ذاتی عقل، علمی عقل
2 مارچ 2009 کو نئی دہلی کے انٹرنیشنل سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا- اِس سیمنار میں جدید تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے- اس کا موضوع آزادی اظہار رائے (freedom of expression) تھا- اِس موضوع کے تحت، اِس سیمنار میں حسب ذیل سوال پر مذاکرہ ہوا:
Is Quran subject to Rational Scrutiny?
سیمنار کی دعوت پر راقم الحروف نے بھی اس میں شرکت کی- میںنے دیکھا کہ کانفرنس کے تمام شرکاء پرجوش طورپر اِس نظریے کی وکالت کررہے ہیں کہ قرآن کوئی منزَّہ عن الخطاء کتاب (infallible book) نہیں ہے- ہم کو یہ حق ہونا چاہئے کہ ہم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن پر فکری تنقید کرسکیں-
اِس مذاکرہ اور اِس قسم کے دوسرے مذاکروں میں شرکت کے بعد میرا احساس یہ ہے کہ لوگ عقل (reason) کا لفظ تو بہت بولتے ہیں، لیکن لوگوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ عقل کے حدود کیا ہیں اور عقل کے استعمال سے کیا مراد ہے- اصل یہ ہے کہ عقل کے استعمال کی دو صورتیں ہیں- ایک ہے، ذاتی عقل (personal reason) کے تحت بولنا- اور دوسرا ہے، علمی طورپر ثابت شدہ حقائق کی روشنی میں عقل کا استعمال کرنا- علمی اعتبار سے ذاتی عقل کی کوئی اہمیت نہیں، عقل کا صرف وہی استعمال درست ہے جو ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر کیاگیا ہو:
One's reason is only the capacity to understand. Reason itself is not an authority. The scientific method in this regard is that if one has some idea, one has to examine it on the basis of scientifically established facts. Only after this, one's idea will be regarded as correct. Otherwise, it is simply personal reason or pure reason. In this sense, reason is of two kinds:
1. Reason verified by scientific facts.
2. Reason unsupported by such verification.
مذکورہ سیمنار میں، میںنے یہ بات کہی تو وہاں کوئی شخص اس کو رد نہ کرسکا- تاہم ایک صاحب نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی عقل سے کوئی رائے بنائے تو اس کی قدروقیمت کیا ہے-
What, if any, is the validity of reason unsupported by scientific verification?
میں نے کہا کہ محض ذاتی عقل کی بنیاد پر جورائے قائم کی جائے، وہ دوسروں کے لئے ناقابلِ قبول ہوگی- کسی شخص کی ذاتی رائے دوسروں کے لئے اسی وقت قابلِ قبول ہوسکتی ہے جب کہ وہ ثابت کرے کہ اس کی رائے مسلّمہ علمی بنیاد پر قائم ہے:
Personal reason unsupported by scientific data is invalid. If one wishes to follow his personal reason, he may do so. But he certainly should not expect that others will subscribe to such kind of thought. If you want to convince others you will have to substantiate your personal views on the basis of scientifically established data.
قرآن کی صداقت
میرے تجربے کے مطابق، قرآن کے ذیل میں ریشنل اسکروٹنی (rational scrutiny) کا لفظ ایک غیر متعلق (irrelevant) لفظ ہے- قرآن کے ذیل میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کے لیے ریشنل اسٹڈی (rational study) کا لفظ استعمال کیا جائے- قرآن نے اِس معاملے میں مطالعے کا جو اصول مقرر کیا ہے، وہ بلا شبہہ ایک علمی اصول ہے-
اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیرا ( 4:82 ) یعنی اگر یہ (قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس کے اندر بڑا اختلاف پاتے-
اِس آیت کے مطابق، قرآن کی صداقت(veracity) کو جاننے کا معیار یہ ہے کہ قرآن کے بیانات کو علمی مسلّمات (scientific facts) سے تقابل کرکے دیکھا جائے- اگر دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو تو وہ اِس بات کا ثبوت ہوگا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی صداقت عقلی معیار پر ثابت ہورہی ہے- یہی قرآن کے عقلی مطالعے کا واحد طریقہ ہے-
قرآن کے بیان کا ایک حصہ وہ ہے جس میں زمین وآسمان، یعنی فزیکل ورلڈ(physical world) کے بارے میں کچھ بیانات دئے گئے- یہ موضوع،قرآن اور سائنس کے درمیان مشترک ہے- قرآن پر عقلی غور وفکر کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ مشترک موضوعات میں قرآن نے جو حوالے دئے ہیں، وہ سائنس کے مسلمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا اُس سے ٹکرارہے ہیں- راقم الحروف نے اِس حیثیت سے تفصیلی مطالعہ کیا ہے- میں نے اپنی دوسری کتابوں (مذہب اور جدید چیلنج، عقلیات اسلام، وغیرہ) میں مثالوں کے ذریعہ یہ واضح کیا ہے کہ اِن مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان اور سائنس کے بیان میں کوئی ٹکراؤ نہیں-
یہ واقعہ قرآن کی صداقت (veracity) کا ایک عقلی ثبوت ہے- مشترک موضوعات میں قرآن کے بیان کے درست ہونے سے ہم کو یہ قرینہ (probability)ملتا ہے کہ ہم یہ قیاس کرسکیں کہ غیر مشترک موضوعات میں بھی قرآن کے بیانات درست ہیں- اِس طریقِ استدلال کو سائنس میں معقول (valid) قرار دیا گیا ہے اور اِس کو استدلال بذریعہ احتمال (argument from probability) کہاجاتا ہے، یعنی معلوم دنیا کے بارے میں قرآن کے بیانات کے درست ثابت ہونے سے یہ قرینہ ملتا ہے کہ غیر معلوم دنیا کے بارے میں بھی قرآن کے بیانات احتمالی طورپر (probably) درست ہیں- اِس اصولِ استدلال کے بارے میں مزید معلومات کے لیے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ فرمائیں-
Science and the Unseen World by Arthur Eddington
Human Knowledge by Bertrand Russell
علم کی دو قسمیں
عقل کا استعمال کسی خلا میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجودہ دنیا میں ہوتاہے جس دنیاکے اندر ہم زندگی گزارتے ہیں، مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا کی تمام چیزیں ایک قسم کی نہیں ہیں، بلکہ یہاںتنوع (diversity)پایا جاتا ہے- چنانچہ فلاسفہ نے علم کی دوقسمیں کی ہیں — چیزوں کا علم(knowledge of things)، سچائی کا علم (knowledge of truths) -
انسان کے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے جس سے وہ اِن علوم تک پہنچ سکتا ہے اور وہ عقل (reason) ہے- آدمی اپنی عقل کو استعمال کرکے دونوں قسموں کے علم تک رسائی حاصل کرسکتا ہے- انسان کےپاس ذاتی طورپر، عقل کے سوا، کوئی دوسرا ذریعہ نہیں جس سے وہ اِن علوم سے واقفیت حاصل کرسکے-
تاہم جس طرح علوم کی دو قسمیں ہیں، اُسی طرح عقل کے استعمال کی بھی دو قسمیں ہیں- جہاں تک چیزوں کو جاننے کا معاملہ ہے، اُن کے سلسلے میں مشاہدہ (observation) اور تجربہ (experience) کے ذریعہ کو استعمال کرنا ممکن ہے، طبیعی علوم (physical sciences) کے مطالعے کا دائرہ چیزیں (things) ہیں، اِس لیے طبیعی علوم میں اصلاً مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ کو استعمال کیا جاتا ہے-
اب سوال یہ ہے کہ علم کا دوسرا دائرہ، یعنی سچائیوںتک کس طرح پہنچا جائے- موجودہ زمانے کے علماءِ سائنس کا اِس پر اتفاق ہے کہ وہ چیز جس کو سچائی کہا جاتا ہے، اُس تک پہنچنے کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ استنباط (inference) ہے، یعنی مشاہداتی حقائق کے حوالے سے، غیر مشاہداتی حقائق کے علم تک پہنچنا-
بیسویں صدی کے نصف اول تک طبیعی سائنس (physical science) کی دنیا میں عام طورپر یہ سمجھا جاتا تھا کہ علم وہی ہے جو مشاہداتی ذرائع سے معلوم ہو- لیکن علم کا سفر جب عالمِ کبیر (macro world)سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچا تو یہ مفروضہ ٹوٹ گیا- اب یہ تسلیم کرلیا گیا کہ استنباط بھی علم کے حصول کا ایک ذریعہ ہے، شرط یہ ہے کہ وہ مسلّمہ علمی قواعد کی بنیاد پر کیاگیا ہو- یہی وہ مقام ہے جہاں عقلی طریقِ مطالعہ اور اسلامی طریقِ مطالعہ کا فرق ختم ہوجاتا ہے- عقلی طریقِ مطالعہ، اسلام کے مطالعے کے لیے بھی اتنا ہی مفید بن جاتا ہے جتنا کہ دوسرے علوم کے لیے-
اسلام کے عقائد کا تعلق عالمِ غیب (unseen world) سے ہے، اِس لیے بظاہر وہ عقلی مطالعے سے باہر کی چیز معلوم ہوتا ہے، لیکن استنباط کو مستندطریقِ مطالعہ ماننے کے بعد یہ فرق باقی نہیں رہتا- مثال کے طورپر وحی (revelation) کو لیجیے- اسلام کےمطابق، قرآن وحی پر مبنی ایک کتاب ہے- وحی مشاہدے سے باہر کی چیز ہے، اِس بنا پر بیسویں صدی کے نصف اول تک یہ سمجھا جاتا تھاکہ قرآن صرف ایک عقیدے کی کتاب ہے، اس کی صداقت کو عقلی بنیاد پر ثابت نہیں کیا جاسکتا- لیکن اب جب کہ استنباطی استدلال کو مستند استدلال سمجھا جاچکا ہے، اب اصولی طورپر یہ فرق باقی نہیں رہا-
قرآن میں ایسے بیانات موجود ہیں جو استنباطی اصول کے مطابق، یہ ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کا تعلق ایک ایسے ماخذ (source) سے ہے جو انسانی علم سے ماورا اپناوجود رکھتا ہے- اس معاملے کی ایک مثال وہ ہے جو قدیم مصر کے فرعون (Pharaoh Ramesses II) کے جسم سے تعلق رکھتا ہے-(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم الحروف کی کتاب ’’عظمتِ قرآن‘‘ )
واپس اوپر جائیں