فہم قرآن
فہم قرآن کی کلید (key) کیاہے، اس کے بارے میں اہلِ علم نے کئی باتیں لکھی ہیں- مثلاً کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے پندرہ علوم کا جاننا ضروری ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت شان نزول کی روایات کی ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ سب سے اچھا طریقہ تفسیر، تفسیر القرآن بالقرآن ہے- کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن فہمی کے لئے سب سے زیادہ اہمیت نظم (order)کی ہے، نظم بین الآیات، نظم بین السور- ان کے نزدیک نظم قرآن کو جاننا ہی قرآن فہمی کی اصل کلید (master key)ہے-
مگر ان میں سے ہر بات صرف جزئی طورپر درست ہے، نہ کہ کلی طورپر- اصل یہ ہے کہ قرآن فہمی کی دو سطحیں (levels) ہیں- ایک ہے قرآن، اوردوسری چیزہے تطبیقی قرآن (applied Quran)- قرآن فہمی کی پہلی سطح یہ ہے کہ بوقت نزول، قرآن کے معاصرین کے لئے اس کا مفہوم کیا تھا- قرآن فہمی کی دوسری سطح یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی تطبیقی معنویت (applied meaning) کیا ہے-
قرآن فہمی کی مذکورہ تمام شرطیں صرف سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کے فہم (understanding) میں مددگار ہوسکتی ہیں- مگر جہاں تک قرآن فہمی کی دوسری سطح کا معاملہ ہے، یعنی عصر حاضر کی نسبت سے قرآن کی تطبیقی معنویت، اس اعتبار سے تمام شرطیں بالکل ناکافی ہیں- سطحِ اول کے اعتبار سے قرآن کو جاننے کا فائدہ صرف یہ ہےکہ آدمی کے لئے قرآن تاریخی اعتبار سے ایک قابل فہم کتاب بن جائے- مگر جہاں تک عصر حاضر کی بات ہے، اس اعتبار سے آج کے انسان کو قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ملے گی- وہ عقیدہ کی حد تک قرآن کو مانے گا، لیکن زمانے کی نسبت سے قرآن کو اپنے لئے ایک زندہ رہنما (living guide) بنانا اس کے لئے ممکن نہ ہوگا- حالاںکہ قرآن کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ ابدی طور پرہر انسان کے لئے ایک رہنما کتاب ہے-
اس معاملے کی ایک مثال قرآن کی سورہ یوسف ہے- اس قصہ کو اللہ تعالی نے احسن القصص (best story)کہاہے- اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس سورہ میں کوئی غیر معمولی بات بتائی گئی ہے-
عربی زبان اور دوسری زبانوں میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں، ان میں سورہ یوسف کے بارے میں کافی بحث موجود ہے- لیکن یوسف کا قصہ احسن القصص کیوں ہے، اس پر کسی تفسیر میں کوئی واضح رہنمائی نہیں ملتی- عقل کا تقاضا ہےکہ جب یوسف کا قصہ احسن القصص ہے تو اس کا احسن ہونا صرف گزرے ہوئے ماضی کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا، ضروری ہے کہ زمانہ حاضر کے اعتبار سے اس میں کوئی احسن رہنمائی موجود ہو-
اس پہلو سے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ میں احسن القصص کا لفظ حقیقتاً احسن منہج (best method) کے معنی میں ہے، یعنی طریقہ کار کا بہترین نمونہ- حضرت یوسف کا قصہ قرآن اور بائبل دونوں میں آیا ہے- دونوں کے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں بادشاہت کا نظام تھا- اس زمانے میں زراعت کسی حکومت کا سب سے بڑا شعبہ ہوتا تھا- اس وقت کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ پولیٹکل اتھاریٹی کے اعتبار سے وہ تخت پر رہے، اور حکومت کا نظام حضرت یوسف کے سپرد کردے- قرآن میں یہ بات اس طرح کہی گئی ہے کہ مصر میں دین ملک (law of the land) بدستور بادشاہ کا ہو، اور خزائن ارض (ملک مصر کا زرعی نظام) حضرت یوسف کے ہاتھ میں رہے- اس معاملے کو بائبل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:
فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا-
Only in regard to the throne will I be greater than you. (Genesis: 41/40)
حضرت یوسف کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے- اس زمانے کا مصری بادشاہ اس پر راضی ہوگیا کہ قانونی اعتبار سے پولیٹکل اتھاریٹی (political authority) کا درجہ اس کو حاصل ہو، اور نان پولیٹکل (non-political) دائرے میں زمین کا انتظام حضرت یوسف کے ہاتھ میںرہے- یہ گویا پولیٹکل سیٹلمنٹ (political settlement) کا ایک معاملہ تھا،جس میں تخت پر تو بادشاہ بیٹھا ہوا تھا، لیکن جہاں تک ملکی انتظام کا معاملہ ہے، وہ عملاً حضرت یوسف کے ہاتھ میں دے دیا گیا ( 12:56 ) -
حضرت یوسف کو مصر میں یہ مواقع ایک بادشاہ کے ذاتی مزاج کی بنا پر شخصی طورپر حاصل ہوئے تھے- اب تطبیقی تفسیر کے اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانے میں یہ مواقع خود زمانی تبدیلی کی بنا پر تمام اہل ایمان کو عمومی طورپر حاصل ہوگئے ہیں- جدید جمہوری تصور کے مطابق کوئی حاکم (ruler) صرف چند سال کے لئے ہوتا ہے- موجودہ زمانے میں حکومت کی حیثیت اصولاً انتظام (administration) کے ادارے کی ہوتی ہے- انتظامی دائرے کے باہر کے تمام شعبے بشمول مذہبی تبلیغ، آزاد شعبے کی حیثیت رکھتے ہیں- ہر فرد کو حق ہے کہ وہ تمام غیر حکومتی شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے پرامن طریقہ (peaceful method) اختیار کرے، وہ کسی کے خلاف ٹکراؤ کا معاملہ نہ کرے، نہ عام شہری کے خلاف اور نہ حکومت کے خلاف-
گویا کہ زمانی تبدیلی کے نتیجے میں اب احسن القصص کی حیثیت ایک عالمی اصول کی ہوگئی ہے- یہ اس سورہ کی تطبیقی تفسیر ہے- اس تفسیر کی روشنی میں سورہ یوسف آج کے انسان کے لئے ایک رہنما سورہ بن جاتی ہے- یہی طریقہ پورے قرآن کے لئے مطلوب ہے- اس طرح قرآن آج کے انسان کے لئے ایک رہنما کتاب بن جاتا ہے جب کہ مذکورہ تفسیری اصولوں کی روشنی میں قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن ماضی کی ایک گزری ہوئی کہانی کی مانند نظر آئے گا-
واپس اوپر جائیں