آئڈیالوجی یا نظام
اسلام کا نشانہ انسان کو اسلامی بنانا (Islamization of man) ہے، اسلام کا نشانہ اجتماعی نظام کو اسلامی بنانا (Islamization of system) نہیں- فرد اور اجتماع کے درمیان یہ فرق عقیدہ کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی بنیاد پر ہے- اللہ کے تخلیقی منصوبہ (creation plan) کے مطابق، یہی چیز ممکن ہے، اِس کے سوا کوئی اور چیز عملاً ممکن ہی نہیں-
قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قرآن میں فرد کا دین پوری طرح موجود ہے، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی- لیکن قرآن میں اجتماعی یا سیاسی زندگی کے لیے کوئی مکمل نظام موجود نہیں- مکمل نظام کے لیے ضر وری ہے کہ اس کے لیے ایک ویل اسٹرکچرڈ ماڈل (well-structured model) موجود ہو، مگر ایسا ماڈل نہ قرآن میں بیان ہوا ہے اور نہ حدیث میں-
فرد کے احکام اور اجتماع کے احکام کے بارے میں یہ فرق کسی اتفاق کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ یہی اصولی طورپر اسلام میں مطلوب ہے- اگر یہ اصولی طورپر مطلوب نہ ہوتا تو یقینی طورپر قرآن میں اس کا واضح بیان موجود ہوتا- اِس بنا پر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اکمالِ دین ( 5:3 ) وہی ہے جو بالفعل قرآن میں موجود ہے، یعنی قرآن میں فرد کی نسبت سے جس دین کا بیان ہے، وہی دین کامل دین ہے اور اجتماع کی نسبت سے قرآن میں جس دین کا بیان ہے، وہی دین اجتماع کی نسبت سے کامل دین ہے-
قرآن کی سورہ الشوری میں کہاگیا ہے کہ جو دین تمام نبیوں کے درمیان مشترک تھا، وہی ’الدین‘ ہے اور اُسی الدین کی تم پیروی کرو ( 42:13 )- یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ تمام نبیوں کے درمیان مشترک دین وہی تھا جو فرد کی نسبت سے مطلوب ہے- اجتماع کی نسبت سے اگر کوئی مکمل نظام مطلوب تھا تو وہ مشترک طورپر تمام نبیوں کو دیا ہی نہیں گیا- اِس فرق سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے انفرادی دین اور اجتماعی دین دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہے، دونوں کا مطالعہ ایک واحد معیار کے تحت نہیں کیا جاسکتا- قرآن کی مذکورہ آیت میں ’أقیموا الدین‘ کا خطاب فرد سے ہے، یعنی ایک فردِ مسلم کی نسبت سے جو دین مطلوب ہے، اس کو چاہیے کہ اپنی انفرادی زندگی میں وہ اس پر قائم ہوجائے-
اصولِ عملیت
اِس سلسلے میں ایک حدیث رسول کا مطالعہ کیجئے- زیر بحث موضوع کی نسبت سے ایک اہم روایت ہے جو حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے- اس کے الفاظ یہ ہیں: إن اللّہ فرض فرائض فلا تضیّعوہا، وحرّم حرمات فلا تنتہکوہا، وحدّ حدوداً فلا تعتدوہا، وسکت عن أشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا (مشکاة المصابیح، رقم الحدیث: 197 ) یعنی اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں، تم اُن کو ضائع نہ کرو- اللہ نے کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، تم اُن کا ارتکاب مت کرو- اللہ نے کچھ حدود مقرر کیے ہیں، تم اُن سے تجاوز نہ کرو- اللہ نے کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، تم اُن امور کے معاملے میں بحث مت کرو-
اِس حدیث رسول میں چار باتوں کا ذکر ہے- اِن میں سے ابتدائی تین چیزوں کا تعلق فرد سے ہے- فرائض کا اہتمام فردکرتا ہے- حدود سے تجاوز نہ کرنے کا تعلق فرد سے ہے، حرام چیز سے بچنے کا تعلق فرد سے ہے- گویا کہ اِن تین فقروں میں ایک شخص کے انفرادی دین کو بتایا گیا- حدیث کے آخری فقرے میں جو بات کہی گئی ہے، اس کا ایک پہلو اجتماعی زندگی سے بھی تعلق رکھتا ہے- اجتماع کے معاملے میں دینی روش کا تعلق خود اجتماع یا سماج کے حالات پر منحصر ہے- اجتماع کے معاملے میں ایک مومن کی روش کسی پیشگی معیار (ideal) کی بنیاد پر متعین نہیں ہوگی، بلکہ اِس بنیاد پر متعین ہوگی کہ خود اجتماع کے حالات کیا ہیں ، یعنی اجتماع کے قبولیت کی سطح (level of acceptance) کیا ہے- دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایک مومن کو اپنی انفرادی زندگی میں معیار پسند (idealist)بننا ہے اور اجتماعی زندگی میں وہ روش اختیار کرنا ہے جس کو اصولِ عملیت (pragmatism) کہا جاتا ہے-
حدیث کے آخری فقرے میں ’سکوت‘ کا مطلب مطلق سکوت نہیں ہے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی معاملات ، یعنی سماجی اور سیاسی معاملات کو اہلِ ایمان کے لیے کھلا (open) رکھا گیا ہے- اُن کو یہ موقع دیاگیا ہے کہ وہ حالات کی رعایت کرتےہوئے اپنے لیے کوئی مناسب روش اختیار کریں-
اسلام میں فرد کے دین اور اجتماع کےدین کے درمیان تفریق کا یہ اصول اُس مشہور اصول کی بنیاد پر نہیں ہے جو مغرب میں چرچ اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کے بعد پیدا ہوا اور جس کو مذہب اور سیاست کے درمیان علاحدگی کا نام دیا جاتا ہے- اِس معاملے میں مغرب کا اصول مطلق تفریق یا نظریاتی تفریق کے اصول پر قائم ہے- اِس کے برعکس، اسلام میں فرد اور اجتماع کے درمیان جو تفریق ہے، وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان پائے جانے والے فطری فرق کے اصول پر مبنی ہے، یعنی تقریباً وہی اصول جس کو عام طور پر اِس مقولے میں بیان کیا جاتا ہے کہ — سیاست ممکن کا آرٹ ہے:
Politics is the art of the possible.
اجتماعی اور انفرادی اصول کے درمیان فرق کی حکمت
خالق نے انسان کو کامل آزادی دی ہے- انسانی آزادی خالق کےمنصوبے کا ایک لازمی حصہ ہے جس کو منسوخ کرنا ممکن نہیں ہے- یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر فرد اور اجتماع کا معاملہ ایک دوسرے سے الگ ہوجاتا ہے- چناں چہ جہاں تک فرد کا معاملہ ہے، ہر فرد کی زندگی اس کے اپنے اختیار میں ہوتی ہے، لیکن فرد سے باہر جو انسانی مجموعہ ہے، اس کا معاملہ کسی کے اختیار میں نہیں- گویا حرکیاتِ فرد کا اصول الگ ہے اور حرکیاتِ اجتماع کا اصول الگ-
ایک فرد اپنی ذاتی زندگی میں کوئی دینی مسلک اختیار کرے تو اس سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، لیکن جب آپ اجتماعی زندگی، یعنی سماجی نظام یا سیاسی نظام میں کوئی تبدیلی لانا چاہیں تو فوراً ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوجائے گا، کیوں کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ سماجی اور سیاسی نظام پر کوئی شخص یا گروہ پہلے سے اپنا اقتدار قائم کیے ہوئے ہوتا ہے- جب آپ سماجی اور سیاسی نظام میں تبدیلی کا علم بلند کرتے ہیں تو فوراً ہی آپ کا ٹکراؤ اُن لوگوں سے شروع ہوجاتا ہے جو یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُن کو اُن کے اقتدار کے منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں- کوئی بھی شخص یا گروہ اِس قسم کی معزولی کو برداشت نہیں کرسکتا، اِس لیے وہ فوراً اپنے دفاع کے لیے اٹھ کھڑاہوتا ہے اور پھر طرفین کے درمیان ایک ایسی لڑائی شروع ہوجاتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی-
تاریخ بتاتی ہے کہ اِس طرح کے معاملے میں کسی ایک فریق کی جیت کبھی لڑائی کا خاتمہ نہیں کرتی، کیوں کہ جو فریق ہارتاہے، وہ فوراً ہی انتقام (revenge) کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے- وہ اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے دوبارہ ایک نئی جنگ چھیڑ دیتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی جوابی کارروائی کی پوزیشن میں نہ ہو، تب بھی وہ خود کش بم باری شروع کردیتا ہے، تاکہ اگر وہ فریقِ ثانی کو ہرا نہیں سکتا تو کم از کم اس کو نقصان پہنچائے یا اُس کو کم از کم غیر مستحکم (destabilise) کردے-
اِس سے معلوم ہوا کہ اگر ’’کامل دین‘‘ کے نام پر اِس اصول کو اختیار کرلیا جائے کہ فرد نے جس دین کو اپنے لیے اختیار کیا ہے، اُسی دین کو اُسے اجتماع پر بھی نافذ (implement) کرنا ہے، تو اِس کے نتیجے میں دونوں فریق کے درمیان ایک ایسی لڑائی شروع ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی- یہ کوئی قیاسی بات نہیں، بلکہ یہی پوری تاریخ کا عملی تجربہ ہے-
پریکٹکل فارمولا
ایسی حالت میں خالق کے منصوبے کو برقرار رکھتے ہوئے اسلام میں ایک ایسا اصول بتایا گیاجو ہمیشہ کے لیے امن کا ضامن بن جائے، جو ہر حال میں امن کے قیام کو یقینی بنانے والا ہو- کیوں کہ کسی بھی قسم کی تعمیر کے لیے امن لازمی طور پر ضروری ہے امن نہیں تو تعمیری سرگرمیاں بھی نہیں-
مذکورہ صورتِ حال کی بناپر اجتماع کے لیے کوئی معیاری فارمولا ممکن نہیں، اِس لیے اسلام میں ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا فارمولا اختیار کیا گیا ہے جس کو اِس معاملے میں پریکٹکل فارمولا (practical formula) کہاجاسکتا ہے- اِس فارمولے کو قرآن میں أَمْرُہُمْ شُوْرَی بَیْنَہُمْ ( 42:38 ) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے ، یعنی اجتماعی معاملے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے گا جس پر اجتماعی مشورے کے بعد لوگ راضی ہوجائیں-
شوری یا جمہوریت کا اصول
اجتماعی معاملے میں کسی مطلق معیار کے بجائے لوگوں کی رائے سے فیصلہ کیا جانا کوئی سادہ بات نہیں، یہ ایک اہم اجتماعی اصول ہے-جب انسانی مجموعہ یا مجتمع (human society) کا معاملہ ہو تو اس کے اندر نظمِ اجتماعی قائم کرنے کی دو صورتیں ہیں— ایک یہ کہ ایک شخص کو حاکمِ مطلق کی حیثیت حاصل ہو اور وہ سب کے اوپر اپنی مرضی نافذ کرے- دوسری صورت یہ ہے کہ مجموعے کے ہر فرد کو اپنی رائے دینے کا موقع دیاجائے اور پھر یا تو اتفاقِ عام یا کثرتِ رائے کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے- پہلے طریقے کو آمریت (dictatorship) کہا جاتا ہے اور دوسرے طریقے کو جمہوریت (democracy)- اسلام میں شوری کا اصول عملاً وہی ہے جس کو موجودہ زمانے میں جمہوریت کہاجاتا ہے-
شوری یا جمہوریت کا یہ اصول شرعی عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے- اپنی نوعیت کے اعتبار سے، یہ فطرت کے ایک اصول پر مبنی ہے- خالق نے مصلحتِ امتحان کے تحت ہر عورت اور مرد کو کامل آزادی عطا کی ہے، یہ آزادی قیامت سے پہلے منسوخ ہونے والی نہیں-ایسی حالت میں نظمِ اجتماعی (socio-political system) کو کس بنیاد پر قائم کیا جائے- اگر نظمِ اجتماعی کے لیے ایک معیاری اصول مقرر کردیا جائے اور یہ مطلوب ہو کہ پورے انسانی مجموعے کو اسی معیاری اصول کے تابع بنانا ہے- ایسی حالت میں لازماً یہ ہوگا کہ ابدی طور پر لوگوں کے درمیان ٹکراؤ کی حالت جاری رہے گی- کچھ لوگ اِس معیاری اصول کو مانیں گے اور کچھ لوگ اپنے چوائس (choice)کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف ہوجائیں گے- اِس طرح سماج مستقل طورپر دو متحارب گروہ میں تقسیم ہوجائے گا، اُن کے درمیان ایسی لڑائی جاری ہوجائے گی جو کبھی ختم نہ ہو-
ایسی حالت میں ہمارے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب (choice)ہے — ایک، معیاری اجتماعی اصول پر اصرار کرنا، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ معیاری اجتماعی اصول تو عملاً کبھی قائم نہ ہو اور نتیجةً انسانی معاشرہ ہمیشہ کے لیے امن (peace) سے محروم ہوجائے- اس معاملے میں دوسرا انتخاب یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی کے لیے کوئی مطلوب اصول نہ ہو، بلکہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کے اصول پر یہ کیا جائے کہ اجتماعی نظم کے معاملے میں رائے عامہ کو عملاً تسلیم کرلیا جائے- اِس طرح سماج میں فوری طورپر امن قائم ہوجائے گا اور ہر فرد کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے انفرادی دائرے میں تعمیر وترقی کا جو منصوبہ چاہے، اس کو بروئے کار لاسکے-
فطرت کے اِس اصول کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: کما تکونون، کذلک یُؤَمَّر علیکم (البیہقی، شعب الإیمان: 22/6 ) یعنی جیسے تم لوگ ہوگے، ویسے ہی تمھارے حکمراں ہوں گے- اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام (political administration) مطلق معنوں میں کسی اصول کے تابع نہیں ہوگا، بلکہ معاشرے کی رائے عامہ کے مطابق، اس کا تعین کیا جائے گا- اِس بات کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں حکومت کے معاملے کو کسی مطلق معیار (political idealism) کے تابع نہیں کیا گیا، بلکہ وہ عملی طریقہ اختیار کیا گیاہے جس کو سیاسی بندوبست (political adjustment) کا طریقہ کہا جاسکتا ہے-
فطرت کا نظام
قرآن کی سورہ الفرقان اِس آیت سے شروع ہوتی ہے: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا ( 25:1 ) یعنی بڑا بابرکت ہے اللہ جس نے فرقان (قرآن) اتارا، تاکہ وہ سارے عالم کے لیے آگاہ کرنے والا بنے-
اِس آیت کے مطابق، قرآن ایک کتابِ فرقان ہے، یعنی فرق کرنے والی کتاب- فرقان فرق کا مبالغہ ہے- اِس کا مطلب ہے: الفصل بین الشیئین(دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا)- یہ بلاشبہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے- موجودہ دنیا میں امتحان کی مصلحت کی بنا پر تمام چیزیں غیرممیّزحالت میں پائی جاتی ہیں- انسان کی یہ لازمی ضرورت ہے کہ وہ اِن چیزوں کو درست طور پر سارٹ آؤٹ (sort out)کرسکے-ایسا نہ کرنے کی صورت میں انسان فکری اعتبار سے، کنفیوژن (confusion) کا شکار ہوجائے گا اور عملی اعتبار سے وہ اپنے کاموں کی نتیجہ خیز پلاننگ نہ کرسکے گا- اِس اصول کو دوسرے الفاظ میں فطرت کا نظام کہاجاسکتا ہے-اِس دنیا میں کوئی بھی کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہے جب کہ فطرت کے اِس نظام کو ملحوظ رکھتے ہوئے زندگی کا نقشہ بنایا جائے-
انسان بظاہر وسیع کائنات کا ایک حصہ ہے، لیکن انسان کی ایک ممیز صفت ہے جو بقیہ کائنات میں موجود نہیں، وہ یہ کہ انسان کی زندگی بیک وقت دو مختلف تقاضوں کا مجموعہ ہوتی ہے— فرد(individual) اور اجتماع (society)- مطالعہ بتاتا ہے کہ فرداور اجتماع کے تقاضے مشترک ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہیں، بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، حتی کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان کی زندگی گویا ایک قسم کا مجموعۂ اضداد (mixture of opposites) کی حیثیت رکھتی ہے-
بقیہ کائنات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے، بقیہ کائنات میں یہ تقسیم موجود نہیں- بقیہ کائنات کا معاملہ یہ ہے کہ جو ایک درخت کا کیس ہے، وہی پورے باغ کا کیس ہے|\، جو ایک قطرۂ آب کا کیس ہے، وہی پورے سمندر کا کیس ہے، جو ایک ستارے کا کیس ہے، وہی پوری کہکشاں کا کیس بھی ہے- بقیہ کائنات میں واحدہ (unit) اور مجموعہ دونوں کا کیس یکساں ہے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں— انسان کا معاملہ اس سے مختلف ہے- انسانی زندگی کی منصوبہ بندی میں اِس فرق یا اختلاف کو ملحوظ رکھنے کا نام کامیابی ہے اور اِس فرق یا اختلاف کو ملحوظ نہ رکھنے کا نام ناکامی-
تاریخ کی تصویر
تاریخ میں جو سوچنے والے لوگ (thinkers) گزرے ہیں، اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہوا ہے کہ انھوں نے اپنی سوچ کے مطابق، ایک عظیم فکری نشانہ (great vision) کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کیا- لیکن ساری کوشش کے بعد آخر میں وہ اپنے نشانہ (goal) کو حاصل کرنے کے بارے میں ناامید ہوگئے- اور جب وہ دنیا سے گئے تو وہ مایوسی (despair) کا کیس بن چکے تھے- ارسطو (Aristotle) سے لے کر برٹرنڈرسل تک کتنے لوگ ہیں جنھوں نے آئڈیل گورنمنٹ کے قیام کو اپنا نشانہ بنایا، لیکن ساری کوشش کے باوجود وہ عملاً آئڈیل گورنمنٹ نہ بنا سکے- لیوٹالسٹاے (Leo Tolstoy) سے لے کر مہاتما گاندھی تک کتنے لوگ ہیں، جنھوں نے پرامن دنیا (peaceful world) بنانے کا خواب دیکھا، لیکن اُن کا خواب کبھی عملی واقعہ نہ بن سکا، یہاں تک کہ ناکامی کے احساس کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے گئے-
سید قطب سے لے کر ڈاکٹر محمد مرسی (مصر) تک کتنے لوگ ہیں جنھوں نے اپنا یہ مشن بنایا کہ ان کو دنیا میں انصاف (justice) پر مبنی نظام قائم کرنا ہے، مگر اُن کا آخری احساس یہ تھا کہ ساری کوشش کے باوجود دنیا میں وہ اپنا مطلوب نظام قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے- اُن سب کا حال وہی ہوا جو رابندر ناتھ ٹیگور نے تمثیل کی زبان میں اِس طرح بیان کیاتھا — ساری عمر بینا (ستار) کے تاروں کو سلجھانے میں بیت گئی، مگر جو اَنتم گیت میں گانا چاہتا تھا، وہ میں نہ گاسکا-
منصوبۂ تخلیق
یہ پوری تاریخ کا ایک عظیم فکری المیہ (intellectual tragedy) ہے-اس کا سبب صرف ایک ہے — زندگی کے بارے میں خدا کے تخلیقی منصوبہ سے بے خبر ہونا اور خود ساختہ ذہن (self-styled mindset)کے تحت منصوبہ بنا کر اس کو ایک ایسی دنیا میں بروئے کار لانے کی کوشش کرنا جو اُس کے مطابق، بنائی نہیں گئی تھی- یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ اَہْدٰى سَبِیْلًا ( 17:84 ) یعنی ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے- اب تمھارا رب بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر ہے-
قرآن کی اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ خالق کا منصوبۂ اشیا (scheme of things) ہی صحیح تخلیقی منصوبہ ہے- اُس کا اتباع کرکے دنیا میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے- لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ خالق کے منصوبے کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے- وہ صرف اپنے فکری شاکلہ (mindset) کو جانتے ہیںاور اُسی کے مطابق، عمل شروع کردیتے ہیں- دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اپنے کاگ (cog)کو خالق کے کاگ سے نہیں ملاتے- اِس بنا پر اُن کا منصوبہ غیرحقیقت پسندانہ بن جاتا ہے- اِس معاملے میں لوگوں کی عمومی ناکامی کا اصل سبب یہی ہے-
اِس سلسلے میں ایک بنیادی پہلو یہ ہے کہ خالق نے انسان کو مصلحتِ امتحان کی بنا پر مکمل آزادی (total freedom) عطا کیا ہے- ہر انسان کو کلی طور پر یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے- اِس تخلیقی نقشے کی بنا پر عملاً یہ بات ناممکن ہوگئی ہے کہ اِس دنیا میں عوام (masses) کی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جاسکے-کیوں کہ کچھ لوگ اگر اُس سے اتفاق کریں گے تو کچھ لوگ اپنے اختیار کا آزادانہ استعمال کرتے ہوئے اس کے خلاف ہو جائیں گے اور پھر وہ مجوّزہ اجتماعی اسکیم کو درہم برہم کردیں گے- تاریخ میں باربار ایسے واقعات پیش آئے ہیں، جب کہ ایک شخص یا چند اشخاص نے بڑی بڑی اسکیموں کا خاتمہ کردیا-
خالق کے اِس نقشے کی بنا پر حقیقت پسندانہ رویہ یہ ہے کہ آدمی اِس سے مطابقت کرتے ہوئے اپنا نقشہ بنائے-ہر انسان کو پیشگی طورپر یہ جاننا چاہیے کہ اس کا منصوبہ صرف اُس وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ وہ خالق کے نقشے کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتا ہو- خالق کے نقشے سے ادنی انحراف بھی یقینی طورپر اس کے منصوبے کو ناکام بنادے گا، خواہ بطور خود وہ اس کو کتنا ہی زیادہ اچھا سمجھتا ہو-
انفرادی معیار پسندی، اجتماعی عملیت
اِس حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو موجودہ دنیا میں قابلِ عمل منصوبے کا اصول صرف ایک ہے، اور وہ ہے فرد (individual) اور اجتماع (society) کو ایک دوسرے سے الگ کرکے منصوبہ بنانا- فرد کے تقاضے اور اجتماع کے تقاضے کے درمیان فرق کی رعایت کرتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنانا یہی فطری طریقہ ہے- اِس فطری طریقے کا اصول مختصر طور پر یہ ہے:
1- فرد کے لیے نظری معیار (individual idealism)
2- اجتماع کے لیے عملی امکان (social pragmatism)
فرد کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں عامل اور معمول دونوں ایک ہوتے ہیں- فرد کے کیس میں ایک آدمی خود معیار مقرر کرتا ہے اور خود اس کے اپنے اختیار میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اِس معیار کو اپنی زندگی میں اختیار کرے- اِس لیے فرد کے کیس میں کسی معیار کو عمل کی صورت دینا پوری طرح ممکن ہوتا ہے- اِسی لیے اللہ کے یہاں لوگوں کا درجہ فرد کی نسبت سے متعین ہوگا، نہ کہ مجموعہ کی نسبت سے-
ہر فرد کو چاہیے کہ وہ جس اصول کو درست سمجھتا ہے، اس کو وہ اپنی ذاتی زندگی میں پوری طرح اختیار کرے- وہ اِس معاملے میں کسی سے سمجھوتہ (compromise) نہ کرے- یہی وہ اصول ہے جس کو ہم نے انفرادی معیار پسندی (individual idealism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
اِس کے بعد جہاں تک اجتماع یا انسانی مجموعہ کا تعلق ہے،اس کے معاملے میں قانونِ فطرت کے مطابق، جو چیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف یہ ہے کہ ممکن الحصول اور ناممکن الحصول کے درمیان فرق کرتے ہوئے اپنا منصوبہ بنانا، یعنی ذاتی ماڈل کو چھوڑ کر عملی ماڈل اختیار کرنا، اجتماع کے درجۂ قبولیت (level of acceptance) کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنانا- یہی وہ عملی حقیقت (practical wisdom) ہے جس کو ہم نے اجتماعی عملیت (social pragmatism) کے الفاظ میں بیان کیا ہے-
تاریخ میں جو مفکرین عملاً ناکام ہوگئے، اُن کی ناکامی کا مشترک سبب یہی ہے کہ انھوں نے ذاتی سوچ کے تحت اپنے ذہن میں اجتماع کا ایک خوب صورت ماڈل بنایا اور پھر اس کو وقوع میں لانے کے لیے پُر شور تحریکیں شروع کردیں- اِس کا فطری نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کا تصوراتی ماڈل حقائق کی چٹان سے ٹکرا کر بکھر گیا — معیار (ideal) مجموعے کی سطح پر ناقابلِ حصول ہے، لیکن فرد (individual) کی سطح پر بلاشبہہ وہ قابلِ حصول ہے-
مذہب اور سیاست
فرداور اجتماع کے درمیان اِسی فرق کی بنا پر اسلام میں مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کردیاگیا - مذہب کا نشانہ ذاتی ارتقا (personal development) ہے، یعنی ربانی بنیادوں پر فرد کی تعمیر- اِس اعتبار سے، مذہب اُس دائرے کی چیز ہے جس کے لیے ہم نے انفرادی معیار پسندی (individual idealism) کا لفظ استعمال کیا ہے-
اِس کے برعکس، سیاسی اقتدار کا معاملہ پورے انسانی مجموعے سے تعلق رکھتا ہے اور قانونِ فطرت کے مطابق، پورے انسانی مجموعے کو ایک معیار پر ڈھالا نہیں جاسکتا- ایسی حالت میں قابلِ عمل صورت صرف یہ ہے کہ سیاسی اقتدار کے معاملے کو اُس دائرے کی چیز قرار دیا جائے جس کے لیے ہم نے اجتماعی عملیت (social pragmatism) کی اصطلاح استعمال کی ہے-
مذہب اور سیاست کے درمیان تفریق اِسی عملی اصول (practical wisdom)کی بنا پر ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ فرد کو معیاری اصول پر قائم ہونے کی تاکید کی جائے، لیکن ذاتی اقتدار کے معاملے میں اُس اصول کو اختیار کرلیا جائے جس کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کما تکونون کذلک یؤمّر علیکم ( البیہقی، رقم الحدیث: 7391) یعنی تم جیسے ہوگے، ویسے تمھارے حکمراں ہوں گے- دوسرے لفظوں میں، یہ کہ سیاسی اقتدار کے معاملے میں سماجی قبولیت (social acceptability) کودیکھا جائے گا، نہ کہ کسی مطلق معیار (absolute ideal) کو-
یہ فطرت کا اصول ہے- اِس اصول کی بنیاد پر زندگی کی تشکیل کی جائے تو سماج میں ہمیشہ امن قائم رہے گا، کیوں کہ امن کی حالت ہر قسم کی ترقی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے- اِس کے برعکس، اگر فطرت کے اِس اصول کو نظر انداز کردیا جائے اور فرداور مجموعہ کو ایک ہی نظام کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے تو ابدی طورپر امن کا خاتمہ ہوجائے گا- اِس کے بعد سماج میں نفرت اور ٹکراؤ اور تشدد جیسی برائیاں جنم لیں گی جو کبھی ختم نہ ہوں گی-
اسلام کا اصل نشانہ
ہر نظام میں ایسا ہے کہ کچھ چیزیں اِس نظام کا اصل حصہ (real part) ہوتی ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو اِس نظام کا اضافی حصہ (relative part) ہوتی ہے- اسلام میں خارجی اعتبار سے ، اصل نشانے کی حیثیت صرف ایک چیز کو حاصل ہے، اور وہ دعوت یا شہادت ہے- اس کے سوا جو خارجی چیزیں ہیں، اُن کی حیثیت اسلام کے اضافی حصہ (relative part) کی ہے- اسلام کو عقلی طورپر سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو جاننا بہت ضروری ہے- اِس حقیقت کو جانے بغیر اسلام کی جو توجیہہ کی جائے گی، وہ کبھی درست نہیں ہوسکتی-
شہادتِ عظمیٰ
اسلام کا نشانہ اقامتِ نظام نہیں ہے، بلکہ دعوت الی اللہ ہے، یعنی تمام انسانوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا- تمام انبیا کا مشن یہی دعوت الی اللہ تھا-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی دعوتی مشن کے لیے کام کیا- یہ دعوتی مشن پوری تاریخ میں جاری رہا-عالمی ابلاغ کے اعتبار سے، اِس کا کامل اظہار دورِ آخر میں ہوگا- اِس کامل اظہار کو ایک حدیثِ رسول میں شہادتِ عظمی کہا گیاہے، یعنی تمام انسانیت کے سامنے اللہ کے دین کی عالمی گواہی (ہذا أعظم الناس شہادة عند رب العالمین)-
احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس شہادت عظمی یا عالمی گواہی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مطابق، وسائل دستیاب ہوچکے ہوں- اِس معاملے کے دو پہلے ہیں — ایک یہ کہ اِس طرح کی عالمی شہادت کے لیے عالمی مواصلات (global communication) لازمی طورپر ضروری ہے- بیسویں صدی میں عالمی مواصلات کے معاملے میں غیر معمولی ترقی ہوئی ہے، یہاں تک کہ موجودہ زمانے کو مواصلات کا زمانہ (age of communication) کہاجاتا ہے- اِس واقعے میں اِس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ زمانے میں پوری طرح وہ وقت آگیاہے کہ شہادتِ عظمی یا عالمی دعوت کا کام موثر طورپر انجام دیا جاسکے-موجودہ زمانے میں ایک طرف، مکمل معنوں میں مذہبی آزادی آگئی ہے اور دوسری طرف مواصلات کی ترقی نے اِس بات کو آخری حد تک ممکن بنا دیا ہے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر عالمی دعوت کا کام کیا جاسکے- یہ وہی کام ہے جس کو حدیث میں ’ادخال الکلمة فی کل البیوت‘ کہا گیاہے-
اِس سلسلے میں دوسری بات وہ ہے جس کا ذکر مذکورہ حدیث میں آیا ہے- شہادت عظمی کی روایت میں ’حجیج‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی مطلوب دعوت کے کام کو حجت یا دلیل کی سطح پر انجام دینا- یہ بھی موجودہ زمانے کی ایک خصوصیت ہے- چناں چہ موجودہ زمانے کو دورِ تعقل (age of reason) کہا جاتا ہے- موجودہ زمانے میں علم کی ترقی کی بنا پر ایساہوا ہے کہ پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ عقلی ڈیٹا (rational data) کی بنیاد پر کسی بات کومدلل کیا جاسکے-
زمانے کی یہ تبدیلی بھی حدیث کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے- موجودہ زمانے میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ اسلام کی صداقت کو عقلِ انسانی کی بنیاد پر مدلل کرکے اس کو انسان کے سامنے پیش کیا جاسکے- گویا شہادتِ عظمی کے دو تقاضے موجودہ زمانے میں پہلی بار انسان کی دسترس میں آئے ہیں — عالمی مواصلات اور عقلِ انسانی کی مسلّمہ سطح پر حقائق کا اثبات-
حدیث ِ رسول کے مطابق، دورِ آخر میں شہادت عظمی کا جو واقعہ ظہور میں آنے والا ہے، وہ حدیث کے مطابق، ایک ایسا واقعہ ہوگا جو اِس سے پہلے کبھی پیش نہیں آیا- اُس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی علم عقلی ارتقا کے اعلی درجے تک پہنچ چکا ہو- اِسی کے ساتھ وہ تمام وسائل موجود ہوچکے ہوں جو اِس طرح کی عالمی شہادت کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں- موجودہ زمانے میں یہ تمام وسائل پوری طرح وجود میں آچکے ہیں- اِس لیے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ موجودہ زمانہ ہی وہ زمانہ ہے جب کہ شہادتِ عظمی کا وہ واقعہ ظہور میں آئے جس کی پیشین گوئی حدیثِ رسول میں کی گئی ہے-
خلاصہ کلام
اسلام میں انفرادی دین اور اجتماعی دین کے بارے میں یہاں جو کچھ کہاگیا، وہ اِس معاملے میں کوئی نئی اسکیم نہیں ہے- اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں بالفعل جوکچھ پیش آیا، یہاں اس کی ایک قابلِ قبول توجیہہ (acceptable explanation) بیان کی گئی ہے- اِس توجیہہ کی روشنی میں اسلام کی تاریخ ایک بامعنی تاریخ بن جاتی ہے- اِس کے بعد تاریخ کے بارے میں یہ نظر آنے لگتا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ قانونِ فطرت کے مطابق ہوا اور اجتماعیات کے معاملے میں اسلام کا اصول وہی ہے جو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، فطرت کا اصول ہے-
یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو خالص معیار (ideal) سے مطابقت نہ رکھتے تھے- مثلاً خلیفہ یا امیر المومنین کے تقرر کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنا- بعد کے زمانے میں حکومتی ادارے کا خاندانی حکومت (dynasty) کی صورت اختیار کرلینا، اہلِ اسلام کا مختلف گروہوں میں بٹ جانا اور ان کے درمیان پر تشدد ٹکراؤ پیش آنا، بیت المال کے نظام میں بظاہر خلل واقع ہونا، وغیرہ-
اسلام کی بعد کی تاریخ میں جو واقعات پیش آئے، وہ بظاہر معیار کے مطابق نہ تھے- اِس طرح کے واقعات کے معاملے میں عام طورپر اہلِ علم نے دو قسم کا موقف اختیار کیا ہے — ایک موقف اُن لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بعد کی تاریخ میں اسلام کا ابتدائی معیار باقی نہ رہا، وہ بگاڑ کا شکار ہوگیا- دوسرا موقف اُن لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں ہمیں خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے، ہمیں اُن کا تجزیہ نہیں کرنا چاہئے-
مگر یہ دونوں موقف ناقابلِ قبول ہیں، کیوں کہ اسلام انسان کے لیے ہے اور انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے ہر واقعے کی عقلی توجیہہ (rational interpretation)چاہتا ہے- اِس لیے اسلام کی تاریخ کی ایسی توجیہہ کرنا ضروری ہے جو عقلی طورپر قابلِ فہم ہو- ایسا نہ کرنے کی صورت میں لوگ اسلام کی صداقت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں گے، وہ کامل یقین کے ساتھ اسلام کو اختیار نہ کرسکیں گے — مذکورہ وضاحت کا یہ فائدہ ہے کہ اِس سے اسلامی تاریخ کی ایک قابلِ فہم توجیہہ حاصل ہوجاتی ہے، بغیر اِس کے کہ اسلام کی کامل صداقت پر کوئی حرف آیا ہو-
واپس اوپر جائیں