شہادت امتِ مسلمہ کا مشن
شہادت ایک عظیم عمل ہے۔ جو لوگ شہادت کا عمل انجام دیں ، ان کے لیے اللہ کے یہاں عظیم درجات ہیں۔ ان کو جنت کے اعلیٰ درجات میں جگہ ملے گی۔ شہادت کیاہے۔شہادت عین وہی چیز ہے جس کو دعوت کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو پرامن طور پر اللہ کے بندوں تک پہنچانا۔ زندگی کی حقیقت (reality of life) سے انسان کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں باخبر کرنا ۔ شہادت یا دعوت کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کے اندر طلب ہو وہ اللہ کے نقشۂ تخلیق کو جان لے۔ اور جس کے اندر طلب نہ ہو اس پر اللہ کی حجت قائم ہوجائے، اس کو یہ موقع نہ رہے کہ وہ آخرت کے دن یہ کہہ سکے کہ ہم کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ خالق کا مطلوب ہمارے بارے میں کیا تھا۔ شہادت یا دعوتی مشن کو قرآن میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، مثلاً تبلیغ ( 5:67 ) یاانذار و تبشیر ( 4:165 )، وغیرہ۔
شہادت کا لفظی مطلب گواہی دینا (to witness) ہے۔ شہادت اور دعوت دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے لیکن شہادت کے لفظ میں مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی دعوت کے کام کو اس طرح کامل صورت میں انجام دینا کہ آدمی کا پورا وجود دعوت کا مکمل اظہار بن جائے۔
یہی شہادت ہے۔ شہادت کا یہ تصور قرآن میں اجنبی (alien)ہے کہ شہادت کے دو درجے ہیں— قولی شہادت اور عملی شہادت۔ یعنی تقریر اور تحریر سے شہادت کی ذمے داری ادا کرنا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ مکمل نظام قائم کرکے لوگوں کے سامنے اس کا عملی مظاہرہ کیا جائے۔ یہ نظامی تصورِ شہادت نہ قرآن میں کہیں مذکور ہے، اور نہ پیغمبروں میں سے کسی پیغمبر نے اس کو انجام دیا، حتیٰ کہ پیغمبر آخر الزماں نے بھی نہیں۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ( 33:45 ) تھے ۔آپ نے بلاشبہ کامل معنوں میں شہادتِ حق کا کام انجام دیا۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کہ مکمل نظام کا عملی مظاہرہ کرکے شہادت کا فریضہ انجام دیں، نہ مکی دور میں نہ مدنی دور میں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہادت کا یہ کام ، ایک ایسا کام ہے جس کو ـ’’ قول‘‘ کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ داعی کامل معنوں میں ناصح اور امین ( 7:68 ) ہو۔ یعنی مدعو کی نسبت سے کامل خیرخواہ(well-wisher)، اور اللہ کی نسبت سے کامل امانت دار (honest)۔
شہادت کا تصور
قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف مشتقات کی صورت میں 160 بار آیا ہے۔ہر جگہ وہ گواہی (witness) کے معنی میں ہے۔ قرآن میں شہادت کا لفظ مختلف نسبت کے ساتھ استعمال ہوا ہے، لیکن ہر بار وہ اسی گواہی کے مفہوم میں آیا ہے، کسی اور مفہوم میں نہیں۔
قرآن کے مطابق ، پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے اوپر اللہ کا گواہ بنے۔ وہ پر امن فکری جدوجہد کے ذریعے لوگوں کو بتائے کہ اللہ نے ان کو کس لیے پیدا کیا ہے۔ اور آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ ہر پیغمبر کا مشترک مقصد یہی تھا، اور ہر پیغمبر نے شہادت کے اس عمل کو مکمل طور پر غیر سیاسی انداز میں انجام دیا۔
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن کارِنبوت بدستور باقی ہے۔ خاتم النبیین کے بعد تمام انسانی نسلوں کے لیے بھی یہی مطلوب ہے کہ ان کو پیغمبر کی نیابت میں اللہ کا پیغام بدستور پہنچایا جائے، اور قیامت تک پہنچایا جاتا رہے۔ یہ کام بعد کے زمانے میں امتِ محمدی کو انجام دینا ہے۔ یہ گویا نبی کے بعد نبی کے کارِ شہادت کا تسلسل ہے۔ اس عمل کی درست ادائیگی کی شرط یہ ہے کہ اس کو امانت اور خیرخواہی ( 7:68 ) کی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے۔
امانت یہ ہے کہ اصل پیغامِ خداوندی میں کسی اور چیز کی ملاوٹ نہ کی جائے۔ اور نصح یہ ہے کہ اس کام کویک طرفہ خیرخواہی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ تاکہ مخاطب کے لیے انکار کا کوئی معقول سبب باقی نہ رہے۔
امتِ وسط
امتِ محمدی کی اس ذمے داری کو قرآن کی سورہ نمبر 2میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (البقرۃ: 143 )۔ یعنی اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا:
Thus We have made you a middle nation, so that you may act as witnesses for mankind, and the Messenger may be a witness for you.
امت ِ وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle ummah) ہے۔ یعنی امتِ محمدی کی حیثیت خاتم النبیین اور بعد کی انسانی نسلوں کے درمیان بیچ کے نمائندہ کی ہے۔ اللہ کے دین کو خاتم النبیین سے لینا اور اس کو بعد کی نسلوں تک کسی اجرت کی امید کے بغیر قیامت تک پہنچاتے رہنا۔ اس پہنچانے کا مطلب صرف اعلان (announcement) نہیں ہے۔ بلکہ ضروری ہے کہ اس کو قول بلیغ ( 4:63 ) کی زبان میں پہنچایا جائے۔ یعنی ایسے اسلوب میں جو لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
قرآن کی اس تعلیم کے مطابق موجودہ دنیا ہمیشہ کے لیے دارالدعوۃ ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے مطابق نبوت محمدی اور دوسرے انسانوں کے درمیان جو نسبت ہے وہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ امت کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے انسانوں کی حیثیت مشہود( 85:3 )کی ۔ اس نسبت کو دوسرے الفاظ میں داعی اور مدعو کی نسبت کہا جاسکتا ہے۔
امت محمدی کی اس دعوتی ذمے داری کو حدیث میں ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: المؤمنون شہداء اللہ فی الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2642)۔ یعنی اہل ایمان زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ شہادت کا یہ کام خالص پیغمبرانہ طریقے پر انجام دینا ہے۔ یہ ایک خدائی کام ہے جس میں کسی سیاسی یا قومی یا مادی مقصد کو شامل کرنا ہرگز جائز نہیں۔ اس کام میں کسی اور مقصد کو شامل کیا جائے تو وہ قرآن کے الفاظ میں رکون ہوگا جو انسان کو اللہ کے یہاں سخت مواخذہ کا مستحق بنا دیتا ہے۔وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَاۗءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ( 11:113 ) یعنی ان کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیاورنہ تم کو آگ پکڑ لے گی اور اللہ کے سوا تمھارا کوئی مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاؤگے-
دعوت قولِ بلیغ کی زبان میں
شہادت یا دعوت کا یہ کام ایک ابدی قسم کا پیغمبرانہ مشن ہے۔ اس کو ہر زمانے میں مسلسل طور پر انجام دینا ہے۔ اس مشن کا اصل پیغام تو ہمیشہ ایک ہی رہے گا۔ لیکن زمانی تبدیلیوں کے اعتبار سے اس کی ادائیگی میں فرق ہوتا رہے گا۔ شہادت یا دعوت کے اس عمل کی ادائیگی کو موثر بنانے کے لیے اس طرح انجام دینا ہوگا کہ وہ ہرزمانے کے ذہن کو ایڈریس کرسکے۔ اس زمانی رعایت کے بغیر حجت کی شرط پوری نہیں ہوسکتی، جو کہ اس کام کی حسن ادائیگی کی لازمی شرط ہے۔
دعوت دورِ تعقل میں
دعوت یا شہادت کا یہ پیغمبرانہ مشن سفر کرتے ہوئے، اب پندرھویں صدی ہجری (اکیسویں صدی عیسوی ) میں داخل ہوچکا ہے۔ موجودہ زمانہ کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے۔ اب ضروری ہے کہ جدید ذہن (modern mind) کی نسبت سے اس کو عقلی طور پر مدلل صورت میں پیش کیا جائے۔ اس کے بغیر مطلوب معیار پر اس کام کی انجام دہی نہیں ہوسکتی۔
شہادتِ اعظم
بعد کے دور میں شہادت کا یہ دعوتی عمل عالمی سطح پر مزید اضافے کے ساتھ انجام پائے گا۔ اس دعوتی واقعے کو حدیث میں شہادت اعظم کہا گیا ہے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دور آئے گا جب کہ شہادت علی الناس یا دعوت الی اللہ کے اس کام کو حجت (reason) کی سطح پر انجام دینا ضروری ہوگا۔ اس وقت امت کے جو افراد وقت کے استدلالی معیار پر اس دعوتی کام کو انجام دیں گے، وہ اللہ کے یہاں بہت بڑے درجے کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس دور میں اللہ کے جو بندے اس کام کو اس کے مطلوب معیار پر انجام دیں گے، ان کے لیے حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہذا أعظم الناس شہادةً عند رب العالمین (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2938)۔ یعنی یہ اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر سب سے بڑی شہادت (دعوت) ہوگی۔
شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تھا جو اوپر بیان کیا گیا۔ اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے، اس کے لیے معروف لغوی لفظ قتل استعمال ہوتا تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتٌ ( 2:154 )۔ یعنی اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں ان کو مردہ مت کہو-اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے میں جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے۔ لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر ہوگا تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوۂ احد پیش آیا۔
اس جنگ میں صحابہ میں سے ستر آدمی مارے گیے۔ صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے: أنس بن مالک أنہ قال: قُتِل منہم یوم أحُد سبعون (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4078)۔ یعنی حضرت انس کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحابِ رسول میں سے ستر آدمی قتل ہوئے۔
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ اسلام میں مستند زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تھا۔ بعد کے زمانے میں دھیرے دھیرے ایسا ہوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بھی تبدیلی آئی۔ یہاں تک کہ دھیرے دھیرے یہ حال ہوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف ہوگیا۔ اس کے بجائے، شہادت اور شہید کا لفظ جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام ہوگیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا۔مثلا حسن البنا شہید، سیدقطب شہید، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، وغیرہ۔ اصحابِ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساتھ جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا لیکن کسی کے نام کے ساتھ شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا۔ مثلا َ عمر بن الخطاب شہید، عثمان بن عفان شہید، علی ابن ابی طالب شہید، سعد بن معاذ شہید، وغیرہ۔ صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساتھ لکھا اور بولا گیا، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساتھ۔ جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج ہوا۔ چناں چہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچھ روایات کے اوپریہ باب قائم کیا ہے: باب لا یقول فلان شہید (کتاب الجہاد والسیر)
یہ سادہ بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساتھ پکارا جائے: اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗىِٕہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ( 33:5 )یعنی ان کو ان کی آبائی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ نام کے ساتھ شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا،اشخاص کے بارے میں غیر واقعی ذہن بنانے والا عمل ہے۔ یہ طریقہ اسلامی آداب کے مطابق نہیں۔
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجودہ زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج ہوا، اس کا اصل سبب یہی ہے۔ جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک ہوتے ہیں، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فوراً جنت میں داخل ہو گیے۔
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات (colonialism) کے دور میں رائج ہوا۔ اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا۔ اس کے بعداس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندرعام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوگیا۔ یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری ہوا۔ اس کے بعدبتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کر لی۔
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں، وہ شہید ہوں گے، اور بلا حساب کتاب فورا جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تھا، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردعمل کی آخری تباہ کن صورت وہ ہے جو موجودہ زمانے میں خودکش بمباری (suicide bombing) کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچھ علماء کی طرف سے غلط طور پراس کو استشہاد (طلبِ شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ لیکن شہادت کا اصل کام ، دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں، نہ مسلم علماء کے اندر، نہ مسلم عوام کے اندر۔ شہادت کے اس خودساختہ تصور کے تحت وہ جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں، وہ ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔
سنتِ یہود کی پیروی
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ امتِ محمدی بعد کے زمانے میں ضرور یہود کی کامل اتباع کرے گی: لتتبعُنَّ سَنَنَ من کان قبلَکم ، شبرًا بشبرٍ وذراعًا بذراعٍ ، حتى لو دخلوا جُحْرَ ضبٍّ تبعتُمُوہم. قلنا : یا رسولَ اللہِ ، الیہودُ والنصارى ؟ قال : فمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یہ سادہ طورپریہودکی اتباع کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ دراصل ایک قانونِ فطرت کا معاملہ ہے، جس کو قرآن میں طول امدکے نتیجے میں قساوت کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ ۭ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ ( 57:16 ) یعنی لمبی مدت گزرنے کی بنا پر بعد کی نسلوں میں زوال آنا، اور زوال کی بنا پر ان کے اندر مختلف قسم کے بگاڑ کا پیدا ہوجانا۔
سنتِ یہود کی پیروی کی سب سے زیادہ سنگین صورت وہ ہے جو شہادت (witness) کے معاملے میں واقع ہوئی۔ یہود کو اللہ نے اپنے دین کا گواہ (witness) بنایا تھا۔ اس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیا ہے: خداوند فرماتا ہے تم میرے گواہ ہو، اور میرے خادم بھی جسے میں نے منتخب کیا تاکہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاؤ، اور سمجھو کہ میں وہی ہوں۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا (یسعیاہ، 43:10 )
You are My witnesses, declares the Lord, and My servant whom I have chosen, so that you may know and believe Me and understand that I am He. Before Me no god was formed, nor will there be one after Me. (Isaiah 43:10)
یہود پربعد کے زمانے میں جب زوال آیا تو انھوں نے خدا کے دین کی گواہی کی اس ذمے داری کو عملاً چھوڑدیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر ان کے اندر قومی ذہن پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر وہ نفسیات پیدا ہوگئی جس کو یہود کی تاریخ میں یہودی احساسِ برتری (Jewish supremacism)کہا جاتا ہے۔
چناں چہ ان کی دلچسپی تمام تر اپنی قوم تک محدود ہوگئی ، وہ دوسرے انسانوں کے خیرخواہ نہ رہے۔ بلکہ دوسروں کو عمومی طور پر انھوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا۔کیوں کہ وہ قوم یہود کی خود ساختہ برتری کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے دینِ خداوندی کی گواہی کے کام کو چھوڑدیا، او ر اس کے بجائے دوسرے قومی کاموں میں مشغول ہوگیے۔ مگر اسی کے ساتھ خود پسندی (self-righteousness)کے جذبہ کی بنا پر یہ ظاہر کرتے رہے کہ وہ اب بھی اپنے پیغمبر موسیٰ کے بتائے ہوئے دین پر قائم ہیں۔
یہود کے اس معاملے کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَإِذْ أَخَذَ اللَّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُونَہُ فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِمْ وَاشْتَرَوْا بِہِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ یَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ( 3:187-88 )-
ترجمہ: جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم خدا کی کتاب کو پوری طرح لوگوں کے لیے ظاہر کرو گے اور اس کو نہیں چھپاؤ گے۔ مگر انھوں نے اس کو پس پشت ڈال دیا اور اس کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالا۔ کیسی بری چیز ہے جس کو وہ خرید رہے ہیں ۔ جو لوگ اپنے اس عمل پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کام انھوں نے نہیں کئے اس پر ان کی تعریف ہو، ان کو عذاب سے بَری نہ سمجھو۔ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
دورِ جدید کے مسلمانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ اس معاملے میںکامل طور پر یہود کے متبع بن چکے ہیں۔ انھوں نے دعوت الی اللہ کے کام کو عملاً چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بجائے وہ دوسرے قومی کام انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کاموں کو وہ غلط طور پر دعوت کا کام بتاتے ہیں۔ انھوں نے شہادت کے تصور کو بدل کر جانی قربانی (martyrdom) کے معنی میںلے لیا۔ وہ قومی سیاست (communal politics) میں مشغول ہیں۔ اس خودساختہ عمل میں جب ان کے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دے کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دعوت اور شہادت کا مطلوب کام انجام دے رہے ہیں۔
انسان کوئی کام نفسیاتی محرک کے تحت کرتا ہے۔ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لیےدوسروں کے ساتھ خیرخواہی کی اسپرٹ ضروری ہے۔ مگر دورِ زوال میں مسلم برتری (Muslim supremacism) کا ذہن جو مسلمانوں میں آیا اس کے نتیجے میں وہ دوسری قوموں کو کم تر اور اپنا حریف سمجھنے لگے۔ اس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ ان کے اندر باقی نہ رہا۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طور پر اسی قومی نفسیات کے شکار ہیں۔
یہی سب سے بڑی وجہ ہے، جس نے ان سے دعوت الی اللہ کا جذبہ چھین لیا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان بظاہراپنی سرگرمیوں کو’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔لیکن وہ جوکچھ کررہے ہیں، اس کا نظامِ مصطفیٰ سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ طریقہ عین اسی طریقے کی اتباع ہے جس کو قرآن میں زوال یافتہ یہود کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یعنی یُحِبُّونَ أَنْ یُحْمَدُوا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا( 3:188 )- قرآن کے یہ الفاظ موجودہ زمانے کے مسلمانوں پر پوری طرح صادق آرہے ہیں۔ وہ اپنی قومی سرگرمیوں پر دعوت اور شہادت کا ٹائٹل لینا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ کے قانون کے مطابق ایسا کبھی ہونے والانہیں۔ اس قسم کی روش بلاشبہ قابلِ مواخذہ ہے نہ کہ قابلِ انعام۔
خود کش حملہ
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندران کی زوال یافتہ قومی نفسیات کے تحت ایک ایسا ظاہرہ پیدا ہوا ہے جو غالباً تحلیلِ حرام (یسمّونہا بغیر اسمہا فیستحلونہا:سنن الدارمی،حدیث نمبر2145) کی سنگین ترین صورت ہے، اور وہ ہے خودکش بمباری (suicide bombing)۔ یعنی مفروضہ دشمن کو ہلاک کرنے کے لیے اپنے آپ کو بم سے اڑا دینا۔
یہ طریقہ بلاشبہ نص شرعی کے مطابق ایک حرام فعل ہے۔ کچھ علماء نےبطورِ خود، خود کش بمباری کے اس فعل کو استشہاد (طلبِ شہادت) کہہ کر جائز قرار دیا ہے۔ مگر اس قسم کا استدلال گناہ پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا کوئی بھی خود ساختہ فتویٰ خودکش بمباری جیسے صراحتاً ناجائز فعل کو جائز قرار نہیں دے سکتا۔
ایک حدیث اس معاملے میں قطعی حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے، مثلا صحیح البخاری (حدیث نمبر3062)، صحیح مسلم (حدیث نمبر 112 )، مسندامام احمد (حدیث نمبر8090) ، وغیرہ۔ ان مختلف روایتوں کے الفاظ تقریباً یکساں ہیں۔روایت کے مطابق، صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ ہمارے ساتھ ایک شخص تھا جو ایمان لاچکا تھا۔ اس کا نام قزمان تھا۔ جنگ ہوئی تو یہ شخص شدید طور پر لڑا۔ لوگ اس کی بہادری کی تعریف کرنے لگے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کہا کہ وہ اہل جہنم میں سے ہے(إنّہ من أہل النّارِ)۔ لوگوں کو آپ کے اس قول پر یقین نہیں ہوا۔ آپ نے کہا کہ جاکر اس کی تحقیق کرو۔ جب لوگوں نے اس کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جنگ میں وہ شدید طور پر زخمی ہوگیا تھا۔پھر زخموں کی تاب نہ لاکر اس نے اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے ہلاک کرلیا( فقَتل نفْسہ)۔ اس کے بعد آپ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایاکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں خودکشی مطلق حرام کی حیثیت رکھتی ہے۔حتی کہ کوئی شخص بظاہر پیغمبر کا ساتھی ہو، اور وہ غزوہ میں لڑ کر بہادری دکھائے لیکن آخر میں وہ اپنے آپ کو خود اپنے ہتھیار سے مارکر اپنا خاتمہ کرلے تب بھی اس خودکشی کی بنا پر اس کی موت، حرام موت قرار پائے گی۔ کسی بھی عذرکی بنا پر اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اگر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے، اور وہ لڑتے ہوئے مارے جائیں تو یہ جائز ہے۔ لیکن قصداً اپنے جسم کے ساتھ بم باندھنا، اور مفروضہ دشمنوں کے درمیان جاکر بم کا دھماکا کر دینا، جس میں وہ آدمی خود بھی مرے، اور دوسرے بھی مارے جائیں۔ یہ طریقہ صراحتاً خود کشی کا طریقہ ہے، اور وہ یقینی طور پراسلام میں ناجائز ہے۔ اہل ایمان کے لیے حملے کے خلاف جنگ کرنا جائز ہے۔ اور اگر وہ مقابلہ کرنے کی حیثیت میں نہ ہوں تو اس کے بعد ان کے لیے کرنے کا جو کام ہے، وہ صبر ہے، نہ کہ خود کش حملہ۔ مگراس معاملے میں موجودہ مسلمانوں کا آبسیشن (obsession) اتنا بڑھا ہوا ہے کہ کوئی اس پر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔
بے فائدہ جنگ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: عن أبی ہریرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم: والذی نفسی بیدہ لا تذہب الدنیا، حتى یأتی على الناس یوم لا یدری القاتل فیم قَتَل، ولا المقتول فیم قُتِل۔ فقیل: کیف یکون ذلک؟ قال: الہرج، القاتل والمقتول فی النار(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2908) ۔ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، دنیا ختم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا، جب کہ قاتل یہ نہیں جانے گا کہ اس نے کیوں قتل کیا، اور مقتول یہ نہیں جانے گا کہ اس کو کیوں قتل کیا گیا۔کہا گیا کہ ایسا کیوں کر ہوگا۔آپ نے فرمایا کہ ایسا ہرج (بے معنی قتل وقتال)کے زمانے میں ہوگا۔ قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔
ہرج کا مطلب شارحین حدیث نےبتایا ہے :شدۃ القتل و کثرتہ (عمدۃ القاری،جلد نمبر7،صفحہ نمبر 58 )۔یعنی قتل و قتال کی شدت اور کثرت۔اس قسم کے مجنونانہ قتل وقتال کی صورت کسی گروہ میں کب پیش آتی ہے ۔جب وہ گروہ قوم پرستی میں دوسروں کے خلاف اندھی دشمنی تک پہنچ جائے۔ یہی موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال ہے۔ ان کے اندر آخری حد تک یہ ذہن پیدا ہوگیا ہے کہ انھوں نےقومی حمایت میں دوسروں کو اپنا ابدی دشمن سمجھ لیا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دوسری قومیں ان کے خلاف ہر وقت سازش میں مصروف رہتی ہیں۔ اس خود ساختہ سوچ کی بنا پردوسری قوموں کے خلاف ان کے دل میں جنون کی حد تک نفرت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوگیا ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر تشدد (violence) کا جو انتہاپسندانہ ظاہرہ دکھائی دیتا ہے، وہ اسی کا نتیجہ ہے۔ وہ نہ صرف دوسری قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے ہیں،بلکہ خود ان مسلمانوں کے خلاف بھی ، جن کے بارے میں وہ یہ فرض کرلیں کہ وہ ان کے دشمنوں کے حامی ہیں۔
موجودہ زمانے میں یہ حال ہے کہ مسلمانوں کے مختلف ٹیررسٹ (terrorist) گروپ بن گیے ہیں۔ وہ مختلف مقامات پر قتل و قتال کا ہنگامہ جاری کیے ہوئے ہیں،حتی کہ اسکول کے بچوں، مسجد کے نمازیوں، اور قبرستان کے سوگوار افراد پر بھی۔ قتل و قتال کا یہ اَن جسٹیفائڈ (unjustified) ہنگامہ اتنا زیادہ ہے، جیسے کہ ان لوگوںنے قتال برائے قتال کو خود ایک مطلوب کام سمجھ لیا ہے۔ خواہ اس کے لیے ان کے پاس کوئی معقول سبب (justified reason)موجود نہ ہو۔
مسئلہ کا حل
امت مسلمہ کے اندر یہ جو سخت نامحمود صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، اس کا حل صرف یہ ہے کہ ان کو صحیح آئڈیالوجی دی جائے۔ یہ لوگ اسلام کے بارے میں غلط آئڈیالوجی کے شکار ہیں۔ اس کی اصلاح صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ ان کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر درست آئڈیالوجی سے واقف کرایا جائے۔اس سے کم درجے کی کوئی چیز اس صورتِ حال کی اصلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔
مثلاً ان لوگوں کو اس فطری حقیقت سے باخبر کرنا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ( 41:34-36 )۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہو گیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں ، اور یہ بات اسی کو ملتی ہے جو بڑا نصیب والا ہے۔ اور اگر شیطان تمھارے دل میں کچھ وسوسہ ڈالے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ بےشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔
قرآن کی اس آیت کے مطابق، انسانوں کے درمیان جو تفریق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ ہمارے دوست ہیں اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ۔ بلکہ صحیح تفریق یہ ہے کہ کچھ لوگ ہمارے واقعی دوست (actual friends) ہیں، اور کچھ لوگ ہمارے امکانی دوست (potential friends)۔ یہ فطرت کا قانون ہے۔
اس کے مطابق اہل ایمان کو یہ کرنا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا دشمن نہ سمجھیں، بلکہ بلاتفریق ہر ایک کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں— یہی دعوہ اسپرٹ ہے، اور اسی کا نام دعوت الی اللہ ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کو قرآن کی وہ آیت یاددلاناہے، جس میں قتل کی برائی کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا ( 5:32 )۔جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔
اسی طرح ان لوگوں کو یہ بتانا کہ مسلمان کا مسلمان کو مارنا قرآن کے مطابق ایک جہنمی فعل ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَمَنْ یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیہَا وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیمًا ( 4:93 )۔ اور جو شخص کسی مومن کو جان کر قتل کرے تو اس کی سزاجہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
پیغمبر ِ اسلام کی آخری وصیت
آج شدید ضرورت ہے کہ پیغمبر اسلام کے اس انتباہ کو تمام دنیا کے مسلمانوں کو یاد دلایا جائے جو آپ نے اپنے آخری زمانے میں حجۃ الوداع کے موقع پردیا تھا۔ صحیح البخاری کی روایت کے مطابق اس کے الفاظ یہ ہیں: عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، أن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم خطب الناس یوم النحر فقال: یا أیہا الناس أی یوم ہذا؟، قالوا: یوم حرام، قال: فأی بلد ہذا؟، قالوا: بلد حرام، قال: فأی شہر ہذا؟، قالوا: شہر حرام ، قال: فإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ہذا، فی بلدکم ہذا، فی شہرکم ہذا، فأعادہا مرارا، ثم رفع رأسہ فقال: اللہم ہل بلغت، اللہم ہل بلغت - قال ابن عباس رضی اللہ عنہما: فوالذی نفسی بیدہ، إنہا لوصیتہ إلى أمتہ، فلیبلغ الشاہد الغائب، لا ترجعوا بعدی کفارا، یضرب بعضکم رقاب بعض (صحیح البخاری، حدیث نمبر1739)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا۔ آپ نے کہا کہ اے لوگو، آج کون سا د ن ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ یومِ حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ شہر حرام ہے۔پھر آپ نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے- لوگوں نے کہا کہ یہ حرام کا مہینہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سن لو کہ تمھارا خون، تمھارے مال ، اور تمھاری عزت تمھارے اوپر حرام ہے، جیسا کہ آج کا دن حرام کا دن ہے، اور تمھارے اس شہر میں، اور تمھارے اس مہینے میں۔ آپ نے یہ کلمات بار بار فرمائے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا، اور فرمایا کہ اے اللہ کیا میں نے پہنچادیا، اے اللہ، کیا میں نے پہنچادیا ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بے شک یہ آپ کی وصیت ہے اپنی امت کے لیے، پس جو حاضر ہے وہ ان کو پہنچادے جو حاضر نہیں ہے، ( پھرابن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ذکر کیا) تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہوجا نا کہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔
امت کے لیے کرنے کا کام
موجودہ زمانے میں امت مسلمہ عام طور پر منفی ذہن میںمبتلا ہوگئی ہے۔ یہ صرف ان کی زوال یافتہ نفسیات کی بنا پرہے۔ اپنی منفی سوچ کے تحت وہ دوسری قوموں کو اپنے دشمن کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں۔ کچھ لوگوں کے اندر یہ مزاج سوچ کی حدتک ہے، اور کچھ لوگ اپنی اس سوچ کے تحت قتل و قتال میں مشغول ہیں۔ یہ بلاشبہ وہی خطرناک علامت ہے، جس کی طرف احادیث میں پیشگی طور پر باخبر کیا گیا تھا۔
آج فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے افراد اپنے اندر مثبت ذہن (positive thinking) پیدا کریں۔ وہ دوسری قوموں کو دشمن سمجھنے کا مزاج کلی طور پر ختم کردیں۔ آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے کہ ان کی حیثیت ایک قوم کی نہیں ہے، بلکہ ایک اصولی گروہ کی ہے۔ ان کا مشن صرف ایک ہے، اور وہ پرامن دعوت الی اللہ ہے۔ اس کام کو انھیںیک طرفہ خیرخواہی کے تحت انجام دینا ہے۔ اگر دوسرے لوگ ان کے خیال کے مطابق ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کریں تب بھی انھیں اس قسم کی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئےیک طرفہ طور پر لوگوں کا خیرخواہ بننا ہے، اور ان کو اللہ کا وہ پیغام پہنچا نا ہے جو ان کے پاس قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس کے سوا کوئی بھی دوسرا عمل ان کو آخرت کی پکڑ سے بچانے والا نہیں۔
اسلام کے نام پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے درمیان جو متشددانہ سرگرمیاں جاری ہوئیں، ان پر اب ایک صدی سے زیادہ مدت گزرچکی ہے۔ لیکن ان کی یہ سرگرمیاں ہر محاذ پر نتیجے کے اعتبار سے ناکام ہوگئیں۔ وہ مسلمانوں کے حق میں کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive)ثابت ہوئیں۔ ان متشددانہ سرگرمیوں کا یہ منفی انجام بتاتا ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو اللہ کی مدد حاصل نہیں۔ اگر اس معاملے میںان کو اللہ کی مدد ملتی تو وہ ضرور کامیاب ہوتے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی سرگرمیوں پر نظر ثانی کریں۔ وہ تشدد کا طریقہ یک لخت چھوڑ دیں، اورپر امن دعوتی عمل (peaceful dawah work) میں مصروف ہوجائیں۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جو مسلمانوں کو اللہ کی رحمت کا مستحق بنا سکتا ہے۔ (یہ مضمون کتابچہ کی شکل میں بھی شائع ہوچکا ہے)
واپس اوپر جائیں