔ معاذ بن جبل کی مشہور روایت میں توحید کے عقیدے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوّلیت دی تھی۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ توحید کا علم سب سے افضل علم ہے، وغیرہ۔
علمِ توحید بلاشبہہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔لیکن عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اہمیت اس بنا پر نہیں ہے کہ وہ ایک افضل علم ہے۔ علمی اعتبار سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ایک اساسی علم ہے۔ اساسی علم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر بقیہ اسلامی اعمال کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ توحید کی اساس نہیں تو بقیہ اعمال بھی نہیں۔
فکری انقلاب
توحید محض ایک روایتی عقیدے کا نام نہیں۔ توحید دراصل عظیم ترین فکری انقلاب ہے جو عظیم ترین فکری دریافت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ توحید یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے دریافت کرے۔ اللہ جو پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، اس کی دریافت جب کسی انسان کو ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک فکری بھونچال پیدا ہوجاتاہے۔ اس کے اندر معرفت کا سمندر ایک طوفان بن کر داخل ہوجاتا ہے۔ اس کی سوچ اور اس کے جذبات میں ایک کامل نوعیت کی تبدیلی آجاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ ایک نیا انسان بن جاتاہے۔ اِسی نئے انسان کا نام مؤحد انسان ہے۔
اسلامی دعوت کے کام کا آغاز یہ ہے کہ انسان کے اندر عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ایک فکری انقلاب برپا کیا جائے۔ اِس فکری انقلاب کے بعدہی ایک انسان موحد انسان بنتا ہے، اور جب اِس انقلابی فکر کے حامل بہت سے افراد پیدا ہوجائیں تو اُن کے مجموعے سے وہ معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کو اسلامی معاشرہ کہاجاتاہے۔
توحید کا مفہوم
توحید کیا ہے۔توحید کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو ایک مانا جائے۔ یہ یقین کیا جائے کہ تمام طاقتیں اور ہر قسم کے اختیارات صرف ایک خدا کو حاصل ہیں۔ وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے۔ عبادت کی قسم کا کوئی بھی فعل خدا کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ خدا ہی انسان کی مرادیں اور حاجتیں پوری کرتا ہے۔ خدا ہی کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ برتری صرف ایک خدا کا حق ہے، کسی اور کو اس دنیا میں حقیقی برتری حاصل نہیں۔ ایسا ہر عقیدہ باطل ہے جس میں ان تمام پہلوؤں میں خدا کے سوا کسی اور کو شریک کیا جائے۔
قرآن میں توحید کے عقیدہ کو ایک آیت میں اس طرح بیان کیاگیا ہے— اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے، سب کا تھامنے والا۔ اس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کےبغیر سفارش کرے۔ وہ جانتاہے جوکچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے، مگر جو وہ چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ تھکتا نہیں ان کے تھامنے سے اور وہی ہے بلند مرتبہ والا اوربڑا (البقرۃ: 255 )
خدا کی پرستش کرنا، اپنے خالق ومالک کی پرستش کرنا ہے جو واقعی طورپر انسان کی پرستش کا حق دار ہے۔ اس کے برعکس کوئی آدمی جب غیر خدا کے آگے سر جھکاتا ہے تو وہ اپنے جیسی ایک مخلوق کے آگے سرجھکا تا ہےجو اس کا حق دار نہیں کہ اس کے آگے سر جھکایا جائے۔ خدا کی پرستش انسان کو عظمت عطا کرتی ہے اور غیرخدا کی پرستش اس کو توہمات میں مبتلا کردیتی ہے۔خدا کی پرستش سے معرفت حق کے دروازے کھلتے ہیں، اس کے برعکس آدمی جب غیر خدا کی پرستش کرتا ہے تو وہ حق کی معرفت کے دروازوں کو اپنے اوپر بند کرلیتا ہے۔
توحید صرف ایک ہے ، مگر شرک کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ موحد انسان کا مرکز توجہ اور مرکز عبودیت صرف ایک خدا ہوتا ہے۔وہ ہر حال میں اور اپنی پوری زندگی میں اسی ایک خدا کواپنا سب کچھ بنائے ہوئے رہتا ہے۔ مگر مشرک انسان کا کوئی ایک مرکزی نقطہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کی بے شمارقسمیں بن جاتی ہیں — ستارہ پرستی، زمین پرستی، بت پرستی، ارباب پرستی، قبر پرستی سے لے کر نفس پرستی،دولت پرستی، اقتدار پرستی ، مفاد پرستی، اولاد پرستی، وغیرہ۔
یہ تمام چیزیں درجہ بدرجہ غیر اللہ کی پرستش میں شامل ہیں۔ اور قرآن میں ان کی کھلی مذمت کی گئی ہے۔ موحد انسان وہ ہے جو ہر قسم کی برتر حیثیت صرف ایک خدا کو دے۔ اسی سے اپنی مراد مانگے۔ اسی کے سامنے مراسم پرستش بجا لائے، اسی پر سب سے زیادہ بھروسہ کرے، اسی کو ہر اعتبار سے برتر حیثیت دے۔
پرستش کسی سے تعلق کے اظہار کا آخری درجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرستش کی تمام صورتیں صرف ایک خدا کا حق ہیں۔ پرستش کی نوعیت کی کوئی چیز کسی غیرخدا کے لیے جائز نہیں۔
خوف ومحبت کا مرکز
توحید کا مطلب ہے ایک اللہ پر اعتماد کرنا اور اپنے سارے دل اور اپنے سارے دماغ کے ساتھ اس سے وابستہ ہوجانا، اُسی کواپنے خوف ومحبت کے جذبات کا مرکز بنانا۔ انسان کے سوچنے اورمحسوس کرنے کی جو صلاحیتیں دی گئی ہیں، وہ اپنا کوئی نہ کوئی توجہاتی مرکز چاہتی ہیں۔ آدمی فطری طورپر چاہتا ہے کہ کوئی ہو جس کی طرف وہ لپکے، جس سے وہ امید رکھے، جس کے اوپر وہ بھروسہ کرے، جس کی یاد کووہ سرمایۂ حیات بنائے۔
آدمی اپنی ہستی کا ایک مرکز بنائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ خواہ یہ مرکز دولت واقتدار ہو یا قبریں اور دیوی دیوتا، یا کوئی دوسری چیز۔ یہ مرکز اگر اللہ کے سوا کوئی اور ہو تو یہ شرک ہے۔ اور اگر انسان صرف اللہ رب العالمین کو اپنی ہستی کا مرکز بنائے تو اسی کو توحید کہتے ہیں۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنی توجہات کو صرف اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے سوا کوئی چیزاس کے لئے مرکز توجہ کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔
آدمی جب خدا کو اپنا معبود بناتا ہے تو وہ ایک ہستی کواپنا معبود بناتا ہے جو حقیقی طورپر موجود ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی آدمی غیر خدا کو اپنا معبود بنائے تو اس نے ایک ایسی چیز کو اپنا معبود بنایا جس کا واقعات کی دنیا میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں،خواہ بظاہر اس نے اس مفروضہ معبود کی ایک صورت بنا کر اپنے سامنے رکھ لی ہو۔ جوآدمی خدا کو اپنا معبود بنائے اس نے طاقت کے حقیقی سرچشمہ کو پالیا۔
اس کے برعکس جو آدمی غیر خدا کو اپنا معبودبناتا ہے وہ ایک ایسے توہماتی مفروضہ سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔ خدا کا عبادت گزار ابدی سعادت سےہمکنار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس غیر خدا کے عبادت گزار کے لئے ابدی محرومی کے سوا کوئی اور چیزنہیں۔
پیغمبروں کا مشن
پچھلے زمانوں میں خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے وہ سب اسی لئے آئے کہ وہ انسان کو شرک سے ڈرائیں اور انھیں توحید کی تعلیم دیں، تاکہ انسان اس کے مطابق، اپنی زندگی کی اصلاح کرے اور دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کرسکے۔ مگر انسانیت کی لمبی تاریخ میں تقریباً ہر پیغمبر کے ساتھ ایسا ہوا کہ لوگوں کی زیادہ تعداد نے ان کی بات کو ماننے سے انکار کردیا۔ خاص طورپر سماج کے بڑے لوگ کبھی پیغمبر کو ماننے یا ان کا ساتھ دینے پرراضی نہیں ہوئے۔ اس تاریخی واقعہ کو قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے — افسوس ہے بندوں کے اوپر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا وہ اس کا مذاق ہی اڑاتے رہے (یس: 30)۔
خدا کےپیغمبروں کو نظرانداز کرنے کا یہ معاملہ اس حد تک بڑھا کہ پچھلے دور میں آنے والے پیغمبر وں کوانسانی تاریخ کے ریکارڈ سے حذف کردیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ماضی کی مدون تاریخ میں بادشاہوں کی داستانیں توپڑھتے ہیں مگر پیغمبروں کا تذکرہ مدون تاریخ میں سرے سے موجود ہی نہیں۔
اس معاملہ میں صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا واحد استثناء ہے۔ آپ کو اللہ تعالی کی خصوصی مدد حاصل ہوئی۔ چنانچہ آپ نے پہلی بار ردّ شرک اور اثبات توحید کی تحریک کو ایک ایسی زندہ تحریک بنایا جس نے اس تحریک کو فکری مرحلہ سے اٹھا کر عملی انقلاب کے مرحلہ تک پہنچا دیا اور اس کی ایک مستقل تاریخ بنادی۔
دورکاوٹ
ردّ شرک اوراثبات توحید کی یہ تحریک قدیم زمانہ میں کیوں عملی انقلاب کے درجہ تک نہ پہنچ سکی۔ اس کا سبب خاص طورپر دو تھا : ایک، بادشاہت کا نظام، دوسرے، توہماتی افکار کا غلبہ۔ یہی دو بنیادی اسباب تھے جو پیغمبروں کے مشن کے خلاف ایک مستقل رکاوٹ بنے رہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے دور میں مشرکانہ بادشاہت کا نظام قائم تھا۔ موجودہ زمانہ میں جمہوری سیاست کا اصول رائج ہے۔ سیاسی لیڈر عوامی ووٹوں کے ذریعہ اپنے لئے حکمرانی کا حق حاصل کرتے ہیں۔ قدیم زمانہ کے بادشاہ اس کے برعکس یہ کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو یہ یقین دلا کر حکومت کرتے تھے کہ ہم خدا کے نمائندے ہیں۔ ہم خدا کی اولاد ہیں۔
اسی نظریہ کے تحت قدیم زمانہ میں سورج ونشی اور چندر ونشی کا عقیدہ پیدا ہوا۔ گویا موجودہ زمانہ میں حکومت کی بنیاد سیکولر جمہوریت ہے جب کہ قدیم زمانہ میں حکومت کی بنیاد مشرکانہ عقیدہ پر ہوتی تھی۔ اسی واقعہ کی طرف قرآن میں ان الفاظ میںاشارہ کیاگیا ہے: أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰى (النازعات: 24 )۔ اس بنا پر یہ بادشاہوں کے عین سیاسی مفاد میں تھا کہ شرک کا عقیدہ دنیا میں قائم رہے۔چنانچہ ان کی خصوصی سرپرستی کے تحت عبادت گاہ سے لے کر جینے مرنے کی رسموں تک زندگی کا پورا نظام شرک کے اوپر قائم ہوگیا تھا۔
یہ مشرکانہ نظام قدیم زمانہ میںہزاروں سال تک تمام دنیا میںچھایا رہا۔ بادشاہوں کی سرپرستی کی بنا پریہ مشرکانہ نظام اتنا زیادہ طاقتور ہوگیا کہ وہ ہمیشہ پیغمبروں کے خلاف ایک مؤثر رکاوٹ بنا رہا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ قدیم زمانہ میں پیغمبروں کی تحریک صرف پیغام رسانی کے مرحلہ تک محدود رہی، وہ وسیع تر عملی انقلاب کے مرحلہ تک نہ پہنچ سکی۔
اس سلسلہ میں دوسری رکاوٹ وہ تھی جس کو توہماتی افکار کا دَور کہا جاسکتا ہے۔ قدیم زمانہ میں جب کہ جدید قسم کی سائنسی دریافتیں نہیں ہوئی تھیں، انسان فطرت کے مظاہر کی صحیح نوعیت کونہیں سمجھ پایا تھا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دنیا میں مختلف قسم کی حیران کن چیزیں ہیں۔ سورج،چاند، ستارے،پہاڑاور سمندر، زمین اور آسمان، درخت اور حیوانات وغیرہ وغیرہ۔
مظاہر کے اس تعدد کو دیکھ کر انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ ان کے خالق بھی کئی ہیں یا یہ کہ مختلف مظاہر خود مختلف خداؤں کا ظہور ہیں۔ اس طرح تعدّدِ مظاہر کی بنا پر تعدّدِ الٰہ کا نظریہ پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ سورج اور چاند کوان کے غیر معمولی پن کی بنا پر خدا یا دیوتا سمجھا جانے لگا۔ انسان کے لئے یہ ناقابل یقین ہوگیا کہ جب مخلوقات میں اتنا زیادہ تنوع اور تعدد ہے تو ان سب کا خدا ایک کیسے ہوسکتا ہے۔
اسی حقیقت کی طرف خداکے پیغمبر حضرت ابراہیم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا تھا: رَبِّ اِنَّہُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا (ابراہیم: 36 ) یعنی فطرت کے یہ نمایاں مظاہر (سورج، چاند وغیرہ) نے انسان کو دھوکہ میں ڈال دیا۔ لوگ انھیں مظاہر کو عظیم سمجھنے لگے۔ حالانکہ انھیں چاہیے تھا کہ وہ ان تمام چیزوں کوعظیم خدا کی مخلوق سمجھیں۔ مگر اس کے برعکس انھوںنے خود مخلوقات ہی کو خدا سمجھ کر ان کو پوجنا شروع کردیا۔
موجودہ زمانہ میں مذکورہ دونوں افسانوں کا خاتمہ ہوگیا۔ ایک طرف جمہوری افکار کے ذریعہ ساری دنیا میں جو طاقتور سیاسی انقلاب آیا اس نے قدیم طرزکی مشرکانہ بادشاہت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کردیا۔
اب آج کی دنیا میں قدیم طرز کے بادشاہوں کا کہیںوجود نہیں۔ وہ جدید جمہوریت کے سیلاب میں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ اس جدید سیاسی انقلاب کے بعد مشرکانہ عقیدہ یا مشرکانہ نظام اس موثر سرپرستی سےمحروم ہوگیا جو ردّ شرک اوراثباتِ توحید کی دعوت میںطاقتور رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اب یہ امکان پوری طرح کھل گیا ہے کہ پیغمبرانہ دعوت کو بھر پور طورپر جاری کیا جائے اوراس کواس طرح چلایا جائے کہ اول سے آخر تک کسی بھی مرحلہ میں اس کوکسی مزاحمت کا خطرہ نہ ہو۔
توحید کا آغاز
توحید کاآغاز معرفت (realization) سے ہوتا ہے۔ یعنی خدا کو خالق و مالک کی حیثیت سے دریافت کرنا ۔ کسی انسان کو جب خدا کی یہ معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کو قرآن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے۔ اس سلسلہ میںایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اِس سبب سے کہ ان کو حق کی معرفت حاصل ہوئی۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اُس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔ پس اللہ ان کو اِس قول کے بدلہ میں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کا (المائدة : 83-85 ) ۔
خدا کی معرفت آدمی کے اندر کس قسم کی شخصیت پیدا کرتی ہے، اس کو قرآن میں مختلف انداز سے بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذِکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں (الانفال: 2)
توحید کا خطاب
توحید کے عقیدہ کا خطاب اصلاً انسان سے ہے نہ کہ کسی نظام سے۔ یہ عقیدہ ایک فرد کے اندر جگہ پکڑتا ہے۔ وہ فرد کو یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا اس کا خالق اور مالک ہے۔ وہ فرد کو خدا کی عظمت کے احساس میں سرشار کردیتا ہے۔ وہ انسان کی پوری شخصیت کو خدا کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ وہ انسان کے فکر اور احساس کا کامل رہنما بن جاتا ہے۔
ایسا انسان خدا کو یاد کرنے والا بن جاتا ہے۔ وہ خدا کی پکڑ سے بچنا چاہتا ہے اور خدا کے انعام کا حریص بن جاتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کی داخلی شخصیت میں اِس طرح بھونچال بن کر داخل ہوتا ہے کہ وہ اس کی پوری زندگی کو ہِلا دیتا ہے۔ وہ خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔ اس کا جینا اور مرنا خدا کے لیے بن جاتا ہے۔ اس کی پوری زندگی خدا رخی زندگی (God-oriented life) بن جاتی ہے۔
توحید اور شرک
قرآن کی سورہ نمبر2کی ایک آیت یہ ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ۭ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ۭ وَلَوْ یَرَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ (البقرۃ: 165 ) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوںگے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا نِدّ ٹھہرایا جائے۔ نِدّ کے معنی مِثل (equal) کے ہیں۔ اللہ کے سوا، کسی اور کو اُس کا نِدّ ٹھہرانا شرک ہے، خواہ وہ کلی معنی میں ہو یا جزئی معنی میں۔
اللہ کا نِدّ ٹھہرانا کن پہلوؤں سے ہوتا ہے، مذکورہ آیت میںاِس کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں— محبت، اور قوت۔ قرآن کی ایک اور آیت کے مطابق، اِس کا تیسرا پہلو خشیت (التوبۃ:18 ) ہے۔ بنیادی طورپر یہی تین چیزیں ہیں جو شرک کی پہچان ہیں۔ مذکورہ تینوں معاملے میں جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کیا، اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ حتی کہ اگر کسی شخص نے خود اپنے آپ کو اِس قسم کا درجہ دیا تو اس کا کیس بھی شرک کا کیس بن جائے گا (الجاثیۃ: 23 )۔
اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے — توحید کا مطلب ہے ہر اعتبار سے، صرف ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور شرک کا مطلب ہے— جزئی یا کلی طورپر کسی غیر اللہ کو اِس کنسرن میں شریک کرنا۔
جب کوئی شخص اللہ کو اِس حیثیت سے دریافت کرے کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو عدم سے وجود بخشا، جس نے اس کو اعلیٰ درجے کی شخصیت عطا فرمائی، جس نے اس کو زمین جیسے نادر سیارے پر آباد کیا، جس نے اُس کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام کیا، وغیرہ۔ اِس طرح کا احساس آدمی کے اندر اللہ کے ساتھ بے پناہ تعلق پیدا کرتا ہے، وہ اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی اللہ کے ساتھ شدید محبت کی بنیاد ہے۔
پھر جب وہ اللہ کی اِس حیثیت کو دریافت کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کا یک طرفہ عطیہ ہیں، کسی بھی وقت اللہ اس کو چھین سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہر عطیہ کے ساتھ جواب دہی (accountability) جڑی ہوئی ہے۔ یہ احساس اس کو مزید اِس اندیشے میں مبتلا کردیتا ہے کہ اگر میںنے ان عطیاتِ الٰہی کا حق ادا نہ کیا تو اللہ کے یہاں میری سخت پکڑ ہوگی۔ یہ احساسات آدمی کے اندر وہ کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس کو قرآن میں خوفِ شدید (التوبۃ:18 ) کہا گیا ہے۔
اِسی کے ساتھ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ اِس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک اللہ کو حاصل ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو جزئی درجے میں بھی کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ ہی دینے والا اور اللہ ہی محروم کرنے والا ہے۔ یہ احساس اُس کو اپنے عجز ِ کامل کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اِس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں پاتا کہ وہ اللہ کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردے۔
اہلِ توحید اور اہلِ شرک
آدمی جب خدائے واحد پر سچا یقین کرتا ہے تو نفسیاتی سطح پر خدا سے اس کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد روحانی تاروں پر اس کی پوری ہستی جگمگا اٹھتی ہے۔ وہ اپنی یادوں میں خدا کوپانے لگتا ہے۔ وہ اپنے آنسوؤں میں خدا کی جھلک دیکھنے لگتا ہے۔ اس کی سوچ اورجذبات میںخدا اس طرح بس جاتا ہے جیسے کہ وہ خدا کے پڑوس میں پہنچ گیا ہو، جیسے کہ وہ خدا کے رحمت بھرے سایہ میں زندگی گزارنے لگا ہو۔
قرآن میں شرک کے بارہ میں بتایا گیا ہے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے (لقمان: 13 )۔ ظلم کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر جگہ پر رکھ دینا (وضع الشیٔ فی غیرموضعہ)۔ یعنی شرک (خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا) اس کائنات میں سراسر اجنبی ہے۔ اس دنیا میں شرک کا عقیدہ رکھنے یا مشرکانہ فعل کرنے کے لئے کائنات میں کوئی جگہ نہیں۔
اس دنیا کا خالق ایک ہی خدا ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو سنبھالنے والا ہے۔ اسی کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں۔ ایسی حالت میں جو شخص خدا کے سوا کسی اور کو خدا مانے یا کسی اور کو خدا کی خدائی میں شریک کرے اس نے ایک خود ساختہ مفروضہ کو واقعی حقیقت کا درجہ دے دیا۔ اس نے ایک ایسی چیز کو موجود فرض کیا جس کا اس دنیا میں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
مشرکانہ طرز فکر تمام برائیوں میں سب سے بڑی برائی ہے۔ جس آدمی کا ذہن مشرکانہ طرز پر سوچے، جس آدمی کے دل میں مشرکانہ خیالات پرورش پائیں، وہ ایک بے حقیقت چیز کو اختیار کرتا ہے۔ کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی تردید کرتی ہے۔
شرک کا عقیدہ یا نظریہ آدمی کو فکری غذا دینے والا نہیں۔ وہ اس کو اس روحانی روشنی سے منور کرنے والا نہیں جس کے بغیر آدمی کا پورا وجود ہی اس دنیا میں بے معنی ہو جاتا ہے۔
توحید کی حقیقت کو کسی ایک لفظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ بندے کے ایک ایسے تعلق کا نام ہے جو محبت اور خوف اور توکل کے جذبات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کوئی بندہ اس وقت اللہ کا موحد بنتا ہے جب کہ وہ اللہ کو اس طرح پائے کہ وہی اس کا محبوب بن جائے۔ اسی پر وہ سب سے زیادہ بھروسہ کرنے لگے۔ اس کو سب سے زیادہ جس بات کا اندیشہ ہو وہ یہ کہ کہیں اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو اس کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردے۔ ان تمام انسانی جذبات کے لئے صرف اللہ کوخاص کرلینے کا نام توحید ہے۔ اس سلسلہ میں یہاں قرآن سے چند آیتیںنقل کی جاتی ہیں:
’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوںگے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے‘‘۔(البقرۃ: 165 )
اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۭ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (التغابن: 13 ) یعنی اﷲ ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، اور ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔
اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَــیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا ۭ وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ (الانبیاء: 90) یعنی وہ لوگ دوڑتے تھے بھلائیوں پراورپکارتے تھے ہم کو امید سے اور ڈر سے اور وہ ہمارے آگے عاجزی کرنے والے تھے۔
ان آیات کے مطابق توحید، اعتقادی طورپر یہ ہے کہ آدمی سب سے زیادہ اپنے رب سے محبت کرنے لگے۔ اس کے لئے سب سے زیادہ بھروسہ کی چیز اس کا خدا بن جائے۔ اس کی امیدیں اور اس کے اندیشے اللہ کے ساتھ اس طرح وابستہ ہوجائیں کہ وہ اپنے روز وشب کے لمحات میں اس کو بے تابانہ پکارنے لگے۔
اِسی دریافت کا نام معرفت (realization) ہے۔ اِس دریافت سے جس کے اندر وہ شخصیت بنے جب کہ ایک اللہ ہی اس کے لیے سب کچھ بن جائے، وہ اُسی کی یاد میں جئے اور یہی سوچ اس کی غالب سوچ بن جائے، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں مو حّد ہے۔ اِس کے برعکس، اللہ جس کا واحد کنسرن نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ وہ دوسری چیزوں کو بھی اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہو، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں شرک میں مبتلاہے۔ موحد کی شخصیت انٹگریٹیڈ پرسنالٹی (integrated personality) ہوتی ہے، اور مشرک کی شخصیت اسپلٹ پرسنالٹی(split personality) ۔
شریعت کے مطابق، اللہ انسان کی اصل غایت ہے، اور دوسری چیزیں صرف اس کی ضرورت۔ توحید اور شرک دونوں کا تعلق حقیقت سے ہے، نہ کہ صرف مظاہر سے۔
توحید اور شرک کا فرق
قرآن کے مطابق، شرک کا عقیدہ تمام انسانی برائیوں کی جڑ ہے۔ اس کے مقابلہ میں توحید کا عقیدہ تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ قرآن میں واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا گیا ہے— بے شک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ لیکن اس کے علاوہ جو کچھ ہے اس کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا۔ اور جس نے کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اس نے بڑا طوفان باندھا۔ (النساء: 48 )
توحید کا مطلب خالق کو پالینا ہے اور شرک کا مطلب یہ ہے کہ آدمی مخلوقات میںاٹک کررہ جائے۔ توحید حقیقت کی سطح پر جینے کا نام ہے اور شرک کا مطلب توہمات کی سطح پرجینا۔ توحید اپنی فطرت کی دریافت کا نتیجہ ہے اور شرک اپنی فطرت سے بے خبری کا نتیجہ۔ اہل توحید ہی اس دنیا کے مطلوب انسان کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ یہی لوگ ہیںجو خالق کی منشا کے مطابق ہیں۔
دنیا کے بنانے والے نے اس کو جس منصوبے کے تحت بنایا ہے، اہل توحید اس منصوبۂ الہی کی تکمیل کررہے ہیں۔ وہ اس نقشہ پر ہیں جس نقشہ پر انسان کو ہونا چاہئے۔ اہل توحید خدا کے مطلوب انسان ہیں۔ وہ دنیا میں دنیا کے مالک کی مرضی کو پورا کررہے ہیں۔
شرک اور اہلِ شرک کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ شرک خدا کی دنیا میں ایک اجنبی تصور ہے۔ اہلِ توحید اگر اس دنیا میں مطلوب لوگ (wanted people) ہیں تو اہلِ شرک اس کے برعکس غیر مطلوب لوگ (unwanted people) ۔ شرک کے عقیدہ کواس دنیا میں اس کے مالک کی سند حاصل نہیں۔ شرک کی روش اس دنیا میں ایک ایسی روش ہے جس کی اجازت دنیا کے مالک نے دنیا میں بسنے والوں کو نہیں دی۔
گول خانہ میں کوئی چوکور چیزرکھی جائے تو وہ اس کے اندر فٹ نہیں بیٹھے گی۔ جب کہ گول خانہ میں گول چیز بالکل فٹ بیٹھ جاتی ہے۔ یہی معاملہ توحید اور شرک کا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے صرف توحید کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے توحید کا تصور یاموحدانہ زندگی اس کی فطرت کے عین مطابق ہے جب کہ شرک کا عقیدہ یا مشرکانہ زندگی انسانی فطرت کے مطابق نہیں۔
مشرک انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ غیر خدائی چیزیں اس کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لئے پیش آنے والے مختلف حالات میں اس کا رویہ بھی انھیں غیر خدائی ہستیوں کی نسبت سے متعین ہوتا ہے۔ وہ اپنی کامیابی میں بھی انھیں کی طرف دوڑتا ہے اور ناکامی میں بھی وہ انھیں کی پناہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔
اس کی مفروضہ غیر خدائی ہستیاں ہی ہر صورت حال میں اس کے دل ودماغ پر چھائی رہتی ہیں۔ موحد انسان اگر اپنے تجربات سے توحید کی غذا پاتا رہتا ہے تو مشرک انسان کے لئے اس کے تجربات مشرکانہ غذا کے حصول کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
شرک کی بے ثباتی
شرک کیا ہے۔شرک یہ ہے کہ انسان اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی انسان ، اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بناتا ہے، تو وہ اپنے لیے نہایت بُرے بدل کا انتخاب کرتا ہے: بِئْسَ لِلظَّالِمِیْنَ بَدَلاً (الکہف: 50) یعنی یہ کتنا زیادہ بُرا بدل ہے ظالموں کے لئے:
How bad a substitute they have chosen ! ( 18:50 )
یہ آیت گویا کہ پوری تاریخ پر ایک تبصرہ ہے۔ انسان نے بار بار ایسا کیا ہے کہ اُس نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنے لیے معبود کا درجہ دیا۔ لیکن ہر بار یہ ثابت ہوا کہ انسان کا انتخاب (choice) نہایت برا انتخاب تھا۔ ایک اللہ کے سوا، کسی کا بھی یہ درجہ نہیں کہ اس کو اپنا معبود بنایا جائے۔
قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک انسان، نیچر کو معبود کا درجہ دیتا رہا۔ چناں چہ دنیا میں عمومی طورپر وہ نظامِ پرستش رائج ہوا جس کو فطرت پرستی (nature worship) کہاجاتا ہے۔
سورج، چاند، پہاڑ، دریا، سمندر اور دوسری چیزوں کے بارے میں انسان نے یہ فرض کرلیا کہ اُن کے اندر اُلوہیت (divinity) موجود ہے۔ اِس مفروضہ کی بنا پر، نیچر کی ہر چیز انسان کے لیے قابلِ پرستش بن گئی ۔
دورِ سائنس
جدید سائنس کے زمانے میں نیچر کی ہر چیز کو تحقیق کا موضوع بنایاگیا، ہر چیز کا آزادانہ مطالعہ کیا جانے لگا۔ اِس تحقیق سے معلوم ہوا کہ نیچر صرف نیچر ہے، اُس میں کسی بھی قسم کی الوہیت (divinity) موجود نہیں۔ اِس دریافت کے بعد فطرت پرستی (nature worship) کا افسانہ ختم ہوگیا۔ نیچر نے معبود ہونے کی حیثیت کو کھودیا۔
اِس کے بعد موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب (industrial civilization) کا دور شروع ہوا۔ اِس جدید تہذیب سے انسان کو بہت سی ایسی چیزیں ملیں، جو اُس کو پہلے نہیں ملی تھیں۔ جدید تہذیب کی اِس کامیابی نے بہت سے لوگوں کو فریب میں مبتلا کردیا۔وہ یہ سمجھنے لگے کہ جدید صنعتی تہذیب، اُن کے لیے معبود کا بدل (substitute)ہے۔ جدید تہذیب سے لوگوں کو وہی تعلق قائم ہوگیا جو معبودِ حقیقی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ انسانی صنعت کا ایک بہت بڑا منفی پہلو ہے، وہ یہ کہ انسانی صنعت صرف تہذیب کو وجود میں نہیں لاتی، بلکہ وہ اِسی کے ساتھ صنعتی کثافت (industrial pollution) بھی پید ا کرتی ہے۔
اکیسویں صدی عیسوی میں یہ صنعتی کثافت اپنی اُس حد کو پہنچ گئی جس کو گلوبل وارمنگ کہاجاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ جدید صنعت ہمارے لیے جو دنیا بنا رہی ہے، وہ ایک پُر کثافت دنیا ہے، یعنی ایک ایسی دنیا جہاں انسان جیسی کسی مخلوق کے لیے رہنا ہی ممکن نہیں۔
انسان یہ سمجھتا تھا کہ صنعتی تہذیب اُس کے لیے اِسی دنیا کو جنت بنادے گی، مگر معلوم ہوا کہ صنعتی تہذیب جو دنیا بنارہی ہے، وہ اپنی آخری حد پر پہنچ کر انسان کے لیے ایک صنعتی جہنم (industrial hell) کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِس طرح، صنعتی تہذیب کا مفروضہ معبود بھی ایک باطل معبود ثابت ہوا۔
اب انسان نے ایک اور معبودتلاش کیا۔ یہ معبود انسان کی خود اپنی ذات، یا سیلف(self) ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا کہ خود انسان کے اندر وہ سب کچھ موجود ہے جس کو وہ اپنے باہر تلاش کررہا ہے۔ اِس ذہن کے تحت، یہ فرض کرلیا گیا کہ انسانی وجود کا صرف ایک منفی پہلو ہے، اور وہ موت ہے۔ لوگوں کو یہ یقین ہوگیا کہ جدید میڈیکل سائنس یہ مسئلہ حل کردے گی اور انسان ابدی طور پراِس دنیا میں جینے کے قابل ہوجائے گا۔
مگر میڈیکل سائنس بے شمار تحقیقات کے باوجود اِس معاملے میںناکام ہوگئی، جدید میڈیکل سائنس، انسان کو ابدی زندگی (longevity) کا فارمولا نہ بتا سکی۔ چناں چہ یہ نظریۂ معبودیت بھی بے بنیادثابت ہوکر ختم ہوگیا۔
اب انسانی علم اُس مقام پر پہنچا ہے، جہاں اس کے لیے صرف ایک انتخاب (choice) باقی رہ گیاہے، اوروہ یہ کہ وہ حقیقت پسند بنے اور اللہ واحد کو اپنا معبود تسلیم کرکے اس کے آگے جھک جائے۔ اِسی حقیقت پسندانہ اعتراف میں انسان کی دنیوی کامیابی کا راز بھی ہے اور اِسی میں اس کی اُخروی کامیابی کا راز بھی۔
قدیم شرک، جدید شرک
موجودہ دنیا میں انسان کے لیے زندگی کے دوراستے ہیں— سیدھا راستہ اور بھٹکاؤ کا راستہ (النّحل: 9)۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ آدمی خالق کو اپنی زندگی میں مرکزی مقام دے، وہ خالق کو اپنا سب کچھ بنالے۔ بھٹکاؤ کا راستہ یہ ہے کہ آدمی مخلوق میں گُم ہو جائے، وہ مخلوق کی نسبت سے اپنی زندگی کا پورا نقشہ بنائے۔ پہلے طریقے کا نام توحید ہے،اور دوسرے طریقے کا نام شرک ہے۔ہماری کائنات میں صرف دو چیزیں ہیں— خالق اور مخلوق ۔ خالق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام توحید ہے، اور مخلوق کو اپنا کنسرن بنانے کا مذہبی نام شرک۔
جیسا کہ معلوم ہے، انسانیت کے آغاز ہی سے ہر زمانے میں خدا کے پیغمبر آتے رہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی رہ نمائی دیتے رہے۔ ہر پیغمبر کا مشن ایک ہی تھا— انسان کو توحید کی طرف بلانا، اور اس کو شرک سے بچنے کی تلقین کرنا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس طرح ہر زمانے میں توحیدایک تھی، اسی طرح شرک بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔
قدیم شرک یا شرک کا قدیم ورژن (ancient version of shirk) نیچر پرستی (nature worship) پر قائم تھا۔ نیچر کی حیثیت مخلوق کی ہے۔ قدیم زمانے کے انسان نے نیچر کو معبود کا درجہ دے دیا۔ وہ نیچر پرستی کی بُرائی میںمبتلا ہوگیا، یعنی خالق کی پرستش کے بجائے مخلوق کی پرستش کرنا۔ اِسی کو مظاہرِ فطرت کی پرستش کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں بھی یہ شرک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے کہ وہ خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا سب کچھ (supreme concern) بنائے ہوئے ہے۔ قدیم شرک اور جدید شرک کے درمیان جو فرق ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے، نہ کہ حقیقت کے اعتبار سے۔
قدیم انسان نے نیچر کو پرستش کا موضوع (object of worship) بنایا تھا۔ جدید انسان نے نیچر کو تفریح کا موضوع (object of entertainment) بنا لیا ہے۔ جذباتِ عُبودیت کا مرکز پہلے بھی مخلوقات تھیں، اور اب بھی جذباتِ عبودیت کا مرکز مخلوقات ہیں۔
موجودہ زمانے کے انسان کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے آج (now) میں خوش رہو، کل کی فکر چھوڑ دو۔ یہ ’’آج‘‘ کیا ہے۔ یہ وہی سامانِ حیات ہے جو ہم کو نیچر کی صورت میں ملا ہے۔ یہ سامانِ حیات خدا کی دی ہوئی نعمتیں ہیں۔ تفریح کے سامانوں میں سے کوئی بھی سامان انسان نے خود نہیں بنایا، وہ اس کو خالق کی طرف سے ملا ہے۔ یہ خالق ہے جو ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ آج کے انسان نے یہ کیا کہ اُس نے نعمت (blessing) کو لیا، اور منعم (giver) کو چھوڑ دیا۔ یعنی خالق رُخی نظریے کو ترک کرکے، مخلوق رخی نظریے کو اختیار کرلیا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ اُس کو جب کوئی چیز ملے تو وہ دینے والے کا اعتراف کرے۔ احساسِ تشکُّر (gratitude) انسان کی فطرت کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان نے دوبارہ یہ کیا کہ اُس نے اپنے احساسِ تشکر کو خالق کے بجائے مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ جو قلبی اعتراف اس کو مُنعم کے لیے پیش کرنا چاہیے تھا، اُس کو وہ منعم کی پیدا کردہ مخلوق کے لیے پیش کرنے لگا۔
آج کل کے لوگوں کی باتیں سنیے، یا ان کی تحریریں پڑھیے تو بار بار اِس قسم کے نمونے سامنے آتے ہیں۔ہر آدمی اپنے روزانہ کے تجربات میں اِس کے نمونے دیکھ سکتا ہے۔ یہاں مثال کے طورپر میںایک حوالہ نقل کروں گا۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا ( 27 جنوری 2008 ) میں اِس موضوع پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کے لکھنے والے کا نام ڈونا (Donna Devane) ہے۔ اِس مضمون کاعنوان یہ ہے:
Be happy here and now.
آج کے زمانے میں انسان ایک عام مسئلے سے دوچار ہے۔ یہ مسئلہ ٹنشن یا اسٹریس (stress) ہے۔ یہ ٹنشن کیوںہے، اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کو اُس کی مطلوب خوراک نہیںدے رہا ہے۔ وہ خالق کی پیدا کی ہوئی چیزوں سے بھر پور انتفاع کررہا ہے، لیکن وہ خالق کا اعتراف نہیںکرتا۔ یہ بے اعترافی، یا عدم تشکر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس لیے وہ انسان کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر ٹنشن یا اسٹریس کا سبب بنا ہوا ہے۔
موجودہ انسان نے اِس کا یہ غیر فطری حل دریافت کیا ہے کہ دینے والے کے بجائے، خود دی ہوئی چیزوں پر تشکر کا اظہار کرنا۔ مذکورہ مضمون اِسی جدید ذہن کی نمائندگی کررہا ہے۔ چناں چہ اس میں کہاگیا ہے کہ — تم ملی ہوئی چیزوں پر خوب تشکر کا اظہار کرو اور تم ٹنشن سے بچ جاؤ گے۔ اِس سلسلے میں مضمون نگار کے الفاظ یہ ہیں:
Gratitude fills my soul as I enjoy my computer, more about my home, enjoy the feeling of a hug from my daughter. There is so much to be grateful for each moment of each day. I find that where gratitude goes, joy flows, spend a few moments throughout the day with thought shifter statements. A few of the thought shifter statements that I use are: I am so happy and joyful to believe. I am so happy and grateful for this wonderful mind, and body that allow me to enjoy touch, taste, sound, and movement. I am so happy and grateful for my family, and friends, and the love we share. I am so happy and grateful for my home and utilities. I am so happy and grateful for my computer, my internet, my ability to type and share with friends all over the world.
انسان کے اندر جس طرح بھوک اور پیاس کا طاقت ور جذبہ موجود ہے، اُسی طرح یہ جذبہ بھی انسان کے اندر نہایت طاقت ور شکل میںموجود ہے کہ وہ اپنے محسن کے احسان کا اعتراف کرے۔ اپنی فطرت کے اعتبار سے انسان اِس کا تحمل نہیںکرسکتا کہ اُس کو کسی سے کوئی بڑی چیز ملے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ آدمی کا فطری مزاج یہ ہے کہ جب اُس کو کسی سے کوئی بڑا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی پوری شخصیت چاہتی ہے کہ چیخ کر وہ اس کا اعتراف کرے۔ یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جس سے کوئی بھی عورت یا مرد خالی نہیں۔
انسان کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب خداکا عطیہ ہے۔ خواہ اس کا اپنا وجود ہو یا اس کے باہر کا۔ وہ پورا نظام جس کو لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے، سب کا سب اس کو خدا کی طرف سے یک طرفہ عطیہ کے طور پر ملا ہے۔ ایسی حالت میں انسان کی فطرت چاہتی ہے کہ وہ اِن تمام عطیات (blessings) کے لیے ان کے مُعطی (giver) کا بھر پوراعتراف کرے۔
اِن عطیات میںسے ایک قسم اُن عطیات کی ہے جو براہِ راست طورپر خدا کی طرف سے انسان کو مل رہے ہیں۔ مثلاً ہوا اور پانی اور روشنی ، وغیرہ۔ اور دوسری چیزیں وہ ہیں جو بالواسطہ طورپر خدا کا عطیہ ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو انسان نے عالمِ فطرت میں دریافت کرکے خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعے اُن کو مختلف قسم کی مصنوعات میںتبدیل کیا ہے۔ مثلاً تمام قسم کے کنزیومر گُڈس (consumer goods) ۔
یہ تمام عطیات تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے سارے دل اور سارے دماغ کے ساتھ اُن کا اعتراف کرے۔ لیکن خود ساختہ فلسفوں کے تحت ،انسان نے یہ کیا کہ اُس نے عطیات کو لیا، اور اُن کے معطی (giver) کو حذف کردیا۔ یہ ایک بھیانک غلطی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسان کی فطرت ایڈریس ہونے سے رہ گئی:
The human nature was left unaddressed.
یہ کسی انسان کے لیے ایک داخلی تضاد کا معاملہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام عورت اور مرد اِسی داخلی تضاد میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا وہ مسئلہ جس کو ٹنشن اور اسٹریس کہا جاتا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی داخلی تضاد کا نتیجہ ہے۔
اِس حقیقت کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرّعد: 28 ) یعنی اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتاہے:
Peace of mind can be achieved only through the remembrance of God ( 13: 28 )
شرک خفی
’’اور جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کےدل کڑھنے لگتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر ہوتا ہے تویکایک خوش ہوجاتے ہیں‘‘ (الزمر: 45 )
مفسر آلوسی نے اس آیت کی تفسیر میںاپنا ایک ذاتی واقعہ بیان کیا ہے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی کسی مصیبت میں ایک مرے ہوئے بزرگ کو پکار رہا ہے۔ انھوں نے کہا، اے شخص! خدا کو پکار۔ وہ خود فرماتا ہے : وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: 186 ) ان کی یہ بات سن کر آدمی سخت غصہ میں آگیا۔ بعد کو لوگوں نے انھیں بتایا کہ وہ کہتا ہے کہ ’’آلوسی اولیاء کے منکر ہیں‘‘۔ کچھ لوگوں نے اس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی نسبت سے ولی جلد سن لیتےہیں (تفسیر الآلوسی، 12/266)۔
یہ ذہنیت کبھی کھلی کھلی غیر اللہ پر اعتماد کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے جس کوشرک جلی کہاجاتا ہے۔ کبھی یہ ذہنیت شرک خفی کی صورت میں ہوتی ہے جس کو آج کل کی زبان میں شخصیت پرستی کہاجاسکتا ہے۔
آپ کثرت سے ایسے مذہبی حلقے پائیں گے جہاں بظاہر ’’اللہ اللہ‘‘ کا ورد ہوتا ہے اور قرآن پڑھاپڑھایا جاتا ہے، لیکن اگر وہاں کی مجلسوں میں خدا کی باتوں کا چرچا کیجئے تو لوگوں کو کوئی خاص دل چسپی نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اپنی پسندیدہ شخصیتوں کے چرچے رات دن ہوتے رہتے ہیں اور اس سے ان کی دل چسپی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اکثر حالات میں شرک خفی، شرک جلی سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ بظاہر برانہ دکھائی دینے کی وجہ سے اکثر لوگ اس میں مبتلا رہتے ہیں۔ حتی کہ وہ لوگ بھی جو شرک جلی کے خلاف لسانی اور قلمی جہاد ہی کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں۔
قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ اہلِ ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں (البقرة: 165 ) ۔دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے کہ ہدایت یافتہ وہ ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے (التوبة: 18)۔ اس سے معلوم ہوا کہ توحید یہ ہے کہ شدید محبت اور شدید خوف کا تعلق صرف ایک اللہ سے ہوجائے۔ اس کے مقابلہ میں شرک یہ ہے کہ آدمی اپنی شدید محبت اور اپنے شدید خوف کا مرکز اللہ کے سوا کسی اور کو بنا لے، خواہ وہ کوئی زندہ ہو یا مردہ۔اس معیار پر جانچئے تو معلوم ہوگا کہ بہت سے لوگ جو اپنے کو شرک سے محفوظ سمجھتے ہیں وہ دراصل کچھ علامات شرک سے محفوظ ہیں نہ کہ فی الواقع حقیقت شرک سے۔
شرک خفی کا ظاہرہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن صلّیٰ یُرائی فقد أشرک، ومن صام یرائی فقد أشرک، ومن تصدّق یُرائی فقد أشرک (مسند احمد،حدیث نمبر 17140) یعنی جس شخص نے نماز پڑھی دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔ جس نے روزہ رکھا دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔ جس نے صدقہ کیا دکھانے کے لیے، اس نے شرک کیا۔
نماز اور روزہ اور صدقہ، خدا کی عبادتیں ہیں، پھر وہ شرک کیسے بن جاتے ہیں۔ ایسا اُس وقت ہوتا ہے، جب کہ مسلمانوں کا ایک معاشرہ بن جائے۔ معاشرہ ایک دنیوی تنظیم ہے۔ ایسی تنظیم جب وجود میں آتی ہے، تو وہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی۔ اب تمام مادّی روابط اِس سماجی تنظیم کے ساتھ جُڑجاتے ہیں۔ قیادت، مادّی فائدے، انسانی تعلقات، تمام دنیوی نوعیت کی چیزیں سماج کے اندر وجود میں آجاتی ہیں، جس طرح وہ عام قسم کے سیکولر سماج میں موجود ہوتی ہیں۔یہی وہ وقت ہے، جب کہ مسلمانوں کے درمیان مذکورہ قسم کا ’’شرک‘‘ وجود میں آتا ہے۔ اِس کو سماجی شرک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس سماج سے وابستہ ہر شخص کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے اندر اپنے سماجی اسٹیٹس کو برقرار (maintain) رکھے۔ اِس نفسیات کے تحت، یہ ہوتا ہے کہ لوگ دین کی اسپرٹ (spirit)کو الگ کرکے صرف اس کا ظاہری ڈھانچہ (form) لے لیتے ہیں، اور اِسی ظاہری ڈھانچہ کی دھوم مچاتے ہیں۔
اِس ماحول میں لوگ ظاہری دین داری کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اپنے آپ کودین دار ثابت کرنے کے بعد ہی وہ مسلمانوں کے اندر اپنی مطلوب جگہ بنا سکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے اندر موجود تمام سماجی فائدے اپنے گرد اکھٹا کرسکتے ہیں، وہ مسلمانوں کے نمائندے بن کر اُن کے درمیان ہر قسم کے قیادتی مناصب پر قابض ہوسکتے ہیں۔ اِس قسم کی ظاہری عبادت میں رضائِ الٰہی کی اسپرٹ موجود نہیں ہوتی، اِس لیے حدیث میں اِس کو شرک کانام دیاگیا ۔
سائنس کے دور میں
اسی طرح جدید سائنس کے ظہور نے شرک کی دوسری بنیاد کوبھی ختم کردیا۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی دریافتوں کے ذریعہ یہ افسانہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا کہ فطرت کے مظاہر میں کوئی حقیقی تعدد ہے یا انھیں کوئی ذاتی عظمت حاصل ہے۔
جدید سائنس نے ایک طرف یہ کیا کہ اپنے تجزیہ اور تجربہ کے ذریعہ آخری طورپر یہ ثابت کردیا کہ تمام چیزیں، ظاہری تعدد کے باوجود، اپنے آخری تجزیہ میں صرف ایٹم کا مجموعہ ہیں۔ اور ایٹم برقیاتی لہروں کا مجموعہ ہے۔ اس دریافت کے بعد فطرت میں تعدد کا افسانہ ختم ہوگیا۔ تمام چیزیں ظاہری فرق کے باوجود، اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ثابت ہوگئیں۔ گویا علم کی اگلی ترقی نے مشرکانہ نظریہ کو رد کرکے توحید کے نظریہ کے لیے ایک ثابت شدہ بنیاد فراہم کردی۔
اسی کے ساتھ جدید سائنس نے د وسری بات یہ ثابت کی کہ زمین میں یا وسیع خلا میں جتنی بھی چزیں ہیں وہ سب کی سب بے بس مخلوق ہیں۔ سب کی سب ایک محکم قانون فطرت میں بندھی ہوئی ہیں۔ انھیں کسی بھی درجہ میں کوئی ذاتی اختیار یا اقتدار حاصل نہیں۔
تاہم توہمات کا ابھی تک مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ ذاتی زندگی میں آج بھی ساری دنیا میںکروڑوں لوگ پراسرار قسم کے توہمات میں یقین رکھتے ہیں۔ اہلِ علم طبقہ کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو دیوی دیوتاؤں کو تونہیں مانتی مگر اب بھی وہ خدائے واحد تک نہیں پہنچی۔
فرق صرف یہ ہے کہ ان کی پچھلی نسلیں اگر دیوی دیوتاؤں میں اٹکی ہوئی تھیں تو اب قانون فطرت کے نام سے انھوں نے ایک اور معبود کو فرض کرلیا ہے اور اس کو اپنے ذہن میں اسی طرح بٹھائے ہوئے ہیں جس طرح قدیم انسان دیوی دیوتاؤں کو بٹھائے ہوئے تھا۔
قدیم زمانہ میں انسانی زندگی میںاورانسانی سماج میں بے شمار برائیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ ان کے نتیجہ میں انسان اپنی فطری عظمت سے محروم ہوگیا تھا۔ یہ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ اٹھائی ہوئی تحریک توحید تھی جس نے دنیا کو اس المناک دور سے نکالا اور انسانیت کو حقیقی معنی میں ترقی کے دورمیںداخل کیا۔
انسان پہلی بار ان سعادتوں سے ہمکنار ہوا جو خدا نے اس کے لئے مقدر کی تھیں مگر خود ساختہ توہمات کے نتیجہ میں اس نے اپنے آپ کو ان سے محروم کر رکھا تھا۔ انسانیت تاریکی کے طویل دور سے نکل کر روشنی کے نئے دور میں داخل ہوگئی۔ اب بظاہر مادی ترقیوں کے باوجود انسان دوبارہ مسائل کے اندھیروں میں گرفتار ہوگیا ہے۔ خوشنما تمدن کے اندر وہ حقیقی خوشی اور سکون سے محروم ہے۔ انسان کی فطری عظمت دوبارہ پستیوں کے نئے کھڈ میں جاگری ہے۔
اب ضرورت ہے کہ توحید کی دعوت کو ازسرنو نئی طاقت کے ساتھ زندہ کیا جائے۔ ایک طرف اس کو نئے دلائل اور نئے اسلوب کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنایا جائے اور دوسری طرف جدید ذرائع اشاعت کو استعمال کرکے اس کو ساری دنیا میں پھیلادیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجائے جس کو پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک تاریخی پیش گوئی میں اس طرح فرمایا تھا — ایک وقت آئےگا جب کہ خدا کے دین کا پیغام ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ کوئی گھر یا کوئی خیمہ ایسا نہ بچے گا جس کے اندر توحید کا کلمہ پہنچ نہ گیا ہو۔ (یہ مضمون کتابچہ کی صورت میں دستیاب ہے)
واپس اوپر جائیں