سوال وجواب
سوال
مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اس زوال وانحطاط کا منبع کہاں ہے- اصلاحِ احوال کی ہر کوشش کیوں ناکام ہوگئی- اور یہ سوال کہ اس زوال وانحطاط کے منبع کو بند کرنے کی تدبیر کیا ہونی چاہئے- کیا اس کا سب سے بنیادی سبب ہمارے بیچ کئی لاکھ حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے دو سو سال بعد مرتب کی گئی ہے یا کوئی دوسری وجہ ہے، براہِ کرم رہنمائی فرمائیں- (سید ثاقب علی ہاشمی، پٹنہ، بہار)
جواب
1- امتِ مسلمہ کا زوال کسی پراسرار سبب کی بنا پر نہیں ہے- یہ ایک عام فطری قانون کی بنا پر ہے اور وہ وہی ہے جس کو ابنِ خلدون (وفات: 1406 ) نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: للأقوام أعمار، کما للأفراد أعمار- جن گروہ کا کوئی نظریہ (ideology) نہ ہو، جس کا مقصد صرف کھانا کمانا ہو، اُس کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ عام حالات میں زوال کا شکار نہ ہو، لیکن ایسا گروہ جوایک نظریہ یا آئڈیالوجی کی بنیاد پر بنے، اُس کے لیے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی بعد کی نسلوں میں نظریاتی ضعف آجاتا ہے- وہ ایک نظریاتی گر وہ کے بجائے صرف ایک قومی گروہ بن کر رہ جاتا ہے- اِسی حالت کا نام زوال ہے-
یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا حال ہوا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں اسلام بطورنظریہ یا اسپرٹ باقی نہیں رہا، اب وہ صرف ایک کلچر کے طور پر باقی ہے، جیساکہ زوال یافتہ قوموں کے درمیان ہمیشہ ہوتا ہے- موجودہ زمانے کے مسلمان ایک کلچرل گروپ کی حیثیت سے زندہ ہیں، نہ کہ ایک نظریاتی گروپ کی حیثیت سے-
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے درمیان بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ سب کی سب اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں- اِس ناکامی کا سبب یہ تھاکہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اِس مفروضے کے ساتھ اپنا کام شروع کیا کہ یہاں ایک ’’خیرِامت‘‘ موجود ہے اور اس کو زندہ کرنے کے لیے صرف یہ کرنا ہے کہ اس کے اندر جوش وولولہ پیدا کردیا جائے- اقبال کا یہ شعر اِسی ذہن کی نمائندگی کرتاہے:
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
احیاءِ امت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اِس بات کو تسلیم کیا جائے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان خیر امت نہیں ہیں، بلکہ وہ ایک زوال یافتہ امت (degenerated community) ہیں- اِس اعتراف کے بعد آپ کو صحیح نقطہ آغاز مل جائے گا، یعنی لوگوں کے اندر سب سے پہلے ایمانی شعور پیدا کرنا- مزید یہ کہ اصلاحِ امت کا کام اصلاحِ افراد سے شروع ہوگا، اِس طرح نہیں کہ مسلمانوں کی بھیڑ جمع کرکے اسٹیج سے اُن کے سامنے پرجوش تقریر کی جائے- یہ بھی صحیح آغاز نہیں کہ اسلام کے نام سے بڑے بڑے ادارے یا مسلم حکومتیں قائم کی جائیں- اِس قسم کی کوششوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دیمک زدہ لکڑی پر کوئی عمارت کھڑی کرنا- ایسا منصوبہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا-
بعض جماعتوں نے اصلاحِ ایمان کے نام سے تحریکیں چلائیں، لیکن اصل نشانے کے اعتبار سے وہ بھی ناکام ہوگئیں- اِس ناکامی کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے فضائل کی کہانیاں سنا کر امت کو بیدار کرنا چاہا- یہ ایسا ہی تھا جیسے امانی ( 2:78 ) کی بنیاد پر کسی قوم کو اٹھایا جائے- مگر فضائل کی کہانیوں یا امانی کی داستانوں کے ذریعے کسی زوال یافتہ قوم کو دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا-
زوال یافتہ امت کو دوبارہ زندہ کرنے کا صحیح طریقہ وہ ہے جو کہ مبنی بر افراد ہو، نہ کہ مبنی بر قوم- اِس طریقے کو قرآن میں بتا دیا گیا ہے- اِس کو سمجھنے کے لیے آپ قرآن کی سورہ الحدید کی آیت 17 کا مطالعہ کیجئے- (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’قیادت نامہ‘‘، صفحہ: 180-183)-
2- حدیث کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، نہ اُس کا کوئی تعلق زوالِ امت سے ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’تجدید دین‘‘، صفحہ 21-38 ) حقیقت یہ ہے کہ اختلاف ایک امرِ فطری ہے، وہ ہمیشہ ہوگا، اختلاف خالق کے تخلیقی منصوبے کا لازمی حصہ ہے- اختلاف کو ختم کرنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں-
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ اختلاف کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ برداشت کی عدم موجودگی ہے- زوال یافتہ نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہوا ہے کہ وہ اختلاف کو ڈسکشن کا موضوع نہیں بناتے، اختلاف پیش آتے ہی وہ بر ہم ہوجاتے ہیں، یہ برہمی اتنی زیادہ بڑھتی ہے کہ ٹکراؤ اور جنگ کی نوبت آجاتی ہے- اگر آپ کو مسلمانوں کی اصلاح کرنا ہے تو اختلاف کے خاتمے کی ناممکن الحصول کوشش نہ کیجئے، بلکہ اُن کے اندر برداشت اور تحمل کی صفت پیدا کیجئے- اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اختلاف ان کے لیے رحمت بن گیا ہے- اختلاف کو اگر ڈسکشن (discussion) کا موضوع بنایا جائے تو اِس سے ذہنی ارتقا ہوتا ہے اور اگر اختلاف کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے تو اختلاف تو ختم نہ ہوگا، البتہ قوم برباد ہو کر رہ جائے گی-
سوال
میں ماہ نامہ الرسالہ کا ایک عرصۂ دراز سے مستقل خریدار اور قاری ہوں- آپ کی تحریر کردہ بہت سی کتابیں میں نے پڑھی ہیں- زکوة کے مصارف میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مد میں ’’تملیک‘‘ کے ذریعہ زکوة اور فطرہ وغیرہ کی رقم کا استعمال ایک عام بات ہوگئی ہے-
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور میں آپ جیسا عالمِ دین ہی غیر جانبداری کے ساتھ ایک تحقیقی مقالہ یا کتاب اِس موضوع پر تحریر کرسکتا ہے جس میں تملیک کی تعریف ، شرعی حیثیت، ابتدا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں تملیک کی موجودگی اور اس پر عمل آوری جیسے سوالات کا تشفی بخش جواب تحریر ہو اور غیر جانبدارانہ تجزیہ بھی ہو- (اقبال حسین، اجین، مدھیہ پردیش)
جواب
زکات کے موضوع پر کافی لکھا گیا ہے- اِس سلسلے میں میں آپ کو تین کتابیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا— زکات کا اجتماعی نظام (مولانا ابو الکلام آزاد)، فقہ الزکات (ڈاکٹر یوسف القرضاوی)، مسئلہ تملیک کی شرعی حیثیت (مولانا شہاب الدین ندوی)-
زکات کے معاملے میں ’’لامِ تملیک‘‘ کی بحث صرف ایک فنی بحث ہے، اس کی بنیاد قرآن اور حدیث کے کسی واضح حکم پر مبنی نہیں ہے- جن علمانے لامِ تملیک کا مسئلہ وضع کیا ہے، وہ اُن کا صرف ذاتی استنباط ہے اور استنباط کے معاملے میں ہمیشہ اختلاف کی گنجائش رہتی ہے- آپ کو یہ حق ہے کہ آپ چاہیں تو اِس استنباط کو مانیں، یا اگر آپ کے پاس کوئی دلیل شرعی موجود ہو تو آپ جائز طور پر یہ حق رکھتے ہیں کہ آپ اِس استنباط کو نہ مانیں-
خود ماہ نامہ الرسالہ میں اِس موضوع (زکات کا مسئلہ) پر ایک مضمون چھپ چکا ہے- آپ اس کو بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں (ماہ نامہ الرسالہ، جنوری 1997، صفحہ: 14-18 )-
سوال
عرض ہے کہ میں نے جولائی 2013 کا الرسالہ ملاحظہ کیا- ہمیشہ کی طرح معنی خیز اور علمی باتوں سے مزین ہے اور ہمیشہ کی طرح کچھ نہ کچھ اختلافی باتیں ذہن میں کھٹک پیدا کرنے والی ہیں-آپ نے تبلیغی جماعت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ تحریک لوگوں کو نماز پر کھڑا کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی اور بعد کو اس میں غلو اور تعصب آگیا (صفحہ: 15 )- پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اس کا تعارف غلط پیش کیا ہے- مولانا الیاس کے بقول، وہ اِس تحریک سے یہ چاہتے تھے کہ امت اُسی سطح پر آجائے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو چھوڑ کر گئے تھے- یہ آپ کے قول کے برخلاف، ایک ہمہ گیر عنوان ہے جو اُسی فکر ومنہج کے ساتھ اب تک چلا آتا ہے اور انشاء اللہ چلتا رہےگا- کچھ لوگوں کے ذاتی کردار کو کسی تحریک پر تبصرہ کی شکل میں پیش نہیں کیا جاسکتا، ٹھیک اُسی طرح جیسے کوئی مسلمانوں کے اعمال سے اسلام پر تبصرہ کرے- میں ایک سال کی جماعت سے حال ہی میں لوٹا ہوں، میں نے اِس شجر کی کچھ شاخوں کو تو باغی ضرور پایا ہے، لیکن جڑیں معمولی تغیر کے ساتھ اب بھی مضبوط ہیں، اور اگر آپ کی نظر میں کوئی چیز غلط ہے تو اس کی وضاحت کریں- (عبد الحسیب، کیرانہ،یوپی)
جواب
تبلیغی جماعت کے بارے میں الرسالہ میں جو بات میں نےلکھی ہے، وہ کوئی ذاتی رائے نہیں ہے- مولانا انعام الحسن کاندھلوی (وفات: 2006) جو تبلیغ میں تیسرے ’’حضرت جی‘‘کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ مبینہ طور پر کہتے تھے کہ تبلیغی تحریک ایک مسجد وار تحریک ہے- مولانا انعام الحسن کاندھلوی کا یہ بیان کوئی مخفی بیان نہیں ہے، تبلیغ کے سبھی لوگ اس سے واقف ہیں-
دوسری بات یہ کہ میں خود جماعت میں گیا ہوں- میں نے اپنے ذاتی تجربے میں یہی پایا ہے کہ ہر بار مسجد میں ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں- ایک ہی قسم کی کتاب پڑھ کر ہمیشہ سنائی جاتی ہے اور تقریر میں ہمیشہ تقریباً ایک ہی قسم کی باتیں کہی جاتی ہیں- میں نے الرسالہ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ ایک واقعہ ہے، وہ کوئی ذاتی تبصرہ نہیں-
غلو کی بات جو میں نے لکھی ہے، وہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے- مجھ سے بہت سے لوگوں نے یہ بات کہی کہ تبلیغی جماعت میں غلو کا مزاج آگیا ہے- یہ وہ لوگ ہیں جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں، وہ اس کے مخالف نہیں- غلو کیا چیز ہے- غلو دراصل جمود (stagnation) کا نام ہے اور یہ ظاہرہ ہر تحریک میں بعد کو پیدا ہوجاتا ہے- تبلیغی جماعت اِس معاملے میں کوئی مستثنیٰ جماعت نہیں-
آپ نے مولانا الیاس کاندھلوی (وفات: 1944) کے جس ملفوظ کا ذکر کیا ہے، وہ ملفوظ بجائے خود درست ہوسکتا ہے، لیکن تحریکیں کسی ملفوظ پر نہیں چلتیں، تحریکوں کے ارتقا کے اپنے اسباب وعوامل (factors) ہوتے ہیں- یہی اسباب وعوامل ہیں جو تحریکوں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں، نہ کہ کوئی ملفوظ-
سوال
1980 کے شروع کا کوئی مہینہ ہوگا جب میں نے الرسالہ اور مولانا صاحب کی بعض تصانیف دیکھی تھیں- پہلے میںنے الرسالہ کی ایک کاپی اٹھائی اور اس کے اوراق الٹ پلٹ کرکے دیکھا تو اس میں اس وقت چند آیتوں کا ترجمہ اور تفسیر تھی جو میں نے پڑھی اور کافی پسند آئی، پھر میںنے وہ الرسالہ خرید لیا اور اس وقت سے لے کر آج تک الرسالہ خریدتا آرہا ہوں اور بغور پڑھتا آرہا ہوں- الرسالہ ہاتھ میں آنے کے بعد جب تک اس کو پڑھ کر مکمل نہ کرلوں، چین نہیں ملتا - الرسالہ کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کی دیگر تصانیف میں سے 70% کتابیں بھی منگاکر پڑھ چکا ہوں- اس وقت مطالعہ میں جو کتاب چل رہی ہے، وہ ہے ’’کتاب معرفت‘‘-میری تعلیم بہت کم ہے، لیکن الرسالہ کے مسلسل مطالعے سےجو میں نے اثرات قبول کئے، وہ درج ذیل ہیں-
1- سب سے پہلا الرسالہ پڑھ کر محسوس کیا کہ الرسالہ میرے احساس کی علمی پیاس بجھانے والا ایک ذریعہ ہے- الرسالہ کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے میں ہر دینی اجتماع میں شریک ہو کر دینی باتیں سنتا تھا، مگر علمی ذوق تشنہ رہتا تھا- جب الرسالہ کے ساتھ ساتھ دیگر کتابیں بھی پڑھ لیں تو ایسا لگا کہ اب تلاش حق کا ذریعہ الرسالہ اور مولانا کی دیگر تصانیف ہیں- الرسالہ کا مطالعہ کرنے سے پہلے میرا ذہن بند تھا اور پھر محسوس ہواکہ الرسالہ سے پہلے حق کی پکڈنڈیوں پر چل رہا تھا اور اب شاہ راہ پرچلنے لگا ہوں-
2- الرسالہ کا مطالعہ کرنے پہلے میرے ذہن کی یہ حالت تھی کہ میں اگر کسی موضوع پر غور کرتا تو کچھ سوچنے کے بعد میرا ذہن آگے سوچنے سے رک جاتا تھا- اور ایک طرح کی پریشانی محسوس ہوتی تھی- لیکن جب سے الرسالہ پڑھنا شروع کیا، آہستہ آہستہ میرا ذہن کھلتا گیا اور کسی بھی بات پر غور کرنا آسان ہوتا گیا، یہاں تک کہ اب کوئی بھی بات یا مسئلہ آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے- میں نے صرف الرسالہ پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ میں نے آپ کی دیگر تصانیف کا بھی مطالعہ کیا-جیسے ’’الاسلام‘‘، ’’تجدید دین‘‘ وغیرہ-
3- ہر ماہ کے الرسالہ کا انتظار رہتا ہے اور ملتے ہی پڑھناشروع کردیتا ہوںاور جب تک ختم نہ کرلوں، چین نہیں ملتا-یہی حال باقی کتابوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے-
4- الرسالہ کے مطالعہ سے دین اور دنیا کی اہم معلومات حاصل ہوتی رہتی ہیں-
5- الرسالہ کو مسلسل پڑھتے رہنے سے خود ایسا احساس ہوتاہے کہ آپ خودبھی ڈگری یافتہ ہوگئے ہیں- جن حضرات نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دی ہو، وہ مولانا کا لٹریچر پڑھیں-
6- الرسالہ کے مطالعہ سے ذہن کا ارتقا ہوتا ہے- ذہن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اور ہم خود ہی غور فکر کرنے لگتے ہیں-
7- الرسالہ کے مسلسل پڑھتے رہنے سے آدمی اپنی گفتگو میں مثبت انداز اختیار کرتا ہے-
8- الرسالہ کے متواتر مطالعہ سے اپنے اندر کی جھجھک بھی دور ہوجاتی ہے- کسی مسئلہ پر چند صاحبان کے درمیان خود بھی کچھ بولنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے-
9- الرسالہ کے پڑھنے والوں کے اندر سنجیدگی پیدا ہوجاتی ہے-
10- الرسالہ پڑھنے والے حضرات لایعنی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے آپ خاموشی سے غور وفکر میں مشغول ہوتے ہیں الرسالہ کا مشن ہی یہ ہے کہ ہر مسلمان آخرت پسند بنے-
11- الرسالہ کے لگاتار پڑھنے سے سب سے بڑا فائدہ قرآن وحدیث کی تفسیر پڑھنے سے ملتا ہے - گویا الرسالہ کے مطالعہ سے ہم تفسیر کا مطالعہ بھی جاری رکھے ہوتے ہیں-
12- الرسالہ کے مسلسل مطالعے کے ذریعہ ہمارے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کے جوابات بھی ملتے رہتے ہیں-
13- الرسالہ کے مسلسل مطالعے سے اپنی اردو کے ساتھ انگریزی بھی ٹھیک ہوجاتی ہے- جن الفاظ کے معنی ہم ڈکشنری میں نہیں دیکھ سکتے، وہ الرسالہ میں مل جاتے ہیں-
14- ڈگری یافتہ حضرات کے لئے صرف ڈگری کافی نہیں ہوتی، ان کو چاہئےکہ وہ کسی عالمِ دین کے لٹریچر کا مطالعہ کریں- مطالعہ کے لئے مولانا صاحب کا لٹریچر بہترین لٹریچر ہے- ساتھ میں الرسالہ کا بھی مطالعہ جاری رکھیں-
آخر میں مولانا صاحب کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں جنھوں نے الرسالہ کے ذریعے اور اپنی تصانیف اور لٹریچر سے ہم کو ایک اچھا مسلمان اور ہندستان کے لئے ایک اچھا شہری بننے میں بہت مدد دی ہے- (سرفراز الدین، ٹیلر ماسٹر، بنگلور)
جواب
یہ تحریر اِس بات کی ایک اچھی مثال ہے کہ دعوت کا نشانۂ عمل متلاشی افراد (individual seekers) ہیں، نہ کہ بھیڑ ایکٹوزم (crowd activism) ، یعنی متلاشی افراد کو لے کر اُن پر محنت کرنا، نہ کہ بھیڑ اکھٹا کرکے اُن کے سامنے تقریریں کرنا-
ہر سماج میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جن کے اندر روحِ تجسس (spirit of inquiry) پائی جاتی ہے، جو افکار کے جنگل میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سچائی کیا ہے- دعوت کا عمل ابتداء ً عمومی انداز میں شروع ہوتا ہے، لیکن اِس عمل کا مقصد متجسس افراد کو دریافت کرنا ہے- جب داعی کو ایسے افراد مل جائیں تو اس کو چاہئے کہ وہ ایسے افراد پر اپنی ساری طاقت خرچ کرے-
اِس معاملے میں داعی کا مزاج چیونٹی جیسا مزاج ہوتاہے- چیونٹی جب کسی ڈھیر کو پاتی ہے تووہ یہ نہیں دیکھتی کہ وہاں دوسری کیا کیا چیزیں موجودہیں- وہ صرف شکر (sugar)کے دانوں کو دیکھتی ہے اور اپنی پوری توجہ شکر کے اِنھیں دانوں پر لگا دیتی ہے- یہی داعی کا طریقہ ہے- داعی کو چاہئے کہ وہ اِسی چیونٹی کلچر کو اختیار کرے-
اجتماعی حالات خواہ کتنے ہی زیادہ بگڑے ہوئےہوں، لیکن ہر سماج میں متلاشی حق افراد ضرور موجود ہوتے ہیں- ایسے ہی افراد داعی کا اصل سرمایہ ہیں- یہ افراد تعلیم یافتہ بھی ہوسکتے ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی- وہ سند اور ڈگری رکھنے والے بھی ہوسکتے ہیں اور سند اور ڈگری نہ رکھنے والے بھی— مذکورہ خط اِس معاملے کی ایک اچھی مثال ہے-
واپس اوپر جائیں