فتنۂ دہیماء: فکری کنفیوژن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث دورِ فتنہ کے بارے میں آئی ہے- یہ ایک لمبی حدیث ہے، اس کا ایک حصہ یہ ہے: ثم فتنة الدُّہیماء لا تدع أحداً من ہذہ الأمة إلا لطمتہ لطمة (سنن أبی داؤد، حدیث نمبر: 4244) یعنی آخری زمانے میں فتنہ دہیماء ظاہر ہوگا- وہ اتنا زیادہ عام ہوگا کہ امت کا کوئی بھی شخص نہیں بچے گا جو اِس فتنےکی زد میں نہ آجائے:
It will hit everyone without any exception.
اِس حدیثِ رسول میں دُہیماء کالفظ استعمال ہوا ہے- دہیما کے لیے مشہور عربی لغت لسان العرب میں یہ الفاظ آئے ہیں: الفتنة السوداء المظلمة (12/211)- دہیماء کی تصغیر مبالغہ کے لیے ہے، یعنی فتنۂ دہیماء بہت زیادہ سیاہ اور سخت تاریکی پیدا کرنے والا فتنہ ہوگا- اِس حدیثِ رسول کے مطابق، فتنۂ دہیماء کا زمانہ مکمل تاریکی کا زمانہ (age of total darkness) ہوگا- تاریکی سے مراد فکری تاریکی (intellectual darkness)ہے- دوسرے الفاظ میں، اِس کا مطلب ہے — مکمل فکری کنفیوزن (utter intellectual confusion) ۔
قانونِ فطرت کے مطابق، یہ دور اچانک نہیں آئے گا، بلکہ تدریجی عمل (gradual process) کے تحت آئے گا۔ یہ واقعہ خود امتِ مسلمہ کے اندر پیش آئے گا اور یہ اُس حالت کا ایک ظاہرہ ہوگا جس کو زوالِ امت کہاجاتا ہے- مذکورہ روایت کے الفاظ کے مطابق، فتنۂ دہیماء کی یہ صورتِ حال اصلاً خود امت کے اندر پیش آئے گی، نہ کہ امت کے باہر۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم کو ایک ایسے دینِ بیضا پر چھوڑ رہا ہوں جس کی راتیں بھی دن کی طرح روشن ہیں: قد ترکتم على البیضاء، لیلہا کنہارہا (مسند احمد، حدیث نمبر: 17142)۔ مگر بعد کے زمانے میں امت کے اندر بہت زیادہ اختلاف (اختلافا کثیراً) پیدا ہوجائے گا- اِس اختلافِ کثیر سے مراد وہی چیز ہے جس کو مذکورہ حدیث میں فتنۂ دہیماء کہا گیا ہے، یعنی قرآن وحدیث کی تشریح وتعبیر میں اختلافات سے تصورِ دین کا غیر واضح ہوجانا-
اختلاف کا سبب
امت کی بعد کی نسلوں میں فکری اختلاف کا سبب کیا ہے- یہ سبب وہی ہے جو پچھلی امتوں میں پیدا ہوا- پچھلی امتوں کا واقعہ امتِ مسلمہ کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک تاریخی مثال کی حیثیت رکھتا ہے- یہ حقیقت قرآن کی سورہ البینة میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْہُمُ الْبَیِّنَةُ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڏ حُنَفَاۗءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ ( 98:4-5 ) یعنی جو لوگ اہلِ کتاب تھے، وہ واضح دلیل آجانے کے بعد مختلف ہوگئے- حالاں کہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں ۔ اس کے لیے دین کو خالص کر دیں ، یکسو ہو کر اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ، اور یہی درست دین ہے۔
پچھلی امتوں میں جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ تھا کہ اُن کو اللہ کی کتاب دی گئی تھی، لیکن ان کی بعد کی نسلوں کے درمیان کتاب کی تشریح وتوضیح میں علماء کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے- ان اختلافات کی بنا پر امت مختلف گروہوں میں بٹ گئی- اختلاف کا یہی واقعہ، فطرت کے قانون کے مطابق، امتِ مسلمہ کی بعد کی نسلوں میں پیش آئے گا- دونوں کا مشترک سبب ایک ہے-
یہ معاملہ کیوں پیش آتا ہے- اِس کا سبب یہ ہے کہ امت کی ابتدائی نسل میںدین اپنی اسپرٹ کے اعتبار سے زندہ ہوتا ہے- لوگوں پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین اصلاً اسپرٹ کا نام ہے- جہاں تک اس کی ظاہری صورت یا فارم (form) کا تعلق ہے، وہ دین کا ایک اضافی حصہ (relative part) ہے- یہ ایک حقیقت ہے کہ اسپرٹ میں ہمیشہ یکسانیت ہوتی ہے- اِس لیے امت جب تک اسپرٹ والے دین پر قائم ہو، اُس وقت تک اس کا اتحاد باقی رہتا ہے، لیکن بعد کے دور میں زوال کی بنا پر اسپرٹ مفقود ہوجاتی ہے اور لوگ دین کے فارم کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں- چوں کہ فارم میں ہمیشہ اختلاف ہوتا ہے، اِس لیے امت جب زوال کا شکار ہوکر فارم پر قائم ہوجائے تو ہمیشہ اختلافات پیدا ہوتے ہیں- پہلے اختلاف آتا ہے، پھر فرقہ بندی ہوتی ہے اور پھر مختلف گروہوں کے درمیان تشدد شروع ہوجاتا ہے-
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک حدیثِ رسول میں آیا ہے : لا صلاة إلا بفاتحة الکتاب (مسند احمد، حدیث نمبر: 22671) یعنی سورہ الفاتحہ کے بغیر کوئی نماز، نماز نہیں- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صحابہ کے زمانے میں بھی لوگوں کو معلوم تھا، لیکن اِس کی بنا پر لوگوں کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا، کیوں کہ اس زمانے میں اسپرٹ بھر پور طورپر زندہ تھی- لوگ سمجھتے تھے کہ اصل چیز یہ ہے کہ حالتِ نماز میں سورہ الفاتحہ کے معانی کی یاد دہانی ہوتی رہے- سرّی نمازوں میں ہر آدمی خود سورہ الفاتحہ پڑھتا تھا اور جہری نمازوں میں ہر آدمی یہ سمجھتا تھا کہ امام کی زبان سے سورہ الفاتحہ کو سن کر قرأتِ فاتحہ کا مقصد نیابتاً حاصل ہوگیا-
لیکن بعد کے زمانے میں جب امت کے اندر زوال آیا اور ساری اہمیت عبادت کے فارم کو دی جانے لگی، اُس وقت اِس حدیث کو لے کر لوگوں کے درمیان زبردست اختلاف پیدا ہوگیا- ایک گروہ نے کہا کہ جہری نمازوں میں سورہ الفاتحہ کی نیابةً ادائیگی کافی ہے- دوسرے گروہ نے کہا کہ نہیں، ہرمصلی کو لازماً اپنی نماز میں ذاتی طورپر سورہ الفاتحہ پڑھنا چاہیے، حتی کہ جہری نمازوں میں جب کہ امام بلند آواز سےقرأت کررہا ہو، تب بھی مقتدیوں پر لازم ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سورہ الفاتحہ پڑھیں، ورنہ ان کی نماز نہیں ہوگی-
قرآن کی مذکورہ آیت ( 98:4-5 ) میں اِسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے- زوال کے دور میں پچھلی امتوں کے درمیان اِسی سبب سے اختلافات پیدا ہوئے- امتِ مسلمہ کے درمیان بھی اس کے زوال کے دور میں یہی صورت حال لازماً پیش آئے گی اور اِس اختلاف کی بنا پر دین میں رایوں کا اختلاف اتنازیادہ بڑھ جائے گا کہ عام انسان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجائے گا کہ خدا کا بھیجا ہوا اصل دین (دینِ قیم) کیا ہے-
پیغمبرانہ پیشین گوئی
حضرت علی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ- مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى۔ علماءہم شر من تحت أدیم السماء، من عندھم تخرج الفتنة وفیہم تعود (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 1763) یعنی قریب ہے کہ لوگوں کے اوپر وہ زمانہ آئے جب کہ اسلام کا صرف نام باقی رہے اور قرآن کی صرف تحریر باقی رہے۔ ان کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی، لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی- اُن کے علماء آسمان کے نیچے سب سے برے لوگ ہوں گے۔ ان سے فتنہ نکلے گا، اور انھیں کی طرف فتنہ لوٹے گا-
اِس حدیث رسول کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں اُس وقت کی پیشین گوئی ہے جب کہ دہیماء کا فتنہ اپنی آخری حد تک پہنچ چکا ہوگا- اُس زمانے میں بظاہر اسلام کے نام پر بڑی بڑی سرگرمیاں دکھائی دیں گی، لیکن اِس سرگرمیوں میں دین کی اصل حقیقت موجود نہ ہوگی۔ قرآن کے نسخے ہر جگہ موجود ہوں گے، لیکن لوگ قرآن کے صرف الفاظ کو جانتے ہوں گے، قرآن کے معانی سے وہ بالکل بے خبر ہوں گے-
امت کا فکری زوال
ایک حدیث رسول میں بتایا گیا ہے کہ: خیر أمتی قرنی،ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 3650)- اِس حدیث رسول میں اسلام کے تین ادوار کو خیر کے ادوار کہاگیا ہے- اِن ادوار کو قرونِ ثلاثہ یا قرونِ مشہود لہا بالخیر کہا جاتا ہے- اِن تین ادوار سے مراد ہے— عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین- اِن تین ابتدائی ادوار کی مدت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ( 632 ء) کے بعد تقریباً ایک سوسال تک جاری رہی- اِس کے بعد وہ دور شروع ہوگیا جو قرونِ مشہود لہا بالخیر کے بعد کا د\ور تھا- گویا کہ اسلام کی تاریخ میں مستند ادوار صرف ابتدائی تین ادوار ہیں- بعد کے ادوار کو اسلام میں مستند حیثیت حاصل نہیں-
اِس مسئلے کی مزید تعیین کی جائے تو کہا جائے گا کہ اسلام کے ابتدائی تین ادوا ر میں اسلام کا فکری مرجع تمام تر قرآن تھا- ثانوی مرجع کے طورپر حدیث بھی اِس میں شامل ہے، کیوں کہ حدیث قرآن کی تشریح ہے- حدیث کے بغیر قرآن کو درست طورپر سمجھنا ممکن نہیں- تقریباً سوسال بعد اسلام کی تاریخ میں ایک نیا دور شروع ہوا جس کو فقہی دور کہا جاسکتا ہے- یہ وہ دور ہے جب کہ ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کے علاقے فتح ہوئے اور بتدریج اِس علاقے کے لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہوئے- اس کے بعد اسلام کی تاریخ میں ایک نیا ظاہرہ پیدا ہوا جس کو عمومی قبولِ اسلام (mass conversion) کہاجاتا ہے- یہ لوگ اسلام سے پہلے مجوسی مذہب یا مسیحی مذہب میں شامل تھے- اِن تمام مذاہب میں اُس وقت سا ری اہمیت صرف فارم (form) کودی جاتی تھی- اِن لوگوں نے جب اسلام قبول کیا تو اپنے قدیم مائنڈ سیٹ (mindset) کے تحت وہ یہ جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ اسلام کا فارم کیا ہے- یہی وہ دور ہے جب کہ اسلام کی تاریخ میں وہ شعبہ پیدا ہوا جس کو فقہ کہاجاتاہے-
یہی وہ زمانہ ہے جب کہ حدیثوں کی جمع وتدوین شروع ہوئی- فقہاء نے فارم کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب معلوم کرنے کے لیے حدیثوں کو دیکھا۔ احادیث کے ذخیرے میں مختلف صحابہ کی زبان سے یہ بتایا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح عبادت کرتے تھے- فقہا کو معلوم ہوا کہ اِس معاملہ میں صحابہ کی روایتیں مختلف ہیں- مثلاً کسی صحابی کی روایت آمین بالسر کے حق میں تھی تو کسی صحابی کی روایت آمین بالجہر کے حق میں تھی۔ احادیث کے ذخیرے میں اِس طرح کے کثیر اختلافات موجود تھے-
یہیں سے مسلمانوںمیں ایک ڈی ریلمنٹ (derailment) شروع ہوا- فقہاء کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ دین میں اگرچہ اسپرٹ ایک ہے، لیکن فارم میں تنوع (diversity) پایا جاتا ہے، اِس لیے تم جس صحابی کی روایت پر چاہو عمل کرو- البتہ تم کو سب سے زیادہ دھیان اسپرٹ پر دینا چاہیے- لیکن فقہاء نے یہاں بطور خود یہ اصول وضع کیا کہ فارم کے بارے میں مختلف روایتوں میں کوئی ایک ہی روایت درست ہوسکتی ہے، اِس لیے اِس ذہن کے تحت انھوں نے ترجیح کا اصول وضع کیا- وہ بحث ومباحثے کے ذریعے ایک طریقے کو راجح اور دوسرے طریقہ کو مرجوح قرار دینے لگے- ترجیح کا یہ اصول سب کو ایک رائے پر جمع نہیں کرسکتا تھا، کیوں کی امام شافعی کے الفاظ میں، ساری بحثوں کے باوجود فریقِ ثانی کے حق میں یہ احتمال باقی رہتا تھا کہ شاید اس کی رائے درست ہو-
دین میں اسپرٹ کے بجائے فارم کو اہمیت دینے کا یہ فقہی طریقہ بعد کے لوگوں کے لیے ایک رجحان ساز (trendsetter) واقعہ بن گیا- اِس کے بعد دینی موضوعات پر جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اِسی نہج پر لکھی گئیں- یہ سلسلہ آج تک جاری ہے — دین بیضا کا دینِ غیر بیضا بن جانے کا اصل سبب یہی ہے-
اگر آپ فقہی کتابوں کا مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ فقہ میںبظاہر اسلام کی مختلف تعلیمات زیر بحث آتی ہیں، لیکن عملاً تمام فقہی بحثیں اِن تعلیمات کے فارم پر ہوتی ہیں- فقہ کا یہ پیٹرن اصولی بنیادپر نہیں بنا، بلکہ حالات کے زیر اثر (situational factor) بنا ہے-آپ قرآن کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں سارا زور اسلام کی اسپرٹ پر دیا گیا ہے، لیکن فقہ میں ایک شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا واقعہ پیش آیا اور سارا زور اسپرٹ کے بجائے فارم پر دیا جانے لگا-
قرآنی پیٹرن کے بجائے فقہی پیٹرن
اِس کے بعد مزید یہ ہوا کہ فقہ کا یہ اسلوب ، عملاً اہلِ علم کے درمیان عام ہوگیا- بعد کے اہلِ علم نے اِسی پیٹرن کو معیاری پیٹرن کی حیثیت سے اختیار کرلیا- وہ اِسی انداز میں سوچنے لگے اور اِسی انداز پر کتابیں لکھنے لگے- یہ فقہی پیٹرن اتنا زیادہ عام ہوا کہ بعد کے زمانے میں لکھی جانے والی کتابوں میں شاید کوئی بھی کتاب اِس سے مستثنی نہیں-
مثلاً ابن تیمیہ (وفات: 1328ء) کی کتاب ’الصارم المسلول على شاتم الرسول ‘اِسی نہج کی ایک کتاب ہے- اِس کتاب میں ابن تیمیہ نے شاتمِ رسول کے لیے قتل کی سزا بتائی ہے۔ صرف اِس لیے کہ فقہا نے بعد کے زمانے میں یہ حکم وضع کیا کہ شاتم کو بطور سزا قتل کیا جائے گا (یُقتل حدًّا)۔ حالاں کہ قرآن میں اس حکم کی کوئی اصل موجود نہیں- ابن تیمیہ اگر کتبِ فقہ سے اوپر اٹھ کر اِس موضوع پر قرآن کی اسپرٹ کے مطابق، اِس مسئلے پر غور کرتے تو وہ لکھتے کہ شاتم کی حیثیت ایک مدعو کی ہے، شاتم کو دعوت دیناہے، نہ کہ قتل کرنا- شاتم بظاہر دشمن نظرآتا ہو ، تب بھی اپنی فطرت کے اعتبار سے، وہ ایک انسان ہے- اگر اس کے سامنے اسلام کا دین حکیمانہ انداز میں پیش کیا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرے اور اس کی دشمنی دوستی میں تبدیل ہوجائے( 41:34 )۔
اِس طرح کی ایک مثال شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات: 1762ء) کی مشہور کتاب حجة اللہ البالغة ہے- اِس کتاب کا ٹائٹل بظاہر قرآن کی ایک آیت ( 6:149 ) سے ماخوذ ہے- مگر عملاً یہ کتاب قرآنی پیٹرن پر نہیں لکھی گئی ہے، بلکہ فقہی پیٹرن پر لکھی گئی ہے- یہی وجہ ہے کہ اِس کتاب کے تمام مباحث فقہی اسلوب پر مبنی ہیں- مثلاً اس کتاب میں سُترہ سے لے جہاد تک کے تمام ابواب موجود ہیں، لیکن اِس میں دعوت الی اللہ کا باب موجودنہیں- حالاں کہ اگر مصنف، قرآن کے اسلوب کا تتبع کرتے تو یقیناً وہ اِس حقیقت کو دریافت کرلیتے کہ قرآن میں سب سے زیادہ اہمیت دعوت الی اللہ کو دی گئی ہے- قرآن پورا کا پورا ایک کتاب ِ دعوت ہے-
معانی کے بجائے الفاظ کی اہمیت
اسلام کو مبنی بر فارم مذہب (form-based religion) قرار دینے کا دوسرا شدید تر نقصان یہ ہوا کہ اسلام میں عقلی توجیہہ (rational interpretation) کا مزاج ختم ہوگیا- قرآن وحدیث کے مطالعے میں ساری اہمیت لفظی تشریح (literal interpretation) کو دی جانے لگی- بعد کے زمانے میں مسلم اہلِ علم نے جو کتابیں لکھیں، وہ تقریباً سب کی سب اِسی نہج پر لکھی گئیں- اِس معاملے میں غالباً صرف ایک کتاب مقدمة ابن خلدون کا استثنا ہے- اِس منہج فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کےاندرعملاً عقلی غوروفکر مکمل طورپر مفقود ہوگیا-
علامہ انور شاہ کشمیری (وفات: 1934ء) برصغیر ہند کے مشہور عالم ہیں- انھوں نے لکھا ہے کہ حدیث (الحلال بیّن والحرام بیّن) کو سمجھنے کے لیے انھوںنے حدیث کی تمام متداول شرحیں دیکھیں، مگر کسی شرح میں انھیں اس حدیث کی کوئی بامعنی وضاحت نہیں ملی- چناں چہ وہ اپنا تاثر اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں: لم یتحصّل عندنا منہ شیء غیر حلّ الألفاظ (فیض الباری على صحیح البخاری: 153/1) یعنی حلِ الفاظ کے سوا مجھے اِس میں کچھ اور نہیں ملا- علامہ انور شاہ کشمیری کا یہ تبصرہ حدیث کی تمام شرحوں پر صادق آتا ہے-
دو مثالیں
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں دو مثالیں نقل کی جاتی ہیں- اسلام کی تعلیمات میں ایک مسئلہ وہ ہے جس کو خفین پر مسح کا مسئلہ کہاجاتا ہے، یعنی مسافر آدمی اگر وضو کرکے موزوں کے اوپر مسح کرے تو تین دن تک اُس کو وضو کے موقع پر اپنا پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں- اُس کے لیے صرف موزوں کے اوپر مسح کرنا کافی ہوگا- اِس شرعی مسئلے کے بارے میں امام ابو حنیفہ (وفات: 767 ء) کہتے ہیں کہ دین کی بنیاد اگر رائے (عقل) پر ہوتی تو میں کہتا کہ پاؤں کے نیچے سے مسح کیا جائے، نہ کہ پاؤں کےاوپر سے-
امام ابو حنیفہ کا یہ قول صرف اِس لیے ہے کہ انھوں نے اِس معاملے میں حدیثِ رسول کو محض الفاظ کے اعتبار سے لیا- انھوں نے اِس حدیث رسول پر عقلی اعتبار سےغور نہیں کیا- اگر وہ اِس حکم پر غور کرتے تو وہ کہتے کہ مسح على الخفین وضو کا بدل نہیں ہے، بلکہ وہ وضو کی ایک علامت ہے- آدمی جب موزے کے اوپر مسح کرتا ہے تو وہ علامتی طور پر وضو کے حکم کی تعمیل کرتا ہے،اور جب وہ علامتی ہے تو یہ بات اضافی ہوجاتی ہے کہ پاؤں کی کس سمت سے مسح کیا جائے-
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال ابن قیم الجوزیہ (وفات: 1350ء) کی مشہور کتاب ’طریق الہجرتین وباب السعادتین‘ ہے- اِس کتاب میں مصنف نے ہجرت کی دو تقسیم کی ہے — ایک، اللہ کی طرف ہجرت، یعنی اللہ کی عبادت اور اللہ سے محبت، وغیرہ- دوسرے، رسول کی طرف ہجرت ، یعنی رسول کی سنت کا اتباع-
اسلام میں ہجرت یا مہاجرت صرف ایک چیز کا نام ہے اور وہ صرف ترک وطن (migration)ہے- مصنف نے دو ہجرت کا تصور صرف ایک لفظی بنیاد پر اخذ کیا ہے، وہ یہ کہ صحیح البخاری کی پہلی روایت جو نیت کے بارے میں ہے، اس میںیہ الفاظ آئے ہیں: فمن کانت ہجرتہ إلى اللہ ورسولہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر: 54 ) اس حدیث میں طریقِ ہجرت کو بیان نہیں کیا گیا ہے، بلکہ نیتِ ہجرت کو بیان کیا گیا ہے، یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہجرت کی دو قسمیں ہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، ہجرت صرف وہ ہے جو رضاء الہی کے جذبہ سے کی جائے-
اِس اسلوب کا نقصان یہ ہے کہ اس میں وضوح (clarity) کا خاتمہ ہوگیا ہے- اِس کتاب کو پڑھ کر آدمی صحیح طور پر نہ ہجرت کی حکمت کو سمجھ پاتا ہے اور نہ دوسرے مذکورہ اعمال کی حکمت کو- گویاجدید تعلیم کی اصطلاح میں یہ ایک مائنس مارکنگ (minus marking) کا معاملہ ہے جس میں دونوں قسم کے احکام کی گہری معنویت قاری کے ذہن سے حذف ہوجاتی ہے-
بعد کے زمانے میں جو کتابیں لکھی گئیں، وہ تقریباً سب کی سب اِسی اسلوب پر لکھی گئیں- اسلام کی ابتدائی تین نسلوں تک لوگوں کے درمیان قرآنی طرز فکر غالب تھا- بعد کو مسلمانوں میں جو دور آیا، اس میں عام طورپر فقہی اسلوب کا غلبہ ہوگیا- تاہم پرنٹنگ پریس کے وجود میں آنے سے پہلے اِس ذہن کی اشاعت صرف محدود پیمانے پر ہوسکتی تھی، کیوں کہ اُس زمانے میں کتابیں مخطوطات (manuscripts) کی شکل میں ہوتی تھیں اور مخطوطات کے ذریعے کسی فکر کی عمومی اشاعت ممکن نہیں تھی- اٹھارھویں صدی عیسوی میں جب پریس کا زمانہ آیا تو اس کے بعد مسلم اہلِ علم کی کتابیں چھپ کر عمومی طورپر پھیلنے لگیں، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں یہ حال ہوا کہ ہر زبان میں اِس قسم کی مطبوعہ کتابیں اتنا زیادہ عام ہوئیں کہ کوئی بھی مسلمان اُس سے بے خبر نہ رہا-
مذکورہ حدیثِ رسول میں جس فتنۂ دہیماء کا ذکر ہے، وہ اصلاً یہی فتنہ ہے، یعنی قرآنی طرز فکر کا خاتمہ اور فقہی طرزِ فکر کی عمومی اشاعت اور پھر دورِ پریس میں اس کا اتنا زیادہ بڑھ جانا کہ کوئی بھی مسلمان اس کی زد سے محفوظ نہ رہے-
فہمِ دین
دینِ اسلام کی بنیاد قرآن پر ہے- قرآن کا صحیح فہم ہی دین کے صحیح فہم کا ضامن ہے- قرآن کو سمجھنے میں اگر غلطی ہوجائےتو دین کو صحیح طورپر سمجھنا ممکن نہ ہوگا- اصحابِ رسول کو دین ِ اسلام میں ماڈل کی حیثیت حاصل ہے اور اصحابِ رسول کی پوری تربیت اسی قرآن کی بنیاد پر ہوئی تھی-
حضرت جندب بن عبد اللہ البجلی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: کنا مع النبی صلى اللہ علیہ وسلم، ونحن فتیان حزاورة،فتعلمنا الإیمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا بہ إیمانا(ابن ماجہ،حدیث نمبر: 61 ) یعنی ہم کچھ نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے- ہم نے آپ کے ساتھ رہ کر ایمان سیکھا، اِس سے پہلے کہ ہم قرآن سیکھیں- اِس کے بعد ہم نے قرآن سیکھا تو قرآن ہمارے لیے اضافۂ ایمان کا ذریعہ بن گیا-
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن فہمی کے سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ قرآن کے مرکزی مضمون (central theme) کو دریافت کیا جائے- قرآن کے مرکزی مضمون کی دریافت ہی وہ چیز ہے جو پوری قرآن کو بامعنی بناتی ہے- جب ایسا ہوتا ہے تو اس کے بعد مومن کے ذہن میں ایک ربانی پراسس جاری ہوجاتا ہے- اِس کے بعد ایک تدریجی عمل کے ذریعے اس کے اندر اُس شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے جس کو مومن کہا جاتا ہے-
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ انسان کو خالق کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) سے آگاہ کیا جائے، تاکہ انسان اس کے مطابق، اپنی زندگی کی کامیاب تعمیر کرسکے- اِس تعمیر ِ شخصیت کا آغاز خدا کی معرفت (realization of God) سے ہوتا ہے-
اِس کے بعد آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ اس کو اپنی ذات کی نسبت سے، اللہ کا عبادت گزار بننا ہے، اور دوسرے انسانوں کی نسبت سے، اس کو پُرامن دعوت الی اللہ کا کام کرنا ہے- یہی تین چیزیں ہیں جو ایک انسان کے اندر مومنانہ شخصیت کی تعمیر کرتی ہیں-
وضوح کا مسئلہ
اسلام کے دورِ اول (قرون مشہود لہا بالخیر) میں دین کا یہی تصور غالب تصور کی حیثیت رکھتا تھا- اس کے بعد دھیرے دھیرے اِس میں کمی (erosion) شروع ہوئی اور پھر وہ وقت آیا جب کہ عمومی طور پر دین کا یہ تصورگم ہوگیا- عمر بن عبد العزیز (وفات: 720ء) غالباً اسلام کے دورِاول کے آخری شخص ہیں-
اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا زمانہ وہ ہے جب کہ لوگ بڑے پیمانے پر اسلام قبول کررہے تھے- اس کے نتیجے میں بیت المال میں آنے والے جزیہ کی رقم بہت کم ہوگئی تھی- چنانچہ خراسان کے ایک گورنر جراح بن عبد اللہ نے عمر بن عبد العزیز سے شکایت کی اور کہا کہ مفتوح ممالک میں لوگ کثرت سے اسلام قبول کررہے ہیں- چوں کہ اسلام لانے کے بعد جزیہ ساقط ہوجاتا ہے، اس لیے لوگوں کے بکثرت اسلام میں داخل ہونے کی وجہ سے مملکت کا مالیہ بہت کم ہوگیا ہے- اگر یہی حالت رہی تو خزانہ خالی ہوجائے گا- عمر بن عبد العزیز نے گورنر کو لکھا — — اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو داعی بنا کر بھیجا تھا ، ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا تھا- إن اللہ إنما بعث محمداً صلى اللہ علیہ وسلم داعیاً ولم یبعثہ جابیا (البدایة والنہایة: 9/213)
عمر بن عبد العزیز کےزمانے کے ایک اور گورنر عدی بن ارطاة نے اِس طرح کی شکایت کو لے کر خلیفہ کو لکھا — لوگ بڑی تعداد میںاسلام قبول کررہے ہیں- مجھے ڈر ہے کہ اِس کے نتیجے میں حکومت کے مالیہ میں کمی ہوجائے گی (فإن الناس قد کثروا فی الإسلام، خفت أن یقل الخراج)- اِس کا جواب خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے اِن الفاظ میں دیا: واللہ لوددتُ أن الناس کلہم أسلموا، حتى نکون أنا وأنت حرّاثَین نأکل من کسب أیدینا (سیرة عمر بن عبد العزیز، لابن الجوزی: 124 ) یعنی خدا کی قسم، مجھے یہ پسند ہے کہ سارے لوگ اسلام قبول کرلیں، یہاں تک کہ میں اور تم دونوں کاشت کار بن جائیں اور اپنے ہاتھ کی محنت سے اپنا رزق حاصل کریں-
یہ واقعہ بتاتاہے کہ کلام میں وضوح (clarity) کس طرح پیدا ہوتی ہے- کلام میں وضوح کا راز یہ ہے کہ صاحب کلام کے اندر وہ صفت موجود ہو جس کو قرآن میں فرقان ( 8:29 ) کہاگیا ہے، یعنی چیزوں کو سارٹ آؤٹ (sort out)کرکے دیکھنا- ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کرکے رائے قائم کرنا- اِسی اصول تمییز (principle of differentiation) کا نام حکمت ہے اور اِس حکمت کا حامل کوئی شخص جب کلام کرےتو اس کا ذہن فطری طورپر چیزوں کی مختلف نوعیت کو جان لیتا ہے اور اس کے مطابق، کلام کرتا ہے- جس کلام میں یہ صفت پائی جائے اس کے اندر لازمی طورپر وضوح موجود ہوگا-
اِس اعتبار سے، مذکورہ مثال پر غور کیجئے- اِس معاملے کا ایک پہلو یہ تھا کہ کثرتِ اسلام سے حکومت کا مالیہ کم ہورہا تھا- اِس معاملے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ پیغمبر کا اصل مشن یہی تھا کہ لوگوں کو سچائی ملے- خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے دونوں پہلوؤں کو الگ کرکے دیکھا، اس لیے وہ ایک واضح اور درست رائے تک پہنچ گئے-
اِس کے برعکس، ان کے دونوں گورنروں کا حال یہ تھا کہ وہ اِس صلاحیتِ فرقان کا ثبوت نہ دے سکے۔ اِس لیے انھوں نے ایک ایسی بات کہی جس میں وضوح موجود نہ تھا، اُن کے کلام میں مالیاتی پہلو کی اہمیت موجود تھی، لیکن اُن کے کلام میں دعوتی پہلو کی اہمیت مفقود ہوگئی تھی-
خلیفہ عمر بن عبد العزیز کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلام میں کس چیز کو اصل اہمیت حاصل ہے- وہ یہی ہے کہ اپنے اندر مومنانہ شخصیت کی تعمیر کی جائے اور دوسروں کو اللہ کا پیغام پہنچایا جائے- معلوم ریکارڈ کے مطابق، اسلام کی بعد کی تاریخ میں دوبارہ کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہوا جو اِس حقیقت کا شعور رکھتا ہو اور کھلے طورپر اس کا اظہار کرے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جس کو حدیث میں فتنۂ دہیما کہاگیا ہے، اس کا زمانہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا- اِس کے بعد وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ بیسویں صدی میں وہ اپنی کامل صورت میں پوری مسلم امت کے درمیان چھا گیا-
دین کی تعبیر میں اختلاف
فتنہ دہیماء کیا ہے- فتنہ دہیماء کوئی پراسرار چیز نہیں- فتنہ دہیماء دراصل یہ ہے کہ قرآن کا مرکزی مضمون لوگوں پر واضح نہ رہے اور لوگ اپنے اپنے مائنڈ سیٹ (mindset) کے تحت قرآن وسنت کی تشریح وتعبیر کرنے لگیں- اِس کے نتیجے میں افکار اور آرا کا اختلاف اتنا بڑھ جائے کہ اصل حقیقت اس کے اندر گم ہوجائے اور یہ معلوم کرنا سخت دشوار ہوجائے کہ وہ اصل دین کیا ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کی طرف بھیجا تھا-
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سےتقریباً ایک سو سال بعد اسلام کی جو علمی تاریخ بنی، اس کے موضوعی مطالعہ (objective study)سے بخوبی طورپر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا- عباسی دور میں یہ ہوا کہ دین کی اسپرٹ کے بجائے اس کے فارم کو لے کر ساری بحث ہونے لگی- فارم میں چوں کہ تعدد (diversity)تھا، اِس لیے فطری طورپر لوگوں کی تعبیرات میں بھی تعدد پیداہوگیا- اس کے بعد متن (text) کو لے کر یہ بحثیں شروع ہوئیں کہ کسی لفظ کا کیا مفہوم ہے- الفاظ میں بھی ہمیشہ ایک سے زیادہ مفہوم کی گنجائش ہوتی ہے،اس لیے یہاں بھی یہ واقعہ پیش آیا کہ معانی کامفہوم متعین کرنے میں کثرت سے اختلافات پیدا ہوگئے-اِس طرح بعد کے زمانےمیں دین کی مختلف تعبیرات کو لے کر الگ الگ گروہ بننے لگے، یہاں تک کہ حدیث کے الفاظ میں، امتِ مسلمہ 73 فرقوں میں، بلکہ اُس سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہوگئی- اِسی طرح سیاسی مفاد کے تحت لوگوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے- ہر فریق اپنے موقف کو قرآن وحدیث سے جائز ثابت کرنے لگا- اِس صورتِ حال نے بھی تعبیراتِ دین میں اختلافات کا ایک جنگل پیدا کردیا-
بیسویں صدی عیسوی میںاِس صورت حال میںمزیداضافہ ہوا- یہ زمانہ وہ تھا جب کہ سیکولر نظام کے غلبے کے تحت مسلمانوں کے درمیان مختلف قسم کی تحریکیں برپا ہوئیں اور پریس کی طاقت کے تحت تیزی سے لوگوں کے درمیان پھیلیں- اِس زمانی اثر کے تحت مسلمانوں کےدرمیان بھی مختلف قسم کی تحریکیں اٹھیں اور مختلف قسم کے نظریات کی اشاعت ہونے لگی- اِس طرح فکری اختلافات کا معاملہ اپنی کمیت کے اعتبار سے، بہت زیادہ بڑھ گیا- بیسویں صدی کے آخر میںفتنہ دہیماء کا کلچر اپنی آخری انتہا تک پہنچ گیا- اب یہ حالت ہوگئی کہ اگر کوئی شخص یہ جاننا چاہے کہ دینِ اسلام اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے کیا ہے تو وہ یقین کے ساتھ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے گا-
فتنہ دہیما یا ذہنی کنفیوزن کایہ معاملہ اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگر کوئی ایسا لٹریچر تیار ہوجو دینِ اسلام کو دوبارہ اس کے صحیح اسلوب میں بیان کرے، تب بھی عملاً وہ زیادہ مفید نہ ہوگا- صحیح لٹریچر کو عملی طورپر مفید بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پچھلے ہزار سال کے دوران لکھی جانے والی کتابوں کو اسلام کے کتب خانے میں کلاسکل لٹریچر (classical literature) کی حیثیت سے محفوظ کردیا جائے- اسلام کی شرح کے اعتبار سے، اس کی مستند حیثیت باقی نہ رہے-
مقصدِ تخلیق
بعد کے دور میں جو فکری کنفیوزن (intellectual confusion) پیدا ہوا، اس کا اصل سبب یہ تھا کہ تعبیرات کے اختلاف کے درمیان یہ حقیقت گم ہوگئی کہ انسان کی تخلیق کا مقصد (purpose of life) کیا ہے- اِس حالتِ انتشار کو ختم کرنے کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان کے مقصد تخلیق کو متعین کیا جائے- مقصد تخلیق کے تعین کے بعد ایسا نہیںہوگا کہ اختلافات کا عملاً خاتمہ ہوجائے- جو واقعہ پیش آئے گا، وہ صرف یہ کہ اختلافات کی حیثیت ثانوی (secondary) بن جائے گی۔ اور اختلافات کا ثانوی بن جانا ہی اِس مسئلے کا عمومی حل ہے- اِس کے بعد فطری طورپر یہ ہوگا کہ لوگوں کا ذہنی فوکس بدل جائے گا- لوگوں کی ساری توجہ انسان کے اصل تخلیقی مقصد پر مرتکز ہوجائے گی-
فوکس کے تعدد سے فکری انتشار پیدا ہوتا ہے اور فوکس کے توحد سے فکری اتفاق وجود میں آتا ہے (5 جنوری 2014)
واپس اوپر جائیں