جنتی تہذیب
قرآن کی سورہ یاسین میں اہلِ جنت کے ذکر کے تحت یہ الفاظ آئے ہیں: اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰکِــہُوْنَ ( 36:55 ) یعنی بے شک، اہلِ جنت آج ایک عظیم مشغلے میں ہوں گے، خوش —— ہر آئینہ اہلِ بہشت امروز درکارے باشند، شاداں:
Surely the dwellers of Paradise shall on that day be in an occupation quite happy.
آخرت میں سچے اہلِ ایمان کو جنت میں داخلہ ملے گا- وہاں وہ ابدی طورپر خوشیوں کی زندگی گزاریں گے- جنت ہر اعتبار سے، پرفکٹ (perfect) ہوگی-وہاں ہر اعتبار سے، اہلِ جنت کے لیے فل فل مینٹ (fulfilment) کا سامان ہوگا- وہاں اہلِ جنت نہ کبھی حزن کا شکار ہوں گے اور نہ وہ کبھی اکتاہٹ (boredom) میں مبتلا ہوں گے-
تاہم جنت صرف آرام وعیش کی جگہ نہ ہوگی، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ اہلِ جنت کے لیے ایک اعلی ترین سرگرمی کا مقام ہوگا- مذکورہ آیت میں اِس حقیقت کو بتانے کے لیے ’شغل‘ کا لفظ آیا ہے- شغل کے لفظی معنی مشغلہ (activity) کے ہیں- شغل کا لفظ اِس آیت میں نکرہ استعمال ہوا ہے- نحوی قاعدے کے مطابق، تنکیر برائے تفخیم ہوتی ہے- اِس لیے یہاں شغل سے مراد ہے ایک عظیم مشغلہ-
اِس عظیم مشغلہ سے کس قسم کا مشغلہ مراد ہے- غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اِس سے مراد وہی مشغلہ ہے جو دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے عظیم مشغلہ تھا- یہی مشغلہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ آخرت میں بھی ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس مشغلہ کو دنیا میں قوانینِ فطرت کی دریافت (discovery of natural laws) کہاجاتاہے، اِسی کو قرآن میں کلمات اللہ ( 31:27 ) کہاگیا ہے- دنیا میں کلمات اللہ کی دریافت ابتدائی طورپر ہوئی تھی- آخرت میں دوبارہ ’کلمات اللہ‘ کی دریافت ابدی طورپر اور غیر مختتم طورپر جاری رہے گی-
قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ کے کلمات ناقابلِ قیاس حد تک زیادہ ہیں، اتنے زیادہ کہ اگر اُن کو لکھا جائے تو وہ ضبطِ تحریر میں نہ آسکیں- اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ( 31:27 ) یعنی اگر زمین میں جو درخت ہیں، وہ قلم بن جائیں اور سمندر، سات مزیدسمندروں کے ساتھ روشنائی بن جائیں، تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے- بے شک اللہ زبردست ہے، حکمت والا ہے-
’کلمات اللہ‘ کا لفظی مطلب ہے اللہ کی باتیں (words of God)- اللہ کا کلمہ سادہ طورپر صرف کلمہ نہیں ہوتا، وہ ایک محکم فیصلہ یا اٹل قانون ہوتا ہے- کلمات اللہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں مختلف مقامات پر ’امرِ رب‘ یا ’امر اللہ‘ کہاگیا ہے- دوسرے الفاظ میں، اس کو قوانینِ الہیہ (divine laws) کہاجاسکتا ہے- موجودہ زمانے میں اہلِ سائنس اِس واقعے کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہتے ہیں-
یہی قوانینِ الہیہ یا قوانینِ فطرت ہیں جن کی بنیاد پر کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہی قوانین ہیں جن کے تحت نہایت محکم انداز میں کائنات کا پورا نظام مسلسل طورپر چل رہاہے- یہی قوانین انسان کے لیے اس کی تمام فکری اور عملی ترقیوں کا ماخذ ہیں- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان معرفت حاصل کرتا ہے- اِنھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان تخلیق کی معنویت کو دریافت کرتاہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان اللہ کی عظمت (glory) سے آشنا ہوتا ہے- انھیں قوانین میں تدبر کرکے انسان کےاندر وہ صفات پیدا ہوتی ہیں جن کو اللہ کے لیے حبّ شدید اور خوفِ شدید کہاجاتا ہے- انھیں قوانین پر تدبرکرکے آدمی اپنے اندر وہ ربانی شخصیت پیدا کرتا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے- یہ قوانین الہیہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ انسان ابد تک اُن میں تدبر کرتا رہے اور وہ کبھی ختم نہ ہوں-
یہی قوانین یا قوانینِ فطرت ہی تمام علوم کا خزانہ ہیں- موجودہ زمانے میں جس ظاہرے کو تہذیب (civilization)کہا جاتا ہے، وہ اِنھیں قوانین الہیہ یا قوانین فطرت کی جزئی دریافت کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے- سائنس کے علوم تمام تر اِنھیں قوانین میں غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں- یہی قوانین، حکمت (wisdom) کا خزانہ ہیں- حقیقت ہے کہ اِن قوانین کے ساتھ انسان انسان ہے- اگر اِن قوانین کو انسان سے جدا کردیا جائے تو انسان صرف ایک حیوان بن کر رہ جائے گا- جو چیز انسان کو انسان بناتی ہے، وہ اس کی صرف یہ خصوصیت ہے کہ وہ فطرت کے قوانین کو دریافت کرکے اُن کو اپنے لیے استعمال کرتاہے-
امریکی مصنف الون ٹافلر (Alvin Toffler) کی ایک کتاب ’فیوچر شاک‘ (Future Shock) ہے، جوپہلی بار 1970میں امریکا سے شائع ہوئی- اس نے اِس کتاب میں کہا تھا کہ ہمارا انڈسٹریل ایج (industrial age) مزید ترقی کرکے اب سپر انڈسٹریل ایج (super industrial age) میں داخل ہونے والا ہے- مغربی مصنف نے اپنی یہ پیشین گوئی بیسویں صدی میں کی تھی، لیکن صدی کے آخر میں اس کا یہ خواب منتشر ہوگیا-ماحولیاتی مسائل (ecological problems) نے بتایا کہ زمین پر انسانی تہذیب کی آخر حد آچکی ہے- اِس زمین پر انسانی تہذیب کا سفر مزید آگے جاری رہنے والا نہیں-
تہذیب کیا ہے- تہذیب تمام تر قوانین فطرت پر مبنی ایک ظاہرہ ہے- قوانینِ فطرت سے الگ تہذیب کا کوئی وجود نہیں- جب یہ واقعہ ہے کہ قوانینِ الہیہ یا قوانین فطرت کی کوئی حد نہیں تو لازمی طورپر یہ بھی ہونا چاہئے کہ تہذیب کی ترقی کی کوئی حد نہ ہو، تہذیب کی ترقی کا سفر ابدی طورپر جاری رہے-یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن ہم کو رہنمائی دیتا ہے- قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تہذیبِ انسانی کا سفر موجودہ دنیا کے دورِ حیات میں ختم نہ ہوگا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ زیادہ اعلی صورت میں آخرت کے ابدی دورِ حیات میں جاری رہے گا-
قرآن میں یہ بات، نعوذ باللہ، بطور بوسٹنگ (boasting) نہیں ہے، بلکہ وہ بطور پیشین گوئی ہے، یعنی اِس قرآنی بیان میں دراصل یہ اعلان کیاگیا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب کہ تہذیب کا نامکمل سفر اپنی تکمیل کو پہنچے- موجودہ دنیا میں ’کلمات اللہ‘ کا جو اظہار جزئی صورت میں ہواہے، آخرت کی دنیا میں اس کا اظہار کامل صورت میں ہوگا-
قرآن یہ خوش خبری دیتاہے کہ انسانی تہذیب کا سفر ادھورا نہیں رہے گا، بلکہ وہ مزید ترقی کے ساتھ آئندہ بھی جاری رہے گا- ارتقا کا جو موقع انسان کو حیاتِ دنیا میں نہیں ملا تھا، وہ آخرت کی زندگی میں مزید اضافے کے ساتھ اس کو حاصل ہوجائے گا-
تہذیب کے دو دور
تہذیب کے دو دور جن کا ذکر اوپر کیاگیا، اُن کا حوالہ قرآن میں صراحتاً موجود ہے- تہذیب کا پہلا دور جو قوانینِ فطرت کی جزئی دریافت کے ذریعے موجودہ دنیا میں ظہور میں آئے گا، اس کا ذکر قرآن کی سورہ حم السجدہ میں اِن الفاظ میں آیا ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ ( 41:53 ) یعنی عن قریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں (signs) دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر پوری طرح آشکارا ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے-
قرآن کی اِس آیت میں قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کے اُس دور کا ذکر ہے جو موجودہ دنیا میں پیش آنے والا تھا- قرآن کی یہ پیشین گوئی انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سائنس کے ظہور کی صورت میں واقعہ بن چکی ہے- سائنس کی دریافتوں نے یہ کیا ہے کہ آفاق وانفس میں جو خدائی نشانیاں (signs of God) موجود تھیں، اُن کو جزئی طورپر دریافت کیا اور اِس طرح انسان کے لیے تبیینِ حق کے نئے مواقع کھول دئے - اِن دریافتوں کے ذریعے انسان کو ایک نیا فریم ورک (framework) ملا- اِس کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا کہ انسان خالص علمی اور عقلی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کرے-
قوانینِ الہیہ پر مبنی تہذیب کا دوسرا عظیم تر ظہور آخرت کے دورِ حیات میں پیش آئے گا- تہذیب کے اِس دوسرے دور کو ربانی تہذیب کہاجاسکتا ہے- یہ دور اپنے تمام کمالات کے ساتھ ابدی طورپر جاری رہے گا- اِس دوسرے دورِ تہذیب کا ذکر قرآن کی سورہ الکہف میں اِن الفاظ میں آیا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَالِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا ( 18:107-109 ) یعنی بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عملِ صالح کیا، اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے- اِس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے- کہوکہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں ، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اسی کی مانند اور سمندر ملا دیں-
قرآن کی اِن آیات پر غور کیجئے- سب سے پہلے فرمایا کہ ’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا‘‘، یعنی جن لوگوں نے دریافت کی سطح پر اللہ کی معرفت حاصل کی اور پھر اس معرفت کے مطابق، اپنی عملی زندگی کو ربانی زندگی بنا دیا- اس کے بعد فرمایا کہ ’’اُن کے لیے فردوس کے باغوں کی ضیافت ہے‘‘، یعنی آخرت میں اُن کو اللہ کے آفاقی گیسٹ ہاؤس (universal guesthouse) میں ابدی طورپر رہنے کا موقع دیا جائے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘-
انسان کا مزاج یہ ہے کہ اگر اس کو یکساں قسم کی مادی نعمتیں دی جائیں تو یہ نعمتیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں، کچھ دنوں کے بعد وہ ان کی یکسانیت کی بناپر بورڈم (boredom) کا شکار ہوجائے گا، وہ اُن سے محظوظ نہ ہوسکے گا- اِس کے بعد فرمایا کہ ’’وہ جنت سے نکلنا نہ چاہیں گے‘‘- اِس طرح کی کیفت پیدا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اہلِ جنت کو مادی نعمتوں کے سوا ایک اور چیز حاصل ہو اور وہ ہے — بار بار نئی چیزوں کا ملنا، بار بار نئی دریافتوں کا تجربہ پیش آنا ، مسلسل طورپر فکر ی ارتقاکا جاری رہنا جن کی بنا پر اہلِ جنت کی تخلیقیت (creativity)کبھی ختم نہ ہوگی- اہلِ جنت کی شخصیت میں یہ ارتقا معرفت ِ خداوندی میں ارتقا کے ذریعے پیش آئے گا-
جنت میں تخلیقی سرگرمیوں (creative activities) کے جو اتھاہ مواقع ہوں گے،اُن کو آیت کے اگلے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کی ابدی انفولڈنگ (eternal unfolding)- قرآن کے مطابق، ’کلمات اللہ‘ کی تعداد لا محدود ہے- سائنس کے ذریعے اِن ’کلمات اللہ‘ کا جزئی ظہور (partial unfolding) ہوا، جس کے نتیجے میں دنیا کی تہذیب وجود میں آئی- آخرت میں اہلِ جنت کے ذریعے ’کلمات اللہ‘ کا کامل ظہور ہوگا- اِس کے نتیجے میں وہ دورِ کمال وجود میں آئے گا جس کو جنتی تہذیب کہا جاتا ہے-
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر انسان جو یہاں پیدا ہوتا ہے، وہ اپنے آپ کو تیاری میں لگا دیتا ہے- ہر آدمی اپنے اندر کسی نہ کسی شعبے کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے- ہر آدمی آخری حد تک یہ کوشش کرتاہے کہ اس کے اندر کوئی خاص ہنر مندی (skill)، کوئی خاص لیاقت(qualification) ، کوئی خاص مہارت (expertise) پائی جائے، تاکہ وہ موجودہ دنیا میں قائم شدہ تہذیب کے نقشے میں کوئی اعلی مقام حاصل کرسکے- ہر عورت اور مرد زندگی کی اِس حقیقت کو جانتے ہیں اور اس کے لیے پوری طرح سرگرم رہتے ہیں-
یہی معاملہ آخرت میں بننے والی بلند تر تہذیب کا ہے- وہاں بھی سرگرمیاں ہوں گی، وہاں بھی مناصب ہوں گے ، وہاں بھی ہر قسم کے اعلی شعبے ہوں گے- جنتی دنیا کے ان اعلی مواقع کو حاصل کرنے کے لیے بھی تیار ذہن اور تربیت یافتہ افراد درکار ہیں-موجودہ دنیا ایک اعتبار سے، اِسی اعلی تیاری کی تربیت گاہ ہے-
موجودہ دنیا کے حالات میں لوگوں کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر وہ ربانی صلاحیت پیدا کریں جو اُن کو اِس قابل بنائے کہ وہ آخرت میں بننے والی برتر تہذیب کے مناصب کے لیے منتخب کیے جاسکیں اور پھر ابدی طورپر نہ صرف آرام وعیش کی زندگی گزاریں، بلکہ ایک ایسے تہذیبی سفر کا حصہ بن جائیں جس کی ترقیاں کبھی ختم نہ ہوں- یہ لا محدودخوشی (endless pleasure) کی زندگی ہوگی، جو اللہ کی خصوصی رحمت سے اہلِ جنت کو حاصل ہوگی-
موجودہ دنیا میں کسی آدمی کو جو عزت کا مقام ملتا ہے، وہ اِس بنیاد پر ملتا ہے کہ اس نے تہذیب کے تقاضوں کے مطابق، اپنے آپ کو کتنا تیار کیا ہے- یہی معاملہ آخرت کی جنتی تہذیب میں بھی ہوگا- موجودہ دنیا کی تہذیب میں ہر آدمی کو ڈاکٹر، انجینئر، اسکالر اور ٹکنکل اکسپرٹ، وغیرہ کی نسبت سے مقام ملتاہے- آخرت میں عارف ، متقی اور خاشع، وغیرہ کی نسبت سے اس کو مقام حاصل ہوگا- دنیا میں آدمی کو دنیوی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملتا ہے- آخرت میں ہر آدمی کو ربانی تقاضے کے مطابق تیاری کی نسبت سے اپنا مقامِ استعمال ملے گا-
خلاصۂ کلام
تہذیب (civilization) کیا ہے-تہذیب، اپنی حقیقت کے اعتبار سے، کلماتِ الہیہ کے ظہور کا نام ہے- قیامت سے پہلے کے دورِ حیات میں یہ ظہور جزئی طور پر ہوگا اور قیامت کے بعد کے دورِ حیات میں کامل طور پر- موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی حاصل تھی، اِس لیے موجودہ دنیا میں کلماتِ الہیہ کے جزئی ظہور سے جو تہذیب بنی، اس میں انسانی فساد کی بنا پر منفی اجزا شامل ہوگئے- لیکن آخرت میں کلماتِ الہیہ کے کامل ظہور سے جو تہذیب وجود میں آئے گی، وہ انسانی فساد سے پوری طرح پاک ہوگی- اِس لیے آخرت میں ظہور میں آنے والی تہذیب تمام تر مثبت اجزا پر مبنی ہوگی- اِسی لیے اس کو جنتی تہذیب کہاگیا ہے-
قرآن میں جنت کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے کہ : لِمِثْلِ ہَذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ ( 37:61 ) یعنی انسان کو چاہیے کہ وہ موجودہ دنیا کو ایک موقع (opportunity) کے طورپر لے- وہ اپنے آپ کو اِس اعتبار سے تیار کرے کہ وہ آخرت میں بننے والی جنتی تہذیب میں اپنے لیے باعزت جگہ پاسکے- اِسی لیے کہا گیا ہے کہ موجودہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت کی دنیا دار الجزا- (2013)
سوال و جواب
سوال
میں الرسالہ کا ایک قاری ہوں- براہِ کرم حسب ذیل تین سوالات کی وضاحت کرکے شکریے کا موقع عنایت فرمائیں:
1- قرآن کا اسلوب شذراتی ہے، یا قرآن ایک منظّم کلام ہے؟
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر کے درمیان کیا فرق ہے؟
3- توحید اور تزکیہ کا مفہوم کیا ہے؟
(ایک قاری الرسالہ، اسلام آباد، پاکستان)
جواب
1- قرآن کو سنتے یا پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ترتیب کا انداز نہیں، بلکہ عام طورپر فریگمنٹری (fragmentary)انداز ہے- قرآن کے اسلوب کے بارے میں بہت سے اہلِ علم کے سامنے یہ سوال رہا ہے- مولانا حمید الدین فراہی (وفات: 1930 ) نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پورا قرآن ایک منظم کلام ہے-
ذاتی طورپر میرا خیال یہ ہے کہ قرآن ایک مجموعۂ شذرات کی صورت میں ہے- قرآن کے مقصد کے اعتبار سے یہی اسلوب زیادہ مفید ہے- قرآن کا مقصد ذہنِ انسان کی تعمیر ہے- یہ فائدہ صرف ترکیزی فکر (focused thinking) سے حاصل ہوسکتا ہے- شذراتی اسلوب سے ترکیزی فکر کا فائدہ بخوبی طور پر حاصل ہوتا ہے- لمبی مسلسل عبارت میں فوکس پھیل جاتا ہے، جب کہ چھوٹے چھوٹے شذرات کی صورت میں ذہن کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ایک پوائنٹ پر فوکس کرکے غور وفکر کرے- میرے ذاتی تجربے کے مطابق، ذہن سازی یا فکری تشکیل کا فائدہ شذراتی انداز سے حاصل ہوتا ہے- چناں چہ جب میں نے 1976 میں ماہ نامہ الرسالہ نکالا تو اس کو بھی اِسی شذراتی اسلوب میں نکالا، یعنی ہرصفحے میں ایک سوچنے والی بات-
مولانا حمید الدین فراہی کا ماننا تھا کہ نظمِ قرآن فہمِ قرآن کی کلید ہے- وہ اِس موضوع پر نظام القرآن کے نام سے ایک تفسیر لکھ رہے تھے، مگر وہ اس کو مکمل نہ کرسکے- لیکن ان کے شاگر دِ رشید مولانا امین احسن اصلاحی (وفات: 1997)نے اِسی اسلوب پر ایک مکمل تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ لکھی جو 9 جلدوں پر مشتمل ہے-
نظم کو فہمِ قرآن کا ایک پہلو کہاجاسکتا ہے، لیکن اُس کو فہمِ قرآن کی کلید کہنا درست نہیں، جب آپ قرآن کا مطالعہ اِس طرح کریں کہ آپ کا ذہن نظم بین الآیات اور نظم بین السُّوَر پر لگاہوا ہو تو فطری طور پر آپ کے ذہن کا فوکس پھیل جائے گا- اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ قرآن کی فوکسڈ اسٹڈی (focused study) نہ کرسکیں گے، اِس طریقِ مطالعہ میں آپ کو قرآن کے کچھ فنی پہلو تو ملیں گے، لیکن تقوی کا پہلو حذف ہوجائے گا جو کہ مطالعہ قرآن کا اصل مقصود ہے-
2- مشن کلچر اور اکیڈمک کلچر دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں- اکیڈمک کلچر تنوع (diversity) پر قائم ہوتا ہے- اِس کے برعکس، مشن کلچر توحُّد پر قائم ہوتا ہے- علمی اور تحقیقی ادارے میں افکار کا تنوع ایک قابلِ قبول بات ہوتی ہے، لیکن مشن کا مزاج افکار کے تنوع کو برداشت نہیں کرتا- اِس کی مثال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت نے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کو برداشت نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر تبلیغ سے اتفاق رکھتے تھے- اِسی طرح جماعتِ اسلامی ہند نے ڈاکٹر عبد الحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو قبول (accept) نہیں کیا، حالاں کہ دونوں اصولی طورپر جماعت اسلامی سے اتفاق کرتے تھے- یہ کلچر مذہبی مشن کا بھی ہے اور سیکولر مشن کا بھی- مثلاً گاندھی کو برتر از کانگریس (greater than Congress)کہاجاتا تھا- جواہر لال نہرو نے اپنی آٹو بایوگرافی میں لکھا ہے کہ کانگریس کمیٹی میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ گاندھی جی کے نقطہ نظرسے ہم لوگوں کو اتفاق نہیں ہوتا تھا- اُس وقت گاندھی جی ایک جملہ بولتے تھے- اس کے بعدسب لوگ اُن سے متفق ہوجاتے تھے- وہ جملہ یہ ہوتا تھا:
Thus my inner sight speaks.
اِس بنا پر میری یہ رائے ہے کہ مشن میں وہی آدمی شرکت کرے جو مشن کلچر کے اِس مبنی بر توحّد تصور کو مانتا ہو- اگر کسی شخص کے اندر یہ مزاج نہ ہو تو اُس کو ہرگز مشن میں شریک نہیں ہونا چاہیے-
3- اسلامی تعلیمات میں دو چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں — توحید اور تزکیہ- توحید اللہ کی نسبت سے ہے اور تزکیہ بندے کی نسبت سے- اِن دونوں کے دو درجے ہیں- ایک ابتدائی درجہ اور دوسرا اعلی درجہ- میرے اپنے مطالعے کے مطابق، خواصِ صحابہ اِن دونوں کے معاملے میں اعلی درجے تک پہنچے تھے- لیکن امت کی بعد کی تاریخ میں، میرے علم کے مطابق، شاید کوئی بھی شخص اِن دونوں معاملات میں اعلی درجے تک نہ پہنچ سکا- یہ رائے میں نے بعد کے لوگوں کی اُن تحریروں سے قائم کی ہے جو کتابوں میں موجود ہیں-توحید کا اعلی معیار یہ ہے کہ بندے کے اندر اللہ سے حبِ شدید اور خوفِ شدید پیدا ہوجائے- میرے علم کے مطابق، امت کے بعد کے افراد میں خوفِ شدید کی مثالیں تو ملتی ہیں، لیکن حب شدید کی مثالیں نہیں ملتیں-
تزکیہ کی بنیاد معرفت ہے- جتنا زیادہ معرفت اتنا زیادہ تزکیہ- میرے علم کے مطابق، بعد کے زمانےکے لوگوں نے اعلی درجے کی معرفت ِ ربّانی کا تجربہ نہیں کیا- تزکیہ پر جو کتابیں یا مضامین لکھے گئے ہیں، اُن میں فنی بحثیں تو بہت ہیں، لیکن اُن میں عارفانہ تجزیہ نہیں- تزکیہ کا موضوع انسانی نفسیات سے جڑا ہوا ہے- اِس لیے تزکیہ کا اعلی ادراک وہی شخص کرسکتا ہے جو انسانی نفسیات کو گہرائی کے ساتھ جانتا ہو-
سوال
مجھے 1998سے آپ کی کتب اور الرسالہ سے استفادے کا موقع مل رہا ہے۔ الحمد للہ آپ کی تحریروں سے بے بہا ایمانی و روحانی، علمی و فکری و اخلاقی منفعت حاصل کرتا رہا ہوں۔ آپ کا لٹریچر میرے بہترین فکری و عملی رہنمائوں میں سے ہے۔ بالخصوص اس میں روحانیت و ربانیت کی جو غیرمعمولی غذا ہے، اُس سے میرے اندر بندگی اور مالکِ کائنات کے استحضار کا گہرا ذوق بیدار ہوا ہے جو میری زندگی میں سب سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ دینِ انسانیت کی وسعت و سمائیت کا جو ادراک آپ کی تشریحات سے ملتا اور زندگی کے روز مرہ واقعات سے دنیا و آخرت کی گہری حقیقتوں کی یاددہانی کا جو داعیہ بیدار ہوتا ہے اور اِس کے علاوہ عمل و کردار و اخلاق سے متعلقہ دیگر فوائد جو میسر آتے ہیں، اُس پر میں بس بارگاہِ ربُ العزت میں یہ دعا کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو پوری امت و ملت و انسانیت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے- آمین۔
دسمبر 2013 کا الرسالہ دیکھا۔ اُس میں صفحہ 7 پر یہ تذکرہ ہے کہ ابو بکر صدیق نے صحابہ کے مشورے سے قرآن کو ایک جلد کی صورت میں تیار کرانے کے لیے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت کو مقرر کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر موریس بکائی کے الفاظ میں ڈبل چیکنگ سسٹم کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے پورا قرآن مرتب کیا۔ کتابتِ قرآن کی تکمیل کے بعد اِن اوراق کی ایک جلد بنائی گئی۔ یہ جلد چوکور صورت میں تھی، اِس لیے اس کا نام رَبعہ رکھا گیا، یعنی چوکور سائز کی کتاب۔ اِس رَبعہ کو ایک مستند نسخے کے طور پر حضرت حفصہ کے گھر رکھوادیا گیا۔ اِس رَبعہ کی تیاری کے لیے قرآن کے جو متفرق اجزا اکھٹا کیے گئے تھے، اُن کا ایک ڈھیر مسجد ِ نبوی میں موجود تھا۔ صحابہ کے مشورے سے اس پورے ڈھیر کو اُس کے مالکان کو واپس نہیں کیا گیا، بلکہ اُن سب کو جلاکر ختم کردیا گیا۔
اِس کے بعد صفحہ 8 پر حضرت عثمان کے زمانے میں اختلافِ قرأت کا حوالہ آیا ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے صحابہ نے بطورِ خود لکھ کر قرآن کے اپنے اپنے مجموعے تیار کررکھے تھے جن میں بہت سے فرق موجود تھے۔ ان نسخوں کی وجہ سے حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں قرأت قرآن کے بارے میں لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ کوئی شخص ایک انداز سے قرآن پڑھتا، اور کوئی شخص دوسرے انداز سے۔ اس لیے حضرت عثمان نے ابو بکر صدیق کے زمانے کا تیار کردہ مستند نسخہ حضرت حفصہ کے گھر سے منگوایا۔ اُس کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں۔ مسلم ممالک کے مرکزی شہروں میں قرآن کی یہ مستند نقلیں اور معیاری نسخے بھجوائے اور پھر صحابہ کے جمع کردہ نسخوں میں قرأت ِ قرآن میں فرق کا جو مسئلہ موجود تھا، اُس کا حل یہ نکالا کہ اِن تمام غیر سرکاری نسخوں کو اکھٹا کروایا اور پھر صحابہ کی موجودگی میں اُن کو جلاکر ختم کردیا۔
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی رائے میں اختلافِ قرأت کا مسئلہ ہے کیا؟ ہمارے ہاں اس حوالے سے جو روایات پائی جاتی ہیں اور پھر ہمارے مدارس میں سبعہ یا عشرہ قرأت جو پڑھائی جاتی ہیں، کیا اُن کو تسلیم کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے؟ اور کیا اِس طرح معنوی پہلو سے قرآن کے مطالب میں جو فرق واقع ہوتا ہو، خواہ وہ بظاہر بالکل معمولی سا ہی ہو، اِس سے قرآن کی حتمیت و حاکمیت اور لاریبَ فیہ کی حیثیت میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا؟ (اسفند یار عظمت، پاکستان)
جواب
حدیث کی مختلف کتابوں میںایک روایت آئی ہے۔ اِس کو قرأتِ سبعہ کی روایت کہاجاتا ہے۔ اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ مختلف عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔اِن قبائل کی زبان مشترک طورپر عربی تھی، لیکن ہر ایک کا لہجہ الگ الگ تھا، جیسا کہ ہر زبان میںہوتا ہے۔ جب قرآن لوگوں کے درمیان پھیلا تو ہر ایک اپنے اپنے قبیلے کی زبان میں اُس کو پڑھنے لگا۔
اِس پر لوگوں کے درمیان اختلافات ہوئے۔ لوگ، رسول اللہ ﷺسے ایک لہجے میں قرآن کو سنتے تھے اور صحابہ اس کو دہراتے تو وہ مختلف لہجات میں اس کو دہراتے۔ یہ اختلاف بعض اوقات شدت اختیار کرلیتے تھے، یہاں تک کہ عمر فاروق نے ایک بار ایک صحابی کو اپنے سے مختلف لہجے میں قرآن کو پڑھتے ہوئے سنا تو انھوں نے کہا: کذبتَ۔
جب یہ اختلاف بڑھا تو لوگ اِس مسئلے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔آپ نے ہر ایک کے قرآن کو پڑھوا کر سنا اور پھر ہر ایک کے لہجے کی تصویب فرمائی (فأیّ ذلک قرأتم أصبتم، فلا تماروا فیہ) آپ نے کہا کہ تم جس طرح پڑھتے ہو، اُسی طرح پڑھو، کیوں کہ قرآن سات لہجوں میں اتارا گیا ہے (إنما أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری لابن حجر العسقلانی، جلد 8 ، صفحہ 639 ۔
اِس سلسلے کی مختلف روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سات قرأت کا مطلب، سات مطلوب قرأت نہیں ہے، بلکہ سات رعایتی قرأت ہے۔ قرآن کی مطلوب قرأت صرف وہی ہے جو قبیلۂ قریش کے لہجے کے مطابق ہے۔ کیوں کہ عرب میں قریش کا لہجہ ہی اسٹینڈرڈ لہجہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ زبان کا لہجہ ابتدائی عمر میں بن جاتا ہے۔ کوئی آدمی بعد کی عمر میں اپنے لہجے کو بدلنے پر قادر نہیں ہوتا۔ اِس لیے یہ فیصلہ ہوا کہ جہاں تک قرآن کی کتابت کا معاملہ ہے، اُس کو قریش کے اسٹینڈرڈ لہجے کے مطابق لکھا جائے گا، البتہ رعایتی طورپر لوگوں کو اجازت ہوگی کہ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے لہجے کے مطابق، قرآن کو پڑھیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاقرؤا ما تیسرمنہ۔
سوال
عرض ہے کہ میرا ایک پوتا ’سیف احمد سیف‘ امریکا میں ہے- اس کی عمر چھ سال ہے- وہ جدید تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کررہا ہے- حال ہی میں اس نے اپنے والدین سے ایک سوال کیا- تناظر یہ تھا کہ والدین بچے کے سامنے اللہ تعالی کی قدرت وقوت کے بارے میں گفتگو کررہے تھے- بچےنے دفعتاً یہ سوال پوچھا:
But where does Allah get all these powers from?
انھوں نے یہ سوال مجھے بھیجا ہے- میں الرسالہ پڑھتا ہوں- آپ ’’سوال وجواب‘‘ کے کالم میں لوگوں کے سوالات کے جوابات لکھتے ہیں- میں اسی کالم کے حوالے سے یہ سوال آپ کی خدمت میں ارسال کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ایسا جواب مل جائے گا جس سے وہ بچہ مطمئن ہوسکے- جو جواب آپ تحریر فرمائیں گے، میں اسے امریکابھیج دوں گا- اور دوسرے قارئین بھی اس سے استفادہ کرسکیں گے- (عزیز احمد، اسوسییٹ پروفیسر ریٹائرڈ، ایس ایس وی کالج، ہاپوڑ، یوپی)
جواب
یہ سوال ایک غیر منطقی (illogical)سوال ہے- منطقی طورپر اِس معاملے میں اصل مسئلہ ایک موجود واقعے کی توجیہہ (explanation)کا ہے، نہ کہ خود موجود واقعے کا سبب تلاش کرنے کا- اِس معاملے میں بعد موجود واقعہ (post-existing event)پر غور کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے، جب کہ قبل موجود واقعہ (pre-existing event) صرف کنفیوزن کو بڑھاتا ہے- اِس معاملے میں یہی نقطہ نظر علمی نقطہ نظر (scientific outlook)ہے- ہماری اصل ضرورت کنفوزن کو ختم کرنا ہے، اِس معاملے میں موجود کی توجیہہ تلاش کرنے سے کنفیوزن ختم ہوتا ہے اور موجود کا سبب تلاش کرنے سے کنفیوزن میں اضافہ ہوجاتاہے-
یہ ایک تسلیم شدہ اصول ہے کہ سائنٹفک طرز فکر ہی صحیح طرزِ فکر ہے- کوانٹم تھیوری (quantum theory) کے مطابق، سائنس کا جدید ترین موقف یہ ہے کہ انسان کسی معاملے میں صرف احتمال (probability) تک پہنچ سکتا ہے-
مذکورہ سوال اِس اصولِ عام سے الگ نہیں- اگراِس سائنسی اصول کو مان لیا جائے تو بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدا کی صفات پر ایمان کے معاملے میں یہ سائنسی اصول پوری طرح منطبق ہوتا ہے، کیوں کہ یہاں زیر بحث معاملے کی توجیہہ کے لیے کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہیں- سائنسی اصول کے مطابق، جب کوئی دوسرا احتمال یا قرینہ موجود نہ ہو توپہلا احتمال یا قرینہ اپنے آپ ثابت شدہ بن جاتا ہے-
واپس اوپر جائیں