انسان اپنے آپ کو ایک وسیع اور عظیم کائنات میں پاتا ہے جس کا وہ بے حد حقیر حصہ ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس کائنات سے الگ نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ اپنے بارہ میں اس سے الگ ہو کر سوچ بھی نہیں سکتا۔ قدرتی طور پر انسان یہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے اور کائنات کے درمیان تعلق کو دریافت کرے۔ وہ کائنات سے اپنا صحیح رشتہ قائم کرے۔ تاہم انسان اکثر اس رشتہ کو دریافت میں ناکام رہا ہے۔ انسان کی تمام گمراہیاں دراصل اسی عدم دریافت کا دوسرا نام ہیں۔
شرک کیا ہے۔ شرک یہ ہے کہ کائناتی مظاہر کو خدا کا مختلف روپ فرض کر لیا جائے اور یہ یقین کر لیا جائے کہ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ ان کو پوجتا رہے۔ انسان اور کائنات دونوں خدا کی مخلوق ہیں مگر شرک یہ کرتا ہے کہ انسان کو عابد کے مقام پر رکھ دیتا ہے اور کائنات کومعبود کے مقام پر۔
مارکس کی غلطی بھی ایک اعتبار سے اسی نوعیت کی ہے ۔ مارکس نے یہ فرض کر لیا کہ انسان اور بقیہ کائنات دونوں ایک ہی مجموعہ کے مختلف اجزاء ہیں۔ جس طرح مٹی اور پانی دونوں ایک ہی قانون طبیعی کے تابع ہیں ، اسی طرح انسان اور کائنات بھی ایک ہی قانون مادی کے تابع ہیں۔ جو قانون مادی دنیا میں تغیر پیدا کرتا ہے۔ وہی قانون انسانی سماج میں بھی تغیر پیدا کرتا ہے۔
یہ مارکسی فکر کی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے اس کا پورا نظام فکر غلط ہو کر رہ گیا۔ اس نے انسان کو محض مادی روپ میں دیکھا اور انسان اور کائنات کے درمیان ویسا ہی تعلق قائم کیا جیسا تعلق مٹی کے قوانین اور پانی کے قوانین کے درمیان ہوتا ہے۔ مارکس نے انسان کو کائناتی قوانین کا بے اختیارانہ معمول سمجھ لیا۔ حالانکہ کائنات انسان کے اختیارانہ عمل کا ماڈل ہے نہ کہ انسان کی بے اختیاری کی توسیع۔
کارل مارکس کی زندگی کے دو دور ہیں۔ پہلے کے مارکس کو انسانیت دوست مارکس (Humanist Marx) کہہ سکتے ہیں اور دوسرے دور کے مارکس کو اس کے اپنے الفاظ میں سائنٹفک مارکس (Scienrtific Marx) ۔
مارکس جرمنی میں اس وقت پیدا ہوا جب کہ وہاں صنعتی انقلاب آچکا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو لوٹتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنی حرص اور جارحیت کا نشانہ بناتا ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا۔ وہ ان لوگوں کا حامی بن گیا جو اس زمانہ کے جرمنی اور فرانس اور برطانیہ میں سوشلزم کے اصول پر بہتر سماج کی تعمیر کی باتیں کرتے تھے۔
تاہم جلد ہی مارکس کو یہ احساس ہوا کہ سوشلسٹوں کے پاس اخلاقی اپیل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اور محض اخلاقی اپیل کے ذریعہ بہتر سماج کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اپنے بعد کے دور میں اس نے اس قسم کے سوشلزم کو خیالی سوشلزم (Utopian Socialism) کا نام دیا۔ اس کے بجائے وہ سائنٹفک سوشلزم کا حامی بن گیا جس کو اب عام طور پر کمیونزم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
خیالی سوشلزم کے علم برداروں کا کہنا تھا کہ بنیادی معاشی سرگرمیاں حکومت کے قبضہ یا کنٹرول میں رہنی چاہئیں تاکہ وہ عمومی انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تنظیم کرے۔ مگر مارکس نے کہا کہ اصل مسئلہ حکومت کے کنٹرول یا نگرانی کا نہیں ہے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ’’سرمایہ دارانہ سماج ‘‘ میں تمام انسان اپنی غرض اور ذاتی مفاد کے تحت جیتے ہیں۔ جب تک لوگوں کے اندر ذاتی مفاد کا ذہن ختم نہ ہو، بہتر انسانی سماج کی تعمیر نہیں کی جا سکتی۔
مارکس نے اپنے طویل مطالعہ کے بعد یہ ’’دریافت‘‘ کیا کہ انسان کا مزاج اور اس کی عادتیں تقسیم اور تبادلہ کے اس نظام کے مطابق بنتی ہیں جو کسی سماج میں رائج ہو۔ مفاد پرستی کا موجودہ مزاج اس لئے ہے کہ سماج کے اندر تقسیم اور تبادلہ کا سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔ اگر اس کو بدل کر سماج میں تقسیم اور تبادلہ کا اشتراکی نظام رائج کر دیا جائے تو انسانوں کا مزاج بھی بدل جائے گا۔
اس اعتبار سے مارکس نے انسانی سماج کے تین دور قرار دئیے۔
مارکس کے نزدیک انسانی سماج ایک ترقی پذیر حقیقت ہے۔ وہ خود اپنے اندرونی قانون کے تحت ادنی حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف سفر کرتا ہے۔ اس سفر کے مطابق انسانی سماج کے تین درجے ہیں۔
سرمایہ دارانہ سماج
(Capitalist society)
سوشلسٹ سماج
(Socialist society)
کمیونسٹ سماج
(Communist society)
مارکس کے نزدیک یہ تینوں قسم کے سماج معاشی اسباب کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔
انسانی سماج کو قائم رکھنے کے لئے بہت سی مادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ یہ چیزیں سماج کے تمام لوگ مل جل کر تیار کرتے ہیں۔ کوئی شخص ایک کام کرتا ہے اور کوئی دوسرا کام۔ مگر کسی آدمی کی ضرورت صرف وہی ایک چیز نہیں ہوتی جو اس نے خود بنائی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے لئے اس کے سوا بہت سی دوسری چیزوں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ ہر آدمی اپنی پیداوار کا ایک حصہ دوسرے کو دے کر اس سے وہ چیز حاصل کرے جس کو وہ خود نہیں بنا سکا تھا۔ اس طرح سماج کے مختلف افراد میں باہمی لین دین وجود میں آتا ہے۔ اور اسی لین دین سے وہ اجتماعی زندگی پیدا ہوتی ہے جس کو سماج کہا جاتا ہے۔ مارکس کے نزدیک سماج اس کے سوا کسی چیز کا نام نہیں کہ وہ باہمی لین دین کی اجتماعی تشکیل ہے۔
مارکسی نقطۂ نظر کے مطابق ، کسی سماج کے بارے میں یہ معلوم کرنے ئے کہ وہ ترقی کے کس مرتبہ پر ہے ، یہ دیکھنا چاہئے کہ وہاں لین دین کس طرح ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک اس لین دین کی تین صورتیں ہیں:
قدر تبادلہ (Exchange value)
قدر اصل (Intrinsic) value)
قدر استعمال (Use value)
قدر تبادلہ کسی چیز کی وہ قیمت ہے جو سپلائی اور مانگ کے دوطرفہ تقاضوں سے متعین ہوتی ہے چونکہ مختلف اسباب سے کبھی بازار میں چیز زیادہ ہوتی ہے اور مانگ کم اور کبھی چیز کم ہوتی ہے اور مانگ زیادہ۔ اس بنا پر قدر تبادلہ ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ایک ہی چیز کبھی کم قیمت پر ملتی ہے اور کبھی زیادہ قیمت پر۔ جس سماج میں چیزوں کا لین دین قدر تبادلہ کے اعتبار سے ہو وہ مارکس کی نظر میں سرمایہ دارانہ سماج ہے۔
قدر اصل کسی چیز کی وہ واقعی قیمت ہے جو انسانی محنت کی بنا پر اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ مارکس کے تجزیہ کے مطابق چوں کہ کسی چیز کا خام مادہ ہمیشہ یکساں قیمت کا ہوتا ہے اور اسی طرح وہ انسانی محنت بھی یکساں ہوتی ہے جو خام مادہ کو بنی ہوئی چیز میں ڈھالنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ اس بنا پر ہرچیز اپنی قدر اصل کے اعتبار سے ایک ہی قیمت رکھتی ہے۔ باعتبار حقیقت ، اس میں نہ کمی کا امکان ہے نہ زیادتی کا۔ جس سماج کا نظام تبادلہ قدر اصل کی بنیاد پر قائم ہو اس کو مارکس سوشلسٹ سماج کہتا ہے۔
قدر استعمال کسی چیز کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ انسان کی ایک ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ مارکس کے نزدیک ارتقا یافتہ انسانی سماجی ایسا ہو گا ۔ یہی وہ سماج ہے جس کو مارکس کمیونسٹ سماج کہتا ہے۔
اگر کسی سماج میں جنس کی صرف قدر استعمال دیکھی جانے لگے تو وہاں جنس کی قدر تبادلہ اور قدر اصل دونوں ختم ہو چکے ہوں گے۔ ایسے سماج میں افراد چیزوں کو اپنی استعمالی قیمت کے اعتبار سے دیکھیں گے نہ کہ ان کی اصلی قیمت یا تبادلی قیمت کے اعتبار سے۔ ایسے سماج میں انسان عین اس طرح چیزوں کا تبادلہ کریں گے جس طرح دو چھوٹے بچے آپس میں چیزوں کو بدل لیتں۔ مثلاً ایک بچے کے پاس ضرورت سے زائد ایک نارنگی ہے اور دوسرے کے پاس ضرورت سے زائد گاڑی۔ نارنگی والا بچہ گاڑی چاہتا ہے اور گاڑی والا بچہ نارنگی۔ چنانچہ یہ دونوں بچے بے نیازانہ طور پر آپس میں تبادلہ کر لیں گے۔ اس مثال میں دونوں بچوں کے سامنے نارنگی اور گاڑی کی صرف قدر استعمال ہے۔ اگر یہ بچے قدر اصل اور قدر تبادلہ کو دیکھتے تو معاملہ مختلف ہوتا۔ پھر یہ ہوتا کہ جس بچے کے پاس گاڑی تھی وہ یہ مطالبہ کرتا کہ چار درجن نارنگیاں لائو تب میں تم کو گاڑی دوں گا۔ جس سماج میں جنس کو صرف قدر استعمال کے اعتبار سے دیکھا جائے اس سماج میں اشیاء کا تبادلہ اس طرح ہو گا جیسا کہ مذکورہ بچوں نے کر لیا۔ مارکس کے نزدیک ان بچوں اور کمیونسٹ سماج کے تبادلۂ اجناس میں صرف یہ فرق ہے کہ بچوں نے یہ تبادلہ غیر شعوری طور پر کیا۔ جب کہ کمیونسٹ سماج میں ایک خاص اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی ماحول میں تبادلہ شعوری طور پر ہو گا۔
سماج کی ان تینوں قسموں کی تشریح دوسرے الفاظ میں اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ جس سماج میں چیزوں کا لین دین نفع کی غرض سے ہو وہ سرمایہ دارانہ سماج ہے۔ جس سماج میں کوئی شخص کسی سے نفع کا طالب نہ ہو اور ہر شخص کو اس کی محنت کے بقدر پورا معاوضہ ملے وہ سوشلسٹ سماج ہے۔ اور ج ہاں آدمی ان دونوں چیزوں سے بلند ہو جائے ، جہاں نہ تو ایسا ہو کہ آدمی ایک دوسرے سے نفع حاصل کرنا چاہے، نہ یہی ضروری ہو کہ کوئی شخص جتنا کرے اتنا ہی وہ اپنے لئے پائے۔ بلکہ ہر شخص کو کسی رکاوٹ کے بغیر اس کی ضرورت کی چیزیں حسب خواہش اس طرح ملتی ہیں جیسے آج ہوا اور پانی مل رہے ہیں۔ یہی آخری سماج کمیونسٹ سماج ہے جو مارکس کے تجزیہ کے مطابق انسانی سماج کے ارتقاء کی بلند ترین منزل ہے۔ یہ ایسا سماجی نظام ہے جس میں چیزوں کی صرف قدر استعمال دیکھی جائے گی اور اسی نقطۂ نظر سے افراد مختلف جنسوں کا آپس میں تبادلہ کریں گے۔ ایک چیز کے بدلے دوسری چیز لیتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ کس نے کتنی محنت خرچ کی ہے اور اس کو اپنی محنت کا کتنا معاوضہ مل رہا ہے۔ تمام تبادلے صرف استعمالی ضرورت کے پیش نظر ہوں گے نہ کہ نفع طلبی یا معاوضۂ خدمت کے طور پر۔
ابنزرالیٹ (Ebenezer Elliot) نے کمیونسٹ کی تعریف ان لفظوں میں کی تھی :
کمیونسٹ کون ہے۔ کمیونسٹ وہ ہے جو غیر مساوی کمائی کی مساوی تقسیم چاہتا ہے:
What is a communist? One who hath yearnings For equal division of unequal earnings.
روس میں کمیونسٹ انقلاب ۱۹۱۷ میں پیش آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے روس میں کمیونسٹ سماج کی تعمیر پر اب جلد ہی ستر سال پورے ہو جائیں گے۔ کمیونسٹ پارٹی نے روس کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں ذاتی ملکیت کے تمام اداروں کو افراد کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ اور وہ کوشش شروع کر دی جس کو اسٹالن نے سوویت انسان (Soviet Man) کی تعمیر کا نام دیا تھا۔ مگر ایک منظم اور ہمہ گیر ریاست کی طویل کوشش کے باوجود ابھی تک سوویت انسان وجود میں نہیں آیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ روس کے کمیونسٹ لیڈروں کو روس میں آزادانہ انتخاب کرانے کی ہمت نہیں۔ کیوں کہ انھیں یقین ہے اگر انھوں نے آزادانہ انتخاب کرایا تو روسی عوام ۹۹ فیصد ووٹ ان کے خلاف دے کر ان کے اقتدار کا تختہ الٹ دیں گے۔
روس کے کمیونسٹ لیڈروں نے قدر تبادلہ (Exchange value) پر مبنی معاشی نظام کو بے رحمی کے ساتھ توڑ دیا اور طاقت کے زور پر یہ کوشش شروع کر دی کہ قدر اصل (Intrinsic value) کی بنیاد پر سماج کی تشکیل ہو سکے۔ اور اس کے بعد قدر استعمال (Use value) کی بنیاد پر تشکیل پانے والے سماج کی طرف سفر شروع ہو مگر ناقابل بیان مظالم کے باوجود پہلا مرحلہ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اور دوسرے اور تیسرے مرحلہ کے سماج کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔
جن چیزوں کو مارکس نے ’’سرمایہ دارانہ سماج‘‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا وہ سب آج اشتراکی روس کے اندر موجود ہیں۔ روسی حکومت مسلسل ایسے شہریوں کا اعلان کرتی رہتی ہے جو کام چوری ، غبن ، جاسوسی ، غداری اور رجعت پسندی جیسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر اشتراکی سماج میں مارکس کے مزعومہ نتائج نکلتے ہوں تو اشتراکی سماج میں ستر سال بعد بھی لوگوں کا یہ حال کیوں ہے۔
ایک کتاب میں راقم الحروف نے ایک قصہ پڑھا جو مندرجہ ذیل الفاظ میں درج تھا۔
A communist deputy approached a conservative member of the French Senate and showed to him a special edition of the works of Karl Marx, printed in Braille. ''These are for the blind.'' He explained. ''Monsieur,'' replied the Senator, ''All the works of Marx are or the blind.''
ایک اشتراکی ڈپٹی فرانس کی پارلیمنٹ کے ایک قدامت پسند ممبر سے ملا اور اس کو کارل مارکس کی تحریروں کا ایک خصوصی اڈیشن دیکھایا جو بریل طریقہ پر چھپا ہوا تھا۔ اشتراکی نے کہا کہ یہ ایڈیشن اندھوں کے لئے ہے۔ فرانسیسی نے جواب دیا۔ جناب ، مارکس کی تمام تحریریں اندھوں ہی کے لئے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مارکس کے نظریہ پر وہی ایمان لا سکتا ہے جو اندھے پن کی وجہ سے حق اور ناحق کو نہ جانے۔ آنکھ والا آدمی تو اس کی لغویت کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مارکس نے اپنے نقطۂ نظر کو سائنس کے نام پر پیش کیا تھا۔ مگر یہ خوش خیالی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم محض ایک خیالی فلسفہ تھا جو علم اور منطق کی میزان پر ایک دن بھی پورا نہ اتر سکا۔
چنانچہ مارکس کے جلد ہی بعد مارکس کے فلسفہ میں نظرثانی (Rivisionism) کی تحریک چل پڑی جو مسلسل جاری رہی۔ نظرثانی کی تحریک اصل مارکسز میں اتنی تبدیلی پیدا کر چکی ہے کہ سڈنی ہک (Sidney Hook) نے بجاطور پر جدید مارکسزم کو مارکس کی آمد ثانی (Marx,s Second Coming) کا نام دیا ہے۔ اپنی غیر عملیت کی وجہ سے ایک مبصر کے الفاظ میں کارل مارکس اب پرولتاریوں (Proletariat) کا نہیں بلکہ پروفیسروں (Professoriat) کا چیمپئن بن چکا ہے۔
ٹائمس آف انڈیا، ۱۵ جنوری ۱۹۸۴
ایوجین کیننکا (Eugene Keninka) نے شبہہ ظاہر کیا ہے کہ ایک متعین اصول جس کو مارکسزم کہا جا سکے کہیں موجود ہے:
If there is a coherent doctrine called Marxism.
کمیونزم آج اپنے نظریہ کی بنیاد پر کہیں موجود نہیں وہ صرف اس لئے موجود ہے کہ اس کے نام پر ایک طاقتور ریاست قائم ہے اور بہت سے مفادات اس کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہیں۔ اب لوگ نظری صداقت کی بنا پر نہیں بلکہ جبر یا مفاد کی بنا پر کمیونسٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسی بنا پر ایک مبصر نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ آدمی کمیونسٹ ہو حالانکہ وہ مارکسسٹ نہ ہو:
It is possible to be a communist without being a Marxist.
کمیونسٹ ملکوں میں چوں کہ اظہار خیال کی آزادی نہیں ہے۔ اس لئے وہاں کے عوام اپنے احساسات کو لطیفوں کی صورت میں ظاہر کرتے ہیں۔ ہندستان کا ایک شخص مشرقی (کمیونسٹ) یورپ کے دورہ پر گیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے سفر کے جو تاثرات بیان کئے ان میں سے ایک قصہ یہ بھی تھا جس کو اس نے وہاں کی نجی ملاقاتوں میں سنا:
One morning a school girl came to her teacher and said very proudly:''Our cat has had a little of six kittens and they are all Communists.The teacher was impressed with the child and invited the Inspector tovisit the school and see for himself how well doctrinated her studentsyour cats.''the teacher asked her student.''she has had six kittens and they are all democrates.'' said the girl.''What !'' exclaimed the teacheraghast and let down. ''last week you told me they were all Communists.what makes you say now they are democrates?'' Since then their eyes have opened,'' replied the student.
ایک صبح کو ایک اسکول کی لڑکی اپنی ٹیچر کے پاس آئی۔ اس نے فخریہ انداز میں کہا کہ ہماری بلّی نے چھ بچے دئیے ہیں۔ اور وہ سب کے سب کمیوسٹ ہیں۔ ٹیچر لڑکی کی بات سے بہت متاثر ہوئی۔ اس نے انسپکٹر کو دعوت دی کہ وہ آئے اور خود دیکھے کہ اس کے طلبہ کس قدر تربیت یافتہ ہیں۔ ایک ہفتہ کے بعد انسپکٹر آیا۔ ٹیچر نے لڑکی کو بلایا اور کہا کہ ان صاحب سے اپنی بلی کے بارہ میں بتائو۔ لڑکی نے کہا کہ ہماری بلّی نے چھ بچے دئیے تھے اور وہ سب کے سب جمہوریت پسند ہیں۔ ٹیچر کو یہ سن کر تعجب ہوا۔ اس نے صورتحال کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے ہفتہ تم نے بتایا تھا کہ وہ سب کے سب کمیونسٹ ہیں۔ اب تم یہ کیوں کہہ رہی ہو کہ وہ سب کے سب جمہوریت پسند ہیں ۔ لڑکی نے جواب دیا کہ اتنے دنوں میں ان بچوں کی آنکھیں کھل گئی (ہندستان ٹائمس ۱۴ جنوری ۱۹۸۴)
روس کے سابق وزیر اعظم نکیتا خروشچیف نے روسی کمیونسٹ پارٹی کی ۲۰ ویں کانگریس (فروری ۱۹۵۶) میں بتایا تھا کہ اسٹالن کا دور حکومت ظلم اوردہشت کا بدترین نمونہ تھا۔ خروشچیف کا یہ بیان کمیونزم کی عملی ناکامی کا سرکاری اعتراف تھا۔ اس تاریخی بیان کا خلاصہ زیرِنظر کتاب کے اگلے صفحات میں موجود ہے۔
اس سلسلہ کا دوسرا انتہائی قابلِ ذکر واقعہ کمیونسٹ چین کے سرکاری اخبار کا مضمون ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سرکاری ترجمان پیپلس ڈیلی نے ۷ دسمبر ۱۹۸۴ کی اشاعت میں صفحہ اوّل پرایک اڈیٹوریل شائع کیا ہے۔ یہ اڈیٹوریل گویا مارکسی کمیونزم کی نظریاتی غلطی کا سرکاری اعتراف ہے۔ یہاں ہم پیپلس ڈیلی کے مذکورہ اڈیٹوریل کا خلصافہ (انگریز پریس کی رپورٹ کے مطابق) نقل کر رہے ہیں:
Some Marxist and Leninist ideals were no longer relevant. Marx died101 years ago. and his works were written more than a century
ago.Some of these works were simply conjecture at that time, and laterunderwent tremendous changes. Some of the conjectures were not necessarily all right. There were many things that Marx and Engels,even Lenin. never experienced or had any contact with.We cannotexpect the works of marx and Lenin. at that time.to solve our modern-day Problems.that is something we have to bear in mind during our study.
مارکس اور لینن کے کچھ نظریات اب غیر متعلق ہو چکے ہیں۔ مارکس کی وفات ایک سو سال پہلے ہوئی۔ اور اس کی کتابیں ایک صدی قبل لکھی گئیں۔ ان میں سے کچھ کتابیں سادہ طور پر صرف وقتی اندازے تھے اور بعد کو ان میں زبردست تبدیلیاں ہوئیں۔ اس کے بعض خیالات ناگزیر طور پر درست نہ تھے۔ ان میں بہت سی چیزیں ہیں جن کا مارکس اور انگلش نے حتیٰ کہ لینن نے تجربہ نہیں کیا تھا ۔ ان کا ان سے کوئی تعلق تھا۔ ہم امید نہیں کر سکتے کہ مارکس اور لینن کی اس وقت کی تحریری ہمارے آج کے مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو ہمیں اپنے مطالعہ کے دوران ذہن میں رکھنا چاہئے۔
ٹائم آف انڈیا (نئی دہلی) ۱۲ دسمبر ۱۹۸۴
مارکسی کمیونزم کے بارہ میں غیر مارکسی علما کو مذکورہ باتیں بہت پہلے سے معلوم تھیں اور ان کو وہ دلائل کے ساتھ بار بار لکھ چکے تھے ۔ مگر خردشچیف کا اسٹالن کے دور کو ظامانہ دور کہنا اور چین کے سرکاری اخبار کا مارکسزم اور لینن ازم کو ’’آئوٹ آف ڈیٹ‘‘ قرار دینا گویا خود کمیونسٹ حلقوں کی طرف سے اس کیکھلی ہوئی تصدیق ہے۔ جو لوگ اس کے بعد بھی مارکسزم اور کمیونزم کے نظریات سے لپٹے رہیں وہ اپنے بارہ میں اسی جامد تقلید پرستی کا ثبوت دے رہے ہیں جس کا الزام اس سے پہلے وہ مذہبی لوگوں کو دیتے رہے ہیں۔
بعد کے واقعات واضح طور پر اشتراکی نظریات کی صداقت کی تردید کر رہے ہیں۔ اس کی ایک کھلی ہوئی علامت یہ ہے کہ اشتراکی روس اور اشتراکی چین دونوں جگہ کمیونسٹ آئیڈیل سے واپسی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جدید روس میں بلااعلان اورجدید چین میں اعلان کے ساتھ ، کم از کم جزئی طور پر، وہ طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں جن کو اشتراکی حضرات اس سے پہلے صرف سرمایہ داری کی خصوصیت قرار دیتے تھے۔ مثال کے طور پر روس میں مذہب کی جزئی آزادی اور چین میں کارخانوں کے اوپر
سے کمیونسٹ پارٹی کا کنٹرول ختم کیا جانا وغیرہ ،
دی ہندو (مدارس) ۱۷ جنوری ۱۹۸۵
موجودہ زمانہ میں کمیونزم کی نظریاتی صداقت کا افسانہ ختم ہو چکا ہے۔ اب کمیونزم کی اہمیت صرف دو اعتبار سے ہے۔ ایک یہ کہ وہ کچھ حکمرانوں کے لئے عوام کے اوپر اپنی کلی حکمرانی قائم کرنے کی ایک نہایت کارگر تدبیر ہے۔
اس کی دوسری اہمیت خاص طور پر روس کے لئے ، یہ ہے کہ عالمی سطح پر بالادستی حاصل کرنے کے لئے وہ دنیا بھر کے کمیونسٹوں کی وفاداری مارکس اور لینن ہی کے حوالے سے حاصل کر سکتا ہے۔ روس کے لئے مارکسزم کی وابستگی اب صرف اس کے سامراجی عزائم کی ایک تدبیر ہے ، اس سے زیادہ اور اس کی کوئی حقیقت نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت نظری اور عملی دونوں اعتبار سے ناکام ہو چکی ہے۔ باعتبار حقیقت اب وہ تاریخ کے خانہ میں جا چکی ہے ، خواہ اشتراکی حضرات اپنی زبان سے اس کا اقرار کریں یا اس کا اقرار ن ہ کریں۔ موجودہ زمانہ میں مارکسی نظریہ کی مقبولیت کا راز اس کی فکری صداقت میں نہیں بلکہ وقت کے رحجان سے اس کی مطابقت میں تھا۔ یہ زمانہ سائنس کے غلبہ کا زمانہ تھا۔ انسان ہرچیز کو سائنس کی اصطلاحوں میں سمجھنا چاہتا تھا۔ مارکس نے جب ’’سائنٹفک سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا تو وقتی رحجان سے مطابقت کی بنا پر لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ باعتبار حقیقت۔ مارکس ایک برائی کے بعد دوسری شدید تر برائی کا نظام پیش کر رہا تھا۔ مگر سائنسی اصطلاحیں استعمال کرنے کی وجہ لوگوں نے سمجھ لیا کہ وہ اقتصادی مسئلہ کا سائنسی حل پیش کر رہا ہے۔معاش کا مسئلہ ایک سادہ انسانی مسئلہ ہے۔ مگر کہیں اس کو مصنوعی انسانی فلسفوں نے پیچیدہ بنا رکھا ہے اور کہیں بے قید انسانی خود غرضی نے۔ معاش کے مسئلہ کو اگر جھوٹے انسانی نظریات سے آزاد کر کے اس کو اس کی فطری بنیادوں پر قائم کر دیا جائے تو وہ اس طرح ایک حل شدہ مسئلہ بن جائے گا جیسے کہ اس کے اندر کوئی پیچیدگی ہی نہ تھی۔
’’اشتراکیوں کے نظریہ کو ایک جملہ میں یوں ادا کر سکتے ہیں____________________
’’ذاتی ملکیت کا خاتمہ‘‘یہ مارکس اور انگلس کے مشہور کمیونسٹ مینی فسٹو کا ایک فقرہ ہے۔ یہ ذاتی ملکیت کا خاتمہ یا دوسرے لفظوں میں ’’سماجی ملکیت کا نظام‘‘ معمولی اختلافات کے ساتھ اس زمانہ میں عام طور پر انسان کے معاشی مسائل کا حل سمجھا جانے لگا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جو انارکزم ، سنڈیکلزم ، کمیونزم ، سوشلزم اور گلڈ سوشلزم وغیرہ مختلف ناموں سے ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ ان نظریات کے درمیان مختلف مسائل میں بہت سے اختلافات ہیں اور اکثر اوقات یہ ایک دوسرے کی تردید بھی کرتے رہتے ہیں۔ مگر جو بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ یہ تمام نظریئے اجتماعی ملکیت کے نظام پر یقین رکھتے ہیں اور زندگی کے بارہ میں اس فلسفہ کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتے ہیں جو مارکس اور اس کے ہم خیال مفکرین نے اپنے نظریہ کی تائید میں مرتب کیا تھا۔ یہ مختلف جماعتیں نہیں ہیں بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں یہ ایک تحریک کے مختلف فرقے ہیں جو بعض جزئی یا عملی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے الگ الگ ٹکڑوں میں بٹ گئے ہیں۔ ان صفحات میں میں زیادہ تر مارکسزم کو سامنے رکھ کر گفتگو کروں گا۔ ی وجہ ایک تو ہے کہ کسی دوسرے مدرسۂ فکر کے اصول و قواعد اس طرح سے باقاعدہ طور پر منظم اور متعین نہیں ہیں جس
طرح مارکسزم کے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اشتراکی افکار جو مارکس سے پہلے یورپ میں پھیلے ہوئے تھے ، مارکسزم پر جو گفتگو ہو گی وہ بڑی حد تک ماضی اور حال کے دوسرے سوشلسٹ نظریات پر بھی اسی طرح چسپاں ہو گی جس طرح وہ خود مارکس کی تعلیمات پر چسپاں ہوتی ہے۔
مارکس نے کوئی بات نئی نہیں کہی ہے۔ لینن کے الفاظ میں ’’اس نے ان سوالوں کے جوابات فراہم کئے ہیں جن پر اس سے پہلے ممتاز لوگوں نے دماغ سوزی کی تھی۔ مارکس کی تعلیمات فلسفہ، معاشیات اور سوشلزم کے بڑے بڑے نمائندوں کی تعلیمات کا براہِ راست نتیجہ اور اس سلسلہ کی اگلی کڑی ہیں۱؎‘‘ انیسویں صدی میں جرمن فلسفہ، انگریزی علم معاشیات اور فرانسیسی سوشلزم کے روپ میں یورپ ک مادّی ذہن نے جو چیزیں تخلیق کی تھیں مارکس نے ان کو نئی ترتیب اور مزید قوت استدلال کے ساتھ اکٹھا کر دیا ہے جس میں اس مظلوم طبقہ کی چیخ بھی شامل ہے۔ جس کو یورپ کے صنعتی انقلاب نے جنم دیا تھا۔
مارکس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے تاریخ کو وہ کچھ بخشا ہے جو ڈارون نے علم الحیات کو۔ مارکس اس خیال کو دوسرے انداز سے ظاہر کرتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریخ کو سائنس کی صورت دی ہے۔ ایک ایسی سائنس جس کے اپنے قوانین ہیں اور جس کے مطابق ماضی اور مستقبل دونوں کی تشریح کی جا سکتی ہے۔
دنیا میں جو کچھ ہے یا ہر آن جو کچھ پیش آ رہا ہے ، ان کو اگر ’’واقعات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جائے تو یہ دو قسم کے واقعات ہوں گے۔ ایک وہ جو مادّی دنیا سے متعلق ہیں اور دوسرے وہ جو انسانی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایک دنیا وہ ہے جس کے تمام واقعات اپنے قوانین کے تحت خود بخود وجود میں آتے ہیں۔ اور دوسری دنیا وہ جس کے واقعات کو بظاہر کسی کا شعور اور ارادہ وجود میں لاتا ہے۔ پہلی دنیا میں ایٹم کے ناقابلِ مشاہدہ ذرات سے لے کر سیاروں کی عظیم کائنات تک ہرچیز ایکون میں بندھی ہوئی ہے۔ اور اسی کے مطابق کوئی شکل اختیار کرتی ہے جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اسباب خود اس چیز کے اندر پہلے سے کام کررہے تھے جس کے اندر کوئی واقعہ ظاہر ہوا ہے۔ اسی طرح جو کچھ آئندہ ہو گا وہ بھی اپنے سابقہ حالات کا نتیجہ ہو گا جس کے اسباب پہلے سے اس کے وجود کے لئے کام کر رہے
ہوں گے۔ ستاروں کی گردش کے نظام کو معلوم کرنے کے بعد ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ کوئی ستارہ ایک سو سال پہلے کہاں تھا اور آئندہ ایک سو سال بعد کہاں ہو گا۔ لوہے کی خاصیت دریافت کر کے ہم اس کے ذریعہ بڑی بٹڑی مشینیں اور آلات بنا سکتے ہیں۔ پانی کے قانون کو معلوم کر کے ہم اسے بھاپ کی طاقت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان جس کائنات کو اپنے سامنے پاتا ہے وہ بذاتِ خود قائم ہے۔ اس کے اپنے قوانین
۱؎ لینن، سلکٹڈ ورکس ، جلد اوّل ، صفحہ ۵۹ (ماسکو ۱۹۴۷)
ہیں جن کے تحت اس کے سارے واقعات ظہور میں آتے ہیں۔ اس میں انسانی کوششوں سے کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ انسان کے لئے صرف یہ ممکن ہے کہ کائنات کے قوانین کو معلوم کر کے انھیں استعمال کرے۔
اس طرح طبیعی دنیا میں انسان نے جو نئی باتیں معلوم کی ہیں وہ دراصل نئی نہیں ہیں بلکہ وہی ہیں جو پہلے سے موجود تھیں۔ انسان نے انھیں ایجاد نہیں کیا بلکہ صرف دریافت کیا ہے۔ ان کو ایجاد کے بجائے انکشاف کہنا زیادہ صیح ہو گا۔ یہی بات ہے جس کو فریڈرش انگلس نے ان لفظوں میں ادا کیا ہے:
’’کائنات کا مادّی تصور یہ ہے کہ فطرت کو کسی خارجی آمیزش کے بغیر ٹھیک ویسا ہی سمجھا جائے جیسی کہ وہ ہے۔‘‘ ۱؎
یہ مادّی دنیا کی تشریح ہوئی۔ اب سوال یہ تھا کہ عالمِ انسانی کی حقیقت کیا ہے۔ وہ کون سی طاقت ہے جو زندگی کی سرگرمیوں کو وجود میں لاتی ہے۔ تاریخ کے اتار چڑھائو کن اسباب کے تحت پیش آتے ہیں۔ انسان کے ہاتھوں مسلسل جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کا محرک اصلی کون ہے۔ کیا ان کی بھی کوئی اندرونی منطق ہے اور وہ خود اپنے ذاتی قوانین کے تحت واقع ہوتے ہیں یا انسان ان کا خالق ہے۔ دوسرے لفظوں میں کیا انسان کی کارکردگی کی بھی وہی نوعیت ہے جو مادّی دنیا کی کارکردگی کی ہے۔ مادّی دنیا اور انسانی سماج دونوں ایک ہی نظام کے تحت اصول ہے۔ اس طرح یہ سوال بالآخر روح اور مادّہ کا سوال بن گیا۔ یعنی یہ کہ سماجی حالات سے باہر کا کوئی محرک___ انسان کا ذہن یا کسی بالاتر قوت کا ارادہ____ ان واقعات کو وجود میں لاتا ہے یا مادّی حرکت کرتے ہیں یا دونوں کا الگ الگ
دنیا کی طرح وہ خود اپنے لگے بندھے قانون کے تحت وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ انگلس کے بقول:
’’فلسفہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فکر اور ہستی یا روح اور فطرت میں کیا باہمی تعلق ہے۔ اسی سوال کے جواب کی بنا پر فلسفیوں کے دو بڑے گروہ بن گئے ہیں جن لوگوں نے دعویٰ کیا کہ روح فطرت پر مقدم ہے وہ عینیت پسند (Idealist) کہلاتے ہیں، ‘
۱؎کارل مارکس، سلیکٹڈ ورکس ، جلد اوّل، صفحہ ۷۶، (ماسکو ۱۹۴۶)
اور جو لوگ فطرت کو اصل شمار کرتے ہیں وہ مادیت پسند (Materialist) ہیں۔
ان دونوں کی مختلف شاخیں ہیں۔‘‘۱؎
مارکس کا یہ کہنا کہ اس نے تاریخ کو سائنس کی صورت دی ہے ، دراصل اسی سوال کا ایک جواب ہے۔ مارکس نے اس مسئلہ پر غور کیا کہ ہمارا موجودہ سماج اس حالت پر کیونکر پہونچ گیا۔ اس میں تبدیلی کیوں ہوتی رہتی ہے اور آئندہ اس میں کس قسم کی تبدیلی کا امکان ہے۔ وہ اپنے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا کہ جس طرح بیرونی دنیا کے واقعات اتفاقی طور پر نہیں ہوتے ، اسی طرح سماج میں بھی کوئی تبدیلی محض اتفاق سے نہیں ہو جاتی۔ اس کے پیچھے خاص اصول کارفرما ہوتے ہیں۔ جس طرح نیوٹن اور آئن سٹائن نے کائنات کی حرکت کے قوانین معلوم کرنے کی کوشش کی اور اس کے اصول مرتب کئے۔ اسی طرح مارکس نے تاریخ انسانی کا مطالعہ کر کے وہ ’’سائنٹفک اصول‘‘ دریافت کئے جو سماج کی تبدیلیوں میں کام کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ہماری سوسائٹی میں جو تبدیلی ہوتی رہتی ہے وہ چند خاص اصولوں اور قوانین کی پابند ہے ٹھیک اسی طرح جیسے کائنات کی دوسری چیزیں خاص قوانین کی پابند ہیں۔ یہ دونوں قانون ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ قوانین جو ہمارے اطراف کی ساری کائنات اور ہماری سوسائٹی دونوں پر یکساں حیثیت سے صادق آتے ہیں انھیں کا نام مارکسی فلسفہ یا کائنات کا مارکسی نقطۂ نظر ہے۔ دوسرے لفظوں میں مارکس کا نقطۂ نظریہ ہے کہ عالمِ مادّی اور عالمِ انسانی دونوں ایک ہی قسم کے قانون کے پابند ہیں۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں:’’تمام نیچر ایک ہے، اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے سائنس کا اسلوب بھی ایک ہے ، اب اس اسلوب کو خواہ چٹانوں کو سمجھنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ خواہ بینکروں اور مل مالکوں کی دنیا پر اسے چسپاں کیا جائے۔ مارکس
اور انگلس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ انھوں نے سائنس کے اس بنیادی اسلوب کو انسانی سماج پر بھی اسی طرح منطبق کیا جس طرح ان سے پیشتر یہ جمادات، نباتات وغیرہ پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ انھوں نے تاریخی واقعات اقتصادی مواد اور فلسفیانہ نظریوں کو جو کہ تاریخ کے دامن میں صدہا سال سے جمع ہوتے جا رہے تھے ، ٹھیک طرح مرتب کیا۔ تولا، کلیئے قائم کئے اور انسان کے باہمی تعلقات کے ان تمام قوانین کو
۱؎ کارل مارکس، سلیکٹڈ ورکس، جلد اوّل، صفحہ ۷۶۔
دریافت کیا جس کے بغیر یہ سماجی زندگی ایک الجھا ہوا معمّا نظر آتی تھی۔۱؎
اس طرح مارکس نے کہا کہ انسانی سماج ایک سائنس ہے جس کے اپنے قوانین ہیں اور اس لئے وہ ماضی اور مستقبل دونوں کی تشریح کر سکتی ہے۔ مارکس نے یہ قوانین مرتب کئے اور ان کو استعمال کر کے مستقبل کے سماج کے بارہ میں بہت سی پیشین گوئیاں کرنے کی جرأت کی جس طرح فلکیات کا ایک عالم سیاروں کی گردش کے بارہ میں پیشین گوئی کرتا ہے۔
میں نے یہاں ’’جرأتقق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ جو شخص ہمیں یہ بتائے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے وہ قدرتی طور پر اس کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے کہ حالات اس کے الفاظ کو غلط نہ قرار دیں۔ وقت اس شخص کے نظریہ کے صحیح یا غلط ہونے کا امتحان ہوتا ہے جو مستقبل کے بارہ میں کچھ کہنے کی جرابت کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اگر یہ اعلان کرے کہ زمین جس قانون کے تحت گردش کر رہی ہے وہ میں نے معلوم کر لیا ہے اور اس قانون کے مطابق یہ ہو گا کہ زمین ایک سو ایک دن میں چاند سے ٹکرا جائے گی۔ تو اس شخص کے دعوے کے غلط ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہو گی کہ ایک سو ایک دن گزرنے کے بعد بھی زمین کی گردش حسب دستور جاری رہے اور وہ چاند سے نہ ٹکرائے۔ اس طرح مارکس کا یہ نظریہ کہ زندگی کے واقعات طبیعی سائنس کی طرح ایک لازمی قانون کے تحت پیش آتے ہیں خودبخود غلط ثابت ہو جائے گا اگر مستقبل کے واقعات ان پیشین گوئیوں کی تصدیق نہ کریں جو مارکس نے اپنے نظریہ کے مطابق ماضی میں کی تھیں۔ ممکن ہے مارکس کی زندگی میں اس کے نظریئے کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں فیصلہ نہ کیا جا سکتا ہو۔ مگر اب سو برس گزرنے کے بعد تو خود زمانہ ایک ایسی
بنیاد ہے جس کی روشنی میں جانچ کر ایک معمولی آدمی بھی مارکس کے نظریہ کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔
مارکس کے اس نظریہ کے تین اہم اجزاء ہیں۔ اوّل یہ کہ جس طرح ستاروں کی گردش کا ایک قانون ہے جس کے مطابق وہ مسلسل حرکت کر رہے ہیں اسی طرح انسانی سماج بھی ایک طے شدہ راہ پر سفر کر رہا ہے۔ مارکسزم کے نزدیک سائنس کے قوانین____ چاہے وہ فطری سائنس سے متعلق ہوں یا سماجی سائنس سے____ سبھی خارجی اعمال کا
۱؎ شیر جنگ، کارل مارکس اور اس کی تعلیمات صفحہ ۲۷،
عکس ہیں جو انسان کی مرضی سے آزاد ہو کر اپنا کام کرتے ہیں۔ آدمی ان کو نہ تو بدل سکتا ہے اور نہ انھیں مٹا سکتا ہے۔ یہ عالمِ فطرت کے اٹل قوانین ہیں جن میںکبھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گے۔ جس طرح انسان کی پیدائش ایک ایسے قانون طبیعی کے تحت ہوتی ہے جس پر اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح سماج کے بدلنے کے قوانین ناگزیر تاریخی وجوب (Historical necessity) کی حیثتی رکھتے ہیں۔ پہلے جو کچھ ہوا وہی ہو سکتا تھا اور آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ انسان اپنے ارادہ سے اس میں ردوبدل نہیں کر سکتا۔
دوسرے یہ کہ یہ قانون لازمی طور پر ارتقاء کا قانون ہے۔ یعنی سماج کا یہ سفر محض ایک مسلسل گردش نہیں ہے بلکہ وہ ایک ارتقائی سفر ہے جس میں ہر اگلا دور اپنے پچھلے دور سے ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ سماج کبھی پیچھے کی طرف نہیں لوٹتا بلکہ ہمیشہ آگے کی طرف جاتا ہے۔ اس کا حال اس کے ماضی سے بہتر ہے اور اس کا مستقبل اس کے ماضی اور حال دنوں سے بہتر ہو گا۔
تیسرے یہ کہ انسان کی جو حیثیت مادّی کائنات کے مقابلہ میں ہے ، ٹھیک وہی حیثیت اس کی سماج کے مقابلہ میں بھی ہے۔ مادّی دنیا کا اپنا ایک قانون ہے جس کے مطابق اس کے تمام مظاہر واقع ہوتے ہیں۔ انسان اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ البتہ اس کا قانون معلوم کر کے اسے استعمال کر سکتا ہے۔ دریا کا بہائو طوفان لاتا ہے اور تباہی پیدا کرتا ہے۔ انسان اگر پانی کی سائنس معلوم کر لے تو وہ بند بنا کر اس سے آب پاشی کے کام لے سکتا ہے۔ اس سے بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ اور دوسرے بہت سے فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ یہی حال انسانی سماج کا بھی ہے۔ اس کا بھی اپنا ایک قانون ہے جس کے
تحت وہ حرکت کرتا ہے۔ مگر یہ حرکت سیاروں کی حرکت کی طرح نہیں ہے جس کے مقابلہ میں انسان بالکل بے بس ہو۔ بلکہ دریا کے بہائو کی طرح ہے جس پر آدمی قابو پا سکتا ہے اور اپنی کوششوں سے اس کے رُخ کو پھیر سکتا ہے۔
سماجی ارتقاء کے بارہ میں مارکس کی دریافت کردہ سائنس کے یہ قوانین ہیں جن کو مارکس نے انسانی تاریخ کے واقعات پر چسپاں کیا ہے اور اس سے نتائج برآمد کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب سے پہلے جو انسانی معاشرے تاریخ میں پائے گئے ہیں۔مارکس نے ان کا تجزیہ کر کے بتایا کہ ان کی شکل کیا تھی اور کس طرح وہ اس کے نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔ اور پھر اس نظریہ کے مطابق آئندہ انسانی سماج جو شکل اختیار کرے گا اس کی پیشین گوئی کی۔ اس نظریہ کے مطابق اس نے کہا کہ سماجی تبدیلیوں کی تہ میں جو اصول کام کر رہا ہے وہ جدلیات (Dilectics) کا اصول ہے۔ یعنی انسانوں کے اندر طبقات کا پیدا ہونا اور مختلف طبقات کا باہم ٹکرانا۔ مارکسی نظریہ کے مطابق ’’انسان نے اب تک جتنے معاشرے قائم کئے ہیں ان سب کی تاریخ طبقاتی نزاع کی تاریخ ہے۔ غلام اور آقا ،امراء اور عوام، سرمایہ دار اور مزدور، مختصر یہ کہ ظالماور مظلوم ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خلاف باہم برسرِپیکار رہے ہیں۔ ۱؎ ‘‘طبقات کا باہمی ٹکرائو یہی وہ سیڑھی ہے جس پر انسانی تاریخ سفر کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اور ترقی کی آخری منزل پر پہنچتی ہے۔
مارکس کے متعلق یہ بات غلط طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ وہ مساوات کا علمبردار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نظامِ استحصال (Exploitation) کو مٹانا چاہتا ہے۔ مارکس کے نزدیک انسانیت کی تمام پچھلی تاریخ لوٹ کھسوٹ کی تاریخ ہے جس میں ایک طبقہ دوسرے طبقہ کو لوٹتا رہا ہے وہ اسی صورتِ حال کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نظریات جو____ جدلیاتی مادّیت (Dilectical Materialism) پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ اور قدر زائد (Surplus Value) کے نام سے مشہور ہیں، دراصل تاریخ ، سیاست اور اقتصادی قوانین کی وہ تشریحات ہیں جن کے ذریعہ مارکس یہ ثابت کرتا ہے کہ ماضی میںکیوں استحصال جاری رہا ہے اور آئندہ اشتراکی سماج میں کیوں یہ استحصال ختم ہو جائے گا۔
انسانی تاریخ کا قانون کیا ہے۔ مارکس کے نزدیک یہ بالکل وہی ہے جو مادل دنیا کا ہے۔ جس
طرح مادی دنیا کی تمام چیزیں ایک عالمگیر قانون میں جکڑی ہوئی ہیں اور اسی کے مطابق ان کے تمام خواص اور افعال ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسانی زندگی کا بھی ایک قانون ہے انسان بظاہر شعور اور ارادہ رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک خودمختار مخلوق ہے اور انی مرضی سے جو چاہے کر سکتا ہے۔ مگر انسان کے ارادہ کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ انسانی ذہن میں خارجی حالات کا عکس ہے۔ ایک تاریخی قانون ہے جو انسانی زندگی کی تمام سرگرمیوں کا حقیقی سبب ہے۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر ہم تاریخ میں یہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان لوٹ
۱؎ کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا فقرہ
کھسوٹ جاری رہی ہے تو اسی میں اس بات کا جواب بھی موجود ہے کہ اس لوٹ کھسوٹ کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو قانون انسانی زندگی کو برہم کئے ہوئے ہے اس کو معلوم کر کے اسے ٹھیک طریقہ سے استعمال کرنا۔ جس طرح طوفان کی تباہی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ طوفان کے اندر ایک طاقت ہے اور اس طاقت کو اگر قابو میں لا کر اسے مفید اغراض کے لئے استعمال کیا جائے تو یہی طوفان جو آج تباہی کا سبب ہے یہی انسانیت کو بہت سے فائدے پہونچا سکتا ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی میں اس کے قانون کی ہولناکیاں دیکھ کر ہم اندازہ کر سکتا ہیں کہ اگر اس قانون کو موڑ کر اسے صحیح رُخ پر چلایا جائے تو وہ زندگی کے لئے بے شمار فائدوں کا سبب بن جائے گا۔
سیاسی قانون یہ ہے کہ قدیم زمانہ سے وہ طبقہ حکومت پر قابض رہا ہے جو سماج میں زیادہ طاقت ور تھا ، جو وسائل و ذرائع کا مالک تھا۔ اس طبقہ کی حکومت کے معنی یہ تھے کہ جو لوگ سما کے اندر زیادہ حقوق اور زیادہ سازو سامان رکھتے ہیں ، ان کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے حقوق اور فوائد کا تحفظ کر سکیں۔ اور سیاسی طاقت کے ذریعہ اپنا بچائو کرتے رہیں۔ قدیم تاریخ میں یہی چیز سارے سیاسی مظالم کا سبب بنتی رہی ہے۔ اس چیز نے سیاست کو حقوق یافتہ طبقہ کا خادم بنا دیا اور اس کا کام صرف یہ ہو گیا کہ وہ دبے ہوئے طبقہ کو دبائے تاکہ جو لوگ اسے لوٹ رہے ہیں وہ اپنے لوٹنے کا کام پورے اطمینان کے ساتھ جاری رکھ سکیں۔ اس لئے حکومت اب محروم طبقہ کو دینی چاہئے۔ یعنی ان لوگوں کو جن کے پاس ذاتی طور پر ایسی کوئی چیز مجود ہی نہیں ہے جس کے تحفظ کے لئے وہ سیاسی طاقت کو ناجائز طور پر استعمال کریں۔
جب ایسے لوگوں کو حکومت دی جائے گی تو وہ آخر کس چیز کا بچائو کریں گے ، کس چیز کے تحفظ کے لئے دوسروں پر ظلم کریں گے۔
یہ طبقہ مارکس کے نزدیک مزدور کا طبقہ ہے۔ جدید صنعتی نظام نے مزدور طبقہ کو ملکیت سے محروم کر کے ایک عظیم تاریخی کام انجام دیا ہے۔ اس طرح ایک ایسا طبقہ وجود میں آ گیا ہے جو سیاست کی باگ ڈور سنبھال سکے اور جس کے ہاتھ میں اختیارات دے کر کسی ظلم کا اندیشہ نہ کیا جا سکتا ہو۔ مارکس جدید نظام کوالٹ کر اسی طبقہ کے ہاتھ میں سارے سیاسی اختیارات دے دینا چاہتا ہے جس کا نام اس نے پرولتاریہ کی ڈکٹیٹر شپ رکھا ہے۔
کیسی عجیب ہے یہ منطق۔ مارکس کی انتہا پسندی نے اس کو یہ تو بتایا کہ مزدور طبقہ موجودہ صنعتی نظام میں ایک ’’بے جائداد‘‘ طبقہ بن گیا ہے۔ مگر اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ لوگوں کی ملکیتوں کا داروغہ بننے کے بعد فوراً ہی وہ ایک ’’صاحب جائداد‘‘ طبقہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کی ملکیتیں چھیننے کے بعد وہ ہوا اور پانی کی طرح کھلی نہیں چھوڑ دی جائیں گی۔ بلکہ وہ انتظام کے نام پر کچھ لوگوں کے حوالے کی جائیں گی۔ یہ نئے منتظمین دوبارہ وہی کچھ ثابت ہوں گے جو قدیم مالکان ثابت ہوئے تھے۔
مارکس کے اقتصادی قانون کا عنوان قدر زائد (Surplus Value) ہے۔ اپنے اس نظریہ کے ذریعہ مارکس اس لوٹ کھسوٹ کی معاشی تشریح کرتا ہے جو اس کے نزدیک ساری انسانی تاریخ میں جاری رہی ہے۔ اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جو کچھ کماتا ہے یا اپنے لئے جو کچھ حاصل کرتا ہے وہ محض انسانی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے جو شخص محنت کر کے کوئی چیز وجود میں لاتا ہے اس کو حق ہے کہ وہ اس کا مالک بنے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو لوگ خود محنت کر کے کچھ حاصل کر رہے ہیں وہ تو گویا اپنی محنت کی جائز کمائی لے رہے ہیں اور جو لوگ دوسروں کو مزدور رکھ کر ان سے کوئی کام کراتے ہوں اور پھر اس کام کے منافع سے دولت حاصل کرتے ہوں وہ گویا دوسروں کی محنت سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جو کچھ دوسروں نے کمایا تھا اس پر اپنا قبضہ کر لیتے ہیں۔
مارکس کے نزدیک یہی وہ معاشی قانون ہے جس نے سماج میں غیر معمولی اونچ نیچ پیدا کی ہے۔ اور اس کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا ہے جب سے ذرائع پیداوار پر نجی ملکیّت تسلیم کی گئی اور ایک
شخص کو یہ حق دیا گیا کہ وہ دوسروں کو مزدور رکھ کر ان سے کام لے۔ اس طرح ایک آدمی بہت سارے آدمیوں کو کام پر لگا کر ان کی محنت کے حاصل پر قبضہ کر لیتا ہے اور سرمایہ دار بن جاتا ہے۔ وہ مزدوروں کو ان کے کام کے معاوضہ میں تھوڑی سی مزدوری دیتا ہے اور ان کی کمائی کے بقیہ حصّہ کو خود لے لیتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کسی مزدور کے حاصل محنت کی وہ مقدار جو مزدور کو نہیں دی گئی اور جس پر سرمایہ دار نے قبضہ کر لیا ، اسی کا نام قدرِ زائد ہے جو مارکس کے معاشی قانون کا عنوان ہے۔
مارکس اس حالت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نزدیک کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ دودروں کو اپنے یہاں مزدور رکھ کر ان سے کام لے۔ ہر شخص خود کام کرے اور اپنی محنت کے ذریعہ وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے بس اس کا وہ مالک بنے۔ اس طرح جب دوسروں کیں محنت سے فائدہ اٹھانے کا موقع ختم ہو جائے گا تو وہ معاشی بنیاد باقی نہ رہے گی جو ایک طرف افلاس اور دوسری طرف سرمایہ داری پیدا کرتی ہے۔
یہ ہے مارکسی نظریات کا خلاصہ ۔ یہ نظریہ بظاہر کائنات اور انسان کے بارہ میں ایک فلسفیانہ نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ مگر درحقیقت وہ اس سماجی آپریشن کی توجیہہ ہے جو مارکس نے زندگی کے مسائل کے حل کے طور پیش کیا تھا۔ اب ہم اس نظریہ کے صحیح یا غلط ہونے پر گفتگو کریں گے۔ اس گفتگو کے دوران میں بھی اس نظریہ کے بعض پہلوئوں کی تفصیل آئے گی جس سے اس کی مزید وضاحت ہو سکے گی۔
مارکس انیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پیدا ہوا۔ اور اس کے آخری میں اس کی وفات ہوئی۔ یہ زمانہ یورپ میں صنعتی انقلاب کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔ بھاپ اور بجلی سے چلنے والی مشینوں کی ایجاد نے بے شمار انسانوں کو روزگار سے محروم کر کے صنعت و تجارت کا پورا میدان تھوڑے سے مل مالکوں اور کارخانہ داروں کے حوالہ کر دیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا چند لوگ سرمایہ دار اور باقی تمام لوگ ان کے خریدار بن کر رہ گئے ہیں۔ اس صورتِ حال نے یورپ کے ذہن کو شدید طور پر متاثر کیا۔ اس کے حل کے لئے مختلف تدبیریں سوچی جانے لگیں۔ بالآخر مارکس پیدا ہوا جس نے سرمایہ داری کے خلاف یورپی ذہن کے ردعمل کو ایک فلسفہ کی شکل میں مرتب کر ڈالا۔ یہ فلسفہ دراصل استحصال کی ایک نئی شکل تھی جس کا مطلب خود مارکس کے لفظوں میں یہ تھا کہ بے دخل کرنے والے طبقوں کو بے دخل کر دیا جائے۔ ۱؎
اس نے صرف یہی ثابت نہیں کیا کہ ایسا ہونا چاہئے ، بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ تاریخ کا تقاضا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ اس کے سوا کچھ اور ہونا ممکن نہیں ہے۔ برٹرینڈرسل کے الفاظ میں ’’وہ سوشلسٹ انقلاب کا علمبردار نہیں پیش گوئی کرنے والا ہے۔‘‘ ۲؎
مارکس نے جب اپنے پیش رو فلسفیوں پر تنقید کر کے اپنا نظریہ پیش کیا تو اس زمانہ میں اُس کو اس زورشور کے ساتھ لیا گیا گویا کہ یہ آخری سچائی ہے جو انسان نے دریافت کی ہے ۔ ہیگل پر تنقید کرتے ہوئے انگلس لکھتا ہے:
۱؎کیپٹل، جلد اوّل ، صفحہ ۷۶۳، (ماسکو ۱۹۵۴)
۲؎روڈس ٹوفریڈم، صفحہ
’’ہیگل کی بیشتر تفصیلات میں پیوند، بناوٹ اور آورد پائی جاتی ہے۔ ایک لفظ میں وہ سب کی سب غلط ہیں۔ ہیگل کا سسٹم بہت بڑی نارسائی تھی مگر یہ اپنی قسم کی آخری نارسائی تھی۔‘‘۱؎
اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ انسان نے آخری طور پر انسانیت کے راز کو پالیا ہے اور اب صرف اتنی سی دیر ہے کہ اس کو زندگی میں عملاً جاری کر دیا جائے۔ اس وقت اشتراکی حضرات کو اس نظریہ کی سچائی پر اس قدر یقین تھا کہ اس کو نافذ کرنے کے لئے اگر چند کروڑ انسانوں کو قتل ہو جانا پڑے تو اس کو وہ بہت معمولی چیز سمجھتے تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں دنیا کو مستقل کش مکش سے نکال کر ہمیشہ کے لئے آزاد کر دینے کی یہ بہت معمولی قیمت تھی۔ مگر تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ مارکسزم بھی اسی طرح ایک ناقص نظریہ ہے جس طرح دوسرے سابق فلسفیوں کے نظریات تھے۔ وقت نے مارکس کے نظریہ کی بہت سی خامیاں ظاہر کر دی ہیں۔ جن چیزوں پر پہلے صرف نظری بحث کی جا سکتی تھی۔ آج ہم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
مارکس نے اپنے زمانہ کے حالات میں انسانی سماج کا جو تجزیہ کیا تھا وہ بعد کے حالات میں غلط نکلا۔ اس نے جو طریقِ کار معیّن کیا تھا وہ بے کار نظر آنے لگا۔ اس نے جو حل پیش کیا تھا تجربہ کے بعد وہ ظلم کی بدترین شکل ثابت ہوا۔ اس طرح بعد کے حالات نے خود ہی ان تمام باتوں کی تردید کر دی جن
کی بنیاد پر مارکس نے ’’مستقبل کے فلسفہ کے اصول۔‘‘۳؎ مرتّب کئے تھے۔ یہ گویا مارکسزم کے خلاف تاریخ کا فیصلہ تھا۔ مگر مارکس کے متبعین نے اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا۔ ہر بار جب مارکسزم کی کوئی غلطی سامنے آئی تو انھوں نے لفظی الٹ پھیر کے ذریعہ فوراً اس کی تاویل پیش کر دی۔ اور کہا کہ یہ ’’مارکسزم کے ذخیرہ میں نئی سچائیوںکااضافہ‘‘ ہے۔ مگر یہ ’’نئی سچائیاں‘‘ دراصل مارکس کی غلطیوں کا اعتراف ہیں جو مزید غلطیوں کے ذریعہ کیا گیا ہے۔ مارکسزم کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص دن کو رات ثابت کرنے کے لئے اپنا کمرہ بند کر کے کہے کہ دیکھو سورج کہیں نظر آتا۔ اور جب اس سے کہا جائے کہ یہ
۱؎’’سوشلزم۔ یوٹوپین اینڈ سائنٹیفک ‘‘ بحوالہ کارل مارکس سلکٹڈڈ ورکس جلد اوّل صفحہ ۱۶۷۔(ماسکو ۱۹۴۶ئ)
۲؎یہ مارکس کی ایک کتاب کا نام ہے جو ۱۸۴۳ء میں شائع ہوئی تھی۔
روشندان سے جو کرنیں آ رہی ہیں وہ کس چیز کا ثبوت ہیں تو وہ جواب دے کہ احمق معمار نے روشندان کا رخ غلط بنا دیا۔ ورنہ تم دیکھتے کہ کمرہ میں بالکل اندھیرا ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ بھول جائے کہ اس دلیل سے وہ خود اپنے پچھلے دعوے کی تردید کررہا ہے۔
مارکس نے انیسویں صدی کے انگلستان کو سامنے رکھ کر سرمایہ داری پر تنقید کی تھی۔ یہ سرمایہ داری کا وہ دور تھا جبکہ مزدور کو حقیقی معنوں میں اجرتی غلام بنا کر رکھا جا رہاتھا۔ اور اس سے نہایت قلیل اجرت پر ۱۶،۱۶۔ اور ۲۰،۲۰ گھنٹے کام لیا جاتا تھا۔ اس وقت فی الواقع انسانی زندگیوں سے دولت چوسی جا رہی تھی۔ مارکس کے الفاظ میں ’’مزدور کا سرمایۂ زندگی چند خشک لقمے ، بوسیدہ چتھیڑے اور تاریک جھونپڑی‘‘ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مارکس نے اس وقت سرمایہ داروں کے مظالم کی داستان چُن چُن کر اکٹھا کی اور ان کو اپنی مشہور کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ درج کر دیا۔ ایک سوشلسٹ مفکر کے بقول ’’سرمایہ کے بہترین حصّے وہ ہیں جو ان اقتصادی واقعات سے بحث کرتے ہیں، جن کا مارکس کو انسائیکلوپیڈیائی علم تھا‘‘۔۱؎
’’جون ۱۸۶۳ء کے آحری ہفتہ میں لندن کے تمام روزانہ اخباروں میں سنسنی پیدا کرنے والے عنوان کے ساتھ ایک خبر شائع ہوئی____ ’’محض زیادہ کام کرنے سے موت‘‘ اس میں عورتوں کی ٹوپیاں بنانے والی ایک بیس سالہ لڑکی میری این واکلی (Mary Anne Walkley) کی موت کا ذکر تھا۔
جو لباس سازوں کی ایک باعزت فرم میں ملازم تھی اور ایلیزے (Elise) کے سہانے نام والی ایک خاتون کے ہاتھوں لوٹی جا رہی تھی۔ یہ لڑکی اوسطاً
۱؎رسل، روڈس ٹوفریڈم، صفحہ
ان تنگ سرنگوں میں پڑ رہتیں جن میں تختوں کے ذریعہ سونے کے خانے تقسیم کئے ہوئے تھے اور یہ لندن کے بہترین ٹوپیوں کے کارخانوں میں سے ایک تھا۔ میری این واکلی جمعہ کو بیمار پڑی اور اتوار کو مر گئی۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد جیوری کے آگے بیان دیا کہ میری این واکلی کی موت کھچا کھچ بھرے ہوئے کمرہ میں زیادہ کام کرنے اور تنگ و تاریک جگہ سونے کے باعث ہوئی ہے۔ مگر جیوری کا فیصلہ یہ تھا کہ مرنے والی مرگی سے مری ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کمرہ کی بھیڑ اور زیادہ کام نے اس کی موت کا وقت کچھ قریب کر دیا ہو۔‘‘۱؎
اس قسم کے واقعات سے ’’سرمایہ‘‘ کے صفحوں کے صفحے اور باب کے باب بھرے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے بھیانک واقعات جمع کرنے سے مارکس کا مقصد یہ تھا کہ اپنے پیرئووں کے دل میں سرمایہ داری کے خلاف شدید نفرت پیدا کر دے اور انھیں تاریخ کی سب سے زیادہ ہولناک جنگ۔ طبقاتی جنگ کے خلاف لڑائی کے لئے تیار کرے ، مگر بعد کو معلوم ہوا کہ سرمایہ داری نظامی کے خلاف گولہ باری کے لئے اس نے جن چیزوں کو نشانہ بنایا تھا۔ ان میں سے بہت سے نشانے اب اپنی جگہ پر باقی نہیں رہ گئے ہیں۔ آج اگر سرمایہ دارانہ ظلم کی وہ مثالیں ڈھونڈی جائیں جن سے مارکس کی تحریریں بھری
پڑی ہیں اور جن کے متعلق اس کا خیال تھا کہ مزدور انقلاب ہی ان کا خاتمہ کر سکتا ہے تو ممکن ہے ’’اشتراکی جنّت ‘‘ میں اس کی مثال مل جائے ورنہ عام سرمایہ دار ممالک میں اس کی مثالیں نہیں ملیں گی۔
آج مزدور کی اجرتیں بڑھ چکی ہیں۔ کام کے اوقات گھٹا دئیے گئے ہیں۔ مختلف قسم کے الائونسوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے ، مزدوروں کی رہائش ، علاج اور دوسری ضروریات کے لئے بہت بہتر انتظامات ہو گئے ہیں۔ مزدوروں کو خود کارخانہ کے منافع اور اس کے نظم و نسق میں شریک کیا جانے لگا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکہ کی تین سو کے قریب کمپنیاں اپنے مزدوروں کو کمپنی کے حصّے خریدنے کی آسانیاں مہیا کر رہی ہیں۔ چنانچہ ۱۹۵۷ء کے آخر تک بیس ہزار مزدور اور ملازم اپنی کمپنیوں کے حصہ دار بن چکے تھے۔ آج کا ماہر مزدور چھوٹے پیمانہ پر خود بھی ایک سرمایہ دار ہوتا ہے۔
۱؎کیپٹل ، جلد اوّل ، صفحہ ۵۵۔۲۵۴، (ماسکو ۱۹۵۴)
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ لندن کے مشہور کتب خانہ ’’برٹش میوزیم‘‘ میں ۳۵ سال کے مطالعہ کے بعد مارکس نے سرمایہ داری نظام کے جس ’’ناگزیر انجام‘‘ کا ’’انکشاف‘‘ کیا تھا وہ صحیح نہیں نکلا۔ مارکس نے کہا تھا کہ سرمایہ داری نظام ایک بہت بڑے تضاد سے دوچار ہے۔ یہ مزدور اور سرمایہ دار کا تضاد ہے ، اس نظام میں ساری دولت اور ذرائع پیداوار سمٹ کر چند لوگوں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں اور باقی لوگوں کے لئے اس کے سوا زندگی کی اور کوئی شکل باقی نہیں رہ گئی ہے کہ وہ ان کے اُجرتی غلام بن جائیں۔ ایک طرف مٹھی بھر سرمایہ دار ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے اور دوسری طرف مزدوروں کی بھیڑ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہ دو مختلف طبقے ہیں جن کا مفاد کہیں بھی ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ مارکس نے پیشین گوئی کی تھی کہ صنعتی نظام اس طبقاتی امتیاز کو اور بڑھائے گا۔ اور مزدور اور سرمایہ دار دو مخالف کیمپوں میں تقسیم ہوتے چلے جائیں گے۔ اس نے کہا تھاکہ موجودہ جمہوری نظام میں قوم و وطن کے نام پر امیر و غریب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش بورژوا کا فریب ہے جس میں پردلتاری طبقہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ ’’قوم اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ ایک آلہ ہے جس کے ذریعہ ایک طبقہ دوسرے طبقہ پر ظلم کرتا ہے۔ خواہ وہ کسی جمہوری حکومت میں ہو یا قدیم شاہی حکومت
میں‘‘۱؎ اس کو یقین تھا کہ قوم و وطن کے نام پر مزدور طبقہ کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹنے کا فریب بہت جلد ختم ہو جائے گا اور سب کے سب مزدور ایک ہو جائیں گے۔
فریدش انگلش نے انیسویں صدی کے آخر میں اعلان کیا تھا کہ ’’آج تمام ملکوں کے مزدور متحد ہو چکے ہیں‘‘ ۲؎ چنانچہ اس زمانہ میں مارکسی مفکرین کا خیال تھاکہ کوئی عالمگیر جنگ چھڑی تو ساری دنیا کے مزدور بیک وقت اپنے اپنے ملک کی سرمایہ دار حکومتوںکے خلاف بغاوت کر دیں گے ، اور روئے زمین سے ہمیشہ کے لئے سرمایہ داری نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مگر اس کے برعکس جب پہلی جنگ عظیم (۱۸۔۱۹۱۴) چھڑی تو ہر ملک کے مزدوروں نے مارکسی نظریہ ترک کر کے حکمراں طبقہ کا ساتھ دیا۔ طبقاتی مفاد پر قومی مفاد غالب آ گیا۔
۱؎پرنسپل اینڈ پریکشنر آف کمیونزم، صفحہ ۴ ۲؎کمیونسٹ مینی فسٹو کے جرمن اڈیشن ۱۸۹۶ئ کا دیباچہ صفحہ ۳۴
انھوں نے اپنے ملک کے سامراجیوں کے ساتھ مل کر دوسرے ملک کے مزدوروں سے جنگ کی۔ اس جنگ سے پہلے دوسری انٹرنیشنل ۱؎ کی ایک کانگرس بیسل (سوئزرلینڈ) میں ہوئی۔ جس میں ساری دنیا کے مزدوروں کے نمائندے جمع ہوئے تھے اور انھوں نے ’’جنگ کے خلاف جنگ‘‘ کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے اپنے وطن کی سامراجی حکومتوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے جنگ شروع کی تو وہ بغاوت کر دیں گے۔ مگر لڑائی ہونے کے بعد تجویز بالائے طاق رکھ دی گئی اور مزدوروں کے سامنے ایک نیا نعرہ پیش کیا گیا___ ’’وطن کی خاطر جنگ‘‘ ایسا وطن جو مارکسی منطق کے مطابق مزدور موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ایک ملک کے مزدوروں نے دوسرے ملک کے مزدوروں کو قتل کیا۔
اس واقعہ کا ذکر کمیونسٹ انٹرنیشنل کی چھٹی کانگرس (۱۹۱۸ئ) کی قرارداد میں ان لفظوں میں آیا ہے:
’’۱۹۱۴ئ کی جنگ میں سوشلسٹوں کی بین الاقوامی انجمن (دوسری انٹرنیشنل) نہایت شرمناک طریقہ پر ختم کر دی گئی۔ اس کے لیڈروں نے مارکس اور انگلس کے کمیونسٹ مین فسٹو کے بالکل مخالف راہ اختیار کی جس میں بتایا گیا ہے کہ سرمایہ داری نظام میں پرولتاری طبقہ کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ سٹٹ
گارٹ (Stuttgart) اور بیسل (Basle) کی کانگرس میں جنگ کے خلاف جو تجویزیں منظور کی گئی تھیں ان کی مخالفت کی۔ چند ایک کے سوا تمام ملکوں کے مزدور لیڈروں نے جنگی قرضہ کی تائید کی۔ سامراجی مادرِ وطن (ایسی حکومت جس پر سامراجی سرمایہ داروں کا قبضہ تھا۔) کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھانے کی تائید کی اور سامراجی جنگ کی مخالفت کرنے کے بجائے اس کے وفادار سپاہی بن گئے۔ مختلف ملکوں میں انقلاب کو کچلا گیا تو اس میں عملی مدد کی ، ہنگری میں کامیاب پرولتاری انقلاب کے ساتھ نہایت
۱؎مزدور طبقہ کی بین الاقوامی جماعت جو ۱۸۸۹ئ میں قائم کی گئی تھی۔ سٹالن نے لکھا ہے کہ ’’ایک طرف مارکس اور انگلز اور دوسری طرف لینن کے درمیان ایک پورا دور گزرا ہے جس میں بلاشرکتِ غیر دوسری انٹرنیشنل کا بول بالا رہا ہے۔‘‘ پرابلمزآف لینن ازم صفحہ ۱۴۔
شرمناک طریقہ پر غدّاری کی ۔ مجلس جمعیتہ اقوام میں شریک ہوئے اور غلام ملکوں کے خلاف اپنی سامراجی حکومتوں کی تائید کی۔ انھوں نے سامراجی فوجی قانون پاس کرائے۔ انھوں نے مزدوروں کی ہڑتال کی مخالفت کی۔ وہ سرمایہ داروں کے ڈھنڈورچی اور غلام بن گئے۔‘‘
ان واقعات نے مارکسی تجزیئے کو عملاً بے معنی بنا دیا ، دنیا کے مزدور تمام دنیا کے سرمایہ داروں کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کے بجائے ہر ملک میں اپنے سرمایہ داروں کے ساتھ ہو گئے تھے۔ اس کے صریح معنی یہ تھے کہ اقتصادی بنیادوں پر تاریخ کے لازمی سفر کا جو نظریہ پیش کیا گیا تھا وہ صحیح نہ تھا۔ چنانچہ اس کی توجیہہ کے لئے مارکسیوں نے اعلان کیا کہ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ سرمایہ داری نظام میں چند خاص تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ لینن نے اپنی مشہور کتاب ’’امپریلزم‘‘ میں بہت سے اعداد و شمار اور معلومات جمع کیں اور ثابت کیا کہ یہ سرمایہ داری نظام کا ’’سامراجی دور‘‘ ہے جو ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ سے شروع ہوتا ہے۔ اس نے سامراجی دور کی بہت سی خصوصیات گنائیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ صنعتی سرمایہ داری زیادہ وسیع ہو کر اجارہ داری کے دورمیں داخل ہو گئی ہے۔ اس طرح سرمایہ داروں کا منافع بہت بڑھ گیا ہے جس کا اثر مزدور تحریک پر بھی پڑتا ہے اور جن کے پاس مارکس کے الفاظ میں
’’اپنی بیڑیوں کے سوا‘‘ کھونے کے لئے کچھ نہ تھا۔ وہ اب خود بھی سرمایہ داروں کی طرح خوش حال ہو گئے ہیں۔
مارکس نے انگلستان میں سرمایہ داری نظام کی تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا تھا کہ انگلستان پہلا ملک ہے جس نے مشین کی بنی ہوئی چیزیں دنیا کے دوسرے حصوں میں پہونچائیں اور اس طرح جو نفع ہوا اس سے مزدوروں کو بھی حصّہ ملا۔ بلکہ بعض ماہر مزدوروں اور سوتی کپڑے کی صنعت میں کام کرنے والوں کا معیار زندگی دوسرے ممالک کے مزدوروں سے کافی بڑھ گیا۔ اور یہ طبقہ اپنے کو سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ سے وابستہ کرنے لگا۔ لینن نے بتایا کہ یہ صورت ہر اس سرمایہ دار ملک میں پیش آتی ہے جو سامراجی دور میں داخل ہو جاتا ہے اور مزدور جو خوش حال ہو جاتے ہیں (خاص طور پر اس گروہ کے لیڈر) وہ موقع پرست بن جاتے ہیں اور موقع ملنے پر اپنے طبقہ کی طرف سے مل مالکوں سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ ۱؎
۱؎ایمل برنس، دھاٹ ازمارکسزم، صفحہ ۲۷ (بمبئی ۱۹۵۲)
کس قدر عجیب ہے یہ تاویل جس کے ذریعہ تاریخ کے مادّی نظریہ کی صفائی پیش کی گئی ہے اور سرمایہ داری نظام کے خلاف طبقاتی لڑائی جاری رکھنے کا بہانہ تلاش کیا گیا ہے۔ ایک طرف مارکسزم کا دعویٰ ہے کہ سرمایہ داری نظام تاریخ کے اقتصادی سفر کی ایک مخصوص منزل ہے جس کی ترقی سے محنت اور سرمایہ کا تضاد زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے دوسری طرف یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسی عمل سے یہ تضاد کم ہو جاتا ہے۔ گویا رات کے آنے سے کبھی تاریکی آتی ہے اور کبھی رات آتی ہے تو روشنی اور بڑھ جاتی ہے۔ مارکسزم کے تضاد کو رفع کرنے کی کوشش میں اس کے اندر مزید تضادوں کا اضافہ کر دینا یہی لینن کا وہ سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے جس کو مارکسی تعلیمات سے جوڑنے کے لئے ’’مارکسزم لینن ازم‘‘ ایک کمیونسٹ مصنّف نے لکھا ہے:
ُُلینن ازم کو نہ ماننا خود مارکمسزم کا انکار ہے۔‘‘
روز الکسمبرگ نے اسی قسم کے واقعات کو سامنے رکھ کر کہا ہے:
’’روسی کمیونسٹوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے سوشلسٹ خیالات کے ذخیرہ میں نئی سچائیوں کا اضافہ کیا ہے ، مگر یہ سچائیاں دراصل وہ غلطیاں ہیں جو
انھیں روس میں حالات کے تحت مجبوراً کرنی پڑی تھیں۔‘‘
لینن کی تاویل کے اس نقص سے اگر قطع نظر کر لیا جائے جب بھی یہ تاول اُس کے خلاف جاتی ہے۔ یہ دراصل اشتراکی فلسفہ کی پوری بنیاد کو ڈھا رہی ہے۔ مارکس نے ماضی کے تمام قوانین کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ کوئی قانون ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر زمانہ اور ہر قسم کے حالات کے لئے درست ہو۔ اس نے کہا تھا کہ ’’انسانی سوسائٹی میں جب بھی اس قسم کے غیر سائنٹفک نقطہ نظر سے کام لیا جاتا ہے تو ہمیشہ تباہی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ ’’تمام عقیدے ایک خاص زمانہ کی طبقہ واری زندگی کا عکس ہوتے ہیں اور بعد کے حالات میں جب کہ زندگی کی سابق نوعیّت بدل چکی ہوتی ہے وہ عقیدے بھی بے کار ہو جاتے ہیں ، بلکہ ترقی کے راستہ میں حائل ہوتے ہیں ‘‘ مگر مارکسزم کے متعلق ان کا دعویٰ تھا کہ اس نے انسان کو قوم پرستی اور فرسودہ عقیدوں سے ہمیشہ کے لئے نجات دلا دی ہے۔ اس نے ساری کائنات کا تجزیہ کر کے نہ صرف حال کی مکمل اور صحیح تصویر پیش کی ہے بلکہ مستقبل کی راہِ عمل بھی بتا دی ہے مگر بعد کے تجربات سے یہ دعویٰ غلط ثابت ہو گیا۔
مارکس نے جن حالات کے پیش نظر انسانیت کے مسئلہ پر غور کیا تھا وہ حالات ہی بدل گئے۔ سرمایہ داری نظام سامراجی نظام کے مرحلہ میں پہونچ گیا اور مل مالکوں کے خلاف مزدوروں کی ناقابلِ صلح کش مکش موافقت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو گئی۔ اس طرح جب حالات بدل گئے تو خود مارکسی منطق کے مطابق وہ حل بھی بے معنی ہو گیا جو گزرے ہوئے حالات کے لئے اس کے اندر رہ کر سوچا گیا تھا۔ اس صورتِ حال نے مارکسیوں کی وہ تمام تنقیدیں جو انھوں نے ماضی کے فلسفوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے ان پر کی تھیں خود مارکسزم پر چسپاں کر دیں۔ مگر مارکسی حضرات یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ اشتراکی پیغمبر کا حل کبھی بے کار بھی ہو سکتا ہے ، اس قسم کے تمام تضادات کو رفع کرنے کے لئے انھوں نے برجستہ ایک نئی تاویل ایجاد کر لی۔ انھوں نے کہا :
’’سوسائٹی کے ارتقاء کا سانٹیفک نقطۂ نظر، دوسرے تمام سائنٹفک علوم کی طرح، تجربہ ، تاریخی حقائق اور اطراف کی دنیا پر مبنی ہے جو ہم کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس لئے مارکسزم آخری طور پر تکمیل یافتہ نظریہ نہیں ہے۔ جوں جوں تاریخ ترقی کرتی ہے ، انسان زیادہ تجربات حاصل کرتے ہیں۔ اس کے مطابق مارکسزم بھی ہمیشہ ترقی کرتی رہتی ہے اور نئے حقائق جو روشنی میں
آتے ہیں ، ان پر اس کا انطباق ہوتا رہتا ہے۔ ‘‘۱؎
دوسرے لفظوں میں جس طرح کیمیا اور طب اور فلکیات وغیرہ سائنٹفک علوم ہیں۔ ٹھیک اسی طرح انسانی سماج کی بھی ایک سائنس ہے۔ کیمیا اور طبیعیات طبیعی سائنس ہیں ، حیوانات اور طب وغیرہ حیاتیاتی سائنس ہیں۔ اسی طرح مارکسزم معاشرتی سائنس ہے۔ جس طرح دوسرے علوم میں انسان تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعہ نئے نئے حقائق دریافت کرتا رہتا ہے اور اس کو ترقی دیتا ہے اسی طرح سماج کے بارہ میں مارکس کا فلسفہ بھی حالات اور تجربات کے ساتھ ترقی کرتا رہتا ہے۔
یہ توجیہہ پیش کر کے مارکسی حضرات خوش ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ کے لئے اپنی مشکل حل کر لی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر انسانیت کا علم بھی طبیعی علوم کی طرح ایک علم ہے جو ہمیشہ تجربات اور مشاہدات سے بدلتا رہے گا تو پھر آپ طبقاتی جنگ اور ذاتی ملکیت کی تنسیخ کے حل کو جو انیسویں صدی میں سوچا گیا تھا کس دلیل کی بنا پر اسے بیسویں صدی کی نسل پر متسلط کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو اقرار ہے کہ انسان کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس کو ابھی آخری طور پر انسان سمجھ نہیں سکا ہے۔ پھر انسان
۱؎ایمل برنس، صفحہ ۱۔
اور انسان کو باہم ٹکرانے اور لوگوں کو ان کی ملکیتوں سے محروم کرنے کا انتہائی اقدام آپ کس علم یقین کی بنا پر کر رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جس چیز کو آپ حل کہہ رہے ہیں وہ آپ کی ایک غلطی ہو جو آپ نے ناتمام مطالعہ اور غلط معلومات کی روشنی میں سوچ لیا ہو۔ پھر ماضی کی غلطو مستقبل تک وسیع کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔ جب آپ خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ انسانیت کا حقیقی علم اور اس کے لئے ابدی قانون ابھی تک دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ انسان اپنے تجربہ اور مطالعہ سے ہمیشہ اس کی طرف بڑھتا رہے گا۔ ایسی حالت میں آپ کے لئے یہ تو جائز ہے کہ لیبارٹریوں اور کتب خانوں میں آپ آخری علم تک پہونچنے کی کوشش جاری رکھیں۔ مگر آپ کو کیا حق ہے کہ ورانِ تحقیق میں جو ناتمام معلومات آپ کو حاصل ہو جائیں ، آپ انسانی زندگی میں ان کا ہولناک تجربہ شروع کر دیں۔ کیا انسانی زندگی بھی کوئی مردہ لاش ہے جس کو مارکسی کالج کے طالب علموں کے حوالہ کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے تجربات کے لئے اس کی چیڑ پھاڑ کرتے رہیں۔
اشتراکی لٹریچر پورا کا پورا اسی قسم کے تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ مارکسی مفکرین اپنے نظریہ کو
ثابت کرنے کے لئے ایک دعویٰ کرتے ہیں۔ اور بعد کو جب حقائق اس کے خلاف جاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو پوری ڈھٹائی کے ساتھ فوراً ایک دوسرا دعویٰ کر دیتے ہیں جو پہلے دعوے کی عین ضد ہوتا ہے۔ میں یہاں بتائوں گا کہ مارکسزم کی نظریاتی بنیاد کس قدر کمزور ہے اور کس طرح وہ اپنی تردید آپ کر رہی ہے۔
مارکسی سوشلزم، ایک اعتبار سے ، تضادِ فکر کا دوسرا نام ہے۔ ایک طرف اس کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال (Exploitation) اس لئے قائم ہے کہ ذرائع و رسائل کچھ افراد کے ہاتھ میں ہیں۔ مگر دوسری طرف اس کی تجویز یہ ہے کہ ذرائع و وسائل کو مزیداضافہ کے ساتھ مرتکز کر کے ایک محدود تر طبقہ (کمیونسٹ حکمرانوں) کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ فکری تضاد گویا ایک داخلی شہادت ہے جو مارکس کے پورے فکر کو غلط اور بے معنی ثابت کر دیتا ہے۔
اشتراکی لٹریچر میں جہاں ماضی اور حال کے سماج کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کو دیکھئے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا انسان کتّے سے زیادہ خودغرض اور بھیڑیئے سے زیادہ خونخوار ہے۔ اس کو تاجر اور صنعت کار بننے کا موقع ملتا ہے تو وہ دوسروں کو لوٹنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کو اقتدار مل جاتا ہے تو اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنا لیتا ہے۔ اس کو سرمایہ داروں اور وقت کے حکمرانوں کی طرف سے کچھ نفع کا لالچ دے دیا جائے تو محض اپنے ذاتی فائدے کے لئے وہ ہزاروں انسانوں کے ساتھ غدّاری کرنے سے بھی نہیں چومتا۔ غرض قوّت اور اسباب و ذرائع کا تھوڑا سا حصّہ بھی کسی انسان کو بگاڑ دینے کے لئے کافی ہے۔
اس نظریئے کے مطابق ساری انسانی تاریخ لوٹ کھسوٹ کی تاریخ ہے۔ دنیا اس کی نگاہ میں کتّوں کا دسترخوان ہے۔ جہاں معاشی مفاد اور مادّی خوش حالی کے لئے سارے انسان چھین جھپٹ کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے مصلحین اور پیغمبر سے لے کر عوام تک کسی کے سامنے اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں۔ جس کو موقع مل گیا ہے وہ لوٹ رہا ہے اور جو ابھی محروم ہے وہ اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح وہ بھی لوٹنے والوں کی صف میں پہونچ جائے۔
مارکس کے نزدیک انسان اگر مذہب و اخلاق کی بات کرتا ہے تو صرف اس لئے کہ اپنی مکاریوں پر پردہ ڈالے۔ وہ قانون بتاتا ہے تو اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ اپنی لوٹ کھسوٹ کے لئے قانون کی حمایت حاصل کرے۔ وہ فلسفہ کا درس دیتا ہے تو صرف اس لئے کہ اپنی ظالمانہ کارروائیوں کے لئے علمی دلیل فراہم کرے۔ حتیٰ کہ وہ ازدواجی زندگی اختیار کرتا ہے تو اس سے بھی اس کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ ناجائز طریقے سے سمیٹی ہوئی دولت کے لئے اپنا ایک وارث چھوڑ جائے۔ یہ سارے کام صرف سرمایہ دار لوگ ہی نہیں کرتے جو اشتراکی شریعت میں سب سے بڑے مجرم ہیں بلکہ خود غریب طبقہ کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ چنانچہ مزدوروں کو اگر اپنے کارخانہ دار سے کچھ نفع کی امید ہو جائے تو وہ بھی اپنے کو سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ سے وابستہ کرنے لگتے ہیں ، جیسا کہ انگلستان کے بارے میں مارکس نے لکھا ہے۔ اسی طرح چھوٹے کسانوں کی انجمن امداد باہمی کے بارہ میں مارکس نے لکھا ہے کہ وہ خوش حال کسانوں کے لئے تو بہت کچھ کرتی ہے مگر غریب کسانوں کی بہت بڑی تعداد کے لئے اس کا کرنا نہ کرنا برابر ہے ، یہ انجمنیں خود بھی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کا استحصال کرنے لگتی ہیں۔ ۱؎
اشتراکی لٹریچر پچھلی تاریخ کے بارے میں اس طرح ک بیانات سے بھرا ہوا ہے۔ مارکسی لٹریچر کا
دوسرا حصّہ وہ ہے جس میں اس خیالی سماج کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جو اشتراکیت اپنے دعوے کے مطابق مستقبل میں تعمیر کرنا چاہتی ہے ، یا دوسرے لفظوں میں جو مارکسی تشریح کے مطابق مستقبل میں آنے والا ہے۔ یہ سماج مارکس کے نزدیک وہ سماج ہے جہاں ملکیّت کے قانون کو ختم کر دیا جائگا۔ اور سرمایہ حاصل کرنے کے تمام ذرائع کو ریاست کی تحویل میں دیدیا جائے گا۔ اشتراکیوں کے نظریہ ایک جملہ میں یوں ادا کر سکتے ہیں___ افراد کی ذاتی ملکیتوں کو ختم کر کے ان کو مزدور نمائندوں کے ہاتھ میں دے دینا اور اس طرح مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کرنا۔ اشتراکیت کا دعویٰ ہے کہ ملکیّت کی تنسیخ کے بعد سارے جھگڑے ختم ہو جائیں گے اور انسانیت ہمیشہ کے لئے بدحالی اور جنگ سے نجات پا جائے گی۔ اس نظام میں آدمی اس حد تک بدل جائے گا کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ابتداًء سیاسی اور اقتصادی معاملات کی ڈکٹیٹر شپ دی جائے گی کچھ دنوں کے بعد وہ خود ہی اپنے تمام اختیارات سے دست بردار ہو جائیں گے۔ سماج کے تمام افراد اس قدر ٹھیک اور درست ہو جائیں گے کہ عدالت اور پولیس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
۱؎ کارل مارکس، سلکٹڈ ورکس، جلد اوّل صفحہ ۳۶
مارکس نے پچھلی انسانی تاریخ کا جو تجزیہ کیا ہے اس کے تحت اگر وہ یہ تجویز کرتا کہ روئے زمین سے ہمیشہ کے لئے انسانی نسل کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ بات خواہ کتنی ہی غلط ہو ، مگر ہم کہہ سکتے تھے کہ اپنے تجزیہ کے مطابق وہ جس نتیجہ پر پہنچ سکتا تھا اس کو سچائی کے ساتھ اس نے پیش کر دیا ہے۔ مگر جب وہ کہتا ہے کہ ذرائع پیداوار کو عام لوگوں سے چھین کر حکومت کے قبضہ میں ے دیا جائے تو دراصل وہ اتنے بڑے تضاد کا ماظہرہ کرتا ہے جس کی امید ایک صحیح الدماغ شخص سے نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف تو وہ کہتا ہے کہ کسی سماج میں زمین ، کارخانے ، مشینیں اور دوسرے ذرائع پیداوار جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں پورا سماج ان کا غلام بن جاتا ہے ، مگر انھیں چیزوں کو جب وہ نجی سرمایہ داروں سے چھین کر ’’مزدور ڈکٹیٹروں‘‘ کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو اس کے نزدیک ساری برائی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور انسانیت ہمیشہ کے لئے سیاسی معاشی اور تمدّنی غلامی سے نجات پا جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تلوار ہے جو نجی قبضہ کے طور پر کسی کے پاس ہو تو وہ کاٹتی ہے ، لیکن اگر اس کو ’’سماجی نمائندوں‘‘ کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو اس کی دھار کند ہو جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جن ذرائع کو پا کر مٹھی بھر سرمایہ داروں کا یہ حال ہوا ہے انھیں ذرائع کو جب مٹھی
بھر ’’کامریڈ‘‘ اپنے ہاتھ میں پائیں گے تو آخر ان کا حال اس سے مختلف کیوں ہو گا۔ مارکسی نظریہ کے مطابق قدیم ترین انسانی سماج اشتراکی سماج تھا جو لوٹ کھسوٹ اور ظلم سے پاک تھا۔ ۱؎ مگر انھیں میں سے کچھ لوگوں کے پاس جب دوسروں سے زیادہ ذرائع و وسائل اکٹھا ہو گئے تو وہ ظالم اور لٹیرے بن گئے۔ پھر موجودہ زمانے کے سوشلسٹ سماج میں جن لوگوں کو اس سے بہت زیادہ ذرائع و وسائل کا چارج دیا جائے گا وہ آخر کیوں ظالم اور لٹیرے نہیں بنیں گے۔
ایک عظیم تضاد ہے جس کو دور کرنے کے لئے مارکس نے اپنے تاریخی مادّیت کے نظریہ (Historical materialism) سے مدد لی ہے۔ مارکس کا فلسفہ جو اس نے کائنات اور انسان کی تشریخ کے لئے مرتب کیا ہے وہ محض کائنات اور انسان کی تشریح نہیں کرتا بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اس حل کو صحیح ثابت کرتا ہے جو مارکس نے انسانی زندگی کے لئے پیش کیا ہے۔ اور سماجی آپریشن کے متعلق ان کارروائیوں کی توجیہہ کرتا ہے جو مارکس نے تجویز کی ہیں۔
ڈاروینی نظریہ کے مطابق دنیا ایک زمانہ میں بے جان مادّہ تھی۔ پھر جان دار مادّہ پیدا ہوا۔
۱؎ملاحظہ ہو انگلس کی کتاب ، ریاست اور سماج۔
اور اس کے ارتقاء کے دوران میں نباتات اور حیوانات وجود میں آئے۔ آگے چل کر ان میں سوچنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ حیوان کے ارتقاء کی آخری کڑی انسان ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ شعور سے پہلے مادّہ موجود تھا۔ مادّہ پہلے پیدا ہوا اور اس کے اندر شعور بعد میں آیا۔ دوسرے لفظوں میں شعور مادّہ کو پیدا نہیں کرتا بلکہ مادّہ کے ارتقاء کے ایک خاص دور میں خود بخود اس کے اندر شعور آ جاتا ہے۔
مارکس نے اس مفروضہ کو انسانی سماج کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا اور اس کو بعینہ اس کے اوپر چسپاں کر دیا۔ مادّہ کی جگہ اس نے معاشی حالات کو دی اور یہ دعویٰ کیا کہ ’’انسان کے شعور سے اس کی ہستی وجود میں نہیں آتی بلکہ یہ اس کی ہستی ہے جس سے اس کا شعور وجود میں آتا ہے۔‘‘ ۱؎ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص صحیح یا غلط جو رویہ اختیار کرتا ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اس کی خواہش پہلے سے اس کے ذہن میں موجود تھی یا اس نے الگ سے سوچ کر یہ طے کیا تھا کہ اسے ایسا کرنا ہے ، بلکہ آدمی کے تمام خیالات اس کی معاشی زندگی کا عکس ہوتے ہیں۔ جس طرح آئینہ میں وہی عکس پڑے گا جو اس کے سامنے ہو اسی طرح ذہن میں وہی خیالات پیدا ہوں گے جو معاشی حالات کے اندر پہلے سے موجود
ہیں۔ کسی دور میں معاشی پیداوار کے جو طریقے رائج ہوتے ہیں اسی کے مطابق انسان کے عادات و اخلاق بنتے ہیں اور وہی آدمی کے بھلے یا برے رویہ کو متعین کرتے ہیں۔ کائنات کی تمام چیزیں اطراف کے حالات سے متاثر ہوتی ہیں۔ ہرچیز پر تپش، موسم، ہوا کے دبائو اور دوسری بہت ساری چیزوں کا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح انسانی سوسائٹی خارج کے مادّی ماحول سے متاثر ہوتی ہے۔ اور اس کے مطابق کوئی شکل اختیار کرتی ہے لینن نے اسی بات کو اپنے لفظوں میں اس طرح کہا ہے:
’’بورژوا عالموں کے نزدیک جو عمل محض ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ ہے وہ مارکس کے نزدیک انسانوں کے باہمی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘
اس تصور کے مطابق عمل پہلے ہوتا ہے اور اصول و نظریات اس کے بعدوجود میں آتے ہیں۔ عملی طریقے جن سے آدمی اپنی روزی حاصل کرتا ہے ، وہی اس کے خیالات کی بنیاد بنتے ہیں ، انہی پر سیاست اور تمدّن کا پورا ڈھانچہ کھڑا ہوتا ہے۔ ہر زمانہمیں جو اصول و نظریات رائج ہوتے ہیں اور جو ادارے قائم ہوتے ہیں ان کی حیثیت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ وہ اس دور کی معاشی زندگی کا عکس ہوتے ہیں۔
۱؎کریٹیک آف پولٹیکل اکانومی کی تمہید۔
اس طرح مارکس نے اس بات کی توجیہہ فراہم کی کہ کیوں اب تک تمام پچھلے سماج ___ ابتدائی سماج کے بعد___ ظلم اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی تھے اور کیوں آنے والا سوشلسٹ سماج انصاف اور باہمی ہمدردی پر مبنی ہو گا۔ اس نے بتایا کہ انسان ظالم اور لٹیرا اس لئے نہیں تھا کہ پہلے سے اس کے اندر اس کا ارادہ موجود تھا یا اس کے دماغ نے اس سے کہا تھا کہ تم ایسے ہی بنو بلکہ اس کی ذمہ داری دراصل ان معاشی حالات اور اس طریقِ پیداوار پر ہے جو اب تک دنیا میں رائج تھے۔ لوگوں کی ذہنیت اور ان کا اخلاق بدل سکتا ہے اگر ان کی مادّی زندگی کو بدل دیا جائے ، اس طریقہ کو بدل دیا جائے جس سے وہ روزی حاصل کرتے ہیں۔
دنیا میں اس وقت ملکیتی نظام رائج ہے ، یعنی دولت حاصل کرنے کے ذرائع افراد کے قبضہ میں ہیں۔ مثلاً کھیتی ہے تو اس کی شکل یہ ہے کہ ہر کھیت والا اپنے اپنے قطعہ پر الگ الگ کھیتی کرتا ہے۔ یہ طریق پیداوار لازمی طور پر افلاس پیدا کرتا ہے اور باہمی نفرت اور خودغرضی سکھاتا ہے۔ اپنے اپنے کھیتوں پر الگ الگ ہل چلانے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کو صرف اپنے مفاد سے دلچسپی ہو۔ اس کو بدل کر اگر مشترکہ کاشت کا نظام رائج کر دیا جائے تو پیدا وار کا محرک انفرادی نفع کے بجائے اجتماعی نفع بن جاتا
ہے۔ بیج بونے اور ہل چلانے کا عمل صرف زمین سے غلّہ اگانے کا عمل نہیں ہے بلکہ وہ کسان کے ذہن کی تربیت بھی کرتا ہے ، انفرادی طریق کاشت میں آدمی صرف اپنے لئے کام کرتا ہے۔ اس لئے یہ طریقہ آدمی کے اندر انفرادی ذہنیت پیدا کرتا ہے۔ اس کو بتاتا ہے کہ تم صرف اپنے لئے زندہ ہو۔ اس کے برعکس مشترکہ کاشت کا طریقہ ہو تو ایک کا مفاد دوسرے کے مفاد سے وابستہ ہو جائے گا۔ آدمی مل جل کر کام کریں گے۔ صرف اپنے لئے زندہ رہنے کے بجائے وہ سب کے لئے زندہ رہیں گے۔ اس عمل سے آدمی کے اندر اجتماعی ذہنیت پیدا ہو گی ، اس کے اندر یہ احساس ابھرے گا کہ اس کی زندگی پورے سماج کے ساتھ وابستہ ہے۔
یہی حال ضروریات زندگی سے متعلق دوسری چیزوں کا ہے۔ اگر لوگ چیزیں اس لئے بنائیں کہ ان سے اپنی ضرورت پوری کرنی ہے۔ تو اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس اگر چیزیں اس لئے بنائی جانے لگیں کہ ان کو دوسروں کے ہاتھ بیچ کر نفع کمانا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر آدمی دوسرے آدمی کو لوٹنا چاہتا ہے۔ ہر آدمی اس لئے عمل کر رہا ہے کہ وہ اس عمل کو دوسرے کی جیب خالی کرنے کا ذریعہ بنائے۔ پھر جب قانونِ ملکیت کے تحت کچھ لوگ زیادہ سرمایہ اکٹھا کر لیتے ہیں تو وہ بڑے بڑے کارخانے کھولتے ہیں جن میں ہزاروں آدمی کام کرتے ہیں۔ اس مرحلہ میں آ کر ملکیتی نظام انتہائی بھیانک صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح انسانی محنت کے استحصال کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس طریق پیدائش سے افلاس، باہمی نفرت ، طبقاتی کشمکش اور بالآخر انسان اور انسان میں جنگ چھڑ جاتی ہے۔ اوبرائن (O. Brein) نے کہا ہے:
’’انسان کی یہ خواہش کہ وہ دوسرے کی محنت سے فائدہ اٹھائے انسانیت کا بنیادی گناہ ہے۔ سب گناہ اسی ایک گناہ سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
اب اگر سوسائٹی کی مشترک ملکیت کے کارخانے قائم کئے جائیں تو اس میں کام کرتے ہوئے سب کے جذبات یکساں ہوں گے ، نہ کوئی مالک ہو گا نہ کوئی مزدور۔ ہر شخص یہ سمجھے گا کہ وہ ایک بڑے خاندان کا ممبر ہے۔ منافع میں سب کو اپنی محنت کا پورا حصہ ملے گا اور باہمی نفرت اور اونچ نیچ پیدا ہونے کے امکانات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔ اس بنا پر اشتراکیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انسان کی تمام اخلاقی برائیاں اس کے معاشی ماحول کی خرابیوں سے وجود میں آتی ہیں اور اگر نظامِ معیشت کو درست کر دیا جائے تو اس کے تحت رہنے والے انسان تمام اخلاقی بیماریوں سے پاک ہو جائیں گے۔ سٹالن نے کہا ہے:
’’معاشی ترقی مزدور طبقہ کو سماجی انقلاب کے قریب لے آئے گی اور نتیجہ کے طور پر مزدور سرمایہ دارانہ نظریات سے تمام رشتے منقطع کر لے گا۔‘‘
یہی وہ نظریہ ہے جس کے ذریعہ سے مارکس اور اس کے پیرو اپنے ’’اجتماعی ملکیت‘‘ کے حل کو صحیح ثابت کرتے ہیں ، اور اس بات کی توجیہہ کرتے ہیں کہ کیوں پہلے لوٹ کھسوٹ تھی اور کیوں اشتراکی سماج میں وہ نہیں ہو گی۔
مگر یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلّیہ نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف معاشی حالات کی پیداوار قرار دیتا ہے۔ اس نظریہ کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں۔ جس طرح صابن کے کارخانہ میں صابن ڈھلتے ہیں ، اسی طرح آدمی اپنے ماحول کے کارخانہ میں ڈھلتا ہے۔ وہ سوچ کر کوئی کام نہیں کرتا، بلکہ جو کچھ کرتا ہے اسی کے مطابق سوچنے لگتا ہے۔ مارکس نے اس اصول کو ایک مشکل حل کرنے کے لئے تو لے لیا ، مگر پھر فوراً سوال پیدا ہوا کہ کیا فی الواقع انسانی فکر معاشی حالات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو خود مارکس کے لئے کیسے ممکن ہوا کہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے۔ کیا اس نے زمین کا مطالعہ چاند پر جا کر کیا تھا۔ مارکس کے مطابق انسان انپے مادّی ماحول سے آزاد ہو کر سوچ نہیں سکتا۔ مگر اسی آن جب وہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے موجودہ نظام کی غلطی معلوم کر لی ہے اور میرے پاس ایک ایسا پروگرام ہے جس کے مطابق اسے بدل کر دوسرا نیا نظام تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ تو مارکس اپنے نظریہ کی آپ تردید کر دیتا ہے۔ مارکس ایک طرف تو اپنے آپ کو مصلح کے بجائے سائنسداں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، دوسری طرف یہ نعرہ بھی لگاتا ہے کہ ’’دنیا کے مزدورو متحد ہو جائو‘‘ یہ الفاظ یقیناً پیشین گوئی نہیں ہیں بلکہ یہ لوگوں کو دعوتِ عمل ہے۔ اگر مارکس کے نزدیک اشتراکی انقلاب ناگزیر تھا تو اس نے لوگوں سے اس انقلاب کے لئے جدوجہد کرنے کی تلقین کیوں کی۔
یہ مارکسی نظریہ کا پہلا کھلا ہوا تضاد ہے۔ کہنے کو تو ایک دعویٰ کر دیا گیا مگر پھر تاریخ میں اور روزمرہ کی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات نظر آئے جن کی توجیہہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کی جا سکتی کہ ان کو انسانی ارادہ نے انجام دیا ہے جو ماحول سے الگ انسان کے ذہن میں پیدا ہوا تھا۔ مارکس نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ تمام اخلاقی تصورات اپنے وقت کے معاشی حالات کا عکس ہوتے ہیں تمام چیزوں کو بالکل مادہ کے تابع قرار دے دیا۔ اس کو ثابت کرنا تھا کہ طریقِ پیداوار کی ایک شکل آدمی کو ظالم اور ڈاکو بناتی ہے اور اسی کی دوسری شکل آدمی کو عادل اور دیانت دار بنا سکتی ہے۔ مگر جب اس تنقید سے فارغ ہو کر مارکسی حضرات نے یہ چاہا کہ پرولتاریہ کو اس مقصد کے لئے منظم کریں کہ وہ سرمایہ دار طبقہ سے حکومت اور پیدائش دولت کے ذرائع چھین لے تو انھیں فوراً محسوس ہوا کہ یہاں ان کے پچھلے نظریہ کی
نفی ہو رہی ہے ، کیونکہ اس نظریہ کی روسے تو انسان محض وقت کے مادّی ہاتھوں میں کھلونا ہے ، وہ اس کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتا کجا کہ اس کے مقابلہ میں وہ منظم ہو اور اپنے ارادہ سے رائج الوقت حالات کے بجائے کچھ دوسرے حالات لانے کی کوشش کرے۔ حالانکہ وقت کے خلاف کوئی ذہن کسی ایسے معاشی حالات ہی میں پیدا ہو سکتا ہے جو وقت کے خلاف بنایا گیا ہو۔ مارکسی مفکرین نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ایک نیا نظریہ گھڑ لیا۔ فریڈرش انگلس لکھتا ہے:
’’تاریخ کے مادّی تصور کی روسے بنیادی طور پر تاریخ میں فیصلہ کن اہمیت سماجی زندگی کے عملِ پیداوار کو ہے۔ اس سے زیادہ نہ تو مارکس نے کبھی کچھ کہا اور نہ میں نے لیکن جب اس کو مسخ کرکے کوئی شخص یہ معنیٰ نکالتا ہے کہ سماجی زدگی میں معاشی عنصر ہی اکیلا ایک فیصلہ کن عنصر ہے تو وہ ہمارے اس بیان کو بے معنیٰ مبہم اور لغو جملہ کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اقتصادی حالات تو محض عمارت کی بنیاد ہیں ، مگر اس سماجی عمارت کے دوسرے حصے مثلاً طبقاتی جدوجہد کی سیاسی صورتیں اور اس کے نتیجے فتح مند طبقے کی کامیاب جنگ کے بعد دستور حکومت کی صورتیں وغیرہ حتیٰ کہ لڑنے والوں کے ذہن میں ان حقیقی لڑائیوں کے اثرات ، سیاسی، قانونی، فلسفیانہ نظریئے ، مذہبی خیالات وغیرہ____ یہ تمام چیزیں تاریخی جدوجہد کے دوران میں اثرانداز ہوتی رہتی ہیں اور اکثر حالات میں اس جدوجہد کی صورت کو متعین کرنے میں ان کا اثر غالب رہتا ہے۔‘‘۱؎
دوسری جگہ انگلس لکھتا ہے:۔
’’طبیعی علوم اور فلسفہ نے اس پہلو پر کبھی غور نہیں کیا کہ انسان کے مشاغل اور اس کے اعمال اس کی قوت فکر اور طرزِ خیال پر ضرور اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ علوم انسان کو ایک طرف رکھتے ہیں اور فطرت کو دوسری طرف۔ لیکن فطرت میں جو تبدیلیاں انسان خود اپنی سرگرمیوں سے پیدا کرتا ہے وہ انسانی فکر کی لازمی اور حقیقی بنیاد ہیں ، جتنا اور جس قدر انسان نے خارجی فطرت کو تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی اسی قدر اس کی عقلی قوت میں ترقی ہوئی ہے تاریخ کا طبیعیاتی تصور جو ڈریپر (Draper) اور دوسرے سائنس دانوں کی تحریروں میں ملتا ہے اور جس کی روسے تنہا خارجی فطرت انسان پر عمل کرتی ہے اور طبیعی حالات انسانی تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں بالکل یک طرفہ ہے
، اس تصور میں یہ امر فراموش کر دیا گیا ہے کہ انسان بھی فطرت پر عمل کر سکتا ہے ، اس پر اثر ڈال سکتا ہے اور اسے تبدیل کر کے زندگی کے نئے حالات پیدا کر سکتا ہے۔‘‘
مشہور کمیونسٹ مفکر پالکھا نو (Palkhanov) لکھتا ہے:
’’مارکس کو اپنے مادّہ پرست پیش روئوں سے شکایت تھی کہ انھوں نے اس امر کو نظرانداز کر دیا کہ اگر ایک طرف آدمی اپنے ماحول کا مخلوق ہے تو دوسری طرف ماحول خود اس کی کوششوں سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ مارکس کے نظریہ کے مطابق تاریخی واقعات کی دنیا میں مادیت کا کام یہ ہے کہ وہ اس امر کی تشریح کرے کہ کس طرح ماحول انھیں انسانوں کے ہاتھوں تبدیل ہو سکتا ہے جو اس کی پیداوار ہیں۔‘‘
یہ دونوں باتیں بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے یہ کہا جائے کہ پتھر بے دماغ بھی ہے اور سوچتا بھی ہے۔اینٹ اپنے معمار کے ہاتھ میں کھلونا بھی ہے اور خود اپنے آپ بھی مکان تعمیر کر سکتی ہے۔ زبان وہی بولتی ہے جو دماغ اس سے بولنے کے لئے کہے اور کبھی زبان دماغ سے
۱؎بحوالہ کارل مارکس ، سلکٹڈ، ورکس ، جلد اوّل ، صفحہ ۳۲۱۔ (ماسکو ۱۹۴۶)
الگ ہو کر خود ہی تقریر شروع کر دیتی ہے۔ مگر اس مہمل نظریہ کو ہم کسی بحث کے بغیر تسلیم کر لتیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر نظریات و تصورات حالات سے الگ بھی پیدا ہوتے ہیں وہ خود بھی حالات پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کو مخصوص ہئیت عطا کرتے ہیں۔ اگر انسان خود بھی فطرت پر عمل کرتا ہے ، اس پر اثرانداز ہوتا ہے اور اسے تبدیل کر سکتا ہے اگر وہ صرف ماحول کا مخلوق نہیں بلکہ اس کا خالق بھی ہے۔ تو کس بنیاد پر یقین کیا جائے کہ ذاتی ملکیت کی تنسیخ کے بعد جو معاشی نظام قائم ہو گا اس میں انسان بالکل بدل جائے گا۔ اور لوٹ کھسوٹ کے خیالات اس کے اندر نہیں پیدا ہوں گے۔ جب انسان ماحول سے الگ ہو کر سوچتا ہے اور اس پر اثرانداز ہو سکتا ہے تو کیا یہ ممکن نہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں آپ سوشلسٹ ریاست کی باگ ڈور عطا کریں جن کو سارے ملک کی معاشیات کا انچارج بنائیں ان کا ذہن انھیں مفاد پرستی میں مبتلا کر دے۔ وہ موقع پا کر اسی طرح لوٹ کھسوٹ شروع کردیں جس طرح جمہوری ممالک کے کارخانہ دار اور منتظمین سلطنت کرتے ہیں۔ جب انسان اپنے ماحول کے ماڈی حالات کے خلاف بھی کسی چیز کا ارادہ کر سکتا ہے تو سوشلسٹ طریقِ پیداوار کے متعلق کیسے یقین کر لیا جائے کہ وہ انسان کے طرز فکر اور اس کے اخلاق کو بدل دیں گے۔ انسان کی خود فکری تسلیم کر
لینے کے بعد آپ کے پاس وہ کون سی دلیل ہے جس کی بنا پر آپ کہہ سکیں کہ سوشلسٹ سماج میں انسان ظلم اور خودغرضی کی بات نہیں سوچے گا اور اختیارات کا غلط استعمال نہ کر سکے گا۔
مارکسزم کے نزدیک سائنس کے قوانین ، چاہے وہ فطری سائنس سے متعلق ہوں یا سماجی سائنس سے، سبھی خارجی اعمال کا عکس ہیںجو انسان کی مرضی سے آزاد ہو کر اپنا کام کرتے ہیں۔ جن کو آدمی نہ تو بدل سکتا ہے اور نہ انھیں مٹا سکتا ہے مثلاً پانی کا یہ اصول کہ اس کو گرم کیا جائے تو ایک خاص مرحلہ پر اس کے سالماتی اجزء منتشر ہو کر اڑنے لگتے ہیں اور اسی انتشار سے وہ عظیم طاقت پیدا ہوتی ہے جس کو ہم بھاپ کہتے ہیں ، اس کے برعکس اگر اسے ٹھنڈک پہنچائی جائے تو ایک خاص نقطہ پر پہنچ کر وہ جمنے لگتا ہے اور برف کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ایک فطری قانون ہے جس کو معلوم کر کے ہم اسے استعمال تو کر سکتے ہیں مگر اس میں کسی قسم کی تبدیلی کرنا یا اسے مٹا دینا ممکن نہیں ہے۔
یہ عالمِ فطرت کے اٹل قوانین ہیں جن میں کبھی فرق واقع نہیں ہوتا۔ یہی حال انسان کی سماجی زندگی کا بھی ہے۔ اس کے کچھ فطری قوانین ہیں جن کو انسان نے سوچ کر نہیں بنایا۔ نہ کوئی انسان انھیں بنا سکتا ہے۔ وہ اپنے آپ قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گے۔ انسان انھیں بدل نہیں سکتا جس طرح وہ سورج اورچاند کی گردش کے نظام کو نہیں بدل سکتا ۔ البتہ ان قوانین کا پتہ لگا کر انھیں اپنے لئے مفید بنا سکتا ہے۔ مارکس کا دعویٰ ہے کہ جس طرح انسان کی پیدائش ایک ایسے قانون طبیعی کے تحت ہوتی ہے جس پر اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح سماج کے بدلنے اور ارتقاء کرنے کے قوانین ’’ناگزیر تاریخی وجوب‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں ، پہلے جو کچھ ہوا وہی ہو سکتا تھا اور آئندہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کر رہے گا انسان انپے ارادہ سے اس میں ردّوبدل نہیں کر سکتا۔
مارکس نے یہ نظریہ اس لئے گھڑا تھا تاکہ وہ سرمایہ داری نظام کے ناگزیر تاریخی زوال کی پیشنگوئی کرے اور مزدور طبقہ کو یہ خوش خبری سنائے کہ تاریخی ارتقاء کے اٹل قانون کے مطابق ان کا عروج لازمی ہے۔ اس نے انسانی تاریخ کو ایسے متعین سفر کی شکل میں پیش کیا جس کے ایک لازمی مرحلہ کے طور پر سرمایہ داری نظام آیا ہے اور اسی طرح لازمی طور پر اس کے بعد پرولتاری نظام آئے گا۔ مگر سوال یہ ہوا کہ فطری سائنس کے قوانین تو مستقل ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک حالت پر رہتے ہیں۔ پھر جب تمام نیچر ایک ہے تو جس طرح ہوا اور پانی کے قوانین میں زمانہ کی رفتار سے کوئی تبدیلی نہیں آتی ، اسی طرح سماج کے قوانین بھی نہیں بدلنے چاہئیں۔ ان کو ہمیشہ ایک حالت پر باقی رہنا چاہئے۔
یہ بات مارکس کی خواہش کے خلاف تھی۔ کیونکہ اس کے معنیٰ یہ تھے کہ جو کچھ اس وقت مجود ہے وہی آئندہ بھی باقی رہے۔ مگر وہ تو حالات کو بدلنا چاہتا تھا۔ آج سرمایہ دار طبقہ جس مقام پر ہے وہاں پرولتاریہ کو لانے کا خواہش مند تھا۔ اس طرح ’’سرمایہ داری کے زوال اور پرولتاریہ کے عروج ‘‘ کی ناگزیریت ثابت کرنے کے لئے اس نے ایک دعویٰ تو کر دیا مگر پھر فوراً سوال پیدا ہوا کہ یہ ہو گا کیوں کر۔ جب نیچر کے دوسرے قوانین کبھی نہیں بدلتے تو انسانی سماج میں کس طرح تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ پھر تو جس طرح آدمی ہوا میں سانس لینے کے لئے مجبور ہے اور کسی طرح اس کو بدلانہیں جا سکتا۔ اسی طرح ملکیتی نظام بھی ہمیشہ باقی رہے گا۔
اس سوال کے جواب میں مارکس نے فوراً دوسرا دعویٰ کر دیا۔ اس نے کہا ’’فطری قوانین کے برعکس سماجی قوانین غیر مستقل ہیں‘‘ وہ ایک مخصوص تاریخی عہد میں کام کرتے ہیں جس کے بعد خود انھیں کے اندر سے کچھ نئے قوانین نکلتے ہیں جو ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یہ نئے قوانین انسانی ارادہ کی تخلیق نہیں ہوتے بلکہ وہ نئے معاشی حالات میں خودبخود جنم لیتے ہیں۔ ایک طرف مارکس کائنات کی وحدت کو نہایت زور شور کے ساتھ بیان کرتا ہے اور دوسری طرف جب اس نظریہ کا اطلاق عملی دنیا میں اس کی خواہش کے خلاف ظاہر ہوتا ہے تووہ اس سے انکار کر دیتا ہے۔ p48
اس طرح بظاہر مارکس نے اپنی مشکل حل کر لی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ کہہ کر اس نے پہلے سے زیادہ بڑی مشکل میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سماجی ارتقاء کا یہ لازمی قانون ہے کہ ہر دور اپنے اضداد پیدا کرتا ہے جو پہلے سماج کو ختم کر دیتا ہے تو اشتراکی سماج کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو گا۔ کیا پرولتاری انقلاب کے بعد سماج کے غیر مستقل قوانین مستقل ہو جائیں گے اور فطرت اور سماج کا اختلاف ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ خود اشتراکی سماج کے ساتھ بھی وہی لازمی کمزوری لگی ہوئی ہے جو غلام سماج ، جاگیرداری سماج اور سرمایہ داری سماج کے ساتھ تھی۔ جن کی تبدیلی صرف ظلم کی شکلوں کی تبدیلی تھی نہ کہ خود ظلم کی تبدیلی۔ پھر کس بنا پر یقین کیا جائے کہ اشتراکیت کے بعد ’’مابعد تاریخ دور‘‘ شروع ہو گا اور انسانیت مستقل طور پر دکھ اور مصیبت سے نجات پا جائے گی۔
اشتراکی حضرات اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اشتراکی سماج چونکہ طبقاتی تضاد سے پاک ہو گا اس لئے اضداد کا عمل بھی وہاں نہیں ہو گا۔ مگر یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ خود مارکسی نظریۂ تاریخ کے مطابق انسان کا اوّلین سماج عملاً اشتراکی سماج تھا جس میں آج کی طرح طبقات نہ تھے مگر اس کے بطن سے غلام سماج برآمد ہوا۔ پھر جب گزشتہ تاریخ میں ایسا ہوا تو آئندہ ایسا کیوں نہیں ہو گا۔ ارتقاء کے نظریہ کے مطابق
زندگی کا سفر ہمیشہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ہونا چاہئے پھر ابتدائی معیاری سماج نے اپنے سے بدتر سماج کی طرف کیسے سفر شروع کر دیا۔ اگر اس وقت یہ ممکن تھا کہ خیر سے شر ظاہر ہو تو آئندہ جو سوشلسٹ سماج بنے گا وہ کیوں کسی دوسرے بدتر سماج میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔
طبقاتی نظریہ مارکسزم کا ایک بنیادی نظریہ ہے۔ مارکس پوری انسانی تاریخ کو طبقاتی تضادم کی تاریخ کی صورت میں دیکھتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان ہمیشہ دو طبقوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے سے برسر جنگ رہا ہے۔ مگر جدید صنعتی دور نے انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ امکان پیدا کیا ہے کہ اس
طبقاتیت کو ختم کر کے ایک بے طبقاتی سماج (Classless society) بنایا جا سکے۔ یہ تاریخی کردار وہ مزدور طبقہ انجام دے گا جس کو جدید صنعتی انقلاب نے جنم دیا ہے۔
مارکس طبقاتی طریقِ کار میں یقین رکھتا ہے اور ایسے تمام نظریات کا مخالف ہے جو طبقوں کا تصور ختم کر کے عوام کا تصور پیش کرتے ہیں۔ لینن نے کہا ہے ’’غیر طبقاتی اشتراکیت اور غیر طبقاتی سیاست کے تمام نظریئے لغو اور بے معنیٰ ہیں۔‘‘ مارکس کا مقصد بے طبقاتی سماج قائم کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ملکیت رکھنے والے طبقات کو مٹا کر سب کو بے ملکیت بنا دینا چاہتا ہے۔ یہ کام کسی ایسے ہی گروہ کے ہاتھوں انجام پا سکتا ہے جو اپنے آپ کو ملکیّت کی آلائش سے پاک کر چکا ہو۔ ’’عوام‘‘ میں ملکیت رکھنے والے اور ملکیت نہ رکھنے والے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پھر ایسے مخلوط قسم کے لوگوں کے ذریعہ جو انقلاب آئے گا وہ خالص نہیں ہو سکتا۔ ایسا انقلاب طبقات کو مٹائے گا نہیں بلکہ دوبارہ اسے قائم کر دے گا۔
مارکس کو اپنے مقصد کے لئے کسی محروم طبقہ کی تلاش تھی اور وہ مزدوروں کی شکل میں اسے مل گیا ۔ وہ کہتا ہے کہ جدید مشینی صنعت نے اسّی فیصد انسانوں کو ذاتی ملکیت سے محروم کر کے انھیں اپنا اُجرتی مزدوربنا لیا ہے۔ یہ صاحبِ ملک سرمایہ داروں سے الگ ایک ممتاز طبقہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پوری یکسوئی کے ساتھ ملکیتی نظام کو ختم کرنے کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ اور اس کو آخر تک لے جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کو یہ خطرہ نہیں ہے کہ ملکیت کی تنسیخ سے اس کا اپنا بھی کچھ نقصان ہو گا۔ مارکس کے الفاظ میں ’’جدید محنت کش طبقہ کے پاس اپنی بیڑیوں کے سوا کھونے کے لئے کچھ نہیں ‘‘۱؎ ایک کمیونسٹ مفکر لکھتا ہے:۔
’’مارکس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مزدور طبقہ کا وہ فرض دریافت کیا جو تاریخ نے اس طبقہ کو سونپا تھا، مارکس نے بتایا کہ یہی طبقہ سرمایہ داری کی قبر کھودے گا اور سوشلزم کی عمارت اٹھائے گا۔ مارکسزم کا نظریہ ہے کہ محنت کرنے والے اور اپنی محنت سے دوسروں کو منافع دینے والے عوام میں صرف مزدروں کا طبقہ ایسا ہے جو آخر حد تک انقلابی ہے۔ وہ نجی ملکیت کے بندھن سے آزاد ہے۔‘‘ یہی مصنف دوسری جگہ لکھتا ہے:
’’طبقاتی تقسیم پر اس لئے زور دیا جاتا ہے کہ مارکسزم کے مطابق
مزدور طبقہ آدھے راستہ پر سُستانے کا قائل نہیں اس میں وہ تذبذب اور ارادے کی کمزوری نہیں جو درمیانی طبقوں کی خصوصیت ہے ، اس میں ہر طبقہ سے زیادہ جوش اور جذبہ پایا جاتا ہے۔‘‘
مارکس کا یہ نظریہ ، سماجی ارتقاء کے بارے میں اس کے نظریہ کے مطاق ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سماج جب اپنی انتہا کو پہونچ جاتا ہے تو اس کے اندر سے خود اس کا ضد پیدا ہو جاتا ہے جو اسے ختم کر دیتا ہے۔ سرمایہ داری ایک ملکیتی نظام ہے۔ یہ اپنی ترقی کے دوران میں بہت بڑی اکثریت کو ملکیت سے محروم کر کے صرف اُجرتی مزدور بنا دیتا ہے۔ یہی بے ملکیت مزدور صاحبِ ملک سرمایہ داری کے بطن سے نکلا ہوا اس کا وہ حریف ہے جو اس سے ٹکرا کر اسے ختم کر دے گا۔ مارکس نے یورپ کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک کے پیشِ نظر یہ بات کہی تھی۔ اس کے فلسفہ کے مطابق کمیونزم سب سے پہلے وہاں آنا چاہئے تھا جہاں سرمایہ داری نظام سب سے زیادہ ترقی کر چکا ہو۔ کیونکہ جہاں صنعتی نظام زیادہ ترقی کر لیتا ہے وہیں اس کا ضد__ بے ملکیت مزدوروں کا گروہ __ پیدا ہوتا ہے جو اسے ختم کر سکتا ہے۔ مگر اس کا یہ نظریہ غلط ثابت ہوا اور کمیونزم سب سے پہلے روس میں پھیلا۔ روس ایک زراعتی ملک تھا۔ وہاں مزدور کی آبادی کا تناسب اس کے برعکس تھا جو مارکسی نظریہ کے مطابق انقلاب کے قابل کسی ملک میں ہونی چاہئے۔
۱؎اشتراکی منشور
جو مارکسی نظریہ کے مطابق انقلاب کے قابل کسی ملک میں ہونی چاہئے۔ روس میں مزدوروں کی تعداد ساری آبادی میں ایک جزء کی حیثیت رکھتی تھی۔ اور اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو انفرادی طور پر زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعات میں کاشت کرتے تھے۔ وہاں ابھی وہ طبقاتی تضاد پیدا نہیں ہوا تھا جو اشتراکی انقلاب کا سبب ہوا کرتا ہے۔ روس ابھی پورے طور پر صنعتی ملک نہیں بنا تھا اور وہاں زیادہ تر صاحبِ ملک جاگیردار کیمقابلہ میں چھوٹے چھوٹے کھیتوں کی ملکیت رکھنے والے کسان تھے۔ اس طرح اس کے اور اشتراکی نظام کے درمیان ابھی پورے ’’ایک دور‘‘ کا فاصلہ تھا۔ روس ابھی جاگیرداری نظام کے سرے پر تھا جب کہ مارکسی فلسفہ کے مطابق اس کو اشتراکیت تک پہونچنے کے لئے سرمایہ داری نظام کی منزل عبور کرنی بھی ضروری تھی۔ دوسرے لفظوں میں روس میں ابھی وہ حالات ہی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ وہاں دو متضاد طبقے ٹکرائیں اور انقلاب رونما ہو۔ چنانچہ دوسری انٹرنیشنل کے اکثر ممبروں کی رائے تھی کہ ’’کسی ملک میں مزدور طبقہ اس وقت تک اقتدار حاصل نہیں کر سکتا اور نہ اسے کرنا چاہئے جب تک اس ملک میں اس کی اکثریت نہ ہو جائے۔‘‘ اس کے جواب میں لینن نے کہا:
’’مانا کہ تمہارا یہ دعویٰ صحیح ہے لیکن فرض کرو ایک ایسی تاریخی صورت حال (جنگ ، زراعتی بحران وغیرہ) پیدا ہو گئی ہے جس میں مزدور طبقہ کو جو ملک میں اقلیت میں ہے۔ یہ موقع مل گیا ہے کہ محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کو اپنے ساتھ لے کر اقتدار پر قبضہ کر لے تو وہ کیوں نہ ایسا کرے۔‘‘۱؎
اس توجیہہ کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مارکسی انقلاب کی حیثیت تاریخ کے ان انقلابات سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جن میں ایک ظالم حکمراں نے کسی ملک کی حکومت کو کمزور پا کر اس پر قبضہ کر لیا۔ حالانکہ تاریخ کے اس نقطۂ نظر کو مارکسی حضرات بورژوا تاریخ کہتے ہیں۔ مارکس نے مزدور انقلاب کو ملک گیر اور لوٹ کھسوٹ کے انقلاب سے الگ کرنے کے لئے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسانی تاریخ ایک لازمی قانون ارتقاء کے تحت سفر کر رہی ہے۔ غلام سماج سے جاگیرداری سماج ہی پیدا ہو سکتا تھا اور جاگیرداری سماج صرف سرمایہ دارانہ سماج پیدا کر سکتا تھا۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ سماج سے اشتراکی سماج ہی پیدا ہو سکتا ہے ، لینن نے اپنے مضمون ’’مارکس کی تعلیمات میں لکھا ہے:
۱؎سالٹن، پرابلمز آف لینن ازم، صفحہ ۲۲
’’مارکس نے تمام تر توجودہ سماج کے معاشی قانونیِ حرکت سے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ سماج کا اشتراکی سماج میں بدل جانا ضروری ہے۔ محنت نت نئی تیزی سے ہزاروں صورتوں میں اشتراکی رنگ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ مزدور طبقہ جس نے خود سرمایہ داری کے ہاتھوں تربیت پائی ہے۔ اس تبدیلی کا ذہنی اور اخلاقی روح رواں ہے اور وہی اس کو عملی جامہ پہنائے گا۔‘‘ ۱؎
انقلابات کی عام تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کسی ملک کی حکومت کمزور ہو گئی یا وہاں کے مختلف علاقے آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو کر لڑنے لگے تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کسی نے اپنی فوج کے ساتھ اس پر چڑھائی کر دی اور سارے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اور جہاں سابق ظالموں کی حکمرانی تھی وہاں نئے ظالموں کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ لیکن مارکس نے اشتراکی انقلاب کو اس قسم کے ملک گیری سے ممتاز کرنے کے لئے بالکل ایک نیا تاریخی نظریہ قائم کیا۔ اس نے کہا کہ سماج کے انقلابات کسی خارجی ارادہ کے تحت واقع نہیں ہوتے ، بلکہ ان کی ایک اندرونی منطق ہے جو اسے ارتقاء کی طرف لے جا رہی ہے۔ اب تک کے انقلابات منصفانہ سماج قائم کرنے میں اس لئے ناکام رہے کہ اب تک کوئی ایسا طبقہ پیدا
نہیں ہوا تھا جو صحیح طور پر انقلاب کی رہنمائی کر سکے ۔ مگر جدید سرمایہ داری نظام نے بے مِلک مزدوروں کا طبقہ پیدا کر کے یہ کام انجام دے دیا ہے۔ یہ بے مِلک مزدور وہ گروہ ہے جو ظلم کے اصل سبب یعنی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے پاک ہے۔ اس لئے اس کے ہاتھوں جو انقلاب آئے گا وہ خالص انقلاب ہو گا اور وہ اپنے کو آزاد کرنے کے ساتھ دوسروں کو بھی آزاد کر دے گا۔ اس طرح اسنے فلسفۂ تاریخ کے ذریعہ اس بات کی توجیہہ کی کہ پچھلے انقلابات کے برعکس کیوں مزدور انقلاب خوش حالی اور انصاف کا انقلاب ہو گا۔
لیکن واقعات سے ٹکرانے کے بعد جب یہ نظریہ بے معنیٰ معلوم ہوا تو فوراً اس کی توجیہہ کر لی گئی۔ مگر توجیہہ کرنے والے یہ بھول گئے کہ اس توجیہہ سے وہ خود اپنے خلاف دلیل فراہم کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کی کمزوری کیا اس کا نام ہے کہ کسی وقتی سبب سے کسی ملک میں اس کی گرفت کمزور ہو گئی ہو یا یہ کہ مارکس نے فلسفۂ اضداد کے مطابق اس کے بطن سے اس کا وہ مخالف عدد ظاہر ہو جائے جو اس کو طبیعی نتیجہ کے طور پر ختم کر سکتا ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو مارکس کا مادّی تاریخ کا فلسفہ کہاں گیا۔ پھر تو اشتراکی انقلاب کسی ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ وہ بھی اسی نوعیت کی ایک چیز ہے
۱؎کارل مارکس، سلیکٹڈ ورکس ، جلد اول ، صفحات ۳۷،۳۶۔
جیسے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے موقع پا کر پولینڈ پر قبضہ کر لیا۔ یا مسولینی نے حبشہ کی کمزور حیثیت سے فائدہ اٹھا کر اس پر اپنی حکومت قائم کر دی۔ پھر پرولتاری انقلاب اور ظالمانہ ملک گیری میں کیا فرق باقی رہتا ہے۔
روس میں جب لینن نے انقلاب کی جدوجہد میں بے ملکیت مزدوروں کے ساتھ صاحبِ جائداد کسانوں کو بھی شریک کیا تو وہاں بڑے زور شور کے ساتھ یہ سوال اٹھا کہ اس قسم کی جدوجہد کے ذریعہ انقلاب آئے گا کیا وہ اشتراکی انقلاب ہو سکتا ہے۔ اسی ’’عوامی کردار‘‘ کی وجہ سے فرانس کا جمہوری انقلاب سرمایہ داری کے انقلاب میں تبدیل ہو گیا اور جو طاقت بادشاہ سے چھینی گئی تھی وہ محنت کش عوام کی طرف منتقل ہونے کے بجائے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ آخر روس میں بھی کیوں ایسا نہیں ہو گا جب کہ یہاں بھی مزدوروں کے خالص بے ملکیت طبقہ کے بجائے مِلے جُلے عوام کے ذریعہ انقلاب لایا گیا ہے۔
اس کے جواب میں لینن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کبھی ’’بورژوا جمہوری انقلاب بڑھ کر سوشلسٹ
انقلاب کی صورت اختیار کر لیتا ہے‘‘ اس نے روسی انقلاب کے دو دور قرار دئیے۔ ایک فروری ۱۹۱۷ئ سے اکتوبر ۱۹۱۷ئ تک (۸ مہینے) جب کہ ’’تمام کسانوں کو ساتھ لے کر ملوکیت کے خلاف ، زمینداروں کے خلاف ، جاگیرداری نظام کے خلاف ‘‘ جدوجہد کی گئی۔ یہ جاگیرداری نظام سے سرمایہ داری جمہوری انقلاب تک پہونچنے کی منزل تھی۔ اس دور میں زار کو ختم کیا گیا اور ملک میں عوام کی نمائندہ آزاد جمہوری حکومت قائم کی گئی۔ دوسرا دور ۱۹۱۷ئ کے بعد جب کہ ’’مفلس کسانوں اور نیم مزدوروں اور تمام مظلوموں کو ساتھ لے کر سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کی گئی۔ جس میں دیہات کے امراء ، دولت مند کسان اور نفع خور سبھی شامل ہیں۔‘‘ اس دوسرے دور میں روسی انقلاب سوشلسٹ انقلاب بنا۔ جب کہ اقتدار براہِ راست محنت کش طبقہ یعنی بالشویک پارٹی کے ہاتھ میں آ گیا۔
مگر اس منطقی تاویل سے بھی کامنہ چلا۔ کیونکہ پہلے دورمیں روس میں جو انقلاب آیا تھا اس کی حیثیت صرف یہ تھی کہ ملک کا اقتدارِ اعلیٰ زار کے بجائے عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں آ گیا۔ جیسا کہ عام طور پر جمہوری ممالک میں ہوا ہے۔ یہ محض ایک سیاسی نوعیت کی تبدیلی تھی۔ حالانکہ مارکس اور انگلز کی واضح تصریحات کے مطابق اشتراکی انقلاب معاشی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اشتراکی پیغمبر کی ان تحریروں کو بدل دینا ممکن نہ تھا جن کا صرحی تقاضا یہ ہے کہ اشتراکی انقلاب سب سے پہلے انھیں ملکوں میں آئے جہاں جدید سرمایہ داری نظام سب سے زیادہ ترقی کر چکا ہو ۔ کیونکہ سرمایہ داری کا
ضد___ بے مِلک مزدور کی فوج وہیں پائی جا سکتی ہے۔اس نظریہ کے مطابق اشتراکی انقلاب کی توقع سب سے پہلے مغربی یورپ ہی کے کسی ملک میں کی جا سکتی تھی۔ چنانچہ کمیونسٹ مینی فسٹو جو ۱۸۴۸ئ میں شائع ہوا تھا۔ اس میں سب سے پہلے جس ملک میں اشتراکی انقلاب کی امید ظاہر کی گئی تھی وہ جرمنی ہے۔ مارکس نے مئی ۱۸۴۹ئ میں جرمن اخبار ’’جدید رائیں گزٹ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’سرخ جمہوریت پیرس کے اوپر سے جھانک رہی ہے۔‘‘ مگر اشتراکی انقلاب نہ جرمنی میں آیا نہ فرانس میں نہ برطانیہ میں اور نہ امریکہ میں بلکہ وہ روس میں ہوا۔
یہ ایک مشکل سوال تھا جس کی توجیہہ کے لئے لینن کے ’’سامراجیت‘‘ کے نظریہ سے مدد لی گئی۔ کہا گیا کہ مارکس نے جس سرمایہ داری نظام کو سامنے رکھ کر اس کی تشریح کی تھی وہ اب سامراجی دور میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام کا قومی اور ملکی حدود سے نکل کر عالمگیر نظام کی شکل اختیار کر لینے کا دور ہے۔ اب صنعتی ممالک صرف اپنی مصنوعات باہر نہیں بھیجتے بلکہ نو آبادیات قائم کر کے سرمایہ باہر منتقل کرتے ہیں۔ اس طرح نو آبادیاتی پالیسی کے ساتھ مل کر یہ مالیاتی پھیلائو ایک ایسا عالمگیر نظام بن گیا
ہے جس میں گنتی کے چند ’’ترقی یافتہ‘‘ ممالک دنیا کی کثیر آبادی پر حاوی ہو جاتے ہیں ، ان باتوں کا ایک نتیجہ یہ ہوا ہے کہ الگ الگ قومی علاقے اور قومی معیشت ایک ہی عالمگیر معیشت کے سلسلہ کی کڑیاں بن گئی ہیں۔ پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ مزدور انقلاب محض کسی ایک ملک کی اندرونی ترقی کا نتیجہ ہے۔ اب یہ نقطۂ نظر کافی نہیں رہا۔ اب سمجھنا چاہئے کہ مزدور انقلاب اصل میں سامراجیت کے عالمگیر اندرونی تضاد کے بڑھنے یا کسی ملک میں عالمگیر سامراجی محاذ کی زنجیر ٹوٹ جانے کا نتیجہ ہے۔ ‘‘ اس نظریہ کے تحت لینن نے اعلان کیا کہ ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ انقلاب سب سے پہلے اس ملک میں آئے جہاں صنعت زیادہ ترقی کر چکی ہے۔ سرمایہ داری کا مورچہ سب سے پہلے وہیں ٹوٹے گا جہاں سامراجیت کی زنجیر سب سے کمزور ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس اصول کے مطابق سٹالن لکھتا ہے کہ ’’۱۹۱۷ئ میں عالمگیر سامراجی محاذ کی زنجیر اور ملکوں کی بہ نسبت روس میں زیادہ کمزور ثابت ہوئی ، وہیں زنجیر ٹوٹ گئی۔ اور مزدور انقلاب کے لئے راستہ صاف ہو گیا۔‘‘
ان تفصیلات کا ذکر کرنے کے بعد سٹالن لکھتا ہے:
’’یہی وجہ ہے کہ مزدور انقلاب کے مسئلہ کا فیصلہ کرنے میں کسی ملک میں مزدوروں کی آبادی کے اعداد و شمار کی اب وہ اہمیت نہیں رہی جس پر دوسری انٹرنیشنل کے کتاب پرست اد قدر زور دیا کرتے ہیں ، وہ سامراجیت کو نہیں سمجھ سکے اور انقلاب سے طاعون کی طرح ڈرتے ہیں۔‘‘۱؎
مگر جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ، لینن کی یہ توجیہہ صرف اس قیمت پر قابل قبول ہو سکتی ہے کہ مارکسزم کو فلسفہ کے مقام سے اتار کر سیاست کے مقام پر رکھ دیا جائے۔ مارکسی حضرات اس کی کیا توجیہہ کریں گے کہ سامراجی نظام کا نوآبادیاتی پھیلائو دوبارہ قومی سرمایہ داری کی حدود میں سمٹ آیا ہے۔ لینن نے کہا تھاکہ ’’سامراجیت سوشلسٹ انقلاب سے پہلے کی شام ہے۔‘‘ اس نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’’سامراجیت: سرمایہ داری کی آخری منزل۔‘‘
مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے اور سامراجیت کی تاریکی سوشلسٹ انقلاب کی شکل میں طلوع ہونے کے بجائے ’’قومی سرمایہ داری‘‘ کی صبح میں تبدیل ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ خود روس بھی اب عالمگیر مزدور تحریک کا مرکز نہیں رہا بلکہ اشتراکیت کا ’’مادرِ وطن‘‘ بن گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ مارکسی حضرات اب کوئی اور نظریہ گھڑیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، مارکسزم ڈارون اور اس کے ہم نوائوں کے مرتب کردہ نظریۂ ارتقاء کو تسلیم کرتی ہے اور واقعات عالم کی توجیہہ کے لئے اسی نظریہ کو استعمال کرتی ہے۔ کارل مارکس نے ڈارون کی مشہور کتاب ’’آغاز انواع‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد فریڈرش انگلس کو لکھا تھا کہ ڈارون کی تحقیق سے ہمارے جدلیاتی نظریہ کی تائید ہوتی ہے۔ مگر قدیم ڈاروینی نظریہ کا ایک پہلو چونکہ اس کے طبقاتی جدوجہد کے نظریہ سے ٹکراتا تھا۔ اس لئے مارکس نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ڈارون اور اس کے ہم خیال سائنس دانوں کا دعویٰ تھا کہ قانونِ ارتقاء کے مطابق فطرت میں جو تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ تدریجاً عمل میں آتی ہیں اور فطرت کا تسلسل کہیں بھی ٹوٹتا نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ فطرت میں کوئی تغیّراچواقع ہو جائے۔
مگر ایسا ماننے کی صورت میں مارکس کے انقلابی نظریہ کی تردید ہوتی تھی۔ یہ ثابتکرنے کے لئے کہ فطرت کے سارے تغیرات اپنے آپ ہو رہے ہیں۔ ڈارون کو تدریجی ارتقاء کا اصول گھڑنا پڑا تھا۔ یعنی کسی خارجی کارفرمائی کے بغیر کائنات کیتمام مظاہر تدریجی ارتقاء سے مسلسل بڑھ رہے ہیں مگر مارکس ’’مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ‘‘ قائم کرنے کے لئے اس کا انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا کہ سرمایہ داری کسی تسریجی عمل کے ذریعہ خود سے فنا ہو جائے اور مزدور راج بھی ایک تدریجی عمل کے ذریعہ نامعلوم مدّت میں خودبخود قائم ہو جائے۔ وہ تو انقلاب کا داعی تھا۔ ایک سوسائٹی کو توڑ کر فوراً دوسری سوسائٹی قائم کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے قدیم ڈاروینی نظریہ کے اس پہلو کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ فطرت میں اچانک تغیر بھی ہوتا ہے یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فطرت تدریج و تسلسل سے کام لینے کے بجائے ایک جست لگا کر آگے بڑھ جاتی ہے اور کسی ایسی شے یا ذی حیات ہستی کو جود میں لاتی ہے جو شکل اور صفت دونوں اعتبار سے اپنے پیشروئوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔۱؎
یقیناً عالمِ فطرت میں ایسے تغیرات ہوتے ہیں جیسا کہ جدید تحقیقات سے بھی ثابت ہوا ہے۔ مگر اس کو مان لینے کے بعد پھر مارکس کے دوسرے نظریات کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔ ہیگل نے بھی کہا تھا کہاس مفہوم میں نظریۂ ارتقاء بالکل مہمل ہے۔ مگر ہیگل عالمِ مادّی کے پیچھے ایک متصرف طاقت مانتا ہے۔ ایک شعور جو جان بوجھ کر عالمِ مادّی کو حرکت دے رہا ہے۔ ایسی صورت میں تو یقیناً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمِ فطرت میں اچانک تغیرات واقع ہوتے ہیں۔ اور ان تغیرات کو واقعہ میں لانے والا وہ شعور ہوتا ہے جو
کائنات کے پیچھے بالارادہ کام کر رہا ہے۔ مگر مارکس تو ایسی کسی طاقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے پھر وہ اس کی کیا توجیہہ کرے گا۔ اچانک تغیرات قطعی طور پر کسی متصرف شعور کا پتہ دیتے ہیں۔ سماج میں جو اچانک تغیر مارکس لانا چاہتا ہے وہ خودبخود ہونے والا کوئی عمل نہیں ہے بلکہ پرولتاری طبقہ اس کو بالقصد سرمایہ داروں سے کش مکش کر کے وجود میں لاتا ہے۔ پھر کائنات کے تغیرات لانے والا کون ہے۔
مگر مارکسی حضرات کی مشکل یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اشتراکی فلسفہ کی مثال ایک الجھے ہوئے دھاگے کی ہے جس میں بے شمار گرہیں پڑی ہوئی ہیں اور ہر بار گروہ کھولنے کی کوشش اس میں کچھ اور گرہوں کا اضافہ کر دیتی ہو۔ جب روس میں پہلی بار عملاً یہ نظریہ رائج ہوا تو ایک اور مشکل پیش آ گئی۔ ’’فطرت کبھی چھلانگ لگا کر ایک حالت سے دوسری حالت تک پہنچ جاتی ہے‘‘ اس صول سے کام لے کر محنت کش طبقہ کو سرمایہ دار طبقہ سے ٹکرایا گیا تھا تاکہ رائج الوقت نظام اپنا تسلسل توڑ کر اشتراکی نظام میں تبدیل ہو جائے۔ اس نظریہ کی روسے اکتوبر انقلاب کے بعد روس میں حقیقی معنوں میں سوشلزم قائم ہو جانا چاہئے تھا اور لوٹ کھسوٹ اور طبقاتی جنگ کا وجود مٹ جانا چاہئے تھا۔ مادّی حالات کی تبدیلی سے سماجی حالات کے بدل جانے پر اشتراکی حضرام علم کیمیا سے استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً آکسیجن کے سالمات (Molecules) میں دو جوہر (Atoms) ہوتے ہیں اگر کسی عمل کے ذریعہ ان کی تعداد تین کر دی جائے تو وہ آکسیجن باقی نہ رہے گا۔ بلکہ اوزون (Ozone) بن جائے گا جو بواور خاصیت دونوں میں آکسیجن سے مختلف ہے۔ اس استدلال کے معنیٰ یہ ہیں کہ زار کی حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد جب مزدور طبقہ نے اقتدار سنبھال لیا تو فوراً اشتراکی طرز کا بے طبقاتی سماج قائم ہو جانا چاہئے تھا۔
۱؎کارل مارکس، سلکٹڈ ورکس، جلد اوّل ، صفحہ ۷۱۔
کیونکہ آکسیجن میں جب مطلوبہ قسم کی مادّی تبدیلیاں کر دی جائیں تو وہ پورے طور پر اوزن ہو جائے گا نہ کہ پھر بھی آکسیجن باقی رہے گی۔ مگر روس میں ایسانہ ہو سکا۔
انقلاب کے بعد شروع شروع میں انقلابی حضراتاپنے جوش میں یہ سمجھ بیٹھے کہ بس اب ان کے خوابوں کی دنیا آ گئی ہے۔ اب یہاں نہ کوئی لوٹنے والا ہے نہ کوئی لٹنے والا، نہ کوئی ظالم ہے نہ کوئی مظلوم نہ کوئی دبا ہوا طبقہ ہے نہ کوئی دبانے والا طبقہ۔ مگر بہت جلد معلوم ہو گیا کہ مادّی حالات کے بدل جانے کے بعد بھی ’’بے طبقاتی سماج‘‘ کا خواب پورا نہیں ہوا ہے بلکہ حکومت کے ہاتھ میں سیاسی طاقت کے ساتھ سارے ملک کی معاشیات آ جانے کی وجہ سے مظلوم کی مظلومیت اور ظالم کا ظلم دونوں بہت بڑھ گئے ہیں۔ فوج اور پولیس کی سرگرمیاں زار کے زمانہ سے بھی زیادہ شدید ہو گئی ہیں۔ رہی سہی آزادیوں
کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ زندگی ہر طرف افلاس، مجبوری اور ہولناک مظالم کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ کھلا ہوا ثبوت اس بات کا تھا کہ علم کیمیا کے قوانین انسانی زندگی پر راست نہیں آتے۔ ایک عنصر ایٹمی تبدیلیوں کے ذریعہ دوسرے عنصر میں تبدیل ہو سکتا ہے لیکن انسان کا ذہن اگر نہ بدلے تو مادّی حالات اس کو بدل نہیں سکتے۔ ایک راستہ بند پا کر وہ اپنے ارادہ کی تکمیل کے لئے دوسرا راستہ اختیار کر لے گا۔ چنانچہ روس میں جب سوشلسٹ ریاست قائم ہونے کے بعد بھی جابرانہ کارروائیاں باقی رہیں بلکہ زار کے زمانہ سے بھی زیادہ سخت ہو گئیں تو اس کو دیکھ کر خود بڑے بڑے کمیونسٹ چیخ اُٹھے۔ مزدور انقلاب ’’جست‘‘ لگانے کی کوشش میں شاید کھائی کے اندر جاگرا تھا۔ مگر اشتراکی حضرات کب اپنی ہار ماننے والے تھے۔انھوں نے فوراً ایک نیا نظریہ گھڑ لیا۔ لینن نے اعلان کیا:
’’جب دوسروں کی محنت سے منافع حاصل کرنے والوں کا تختہ الٹ دیا جائے تو طبقاتی کشمکش ختم نہیں ہوتی بلکہ تیز تر ہو جاتی ہے۔‘‘
گویا سرمایہ داروں کو بے دخل کرنے کے وقت تک تو ’’چھلانگ‘‘ کااصول تھا اور اس کے بعد پھر حسب سابق ’’تدریج‘‘ کا۔ اس طرح لینن نے ایک طرف تو اس مشکل کو حل کیا کہ انقلاب کے بعد بھی کیوں حالات نہیں بدلے۔ دوسرے اس نے اس بات کی توجیہہ کی کہ مزدور انقلاب کے بعد بھی کیوں کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کو گولیوں اور جیل خانوں کے استعمال کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ اس حالت پر روس میں اب تقریباً ۷۰ سال گزر چکے ہیں۔ کتنے لوگ پیدا ہوئے اور مر گئے۔ کتنی آنکھیں کھلیں اور بند ہو گئیں۔ مگر ’’طبقاتی کشمکش ‘‘ ہے کہ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ وہ کسی طرح ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔
جو کشمکش زار کے خلاف شروع ہوئی تھی وہ نہ کرنسکی پررکی نہ ٹراٹسکی پر، اس کا خاتمہ نہ بیریا پر ہوا۔ نہ مولوٹوف پر، وہ نہ مالنکوف پر ختم ہوئی نہ بلگانن پر وہ نہاسٹالن پر تمام ہوئی اور نہ خروشیحوف پر۔
یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کی ابتداء کی تاریخ متعین کی جا سکتی ہے مگر انتہا کی تاریخ نہیں۔ کمیونسٹ حضرات بتائیں کہ روس کا بے طبقاتی سماج تدریج کے اصول پر سفر کر رہا ہے یا ’’چھلانگ ‘‘ لگا نے میںمصروف ہے۔ اگر تدریج ہے تو وہ کتنی لمبی ہے۔ اور اگر چھلانگ ہے تو وہ کیسی چھلانگ ہے کہ اس نے ابھی تک ارتقاء کی منزل عبور نہیں کی۔ جاگیرداری سماج سے سرمایہ دارانہ جمہوریت تک پورے
ایک دور کو روس نے صرف آٹھ مہینے میں چھلانگ لگا کر عبور کر لیا تھا۔ مگر طبقاتی سماج سے بے طبقاتی سماج تک پہنچنے کی منزل پون صدی میں بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ انسانی تاریخ کا شاید اس سے زیادہ عجیب واقعہ اور کوئی نہیں۔
اوپر جو گفتگو کی گئی ہے اس سے مارکسی فلسفہ کی دو بنیادوں کی حقیقت واضح ہو گئی ہے۔ اس بحث سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انسانی تاریخ کے متعلق یہ مفروضہ غلط ہے کہ اس کا کوئی لازمی قانون ہے اور
اسی طرح یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ سماجی حالات کو محض معاشی قوانین کی تبدیلی سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اب ہم مارکس کے سماجی ارتقاء کے نظریہ پر گفتگو کریں گے۔
انسانی زندگی کا یہ ایک اہم سوال ہے کہ سماج کو بہتر طور پر منظم کرنے کے اصول کہاں سے لئے جائیں۔ اس کی خرابیوں کو کس طرح خوبیوں سے بدلا جائے۔ اس کے جواب میں مارکس نے فلسفۂ ارتقاء کا سہارا لیا۔ اس نے کہا کہ جس طرح طبیعی دنیا میں تمام چیزیں خودبخود ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کر رہی ہیں۔ اسی طرح انسانی سماج بھی ایک تاریخی عمل کے تحت ارتقاء کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسی بنا پر مارکسزم کو سماجی حرکت کی سائنس (Social dynamics) کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ علم جو سماج کے سفر ارتقاء کی تشریح کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مارکس کے اس نظریہ کے بعد انسانی تاریخ راجہ رانی کی کہانی نہیں رہی بلکہ اس نے باقاعدہ ایک سائنس کی شکل اختیار کر لی ہے۔
مارکس کے ’’سائنٹفک نقطۂ نظر‘‘ کے مطابق طبیعی دنیا کی طرح انسانی سماج بھی ارتقاء کے راستہ پر بڑھ رہا ہے اور اس میں مسلسل ترقی ہو رہی ہے۔ سوشلسٹ تحریکیں اور سرمایہ دارانہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب اس ارتقائی سفر کے نشانات ہیں جو سماج کو بدتر حالت سے بہتر حالت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ گویا اس نظریہ کی تردید تھی کہ سماج کی اصلاح اور اس کے صحیح قوانین کی دریافت کے لئے ’’وحی الٰہی‘‘ کی ضرورت ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ کسی خارجی کارفرمائی کے بغیر ہمارا سماج خود اپنی اندرونی منطق سے ارتقاء کر رہا ہے۔ اس کا ہر قدم لازمی طور پر آگے کی طرف ہوتا ہے اور وہ برابر صحیح سمت کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مگر پچھلی ایک صدی کی تاریخ اس نظریہ کی تردید کرتی ہے۔
سوشلزم کی مثال لیجئے جو مارکسی فلسفہ کے مطابق تاریخ کا ایک نمایاں ارتقائی قدم ہے۔
یہ سوشلزم مارکس کی ایجاد نہیں ہے۔ اس سے بہت پہلے سوشلسٹ تصورات یورپ میں پیدا ہو چکے تھے۔ مگر مارکسی حضرات کے نزدیک یہ ناقص سوشلزم تھا جس کو مارکس نے مکمل کیا ہے۔ اس زمانہ میں سوشلزم کے معین یہ تھے کہ سرمایہ دار طبقہ سے اپیل کر کے اس کو مزدوروں کے ساتھ بہتر معاملہ کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ پرامن جدوجہد کے ذریعہ معاشی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس زمانہ کے سوشلسٹ مفکرین کا مقصد صرف مزدور طبقہ کو آزاد کرنا نہیں تھا بلکہ ساری نوع انسانی کی آزادی ان کے پیش نظر تھی۔ وہ مزدور اور کارخانہ دار کو باہم ٹکرانے کے بجائے ان کی باہمی کش مکش کو ختم کرنے کے خواہش مند تھے۔ وہ ذرائع پیداوار پر مکمل ریاستی کنٹرول قائم کرنے کے حق میں نہیں تھے بلکہ صرف اس
کے بعض حصوں کو قومی ملکیت میں لینا چاہتے تھے۔ وہ ’’مزدور طبقہ کی ڈکٹیٹر شپ‘‘ کے بجائے سارے عوام کی جمہوری حکومت میں یقین رکھتے تھے۔ وہ عالمی انقلاب کے بجائے قومی سوشلزم کے علمبردار تھے۔ وہ مذہب و اخلاق کے مخالف نہیں تھے بلکہ اس کو انسانیت کا قیمتی سرمایہ سمجھتے تھے۔
مگر ان نظریات کو مارکس نے باطل ٹھہرایا۔ سوشلزم کے ان تصورات کو اس نے بورژوا اور خیالی سوشلزم کہا۔ اس نے کہا کہ یہ سوشلزم کے نام پر رجعت پسندی کو اختیار کرنا ہے۔ اس نے بتایا کہ سرمایہ دار اور مزدور میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ ان کا ایک دوسرے سے ٹکرانا ضروری ہے تاکہ سرمایہ دار طبقہ فنا ہو جائے اور مزدور طبقہ کو سارے اختیارات حاصل ہو جائیں۔ وہ پرامن اور آئینی ذریعہ سے کام کرنے کو موقع پرستی کہتا ہے۔ اس کے نزدیک صحیح طریق کار یہ ہے کہ قوت سے کام لے کر سرمایہ داری نظام مو توڑ پھوڑ ڈالا جائے۔ اس نے عوامی حکومت کا مذاق اڑایا اور اس کو بدلے ہوئے نام کے ساتھ سرمایہ داروں کی حکومت بتایا۔ اس کے نزدیک انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مزدور طبقہ کی حکومت قائم ہو نہ کہ ’’عوام‘‘ کی جس کے درحقیقت کوئی معنیٰ نہیں ، وہ مزدور اور کارخانہ دار کی کش مکش کو کم کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس کو آخری حد تک تیز کر دینا چاہتا ہے تاکہ جس کو مٹنا ہے وہ مٹ جائے اور جس کے لئے زندہ رہنا مقدر ہے اسے زندگی حاصل ہو۔
اس نے کہا کہ محض بعض چیزوں پر ریاستی کنٹرول قائم کر دینے سے کام نہیں چلتا۔ پیدائش دولت کے تمام ذرائع پر مکمل ریاستی کنٹرول ہونا چاہئے۔ لینن کے الفاظ میں ایک کسان کو اگر چند بیگھے زمین کے ساتھ باقی رکھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ابھی زمین پر ’’امکانی سرمایہ دار‘‘ موجود ہے۔ اس نے قومیت کو استحصال کرنے والے طبقہ کا فریب بتایا اور ایک عالمی انقلاب کے لئے تمام دنیا کے سرمایہ دار طبقہ کے خلاف تمام دنیا کے محنت کش لوگوں کو یکجا کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ اس نے مذہب کو افیون قرار دیا جس میں عوام کو مبتلا کر کے سرمایہ دار طبقہ اسے لوٹتا ہے۔
اگر مارکسی کے نظریہ کو ارتقاء یافتہ نظریہ اور اس کے پیش رو فلسفیوں کے خیالات کو رجعت پسندانہ نظریہ قرار دیا جائے جیسا کہ مارکس کا دعویٰ تھا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی تاریخ آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف لوٹ رہی ہے۔ کیونکہ اب ساری دنیا میں عملاً وہی نظریات قبول کئے جا رہے ہیں جن کو مارکس نے ایک صدی پہلے رد کر دیا تھا۔ روس میں جس حد تک کمیونزم کے نظریات کو اختیار کرنے کی کوشش کی گئی وہ اگرچہ خود مکمل نہیں تھا مگر اس کے بعد جن ملکوں میں یہ نظریہ پھیلا وہاں وہ اور بھی سمٹتا گیا یہاں تک کہ بالکل پیچھے چلا گیا۔ مارکس اپنے سابق سوشلسٹ مفکرین کے برعکس سرمایہ داری نظام
کے ساتھ آخری اور فیصلہ کن تصادم کو ناگزیر سمجھتا تھا۔ اس کے ارتقائی سوشلزم کے مطابق مزدور اور سرمایہ دار میں کش مکش کو تیز تر ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر اب یہ نظریہ بدل گیا ہے۔ اب پھر وہی پرانے زمانہ کا سوشلزم آ گیا ہے۔ اب نہایت زور شور کے ساتھ اس بات کی تبلیغ کی جا رہی ہے کہ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں یہ بات نہایت دلچسپ ہے کہ سٹالن نے اپنے سیاسی رقیبوں کو شکست دینے کے لئے ان کے خلاف غیر ملکی سامراجیوں سے سازباز کا الزام لگایا تھا اس کے بعد خروشچیف کو اپنے مخالفوں پر یہ الزام لگانا پڑا کہ وہ سرمایہ دار ملکوں کے ساتھ ’’پرامن بقائے باہم‘‘ کے مخالف تھے۔ تشدد کے ذریعہ انقلاب لانے کے نظریہ کو چھوڑ کر دوبارہ پرامن انقلاب کا اصول اختیار کر لیا گیا۔ ’’سرمایہ داری کو قانونی ذرائع سے ہلاک کیا جا سکتا ہے۔‘‘ دوسری جنگ عظیم تک اس تصور کو نہایت رجعت پسندانہ خیال کیا جاتا تھا اور اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ یہی نظریہ رکھنے کے جرم میں بخارن کو ’’غدار‘‘ قرار دیا گیا اور اسی کے جرم میں ہزاروں منشویکوں کو باشویک پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ مگر اب سوشلزم دوبارہ لوٹ کر اسی کی طرف آ گیا ہے۔ تمام دنیا کی کمیونسٹ پارٹیوں نے متشددانہ طریق کار کے نظریہ سے توبہ کر کے آئینی طریق کار کے رجعت پسندانہ نظریہ کو اختیار کر لیا ہے۔ ’’طبقاتی ریاست‘‘ کا نظریہ مدّت ہوئی ختم ہو چکا ہے اور زمانہ ماضی کا عوامی حکومت کا نظریہ ساری کمیونسٹ دنیا میں تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ کمیونسٹ لیگ نے دسمبر ۱۸۴۷ء میں کارل مارکس کے اصرار پر اپنا پرانا موٹو_____ ’’تمام انسان بھائی ہیں‘‘ بدل کر نیا موٹو ’’دنیا کے مزدورو متحد ہو جائو‘‘ اختیار کیا تھا۔ مگر اب پھر تاریخ کا رُخ بدل گیا ہے۔ جو الفاظ پہلے مٹا دئیے گئے تھے وہی اب دوبارہ صفحہ کی زینت بن رہے ہیں۔
روس میں اشتراکی نظام ’’مزدور طبقہ کی حکومت‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوا تھا۔ اور اب چین نے اپنے لئے عوامی چین (People China) کا روپ اختیار کرنا پسند کیا ہے۔ ذرائع پیداوار مکمل ریاستی ملکیت کا نظریہ اب صرف کتابوں میں ہے ورنہ دنیا میں کہیں بھی اب اس کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حتیٰ کہ روس میں بھی اس کو اختیار نہیں کیا گیا جہاں انقلاب پر تقریباً پون صدی کی مدّت گزر چکی ہے۔ اشتراکی منشور جو ۱۹۴۸ئ میں شائع کیا گیا تھا۔ اس میں قدیم سماجی نظام کو ختم کرنے کے لئے ’’تمام ذرائع پیدائش کو ریاست کی ملکیت ‘‘ بنانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ زمین کی ملکیت کا مکمل خاتمہ اور وراثت کے تمام حقوق کی تنسیخ کا اعلان کیا گیا ہے ، مگر دنیا کے کسی اشتراکی ملک میں ابھی تک اس کو اختیار نہیں کیا جا سکا۔ اور نہ
بظاہر کسی ملک کا ارادہ ہے کہ وہ ایسا کرے بلکہ اشتراکی ممالک دن بدن اپنے موجودہ مقام سے بھی پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں جیسا کہ یوگوسلاویہ میں عملاً ہو چکا ہے۔
بین الاقوامی کمیونزم کو دوسری انٹرنیشنل نے خود اپنے ہاتھوں سے ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے۔ اس کو دوبارہ کمنٹرن (Communist International) کے ذریعہ زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اس میں بھی کامیابی نہیں ہوئی۔ مئی ۱۹۴۳ء میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی مجلسِ صدارت نے یہ سفارش کی کہ بین الاقوامی مزدور طبقہ کی تحریک کے ہدایتی مرکز کی حیثیت سے کامنٹرن کو برخاست کر دیا جائے۔ انٹرنیشنل کی تمام قومی شاخوں نے اس تجویز کی توثیق کر دی اور ۲۰/ مئی ۱۹۴۳ئ کو دوسری جنگ عظیم کے دوران اسے ختم کر دیا گیا۔ پھر اسی صدی کے نصف میں کامنفارم کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کی حیثیت عالمی مزدور تحریک کے ہدایتی مرکز کی نہیں تھی بلکہ محض دفترِ اطلاعات کی تھی۔ مگر سٹالن کی وفات کے بعد اس کا بھی خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ اور ہر ملک میں سوشلزم نے قومی سوشلزم کی شکل اختیار کر لی ہے۔
مذہب کے متعلق مارکس کا نظریہ دوسری جنگ عظیم میں ناکام ہو چکا ہے۔ پہلے کمیونزم کو باقاعدہ طور پر مذہب کے مخالف کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔ ۱۸۷۵ئ میں سوشلسٹ لیبر پارٹی نے اپنے گوتھا پروگرام میں مذہب کو ’’ایک ذاتی معاملہ‘‘ قرار دیا تھا۔ مارکس نے اس پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مزدور جماعت کو تو اس س ے کچھ آگے قدم بڑھا کر انسانی ذہن و ضمیر کو مذہب کے پنجۂ اقتدار سے آزاد کرنے کی سعی کرنی چاہئے مگر یہ لوگ (سوشلسٹ) سرمایہ دار مہاجنوں سے آگ کوئی قدم اٹھانا پسند نہیں کرتے۔ ‘‘
مگر اب خود کمیونسٹ پارٹیوں نے وہی قدیم زمانہ کا نظریہ اختیار کر لیا ہے۔ وہ مسلسل اعلان کر رہے ہیں کہ وہ مذہب کے مخالف نہیں ہیں۔ وہ ہر شخص کو اس کی آزادی دیتے ہیں کہ اپنی مرضی کے مطابق جو عقیدہ چاہے رکھے اور جیسے چاہے عبادت کرے۔
کمیونسٹوں کا دعویٰ تھا کہ ’’کمیونسٹ مینی فسٹو کی اشاعت کے بعد یوٹوپین سوشلزم کا دور ختم ہو گیا اور مارکس انگلس کے سائنٹفک سوشلزم کا دور شروع ہوا ہے۔‘‘ مگر واقعات نے اس دعوے کو غلط ثابت کر دیا۔ اب ساری دنیا میں مارکس کے ترقی یافتہ اشتراکی نظریات کے بجائے قدیم مفکرین کے رجعت
پسندانہ سوشلزم کو اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال نے مارکس کے سماجی سائنس کے نظریہ کی تردید کر دی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سماج کا کوئی ایسا لگا بندھا نظام نہیں ہے جس کے تحت وہ مسلسل ارتقاء کر رہا ہو اور ہمیشہ آگے کی طرف جاتا ہو۔ بلکہ خارجی حالات کے تحت وہ مختلف شکلیں اختیار کرتا رہتا ہے۔ پھر اس سے مارکس کے اس دعوے کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ سماج کے بارہ میں رجعت پسندانہ نظریات کیا ہیں اور ترقی پسدانہ نظریات کیا۔ مارکسی ناگزیریت (Determinism) کے مطابق اس کے فیصلہ کی بنیاد خود سماج کی ارتقائی حالت تھی۔ یعنی سماج مستقبل میں جو شکل اختیار کرے وہ لازمی طور پر ترقی یافتہ شکل ہے اور ماضی کی جس شکل کو چھوڑ دے وہ لازمی طور پر ناقص صورت ہے۔ اس اصول کے مطابق مارکس نے سماج کے متعلق ماضی کے تمام نظریات کو رد کر دیا تھا۔ اس کے نزدیک جو چیز کل درست تھی وہ آج درست نہیں ہو سکتی۔ مگر واقعات نے مارکسی نظریہ کی تردید کر دی ہے۔ مارکس نے مستقبل کے سماج کے لئے جس ہئیت کی پشینگوئی کی تھی اس کو سماج نے اختیار نہیں کیا اور ماضی کی طرف رجعت کر کے ان نظریات کو اختیار کر لیا جن کو ایک سو سال پہلے مارکس غلط قرار دے چکا تھا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ نظریات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنے کی یہ بنیاد صحیح نہیں ہے کہ سماج اپنے سفر کے دوران میں کس کو لیتا ہے اور کسے رد کر دیتا ہے۔ اس کے فیصلے کے لئے کوئی دوسری بنیاد ڈھونڈنی پڑے گی۔
یہ سوشلزم کی مثال تھی۔ اس کے علاوہ دوسری مثالوں سے بھی مارکسی نظریہ کی تائید نہیں ہوتی۔ مثلاً فرانسیسی جمہوریت کو لیجئے۔ بظاہر جمہوری نظام ایک ارتقائی قدم تھا جو شخصی حکومتوں کے بعد تاریخ نے اٹھایا تھا۔ مگر جون ۱۹۵۸ئ میں فرانس کی قومی اسمبلی نے جو فیصلہ کیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو سو سال کے نشیب و فراز کے بعد فرانس کی جمہوریت دوبارہ شخصی نظام کی طرف واپس ہو گئی۔ اس فیصلہ کے مطابق جنرل ڈی گال کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی مدد کے بغیر تنہا فرانس کے اوپر چھ مہینے تک حکومت کریں۔ مخالف پارٹیوں کے شور و غل کے باوجود یہ قانون سترہ گھنٹہ کے اندر منظور ہو گیا۔ اسمبلی میں
مارکس کے سماجی ارتقاء کے نظریہ کے مطابق فرانس جو شخصی نظام سے جمہوریت تک آ گیا تھا۔ اب چاہئے تھا کہ وہ جمہوری نظام سے پرولتاری نظام کی طرف قدم بڑھاتا۔ مگر ترقی کے بجائے اس
نے منزل شروع کر دیا۔ مارکس نے ایک صدی پہلے کہا تھا کہ _____ ’’سرخ جمہوریت پیرس کے اوپر سے جھانک رہی ہے۔‘‘ مگر فرانس کی جمہوریت ’’سرخ جمہوریت‘‘ بننے کے بجائے ’’تاریک ڈکٹیٹر شپ‘‘ میں تبدیل ہونے لگی۔ یہ واقعات صاف طور پر ظاہر کر رہے ہیں کہ تاریخ کے سفر کا کوئی متعین ارتقائی قانون نہیں ہے بلکہ یہاں کوئی باشعور محرک ہے جو اس کو کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لے جاتا ہے۔
سماجی ارتقاء کے بارہ میں مارکس کی پیشین گوئیوں پر اب ایک صدی پوری ہو چکی ہے۔ مگر جیسا کہ گزشتہ صفحات میں تفصیل سے واضح کیا گیا ہے ، مارکس کے بعد حالات نے اس دوران میں عملاً جو رخ اختیار کیا اس سے مارکسی نظریہ کی تائید نہیں ہوتی بلکہ صریح طور پر اس کی تردید ہوتی ہے۔ مگر مارکس کے متبعین اس واضح حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ مارکسی نظریہ کی توجیہہ کرتے ہیں۔
۱۹۵۷ئ کی ابتداء میں کلکتہ ریڈیو نے ایک سمپوزیم منعقد منعقد کیا تھا جس کا عنوان تھا۔ ’’کیا مارکسزم تقویم پارینہ ہو چکی ہے‘‘ اس موضوع پر مختلف لوگوں نے تقریریں کیں۔ گوہاٹی یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر ٹامس نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’……ممکن ہے کہ طبقاتی کش مکش اور سرمایہ داری کی تباہی کی پیشین گوئی جو مارکسی نظریہ کے تحت کی جاتی ہے، پرانی بات نظر آئے۔ لیکن کیا اس حقیقت سے بھی انکار ممکن ہے کہ آج کی دنیا میں سرمایہ کی بے حساب ذخیرہ اندوزی کی جا رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں امیر لوگ زیادہ امیر اور غریب لوگ زیادہ غریب ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ چیز ایک مستقل طبقاتی کش مکش اور لازمی انقلاب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ صرف اسی وجہ سے بہت سے ملکوں میں انقلاب آئے ہیں۔ اور ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی بنا پر ہم یقینی طور پر یہ کہہ سکیں کہ انقلابات کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اور آئندہ کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔ اگر ملکوں کی بیشتر تعداد ایسی ہے جہاں انقلاب ابھی تک نہیں آیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان میں سرّے سے انقلاب کا کوئی امکان ہی نہیں بلکہ یوں کہئے کہ وہاں قومی پیداوار کی زیادہ فراخ دلانہ تقسیم کے ذریعہ انقلاب کو روک دیا گیا ہے۔ ‘‘
اس توجیہہ کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب کے اسباب سماج کے اندر اب بھی پرورش پارے ہیں۔ البتہ بعض عارضی اقدامات کی وجہ سے انقلاب کو فی الحال روک دیا گیا ہے یہ توجیہہ جو ابتداء کاٹسکی (Kautsky) نے پیش کی تھی اور اس کے بعد مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف انداز میں دہرائی جاتی رہی ہے یہ درحقیقت مارکسزم کی توجیہہ نہیں بلکہ اس کی تنسیخ ہے۔ سماجی تبدیلیوں کے متعلق مارکس کی پیشین گوئی کی بنیاد اس نظریہ پر ہے کہ انسانی سماج کے اندر جو واقعات رونما ہوتے ہیں ان کا اسی طرح ایک اٹل قاعدہ ہے جس طرح مادّی دنیا کے اندر ہونے والے واقعات کا قاعدہ ہے۔ یعنی جس طرح زمین ایک معین اصول کے مطابق گردش کر رہی ہے اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔ اسی طرح سماج کے اندر ارتقائی تبدیلیاں بھی لازمی تقاضے کے طور پر آتی ہیں۔ سماجی تبدیلیوں کا ایک اٹل قانون ہے جو انسان کی مرضی سے آزاد ہو کر اپنا کام کرتا ہے۔ کسی کے بس میں نہیں ہے کہ اس کو بدل سکے۔ لیکن اس نظریہ کے برعکس یہ توجیہہ کہتی ہے کہ انسان اس تبدیلی کے قانون پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس کو عارضی طور پرملتوی کر سکتا ہے۔ یہ توجیہہ سماجی تبدیلی کے قوانین پر انسانی ارادہ کے تصرف کو محدود مدّت کے لئے تسلیم کرتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب درمیانی مدت کے لئے آپ انسانی تصرف کو تسلیم کرتے ہیں تو کس منطق سے اس کی آخری منزل کے لئے اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ انقلاب کی درمیانی منزلوں میں اگر انسان کا ارادہ حالات پر اثرانداز ہو سکتا ہے تو اس کی آخری منزل میں کیوں اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ اگر عارضی اقتدار کا نظریہ مانا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا میں کچھ ایسی طاقتیں بھی ہیں جو تاریخ کے سفر پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ جو تاریخی قوتوں کو کبھی کبھی زیر کر لیتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو کس دلیل کی بنا پر تسلیم کیا جائے کہ ان قوتوں کا اثر صرف وقتی ہوتا ہے۔ مارکس نے سماجی تبدیلی کے قوانین پر انسانی تصرف سے مطلقاً انکار کیا تھا۔ اب آپ درمیانی مدّت کو اس سے مستثنیٰ کر رہے ہیں۔ پھر جس طرح درمیانی مدّت کے لئے مارکس کا مفروضہ غلط ثابت ہو گیا ، ٹھیک اسی طرح آخری منزل کے لئے بھی یہ مفروضہ کیوں غلط ثابت نہیں ہو گا۔
اوپر ہم نے مارکس کے فلسفہ کا نظریہ حیثیت سے جائزہ لیا ہے۔ مارکس کا یہ فلسفہ محض فلسفہ نہیں تھا بلکہ وہ دراصل زندگی کے مسائل کے ایک مخصوص حل کے لئے تائیدی نظریہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ مارکس کے نزدیک زندگی کے تمام مسائل کا حل یہ ہے کہ پیدائش دولت کے ذرائع پر اجتماعی ملکیت قائم کر دی جائے۔ اسی حل کو برحق ثابت کرنے کے لئے اس نے وہ فلسفہ گھڑا تھا جس کا ہم نے اوپر کی سطروں میں جائزہ لیا ہے۔
اب ہم مارکس کے تجویز کئے ہوئے حل پر گفتگو کریں گے۔ یہ گفتگو دو پہلوئوںکے اعتبار سے ہو گی۔ اولاً ہم علمی اور اصولی حیثیت سے اس حل کا جائزہ لیں گے اس کے بعد یہ بتائیں گے کہ تجربہ میں یہ حل کیسا ثابت ہوا ہے۔
لینن نے کہا ہے ’’سوشلزم کے بغیر انسانی سماج کی نجات ناممکن ہے۔ جنگ ، بھوک اور دوسری سینکڑوں آفتیں جن میں بے شمار انسان تباہ ہو رہے ہیں۔ ان سے محض سوشلزم ہی بچا سکتا ہے۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ سوشلزم نے موجودہ خرابیوں کا جو حل تجویز کیا ہے وہ خود ظلم کی ایک بدترین شکل ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی کے چہرہ سے مکھّی اڑانے کے لئے آپ اس کے اوپر ایک پتھر کھینچ ماریں۔ جس کے نتیجہ میںمکھّی تو اڑ جائے مگر آدمی کا چہرہ لہولہان ہو جائے۔
سوشلزم نے زندگی کے مسائل کا جو حل پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ معاشی پیداوار کے ذرائع کو افراد کے قبضہ سے نکال کر پوری سوسائٹی کے قبضہ میں دے دیا جائے۔ اس کا کہنا ہے کہ زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اس کامعاشی مسئلہ ہے۔ دوسرے تمام مسائل اسی ایک مسئلہ کی شاخیں ہیں۔ انگلس کا مشہور قول ہے :
’’انسان کو سب سے پہلے کھانے کے لئے خوراک ، پینے کے لئے پانی ، رہنے کے لئے مکان اور تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا چاہئے ، اس کے بعد ہی وہ سیاست مذہب ، سائنس اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی لے سکتا ہے۔ اس لئے طریقِ پیداوار وہ اصل بنیاد ہے جس پر سماجی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہی وہ اساس ہے جس پر کہ ریاستی ادارے ، قانونی تصورات ، علوم و فنون حتیٰ کہ مذہبی معتقدات کی رفیع الشان عمارتیں اٹھائی جاتی ہیں۔‘‘۱؎
اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے بنائو اور بگاڑ میں اصل چیز جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہ سوال ہے کہ حصولِ معاش کے ذرائع کس کے قبضہ میں ہیں۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں معاشیات کے ذرائع ہوتے
ہیں ، وہی حکومت کرتے ہیں، انھیں کی مرضی قانون کی شکل اختیار کرتی ہے ، وہی مذہبی اور اخلاقی قدروں کا تعین کرتے ہیں۔ انھیں کی پسند ناپسند اور انھیں کے نفع نقصان کے مطاق تمدّن کے تمام شعبے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ معاشی پیداوار کے ذرائع اگر سماج کے قبضہ میں ہوں تو سماج کے تمام شعبے اور اس کے تمام ادارے سماج کے عمومی مفاد کے مطابق کام کریں گے۔ اور اگر ان ذرائع پر چند مخصوص لوگوں کا قبضہ ہو جائے تو ساری سرگرمیوں کا رخ بس انھیں چند ہستیوں کی طرف ہو جائے گا اور عوام کے حصّہ میں کچھ نہ رہے گا۔ سوشلسٹ تجزیہ کے مطابق آج صورتِ حال یہ ہے کہ دولت حاصل کرنے کے تمام ذرائع چند سرمایہ داروں کے قبضہ میں چلے گئے ہیں اور بقیہ لوگ صرف ان کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ کچھ لوگوں کے حصّہ میں عیش ہے اور بیشتر لوگوں کے حصہ میں افلاس اور بے روزگاری۔ کمیونسٹ مینی فسٹو میں کہا گیا ہے۔
’’پرولتاریہ کے نزدیک قانون، اخلاق اور مذہب سب کے سب بورژوا کے توہمات ہیں ،جن کے پیچھے ہزاروں بورژوا مفادات چھپے ہوئے ہیں۔‘‘
مارکسی تشخیص کے مطابق اس خرابی کی جڑ درصال نجی ملکیت کا قانون ہے جس کی وجہ سے ایک شخص کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ دولت کے خزانوں کو اپنی ملکیت بنا کر دوسروں کو اس سے محروم کر دے اور اس طرح سماج کے اندر ایک ایسی حیثیت حاصل کر لے جہاں سب کچھ اسی کے لئے ہو اور دوسرے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ اس کا حل یہ ہے کہ نجی ملکیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور رزق حاصل کرنے کے ذرائع کو سارے عوام کی ملکیت بنا دیا جائے۔ اس طرح رزق کے خزانوں پر چند افراد کی اجارہ داری خودبخود ختم ہو جائے گی اور زمین کی دولت اور جو کچھ اس زمین پر ہے وہ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ملنے لگے گی۔
کمیونزم کے اس حل کے پیچھے جو فلسفہ کام کر رہاہے۔ ٹھیک یہی فلسفہ اس سے پہلے شخصی حکومتوں
۱؎مارکس کی قبر پر انگلس کی تقریر، بحوالہ کارل مارکس سلکٹڈ ورکس۔ جلد اوّل صفحہ ۱۲۔
کے خلاف جمہوریت کے نام سے اختیار کیا گیا تھا۔ اس وقت یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ سیاسی اختیارات زندگی میں اصل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ، یہ جس کے ہاتھ میں ہوں وہ دوسروں کو ا پنا غلام بنا لیتا ہے اور سماج کے تمام اداروں کو سماج کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی خدمت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس لئے عام پبلک کو حقیقی معنوں میں آزاد کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی اختیارات چند لوگوں کے ہاتھ میں نہ ہوں بلکہ سارے عوام کے ہاتھ میں ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی اختیارات سارے عوام
کا حق ہیں اس لئے شاہی خاندان کے چند افراد کے بجائے سارے عوام کی حکومت ہونی چاہئے۔ لوگوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں اور ایک محدود طبقہ کو زندگی کے ہر شعبہ میں جو ترجیحات حاصل ہو گئی ہیں وہ اسی لئے ہیں کہ اختیارات پر چند افراد کا قبضہ ہے۔ اگر اختیارات تمام لوگوں کے قبضہ میں دے دیئے جائیں تو یہ ظلم خودبخود ختم ہو جائے گا۔ جان کا لوین (۶۴۔۱۵۰۹) جمہوری طرز حکومت کا حامی تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس قسم کی حکومت میں مخالفت اور باہمی کش مکش ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ خود عوام ہی تو حاکم ہوں گے ، پھر کون مخالفت کرے گا ، کون کس پر ظلم کرے گا ، دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اشتراکی حضرات معاشی اختیارات کو سماج کی ملکیت بنا دینا چاہتے ہیں اور وہ لوگ سیاسی اختیارات کو سماج کی ملکیت بنانے کا علم بردار تھے۔
یہ تحریک بڑے زور شور کے ساتھ سترھویں صدی میں فرانس سے اٹھی اور بالآخر ساری دنیا پر چھا گئی۔ کیا سیاسی اختیارات کو عوامی ملکیت بنانے کا یہ اصول کامیاب ہوا۔ اس کے جواب میں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، خود اشتراکی حضرات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اصول بالکل کامیاب نہیں ہوا۔ بلکہ جمہوریت خود شہنشاہی نظام کی بدلی ہوئی شکل ثابت ہوئی۔ جمہوریت کی ناکامی کی تفصیلات سے اشتراکی لٹریچر بھرا ہوا ہے۔ انگلس نے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’روسو کا معاہدہ عمرانی ایک خونی حکومت (Reign of Terror) کی شکل میں ظاہر ہوا۔‘‘ ۱؎ لینن نے کہا ہے:
’’جب جاگیرداری کا تختہ الٹ گیا اور آزاد سرمایہ دارانہ سماج خدا کی زمین پر قائم ہو گیا تو یہ ظاہر ہوتے دیر نہ لگی کہ یہ آزادی محنت کشوں کے لئے جبر و استحصال کا ایک نیا نظام لائی ہے۔‘‘ ۲؎
جب ایسا ہے تو کیوں نہ ہم یہ سمجھیں کہ کارل مارکس کی ’’معاشی جمہوریت‘‘ کا بھی وہی انجام ہو گا
۱؎ لینن سلکٹڈ ورکس، جلد اوّل ، صفحہ ۶۲، (ماسکو ۱۹۴۷)
۲؎مارکس انگلس سلکٹڈ ورکس، جلد دوم، صفحہ ۱۱۰، (ماسکو ۱۹۴۹)
جو اس سے پہلے روسوکی ’’سیاسی جمہوریت‘‘ کا ہو چکا ہے۔ جب دونوں کا فلسفہ ایک ہے اور دونوں جگہ حصولِ مقصد کے لئے یکساں طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے تو آخر دونوں کا انجام ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہو گا۔ جب دونوں کی منطق ایک ہے تو دونوں کا نتیجہ بھی ایک ہی ظاہر ہونا چاہئے۔
جمہوریت اور اشتراکیت دونوں بے طبقاتی سماج میں یقین رکھتے ہیں، دونوں کا مقصد ایسا معاشرہ پیدا کرنا ہے جہاں اونچ نیچ نہ ہو، جہاں سب کو یکساں مواقع حاصل ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دونوں مختلف
راہوں سے اس کام کو انجام دینا چاہتے ہیں۔ انسانی ساخت کے یہ دونوں نظریئے اگرچہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں مگر حقیقتہً دونوں کا طرز فکر بالکل ایک ہے۔ جمہوریت نے کہا کہ سماج میں طبقات پیدا ہونے کی بنیاد یہ ہے کہ اقتدار سارے عوام کی ملکیت نہ ہو بلکہ صرف چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ کچھ لوگ حاکم اور بادشاہوں اور بقیہ تمام لوگ ان کی رعایا ہوں۔ اس لئے اس نے نعرہ لگایا کہ ’’حکومت سارے عوام کا حق ہے ، اس پر سارے عوام کا قبضہ ہونا چاہئے۔ ‘‘ مگر نظری اعتبار سے یہ بات خواہ کتنی ہی دلکش ہو، یہ واقعہ ہے کہ ملکی انتظام کا کام تمام لوگ نہیں کر سکتے ، اس لئے اقتدار کو لازماً چند لوگوں کے ہاتھ میں مرتکز کرنا ہو گا۔ چنانچہ جمہوریت نے الیکشن کا طریقہ اختیار کیا۔ جس کے معنٰی یہ تھے کہ عوام اپنی مرضی سے اپنا حقِ حاکمیت چند اشخاص کے ہاتھ میں دے رہے ہیں تاکہ وہ مفاد عامہ کے مطابق اس کو استعمال کریں۔ مگر خود مارکسی حضرات کے قول کے مطابق عملای یہ ہوا کہ چد لوگ جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے تھے نسلی بادشاہوں کی جگہ جمہوری بادشاہ بن کر عوام کے سروں پر مسلط ہو گئے۔
ٹھیک اسی طرح مارکسزم نے کہا کہ سماج کے اندر طبقات کی بنیاد یہ ہے کہ معاش حاصل کرنے کے ذرائع عوام کے بجائے چند لوگوں کے ہاتھ میں چلے جائیں جو مالک بن کر اس پر قبضہ کر لیں اور بقیہ لوگ ان کی ملازمت اور مزدوری کرتے رہیں۔ اس لئے اس نے نعرہ لگایا کہ ’’ذرائع پیداوار عام لوگوں کا حق ہیں ، ان پر سارے عوام کا قبضہ ہونا چاہئے۔‘‘ مگر ٹھیک وہی سوال یہاں بھی پیدا ہوتا ہے جو سیاسی جمہوریت کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا۔ یعنی یہ کہ نظری اعتبار سے ذرائع پیداوار کو سارے عوام کی ملکیت کہہ دینے سے فی الواقع وہ سارے عوام کی ملکیت نہیں بن جاتے بلکہ اس کے انتظام کے لئے چند لوگوں کو مقرر کرنا ہو گا جو مفاد عامہ کے مطابق اس کی پیدائش اور تقسیم کا بندوبست کریں۔ مارکسزم نے کہا کہ یہ چند لوگ محنت کش طبقے کے نمائندے ہوں گے جو سب کے مفاد کے مطابق ذرائع پیداوار کا انتظام کریں گے۔ یہ نئے الفاظ اور نئے عنوان کے ساتھ ٹھیک وہی بات ہے جو جمہوریت نے کہی تھی۔ البتہ اس میں ’’چند لوگوں‘‘ کا دائرہ اختیار بہت بڑھا دیا گیا ہے۔ وہ سیاست کے ساتھ آبادی کے ایک شخص کی معاشی کے بھی ذمہ دار ہیں۔ جمہوریت نے اپنے’’منتخب نمائندوں‘‘ کو صرف سیاسی خداوند بنایا تھا، مارکسزم نے سیاسی خداوندی کے ساتھ انھیں ان داتا کا مقام بھی دیا ۔ مارکسی نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تنظیم معاشیات کا کام سرمایہ کے ہاتھ سے نکل کر سیاست کے ہاتھ میں چلا جائے۔ یہ سانپ کو مار کر اژدے کو زندہ رکھنا ہے۔ یہ نظریہ مسئلہ کو حل نہیں کرتا بلکہ اس کو اور پیچیدہ بنا دیتا ہے۔
مارکسی حضرات موجودہ بورژوا جمہوریت پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام بظاہر تو اس بات کا مدعی ہے کہ وہ عوامی حکومت کا نظام ہے مگر درحقیقت وہ چند اشخاص کا نظام ہے جو عوام کے ووٹوں سے اپنی حکومت کے لئے سندِ جواز حاصل کرتے ہیں۔ مگر کیا اشتراکیت کے پاس اجتماعی ملکیت کے نظام کو چلانے کے لئے اس کے سوا کوئی اور طریق کار ہے جو جمہوریت نے اختیار کیا ہے ۔ جمہوریت نے پارلیمانی طریقِ کار اختیار کیا ہے۔ وہ اپنے دعوے کے مطابق تو عوامی نظام ہے مگر حقیقتہً یہ عمل بالواسطہ طور پر انجام پاتا ہے۔ اس میں تمام افراد معاملات کو فیصل کرنے میں براہِ راست حصہ نہیں لیتے بلکہ اپنے نمائندوں کے واسطے سے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ پوری آبادی میں سے کچھ متعین لوگ ووٹر ہوتے ہیں۔ پھر یہ ووٹر اپنی اپنی رایوں سے ایک مجلسِ نمائندگان کا انتخاب کرتے ہیں۔ پھر اس مجلس نمائندگان میں سے وہ چند لوگ منتخب کئے جاتے ہیں جو حکومت کو چلاتے ہیں۔ اس طرح عملاً حکومت کے سارے اختیارات چند لوگوں کے ہاتھ میں سمٹ جاتے ہیں۔ ٹھیک یہی طریقہ کمیونزم نے بھی اختیار کیا ہے۔ اشتراکی حکومتیں دوسرے لفظوں میں محنت کش طبقہ کی حکومتیں ہیں جو مارکس کے الفاظ میں آبادی کا ۸۰ فیصد حصہ ہیں۔ مگر یہاں بھی وہ صورتحال نہیں ہے اور نہ درحقیقت ممکن ہے جو قدیم زمانہ میں یونان کی چھوٹی چھوٹی شہری حکومتوں کی تھی جب کہ اجتماعی معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے سارے شہری جمع ہوا کرتے تھے۔ بلکہ یہاں بھی وہی نمائندگی کا بالواسطہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ پارلیمانی نظام کی ساخت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ نظری طور پر تو وہ سارے عوام کی حکومت ہے ، مگر عمل میں آتے آتے وہ صرف ایک یا چند اشخاص کی حکومت بن جاتی ہے۔ اور جب اس نظام کے ساتھ اشتراکیت بندی کے اصول کو بھی اپنا لیا جائے ، تو پھر تو اس کی مرکزیت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اشتراکی سماج کی نوعیت کو اگر چند الفاظ میں ادا کرنا چاہیں تو یوں کہا جا سکتا ہے۔
’’اشتراکی حکومت میں اقتدار کلیہً محنت کش طبقہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ، یعنی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ میں ہوتا ہے ، یعنی سٹالن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔‘‘
مارکسی حضرات یہ کہتے ہیں کہ اشتراکی نظام میں وہ خرابیاں پیدا نہیں ہو سکتیں جو جمہوری نظام میں پیدا ہوئیں۔ کیونکہ جمہوری نظام نے جو تبدیلی تجویز کی تھی وہ حقیقی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ظالمانہ نظام نے صرف اپنا لباس بدل لیا تھا۔ زندگی میں اصل فیصلہ کن عنصر اس کی معاشیات ہوتی ہیں۔ معاشی ذرائع جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوں وہی لوگ بالآخر تمام معاملات کے مالک ہو جاتے ہیں۔ جمہوری تحریک نے معاشی ذرائع کو تو نجی مالکوں کے ہاتھ میں رہنے دیا ، صرف سیاست کو عوامی ملکیت بنانے کا نعرہ
لگایا۔ ظاہر ہے کہ اس تبدیلی کے کوئی معنٰی نہیں تھے ، کیونکہ جب اختیارات کی اصل کنجی افراد کے قبضہ میں ہو تو حکومت بنانے کی قانونی شکل بدل دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ صرف یہی ہو گا کہ جو طبقہ اس وقت معاشی اختیارات پر قابض ہے وہی اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر سیاسی اختیارات پر بھی قبضہ کر لے گا۔ دوسرے لفظوں میں کمیونزم اس شاخ کو ہی کاٹ دینا چاہتا ہے جس پر موقع پرست لوگ اپنا آشیانہ بناتے ہیں۔ جب کسی ملک میں معاشی ذرائع و وسائل کو ’’عوام کی ملکیت‘‘ بنا دیا جائے تو وہاں سیاسی اختیارات خودبخود عوام کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں اور عوام کو حقیقی معنوں میں آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ مگر اس تاویل کی حقیقت ایک مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
کسی سماج کے اندر خرابیاں کیوں پیدا ہوتی ہیں۔ محض اس لئے کہ سماج کے بعض افراد کو سماج کے دوسرے افراد کے مقابلہ میں زیادہ اختیارات اور زیادہ مواقع حاصل ہو جاتے ہیں۔ اگر سماج کا ہر فرد یکساں ہو اور کسی کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہ ہو تو ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا کوئی سوال ہی پیا نہ ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں اختیارات کی مرکوزیت ہی وہ اصل سبب ہے جو سماج کے اندر ناانصافی کا سبب بنتی ہے۔ اسی بنا پر مارکسی حضرات انفرادی ملکیت کے مخالف ہیں۔ کیونکہ اس نظام میں ایک شخص کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ ذرائع معاش اپنے پاس اکٹھا کر لے۔ سماج میں نابرابری پیدا کر کے اپنی بڑھی ہوئی حیثیت سے فائدہ اٹھائے اور پھر اپنے سے کمزوروں پر ظلم کرنا شروع کر دے۔ کمیونسٹ مینی فسٹو میں مارکس اور انگلس نے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ذرائع پیدائش کو مرتکز کر کے دولت کو چند افراد کے قبضہ میں دینے کا لازمی نتیجہ سیاسی مرکزیت ہے۔‘‘
اختیارات کی اسی مرکوزیت کو ختم کرنے کے لئے مارکس نے اختیارات کو سماجی ملکیت بنانے کا نعرہ لگایا۔ مگر اس نے جو شکل تجویز کی ہے کیا حقیقتہً اس سے اختیارات عوام کی ملکیت بن جاتے ہیں اور سماج کو ’’مرکوزیت‘‘ کی لعنت سے نجات مل جاتی ہے۔ کسی چیز کا ایک نام رکھ دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل جاتی۔ موجودہ جمہوری نظام یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے سیاسی اختیارات کو سارے عوام کی ملکیت بنا دیا ہے۔ مگر اشتراکی حضرات اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ عملاً جمہوری نظام کا تجزیہ کر کے دیکھتے ہیں کہ فی الواقع اختیارات کا مالک کون ہے۔ اسی طرح خود اشتراکی حضرات کے دعوے کو بھی عمل کی دنیا میں جانچ کر دیکھا جائے گا کہ وہ فی الحقیقت کیا شکل اختیار کرتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ جس طرح سرمایہ دارانہ سماج میں پیداوار کے ذرائع کو حرکت دینے کا اختیار چند
سرمایہ داروں کو حاصل ہوتا ہے اسی طرح اشتراکی سماج میں بھی اس کے بغیر چارہ نہیں کہ ان ذرائع کو حرکت دینے کا اختیار چند کامریڈوں کو سونپ دیا جائے۔ دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک جگہ اختیارات کی مرکوزیت انفرادیت ملکیت کے نام پر ہوتی ہے اور دوسری جگہ یہی عمل سماجی انتظام کے نام پر انجام دیا جائے گا۔ اس طرح صرف شکلوں کا فرق ہے ، ورنہ اصل خرابی___ ارتکاز___ دونوں جگہ مجود ہے۔ پھر جمہوریت کے عوامی نظریہ کا یہ جو انجام ہوا وہی آخر مارکسزم کے ’’مزدور نظریہ‘‘ کا کیوں نہ ہو گا۔ جب کہ اس میں مرکزیت کی خرابی دگنی شدّت کے ساتھ جمع ہو گئی ہے۔ لینن نے روس کے موجودہ اشتراکی نظام کو ’’سٹیٹ سوشلزم‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مگر سٹیٹ سوشلزم زیادہ صحیح لفظوں میں ’’سٹیٹ کیپٹلزم‘‘ (State capitalism) کا دوسرا نام ہے۔
روسی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگرس میں سٹالن کے بارے میں جو اعترافات کئے گئے ہیں وہ بھی اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ معاشی وسائل کو عوامی ملکیت بنا دینے سے حقیقتہً اختیارات عوام کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سٹالن نے جس وقت مفاد عام کے طریقہ پر کام کرنے سے انحراف کیا تھا ، اس وقت فوراً عوام اسے برطرف کر دیتے نہ کہ انتہائی ظالم بن جانے کے بعد بھی وہ اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک ملک کا حاکم اعلیٰ بنا رہا اور روس کے کسی بڑے سے بڑے آدمی حتٰی کہ کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اس کے رویہ پر تنقید کر سکتا۔
مارکسی مفکرین موجودہ ملکیتی نظام کو ’’اُجرتی غلامی‘‘ کا دور کہتے ہیں جس میں انسان بظاہر آزاد رہتے ہوئے بھی اپنی گزر اوقات کے لئے مجبور ہے کہ کسی سرمایہ دار کے لئے اجرت پر کام کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ سرمایہ دارانہ سماج نے غلامی کی پچھلی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں۔ مگر سرمایہ کا پھندا آج بھی مزدوروں کے گلے میں پڑا ہوا ہے۔ قانون کی نظر میں سرمایہ دار اور مزدور کے حقوق یکساں ہیں مگر تمام ذرائع پیداوار پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اور جس طبقہ کے ہاتھ میں سماج کے ذرائع پیداوار ہوتے ہیں وہی طبقہ سماج کا حکمراں طبقہ بن جاتا ہے اور باقی تمام لوگ اس کے دستِ نگر ہو جاتے ہیں۔ کسی سماج میں ذرائع پیداوار کا سرمایہ داروں کے ہاتھ میں رہنا یہ معنٰی رکھتا ہے کہ ایک مٹھی بھر اقلیت پورے سماج پر قابض ہے۔ اس کے معنٰی صرف یہ نہیں ہیں کہ لوہا ، کوئلہ ، تیل ، اناج ، کپڑا ، سیمنٹ وغیرہ پر اس کی اجارہ داری ہے بلکہ اجتماعی زندگی کے سارے اختیارات بھی اسی کو حاصل ہوتے ہیں، پریس ، اخبار ، ریڈیو ، تعلیم گاہیں ، سینما ، لکچر ہال ، غرض وہ تمام چیزیں بھی اس کے اختیار میں چلی جاتی ہیں جن سے سیاسی رائیں اور خیالات بنتے
ہیں۔ اس طرح آدمی کے جسم سے لے کر اس کے دماغ تک پورا وجود اس کی مٹھی میں ہوتا ہے اور وہ جمہوریت کے خوبصورت عنوان سے اپنی ڈکٹیٹر شپ لوگوں کے اوپر مسلط کر دیتا ہے۔
موجودہ جمہوری نظام کے متعلق مارکسی مفکرین بڑے زور شور کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بات جمہوریت سے زیادہ اس نظام پر صادق آتی ہے جس کو یہ حضرات جمہوریت کے بعد لانا چاہتے ہیں۔ جس طرح جمہوریت اختیارات کو ایک مخصوص گروہ کے ہاتھ میں مرتکز کرتی ہے اسی طرح سوشلزم بھی تمام اختیارات کو ایک مخصوص پارٹی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ، پھر ’’مزدوروں کی حکومت‘‘ کس لئے ’’عوام کی حکومت‘‘ سے مختلف ہو گی۔ جمہوری تحریک نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ ’’شاہی طبقہ کے بجائے عوام کی حکومت‘‘ ہونی چاہئے۔ مگر جب اس نعرہ کو عمل کی صورت دی گئی تو بقول آپ کے ، عوام کے چند ’’نمائندے‘‘ سارے یارات اور ذرائع و وسائل پر قابض ہو گئے۔ اور عوام کی حالت میں اس کے سوا کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کہ وہ ایک آقا کی غلامی سے نکل کر دوسرے آقا کی غلامی میں چلے گئے۔
اسی اشتراکیت کا نعرہ ہے کہ ’’سرمایہ دار طبقہ کے بجائے مزدوروں کی حکومت‘‘ پھر کیوں ایسا نہیں ہو گا کہ اشتراکی انقلاب کے بعد جن ’’مزدور نمائندوں‘‘ کو ریاستی اقتدار اور معاشی اسباب و ذرائع سونپے جائیں گے وہی بالآخر ڈکٹیٹر بن جائیں گے اور جبر و استحصال کا نیا نظام قائم ہو جائے گا۔ موجودہ بورژوا طبقہ کے بارے میں مارکس اور انگلس نے لکھا ہے کہ اس نے ’’مذہبی اور سیاسی فریب کے پردہ میں روپوش استحصال کو عریاں ، بے غیرت ، براہِ راست اور وحشیانہ استحصال میں تبدیل کر دیا ہے۔۱؎‘‘ یہ تنقید جس قدر ’’بورژوا نظام‘‘ پر صادق آتی ہے اس سے زیادہ خوداشتراکی نظام پر صادق آتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جبر اور اقتصادی لوٹ جو موجودہ نظام میں بے قاعدہ طور پر ہو رہی ہے اس کو اشتراکی نظام باقاعدہ اور منظم بنا دیتا ہے۔ حکمراں گروہ جو عام حالات میں صرف پولیس اور فوج کا مالک ہوتا ہے ، مارکس انھیں کے ہاتھ میں سارے ملک کی معاشیات بھی دیدیتا ہے۔ کیا یہ ظلم پر عذابِ
۱؎اشتراکی منشور
عظیم کا اضافہ نہیں ہے؟
جمہوریت معاشیات میں آدمی کو صرف معاشی تکلیف ہوتی ہے مگر اشتراکی معاشیات میں ایک مزید نقصان یہ ہے کہ معاشی تکلیف پر تمدّنی عذاب کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں تو آدمی
آزاد ہے کہ اپنی مرضی سے کوئی پیشہ اختیار کرے ، مگر اشتراکی نظام میں اسی کے ساتھ آدمی کو دفتریت اور نوکرشاہی کا بھی شکار ہونا پڑتا ہے۔ آزاد لین دین اور سرکاری افسروں کے ذریعہ معاش کی تنظیمیںزبردست فرق ہے۔ پہلی صورت میں آدمی آزاد ہوتا ہے کہ وہ کس پیشہ کو اختیار کرے۔ وہ کتنا وقت کس کام میں دے۔ وہ جب کوئی کام کرتا ہے یا کسی دکان سے سامان خریدتا ہے تو دوسرے سے اس کا معاملہ ایک برابر کے آدمی کا سا ہوتا ہے۔ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو اس کی ضرورت کی کوئی چیز دیتا ہے اور اس سے اپنی ضرورت کی کوئی چیز لیتا ہے۔ اس طرح دونوں کے درمیان برابر کا معاملہ ہوتا ہے۔ مگر سرکاری تنظیم میں ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے اوپر کچھ لوگ ہیں جو اس کے خداوند ہیں وہ جو کچھ کر سکتا ہے اپنے اوپر کے ایک صاحبِ اختیار کی اجازت سے کر سکتا ہے۔ اس طرح معاملہ دو برابر کے آدمیوں کے درمیان نہیں رہتا بلکہ دو ایسے آدمیوں کے درمیان ہو جاتا ہے جن میں سے ایک بے اختیار ہے اور دوسرا بااختیار ۔ ایک اجازت مانگنے والا ہے اور دوسرا وہ جس کے دستخط سے اجازت ملے گی۔ اس طرح ہر شخص یا تو کسی کا خداوند ہوتا ہے یا اس کے اوپر کوئی خداوند ہوتا ہے۔ آزاد معیشت میں آدمی کی خودی باقی رہتی ہے اور ترقی کرتی ہے جب کہ سرکاری انتظام میں اس کی خودی مر جاتی ہے اور ہر شخص انپے سے اوپر والوں کی خوشامد کرنے والا اور اپنے سے نیچے والوں کے لئے متکبر بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’اجرتی غلامی‘‘ کا لفظ اگر صحیح معنوں میں کہیں راست آتاہے تو وہ اشتراکی معاشرہ ہے۔ جمہوری معاشرہ میں آدمی اجرت پر کام کرتا ہے مگر وہ اس کے لئے مجبور نہیں ہوتا۔ وہ اگر چاہے تو مزدوری کو چھوڑ کر تجارت یا کوئی آزاد پیشہ کر سکتا ہے۔ جب کہ اشتراکی نظام میں اس کے سوا رزق کی کوئی صورت ہی نہیں کہ آدمی سرکاری ملازمت کرے یا سرکاری کارخانوں میں مزدور بن جائے۔ اس کے علاوہ جمہوری معاشرہ میں آدمی پھر بھی آزاد ہوتا ہے ، جب کہ اشتراکی معاشرہ میں مکمل سیاسی اور معاشی آمریت اس کے اوپر مسلّط ہو جاتی ہے۔ ’’مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ‘‘ دراصل نام ہے تمام لوگوں کو مزدور بنا کر ان کے اوپر ڈکٹیٹر شپ قائم کرنے کا۔
ملکیتی نظام کے خلاف مارکسزم کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس میں بالآخر سارا سرمایہ سمٹ کر چند لوگوں کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور یہ گروہ اتنا طاقت ور ہو جاتا ہے کہ تمام سیاسی اور معاشی
سرگرمیوں پر اس کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے ، حکومتوں کی پالیسی بالکل اس گروہ کے مفاد کی پابند ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوتا کہ ملک کے باشندے سرمایہ داروں کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں بلکہ سرمایہ داروں کے درمیان باہمی مفاد کی کش مکش بین الاقوامی دنیا کے امن کو بھی غارت کر دیتی ہے۔ جس کی ایک نمایاں مثال دوسری جنگ عظیم ہے۔ ۱۹۱۴ئ کی لڑائی کے بعد تمام بڑے ممالک کے درمیان آپس میں معاشی جنگ چھڑ گئی ، ہر ملک کی حکومت نے اپنے ملک کے سرمایہ داروں کے دبائو میں پڑ کر دوسرے ملک کے خلاف فیصلے کئے ، دوسرے ملکوں کے مال کی درآمد پر بھاری بھاری محصول لگائے، جس کا نتیجہ تاریخ کی سب سے زیادہ ہولناک جنگ___ دوسری جنگ عظیم___ کی شکل میں برآمد ہوا۔ ایک کمیونسٹ ادیب کے الفاظ میں ’’سرمایہ داروں کے مفاد کے باہمی ٹکرائو کا نام دوسری جنگ عظیم ہے۔‘‘
موجودہ سرمایہ داری نظام کے خلاف مارکسزم کا یہ مقدمہ بالکل صحیح ہے۔ مگر خود اس نے اس مشکل کا جو حل پیش کیا ہے وہ اسی برائی کی مزید بدتر شکل ہے جس کومٹانے کا وہ دعویدار ہے۔
آپ اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے عام پبلک کو ملکیت کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔ مگر کھیتی ، کاروبار اور نشرواشاعت کے مختلف اداروں کو چلانے اور ضروریاتِ زندگی کا سامان فراہم کرنے کے لئے بہرحال آپ کو کوئی انتظام کرنا ہو گا۔ یہ انتظام یقیناً ملک کے تمام باشندے نہیں کر سکتے۔ بلکہ کچھ مخصوص لوگوں کو اس کا انتظام سپرد کرنا ہو گا۔ یہ منتظمین قدرتی طور پر وہی لوگ ہوں گے جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو گی۔ جو لوگ سیاسی اختیارات جو پہلے تاجروں اور سیاسی لیڈروں میں بٹے ہوئے تھے، ان کو آپ اکٹھا کر کے صرف سیاسی لیڈروں کے حوالہ کر دینا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نئے تنتظمین جب آہستہ آہستہ تماماختیارات پر قابض ہو جائیں گے اور روٹی کی تقسیم سے لے کر خیالات کی اشاعت تک ہر چیز ان کے میں چلی جائے گی تو کیا اس طرح پہلی اجارہ داری سے بڑی اور خطرناک اجارہ داری نہیں پیدا ہو گی جس کے مٹانے کے لئے آپ نے تمام آبادی کو ملکیت اور آزاد ذریعہ معاش سے محروم کر کے محض سرکاری ملازمین میں تبدیل کر دیا تھا۔ اجارہ داری کا مطلب اگر یہی ہے کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں بیشتر لوگوں کا رزق آ جائے تو کیا یہ اجارہ داری نہیں ہے کہ چند سیاسی لیڈر پورے ملک میں روٹی اور کپڑے کے ٹھیکیدار بن جائیں۔ نہ کسی کو کھیتی کرنے کی اجازت ہو نہ کاروبار کرنے کی۔ سارے ملک کا بس ایک اَن داتا ہو اور سب کا رزق اسی کے دربار سے تقسیم ہوتا ہو۔ یہ اجارہ داری جن لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی وہ اگر بگڑ جائیں تو پورے ملک کو جیل خانہ میں تبدیل کر سکتے
ہیں۔ ان اجارہ داروں کے ہاتھ میں محض کوئی ایک صنعت یا کارخانہ نہیں ہو گا بلکہ سارے ملک کے تمام ذرائع معاش ان کے قبضہ میں ہوں گے۔ پریس اور تعلیم گاہیں بھی انھیں کے اختیار میں ہوں گی۔ ہر قسم کی پنشنوں اور ملازمتوں کے تقرر کا حق انھیں کو حاصل ہو گا۔ ان کو اختیار ہو گا کہ جس کو جو کچھ چاہیں دیں اور جس سے جو کچھ چاہیں چھین لیں۔ وہ اگر کسی سے خفا ہو جائیں تو سارے ملک میں اس کو کہیں روزگار نہیں مل سکتا ، کیونکہ روزگار کی تمام شکلوں کے وہ تنہا اجارہ دار ہیں۔ وہ جس کو روٹی نہ دینا چاہے وہ کہیں سے اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا ، کیونکہ رزق کے تمام خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ وہ خواہ کتنا ہی ظلم کر ڈالے مگر کسی پریس میں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جا سکتی۔ کیونکہ پریس بھی سب کے سب اسی اجارہ دار کی مٹھی میں ہیں۔ اس طرح کی اصلاح کا مطلب صرف یہ ہے کہ برلا اور ٹاٹا کو ختم کرکے چند وزیروں اور گورنروں کو ان کی جگہ پر بٹھا دیا جائے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ برلا اور ٹاٹا میں کوئی خرابی نہیں مگر یہ کون سی عقل مندی ہے کہ چھوٹے اور بے اختیار سرمایہ داروں کو ختم کر کے ایک سب سے بڑا سرمایہ دار اپنے سروں پر مسلّط کر لیا جائے۔ اور وہ بھی ایک ایسا سرمایہ دار جس کو لامحدود اختیارات حاصل ہوں ، جس کے خلاف ہڑتال کرنا اور جس کو بدلنے کی کوشش کرنا آپ کے بس میں نہ رہے۔ آج اگر سیٹھ رام کرشن ڈالمیا کوئی زیادتی کرے تو پولیس اس کو گرفتار کر لیتی ہے ، لیکن وزیر اور گورنر صاحبان اگر زیادتی کرنے لگیں تو ان کو کون گرفتار کر سکتا ہے۔ ان کے خلاف وارنٹ جاری کرنے والا خود ان کا ملازم ہے۔ پھر کس کو جرأت ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کا نظام انفرادی لوٹ کی بدترین شکل ہے۔ اس معنٰی یہ ہیں کہ لوٹنے والے جو اب تک محض اپنی دولت کے زور سے لوٹ رہے تھیان کو اس بات کا موقع دے دیا جائے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے لئے قانون کی حمایت حاصل کر لیں۔ اور فوج اور پولیس کی مدد سے زیادہ منظم طریقہ پر لوٹ کا کام کرنے لگیں۔
اشتراکی حل کا دوسرا فائدہ جو بتایا جاتا ہے وہ بین الاقوامی دنیا کا امن ہے۔ برٹرینڈرسل نے کہا ہے ’’سوشلسٹ انقلاب عالمگیر امن کی طرف جانے والی سڑک ہے‘‘ مگر اس حل کے معنٰی اس کے سوا اور کچھ نہیں ہیں کہ چند بستیاں و الگ الگ کئی ڈاکوئوں کا شکار ہو رہی ہوں ان سب کو ملاکر صرف ایک بڑے ڈاکو کی شکار گاہ بنا دیا جائے۔ امنِ عالم قائم کرنے کی اس تدبیر کا مطلب صرف یہ ہے کہ چند کامریڈوں کے ہاتھ میں ساری دنیا کے انسانوں کی قسمت دے دی جائے جس طرح اس وقت چند کامریڈ بعض ملکوں میں اس کے باشندوں کی قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ اگر سوشلزم انھیں معنوں میں امن کی طرف جانے والی سڑک ہے تو ہٹلرزم اور بوناپارٹزم بھی امن کی طرف جانے والی
سڑک تھی کیونکہ ان کا مقصد بھی یہی تھا کہ دنیا کی تمام قوموں پر ایک شخص یا ایک پارٹیکا اقتدار مسلّط کر دیا جائے۔ اگر اشتراکی سماج سے کشمکش ختم ہو جاتی ہے تو روس اور یوگوسلاویہ کے درمیان کیوں کشمکش ہوئی ، مشرقی جرمنی کے مزدوروں نے ماسکو کے خلاف کیوں بغاوت کی ، جس کے نتیجہ میں انھیں ٹینکوں کے نیچے پیس دیا گیا۔ پولینڈ اور ہنگری کے عوام کیوں ’’روسی برادری‘‘ میں شامل ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ چین اور روس کے درمیان کیوں کشمکش جاری ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’’اشتراکی برادری‘‘ کا طلسم آہنی غلامی کے سوا اور کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ جہاں یہ آہنی گرفت ڈھیلی ہوئی قومیں اس سے بھاگنے کے لئے بیقرار ہو جاتی ہیں۔
۱۹۵۷ئ کے درمیان کمیونسٹ چین کے صدر مائوزے تنگ نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’کمیونسٹ سوسائٹی میں بھی اختلافات ہو سکتے ہیں‘‘ یہ عالمی کمیونزم کی ناکامی کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ہے۔ مائوزے تنگ نے کمیونزم میں اختلاف کا امکان ظاہر کر کے ایک طرف خود اپنے ملک کی روس سے جداگانہ حیثیت کو نمایاں کیا ہے۔ دوسری طرف دبی زبان سے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا ہے کہ کمیونزم کا سانپ نیشنلزم کے مینڈک کو ہضم نہیں کر سکا ہے۔ اس نے جتنے مینڈک کھائے تھے وہ سب اس کے پیٹ میں پھدک رہے ہیں اور موقع پاتے ہی نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔ اب کمیونسٹ دنیا کو جوڑے رکھنے کی یہی ایک صورت ہے کہ ان کے باہمی اختلافات کو تسلیم کیا جائے ، یعنی کمیونزم کی عالمی برادری بنانے کے نظریہ کو قربان کر کے ان کے نیشنلزم ک لئے جگہ بنائی جائے۔
اجتماعی ملکیت کا نظام اجارہ داری کے بغیر قائم نہیں کیا جا سکتا اور یہ اس کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نظام کے اندر خود کوئی ایسی کشش نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف مائل ہوں ، بلکہ اس کی کامیابی کا انحصار تمام تر اس امر پر ہے کہ لوگ اس کی طرف مائل ہونے کے لئے مجبور کر دئیے گئے ہوں۔ آزاد معیشت میں کسی چیز کے بنانے کے بہت سے کارخانے ہوتے ہیں۔ وہاں کسی کارخانے کے چلنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی حسنِ کارکردگی سے عوام کی نگاہ میں اپنے آپ کو مقبول بنا سکے۔ آزاد معیشت میں کسی کارخانہ کی کامیابی کے معنٰی یہ ہیں کہ اس نے دوسرے ہم عصروں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو فائق تر ثابت کر دیا ہے۔ مگر اجتماعی ملکیت کا نظام آزاد مقابلہ سے ڈرتا ہے۔ وہ جب کاروبار کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو اس میں عام پبلک کے لئے حصہ لینا حرام قرار دے دیتا ہے اور اس طرح لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ انی ضروریات کے لئے وہ صرف اسی کے
یہاں آئیں دوسری جگہ کہیں نہ جا سکیں۔
اگر ایک عام تاجر کوئی کاروبار شروع کرے تو اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ اس کاروبار کے بہت سے تاجروں میں ایک تاجر کا اضافہ ہو گیا ہے مگر حکومت ایک ایسا تاجر ہے جو دوسرے تمام تاجروں کی دوکانوں کو بند کر کے اپنی دوکان کھولتا ہے۔ اگر یہ واقعہ ہے کہ سرکاری کاروبار نجی کاروبار کے مقابلہ میں عوام کے لئے زیادہ بہتر اور مفید ہے تو اس کی کیا ضرورت ہے کہ وہ فوج اور پولیس کے جلو میں آئے ، اس کو بے خوف ہو کر کھلے مقابلہ میں آنا چاہئے۔ پھر جو طریقہ انسان کے لئے زیادہ اچھا ہو گا لوگ خود ہی اس کی طرف ٹوٹ پڑیں گے اور اس کا مخالف اس کے مقابلہ میں اپنے آپ فنا ہو جائے گا۔
معاشی دنیا میں اس اجارہ داری کے معنی وہی ہیں جو سیاسی دنیامیں ڈکٹیٹر شپ کے ہوتے ہیں۔ ہٹلر نے جرمنی میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا تاکہ جب الیکشن ہو تو کوئی پارٹیاس کے مقابلہ میں نہ آ سکے۔ سارے ملک میں صرف ایک نازی پارٹی ہو جس کے نمائندے الیکشن کے موقع پر نامزد کر دئیے جائیں اور لوگ مجبور ہوں کہ اپنے ووٹ اسی ایک پارٹی کے بیلٹ بکس میں ڈالیں۔ آج کوئی بھی ہٹلر کی اس اجارہ دارانہ سیاست کو پسند نہیں کرتا۔ مگر معاشیات میں سوشلسٹ اجارہ داری کو ترقی پسند اور جاندار نقطۂ نظر کہا جاتا ہے۔ حالانکہ دونوں میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ ایک جگہ ملک کو سیاسی قید خانہ بنا دیا جاتا ہے اور دوسری جگہ معاشی قید خانہ ۔ دنیا پہلے نظریہ کو برا سمجھتی ہے کیونکہ اس کی غلطی سب پرواضح ہو چکی ہے مگر دوسرے نظریہ کا خیرمقدم کرتی ہے کیونکہ اس کی برائیوں پر ابھی ’’دیوارث چین ‘‘ کا پردہ پڑا ہوا ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام میں اجارہ داری بالقصد لائی نہیں جاتی بلکہ یہ اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب حکومت ضروریاتِ زندگی کے پیدا کرنے والے تمام ذرائع کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو دوسرے افراد کے لئے یہ موقع کہاں رہتا ہے کہ وہ الگ سے کوئی کام کر سکیں۔ گویا حکومت مقابلہ کرنے سے لوگوں کو روکتی نہیں بلکہ ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ لوگوں کو خود ہی رک جانا پڑتا ہے۔ یہ اگر توجیہہ ہے تو ایسی توجیہہ ہر ظلم کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے لوگوں کو خیالات کی آزادی سے روکا نہیں تھا بلکہ ان ذرائع پر قبضہ کر لیا تھا جہاں سے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی پابندی بالقصد ایک ایک شہری پر عائد نہیں کی گئی بلکہ وہ حکومت کے ایک عمل کا لازمی نتیجہ تھی۔
مگر اس سے قطع نظر موجودہ سوشلسٹ ممالک میں سے کہیں بھی اجتماعی ملکیت کا نظام اس آخری شکل میں نافذ نہیں کیا گیا ہے جہاں افراد کے لئے خود کچھ کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ابھی تک یہ ممانعت
بالقصد نوعیت ہی رکھتی ہے۔ سوشلسٹ ملکوں میں روس وہ ملک ہے جہاں اس نظام کو سب سے زیادہ اپنا گیا ہے ۔ مگر وہاں ابھی تک رہائشی مکان اور پس انداز کی ہوئی رقم اور گھر کے ضروری سامانوں پر انفرادی ملکیت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ جس کے معنٰی یہ ہیں کہ آدمی اگر چاہے تو اپنے گھر میں ایک مشین تیار کر کے سامان بنانا شروع کر دے۔ روسی دستور کی دفعہ ۷ کی روسے اجتماعی فارموں سے منسلک ہر گھرانے کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ’’اس آمدنی کے علاوہ جو اسے اجتماعی فارم کا ایک رکن ہونے کی حیثیت سے ملتی ہے‘‘ اپنے گھر کے پاس ’’تھوڑی زمین نجی استعمال کے لئے‘‘ اور ’’کھیتی باڑی کے چھوٹے چھوٹے اوزار‘‘ رکھے۔ اسی طرح دستور کی دفعہ ۹ کی روسے کسانوں اور دستکاروں کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ’’وہ الگ الگ اپنا کام چھوٹے چھوٹے پیمانہ پر ‘‘ کر سکتے ہیں۔ البتہ ان کاموں میں صرف انفرادی محنت کا استعمال ہونا چاہئے۔ انھیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسروں کی محنت سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کے معنٰی یہ ہیں کہ روس میں ازروئے دستور اس بات کی ممانعت ہے کہ صنعتی کاریگر اپنے فاضل اوقات میں باہم مل کر کوئی کام کر سکیں یا کوئی شخص دوسروں کو اپنے یہاں مزدور رکھ کر تجارتی پیمانے پر کاروبار کرے۔ اس کا حق صرف حکومت کو حاصل ہے ، کسی فرد کو نہیں۔
برٹرینڈرسل نے کہا ہے کہ ’’تاریخی ارتقاء کے متعلق مارکس کے خیالات ممکن ہے غلط ہوں بھی جو سیاسی اور اقتصادی نظام اس نے پیدا کرنے کی کوشش کی ، وہ ممکن ہے اسی قدر پسندیدہ ہو جس قدر اس کے پیرو اسے سمجھتے ہیں‘‘ یہ موجودہ زمانہ کے سوشلسٹ مفکرین کا عام رجحان ہے۔ وہ مارکس کے نظریات پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ اس کی عِلمی بنیادیں بہت کمزور ہیں مگر ان نظریات کے لازمی نتیجہ کے طور پر مارکس نے سماجی فلاح کا جو حل پیش کیا تھا اس کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ موجودہ پریشان کن حالات میں اس کے سوا انھیں زندگی کا کوئی دوسرا حل نظر نہیں آتا۔ موجودہ سماج میں افراد کی بڑھتی ہوئی خودغرضی اور انانیت اور باہم ایک دوسرے کی لوٹ کھسوٹ نے ان کو افراد کی طرف سے مایوس کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو وعظ و تبلیغ کے ذریعہ انصاف پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ معاش کے مواقع کو عوام کے ہاتھ میں دینے کے معنٰی یہ ہیں کہ موجودہ لوٹ کھسوٹ کو مستقل طور پر جاری رکھا جائے۔ اس لئے ان کا خیال یہ ہو گیا ہے کہ ضروریات زندگی کی تیاری اور تقسیم کا کام افراد سے چھین کر حکومت کے سپرد کر دیا جائے جو سب کے درمیان منصفانہ طور پر اس کی تقسیم کرے۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ حکومت بھی تو عوام ہی میں سے چند افراد کا نام ہے۔ یہ لوگ مریخ سے درآمد نہیں کئے گئے ہیں بلکہ اسی زمین کے باشندے ہیں۔ وہ ذریعہ جس سے حکومت کے افراد منتخب ہو کر اقتدار کی کرسیوں تک پہنچتے ہیں وہ الیکشن
ہے اور الیکشن کا کام افراد بنانا نہیں ہے بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ معاشرہ جس حالت میں ہو اس کے مطابق اس کے نمائندہ افراد کو نکال کر رکھ دے۔ کسی معاشرے کے نمائندے اس کی اخلاقی حالت کے بھی نمائندے ہوتے ہیں نہ کہ منتخب ہونے کے بعد اس سے مختلف کوئی چیز بن جاتے ہیں۔ پھر سماج کے جن افراد سے آپ کو اس وقت خطرہ محسوس ہوتا ہے جب وہ بیاختیار ہوتے ہیں انھیں ا فراد سے اس وقت خطرہ کیوں محسوس نہیں ہوتا جب وہ الیکشن میں متخب ہو کر سیاسی اختیارات بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ کیا اس تبدیلی کے معنی اس کے سوا کچھ اور ہیں کہ سماج کو غیر قانونی قسم کے ڈاکوئوں سے چھڑا کر ایسے ڈاکوئوں کے حوالہ کر دیا جائے جن کو قانونی طور پر ڈاکہ زنی کا اختیار حاصل ہو۔
عام افراد کے مقابلہ میں حکومتوں سے آپ کس بنیاد پر خیر کی توقع رکھتے ہیں۔ کیا حکومت کا کردار عوام کے کردار سے مختلف ہوتا ہے؟ کسی ملک میں جو حیثیت عام افراد کی ہوتی ہے وہی حیثیت بین الاقوامی دنیا میں مختلف حکومتوں کی ہے۔ پھر کیا یہ حکومتیں عالمی بساط پر اس سے مختلف کسی کردار کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور کیا ہیں کہ سرمایہ دار کو ختم کر کے ان کی جگہ عہدے دار کھڑے کر دئیے جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مارکس کے فلسفہ کو مانے بغیر محض ’’اجتماعی ملکیت ‘‘ کے اصول کی حد تک ایک معاشی حل کے طور پر اس کو اپنانا چاہتے ہیں وہ مارکس کے فریب پر حماقت کا اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ مارکس کے دعوے کو اس کے دلائل کے بغیر تسلیم کرنا ہے۔ ان لوگوں کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی کو مجرم قرار دے اور جب اس کو شبہ نظر آئے کہ عدالت میں وہ اس کو مجرم ثابت نہ کر سکے گا تو قانون کا انکار کر کے خود ہی اسے قتل کر ڈالے۔ مارکس کا ’’سیاسی اور اقتصادی نظام‘‘ ایک غیر معمولی اور انتہائی عمل ہے جس کو حق بجانب ثابت کرنے کے لئے اس نے اپنے فلسفۂ تاریخ سے کام لیا تھا۔ اب مارکس کے لئے تو یہ ایک وجہ جواز ہے کہ اس نے غلط طور پر سہی ، بہرحال کچھ ایسے نظریات قائم کئے جو اس کو تاریخ کے خلاف ایک نئے اقدام کے لئے حق بجانب ثابت کر سکتے ہوں۔ مگر جو لوگ اس کے مقدمات کو نظرانداز کر کے صرف اس کے نتائج کو لینا چاہتے ہیں وہ آخر کس دلیل کی بنا پر ایسا کر رہے ہیں۔ مارکس کے فلسفہ کو چھوڑ دینے کے بعد اس کے معاشی پروگرام کو اختیار کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ آپ مارکس کے اس نظریہ کو نہیں مانتے کہ ’’قانون، اخلاق اور مذہب سب کے سب بورژوا کے فریب ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ مگر اسی نظریہ کی مدد سے تو اس نے ذاتی ملکیت کی تنسیخ کے خلاف تمام اعتراضات کا جواب دیا تھا۔ پھر اس کو رد کرنے کے بعد آپ کو کیا حق رہتا ہے کہ لوگوں کو ان کی ملکیت سے محروم کریں جس کے وہ تمام قانونی، اخلاقی اور مذہبی تصورات کے مطابق جائز
مالک ہیں۔
اس موقع پر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ’’ہم لوگوں کی ملکیتوں کو معاوضہ دے کر حاصل کریں گے۔ ’’سوال یہ ہے کہ ملکیت سے دست برداری آدمی کی خود اپنی مرضی سے ہو گی یا قانون اس کو طے کرے گا۔ اور جو معاوضہ دیا جائے گا اس کو حکومت مقرر کرے گی یا وہ شخص جس کو معاوضہ لینا ہے۔ اگر انتقالِ ملکیت اور معاوضہ دونوں چیزیں حکومت طے کرے گی اور اصل مالکوں کی مرضی کا اس میں کوئی دخل نہ ہو گا تو یہ کھلا ہوا جبر ہے جس کے لئے مارکسی نظریہ کو ترک کرنے کے بعد آپ کے پاس کوئی وجہ جواز باقی نہیں رہتا ۔ آپ مارکس کے ’’قدر زائد‘‘ کے نظریہ کو نہیں مانتے کیونکہ فن اقتصادیات کی روسے اس کا غلط ہونا ثابت ہو چکا ہے مگر یہی وہ نظریہ ہے جس سے مارکس سرمایہ داروں کے خلاف اپنے انتہائی اقدام کو حق بجانب ثابت کرتا ہے۔ پھر اس کو رد کرنے کے بعد آپ کو کیا حق ہے کہ کچھ لوگوں کو ’’سرمایہ دار‘‘ قرار دے کر ان کی کمائی غصب کر لیں جب کہ اس فعل کے حق میں معاشی استدلال کو آپ خود ہی غلط قرار دے چکے ہیں۔ آپ مارکس کے اس نظریہ کو نہیں مانتے کہ ’’قدیم سماج کے بطن سے جدید سماج طاقت ہی کی مدد سے پیدا ہوتا ہے‘‘ آپ کا ارشاد ہے کہ ہم تشدد کے بغیر پر امن ذرائع سے کام لے کر سماج کے اندر معاشی انقلاب لائیں گے۔ مگر پرامن انقلاب کا اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ اس میں مراعات یافتہ طبقہ نئے عنوان سے عوام پر غالب آ جاتا ہے۔ پھر آپ کا پرامن انقلاب آخر کس بنا پر اس سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ ہم کیوں نہ سمجھیں کہ آپ کا پرامن ذرائع سے سوشلزم لانے کا نعرہ محض ایک فریب ہے جس کے ذریعہ آپ اپنے اختیارات کو وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ آپ مارکس کے اس نظریہ کو نہیں مانتے کہ معاشی حالات میں تبدیلی کے بعد ریاست خودبخود فنا ہو جائے گی۔ مگر یہی تو وہ نظریہ ہے جس سے مارکس اس اندیشہ کا جواب دیتا ہے کہ سوشلسٹ نظام میں ریاست کے ہاتھ میں عظیم اختیارات آ جانے کے بعد ظلم بڑھے گا نہیں بلکہ کم ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نظریہ کو رد کر دینے کے بعد آپ کو کیا حق ہے کہ ریاست کے ہاتھ میں وہ عظیم اختیارات دے دیں جو کسی شہنشاہ کو بھی کسی زمانہ میں حاصل نہیں ہوئے تھے ، جب کہ آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ اختیارات لازماً صحیح مقاصد کے لئے استعمال ہوں گے اور کبھی غلط سمت کا رخ نہیں کریں گے۔ آپ مارکس کے اس نظریہ کو نہیں مانتے کہ انسان کے خیالات اور اس کے اخلاق و عادات اس کی معاشی زندا عکس ہیں۔ حالانکہ یہی وہ نظریہ ہے جس کے ذریعہ مارکس یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان کی تمام اخلاقی ، معاشرتی اور سیاسی خرابیاں صرف طریق پیداوار کی تبدیلی سے درست ہو جائیں گی۔ پھر اس کو رد کرنے کے بعد آپ
کے پاس وہ کون سی دلیل ہے جس سے آپ یہ ثابت کر سکیں کہ ملکیتی نظام کو ختم کرنے کے بعد لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ اس نظریہ کو ترک کرنے کے بعد ملکیتی نظام کی تبدیلی کو لوٹنے والے طبقہ کی تبدیلی تو کہا جا سکتا ہے مگر اس کو سماجی اصلاح کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ آپ مارکس کے طبقاتی نظریہ کو نہیں مانتے۔ آپ کا خیال ہے کہ ذرائع و وسائل کسی طبقہ کے بجائے عوام کے اختیار میں ہونے چاہئیں، حالانکہ یہی طبقاتی نظریہ ہے جس سے مارکس یہ ثابت کرتا ہے کہ سماج کے بیشتر افراد کو کس طرح انصاف اور خوش حالی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کی پچھلی سو برس کی تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’عوامی حکومت‘‘ کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔ یہ محض ایک پر فریب لفظی ترکیب ہے جس کے ذریعہ مراعات یافتہ طبقہ محروم طبقہ کو لوٹتا ہے۔ کیونکہ سماج میں جب طاقت ور اور کمزور دو قسم کے طبقے موجود ہوں ایسی حالت میں عوامی نظام بنانے کے معنیٰ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتے کہ کمزوروں پر طاقت ور طبقہ مسلّط ہو جائے۔ اس لئے مارکس نے کہا کہ ’’عوام کا فائدہ‘‘ نہیں بلکہ ’’محنت کش طبقہ کا فائدہ‘‘ اس طبقہ کا فائدہ جو درحقیقت فائدہ سے محروم ہے۔ مگر طبقاتی نظریہ کو ترک کرنے کے بعد آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ آپ کا ’’عوامی نظریہ‘‘ حقیقتہً عوام کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنے گا اور اس کا وہی انجام نہیں ہو گا جو اب تک اس نظریہ کا ہوتا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مارکس کے فلسفہ کو اس کے پورے نظام سے الگ کر کے محض اس کے معاشی حل کو اختیار کرنا چاہتے ہیں ، وہ اتنے بھی ذہین نہیں ہیں جتنا کہ مارکس تھا۔ مارکسزم کی نظریاتی بنیادوں کو ترک کرنے کے بعد اس کا حل بالکل لغو اور بے معنی ہو جاتا ہے۔ مارکس کے معاشی حل کا مقصد سماج کو لوٹ کھسوٹ اور استحصال (Exploitation) سے پاک کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سماج کے اندر کسی گروہ کو یہ موقع کیسے ملتا ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر ظلم کرے اور انھیں اپنی لوٹ کھسوٹ کا شکار بنائے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کے مقابلہ میں اس کو زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ دوسروں کے پاس جو چیز کم ہوتی ہے وہ چیز اس کے پاس زیادہ ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اختیارات کا سمٹائو یا مرکوزیت ہی وہ چیز ہے جو عوام کے مقابلہ میں خواص کو ظالم اور لٹیرا بناتی ہے۔ کیا اشتراکی نظام میں اس ’’مرکوزیت‘‘ سے نجات مل جاتی ہے۔ اشتراکی اصولوں کے مطابق جو سماج بنتا ہے کیا اس میں تقسیم اختیارات کا یہ فرق مٹ جاتا ہے۔ کیا وہاں سماج کے تمام افراد نہتے کر دئیے جاتے ہیں اور کسی کے لئے یہ موقع باقی نہیں رہتا کہ وہ اگر چاہے تو دوسرے کا استحصال کر سکے۔ صورتِ ہ نہ صرف اس کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام میں اختیارات کی
مرکوزیت کا عمل اپنے کمال کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ سماج کے بااختیار ادارہ کو عام حالات میں جتنے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اجتماعی ملکیت کے نظام میں اس سے کہیں زیادہ اختیارات اسے حاصل ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں سوشلسٹ نظام کے ’’متولی‘‘ اگر بگڑ جائیں تو سوشلسٹ سماج کا حال اس سے بھی ابتر ہو جائے گا جو جمہوری نظام کے متولیوں کے بگڑ جانے سے جمہوری سماج کا ہوتا ہے۔ اس اندیشے کو خود سوشلسٹ حضرات بھی محسوس کرتے ہیں۔ اشوک مہتا نے کہا ہے:
’’سوشلسٹ اقتصادیات کا رحجان مرکوزیت کی طرف رہتا ہے۔ اس لئے اس کی سیاست کا جمہوری اور غیر مرکوز ہونا اور سنسکرتی کا آزاد پرست ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ ۱؎
مگر کسی کے ہاتھ میں اختیارات سونپ دینے کے بعد یہ امید رکھنا کہ وہ اس کو ہمیشہ صحیح مقصد کے لئے استعمال کرے گا محض خوش خیالی ہے۔ اگر جمہوری نظام میں ایسا ممکن نہیں ہے تو اشتراکی نظام میں کس طرح ایسا ہو سکتا ہے جب کہ وہاں اختیارات کی مرکوزیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
مارکس نے اس پیچیدگی کو اس طرح حل کیا کہ اس نے دعویٰ کیا کہ معاشی حالات کے بدلنے سے انسان بھی بدل جاتے ہیں ، شعور کا بننا یا بگڑنا اور انسان کا اچھا یا برا ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کے معاشی ماحول میں سانس لے رہا ہے۔ یہ نظریہ اسگرچہ مندرجہ بالا سوال کا ایک قطعی جواب دیتا ہے مگر یہ اتنا لغو نظریہ ہے کہ اس کو اپنی صحیح شکل میں کوئی ایسا ہی آدمی قبول کر سکتا ہے جو جذبات میں اندھا ہو چکا ہو۔ چنانچہ سوشلسٹ مفکرین یا تو اس کو نظرانداز کر دیتے ہیں یا اس کی توجیہہ کرتے ہیں۔ مگر یہ توجیہہ ایسی ہوتی ہے کہ چاہے بطور ایک نظریہ کے اس میں کچھ صداقت ہو مگر اس سوال کے جواب کی حیثیت سے اس کی معنویت ختم ہو جاتی ہے جس کے لئے مارکس نے اس کو وضع کیا تھا۔
۱؎جمہوری سوشلزم۔ صفحہ ۲۲۳۔
مارکس نے زندگی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے جو معاشی تجویز پیش کی ہے۔ اوپر ہم نے اس پر اصولی حیثیت سے گفتگو کی ہے اور عقلی بحث کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوئی حل نہیں بلکہ محض ایک لغو کارروائی ہے جس سے ہرگز کسی بہتر نتیجہ کی امید نہیں کی جا سکتی۔
اب ہم بتائیں گے کہ اس حل کا جب تجربہ کیا گیا تو عملاً اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے۔
پچھلے صفحات میں ہم نے اشتراکیت پر زیادہ تر نظری حیثیت سے گفتگو کی ہے۔ جس سے قطعی طور پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اشتراکیت ایک نظریہ کی حیثیت سے ناکام ہو چکی ہے۔ اس نظریہ کی انتہائی خرابیاں اپنے پہلے ہی تجربہ میں پوری شدّت کے ساتھ ظاہر ہو چکی ہیں جو اس کے اولین لیڈروں اور مفکروں کے ذریعہ روس میں ہوا تھا۔ روس اس نظریہ کی اولین تجربہ گاہ نہیں بلکہ درحقیقت وہ اشتراکیت کا مزار ہے جہاں وہ ہمیشہ کے لئے دفن ہو چکی ہے اب اگر وہ زمین کے بعض حصوں میں باقی ہے تو ایک نظریہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اسی حیثیت سے باقی ہے جیسے کہ جمہوریت باقی ہے۔ جمہوری تحریک جب ابتداً اٹھارویں صدی عیسوی میں فرانس سے اٹھی تو وہ ایک نظریہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ زندگی کا صحیح ترین نظریہ ہے اور اسی کے ذریعہ انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مگر اب کہیں بھی جمہوریت اس حیثیت سے زندہ نہیں ہے۔ اب وہ صرف ایک سیاسی ہتھیار ہے جس کے ذریعہ کچھ چالاک قسم کے لیڈر عوام الناس پر اپنی سیاسی خدائی کا تخت بچھاتے ہیں۔ اسی طرح اشتراکیت اب کوئی نظریہ نہیں بلکہ ایک سیاسی حربہ ہے جس کے ذریعہ کچھ انسان نما دیوزمین کے ایک تہائی حصہ میں تقریباً نوے کروڑ انسانوں کا گلا دبائے ہوئے ہیں۔
اشتراکی نظام کے بارہ میں یہ تلخ حقیقت اب ’’سرمایہ داروں کا پروپیگنڈا‘‘ نہیں رہی بلکہ بیسویں کانگرس کے بعد خود روسی لیڈروں نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔ اس نظام میں جب ایک بار کوئی شخص برسرِ اقتدار آ جائے تو پھر موت کا فرشتہ ہی انسانیت کو اس کے عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔ چنانچہ سٹالن کو نہ تو معزول کیا جا سکا اور نہ اس کی زندگی میں کسی کو اس کے خلاف بولنے کی جرأت ہوئی۔ اس
کے مظالم کو ’’تاریخ کے عظیم انصاف‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا گیا، اس کے بارے میں کہا گیا کہ ’’سٹالن کلاسیکل کمیونزم کا حقیقی پیرو ہے‘‘ مگر اس کے مرنے کے بعد خود اشتراکی پریس نے یہ تسلیم کیا کہ سٹالن تاریخ کا سب سے بڑا ظالم انسان تھا۔ اپنی حکومت کے ’’آخری دور میں اس کی خودپسندی نے قابلِ
نفرت شکل اختیار کر لی۔ اس نے خود کو پارٹی اور عوام سے بالا تر کر لیا، مرکزی کمیٹی کی رائے پر غور کرنا ترک کر دیا، اس نے مطلق العنان طرزِ حکومت پر عمل کیا۱؎‘‘ روسی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری اول مسٹر خردشچیف (N. Khrushchev) نے سٹالن کے مرنے کے بعد پارٹی کی بیسویں کانگرس (فروری ۱۹۵۶ئ) میں ایک تقریر کی جس میں سٹالن کے جرائم گنائے۔ یہ ایک طویل تقریر تھی جس کے بعض فقرے یہاں درج کئے جاتے ہیں:
’’ایک شخص سب کچھ جانتا ہے، سب کچھ دیکھتا ہے ، ہر فرد سے واقف ہے ، ہر کام کر سکتا ہے ، اس سے کبھی غلطی نہیں ہو سکتی۔ کسی شخص میں اس قسم کی غیر معمولی صفات کو ماننا اسے خدا بنانا ہے مگر سٹالن کے بارہ میں سالہا سال تک ہمارا عقیدہ یہی تھا جس کی تردید اس کے مرنے کے بعد سنٹرل کمیٹی نے کی کی ہے۔‘‘
’’سٹالن سمجھانا بجھانا نہیں جانتا تھا بلکہ وہ اپنے خیالات کو زبردستی منواتا تھا اور لوگوں سے اندھی اطاعت کا مطالبہ کرتا تھا۔ جس نے بھی اس کی اطاعت نہیں کی یا اس کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا اس کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا۔ سترھویں پارٹی کانگرس کے بعد خاص طور پر پارٹی کے بہت سے بڑے بڑے لیڈر اور کارکن اس کی مطلق العنانی کا شکار ہو گئے۔‘‘
’’سٹالن نے ’عوام دشمن‘ کی اصطلاح ایجاد کی جس کا مطلب خودبخود یہ ہو گیا کہ ایک شخص کی رائے خواہ صحیح ہو یا غلط لازماً قبول کی جانی چاہئے۔ اس اصطلاح کے ذریعہ یہ ممکن ہو گیا کہ کوئی شخصی جو کسی بھی پہلو سے سٹالن کی تائید نہ کرتا ہو یا جس کے بارہ میں ایسا شبہ کیا جائے اس کے خلاف ہر ظالمانہ سلوک کیا جا سکتا ہے اور اس کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ ’’عوام دشمن‘‘ کی اصطلاح کے بعد اختلافِ رائے اور کسی معاملہ میں بحث و نظر کے بعد ایک نتیجہ تک پہونچنے کی کوشش کرنا ناممکن ہو گیا۔ ایسے تمام مجرمین کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے جو قانونی بنیاد فراہم کی گئی وہ اعتراف (Confession) تھا جو جسمانی اذیتوں کے ذریعہ اگلوایا جاتا تھا۔‘‘
’’ایک شخص کی من مانی کارروائی نے دوسروں کو بھی مطلق العنان بنا دیا۔ بے شمار لوگ گرفتار ہوئے، ہزاروں آدمی جلا وطن کر دئیے گئے ، کسی عدالتی کارروائی اور تحقیق و تفتیش کے بغیر سزائیں دی گئیں ، اس چیز نے عام طور پر بدامنی اور خوف کی فضا پیدا کر دی اور لوگوں کو مایوس بنا دیا ۔‘‘
۱؎سویٹ لینڈ یکم جون ۱۹۵۶ء
’’حال میں خاص طور پر بیریا کے گروہ کا صفایا کرنے کے بعد سنٹرل کمیٹی نے بہت سے واقعات کی تحقیق کی جو اس گروہ نے اپنے زمانے میں گھڑے تھے۔ اس سے سٹالن کی وحشیانہ خودرائی کے بارے میں بڑی بھیانک حقیقتوں کا انکشاف ہوا۔ معلوم ہوا کہ سٹالن نے اپنے لامحدود اختیارات کو بہت
غلط طریقہ پر استعمال کیا تھا۔ وہ سنٹرل کمیٹی کے نام پر کارروائیاں کرتا تھا مگر کمیٹی کے ممبروں سے ان کی رائے تک دریافت نہیں کرتا تھا ، نہ کمیٹی کی پولیٹیکل بیورو سے مشورہ کرتا تھا۔ اکثر نہایت اہم معاملات میں اس نے اپنے ذاتی فیصلوں کی انھیں اطلاع تک نہیں دی۔‘‘
’’جنگ کے بعد سات سال تک کوئی کانگرس نہیں بلائی گئی۔‘‘
’’یہ واضح ہو چکا ہے کہ بہت سے لوگ جو ۳۸،۱۹۳۷ئ میں دشمن قرار دئیے گئے تھے وہ حقیقتہً دشمن نہیں تھے ، نہ جاسوس تھے ، نہ توڑ پھوڑ کرنے والے تھے ، بلکہ اکثر نہایت وفادار کمیونسٹ تھے۔ ان کو بدنام کیا گیا اور سخت جسمانی عذاب کے ذریعہ ان سے زبردستی ہولناک جرائم کا اقرار کرایا گیا۔ اسی زمانہ کا واقعہ ہے کہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے ۱۳۹ ممبر جو سترھویں کانگرس میں چنے گئے تھے ، ان میں سے ۹۸ ممبروں یعنی ستّر فیصد کو گرفتار کر کے گولی مار دی گئی۔ یہ انجام صرف سنٹرل کمیٹی کے ممبروں کا نہیں ہوا بلکہ اٹں پارٹی کانگرس کے مندوبین (Delegates) کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا۔ ان کی اکثریت یعنی ۱۹۶۶ء مندوبین میں سے ۱۱۰۸ کو ’’انقلاب دشمن‘‘ جرائم کے ارتکاب کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔‘‘
’’نفرت انگیز بہتان اور مجرمانہ کارروائیوں کی ایک شرمناک مثال اے کے (Eikhe) کا واقعہ ہے جو سنٹرل کمیٹی کی پولیٹیکل بیوریو کے لئے امیدوار تھا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کا ایک ممتاز کارکن تھا۔ وہ ۱۹۰۵ء سے پارٹی کا ممبر تھا۔ کامریڈ ایکے ۲۹ اپریل ۱۹۳۸ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے سرکاری سامان میں خورد برد کیا ہے۔ ایکے کے مقدمہ کی تفتیش جس طرح کی گئی وہ وحشیانہ دروغ بیانی کی ایک بدترین مثال ہے۔ ایکے کو شدید جسمانی عذاب دے کر مجبور کیا گیا کہ وہ اعترافِ جرم کی ایک ایسی دستاویز پر دستخط کرے جس کو محکمۂ تفتیش کے ججوں نے تیار کیا تھا۔ جس میں وہ اور دوسرے بہت سے ممتاز پارٹی کارکن عوام دشمن سرگرمیوں میں ماخوذ کئے گئے تھے۔ ۴ فروری کو ایکے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس طرح کے اور بہت سے مقدمے ہیں جو محض بہتان اور جعل سازی کی بنیاد پر کھڑے کئے گئے تھے۔‘‘
’’جب سٹالن کسی شخص کے بارے میں یہ کہہ دیتا کہ اس کو گرفتار کر لیا جائے اس وقت یہ ایمان لانا ضروری تھا کہ وہ شخص ’’عوام کا دشمن‘‘ ہے۔ ان دنوں بیریا کا گروہ جو ریاستی تحفظ کا ذمہ دار تھا گرفتار شدہ شخص کو مجرم بنانے اور اس کے خلاف اپنے جھوٹے الزامات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے نہایت تیزی سے حرکت کرتا تھا۔ اور وہ ثبوت کیا ہوتا تھا اپنے جرائم کا ’’اعتراف‘‘ جس کو محکمۂ تفتیش کا جج فوراً قبول کر لیتا تھا۔ اور یہ کس طرح ممکن ہوتا تھا کہ ایک شخص ان جرائم کا اقرار کر لے جس کو اس نے سرے سے کیا ہی نہ ہو۔ اس کا صرف ایک طریقہ تھا۔ جسمانی مشقتوں کے ذریعہ اس پر دبائو ڈالا جاتا تھا ، اس کو سخت
عذاب میں مبتلا کیا جاتا تھا ، اس کو ناقابلِ برداشت تکلیفوں کے ذریعہ نیم بے ہوشی کی حد تک پہنچا دیا جاتا تھا، اور اس طرح اس سے ہوناک جرائم کے اقرار نامے پر دستخط لئے جاتے تھے۔‘‘
’’ہماری فلموں اور ادبی تخلیقات کا مقصد صرف یہ رہ گیا تھا کہ سٹالن کا پروپیگنڈہ کیا جائے اور اس کی شان میں قصیدے پیش کئے جائیں۔ اس سلسلہ میں فلم برلن کی شکست (The Fall of Berlin) کی مثال لیجئے۔ یہ فلم پچھلی جنگ میں روسیوں کے مقابلہ میں جرمنوں کی شکست کا منظر پیش کرتی ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ پوری فلم میں صرف سٹالن کا کردار نظر آتا ہے۔ وہ ایک ہال میں بیٹھا ہوا احکام جاری کر رہا ہے جہاں بہت سی خالی کرسیاں پڑی ہوئی ہیں اور ایک شخص کے سوا ہال میں کوئی اور آدمی دکھائی نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ فوجی محکمہ کہاں ہے ، پولیٹیکل بیوریو کیا کر رہا ہے ، حکومت کس کام میں مصروف ہے۔ یہ لوگ آخر کہاں ہیں اور کس کام کے لئے رکھے گئے ہیں۔ فلم کے اندر ان کے بارے میں کچھ نہیں ہے۔ سٹالن اکیلا تمام کام کر رہا ہے۔ اس کو کسی شخص پر اعتماد نہیں ہے ، وہ کسی سے مشورہ طلب نہیں کرتا۔ اس فلم میں ہرچیز نہایت غلط رنگ میں دکھائی گئی ہے ، کیوں؟ صرف سٹالن کی شہرت کے لئے ، حقیقت اور واقعہ کے بالکل خلاف۔‘‘
(نیویارک ٹائمز۔ ۵/ جون ۱۹۵۶ئ) ۱؎
اس تقریر میں سٹالن کے جن ہولناک جرائم کا اعتراف کیا گیا ہے اس نے کمیونزم کے مومنین کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ چنانچہ ان واقعات کی اشاعت کے بعد ساری دنیا میں بہت سے کمیونسٹ ممبر پارٹی سے استعفا دے چکے ہیں۔ امریکہ کا مشہور کمیونسٹ ادیب ہوورڈ فاسٹ (Howard Fast) بھی انھیں استعفا دینے والوں میں ہے جو گزشتہ بیس سال سے پارٹی کا اہم رکن تھا۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے:
۱؎اس سلسلہ میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گریٹ سوویٹ انسائیکلو پیڈیا جس کا بعد اسٹالن اڈیشن ۱۹۵۷ء کے شروع میں ماسکو سے شائع ہوا ہے۔ اس میں سٹالن کے سرکاری سوانح حیات صرف چھ صفحے پر مشتمل ہیں۔ جب کہ اس کا پچھلا اڈیشن جو سٹالن کے زمانہ میں شائع ہوا تھا ، اس میں سٹالن کے لئے ۴۶ صفحات وقف کئے گئے تھے۔ موجودہ اڈیشن میں سٹالن کی زندگی کے بعض پہلوئوں کی تعریف کرتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ اور اس میں لینن کی وہ مشہور تحریر بھی شائع کر دی گئی ہے جس میں اس نے سٹالن کو ’’ان گھڑ می اور اپنے ساتھیوں کیلئے غیر وفادار‘‘ کہا تھا۔ بحوالہ سٹیٹس مین (دہلی) ۱۸/ فروری ۱۹۵۸ء
’’خروشچیف کی خفیہ تقریر کی اشات سے بہت پہلے میں نے اور کمیونسٹ پارٹی کے دوسرے ممبروں
نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ عالمی کمیونسٹ تحریک میں کوئی المناک خامی موجود ہے۔ ان باتوں نے مجھ میں اور بہت سے دوسرے لوگوں میں ایک تبدیلی کے رجحان کی ابتداء کر دی تھی ۔ لیکن اس کے باوجود ہم خروشچیف کی خفیہ رپورٹ کے آتشیں اور جہنمی انکشافات کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس دہشت کی حدیں ہمارے خواب و خیال سے بھی پَرے تھیں اور ان بدترین الزامات کی حدں سے بھی بہت آگے تھیں جو سویٹ یونین کے دشمن اس پر عائد کرتے تھے۔ میرا دل نفرت اور حقارت سے بھر گیا۔ مجھے اس احساس سے لامحدود ذہنی کوفت ہو رہی تھی کہ میں خون کی اس سفاکانہ ہولی کی تائید کرتا رہا ہوں، دوسروں کی طرح مجھے بھی یہ محسوس ہواکہ میں تاریخِ جدید کے ایک ناقابلِ بیان دھوکے کا شکار ہوا۔ ‘‘۱؎
خردشچیف کی مبینہ رپورٹ جس کے بعض حصّے ہم نے اوپر نقل کئے ہیں اس کی اشاعت کے بعد فرانس کی کمیونسٹ پارٹی نے سوویٹ یونین کی کمیونسٹ پارٹی سے مطالبہ کیا تھا کہ سٹالن کی طرف جو ہولناک جرائم منسوب کئے گئے ہیں ، ان کی مکمل نظریاتی وضاحت کی جائے۔ اس پر سوویٹ یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے ایک طے شدہ بیان جاری کیا جو سوویٹ لینڈ ۱۵/ جولائی ۱۹۵۶ء کے ساتھ بہ شکل ضمیمہ نمبر ۱۴ شائع ہوا ہے۔ اس میں اس سوال کی وضاحت کی گئی ہے کہ ’’آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سٹالن کی ڈکٹیٹر شپ اپنے تمام برے نتائج کے ساتھ سوویٹ اشتراکی نظام کے حالات میں ابھری اور اس طرح پھیل گئی‘‘ یہ بیان تمام تر تضاد بیانی سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں فرد پسندی (Cult of individual) کو ان حالات کے رونما ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سٹالن ازم کے ابھرنے کے اسباب سوویت سماجی نظام میں نہیں ہیں بلکہ اس کی ذمہ داری تمام تر خود سٹالن پر ہے اور اس بات پر ہے کہ اشتراکی ریاست کا وزیر اعظم بننے کے بعد وہ سماج کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی ذات کی پرستش میں مبتلا ہو گیا اور اپنے کو عوام سے بالاتر کر لیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب اشتراکی حضرات کے دعویٰ کے مطابق روس میں لوٹنے والے طبقوں کو ختم کر دیا گیا تھا، جب وہاں ذرائع پیداوار پر سماج کی ملکیت قائم ہو چکی تھی ، جب سوویت نظام کے تحت حکومت کے اختیارات کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں تھے بلکہ پورے محنت کش طبقہ کی طرف منتقل کر دئیے گئے تھے تو آخر کس طرح ایک شخص وہاں کے تمام اختیارات پر قابض ہو گیا ۔ اجتماعی ملکیت کے نظام میں انفرادی ملکیت کی برائیاں کیسے پیدا ہو گئیں۔ کیا اشتراکیت کے مخالفین کا یہ اعتراض صحیح ہے کہ اشتراکی نظام ڈکٹیٹر شپ کی
۱؎ ماہنامہ ’’تحریک‘‘ (دہلی) جون ۱۹۵۷ء
بدترین شکل ہے جس کو خوبصورت نظریات کا لباس اڑھا دیا گیا ہے۔ کیا اشتراکی نظام میں بھی
اقتدار عوام کے ہاتھ میں نہیں ہوتا بلکہ اس ایک شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اتفاق سے ریاست کا حاکم اعلیٰ بن جائے۔ کیا ’’مزدور ڈکٹیٹر شپ‘‘ اس کا نام ہے کہ ساری آبادی کو مزدور بنا کر محض ایک شخص ان کے اوپر ڈکٹیٹر بن جائے۔
روسی کمیونسٹ پارٹی نے اس واقعہ کی جو توجیہہ کی ہے وہ مارکسی نظریات کے عین برعکس ہے۔ کیونکہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ سٹالن کے بگاڑ کے اسباب خود اس کی ذات میں تھے نہ کہ وقت کے مادّی ماحول میں بیسویں صدی کی ابتداء میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے نارودنکوں (روس کا ایک اشتراکی حلقہ کی اس بنا پر سخت مخالفت کی تھی۔ کہ ’’ان کے خیال کے مطابق تاریخ کا انحصار سماجی طبقوں اور ان کی آپس کی کش مکش پر نہیں بلک ان نمایاں افراد (ہیرووں) پر ہے جن کی عوام الناس آنکھ بند کر کے پیروی کرتے ہیں۱؎۔‘‘ مگر آج نارودنکوں کے اسی غلط اور رجعت پسندانہ نظریہ کو سٹالن ازم کی تاویل و تشریح میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان حضرات سے اگر پوچھا جائے کہ ہٹلر کیوں جرمنی کا ڈکٹیٹر بن گیا تو وہ کبھی یہ نہ کہیں گے کہ ڈکٹیٹر شپ کے جراثیم ہٹلر کے دماغ میں پیدا ہوئے اور یہ محض اس کا شخصی کردار تھا جس کی وجہ سے وہ جرمنی کے سر پر مسلّط ہو گیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہیں گے اور یہی کہتے رہے ہیں کہ ڈکٹیٹر شپ کے ظہور کے اسباب اس طریق پیداوار میں ہیں جو ملک کے اندر موجد تھا۔ ہٹلر کی ظالمانہ حکومت اس کے انفرادی عمل کا نتیجہ نہیں تھی وہ دراصل پیداوار اور تبادلہ کے اس طریقہ کا لازمی نتیجہ تھی جو اس وقت جرمنی میں رائج تھا۔ ہٹلر دراصل کوئی شخصی کردار نہیں تھا بلکہ جرمنی کے ظالمانہ طریقِ پیداوار نے اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے ہٹلر کی شکل اختیار کر لی تھی۔ مارکس کا تو سارا فلسفہ یہی ہے کہ افراد محض وقت کے مادّی حالات میں کھلونا ہوتے ہیں ، ی مفکرین ہمیشہ تاریخ کے اس تصور کا مذاق اڑاتے رہے ہیں کہ افراد بھی اپنے ارادہ سے حالات کو بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ مگر روس میں پیداوار اور تقسیم کے نظام کی تبدیلی کے بعد جب یہی چیز رونما ہوئی تو اس کی ذمہ داری انھوں نے ایک شخص پر ڈال دی تاکہ اشتراکی طریق پیداوار پر حرف نہ آئے۔ حالانکہ یہ واقعہ کھلا ہوا اس بات کا ثبوت تھا کہ یا تو مارکس کا یہ نظریہ غلط ہے کہ انسان کا ذہن اور اس کا کردار ویسا ہی بنتا ہے جیسا اس کا مادّی ماحول ہو یا اشتراکی طریقِ پیداوار میں بھی اسی طرح ظلم و جبر اور استحصال کا نظام جاری رہتا ہے جیسا کہ سرمایہ دار سوسائٹی میں ہوتا ہے۔ ورنہ جب روس میں مارکسی نظریہ کے مطابق معاشی حالات بدل دئیے گئے تو وہاں ڈکٹیٹر شپ کیوں ابھرتی۔
ایک چوتھائی صدی سے زیادہ عرصہ تک روس کے بارہ میں پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ وہاں ملکیتیں
۱؎ ہسٹری آف دی بالشویک پارٹی ، صفحہ ۱۳۔۱۲
سارے سماج کے قبضہ میں دے دی گئی ہیں ، وہاں انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہو گیا ہے ، وہاں ریاست ظلم و جبر کا آلہ نہیں ، بلکہ عوام کی خادم ہے ، وہاں حکومت اور رعایا کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ مگر جب پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب محض جھوٹا پروپیگنڈا تھا۔ سٹالن جو ا س پورے عرصہ میں اس نظام کا حاکمِ اعلیٰ تھا وہ اوّل درجہ کا ظالم اور خودغرض ثابت ہوا۔ بیریا، مالوٹوف، مالنکوف، شپلوف، کگانووچ، زوکوف ، اور بہت سے دوسرے لوگ جوسٹالن کی رفاقت میں اس نظام کو چلا رہے تھے ، سب کے سب انسانیت کش اور سماجی کے دشمن نکلے۔ انگلینڈ یا امریکہ میں اگر کوئی حکومت بگڑ جائے تو پبلک میں طوفان مچ جائے گا مگر اشتراکی نظام نے ان ظالموں کو اس قدر اختیارات دے دئیے تھے کہ ملک کے اندر کوئی ایک زبان بھی ان کے خلاف بولنے کی جرأت نہ کر سکی ، نہ پریس سے ان کے بارہ میں کوئی مضمون شائع ہوا۔ سوویت یونین کی سوویتوں کی آٹھویں کانگرس منعقدہ ۲۵ نومبر ۱۹۳۶ئ میں جب سٹالن نے اعلان کیا کہ ’’روس میں انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہو گیا ہے۔‘‘ و حاضرین بہت دیر تک تعریف و تحسین کے نعرے لگاتے رہے۔ سٹالن کی زندگی تک یہ حال تھا کہ روس میں ہر تقریر کو خواہ وہ کسی بھی موضوع پر ہو ان الفاظ کے ساتھ ختم کیا جاتا تھا ’’زندہ باد سٹالن پائندہ باد سٹالن۔ تقریر کے اختتام کا یہ انداز تقریر کی کامیابی کا ضا۔ کیونکہ ایسے ہر جملہ کے بعد مسلسل تالیاں اور مسرت کے فلک شگاف نعرے لازمی تھے۔ مگر یہی سٹالن اپنی موت کے تین سال کے بعد قاتل ، لٹیرا اور اناڑی سیاست دان جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ ۳۵ سال تک اعلان کیا جاتا رہا کہ سوویت طرزِ حکومت تاریخ کا بہترین طرزِ حکومت ہے۱؎‘‘ ’’سوویٹ یونین میں سارا اقتدار ملک کے جائز مالکوں یعنی محنت کشوں کے ہاتھ میں ہے‘‘ ’’۲۰ کروڑ سوویٹ عوام انسانی تاریخ میں وہ پہلے انسان ہیں جو اپنے ملک کے ایک آزاد ملک کی تمام تر دولت کے پورے طور پر مالک ہو گئے ہیں‘‘ مگر جب پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ اس سے بدتر نظام حکومت شاید تاریخ میں کبھی وجود میں نہیں آیا تھا۔
۱؎ سوویٹ ڈماکریسی اینڈ بورژوا ڈماکریسی، صفحہ
ایک عام تحریک کے لئے اس کی عملی خامی لازمی طور پر اس کی نظریاتی خامی کا ثبوت نہیں ہوتی۔ مگر مارکسی اشتراکیت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ یہاں عملی خامی کا ظاہر ہونا یقینی طور پر اس کی نظریاتی خامی کا بھی ثبوت ہے۔ یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی شخص لوہے کے پگھلنے کا ایک قانون بیان کرے۔ اب اگر تجربہ کے بعد لوہا اس کے بیان کے مطابق نہ پگھلے تو اس سے لوہے کی خامی ثابت نہیں ہو گی بلکہ نظریہ پیش کرنے والے کے نظریہ کی خامی ثابت ہو گی۔ مارکس نے اپنے دعوے کے مطابق سماجی علم کو سائنس کی حیثیت دی ہے۔ اس لئے اس کے نظریہ کی آزمائش سائنسی علوم کے مطابق کی جائے گی نہ کہ عام انسانی علوم کے مطابق۔
کمیونزم کے پرجوش عقیدت مند آپ کو یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ ہم نے مانا کہ اسٹالن نے اشتراکی انقلاب کے ساتھ غدّاری کی۔ مگر اس سے اشتراکی اصولوں کی حقانیت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ نظریہ الگ چیز ہے اور اس کے ماننے والے افراد کا کردار بالکل علیحدہ چیز ہے۔ اگر کسی نظریہ کو ماننے والے افراد بگڑ جائیں تو اس سے اصل نظریہ کے غلط ہونے پر کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات اپنی جگہ پر تو بالکل صحیح ہے مگر اس سے ان لوگوں کے نظریہ کی تائید نہیں ہوتی جو اس کو پیش کر رہے ہیں۔ ایک ایسا نظریہ جو افراد کے کردار کو خود افراد کے اپنے ارادۂ و شعور کا نتیجہ قرار دیتا ہو ، جس کے نزدیک افراد وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ خود کرنا چاہتے ہوں ، اس کے بارہ میں تو ضرور یہ کہا جا سکتا ہے کہ نظریہ کو ماننے والے افراد کے بگڑ جانے سے اس نظریہ کی خرابی ثابت نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ نظریہ افراد کو ایک بااختیار ہستی تسلیم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک افراد اسی حد تک اصلاح یافتہ ہوں گے جس حد تک وہ خود نظریہ کو اختیار کریں۔ مگر مارکسزم تو اس کے بالکل برعکس ایک نظریہ ہے ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ
شعور بذاتِ خود کوئی چیز نہیں، وہ صرف اپنے مادّی ماحول کی پیداوار ہے۔ دوسرے لفظوں میں آدمی جو کچھ کرتا ہے اس لئے نہیں کرتا کہ وہ اپنے ارادہ و شعور کے تحت ایسا کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ وقت کے مادّی حالات نے اس سے ایسا کرنے کے لئے کہا ہے۔ پہلے قسم کے نظریہ کا کہنا ہے کہ ’’انسان کو بدلنا چاہتے ہو تو اس کے فکر کو بدل دو‘‘ اس کے برعکس مارکس کا کہنا ہے کہ ’’انسان کو بدلنا چاہتے ہو تو اس کے معاشی حالات کو بدل دو‘‘
پہلی صورت میں بہتر حالات لانے کے لئے انسان کے رحجانات اور تصورات کو بدلنے پر ساری کوشش صرف کی جائے گی تاکہ وہ اس کے لئے تیار ہو سکے کہ اپنے ارادہ کو غلط سمتوں سے بچا کر صحیح سمت میں لگائے۔ اس کے برعکس مارکسزم کے نزدیک اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ معاشی حالات کو بدلا جائے۔ اس کے نزدیک معاشی حالات ہی سے شعور اور ارادہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے جب معاشی حالات بدل دئیے جائیں گے تو شعور خودبخوش تبدیل ہو جائے گا۔ ایسی حالت میں جب کسی علاقہ میں معاشی حالات اور لین دین کے طریقہ کو تبدیل کر دیا جائے تو خودبخود انسانوں کو بھی بدل جانا چاہئے۔ اگر معاشی حالات کی تبدیلی کے بعد بھی انسان نہ بدلیں تو یہ سمجھا جائے گا کہ ود وہ نظریہ غلط تھا جس کے تحت سماج کی اصلاح کے لئے معاشی حالات کو بدلنے کا پروگرام وضع کیا گیا تھا۔ یہ فرد کی خرابی نہیں بلکہ خود نظریہ کے غلط ہونے کا ثبوت ہے۔ پہلی قسم کے نظریہ کے تحت قائم شدہ نظاممیں اگر افراد کی اصلاح نہ ہو تو کہا جائے گا کہ افراد نے پوری طرح نظریہ کو قبول نہیں کیا ہے۔ ان کے ارادہ پر ابھی تک نظریہ کی حکمرانی قائم نہیں ہوئی ہے ، وہ انانیت اور خودپرستی کا شکار ہیں۔ اس کے برعکس مارکسی نظریہ کے تحت قائم شدہ نظام میں اگر افراد کی اصلاح نہ ہو تو اس سے خود نظریہ کی تردید ہو جاتی ہے۔ اس سے ثہ ثابت ہوتا ہے کہ مادّہ شعور نہیں پیدا کرتا بلکہ شعور مادّہ سے الگ ایک مستقل چیز ہے جو خود مادّہ پر اثرانداز ہوتا ہے۔
یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مارکسزم شعور کو بالکل مادّہ کی مخلوق تسلیم نہیں کرتی بلکہ اس کی مستقل بالذّات حیثیت کا بھی اقرار کرتی ہے جیسا کہ مارکس کی وفات کے بعد اس کے رفیق فریڈرش انگلس نے مسٹر جوزف بلاک کے نام اپنے خط مورخہ ۲۱/ ستمبر ۱۸۹۰ئ میں لکھا تھا۔ مگر یہ تاویل اختیار کرنا مارکسزم کی بنیاد ہی کو سرے سے ڈھا دینا ہے۔ مارکس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان مسلسل کش مکش اور لوٹ کھسوٹ کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا جائے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس معاشی نظام کو بدل دیا جائے جو اس دائمی فساد کا ذمہ دار ہے۔ اور جس میں نامعلوم مدّت سے انسان زندگی گزارتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے نزدیک انفرادی ملکیت کے نظام کو بدل کر اجتماعی ملکیت کے نظام کی شکل دے دینے کے معنیٰ یہ تھے کہ خود انسان کے اخلاق و کردار
کو بدل دیا گیا ہے۔ لیکن اگر اس مادّی تبدیلی کے بعد بھی انسان کا شعور نہیں بدلتا، جیسا کہ انگلس اور دوسرے اشتراکی مفکرین نے مارکس کے نظریہ کی توجیہہ کرتے ہوئے کہا ہے ، اگر اشتراکی سماج میں انسان کے لئے یہ موقع باقی رہتا ہے کہ وہ اسی طرح لوٹ کھسوٹ کی باتیں سوچ سکے جس طرح وہ غیر اشتراکی نظام میں سوچتا ہے ، تو پھر کس بنا پر یہ توقع کی جائے کہ اشتراکی نظام میں استحصال کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ انسانی شعور کی مستقل بلذّات حیثیت تسلیم کرنے کے معنیٰ دراصل یہ ہیں کہ ملکیتی نظام کی تبدیلی کے بعد بھی یہ مسئلہ باقی ہے کہ انسان کے اندر انحراف پیدا ہو اور سماج کے کچھ لوگ موقع پا کر سماج کے سروں پر مسلّط ہو جائیں جس طرح ہٹلر جرمنی کے اوپر مسلّط ہو گیا تھا۔
مارکس نے جمہوری نظام کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ اس میں افراد کے لئے یہ موقع باقی رہتا ہے کہ نئے عنوان سے وہ سماجی اختیارات پر قابض ہو جائیں پھر جب اشتراکی نظام میں بھی افراد کے لئے یہ موقع باقی رہا کہ وہ چاہیں تو عوام کی گردن پر سوار ہو جائیں اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک سارے سماج کو انپا غلام بن کر رہنے پر مجبور کر دیں تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکس کے نظریہ کو اگر خود اس کے الفاظ کے مطابق بالکل ٹھیٹ شکل میں مانا جائے تو تجربہ نے اس کی تردید کر دی ہے اور اگر انگلس اور دوسرے مارکسی مفکرین کی تشریح کے مطابق اسے مانا جائے تو پھر کسی تجربہ کی ضرورت نہیں۔ یہ نظریہ اپنی تردید آپ کر رہا ہے۔
سرمایہ دار طبقہ مارکس کی شریعت میں ٹھیک وہی مقام رکھتا ہے جو انہی شریعتوں میں شیطان کا ہے۔ وہ سرمایہ دار طبقہ کو بحیثیت طبقہ کے ختم کر دینا چاہتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک وہی ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ اور سماجی انتظام کے تمام مواقع محنت کش طبقہ کے حوالہ کر دینے کا علم بردار ہے۔ مگر ’’سرمایہ دار‘‘ کون ہے۔ یہ اب تک واضح نہیں کیا جا سکا۔ مارکس پورے زور شور کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسانی تاریخ دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے اور صنعتی انقلاب کے بعد تو اس کے نزدیک یہ تقسیم بالکل واضح ہو گئی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں ’’جن کے پاس سب کچھ ہے‘‘ اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں ’’جن کے پاس کچھ بھی نہیں‘‘ مگر کیا یہ بات اتنی ہی واضح ہے جتنی کہ مارکس اسے بتاتا ہے۔ کیا حقیقتہً انسانوں کے درمیان ایسا کوئی خط کھینچنا ممکن ہے جس کے متعلق آپ کہہ سکیں کہ اُس کے اِس پار جو لوگ ہیں وہ سرمایہ دار ہیں اور اُس پار غیر سرمایہ دار۔ اشتمالی منشور میں سرمایہ دار طبقہ کو انسانی آبادی کا صرف دس فیصد حصہ بتایا گیا ہے۔ اشتراکیت پر جبر و تشدد کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تاریخ کے پچھلے ادوار میں اقلیت نے اکثریت پر ظلم کیا تھا۔ اب جومزدور انقلاب آ رہا ہے اس میں اکثریت ایک
محدود اقلیت کو دبا کر رکھے گی۔ مگر عملاً جب روس میں ’’محروم طبقہ‘‘ نے اقتدار حاصل کیا اور سرمایہ داروں کو ایک ’’ط‘‘ کی حیثیت سے ختم کرنے کی مہم شروع ہوئی تو وہ نہ زار پر رکی ، نہ جاگیر داروں اور کارخانہ داروں پر بلکہ دن بدن اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ملک کی بیشتر آبادی جو چھوٹے چھوٹے قطعات پر کھیتی کرنے والے کسانوں پر مشتمل تھی ان سب کو آخری اور ’’امکانی سرمایہ دار‘‘ قرار دیدیا گیا۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ خود جدلیاتی فلسفہ کے مومنین یعنی کمیونسٹ پارٹی کے بے شمار ارکان ’’سرمایہ داروں کے ایجنٹ‘‘ نکلے جن کے خاتمہ کے لئے وسیع پیمانہ پر ’’صفائی ‘‘ کی مہم جاری کرنی پڑی۔
پچھلی دو بڑی لڑائیوں کے درمیانی دور میں سوویت روس کے اندر پندرہ لاکھ سے بیس لاکھ پارٹی ممبروں کا صفایا کیا گیا۔ ۱۹۲۱ئ میں لینن نے مرکزی کمیٹی کو یہ مشورہ دیا کہ پارٹی کو تمام ’’بدمعاشوں‘‘ نوکر شاہی ذہنیت رکھنے والوں، بے ایمان اور مذبذب کمیونسٹوں‘‘ سے پاک کر دیا جائے چنانچہ ۱۹۲۱ئ میں مرکزی کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق ایک عام اخراج کا انتظام کیا گیا جس میں تقریباً ایک لاکھ ستّر ہزار ممبر نکال دئیے گئے اور یہ تعداد اس وقت کے پارٹی ممبروں کی تعداد کا ۲۵ فیصد تھی۔ ۱؎ دوسرے کمیونسٹ ممالک کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ پھر سرمایہ دارانہ جراثیم کا سلسلہ یہاں بھی ضدکا۔ بلکہ وہ لوگ جنھیں ’’اشتراکی محنت کے ہیرو‘‘ کا خطاب ملا تھا، جو پچھلے چالیس سال سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک سرمایہ دار کا خاتمہ کر رہے تھے ، جب پردہ اٹھا تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی بورژوا کے انڈے بچے ہیں۔ سٹالن ، مولوٹوف ، بیریا، کگا نووچ اور دوسری نومایاں ترین شخصیتیں محنت کش طبقہ کی دشمن اور سرمایہ داروں کی ایجنٹ نکلیں۔ یہاں تک کہ آدھی صدی کی مار دھاڑ اور ’’عظیم اشتراکی تعمیر‘‘ کے باوجود کمیونسٹ سرزمین میں ’’سرمایہ داری کے بچے کھچے عناصر‘‘ اب تک موجود ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ اس بچے کھچے عناصر کی نامعلوم فہرست میں کل کس کمیونسٹ لیڈر یا وزیر کا نام نکل آئے گا۔
مارکسزم کا یہ بہت بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف وہ سرمایہ دار طبقہ کو گردن زدنی قرار دیتا ہے۔ کیونکہ وہ سماج کا دشمن ہے اور انتظام ملکی کی ذمہ داری مزدور لیڈروں کے سپرد کرنا چاہتا ہے۔ اس کے خیال میں مزدور طبقہ ہی سماج کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ طبقہ ہے ، وہ جدلیاتی شعور رکھتا ہے اس کو تاریخ نے اس مقام پرکھڑا کیا ہے کہ ’’اپنی نجات کی کوشش میں سارے سماج کو نجات دے دے‘‘ پھر کمیونسٹ پارٹی اس دودھ کا مکھن ہے ، وہ محنت کش طبقہ کا ہراول دستہ ہے ، وہ مزدوروں کی طبقاتی تنظیم کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔ ازدور طبقہ کے بہترین عناصر جمع ہو گئے ہیں۔ اس لئے وہی اس قابل ہے کہ اس کے ہاتھ میں سماجی معاملات کی زمام کار دی جائے۔ مگر دوسری طرف مارکسزم کے علمبردار خود اپنے عمل سے مسلسل یہ ثابت کرتے رہے ہیں کہ اشتراکی نظریہ کی یہ تشریح صحیح نہیں ہے۔ مزدور طبقہ اور کمیونسٹ پارٹی دونوں اسی طرح بالکل ناقابلِ اعتبار ہیں جس طرح ان کے بیان کے مطابق سرمایہ دار طبقہ ، مزدوروں کی
۱؎ ہسٹری آف دی کمیونسٹ پارٹی (B) صفحہ ۲۷۶ (بمبئی ۱۹۴۴)
معصومیت صرف اس وقت تک باقیرہتی ہے جب تک وہ بے بس ہوں۔ اسی طرح کمیونسٹوں کی حقیقت بھی صرف اسی وقت تک چھپی رہتی ہے جب تک ان کی سیرت ظاہر ہونے کا عملی موقع نہ ملے۔ جہاں کہیں موقع ملا وہ کسی اعتبار سے بھی سرمایہ داروں سے کم لٹیرے اور ظالم ثابت نہیں ہوتے۔
سب سے پہلے مارکس کے ہم عصر اشتراکیوں اور مزدور لیڈروں کو لیجئے، وہ اگرچہ محنت کش طبقہ کے وکیل اور سوشلسٹ طرز پر زندگی کے مسئلہ کو حل کرنے کے علم بردار تھے مگر مارکس ار انگلس نے ان کا مذاق اڑایا۔ انھوں نے کہا کہ یہ لوگ سرمایہ داری کی اولاد ہیں ، وہ نظریہ باز اور رجعت پسند ہیں۔ انھوں نے وقت کے ظالم حکمرانوں سے سازباز کر رکھی ہے ، وہ مزدوروں کے مقابلہ میں ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بورژوا پر تنقید کرتے ہیں۔ مگر ’’عملی سیاست میں وہ مزدوروں پر جبر تشدّد کرنے والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ‘‘ اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے سرمایہ دار طبقہ سے مصالحت کر لیتے ہیں۔ ان کی اشتراکیت کا آخری مقصود صرف یہ ہے کہ مزدور کو مطمئن کر کے اسے سرمایہ دار کے خلاف مکش کرنے سے باز رکھیں تاکہ سرمایہ دار بے خوف و خطر اپنی لوٹ جاری رکھ سکیں۔ دوسری انٹرنیشنل (مزدور طبقہ کی بین الاقوامی جماعت) جو ۱۸۸۹ئ میں قائم ہوئی جس میں تمام دنیا کے مزدور شریک تھے ، اشتراکی حضرات کے قول کے مطابق پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر ایک دو کے سوا اس کے تمام نمائندوں نے م ارکسی نظریات سے ’’غداری‘‘ کی۔ وہ لوٹنے کھسوٹنے والے سرمایہ داروں کے ایجنٹ بن گئے اور انھوں نے محنت کش طبقہ کے عالمی مفاد کے خلاف کام کیا اور ’’نہایت شرمناک طریقہ پر‘‘ تنظیم کو ختم کر دیا۔ انھوں نے ’’موقع پرستی‘‘ اختیار کی اور ’’سیاسی سودے بازی‘‘ میں مبتلا ہو گئے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی روسی مزدوروں کی جماعت جو انقلاب سے پہلے لینن کی رہ نمائی میں قائم ہوئی تھی ، اس میں ایک بہت بڑا گروہ جو اگرچہ منشویک (اقلیت) کہا جاتا ہے مگر درحقیقت وہ نصف کے قریب تھا۔ ۱۹۱۲ئ میں چوتھی دوما (زار کے زمانہ کی روسی پارلیمنٹ) منعقد ہوئی تھی اس میں منشویک کے نمائندے سات اور بالشویک کے صرف چھ تھے ، جون ۱۹۱۷ئ میں تمام ملک کے سوویتوں کی پہلی کانگرس منعقد ہوئی اس کانگرس میں بالشویک کے مقابلہ میں منشویک نمائندے اکثریت رکھتے تھے۔ اس کا یہ حال ہوا کہ اس نے ’’وقت کے ہر اہم مسئلہ پر مارکسزم سے انحراف کیا اور بالآخر انقلاب دشمنی کی راہ اختیار کی‘‘ پارٹی کی دوسری کانگرس (لندن ۱۹۰۳ئ) میں یہ لوگ ایک گروہ کی شکل میں ظاہر ہوئے اور پراگ کانفرنس (۱۹۱۲ئ) میں انھیں پارٹی سے خارج کر دیا گیا۔ روس کے چوٹی کے لیڈر جنھوں نے لینن کے ساتھ ’’عظیم اشتراکی انقلاب‘‘ کے لئے جدوجہد کی تھی ، جو کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز تھے۔ انھوں نے ’’غذاری‘‘ کی اور ایسے ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے جن کی سزا قتل تھی۔ اس میں ’’روس میں مارکسیت کا بانی ‘‘ جارج دی پلخنوف سے لے کر لینن کے بعد بالشویک پارٹی کا سب سے بڑا لیڈر
ٹرالٹکی، کمیساروں کی کمیٹی کا صدر کا مانیف، کمنٹرن اور سینٹ پیٹرز برگ سوویٹ کا صدر زینوویف، اخبار پراددا کا چیف ایڈیٹر اور کمنٹرن کی انتظامی کمیٹی کا ممبر بخارن ، ٹریڈ یونین کونسل کا صدر ٹومسکی جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ سب کے سب اپنی مذکورہ بالا حیثیتوں کے علاوہ پولٹ بیورو کے رکن بھی تھے ، ان کے علاوہ بے شمار مزدور ، کسان اور کمیونسٹ خود اشتراکی بیان کے مطابق ’’غدار‘‘ اور ’’عوام دشمن‘‘ ہو گئے لینن کے بعد روسی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ ترین لیڈروں میں سے کوئی بھی غداری سے نہیں بچا یہی حال دوسرے ان تمام ملکوں کا بھی ہوا ہے جہاں کمیونزم نے عملاً غلبہ حاصل کیا ہے۔ کمیونسٹ مممالک میں ایک برسرِ اقتدار شخص کی ہر ایک کی وفاداری مشتبہ رہتی ہے اور کسی بھی وقت وہ ہولناک جرائم کے الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے اور جب اس صاحبِ اقتدار شخص کی حکومت ختم ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سب سے بڑا غدار تھا۔
یہ اشتراکی ملکوں کے حالات ہیں جن کو خود اشتراکی حضرات بڑے زور شور کے ساتھ نشر کرتے رہتے ہیں۔ مگر یہ کہتے ہوئے شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ اس طرح وہ خود اپنے نظریہ کی تردید کر رہے ہیں۔ وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ خود غرضی اور لوٹ کھسوٹ میں مزدور طبقہ اور کمیونسٹ پارٹی کے لوگ کسی طرح بھی سرمایہ داروں سے پیچھے نہیں ہیں۔ جہاں آج سرمایہ دار طبقہ ہے وہاں اگر ان حضرات کو بٹھا دیا جائے تو وہ سرمایہ داروں سے بڑھ کر ظالم اور لٹیرے ثابت ہوں گے۔ پھر ایسے ناقابلِ اعتماد لوگوں کے ہاتھ میں سارے ذرائع و وسائل کا چارج دینا کس طرح کسی بہتر نظام کا سبب بن سکتا ہے؟
پھر اس تضاد کا سب سے زیادہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک طرف اشتراکی ملکوں سے آئے دن ’’انقلاب دشمن‘‘ سرگرمیوں کی اطلاعات آتی رہتی ہیں۔ جن میں بے شمار آدمی جیل اور پھانسی کی سزا کے مستحق قرار دئیے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جب وہاں انتخابات ہوتے ہیں تو تمام سرکاری امیدوار صد فیصد ووٹوں سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ گویا کہ وہاں جو لوگ برسرِ اقتدار طبقہ کے مخالف ہیں ان کی مخالفتیں صرف اس وقت کام کرتی ہیں جب ان کا دشمن ان کے سر پر مسلط ہو چکا ہو ، اور جب اس دشمن کو آئینی طور پر بدلنے کا موقع آتا ہے تو وہ اپنی مخالفت کو ختم کر کے دوبارہ اپنے انھیں دشمنوں کے حق میں رائے دے کر انھیں صد فیصد ووٹوں سے کامیاب بنا دیتے ہیں۔ آپ اخبار میں پڑھیں گے کہ فلاں کمیونسٹ ملک میں وزیر کے مکان پر بم پھینکا گیا۔ ’’کمیونسٹوں کو قتل کر دو‘‘ کے نعرے لگائے گئے۔ کمیونسٹ ریڈیو اعلان کرے گا کہ ملک میں ایک ’’انقلاب دشمن تنظیم‘‘ کا انکشاف ہوا ہے جو خفیہ طور پر تمام شہروں اور صوبوں میں کام کر رہی تھی جس کا مقصد کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنا اور تمام کمیونسٹوں کو قتل کر دینا تھا۔ آپ سنیں گے کہ ہزاروں آدمی اشتراکی جنّت سے فرار ہو رہے ہیں۔ بڑے بڑے کامریڈ
جن کے بارہ میں کل تک عوام کا لیڈر ہونے کا دعویٰ کیا جاتا تھا سازش کا مجرم قرار دے کر انھیں پھانسی دے دی جائے گی یا وہ خود ’’پارٹی سے اپنی غداری کے اظہار کے طور پر‘‘ خودکشی کر لیں گے۔ وزیر اور عہدے دار جو عوام کی حمایت سے چنے گئے تھے ان کو ہولناک سازش کے الزام میں گرفتار کر کے گولی مار دی جائے گی ’’صفائی‘‘ کی مستقل مہم جاری کی جائے گی جس کا مطلب یہ ہو گا ملک میں ایسے بہت سے اشخاص موجود ہیں جو کمیونزم کے مخالف ہیں اور اب انھیں پتہ لگا کر ختم کیا جا رہا ہے۔ ہڑتال اور بغاوتیں ہوں گی ۔ کمیونسٹ دشمن مظاہرے ہوں گے۔ حکومت کے خلاف بڑی بڑی سازشیں پکڑی جائیں گی جن میں یہ بھی انکشاف کیاجائے گا کہ یہ سازش پچھلے ’’۳۰ سال سے خفیہ طریقہ پر کام کر رہی تھی‘‘ ہزاروں لاکھوں آدمی اس بات کے مجرم قرار دئیے جائیں گے کہ وہ اس اسکیم کے مخالف ہیں جو کمیونسٹ پارٹی ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔
یہ سب کچھ ہو گا اور اس سے کہیں زیادہ جو کسی آزاد جمہوری ملک میں ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود حکومت بدلنے کی نوبت کبھی نہیں آئے گی۔ سرکاری طور پر انتخابات کے جو نتائج شائع کئے جائیں گے ان میں ہمیشہ یہی لکھا ہوا ہو گا کہ ’’کمیونسٹ پارٹی کے امیدواروں کو ۵۲ء ۹۹ فیصد ووٹے ملے‘‘۱؎ ۱۹۴۷ئ میں روس کے مختلف صوبوں میں سپریم سوویٹ کا جو اتخاب ہوا تھا اس میں ووٹروں کی ۷۹ئ۹۹ فیصد تعداد نے اپنا حق رائے دہندگی استعمال کیا جس میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدواروں کو ___ جن کے سوا کمیونسٹ ملکوں میں حقیقتہً کوئی امیدوار ہوتا ہی نہیں ___ ۹۹ فیصد ووٹ ملے۔ اسی سال سپریم سوویٹ کی صدارت کے انتخاب میں سوفیصد ووٹ استعمال کئے گئے جو سب کے سب اسٹالن کے حق میں تھے۔ ایک ووٹ بھی نہ تو استعمال ہونے سے باقی رہا اور نہ سٹالن کی مخالفت میں دیا گیا۔
سوویت یونین کے دستور کی دفعہ ۱۲۵ میں روسی شہریوں کو تقریر و تحریر اور جلسہ و جلوس کی آزادی دی گئی ہے ، دفعہ ۱۲۶ میں یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ انجمنیں بنائیں۔ سیاسی تنظیمیں قائم کریں۔ مگر آج تک وہاں کے شہریوں نے اس حق کو حکومت کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ جب سوال کیا جاتا ہے کہ روسی شہری ایسا کیوں نہیں کرتے تو جواب ملتا ہے کہ وہاں کے باشندوں کو ’’بنیادی طور پر‘‘ حکومت کی پالیسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لئے اس حق کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایک طرف یہ اعلان ہوتا ہے اور دوسری طرف ہزاروں لاکھوں آدمی حکومت کے خلاف خفیہ کارروائیوں کا ملزم قرار دے کر جیلوں میں ٹھونس دئیے جاتے ہیں یا گولی مار کر ہلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ کمیونسٹ ممالک میں جو لوگ حکمراں طبقہ کے مخالف ہیں کیا وہ اتنی کھلی ہوئی بات بھی نہیں جانتے کہ جب جمہوری اور آئینی طریقہ پر کیا وہ
۱؎ سوویٹ ڈیماکریسی اینڈ بورژوا ڈیماکریسی ، صفحہ ۴۳،۴۰ (ماسکو ۱۹۵۰)
اتنی کھلی ہوئی بات بھی نہیں جانتے کہ جب جمہوری اور آئینی طریقہ پر حکومت کے خلاف کام کرنا ممکن ہو تو خفیہ اسکیمیں چلانا خود ہی اپنی اسکیم کو فنا کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔ یہ لوگ پریس کے ذریعہ اپنے خیالات کی تبلیغ نہیں کرتے، جلسے اور تقریروں میں آواز بلند نہیں کرتے ، انتخاب کے آئینی طریقِ کار سے کام لے کر حکومت بدلنے کی جدوجہد نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ سب کامیابی کے راستے ہیں۔ وہ سازشوں اور خفیہ تنظیموں ہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تاکہ حکومت انھیں غیر قانونی کارروائی کے الزام میں ماخوذ کر کے ختم کر دے۔ زندگی اور موت__ دونوں راستے ان کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ مگر یہ لوگ اس قدر احمق ہیں کہ جان بوجھ کر صرف موت کے راستہ کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہ دراصل وہ سب سے بڑا تضاد ہے جس میں تمام کمیونسٹ ممالک مبتلا ہیں ، جن ملکوں میں کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہوا ہے اس کے تجربہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کمیونزم دراصل دنیا کا بدترین سماجی نظام ہے جس سے ز یادہ برانظام اب تک کسی نے ایجاد نہیں کیا تھا۔ وہاں کی پبلک شدید عذاب میں مبتلا ہے اور کمیونسٹ شکنجہ کو توڑ کر پھینک دینا چاہتی ہے۔ مگر کمیونسٹ حضرات کی خواہش ہے کہ اس بدترین نظام کو تاریخ کا بہترین نظام ثابت کر دکھائںی۔ وہ اپنے ملک کی انتہائی بے زار پبلک کو حکومت کے انتہائی وفادار کی حیثیت سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کمیونسٹ ممالک کے حالات پوری طرح سازگار تھے، کمیونسٹ ملکوں میں پریس پر حکومت کا مکمل قبضہ ہے۔ وہ ملک کے اندر سے کسی تردید کے خوف کے بغیر جو کچھ چاہے نشر کر سکتی ہے۔ وہ اگر ایسے اعلان کرے جو ملک کی پوری آبادی کی خواہشات کے خلاف ہوں تو سارے ملک میں اس کا کوئی باشندہ اس کے خلاف ایک بیان بھی شائع نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کمیونسٹ حکومتوں نے ایک منظم اسکیم کے تحت مسلسل یہ پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ کمیونسٹ ممالک کی حکومتیں دنیا کی بہترین حکومتیں ہیں اور ان کو اپنے ملک کے باشندوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ چونکہ کمیونسٹ ممالک میں ہر شخص کا رزق براہِ راست حکومت کے ہاتھ میں ہے اس لیے انتخابات کے موقع پر لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ کمیونسٹ نمائندوں کے حق میں اپنا ووٹ دیں۔ کیوں کہ ان کی مخالفت کرنے کے معنی دراصل موت کے ہیں۔ اس طرح اپنے حق میں جبری رائیں حاصل کر کے کمیونسٹ حکومتیں یہ العان کرتی ہیں کہ ان کے ملک کی ساری پبلک ان کے ساتھ ہے اور ان پر پورا اعتماد کرتی ہے مگر جبر اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کسی ملک کے واقعی حالات کو بدلا نہیں جا سکتا۔ حکومتیں سماجی انصاف کا اعلان کرتی ہیں مگر حقیقتہً وہاں سماجی ظلم پایا جاتا ہے۔ لوگ بظاہر حکومتوں کی تائید کرتے ہیں مگر دلوں کے اندر حکومت کے خلاف آگ سلگ رہی ہے۔ بیلٹ پیپر پر لوگ کمیونسٹ نمائندوں کے حق میں اپنی رائے درج کرتے ہیں مگر اندر اندر مستقل طور پر جوابی انقلاب کی
خواہش امنڈ رہی ہے۔ چنانچہ تمام کمیونسٹ ملکوں میں حکومت کا مستقل کام یہ ہے کہ وہ ایسے افراد کو ڈھونڈ کر نکالے جو موجودہ نظام سے بے زار ہیں اور اس کو بدل کر دوسری بہتر حکومت لانے کا خواب دیکھ رہے رہیں۔ اخبارات میں آئے دن یہ اطلاع آتی رہتی ہے کہ فلاں کمیوسٹ ملک میں ایک سازشی گروہ کا انکشاف ہوا ہے جو حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتا تھا اور بڑے بڑے لیڈر اور حکام اس الزام میں گرفتار کر کے جیلوں م یں بند کر دئیے جاتے ہیں۔
کمیونسٹ حکومت کی اس دوطرفہ کارروائی نے خود ہی ان کے جھوٹ کا پول کھول دیا ہے ، اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کمیونسٹ حکومتوں کا یہ دعویٰ محض جھوٹا دعویٰ ہے ہے کہ ان کے علاقہ میں پبلک پوری طرح مطمئن ہے اور حکومت سے اس قدر اتفاق رکھتی ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے سوا کسی دوسری پارٹی کے بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ ظاہر ہے کہ اگر پبلک کے اطمینان کا وہی حال ہے جو آپ بتاتے ہیں تو جوابی انقلاب کی کوششیں نہیں ہونی چاہئیں جن میں خود آپ کے اقرار کے مطابق آپ کے ملک کے اعلیٰ ترین طبقہ تک کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ جب آپ کے یہاں انتخابات میں صد فی صد ووٹر اپنے ووٹ استعمال کرتے ہیں اور تمام کے تمام ووٹ کمیونسٹ نمائندوں کے حق میں دئیے جاتے ہیں تو آخر یہ مخالفین کہاں سے وجود میں آ گئے۔ کیا انتخابات کے وقت انھیں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا ، یا مخالفت کے باوجود انھوں نے ووٹ آپ ہی کو دیا۔ آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ کے ملک میں اظہارِ رائے اور تنظیم کی مکمل آزادی ہے۔ پھر ان مخالفین نے ایسا کیوں نہیں کیا کہ ملکی پریس میں آپ کے خلاف آواز بلند کرتے ، اپنی علیحدہ جماعت بنا کر کوشش کرتے کہ آئینی طور پر موجودہ حکومت کو ہٹا سکیں۔
یہ واقعات اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہیں کہ کمیونسٹ ممالک میں پبلک کے اندر زبردست بے چینی کے باوجود اس کے اظہار کے تمام آئینی دروازے بند ہیں اس لیے وہ غ یر آئینی طریقوں سے ظہور کر رہی ہے۔ کمیونسٹ حکومتوں کا ایک طرف یہ العان کرنا کہ انھیں انتخابات میں صد فی صد ووٹ ملتے ہیں اور دوسری طرف ہزاروں آدمیوں کو اس جرم میں قید کرنا کہ وہ موجودہ کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ کمیونسٹ ممالک میں انسانی آزادی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ آدمی اگر موجودہ حکمراں گروہ سے اختلاف کرنا چاہے تو اس کے لیے تمام آئینی اور جمہوری دروازے بند ہیں۔ اس کو اس بات کی آزادی تو ضرور ہے کہ جب انتخابات کا ڈراما ہو تو اس میں حکمراں طبقہ کے نمائندوں کو اپنا ووٹ دیدے لیکن اگر وہ ان سے اختلاف رکھتا ہے یا انھیں بدلنا چاہتا ہو تو وہ کھلے پلیٹ فارم پر اپنی اس رائے کا اظہار نہیں کر سکتا، اس کے لیے اسے سازشوں اور خفیہ کارروائیوں کا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔
روس کے نئے لیڈروں نے اعلان کیا ہے کہ اب کبھی روس میں سٹالن کی تاریخ نہیں دہرائی
جائے گی اور سوویٹ یونین خالص مارکسی لیننی طریقہ پر عمل کر کے اشتراکیت کی تعمیر جاری رکھے گا۔ مسٹر خروشچیف نے بیسویں کانگرس میں جو رپورٹ پیش کی تھی اس کے صاف معنیٰ یہ تھے کہ کارکسزم اپنے اس دعویٰ میں بری طرح ناکام ہو گیا ہے کہ مادّی حالات کی تبدیلی سے انسانی سماج کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ مگر روسی لیڈروں نے یہ اعتراف اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ اپنی غلطی تسلمی کر لیں بلکہ اس کا محرک دراصل یہ واقعہ تھا کہ سٹالن کی حکومت سے روس کی پبلک بے حد عاجز آ چکی تھی اور آہنی گھیرے کے باوجود دنیا کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ روس کے اندر آزادی کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس لیے سٹالن کے وارثوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی رعایا کو اور ساری دنیا کو یہ باور کرائیں کہ ان کی حکومت سٹالن کی حکومت سے مختلف ہو گی۔
اس کی دو صورتیں تھیں، ایک تو یہ کہ وہ مارکسز سے توبہ کر لیتے جو دراصل ان حالات کا واقعی سبب تھا اور اجتماعی ملکیت کا نظام ختم کر کے اپنے یہاں آزاد معیشت کا نظام قائم کرتے ۔ مگر وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ساری ذمہ داری ایک شخص کے اوپر ڈال دی___ انھوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ جو کچھ ہوا وہ اس طرزِ زندگی کا نتیجہ تھا جو روس میں عملاً رائج ہے کیونکہ اس طرح خود ان کی اپنی غلطی بھی ثابت ہو رہی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ سٹالن کا ذاتی کردار تھا کہ اختیارات پا کر وہ روس کا ڈکٹیٹر بن گیا۔ چنانچہ انھوں نے اجتماعی قیادت (Collective Leadership) کا نعرہ لگایا۔ انھوں نے کہا کہ اب ہمارے ملک میں ایک شخص کی ڈکٹیٹر شپ نہیں ہو گی بلکہ کئی لوگ مل جل کر حکومت کریں گے۔ اس طرح انھوں نے روس کے عوام اور روس کے محکوم ممالک کے باشندوں کو یہ یقین دلانا چاہا کہ جن نئے متولیوں کے ہاتھ میں اب ان کی قسمت آئی ہے وہ پچھلی سخت گیر حکومت سے بالکل مختلف ثابت ہوں گے۔ اب آمریت کے بجائے ان کے اوپر جمہوریت کی حکمرانی ہو گی۔ شخصی قیادت کے بجائے اجتماعی قیادت ہو گی۔ اس طرح اپنی سلطنت سے باہر دنیا کی رائے عامہ کو انھوں نے یہ یقین دلانا چاہا کہ سٹالن کے مرنے کے بعد اس کے ظلم و جبر کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔
مگر حالات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ’’اجتماعی قیادت‘‘ کا نعرہ محض فریب تھا۔ سٹالن نے اقتدار پانے کے بعد سازش اور قتل کے ذریعہ تمام ایسے لیڈروں کو میدان سے ہٹا دیا تھا جو کبھی اس کے حریف بن سکتے تھے۔ سٹالن کے بعد کریملن (Kremlin) کے اندر پھر وہی عمل شروع ہو گیا۔ اس بار اس عمل کا ہیرو روسی کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری اول خروشچیف تھا۔ پہلے مالنکوف کے ذریعہ بریا کے گروہ کو ختم کیا گیا۔ اس کے بعد روسی افواج کے مالک مارشل زوکوف کو ساتھ لے کر روس کے اعلیٰ ترین لیڈروں کالنکوف ، مالوٹوف ، شپیلوف اور کگا نووچ کو نکال باہر کیا گیا اور جب یہ کام پوری طرح انجام پا چکا تو خود زوکوف کو بھی ایک سازش کے بعد ٹھیک اس وقت برطرف کر دیا گیا جب کہ وہ ایک طویل سرکاری
دورہ پر یوگوسلاویہ گئے ہوئے تھے۔ اس طرح چند سال بھی نہیں گزرے تھے کہ ’’اجتماعی قیادت‘‘ کا نعرہ بکھر گیا اور بالآخر خروشچیف اسی طرح روس کا وحدہٰ لا شریک مالک بن گیا جس طرح اس سے پہلے سٹالن رہ چکا ہے۔
خروشچیف ۱۹۵۸ء میں روس کا وزیراظعم بنا۔ اس نے مذکورہ بیسیویں کانگرس میں ظلم اور آمریت کے جو الزام اپنے پیش رو اسٹالن پر لگائے تھے ، ٹھیک وہی الزام بعد کو خود پر لگائے گئے ۔ چنانچہ اس نے کمیونسٹ پارٹی کے دبائو کے تحت ۱۹۶۴ء میں وزیراظعم کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد وہ خانہ قید زندگی گزارتا رہا۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۱ء کی ایک شام کو اپنے مکان میں مر گیا۔
روس کے وہ سائنسی مظاہرے جو زوکوف کی برطرف کی برطرفی کے فوراً بعد کئے گئے دراصل انھیں تاریک حالات پر پردہ ڈالنے کی کوششیں ہیں۔ روس کے ان حالات نے پھر دنیا کو یہ سمجھنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جمہوریت اور اجتماعی قیادت کا نعرہ محض جھوٹا نعرہ ہے ، سٹالن اگرچہ مر گیا ، لیکن روس میں جب تک مارکسی نظریۂ حیات کی حکمرانی ہے ، وہاں سٹالن ازم زندہ رہے گا۔ ان حالات میں روسی لیڈروں نے یہ بہترین موقع سمجھا کہ ’’مصنوعی چاند‘‘ اڑا کر دنیا کی نگاہ حقیقی مسئلہ سے ہٹا کر اس کی طرف کر دی جائے۔ ایک اخبار نے روس کے اس سائنسی مظاہرہ پر بہت دلچسپ کارٹون شائع کیا تھا۔ اس نے دکھایا کہ خروشچیف نے فٹ بال کی مانند ایک گولے کو زور سے کک لگائی اور وہ فضا میں پہنچ کر ناچنے لگا۔ یہ تصویر بنا کر اس نے فٹ بال پر لکھ دیا۔ ’’مارشل زوکوف‘‘
اکتوبر انقلاب کے بعد روس میں جو حالات پیش آئے۔ بعض مخلص اشتراکی اس کو ’’انقلاب سے غداری‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک انقلاب کی ناکامی اس کے اصولوں کی ناکامی نہیں تھی ، بلکہ یہ صرف اس بات کا نتیجہ تھی کہ بدقسمتی سے وہاں سٹالن جیسا ایک شخص برسرِ اقتدار آ گیا۔ مشہور سوشلسٹ مسٹر جے پرکاش نارائن نے کہا ہے:
’’جدلیاتی مادیت انسانیت کی تکمیل کا ایک عقیدہ ہے جسے روس میں ایک ڈکٹیٹرانہ راجیہ کا مذہب بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ۱؎
مگر یہ تاویل اپنی تردید آپ کر رہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ خود اشتراکی نظام کی یہ کمزوری تسلیم کر رہے ہیں کہ اس میں حکومت کے ہاتھ میں بے پناہ طاقت آ جاتی ہے۔ یہ تاویل دوسرے لفظوں میں خود اس امکان کو تسلیم کر رہی ہے کہ جدلیاتی نظام ایک ایسا ن ظام ہے جس کے سربراہ کار افرار اگر چاہیں تو نہایت آسانی سے اس کو ڈکٹیٹر انہ راجیہ کی شکل دے سکتے ہیں ایسی حالت میں آپ کے پاس وہ کون سا روک ہے جس کے ذریعہ آپ یہ توقع کرتے ہیں کہ ان سوشلسٹ حکمرانوں کو بگڑنے سے بچا سکیں گے جو تاریخ کے تمام شہنشاہوں سے زیادہ اختیارات کے حامل ہوں گے۔ اسی پیچیدگی کا جواب دیتے ہوئے اشوک مہتا نے کہا ہے :
۱؎ جمہوری سوشلزم، صفحہ ۱۳
’’سوشلزم کی اقتصادیات کا رحجان مرکوزیت کی طرف رہتا ہے۔ اس لئے اس کی سیاست کا جمہوری اور غیر مرکوز ہونا اور سنسکرتی کا آغاز ہونا ازبس ضروری ہے۔‘‘ ۱؎
مگر یہ جواب ایک موہوم تمنا سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ سوشلسٹ مفکرین جب سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید کرتے ہیں تو یہ ثابت کرنے میں پورا زور صرف کر دیتے ہیں کہ ذرائع معاشی کا ایک گروہ کے ہاتھ میں آ جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ پوری سماجی زندگی اس گروہ کے ہاتھ میں چلی جائے اور سارا سماج اس کا غلام بن کر رہ جائے۔ مگر اپنے محبوب سوشلسٹ نظام میں ذرائع معاش کو حکمراں طبقہ کے ہاتھ میں دے کر وہ امید رکھتے ہیں کہ پھر بھی آزادی اور جمہوریت باقی رہے گی۔ سوال یہ ہے کہ جب سوشلسٹ نظام میں ایک بار سیاست اور اقتصادیات کو مرکوز کر دیا جائے گا تو پھر کون سی طاقت ہو گی جو دوسری چیزوں کو آزاد رکھ سکے گی۔ اگر ملکیتی نظام میں نجی سرمایہ داروں کو کچھ مواقع حاصل ہوں تو وہ لٹیرے بن جاتے ہیں مگر سوشلسٹ نظام میں سینکڑوں گنا زیادہ اختیارات ایک محدود تر گروہ کے ہاتھ میں دینے کے بعد بھی یہ گمان کیا جاتا ہے کہ آزادی باقی رہے گی۔ سوشلسٹ مفکرین کا یہ بہت بڑا تضاد ہے کہ وہ ایک طرف اس تمدنی حل کو صحیح سمجھتے ہیں جو مارکس نے تجویز کیا ہے دوسری طرف اس حل کی اولین تجربہ گاہ__ روس __ کی شدید مذمت کرتے ہیں کہ وہاں جبر و ظلم کا نظام قائم ہے۔
سوال یہ ہے کہ روس میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔ آخر جمہوری ممالک میں وہی کچھ کیوں نہیں ہونے لگتا۔ فرانس میں کوئی حکومت پائیدار نظام قائم نہیں کر سکی تو ملک نے پچھلے دس سال کے عرصہ میں ۲۵حکومتیں بدل ڈالیں ۔ مگر روس میں پچاس سال کے عرصہ میں ایک بھی حکومت نہیں بدلی۔ وہاں موت کے فرشتہ کے سوا اور کسی کو یہ طاقت حاصل نہیں ہے کہ حکمراں شخص کو اپنے سر سے ہٹا سکے۔ اس کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اجتماعی ملکیت کے نظام میں کسی حکومت کو اتنے وسیع اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جو کبھی کسی زمانہ میں کسی بدترین شہنشاہ کو بھی حاصل نہیں ہوئے تھے۔ پھر آپ جو حکومت بنانے والے ہیں وہ اگر اقتدار پانے کے بعد اسی طرح بگڑ گئی جس طرح سٹالن کی حکومت بگڑ گئی تھی تو آپ کیا کریں گے۔
سوشلزم کو سیاسی جبر کے بغیر نافذ کرنے کا خیال ایک خطرناک خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ انسان کی اس کمزوری کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اس کی تاویل کر کے ساری ذمہ داری حالات پر ڈال دینا چاہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹالن نے جو کچھ کیا وہ اشتراکی نظام اور جدلیاتی اخلاق کا لازمی نتیجہ تھا۔ کوئی بھی دوسرا شخص جو اس کی جگہ ہوتا وہ اس کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا تھاجوسٹالن نے کیا۔ مارکس کو اقتدار نہیں ملا مگر اس کی تحریروں میں اس کا جو کردار نظر آتا ہے وہ سٹالن
۱؎ جمہوری سوشلزم، صفحہ ۱۳۔
کے کردار س ے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ مارکس نے خود کہا تھا کہ ’’ہم جلّاد ہیں‘‘ مئی ۱۸۴۹ء میں جب جرمنی کی حکومت نے مارکس کو جلاوطن کر دیا اور اس کو مجبوراً اپنا اخبار جدید رائیں گزٹ بند کر کے فرانس جانا پڑا تو اخبار کے آخری نمبر ۱۹ مئی کی اشاعت میں اس نے لکھا:
’’ہمیں ستانے کے بہانے ڈھونڈنے کے لئے حکومت کیوں جھوٹ اور افترا کے پل باندھ رہی ہے، ہم انقلابی ہیں جب ہمارے دن پھریں گے تو ہم اپنے تشدد کے لئے بہانے نہیں تراشیں گے۔‘‘ ۱؎
اس طرح کی بہت سی تحریریں ہیں جن میں اشتراکیت کے پیغمبر کا اخلاق پڑھا جا سکتا ہے مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظلم اشتراکیت کی عین فطرت ہے۔ اجتماعی ملکیت کا حل ایک بالکل غیر فطری حل ہے اور تاریخ کی تمام روایات کے بالکل خلاف ہے، اس کو نافذ کرنے اور نافذ رکھنے کے لئے تشدد ناگزیر ہے۔ سٹالن نے جو کچھ کیا وہ کمیونزم کے لازمی نتائج تھے جن کی ابتدا پورے زور شور کے ساتھ خود لینن کے زمانہ میں ہو چکی تھی۔ ماسکو کا یہ اعلان کہ ’’سٹالن آج کے دور کا لینن ہے‘‘ ایک معنی میں اس کی تعریف ہے اور دوسرے معنی میں ا س واقعہ کا اظہار ہے کہ لینن اگر زندہ رہتا تو اس کی پالیسی بھی وہی ہوتی جو بعد کے زمانوں میں سٹالن نے اختیار کی لینن کو زیادہ تر محنت کش طبقہ کے ان ’’دشمنوں‘‘ سے جنگ کرنی پڑی جو ’’سرمایہ دار‘‘ تھے اور سٹالن کو ان دشمنوں سے بھی لڑنا پڑا جو خود پارٹی کے اندر پیدا ہو گئے۔ لینن کا زمانہ انقلاب کی ابتداء کا زمانہ تھا۔ اس وقت اندرنی جھگڑے زیادہ نہیں ابھر تھے ۔ اس لئے اس کا نشانہ زیادہ تر روس کا ’’آخری سرمایہ دار‘‘ اور ملک کی غیربالشویک پارٹایں تھیں۔ مگر سٹالن کے زمانہ میں خود پارٹی کے اندر لیڈر شپ حاصل کرنے کی جنگ شروع ہو چکی تھی جیسا کہ عموماً انقلاب کے بعد ہوتا ہے۔ اس لئے سٹالن کو ’’گھر کے غداروں‘‘ سے بھی لڑنا پڑا۔ لینن نے زیادہ تر باہر کے لوگوں پر ہاتھ صاف کئے تھے۔ سٹالن کو خود کمیونسٹوں کے خون سے بھی ہولی کھیلنی پڑی۔ یہ جو کچھ ہوا اگر خود مارکس روس کا وزیر اعظم ہوتا تو اس کو بھی وہی کچھ کرنا پڑتا جو سٹالن نے کیا۔ جہاں سماج کو دو متضاد طبقوں میں بانٹ دیا جائے وہاں دشمنی اور تشدد کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اور جب دشمنی اور تشدد کے رحجانات ایک بار پیدا ہو گئے تو وہ کسی ایک حد پر نہیں رکتے۔ یہ سانپ صرف دوسروں کو نہیں ڈستا بلکہ خود اپنے بچوں کو بھی نگل جاتا ہے۔ مشہور سوشلسٹ لیڈر اشوک مہتا نے بہت صحیح کہا ہے کہ:
’’راز کو قتل کرنے کے بعد ناگزیر طور پر آپ ٹراسٹکی کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔‘‘۲؎
۱؎ شیرجنگ، صفحہ ۷۷۔ ۲؎جمہوری سوشلزم، صفحہ ۱۲۸
یہ حقیقت ہے کہ لینن کے روس میں وہ تمام عناصر اپنی ابتدائی حالت میں موجدہ تھے جو بعد کو سٹالینی روس میں نمایاں ہوئے۔ اگر لینن زندہ رہتا اور اس کو وہ عمر ملتی جو سٹالن کو ملی تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ حالات سے مجبور ہو کر ہر وہ اقدام کرتا جو سٹالن نے اپنے دورِ اقتدارمیں کئے ہیں۔ کمیونزم جب برسر اقتدار ہو تو وہ سٹالن ازم ہی ہو گا ، اس کے علاوہ کچھ اور ہونا ممکن نہیں ہے۔
کمیونزم کا دعویٰ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس نے انسانیت کے مسائل کا صحیح حل پیش کیا ہے اور کمیونسٹ ممالک روئے زمین کے خوش قسمت علاقے ہیں جہاں عملاً یہ حل اپنے نتائج دکھا رہا ہے۔ جہاں انسان کو وہ سب کچھ حاصل ہوگیا ہے جس کا وہ ابھی تک صرف خواب دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک عظیم جھوٹ ہے جو صرف اس صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب کہ کمیونسٹ مالک کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے کے تمام آزاد ذرائع ختم ہو جائیں اور صرف وہاں کی حکومتوں کے سرکاری بیانات ہی براہِ است علم حاصل کرنے کا تنہا ذریعہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکی ممالک اپنے جھوٹ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے نشرواشاعت کے تمام ذریعوں پر مکمل قبضہ کر لیتے ہیں اور شہری زندگی پر ایسی زبردست پابندیاں عائد کر دیتے ہیں کہ کسی شخص کے لئے ملک کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ طور پر اظہار خیال کا موقع باقی نہیں رہتا۔ اس اعتبار سے بھی اشتراکیت کا ظلم و تشدد کوئی اتفاقی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہری آزادی کو منسوخ کئے بغیر اشراکیت کے دعویٰ کو ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا پرستانہ نظام کے سوا دنیا میں کوئی بھی ایسا نظام نہیں ہے جو صحیح معنوں میں انسانیت کو خوش حالی اور امن دے سکے۔ انسانی ساخت کا کوئی نظام اگر اپنی کامیابی ثابت کرنا چاہتا ہے تو اس کی ایک ہی شکل ہے، وہ یہ کہ جس جگہ یہ نظام نافذ ہو اس کے گرد آہی پردہ کھڑا کر دیا جائے تاکہ باہر سے کوئی شخص جھانک کر نہ دیکھ سکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ اور اندرونی طور پر اس کی پالیسی یہ ہو کہ خیالات و افکار کے پھیلنے کے تمام ذراع کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور پھر فرضی طور پر دنیا کو یہ خبر سنائے کہ اس آہنی گھیرے کے اندر جنت بسی ہوئی ہے۔ اندر سے گولیوں کی آواز سنائی دے تو وہ کہے کہ غداروں کو ان کے انجام تک پہنچایا جا رہا ہے۔ کوئی شخص جیل کی دیوار پھاند کر بھاگ نکلے اور اندری کی داستان سے دنیا والوں کو خبردار کرنا چاہے تو وہ جواب دے کہ یہ دشمن کا ایجنٹ ہے جو ہمارے بارہ میں غلط پروپیگنڈا کرتا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ کمیونزم نے اپنی سیاسی تشکیل کے لئے ڈکٹیٹر شپ کو پسند کیا۔ اس کے سوا کوئی اور سیاسی ڈھانچہ اس کے مطلب کے لئے مفید ہی نہیں و سکتا۔ اس کا دعویٰ اس کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کو اپنے علاقہ میں مکمل اقتدار حاصل ہو، جہاں حکمت کی زبان کے سوا تمام زبانیں بند کر دی گئی ہوں، جہاں تمام ذرائع و وسائل پورے طور پر اس کے قبضہ میں ہوں، وہ جس کو چاہے گرفتار کر لے، جس کو چاہے جلاوطن کر دے، جس کو چاہے گولی مار دے۔ جہاں پبلک کا کوئی پریس بھی نہ ہو جو اصل صورتِ حال سے دنیا کو باخبر کر سکے۔’’سرخ جنت‘‘ کی ساری اہمیت اسی وقت تک ہے جب تک اس کے گرد آہنی پردہ پڑا رہے۔ اس پردہ کے بغیر سرخ جنت کبھی قائم نہیں کی جا سکتی۔
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے’’ڈکٹیٹرشپ‘‘ جے تصور کو الگ کرکے جمہوری طرز پر سوشلزم قائم کرنا چاہا۔ انہیں اس سلسلہ میں سخت ناکامی ہوئی۔ جاپان میں ۱۹۴۵ء کے انتخابات میں سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر ایک سو ممبر کامیاب ہوئے تھے۔ اس کے بعد جب ۱۹۴۷ء میں دوسرا الیکشن ہوا تو پارٹی کے کامیاب ممبروں کی تعداد۱۴۶ ہوگئی۔ اس وقت سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ اس نے مخلوط وزارت بنانے کا فیصلہ کیا اور غیر سوشلسٹ عناصر کے ساتھ مل کر جاپان میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کا نتیجہ بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ جاپان کی پبلک سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ جمہوریت سوشلزم کی برکتوں کو دیکھ کر بالکل اس پر فدا ہو جاتی اور اگلے الیکشن میں وہاں کی سوشلسٹ پارٹی کو صد فیصد ووٹ ملتے مگر ہوا کیا۔ دوسر برس کے بعد۱۹۴۹ء میں جب جاپان کے عام انتخابات ہوئے تو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبران کی تعداد پارلیمنٹ میں ۱۴۶ سے گھٹ کر صرف۴۸ رہ گئی۔۱؎
ہندوستان میں بھی اس قسم کے تماشے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔۱۹۵۳ء کے آخر میں ٹراونکورکوچین(موجودہ کیرالا)میں پرجا سوشلسٹ پارٹی کی وزارت قائم ہوئی۔ تھوڑے دنوں بعد وہاں کی حکومت کے بعض اعمال کی وجہ سے پبلک میں شورش پیدا ہوگئی یہاں تک کہ عوام اور حکومت میں تصادم کی نوبت آگئی۔۱۱اِگست۱۹۵۴ء کو پولیس فائرنگ ہوئی جس میں ایک درجن آدمی زخمی ہوئے اور آٹھ آدمی ہلاک ہوگئے۔ یہ فائرنگ کسی اشتراکی اسٹیٹ میں نہیں ہوئی تھی کہ نیا کو اس کی آواز ہی سنائی نہ دیتی، فوراً اس کی خبر سارے ملک میں پھیل گئی اور سوشلسٹ حکومت پر سخت اعتراضات ہونے لگے۔ خود پارٹی کے اندر سخت انتشار پیدا ہوگیا۔ بالآخر اس وزارت کا انجام یہ ہوا کہ اسمبلی میں خود پارٹی کے ایک ممبر نے اس کے خلاف عدم اعتماد کار زولیوشن پیش کیا جو کثرت رائے سے پاس ہوگیا اور صرف دس مہینے کام کرنے کے بعد وزارت ختم ہوگئی۔
بعض لوگوں اس قسم کی دلیل دیتے ہیں کہ’’سیاسی طور پر سوویت روس میں ڈکٹیٹر شپ سہی اور یہ بھی درست کہ اس نے شخصی آزادی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس نے بھوک کے بنیادی مسئلہ کو حل کر لیا ہے۔‘‘ یہ کہنا دوسرے لفظوں میں اس بات کا دعویٰ کرنا ہے کہ ظلم اور انصاف،دینا اور چھیننا دونوں حالتیں بیک وقت ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں ۔
۱؎ اشوک مہتا ، جمہوری سوشلزم، صفحہ ۹۱۔
تاہم اگر کمیونزم کا کمال یہی ہے تو یہ صرف سوویٹ رسوس یا دوسرے کمیونسٹ ممالک کی خصوصیت نہیں، دنیا کے تمام جیل خانوں میں یہ چیز بہت پہلے سے موجود ہے۔ جیل کا قانون اگرچہ انسان کی آزادی پر پابندی عائد کرتا ہے اور اس کے اوپر ظلم کو جائز قرار دیتا ہے مگر بھوک کے بنیادی مسئلہ کو اس نے بھی حل کر دیاا ہے۔ اور ماضی کے تاریک دور میں غلام سماج کے اندر غلاموںاور جاگیرداری سماج
کے اندر کمیروں(Serfs) کو بھی یہ چیزیں حاصل تھیں ان سے ان کی آزادی چھین لی گئی تھی مگ ان کے آقائوں نے ’’بھوک کے بنیادی مسئلہ‘‘ کو ان کے لئے حل کر دیا تھا۔
تاہم اس سے طع نظر، جو لوگ روس کی معاشی خوش حالی کا قصیدہ پڑھتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ خبر آپ کو ملی کہاں سے۔ کیا روسی اخبارات اور وہاں سے شائع ہونے والی کتابوں کے ذریعہ۔ مگر یہ تمام اخبارات اور کتابیں خود حکومت کی طرف سے شائع ہوتی ہیں، پھر ان کا کیا اعتبار۔ یہ تو خود فریق کا اپنا بیان ہے نہ کہ کسی غیر جانب دار شخص کا۔ پھر جس طرح روس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے باشندے معاشی اعتبار سے بہت خوش حال ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ اس بات کو بھی نہایت زور شور کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ’’روس میں مکمل آزادی ہے‘‘ بلکہ اس کا تو دعویٰ ہے کہ روس کے ۲۰ کروڑ عوام تاریخ میں وہ پہلے عوام ہیں جو حقیقی معنوں میں آزاد ہوئے ہیں۔ پھر کس بنیاد پر آپ ایک ہی شخص کے دعوے کو ایک معاملہ میں صحیح تسلیم کرتے ہیں اور دوسرے معاملہ میں اس کو جھوٹا قرار دیتے ہیں۔ اور اگر روس کی فراہم کردہ معلومات پر آپ کے دعویٰ کی بنیاد نہیں ہے تو کیا زائرین روس۱؎ کے بیانات اس کا ماخذ ہیں۔ مگر زائرین کے بیانات میں زبردست تضاد ہے کمیونسٹ نواز سیاح اگر یہ کہتے ہیں کہ وہاں معاشی جنت بسی ہوئی ہے تو اس کے مخالفین کا بیان اس کے بالکل برعکس ہے۔ پھر آپ کسے تسلیم کریں گے۔ کیا آپ نے روس
۱؎ یہاں ایک واقعہ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جو اس وقت پیش آیا جب ہندوستان کے دوسرے عام الیکشن سے پہلے کمیونسٹ پارٹی ملک کی بدحالی اور حکومت کی نالائقی کا حوالہ دے کر اپنے لئے ووٹ مانگ رہی تھی۔ جنوری۱۹۵۷ء میں کلکتہ کی ایک پریس کانفرنس میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری مسٹراجے گھوش سے پوچھا گیا۔ کیا چین کے وزیراعظم مسٹر چواین لائے کی ان تقریروں سے آئندہ انتخابات پر کوئی اثر پڑے گا جس میں انہوں نے موجودہ حکومت کی تعریف کی ہے اور ہندوستان کی ترقیوں کا اعتراف کیا ہے‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ہم ملک کا حال زیادہ جانتے ہیں نہ کہ ایک غیر ملکی جو ہمارے ملک میں صرف چند دن کے لئے آئے‘‘____ غیر ملکی سیاح اگر ہندوستان کو ترقی یافتہ کہیں تو اس سے ہندوستان کی ترقی ثابت نہیں ہوتی۔ مگر اسی قسم کے لوگ روس کا قصیدہ پڑھیں تو اس سے وہاں کی ترقی ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ ہے کمیونسٹ منطق۔
جاکر وہاں کے باشندوں سے براہ راست معلومات حاصل کی ہیں۔ لیکن جب آپ خود وہاں سیاسی جبر کو تسلیم کرتے ہیں تو آپ کیسے یقین کرتے ہیں کہ وہاں کا کوئی باشندہ آپ سے ایسی باتیں کہے گا جو حکومت کی اعلان کردہ پالیسی کے خلاف ہو۔ کمیونسٹ ملکوں میں زبان کی آزادی نہیں ہے۔ اس لئے
وہاں کی ہراطلاع سرکاری اطلاع ہوتی ہے۔ روس میں جو لوگ سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں وہ جب سرکاری انتظام کے تحت حکومت کے ترجمان کے ذریعہ وہاں کے کسی باشندہ سے گفتگو کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ اپنے ملک کی تعریف میں قصیدے سناتا ہے مگر دوسری طرف صرف کمیونسٹ ممالک ہی دنیا میں ایسے ملک ہیں جہاں سے ہزاروں لاکھوں باشندے بھاگ بھاگ کر مستقل طور پر باہر کے ملکوں میںپناہ لے رہے ہیں اور اپنے ملک کے بارہ میں ایسے ہولناک واقعات کا انکشاف کرتے ہیں جس کا تصور بھی آدمی کو لرزا دینے کے لئے کافی ہے۔ ایسی حالت میں کونسی بات مانی جائے اور کونسی بات نہ مانی جائے۔ مہاتما گاندھی نے صحیح ہا تھا کہ جس ملک میں لوگ شخصی آزادی اور تحریر و تقریر کی آزادی سے محروم ہوں وہاں یہ پتہ چلانا ناممکن ہو جاتا ہے کہ لوگ فاقہ سے نہیں مر رہے ہیں۔
اس موقع پر میں ان مغالطہ آمیز معلومات کا تجزیہ نہیں کروں گا جو روس کی ترقی ثابت کرنے کے لئے عموماً پیش کی جاتی ہیں۔ میں اس سے بحث نہیں کروں گا کہ روس پر کتابیں لکھنے والے بیشتر مصنف اس کی مشینوں، فیکٹریوں گندھک کے تیزاب اور ٹریکٹروں کی باتیں کرنے لگتے ہیں، حالانکہ انہیں ذکر کپڑے، مکان، اناج اور مکھن کا کرنا چاہیے۔ وہ ان دونوں قسم کی چیزوں کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں کی نوعیت جداگانہ ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ان میں سے ایک کی موجودگی لازمی طور پر دوسری نوع کی چیزوں کی فراوانی کا سبب بنے۔ میں اس کا ذکر بھی نہیں کروں گا کہ اشتراکی ملکوں میں ترقیاتی منصوبوں کی قبل ازوقت کامیابی کی داستان کس طرح محض دھوکا ہے۔ کیونکہ پرجا سوشلسٹ لیڈر اچاریہ کر پلانی کے بقول’’منصوبوں کی کامیابی کا دارومدار تو اچھے سیکرٹریوں پر ہوتا ہے جو اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کی مدد سے منصوبہ کو کامیاب نا دیتے ہیں۔‘‘
میں اس کا بھی ذکر نہیں کروں گا کہ روس میں اجرتوں کی بڑی بڑی شرحیں جن کا اعلان بڑے زور شور کے ساتھ ہوتا رہتا ہے اس وقت کتنی بے معنی ہو جاتی ہے جب ان کا مقابلہ وہاں ضروریات زندگی کی بے انتہا بڑھی ہوئی قیمتوں سے لگایا جائے۔ میں اس کا بھی ذکر نہیں کروں گا کہ اشتراکی ملکوں میں وزراء اور بڑے بڑے عہدے داروں کے بارہ میں بہت کم تنخواہ لینے کا پروپیگنڈا اس وقت سرتاپا جھوٹ معلوم ہوتا ہے جب اس حقیقت پر نظر ڈالی جائے کہ تنخواہ کے نام سے تو ضرور بعض اوقات وہ ایک معمولی رقم لیتے ہیں مگر قیمتی الائونس اور خوراک اور رہائش وغیرہ کے مفت انتظام کے ذریعہ وہ سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں جو کسی بورژوا ملک کے وزراء اور عہدے داروں کو دیا جاتا ہے، میں اس کا بھی ذکر نہیں کروں گا کہ محض چند تقریروں اور مضامین کے ذریعہ کس طرح کسی ملک کے واقعی حالات کا
اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کی تحریریں تو ہر ملک کے بارہ میں فراہم کی جا سکتی ہیں۔ میں اس سے بھی بحث نہیں کروں گا کہ اشتراکی ملکوں میں عام پبلک کی خوش حالی کی داستان ہمیشہ اوسط اعددوشمار کی شکل میں پیش کی جاتی ہے، حالانکہ اوسط اعدادوشمار سے عام پبلک کی خوش حالی ثابات کرنا ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
یہ تمام بحثیں دراصل بعد کی بحثیں ہیں، سوال یہ ہے کہ معاشی بہتری اور خوش حالی کے بارہ میں ان دعوئوں کی نظریاتی توجیہہ کیا ہے۔ روس یا دوسرے اشتراکی ممالک یہ دعویٰ کیوں کرتے ہیں کہ جو مسئلہ دوسرے ملکوں میں حل نہ ہو سکا وہ ان کے یہاں حل ہوگیا۔ اشتراکی ملکوں کی وہ کون سی خصوصیت ہے جو انہیں سرمایہ دار ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔ یہ خصوصیت اجتماعی ملکیت کا نظام ہے۔ کمیونسٹ حضرات کا دعویٰ ہے کہ اشتراکی ملکوں میں اور خاص طور پر روس میں انہوں نے سوشلزم کو قائم کر لیا ہے اور خوش حالی کے جو افسانے نشر کئے جاتے ہیں وہ سب دراصل اسی کے نتائج یا اسی دعویٰ کی دلیلیں ہیں۔ ہم یہاں اسی اصل دعویٰ کی بابت گفتگو کریں گے۔
یہ صورتِ حال جو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ غریب اور کچھ لوگ امیر بنے ہوئے ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ مارکسزم کے نزدیک اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انسانی محنت کی پیداوار جو خود محنت کرنے والے کو ملنی چاہیے وہ دوسروں کو مل جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں افلاس کا سبب یہ ہے کہ آدمی جتنا کماتا ہے وہ پورا اسے نہیں ملتا، اور امارت کا سبب یہ ہے کہ آدمی کی کمائی کے اس بقیہ حصہ کو کچھ لوگ مفت میں ہڑپ کر لیتے ہیں۔ مثلاً بہت سے لوگ کارخانہ اور زراعتی فارم قائم کرتے ہیں اور ان سے بڑے بڑے نفع حاصل کرتے ہیں۔ یہ نفع دراصل ان مزدوروں کی مزدوری کاٹ کر حاصل کیا جاتا ہے جو ان میں کام کرتے ہیں۔ مارکس کے الفاظ میں مزدوروں کی مزدوری جو غصب کی جاتی ہے وہی نفع کہلاتی ہے‘‘ مارکس کے اس نظریہ کو’’قدرِ زائد‘‘ کا نظریہ کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ وہ اس بات کی تشریح کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں ایک طرف افلاس اور دوسری طرف دولت کی فراوانی کیونکر پیدا ہوتی ہے۔
مارکس کہتا ہے کہ کوئی تیار شدہ چیز جو ایک مخصوص قیمت پر بازار میں بکنے آتی ہے۔ اس کی قیمت کا انحصار صرف دو قسم کی چیزوں پر ہے۔ اولاً کچا مال اور مشین والات وغیرہ اور دوسرے محنت کی قوت پیدا وار جس کا بلحاظ وقت تعین ہوتا ہے۔ اس تصور کے مطابق کسی چیز میں جو قیمت پیدا ہوتی ہے اس کا سبب قدرتی اشیاء کے بعد وہ انسانی محنت ہے جو اس کے بنانے پر صرف ہوتی ہے۔ اس لئے کسی چیز کی تیاری اور تنظیم میں سامایہ دار کا ذہن جو کچھ کام کرتا ہے اور اس کو قابلِ منفعت بنانے کے لئے وہ کارخانہ سے باہر جو کوششیں انجام دیتا ہے مارکس کے نزدیک وہ’’محنت‘‘ میں شامل نہیں ہے۔ محنت صرف وہ چیز ہے
جس کو مزدور خرچ کرتا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی تیار شدہ چیز کی فروخت سے جو قیمت حاصل ہو اصولی اعتبار سے اس کو صرف مزدور اور اس میں لگی ہوئی قدرتی اشیاء کی طرف لوٹنا چاہئے، سرمایہ دار کا اس میں کچھ حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ مثلاً کپڑے کا ایک تھان ساڑے چار سو ڈالر میں فروخت ہوتا ہے۔ فرض کیجئے کہ اس میں کچا مال، ایندھن، مشنری، عمارت کا کرایہ وغیرہ کی صورت میں دو سو ڈالر لگے ہیں اور دو سو ڈالر مزدوروں کو اجرت کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ اس طرح اس کی لاگت چار سو ڈالر ہوئی۔ مگر اس کو ساڑھے چار سو میں بیچ کر جو مزید پچاس ڈالر حاصل کئے گئے وہ کہاں سے آئے، مارکس کہتا ہے کہ یہ ڈالر بھی مزدوروں ہی کا حصہ تھا۔ مگر سرمایہ دار نے ان کی اجرت میں کمی کرکے پچاس ڈالر بچا لئے اور منافع کے نام سے ان پر خود قبضہ کر لیا۔ یہی وہ’’قدر زائد‘‘ ہے جس کی وجہ سے سرمایہ دار طبقہ کے پاس سرمایہ کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ سرمایہ دار کو لوٹ کا یہ موقع ملکیتی نظام میں ملتا ہے جس میں پیداوار کے ذرائع افراد کے قبضہ میں ہوتے ہیں۔ اس لئے مارکس کی تشخیص ہے کہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت بنا دیا جائے یعنی جو پیداوار تیار کرے وہی اس کا مالک بھی ہوتا کہ پورا منافع اسی کو ملے نہ کہ کسی دوسرے کو۔ نظریہ قدر زائد کے مطابق سرمایہ دار کارخانہ سے جو منافع لیتا ہے، وہ’’قانونی ڈاکہ زنی‘‘ ہے۔ فرسٹ انٹرنیشنل کا تیسرا اجلاس ستمبر۱۸۶۸ء میں بروسلز میں ہوا۔ اس میں ایک قرار داد’’مزدور کی پیداوار مزدور کے لئے‘‘ پاس ہوئی تھی جو حسب ذیل ہے:
’’ہر وہ سماج جو کہ جمہوری اصولوں پر قائم ہو، سرمایہ کے ہر تصرف کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ چاہے وہ تصرف کرایہ کی شکل میں ہو، سود کی شکل میں ہو، منافع کی شکل میں ہو، چاہے کسی اور شکل میں ہو، محنت کو اس کی پوری اجرت ملنی چاہئے اور اس کے پرے حقوق اس کے قبضہ میں ہونے چاہئیں۔‘‘
اس بات کو ایک اور پہلو سے دیکھئے۔ مارکس نے انسانی سماج کے ارتقاء کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کے مطابق وہ موجودہ حالت سے مستقبل تک اس کے تین دور قرار دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج، سوشلسٹ سماج، اور کمیونسٹ سماج، سرمایہ دارانہ سماج وہ ہے جو اس وقت موجود ہے اور جو مارکس کے نزدیک بدترین سماج ہے۔ کمیونسٹ سماج اس کا وہ آئیڈیل ہے جہاں وہ انسانیت کو لے جانا چاہتا ہے اور سوشلسٹ سماج سرمایہ داری سے کمیونزم کی طرف سفرِ ارتقاء کا عبوری دور ہے۔ مارکس کے نزدیک یہ تینوں قسم کے سماج معاشی اسباب کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ آدمی کو زندہ رہنے کے لئے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، یہ چیزیں کوئی ایک شخص تیار نہیں کر سکتا۔ اس لئے بہت سے لوگ مل کر انہیں بناتے ہیں۔ کوئی شخص ایک کام کرتا ہے، کوئی دوسرا، اور کوئی تیسرا۔ اور پھر اپنی پیدا وار کا ایک حصہ دوسروں کو دے کر ان سے وہ چیزیں حاصل کر لیتے ہیں جو وہ خود نہیں بنا سکے۔ اسی باہمی لین دین سے وہ اجتماعی زندگی پیدا ہوتی ہے جس کو ہم سماج کہتے ہیں۔ مارکسی مارکسی نقطہ نظر کے مطابق سماج اس کے سوا کسی چیز کا نام نہیں کہ وہ باہمی
لین دین کی اجتماعی صورت ہے۔
مارکسی نقطۂ نظر کے مطابق کسی سماج کے بارہ میں یہ معلوم کرنے کے لے کہ وہ ترقی کے کس مرتبہ پر ہے، یہ دیکھنا چاہئے کہ وہاں لین دین کس طرح ہوتا ہے یہ لین دین یا تو چیزوں کی قدر تبادلہ(Exchange value) کے مطابق ہوگا۔ یا قدر اصل(intrinsic value) کے مطابق یاقدر استعمال(Use value) کے مطابق قدر استعمال کسی چیز کی اس خصوصیت کو کہتے ہیں کہ وہ انسان کی ایک ضرورت پوری کرتی ہے۔ قدر اصل اس کی وہ واقعی قیمت ہے جو انسانی محنت کی بنا پر اس کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اور قدر تبادلہ اس کی وہ قیمت ہے جو رسد اور طلب کی کشمکش سے متعین ہوتی ہے۔ اور کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہتی ہے جس سماج میں اجناس کا تبادلہ قدر استعمال کے نقطہ نظر سے ہو وہ سماج کمیونسٹ سماج کہا جائے گا جس سماج میں اجناس کا تبادلہ قدر اصل کے نقطہ نظر سے ہو وہ سماج سوشلسٹ سماج کہا جائے گا۔ اور جہاں اجناس کا لین دین قدر تبادلہ کے نقطہ نظر سے ہو ہ سماج سرمایہ دارانہ سماج کہا جائے گا۔
سماج کی ان تینوں قسموں کی تشریح دوسرے لفظں میں اس طرح کی جا سکتی ہے کہ جس سماج میں چیزوں کا لین دین نفع کی غرض سے ہو ہ سرمایہ دارانہ سماج ہے۔ جس میں کوی کسی سے نفع کا طالب نہ ہو اور ہر شخص کو اس کی محنت کے بقدر پورا معاوضہ مل جائے وہ سوشلسٹ سماج ہے اور جہاں آدمی ان دونوں قیدیوں سے بے نیاز ہو جائے، جہاں نہ تو ایسا ہو کہ آدمی ایک دوسرے سے نفع حاصل کرنا چاہے، نہ یہی ضروری ہو کہ کوئی شخص جتنا کرے اتنا ہی اس کو ملے۔ بلکہ ہر شخص کو کسی رکاوٹ کے بغیر اس کی ضروریات حسب خواہش اسی طرح مل جائیں جیسے آج ہوا اور پانی مل رہے ہیں، وہ کمیونسٹ سماج ہے جو مارکس کے عقیدے کے مطابق انسانی سماج کے ارتقاء کی بلند ترین منزل ہے۔ ایسا سماجی نظام ہے جس میں اجناس کی صرف قدرِ استعمال دیکھی جائے گی اور اسی نقطۂ نظر سے افراد مختلف جنسوںکا تبادلہ کریں گے۔ یعنی آپس میں تبادلہ کرتے وقت یہ نہ دیکھا جائے گا کہ کس نے کتنی محنت خرچ کی ہے اور اس کا اسے کتنا معاوضہ ملنا چاہئے۔ تمام تبادلے صرف ضرورت کے پیش نظر ہوں گے نہ کہ نفع طلبی یا معاوضۂ خدمت کے طور پر:
’’اگر کسی سماج میں جنس کی صرف قدرِ استعمال ہی دیکھی جانے لگی تو وہاں جنس کی قدرِ اصل اور نسبت تبادلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ اسی سماج میں انسان دو بچوں کی طرح تبادلہ کریں گے جن میں سے ایک کے پاس نارنگی ہے اور دوسرے کے پاس گڈولنا۱؎ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی چیز لینا چاہتے ہیں تو یہ آپس میں تبادلہ کرلیں گے۔ یہاں دونوں بچوں کے سامنے نارنگی اور گڈولنے کی قدرِ استعمال ہے۔ اگر بچوں کا نقطۂ نظر قدرِ اصل اور نسبت تبادلہ ہوتا تو جس
گڈولنا۔ بچوں کی گاڑی کو کہتے ہیں۔
بچے کے پاس گڈولنا تھا وہ یہ مطالبہ کرتا کہ چار درجن نارنگیاں لائو تب گڈولنا دوں گا۔ جس سماج میں جنس کو قدرِاستعمال ہی کے زاویۂ نگاہ سے دییکھا جانے ،لگے، اس سماج میں جنس کا تبادلہ اسی طرح ہوگا جیسا کہ ان بچوںنے کر لیا۔ ان بچوں اور کمیونسٹ سماج کے اجناس کے تبادلہ میں صرف یہ فرق ہوگا کہ بچوں نے یہ تبادلہ غیر شعوری طور پر کیا۔ لیکن کمیونسٹ سماج میں ایک خاص اقتصادی، سیاسی اور اخلاقی ماحول میں یہ تبادلہ شعوری طور پر ہوگا۔‘‘
جہاں تک مارکسزم کی آخری منزل یعنی کمیونسٹ سماج کا تعلق ہے، اشتراکی حضرات کا دعویٰ نہیں ہے کہ انہوں نے اس آخری منزل تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ نہ بقیدِ ہوش و حواس کوئی کمیونسٹ اس کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ فی الحال ان کا دعویٰ صرف یہ ہے کہ انہوں نے انسانی سماج کو سوشلزم تک پہنچا دیا ہے یعنی موجودہ اشتراکی ملکوں میں ہر شخص کو اس کی ضرورت کے بقدر اشیاء تو فراہم نہیں کی جا سکی ہیں مگر انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہوگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دار ممالک کے مقابلہ میں اشتراکی ملکوں کی خوشحالی کا سبب یہ ہے کہ ایک جگہ آدمی کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا اور دوسری جگہ آدمی کو اس کی پوری کمائی مل جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک میں آدمی محنت کرکے جو کچھ کماتا ہے اس میں سے ایک حصہ سرمایہ دار اچک لے جاتا ہے، اس طرح خود محنت کرنے والے کے پاس اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے تھوڑی رقم رہ جاتی ہو۔ اس کے برعکس سوشلسٹ ممالک میں یہ اچکنے کا عمل ختم ہوگیا ہے اور آدمی کو اس کی محنت کی پوری کمائی دیدی جاتی ہے۔
اس اصول کے مطابق ہم کو ایک ایسی واضح بنیاد مل جاتی ہے جس کی روشنی میں جانچ کر ہم یہ دیکھ سکیں کہ کمیونسٹ ممالک میں فی الواقع خوشحالی آئی ہے یا نہیں۔ اشتراکی ملکوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ صرف یہ ہے کہ ذرائع پیدا وار کی ملکیت افراد کی بجائے حکومت کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ مگر انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زمین اور کارخانے کے نجی مالکوں کو برطرف کرکے ان کو ’’سماجی ملکیت‘‘ کے ٹھیکیداروں کے قبضہ میں دیدیا جائے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مارکسی تشریح کے مطابق ہر شخص اپنی محنت کے بقدر پورا معاوضہ پانے لگے اور اس کی محنت کے حاصل میں کوئی دوسرا شخص شریک نہ ہو۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا، مارکسی نظریہ کے مطابق کسی پیداواری نظام میں جو منافع ہوتا ہے وہ تمام تر ان لوگوں کی محنت کا نتیجہ ہے جو اس کو تیار کرتے ہیں یعنی مزدور۔ اس لئے پیداوار کا سارا منافع مزدوروں کو ملنا چاہئے۔ اس کا کہنا ہے کہ کسی چیز کی تیاری میں جو ہاتھ کام کرتے ہیں وہی اس میں قیمت پیدا کرتے ہیں اس لئے وہی اس کے پورے فائدے کے مستحق ہیں۔ منافع کی ایسی تقسیم جس میں ایسے لوگوں کو بھی شریک کیا جائے جو اس کی تیاری میں براہ راست حصہ نہیں لیتے اور دور بیٹھ کر محض اس کی رہنمائی کرتے ہیں، گویا ایک طرح کی لوٹ ہے جس کو قانون نے جائز کر دیا ہے۔ کارخانہ کا مالک جو محض اپنے سرمایہ اور انتظام کی وجہ سے اس کے منافع میں حصہ دار بن جاتا ہے وہ حصہ دار نہیں بلکہ ایک ڈاکو ہے جو مزدوروں کی محنت کی کمائی غصب کر رہا ہے۔
اس نقطۂ نظر کے مطابق سوشلسٹ سماج کے معنی یہ ہوئے کہ وہاں زمین اور کارخانہ کی تمام پیداوار صرف ان لوگوں کی ملکیت ہونی چاہئے جو’’محنت‘‘ کرکے اسے پیدا کرتے ہیں۔ اس کا سارا منافع انہیں کو دینا چاہئے اور اس میں کسی دوسرے کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے اور کیا کسی اشتراکی ملک میں اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ کوئی کارخانہ محض مزدوروں کے ذریعہ نہیں نہیں چلایا جا سکتا۔ بلکہ اس کے لئے منتظمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملکیتی نظام میں یہ خدمت نجی مالک یا اشتراکی اصطلاح میں سرمایہ دار طبقہ انجام دیتا ہے۔ اور اشتراکی نظام میں یہ خدمت براہ راست حکومت انجام دے گی۔ پھر حکومت کے اخراجات اور انتظامی عہدیداروں کی تنخواہ کہاں سے دی جائے گی۔ اگر کارخانہ کی آمدنی سے اسے حاصل کیا جائے تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہی سابق لوٹ نئی شکل میں واپس آگئی ہے۔ سرمایہ دار مزدوروں کی اجرت میں کمی کرکے ایک رقم بچا لیتا تھا اور منافع کے نام سے اس پر قبضہ کر لیتا تھا۔ آپ بھی اسی طرح کارخانہ کی آمدنی سے ایک رقم بچا کر حکومت کی طرف منتقل کر دیتے ہیں تاکہ اس کے اخراجات پورے ہو سکیں۔ پھر دونوں میں فرق کیا ہوا۔ یک یہ ایک لوٹ کو مٹا کر دوسری لوٹ کو قائم کرنا نہیں ہے۔ کیا اس لوٹ کو باقی رکھتے ہوئے خوشحالی کا وجود ممکن ہے۔
اشتراکی ملکوں میں یہ نئی قسم کی لوٹ پورے زورشور کے ساتھ جاری ہے۔ میںژیر ژنسکی کارخانہ کی مثال دیتا ہوں۔ جو سوویٹ یونین کی کپڑے کی صنعت کے مرکزی شہراوانووہ(ivanovo) میں واقع ہے اور ملک میں سوت کا تنے کا سب سے بڑا کارخانہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کارخانہ میں۱۹۵۶ء کے اعدادوشمار کے مطابق مزدوروں کی اُجرت اور دیگر اخراجات ادا کرنے کے بعد منافع کے طور پر جو رقم حاصل حاصل کی گئی ہے وہ چار کروڑ روبل ہے۔ اس میں سے کچھ رقم ڈائرکٹر فنڈ وغیرہ میں دی گئی اور تین کروڑ ساٹھ لاکھ روبل حکومت کیخزانہ میں منتقل کر دیئے گئے۔ یعنی منافع کا۹۰فیصد حصہ۱؎ کیا یہ ٹھیک وہی سرمایہ دارانہ نظام کا ’’قدر زائد‘‘ نہیں ہے جو اشتراکی ملک میں نئے قسم کے سرمایہ دار وصول کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے لئے اشتراکی حضرات کا فتویٰ ہے کہ’’مزدور کی جو مزدوری غصب کی جاتی ہے وہی نفع کہلاتی ہے‘‘ پھر نام نہاد اشتراکی نظام میں مزدور کی پیداوار سے جو منافع حاصل کیا جاتا ہے وہ بھی آخر مزدوروں کی غصب کی ہوئی اُجرت کیوں نہیں ہے۔
سوویت روس کے مرکزی بجٹ کی آمدنی کا پچاس فیصد حصہ ریاستی کارخانوں اور معاشی تنظیموں سے آتا ہے۔۱۹۵۷ء کے بجٹ میں منافع کی یہ رقم ایک کھرب، چھپن ارب نوے کروڑ روبل بتائی گئی ہے۔ میں حکومتوںکے لئے اس طر کی آمدنی کو معاشی اعتبار سے عین درست سمجھتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے
۱؎ سوویٹ لینڈ ۔ ۱۵/ جنوری ۱۹۵۷ء
کہ اس کے بغیر کوئی نظام چلایا ہی نہیں جا سکتا۔ مگر’’قدرِِ زائد‘‘ کے نظریہ کے مطابق تو یہ بالکل اسی لوٹ کی بدلی ہوئی شکل ہے جو تمام سرمایہ دار ملکوں میں جاری ہے۔ یہ مارکسی نظریہ کی رو سے ایک نظام استحصال کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسرا نظام استحصال قائم کر دینا نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر جب اشتراکی ملکوں میں بھی محنت کی لوٹ کا بعینہ وہی عمل جاری ہے۔ جو سرمایہ دار ممالک میں ہے تو آخر یہ معاشی خوشحالی آئی کہاں سے۔ کیا کمیونسٹ حضرات اس کی کوئی نظریاتی توجیہہ کر سکتے ہیں۔
اوپر جو حقیقت میں نے درج کی ہے، اس کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ اشتراکیت معاشی اعتبار سے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی کار بن کاپی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ صرف عنوان بدل دیا گیا ہے۔ ساری مار دھاڑ کے بعد بھی وہ اس پیداواری نظام سے ایک انچ آگے نہیں بڑھے ہیں جو سرمایہ دار ملکوں میں پہلے سے جاری ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس میں کارخانوں وغیرہ سے جو منافع حاصل کیا جاتا ہے وہ کسی سرمایہ دار کی جیب میں نہیں جاتا بلکہ وہ حکومت کو ملتا ہے اور وہاں سے باقاعدہ منصوبہ کے تحت مختلف اجتماعی مقاصد میں صرف کیا جاتا ہے۔ چنانچہ سرکاری ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں اس کے مطابق سویت روس میں کارخانوں سے حاصل شدہ منافع کی تقسیم کا اصول یہ ہے کہ ۵۰ فیصد سرکاری خزانے میں داخل ہوتا ہے،۱۰فیصد مزدوروں اور کاریگروں کے آرام و فلاح کے لئے خرچ کیا جاتا ہے اور چالیس فیصد کارخانوں کی ترقی و توسیع پر صرف ہوتا ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ ٹھیک یہی نوعیت خود سرمایہ دار مملک میں بھی قائم ہے۔
ان ملکوں میں سرمایہ دار اپنے کارخانوں سے جو منافع حاصل کرتا ہے وہ سب کا سب خود ہڑپ نہیں کر لیتا۔ بلکہ اس میں بہت بڑا حصہ___ بعض اوقات اس کا ۹۵ فیصد حصہ___ٹیکس کے طور پر حکومت کو دیدیتا ہے۔ کچھ رقم کارخانہ کی توسیع و ترقی میں لگاتا ہے اور اس کے بعد جو رقم بچتی ہے اس کو کچھ مزدوروں کے علاج، ان کے لئے کوارٹروں کی تعمیر، ان کے لئے روشنی، پانی، تعلیم اور تفریح وغیرہ کے انتظام میں خرچ کرتا ہے۔ خود حکومت بھی وصول کردہ ٹیکس کا ایک حصہ مزدوروں کے فلاح و آرام کے لئے خرچ کرتی ہے۔ اور آخر میں سرمایہ دار ایک رقم اپنے ذاتی اخراجات کے لئے لے لیتا ہے۔ جس طرح اشتراکی ممالک میں کارخانہ سے غیر متعلق وزیروں اور عہدہ داروں کو ان کے ذاتی اخراجات کے لئے کارخانہ کے منافع سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح ملکیتی نظام میں سرمایہ دار اپنے ذاتی اخراجات کے لئے کارخانہ کے منافع میں سے ایک حصہ لیتا ہے۔ پھر دونوں نظاموں میں فرق کیا ہوا۔ جب حالات دونوں جگہ ایک ہیں تو نتائج آخر دو کس طرح ہو جائیں گے۔
مارکس نے ’’قدرِ زائد‘‘ کے ذریعہ افلاس اور امارت کے پیدا ہونے کی جو نظریاتی توجیہہ کی تھی، اگر اس کو صحیح تسلیم کیا جائے تو روس میںبھی ویسے ہی معاشی حالات ہونے چاہئیں جو دوسرے سرمایہ دار
ممالک میںپائے جاتے ہیں۔ کیونکہ روس میں بھی اسی طرح محنت کش طبقہ سے’’قدر زائد‘‘ وصول کیا جاتا ہے جس طرح سرمایہ دار ملکوں میں وصول کیا جاتا ہے۔ مارکس نے قدرِ زائد کے نظریہ سے یہ ثابت کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں افلاس کا پیدا ہونا لازمی ہے، اگر اس نظریہ کو صحیح مانا جائے تو روس میں نظریاتی طور پر خوشحالی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر یہ حقیقت ہے کہ روس میں معاشی خوشخالی پائی جاتی ہے تو لازمی طور پر مارکس کے قدرِ زائد کے نظریہ کو غلط تسلیم کرنا پڑے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ماننا پڑے گا کہ پیداوار اور تقسیم کے سرمایہ دارانہ طریقے کے تحت بھی خوشحال معاشی نظام وجود میں آتا ہے، یعنی اس نظام کے تحت جو غیر اشتراکی ملکوں میں قائم ہے۔
روس میں اب تک جو کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ روسی دستور کی دفعہ۱۲ میں اس طرح ظاہر کیا گیا ہے:
’’سوویت یونین میں ہر شہری کے لئے جو کہ کام کر سکتا ہے، کام کرنا ایک ڈیوٹی ہے اور عزت کی چیز ہے، اس اصول کے مطابق کہ’دجو کام نہ کرے وہ کھانا بھی نہ کھائے‘‘ سوویت یونین میں سوشلزم کا اصول رائج ہے۔ یعنی’’ہر شخص سے اس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر ایک کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے۔‘‘
اس حاصل کو طریق حصول کی اس بحث کے ساتھ ملا کر دیکھئے جس کی تفصیل ہم نے اوپر کی ہے اور پھر فیصلہ کیجئے، کیا یہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام سے کچھ بھی مختلف چیز ہے۔
٭ سرمایہ دارانہ نظام میں آدمی اسی وقت کسی معاوضہ کا مستحق ہوتا ہے جب وہ کوئی کام کرے، کام نہ کرنے کی صورت میں اسے کچھ نہیں مل سکتا۔ ٹھیک یہی صورت حال مزدوروں کی جنت میں بھی ہے۔
٭سرمایہ دارانہ نظام میں آدمی اپنی استعدادِ کار کے مطابق معاوضہ کا مستحق ہوتا ہے، معمولی کارکن کو معمولی اُجرت دی جاتی ہے اور اعلیٰ صلاحیت کے کارکن کو زیادہ اُجرت اور آسانیاں حاصل ہوتی ہیں۔
ٹھیک یہی صورتِ حال مزدوروں کی جنت میں بھی ہے۔
٭سرمایہ دارانہ نظام میں کسی کارخانہ کی ساری آمدنی صرف اس کے کارکنوں کو نہیں دی جاتی بلکہ منافع کے نام سے ایک کثیر رقم اس کے مالک اور منتظم وصول کرتے ہیں۔ ٹھیک یہی صورتِ حال مزدوروں کی جنت میں بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ منافع نجی مالک وصول کرتے ہیں اور اشتراکی نظام میں حکومت کے عہدیدار۔
پھر اشتراکی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام میں فرق کیا ہوا۔ جب اشتراکی ملکوں میں بھی مزدور کو اس کی پوری مزدوری نہیں دی جاتی بلکہ اس کی محنت کی کمائی کا ایک حصہ’’منافع‘‘ کے نام سے مسلسل اسی طرح وصول کیا جا رہا ہے جس طرح سرمایہ دار ممالک میں وصول کیا جاتا ہے تو آخر یہ خوشحالی آئی کہاں سے۔ جو صورتِ حال سرمایہ دار ملکوں میں افلاس پیدا کرتی ہے اور طبقاتی امتیاز کا
سبب بنتی ہے ٹھیک وہی صورت حال نام نہاد اشتراکی ملکوں میں خوشحالی اور بے طبقاتیت کا سبب کیسے بن گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم کی فردوس تو درکنار، اشتراکی ملکوں نے ابھی ’’سوشلزم‘‘ کی منزل بھی عبور نہیں کی ہے، وہ ابھی تک سرمایہ داری کے گڑھے میں پڑھے ہوئے ہیں۔
’’اسلام اور سوشلزم کو بیک وقت اختیار کیا جا سکتا ہے، ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔‘‘ یہ ایک سراسر غلط خیال ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے غلط خیال پر قائم ہے۔ اس طرح کی بات کہنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک مذہبی نظریہ ہے اور سوشلزم۱؎ ایک معاشی نظریہ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام ایک عقیدہ ہے اور سوشلزم ایک سماجی نظام ہے۔ پھر دونوں پر ایک ساتھ ایمان لانے میں کیا حرج ہے۔ جس طرح کسی بھی مذہب کی پیروی کرتے ہوئے آدمی اپنے رزق کے حصول کے لئے کوئی پیشہ اختیار کر سکتا ہے اسی طرح کسی بھی ذریعہ سے رزق حاصل کرتے ہوئے آدمی کسی مذہب کا پیرو بن سکتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ تو اسلام محض ا یک ’’مذہبی نظریہ‘‘ ہے اور سوشلزم محض ا یک معاشی نظریہ۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔
بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام خواہ کچھ بھی ہو وہ سوشلزم کا مخالف نہیں ہے بلکہ سوشلزم خود اسلام ہی کی صدائے بازگشت ہے جو ایک ہزار سال کے بعد یورپ سے بلند ہوئی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور سوشلزم دو الگ الگ نظام ہیں جو فلسفہ اور عمل دونوں اعتبار سے باہم متصادم ہیں۔ وہ مکمل طور پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ دو مختلف سمتوں میں میں بڑھنے والی لکیریں ہیں جن کے سرے کہیں بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ یہاں ہم کوشش کریں گے کہ اس تضاد کو کسی قدر وضاحت کے ساتھ بیان کریں، اور ان دلائل کا بھی جائزہ لیں جو اسلام اور سوشلزم کو ایک ثابت کرنے کے لئے بعض حلقوں کی طرف پیش کئے جا رہے ہیں۔
کتاب کے پچھلے صفحات میں ہم نے سوشلزم پر کلام کرتے ہوئے مارکسی سوشلزم کو سامنے رکھا تھا۔ اسی طرح اگلے صفحات میں سوشلزم اور اسلام کا جو تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے اس میں بھی بنیادی طور پر مارکسی سوشلزم کو سامنے رکھا گیا ہے۔ تاہم اسی کے ساتھ ان لوگوں کے نظریات پر بھی گفتگو ہے جو مارکس کا حوالہ دیئے بغیر سوشلزم کی وکالت کرتے ہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، سوشلزم موجودہ زمانہ میں ایک بہت وسیع لفظ بن گیا ہے۔ مختلف لوگوں نے اس کے مختلف معنی قرار دیئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ’’سوشلزم‘‘ کا لفظ بولتے ہیں مگر
کا لفظ بولتے ہیں مگر ان کے بیانات سے واضح طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ سوشلزم کے لفظ سے متعین طور پر کیا مراد لے رہے ہیں۔
ان بنا پر سوشلزم اور اسلام کے تقابلی نظریات کا تعین کرنے کے لئے مارکسزم کو بنیادی طور پر سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مگر اسی کے ساتھ اس کے وسیع تر مفہوم کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ ان لوگوں کے نظریات کا تجزیہ ہو سکے جو غیر مارکسی سوشلزم کی علم برداری کر رہے ہیں۔
سوشلزم اور اسلام کے درمیان تقابل جو اگلے صفحات میں کیا گیا ہے، اس کا مقصد صرف دونوں کے درمیان موجود تضاد کو دکھانا نہیں ہے۔ بلکہ ایک اعتبار سے یہ زیرنظر کتاب کے ابتدائی حصہ کی توسیع ہے۔ پچھلے ابواب میں مارکسزم کی غلطی خالص نظریہ کے اعتبار سے واضح کی گئی تھی۔ اگلے صفحات کا مقصد یہ ہے کہ مارکسزم کی غلطی کو اسلام کی صداقت کے بالمقابل نمایاں کرکے دکھایا جائے۔
’’ڈارون نے فطرت میں ارتقاء کا قانون دریافت کیا تھا، مارکس نے یہی قانون انسان کی سماجی تاریخ میں دریافت کیا ہے۱؎‘‘ یہ فریڈرش انگلش کا ایک فقرہ ہے جو اس نے ۱۷ مارچ۱۸۸۳ء کو لندن میں اپنے دوست کارل مارکس کی قبر پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ اس مختصر سے فقرہ میں انگلس نے مارکسی نظریہ کا پس منظر اور اس کی حقیقت دونوں بیان کر دی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم___ جس کو مارکس نے زیادہ مکمل اور سائنٹفک انداز میں پیش کیا___ یہ دراصل اس رجحان کی تکمیل ہے جس کی باقاعدہ اور علمی طور پر ڈارون سے ابتداء ہوئی تھی اور پھر وہ اس خلاء کو پر کرتا ہے جو اس سابق فلسفہ میں باقی رہ گیا تھا۔ اس بات کو اگر دوسرے لفظوں میں کہنا چاہیں تو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یورپ میں سائنس اور کلیسا کے تصادم کے بعد انسان نے اپنے خدا سے جو بغاوت کی تھی وہ ابھی تک صرف ایک پائوں پر کھڑی تھی جو ڈارون نے مہیا کیا تھا، سوشلسٹ فلسفہ اس بے خدا تہذیب کا دوسرا پائوں ہے جو مارکس نے دریافت کیا ہے۔
زندگی کے دو اہم ترین مسئلے ہیں جن کے بارہ میں کوئی رائے قائم کئے بغیر ہم ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ ایک یہ کہ انسان کس طرح وجود میں آیا۔ دوسرے یہ کہ انسان کے لئے قانون زندگی کیا ہو۔ پہلے سوال کا مطلب اپنے وجود کی تشریح کرنا ہے اور دوسرے سوال کا مطلب اپنے لئے صحیح راہ عمل کا تعین کرنا۔ ایک کا تعلق حیاتیاتی سائنس سے ہے اور دوسرے کا تعلق سماجی فلسفہ سے۔ یہ دونوں سوالات بالکل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ انسانی وجود کی ایک تشریح لازمی طور پر اس کے مطابق ایک طرز زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور جب بھی کوئی طرز زندگی متعین کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر اس کے پیچھے اپنے آغاز و انجام کا ایک تصور ہوتا ہے، قدیم ترین زمانہ سے انسان یہ مانتا چلا آ رہا ہے کہ زمین و آسمان اور تمام موجودات کا خالق ایک فوق الفطری وجود ہے، اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اسی کو حق ہے کہ انسانی زندگی کے لئے احکام و ہدایات دے اور اس کوصحیح راہِ عمل بتائے۔ پچھلی تاریخ میں جتنی تہذیبیں ملتی
Mars Engels Selected Works VII. Moscow 1949.p 153۱ ؎
ہیں ان میں بیشتر تہذیبیں خدا کو تسلیم کرنے والی ہیں نہ کہ اس کا انکار کرنے والی۔ اس تصور کے مطابق قانون کا ماخذ بھی اسی ذات کو ہونا چاہئے جس کا حکم ساری کائنات پر چل رہا ہے اور جس نے انسانوں کو وجود بخشا ہے، جو ان کی زندگی کا سرچشمہ ہے۔ مگر ایک خدا اور اس کے قانون___ ایسا قانون جو کسی حال میں بدلا نہیں جا سکتا___ و ماننے میں چونکہ انسان کی خواہشوں پر ضرب پڑتی ہے، اپنی انانیت اور اقتدار کے لئے گنجائش باقی نہیں رہتی، اس لئے عام طور پر ایسا ہوا ہے کہ ان قوموں نے اصل عقیدے کے ساتھ شرک کو ملا لیا۔ انہوں نے خدا کو مانتے ہوئے اس کے کچھ ایسے ہم سر اور شریک گھڑے جو خود بھی امرونہی کے مجاز تھے، اور ان خود ساختہ شریکوں کے نام پر وہ سب کچھ جائز کر لیا جس کو ان کا نفس جائز کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح قدیم زمانہ کا انسان خدا کی ماتحتی کو چھوڑ کر خود مختار بننے اور خدا کے احکام کی پیروی کے بجائے اپنی من مانی کارروائی کرنے کے لئے شرک کا سہارا لیتا رہا ہے۔ ایک طرف اس کی خواہشیں تھیں اور دوسری طرف خدا کا تصور، وہ اپنی خواہشوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور یہ جرات بھی نہیں کر سکتا تھا کہ خدا کو ماننے سے انکار کر دے، اس لئے اس نے شرک کا طریقہ ایجاد کیا اور جو کچھ وہ خدا کی اجازت سے نہیں کر سکتا تھا، اس کو خدا کے شریکوں کے نام پر اپنے لئے جائز کر لیا۔
یہ صورت حال قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی تھی۔ مگر یورپ میں سترھویں صدی عیسوی میں سائنس اور کلیسا کے درمیان جو تصادم ہوا، اس کے بعد تاریخ میں پہلی بار الحاد نے ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کی۔ انسان نے یہ سوچا کہ وہ سرے سے خدا کے وجود ہی کا انکار کر دے۔ اب وہ شریک کے بجائے براہ راست خدا کی نفی سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے چاہا کہ قانون کا ماخذ خدا کے بجائے خود انسان کی طرف منتقل ہو جائے تاکہ نفس پرستی کے لئے شریکوں کا واسطہ اختیار کرنے کی بھی ضرورت نہ رہے، بلکہ وہ خود اپنے نفس کی اجازت سے جو چاہے کر سکے۔ اس زمانہ میں پادریوں کا زبردست اثر تھا۔ اور سارے یورپ میں نہ صرف یہ کہ وہ مذہب کے ٹھیکیدار تھے بلکہ اٹلی سے لے کر سکاٹ لینڈ تک تمام ملکوں کی سیاست پر بھی ان کا زبردست اثر تھا۔ ان کا یہ اثر حقیقی مذہبیت اور خدا پرستی کی بنا پر نہیں تھا بلکہ مذہب سے بے تعلقی کی بنا پر تھا۔ عیسائی عوام سخت جہالت اور بے عملی میں مبتلا تھے، مگر یہ پادری اس کی بے عملی اور جہالت کو ختم کرنے کے بجائے اس کو باقی رکھ کر باقاعدہ اس کی تجارت کرتے تھے۔ وہ عیسائیوں کو اصل مذہبی تعلیمات پر عمل کرانا نہیں چاہتے تھے، کیونکہ اس کے معنی یہ تھے کہ وہ خدا اور مسیح کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اس کے بجائے وہ انہیں بے عملی کی حالت میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ بے عملی کی تلافی اور آخرت میں خدا کی مغفرت حاصل کرنے کے لئے وہ پادریوں کے پاس
آئیں اور انہیں نذرانے ادا کریں۔ چنانچہ اس زمانے میں جنت کے قبالے جائیداد کی معمولی دستاویزوں کی طرح بکتے تھے، مغفرت کے پروانے، نقض قانون کے اجازت نامے اور نجات کے سرٹیفکٹ بے تکلّف فروخت کئے جاتے تھے۔ جنت کو خدا پرستی اور عمل کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے لوگ پاپائوں کی دکان سے اس کو سونے چاندی کے عوض خرید رہے تھے۔ اس کاروبار کے ذریعہ کلیسا کو زبردست آمدنی تھی اور وہ لوگ بادشاہوں کی مانند زندگی گزارتے تھے۔
ایسے حالات میں جب یورپ میں عقلیت کا آغاز ہوا، نئے نئے نظریات کی وجہ سے تقلید کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں، پادریوں کے پھیلائے ہوئے اوبام و خرافات پر تنقید کی گئی اور بے سمجھے بوجھے ان پر ایمان لانے سے انکار کیا جانے لگا، تو مذہبی حلقوں میں قیامت برپا ہوگئی، کیونکہ اس طرح کی عقلیت اور آزادی کے پیدا ہونے کے معنی یہ تھے کہ پاپائی نظام کی غیر معمولی اہمیت کا طلسم ٹوٹ جائے اور علم اور عمل کی ایک نئی شاہراہ کھل جانے کی وجہ سے ان کا اقتدار باقی نہ رہے۔
چنانچہ ارباب کلیسا نے مفکروں اور سائنس دانوں کے کفر کا فتویٰ دے دیا جو ان نئے نظریات کو پیش کرنے کے ذمہ دار تھے۔ اور دین مسیحی کی حفاظت کے نام پر ان کا خون بہانے اور ان کی ملکیتیں ضبط کرنے کی اجازت دے دی۔ احتساب کی مذہبی عدالتیں قائم ہوئیں جو پوپ کے حکم کے مطابق’’ان ملاحدہ اور مرتدین کو زسا دیں جو گھروں، تہہ خانوں، جنگلوں، کھیتوں، غاروں اور شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں‘‘ ان عدالتوں نے نہایت بے دردی کے ساتھ سزائیں دینا شروع کیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ تقریباً تین لاکھ جانیں اس احتساب کی نذر ہوگئیں، جن میں ۳۲ہزار آدمیوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ ان سزا پانے والوں میں مئیت و طبیعیات کے مشہور عالم برونو(Brunoe) اور گلیلیو(Gallilio) جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔۱؎
کلیسا کے ان وحشیانہ مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت کے اہلِ علم طبقہ کو مذہب سے ایک ضد سی پیدا ہوگئی۔ انہوں نے کلیسا کا زور توڑنے کے لئے خدا ہی کا انکار کر دیا تاکہ وہ اصل چیز باقی نہ رہے جس پر کلیسا کا پورا وجود قائم ہے۔ سائنس بنام کلیسا کا اختلاف، سائنس بنام خدا کا اختلاف بن گیا۔ وہ بغاوت جو ابتداء ایک بگڑے ہوئے مذہبی طبقہ کے غلط اقتدار سے رہائی پانے کے لئے شروع ہوئی تھی وہ خود مالک کائنات کے اقتدار سے بغاوت بلکہ اس کے وجود سے انکار تک جا پہنچی، اس عمل کے بعد قدرتی طور پر انہیں زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے دو
۱؎ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہولیکی کی کتاب ’’تاریخ اخلاق یورپ‘‘ اور ڈاکٹر ڈریپر کی کتاب ’’معرکہ مذہب و سائنس‘‘
Conflict Between Scienceand Religion
چیزوں کی ضرورت تھی، ایک یہ کہ اگر خدا کا کوئی وجود نہیں ہے تو خود انسان کیسے وجود میں آگیا؟دوسرے یہ کہ انسانوں کی یہ بھیڑ جس کا اب کوئی آقا اور مالک نہیں ہے، اس کو راہِ عمل کو کون بتائے۔ زندگی کے لئے قانون کا ماخذ کیا ہو؟ پہلے سوال کا جواب چارلس ڈارون(۱۸۸۲۔۱۸۰۹) نے دیا اور دوسرے کا جواب کارل مارکس(۱۸۸۳۔۱۸۱۸) نے ڈارون کا جواب یورپ کی ابھرتی ہوئی قوموں کی خواہش کے عین مطابق تھا اس لئے وہ فوراً قبول کر لیال گیا۔ مگر مارکس کے جواب کو ماننے میں برسراقتدار طبقہ کو اپنی موت نظر آتی تھی اس لئے وہ ترقی یافتہ یورپ میں پھیل نہ سکا۔ اگرچہ ذہنی اعتبار سے اس نے جدید دنیا کے بڑے حصہ کو متاثر کیا ہے۔
پہلے سوال کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ انسان ایک مادی وجود ہے۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بیج اگتا ہے، درخت بنتا ہے، پھل پھول لاتا ہے، اور یہ سارے مراحل، زمین، ہوا، پانی اور گرمی کے عمل سے خود بخود انجام پاتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی کسی وقت ایک حقیر کیڑا تھا جو پانی سے پیدا ہوا، اور پھر تاریخ کے لمبے زمانوں میں مختلف جانداروں کی شکل اختیار کرتا ہوا بالآخرو بندر بنا اور بندر سے انسان تیار ہوگیا۔ گویا یہ انسان جو دماغی اور جسمانی قوتوں سے بھرپور آج ہم کو نظر آتا ہے، اس کو مکمل صورت میں بنا کر کھڑا کر دینے کا کام کسی خالق نے نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کے ابتدائی کیڑے پر ماحول کے مسلسل عمل نے خود ہی اس کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔
مارکس نے اس مصرعۂ اول پر اپنا مصرعۂ ثانی لگایا، اس نے کہا کہ جس طرح انسان ایک لمبے مادی عمل کے ذریعہ خود بخود انسان بن گیا ہے اور اس میں کسی فوق الفطری قوت کی کارفرمائی کا کوئی دخل نہیں ہے، ٹھیک اسی طرح زندگی کا قانون بھی کہیں باہر سے نہیں آئے گا۔ انسان کو ایک کامیاب زندگی حاصل کرنے کے لئے کسی خارجی رہنمائی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ کام بھی مادی عمل کے ذریعہ مسلسل انجام پا رہا ہے۔ جو لوگ خارج سے کسی دریافت کردہ اصول کو انسانی زندگی میں رائج کرنا چاہتے ہیں، مارکس ان کو ’’خیالی فلسفی‘‘ کا لقب دیتا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک درحقیقت ایسے کسی خارجی اصول کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس کے نزدیک قانون کا ماخذ خود انسان کی اپنی زندگی ہے، نہ کہ کوئی بیرونی حقیقت۔ انسان کو اس کے مادی ماحول نے ایک حقیر کیڑے سے مکمل انسان تک پہنچایا تھا، اب اس کا معاشی ماحول اس کو زندگی کے صحیح ترین نظام کی طرف لے جا رہا ہے۔ ڈارون نے حیاتیاتی ارتقاء کی دنیا میں جو مقام مادہ کو دیا تھا مارکس نے سماجی ارتقاء کی دنیا میں وہی مقام معاشی ذرائع و وسائل کو دیا۔ اس نے کہا کہ جس طرح مادہ ک ساتھ ایک لمبے تاریخی عمل نے کیڑے کو انسان بنا دیا ہے، ٹھیک اسی طرح ضروریات زندگی حاصل کرنے کے سلسلے میں انسان کی جدوجہد اور معاشی ذرائع و وسائل کی تبدیلیاں یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو انسانی زندگی کو مسلسل ارتقاء کی طرف لے جا رہی ہیں۔ زندہ رہنے کے لئے انسان کو
جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کو حاصل کرنے کے دوران میں بالکل لازمی قانون کے تحت ایک اقتصادی دور وجود میں آتا ہے جو کچھ دنوں کام کرنے کے بعد ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے بطن سے دوسرا، ایک زیادہ ترقی یافتہ دور پیدا ہوتا ہے، پھر یہ دور بھی ختم ہو کر ایک تیسرے اور زیادہ ترقی یافتہ دور کی پیدائش کا سبب بنتا ہے، اس طرح عہد بہ عہد ترقیوں کا یہ سلسلہ چلا جا رہا ہے۔ یہی اقتصادی ادوار گویا وہ سیڑھیاں ہیں جو انسان کو بہتر مستقبل کی طرف لے جا رہی ہیں اور انہیں کے ذریعہ انسانیت کی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مارکس لکھتا ہے:
’’محنت کے اوزار بنانا اور استعمال کرنا اگرچہ کسی حد تک جانوروں کی بعض قسموں میں بھی پایا جاتا ہے، مگر خاص طور پر انسان کے پیداواری عمل کی یہ امتیاز خصوصیت ہے، اسی لئے فرینکلن(Benjamin Franclm) نے انسان کی تعریف’’اوزار بنانے والے جانور‘‘ کے الفاظ سے کی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے کے اوزار سماج کے ناپید اقتصادی ڈھانچوں کی تحقیق کے سلسلہ میں اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنی کہ متحجر ہڈیاں(Fossil hones) جانوروں کی ناپید قسموں کو جاننے کے لئے سماج کے مختلف اقتصادی ادوار کا باہمی امتیاز اس زمانہ کی بنی ہوئی اشیاء سے نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کن اوزار کی مدد سے اور کس طریقہ سے بنائی گئی ہیں۔ آلات محنت نہ صرف ترقی کے اس درجہ کی نشاندہی کرتے ہیں جہاں پر انسانی محنت پہنچی ہے بلکہ انہیں سے ان سماجی حالات کا بھی پتہ چلتا ہے جن کے تحت وہ محنت کی گئی ہے‘‘۱؎
ارتقاء کا یہ سلسلہ آغازِ انسانیت سے جاری ہے اور اب اس عمل کی تکمیل کے دن بہت قریب آگئے ہیں۔ قدیم غلام سماج اور جاگیرداری سماج کے بعد اب جو سرمایہ دارانہ سماج آیا ہے اس نے انسانی ارتقاء کے سفر کو تکمیل کے بہت قریب پہنچا دیا ہے۔ اب اس کے بعد بہت جلد یہ ہوگا کہ انسان اپنے آخری ارتقائی دور میں پہنچ جائے گا اور یہی اس کی آخری کامیابی ہے۔
مارکس نے ۱۸۵۹ء میں اپنی مشہور کتاب’’معاشیات پر ایک تنقیدی تحقیق‘‘ کے دیباچہ میں اپنے اس نظریہ کا خلاصہ مندرجہ ذیل الفاظ میں پیش کیا تھا:
’’…… میں اپنے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قانونی تعلقات نیز ریاست کی مختلف شکلیں نہ تو خود ان کے اپنے مطالعہ سے سمجھ میں آ سکتی ہیں اور نہ انسانی دماغ کی مفروضہ عام ترقی کے بل پر ان کو سمجھا جا سکتا ہے،
Capital. N.A. (Moscow 1954) P179-80۱؎
بلکہ ان کی جڑیں زندگی کے مادی حالات میں مضبوط جمی ہوئی ہوتی ہیں جن کے مجموعہ کو ہیگل نے اٹھارویں صدی کے برطانوی اور فرانسیسی مفکروں کی تقلید میں’’مدنی سماج‘‘(Civil society) کے نام سے اکٹھا کر دیا ہے۔ اس مدنی سماجی کی تشریحی ساخت اقتصادیات میں پائی جاتی ہے، اقتصادیات کا یہ مطالعہ جو کہ میں نے پیرس میں شروع کیا تھا، بروسلز میں بھی اس کو جاری رکھا… اس مطالعہ سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا اور ایک بار اخذ کر لینے کے بعد جس کو میں نے مزید مطالعہ کے لئے رہنما کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھا، اختصار کے ساتھ اس کو اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے___ سماجی طور پر ذرائع حیات کی پیداوار کے دوران میں لوگ لازمی طور پر ایک مخصوص قسم کے باہمی تعلقات میں وابستہ ہو جاتے ہیں اور یہ وابستگی ان کے اختیار سے باہر کی چیز ہوتی ہے۔ یہ پیداوار تعلقات ان کی مادی پیداواری طاقتوں کے ارتقاء کی مخصوص منزل سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ان پیداواری تعلقات کا مجموعہ ہی سماج کے اقتصادی ڈھانچہ کی تشکیل کرتا ے۔ یہی ڈھانچہ دراصل وہ بنیاد ہے جس پر قانونی اور سیاسی عمارت تعمیر ہوتی ہے اور جس کے مطابق سماجی شعور کی مخصوص شکلیں نمودار ہوتی ہیں۔ زندگی کی مادی ضروریات حاصل کرنے کے طریقے زندگی کے تمام سماجی، سیاسی اور ذہنی مل کی شکل معین کرتے ہیں۔ انسان کا شعور اس کی ہستی کو متعین نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ اس کی ہستی ہے جو اس کے شعور مو معین کرتی ہے۔ اپنی ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر سماج کی مادی پیداواری طاقتیں اپنے زمانے کے پیداواری تعلقات کی ضد بن جاتی ہیں۔ بالفاظ دیگر ملکیت کے ان تعلقات سے ٹکرا جاتی ہیں جن کے اندر رہ کر وہ پہلے کام کرتی رہی ہیں۔ پیداواری طاقتوں کے مزید ارتقاء کا ذریعہ بنے رہنے کی جگہ یہ تعلقات ان طاقتوں کے لئے پیر کی بیڑیاں بن جاتے ہیں۔ تب انقلابی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اقتصادی بنیادوں کے بدلت ہی کم و بیش سماج کا پورا ڈھانچہ نہایت تیزی سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان تغیرات پر غور کرتے وقت پیداوار کے اقتصادی حالات میں مادی تبدیلیوں کے درمیان___ جن کا تعین پوری صحت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے___ اور قانونی، سیاسی، مذہبی، جمالیاتی، فلسفیانہ، مختصر یہ کہ نظریاتی شکلوں کے درمیان جن سے کہ انسان اس جدوجہد کا شور پاتا ہے اور یہ جنگ لڑتا ہے ہمیشہ امتیاز کرنا ضروری ہے۔ جس طرح کسی شخص کے بارہ میں ہماری رائے کی بنیاد نہیں ہوتی کہ وہ خود اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے، اسی طرح ہم کسی عہد کے تغیر کو خود اس زمانہ کے شعور سے نہیں سمجھ سکتے، ان کا یہ شعور مادی زندگی کے اضداد کا مطالعہ کرکے ہی سمجھ میں آ سکتا ہے۔ اس جدوجہد پر غور کرنے سے جوکہ سماج کی پیداواری طاقتوں اور پیداواری تعلقات کے درمیان موجود ہے، تمام پیدا آور قوتوں کی اپنی گنجائش کے مطابق ترقی پا جانے سے پہلے کبھی کوئی سماجی نظام ناپید نہیں ہوا، اور اسی طرح پیداوار کے جدید اعلیٰ تعلقات بھی اس وقت تک وجود میں نہیں آتے جب تک کہ وہ تمام مادی حالات جو کہ اس کے وجود کے
لئے نہایت ضرورت ہیں، خود پچھلے سماج کے بطن میں اچھی طرح پرورش نہ پا چکے ہوں اس لئے نوع انسانی اسی فرض کو اپنے ذمہ لیتی ہے جسے وہ حل کر سکتی ہے، کیونکہ اس مسئلہ کو زیادہ غور سے دیکھا جائے تو ہم پائیں گے کہ خود فرض اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ اس کے حل کے لئے ضروری مادی حالات پہلے سے وجود ہوں یا کم ازکم تربیت و تشکیل کی حالت میں ہوں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیداوار کے تمام تاریخی طریقے یعنی قدیم ایشیائی جاگیرداری اور موجودہ بورژوا پیداواری طریقے، یہ سب سماج کی اقتصادی نظام کی ترقی کے دور ہیں۔ بورژوا پیداواری تعلقات، پیداوار کے سماجی عمل میں آخری متخاصم تعلقات ہیں، متخاصم انفرادی معنوں میں نہیں بلکہ ان تعلقات کی ایسی خصوصتیں جو کہ سماجی زندگی کے حالات کی پیداوار ہیں، لیکن یہ پیداواری طاقتیں جو بورژوا سماج کے بطن میں پرورش پا رہی ہیں، بیک وقت ان مادی حالات کو بھی وجود میں لا رہی ہیں جن کے ذریعہ یہ کشاکش دور ہو جائے گی اور اس طرح اس سماجی نظام کے ساتھ انسانی سماج کا ماقبل تاریخ دور(Pre-historic stage) بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘۱؎
اس مارکسی فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ صنعت و زراعت وغیرہ جن سے انسان اپنے لئے کھانا کپڑا اور دوسری چیزیں حاصل کرتا ہے، ان کی حیثیت محض ضروریات زندگی حاصل کرنے کے ذریعہ کی نہیں ہے بلکہ انہی سے انسانی شعور کی تربیت ہوتی ہے، اور یہی زندگی کے تمام شعبوں کو ایک مخصوص شکل عطا کرتے ہیں۔ پیدا وار حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں وہ اپنی پیداوار خود بخود انسان کی طرف منتقل نہیں کر دیتے بلکہ کچھ اوزار ہوتے ہیں جن کو لے کر آدمی ان پر اپنا عمل کرتا ہے۔ یہ اوزار ہمیشہ ایک قسم کے نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ یہی تبدیلی وہ بنیادی چیز ہے جو خود سماج کو بھی بدل دیتی ہے۔
کسی زمانہ میں انسان پتھر کے اوزار سے کام لیتا تھا، اس کے بعد مختلف تبدیلیاں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ اب بڑی بڑی مشینوں سے کام لیا جاتا ہے۔ پیداوار حاصل کرنے کے طریقہ میں تبدیلیاں ہی دراصل وہ چیزیں ہیں جو انسانی زندگی کو بھی تبدیل کرتی رہتی ہیں اور سماج کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف سے جاتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پیداوار حاصل کرنے کی تاریخ خود انسانی سماج کے ارتقاء کی تاریخ ہے۔ جدید مشینی انقلاب سے پہلے یہ تھا کہ انسان چھوٹے چھوٹے اوزار سے کام لیتا تھا، تھوڑے سرمایہ سے انفرادی طور پر الگ الگ کاروبار کرتا تھا، اس صورت حال نے انفرادی ملکیت کا تصور پیدا کیا کیونکہ اس وقت واضح طور پر یہ معلوم ہو سکتا تھا کہ کون سی چیز کس کی ہے اور کس نے کسی چیز کی تیاری میں کتنی محنت صرف کی ہے۔ اسی انفرادی قبضہ سے وہ تمام تصورات پیدا ہوئے جن کو مذہب اور اخلاق کہا جاتا ہے یعنی خدا اور تقدیر پر یقین، تاکہ جو کچھ جس کے پاس ہے وہ اسی کا سمجھا جائے،
Karl Mars Selected Works. V.I. Moscow 1946, p 300-1
ایک دوسرے کے مال و املاک کا احترام تاکہ ایک شخص کی دولت دوسرا چھیننے کی کوشش نہ کرے۔ شادی، خاندان اور عزیز واقارب کے حقوق کا تصور تاکہ ایک مرتبہ جس کے پاس کچھ آگیا ہے وہ وراثت اور حقوق کی ادائیگی کے نام سے اسی خاندان میں باقی رہے۔ گویا یہ تمام اخلاقی تصورات جو پیدا ہوئے وہ بذات خود کوئی چیز نہ تھے اور نہ خارج سے کسی نے ان کو اصول کے طور پر بھیجا تھا۔ یہ انسانی ذہن میں ان معاشی حالات کا عکس تھے جو بالفعل سماج کے اندر موجود تھے اور جن سے صرف مالکوں کے طبقہ کا فائدہ ہو سکتا تھا۔ سماج کے اندر دو طبقات، مالک اور غیر مالک کی تقسیم اور مالک کا یہ چاہنا کہ جو کچھ اسے مل گیا ہے وہ اسی کے پاس رہے، یہی وہ حالات تھے جنہوں نے مذہب و اخلاق کو جنم دیا جو جان و مال کے احترام کا سبق دیتے ہیں، اور اسی نے قانون دریاست کو وجود دیا جن کا کام یہ ہے کہ پولیس اور عدالت کے ذریعہ ملکیتی طبقہ کا تحفظ کریں۔ یہی مالک اور غیر مالک کی تقسیم وہ بنیادی خرابی ہے جو انسانیت کو نامعلوم زمانہ سے جنگ، بدامنی اور افلاس میں مبتلا کئے ہوئے ہے، یہی تمام مصیبتوں کی جڑ ہے۔
لیکن مشینی انقلاب نے ان مادی حالات کو بدل دیا ہے جن میں انسان اب تک جکڑا ہوا تھا۔ اس انقلاب نے محدود ذرائع پیداوار کو ترقی دے کر اس کو بڑی پیدا آور قوتوں میں تبدیل کر دیا۔ اب کسی چیز کو تیار کرنے میں صرف ایک شخص کا ہاتھ کام نہیں کرتا، بلکہ مشینوں کی مدد سے بے شمار آدمی مل کر ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ جولا ہے کے کرگھے اور چرخے کی جگہ سوت کا تنے اور کپڑا بننے کی بڑی بڑی مشینوں نے لے لی، لوہار کے ہتھوڑے کی جگہ بھاپ سے چلنے والی مشینی ہتھوڑے استعمال ہونے لگے۔ کاری گروں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے بدلے بڑی بڑی فیکٹریاں قائم ہوگئیں جہاں ہزاروں مزدوروں کا ایک ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہوگیا۔ ذرائع پیداوار کی طرح خود پیداوار میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی۔ ایک شخص سارے کام کرنے کی جگہ صرف ایک ہی مخصوص کام کرنے لگا۔ اب جو جنس مثلاً سوت، کپڑا، اور دھات کی چیزیں فیکٹری سے بن کر نکلتی ہیں وہ مزدوروں کی مشترک محنت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ انہیں تیار کئے جانے میں مختلف مزدوروں کے ہاتھ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان اجناس کے بارہ میں اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو تنہا اسی نے بنایا ہے، اس طرح اس انقلاب نے پیداوار کو انفرادی نوعیت سے نکال کر اجتماعی نوعیت دے دی ہے۔
دوسری طرف اس انقلاب نے سماج کو ایک بہت بڑے تضاد میں مبتلا کر دیا ہے، اب تک یہ تھا کہ آلات محنت کا مالک ہی پیداوار کا مالک ہوتا تھا، کیونکہ وہ اس کی محنت کا حاصل ہوتا تھا لیکن نئے حالات میں بھی آلات محنت کا مالک اس کے حاصل کا مالک بنا ہوا ہے حالانکہ اب وہ اس کی محنت کا حاصل نہیں رہا۔ بلکہ دوسروں کی محنت کا حاصل بن گیا ہے۔ پیداوار اپنی حقیقت کے اعتبار سے اجتماعی ہو چکی ہے مگر ملکیت کا وہی انفرادی طریقہ اب بھی رائج ہے جو پہلے تھا۔ پیداوار اور اس کی تقسیم کے اسی
تضاد میں انسانیت کے تمام مسائل کا راز چھپا ہوا ہے۔ مشینی ترقی سے یہ تضاد بڑھتا جائے گا اور بالآخر یہ ہوگا کہ محنت کش طبقہ جو پیداوار تیار کرتا ہے مگر پیداوار کا مالک نہیں ہے وہ سرمایہ دار طبقہ کے خلاف بغاوت کر دے گا جو پیداوار کا مالک بن گیا ہے حالانکہ پیداوار کو تیار کرنے میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔
تاریخ میں اس سے پہلے بھی اس طرح کے تضادات ظاہر ہوتے رہے ہیں مگر اس سے پہلے یہ تضاد کبھی اتنا واضح اور نمایاں نہیں ہوا تھا۔ اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ذرائع پیداوار افراد کے ہاتھ سے نکل کر ان لوگوں کے قبضہ میں چلے جائیں گے جو ان پر محنت کرتے ہیں، جو ان کے حقیقی مالک ہیں۔ اس طرح ذرائع پیداوار پر سماج کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس تبدیلی سے وہ تمام اصول اور قوانین بھی بدل جائیں گے جو ملکیتی طبقہ کی حفاظت کے لئے پچھلی تاریخ میں گھڑے جاتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پولیس اور فوج بھی ختم ہو جائے گی جو صرف اس لئے وجود میں آئی تھی کہ ملکیتی طبقہ کے مفاد کا تحفظ کرے۔ جب سب مالک ہو جائیں گے تو سب کی حیثیت یکساں ہوگی، پھر کون کس کے خلاف تحفظ چاہے گا۔ کون کس پر زیادتی کرے گا۔
پچھلی تاریخ میں بھی اس طرح کی طبقاتی جنگیں ہوتی رہی ہیں جو انسان کو حقیقت سے قریب کرتی رہی ہیں۔ اب یہ جنگ آخری طور پر انسان کو حقیقت تک پہنچا دے گی۔ پہلے آدمی بالکل الگ الگ اپنی ذاتی محنت سے کام کرتا تھا، پھر انقلاب آیا اور ابتدائی تعاون کی شکلیں پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد مزید تبدیلی ہوئی اور کارخانہ داری شروع ہوئی اور اب انسان بڑے پیمانہ کی انڈسٹری کے آخری دور میں پہنچ گیا ہے۔ اس آخری انقلاب نے یہ امکان پیدا کر دیا ہے کہ پیداوار حاصل کرنے کے ذرائع انفرادی قبضہ سے نکل کر سامنے سماج کے قبضہ میں چلے جائیں۔ اس طرح وہ چھین جھپٹ خود بخود ختم ہو جائے گی جو مالک اور غیر ممالک کے درمیان تھی۔ قانون کے وہ مظالم بھی ختم ہو جائیں گے جو ملکیتی طبقہ کی طرف سے محروم طبقہ پر کئے جا رہے تھے۔ غرض اس معاشی نظام کی غلام ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی جو سماج کو دو طبقوں میں تقسیم کئے ہوئے تھا، جو ساری مصیبتوں کا اصل سبب تھا۔ انسان مستقل کشاکش سے نکل کر ابدی آرام کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔ انفرادی ملکیت کے طریقے نے جو مادی ماحول پیدا کیا تھا اس میں کچھ لوگوں کو اپنی ملکیت کی حفاظت کرنی ہوتی تھی، اس لئے خود غرضی کا تصور پیدا ہوتا تھا۔ کچھ طاقت ور تھے اور کچھ کمزور، اس لئے بے بسی اور محرومی کا تصور پیدا ہوتا تھا۔ ایک طرف ظلم تھا اور دوسری طرف مظلومیت، اس لئے چھین جھپٹ اور کش مکش پیدا ہوتی تھی۔ اجتماعی ملکیت کے نظام میں یہ مادی ماحول بالکل بدل جائے گا اس لئے اس قسم کے تمام تصورات کی پیدائش بھی ختم ہو جائے گی۔ انسان باہمی تعاون، اور سکون و اطمینان کی ایک نئی فضا میں سانس لینے لگے گا۔
مارکس کا یہ نظریہ جو ہم نے اوپر بیان کیا، اصلاً صداقت کے بعض اجزاء سے خالی نہیں ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ انسان اپنی معاشی زندگی اور وقت کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنے ماحول کے خلاف سوچنا اس کے لئے دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مختلف انسانوں اورمختلف گروہوں کے مفاد میں بعض اوقات تضاد پیدا ہو جاتا ہے اور وہ باہم ٹکرا جاتے ہیں۔ یہ باتیں کوئی نئی اور انوکھی نہیں ہیں۔ اگر مارکس صرف اسی قدر کہتا تو اس میں کسی کو اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔ مگر جو چیز محض انسان کی عادت یا اتفاقی حالات سے تعلق رکھتی ہے، اسی کو وہ انسان کی اصل حیثیت قرار دیتا ہے اور اسی کی روشنی میں مسئلہ انسان کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے۔ وہ ان واقعات کو نفسیات کا موضوع نہیں بناتا بلکہ فلسفہ کا موضوع بناتا ہے۔ وہ انہیں معمولی چیزوں کو لے کر ان سوالات کا جواب دینا شروع کر دیتا ہے کہ انسان کیا ہے، پوری کائنات کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے، اس کے لئے قانون زندگی کا ماخذ کیا ہونا چاہیے، انسانیت کی تکمیل اور آخری کامیابی حاصل کرنے کا ریقہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر ہم مارکسزم کو غلط سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مارکسی تجزیہ کی بہت سی چیزیں جو بظاہر جزئی صداقتوں کی حامل نظر آتی ہیں، وہ بھی مارکسی فلسفہ کے چوکھٹے میں بے معنی ہو جاتی ہیں اور اپنی اصل حیثیت میں ان کا کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
اس حیثیت سے دیکھئے تو یہ نظریہ کھلا ہوا اسلامی نظریہ کی ضد ہے، اس نظریہ کو ماننے کے معنی لازمی طور پر یہ ہیں کہ:
۱۔ انبیاء علیہم السلام کی رہنمائی میں اٹھنے والی تحریکیں صرف معاشی محرکات کا نتیجہ قرار پائیں، گویا ان کی نوعیت یہ نہیں تھی کہ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی مرضی کا علم دینا چاہتی تھیں جس علم کی معرفت اور اس کے عمل پر انسانی مستقبل کا انحصار ہے، بلکہ یہ تمام تحریکیں وقت کے معاشی حالات کی پیداوار تھیں۔ ان نفوس قدسیہ نے اپنے وقت کے غلط کار لوگوں سے جو مقابلہ کیا اس کی حیثیت حق و باطل کی جنگ کی نہیں تھی بلکہ یہ تاریخ کی ان طبقاتی لڑائیوں کے سلسلہ کی کڑیاں تھیں جو انسانی سماج کی ابتداء سے زمین پر چلی آ رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کا پیغام پہنچانے کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ محض اپنے معاشی مفاد اور خود غرضانہ مقاصد کے حصول کی کوششیں تھیں۔ وقت کے حقوق یافتہ طبقہ نے اپنے ذاتی مقاصد کے
حصول کے لئے وحی و رسالت کا ڈھونگ کھڑا کر لیا تھا، چنانچہ مارکس اور انگلس کے کمیونسٹ مینی فسٹو میں کہا گیا ہے:
’’قانون، اخلاق، مذہب، سب بورژوا کی قریب کاری ہے جس کی آڑ میں اس کے بہت سے مفادات چھپے ہوئے ہیں۔‘‘۱؎
1- Manifesto (Moscow 1949)p.
مذہب سارے انسانوں کو خلق اللہ قرار دیتا ہے، وہ سب کو ایک حیثیت دینا چاہتا ہے مگر مارکسی فلسفہ کے مطابق جب سماج میں ظالم اور مظلوم دو طبقات موجود ہوں____ جیسا کہ وہ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں____ ایسی حالت میں سب کو ایک حیثیت دینے کی کوشش کرنا مظلوم کے مقابلہ میں ظالم کی مدد کرنا ہے۔ اس لئے ایسی تمام اخلاقیات جانب داری کی اخلاقیات ہیں۔ صحیح انسانی اخلاق وہ ہے جو صرف مظلوم طبقہ کی حمایت کرتا ہو۔ اس تصور کے مطابق مارکسزم تمام مذہبی اور اخلاقی نظریات کا انکار کرتی ہے اور ان کو صرف بورژوا کی مکاری قرار دیتی ہے۔ نوجوان کمیونسٹ لیگ کی تیسری کل روس کانگرس منعقدہ۲ اکتوبر۱۹۲۰ء میں لینن نے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ’’کمیونسٹ اخلاق کو نہیں مانتے‘‘ کہا تھا:
’’ہم کن معنوں میں اخلاقیات کے منکر ہیں، ان معنوں میں کہ وہ بورژوا طبقہ کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں جو اخلاقی اصول کو خدا کے احکام و ہدایات سے اخذ کرتا ہے، یقینا ہم خدا کو نہی مانتے، ہم خوب جانتے ہیں کہ ارباب کلیسا، زمیندار اور بورژوا طبقہ جو خدا کے حوالہ سے کلام کرتے ہیں وہ محض استحصال کرنے والے کی حیثیت سے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔… ہم ایسے تمام اخلاقی ضابطوں کا انکار کرتے ہیں جو انسانوں سے مادرا کسی مافوق طاقت سے اخذ کئے گئے ہوں یا طبقاتی تصور پر مبنی نہ ہوں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک دھوکا ہے، ایک فریب ہے، زمینداروں اور سرمایہ داروں کے مفاد کے لئے مزدوروں اور کسانوں کی فکر پر پردہ ڈالنا(Befogging of the mind) ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ضابطۂ اخلاق تمام تر صرف پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کے تابع ہے۔ ہمارے اخلاقی اصول کا ماخذ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کا مفاد ہے۔
پرانا سماج زمینداروں اور سرمایہ داروں کی طرف سے مزدووں اور کسانوں کی لوٹ پر قائم تھا۔ ہمیں اس کو تباہ کرنا ہے، ہمیں اس نظام کا تختہ الٹنا ہے، مگر اس کے لئے ہمیں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے، خدا اس قسم کا اتحاد پیدا نہیں کر سکتا۔ یہ اتحاد صرف کارخانوں اور صنعت گاہوں کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے، اس کو صرف پرولتاری طبقہ پیدا کر سکتا ہے جو تربیت یافتہ ہے اور جو لبے خواب سے جاگ اٹھا ہے… صرف یہی طبقہ محنت کش عوام کو منظم کر سکتا ہے، ان کی صف بندی کر سکتا ہے، قطعیت
کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے، پوری طرح مستحکم ہو سکتا ہے اور یقینی طور پر کمیونسٹ سماج کی تعمیر کر سکتا ہے۔
یہ سبب ہے ، جس کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ انسانی سماج سے باہر اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک فریب ہے ہمارا اخلاق وہ ہے جو پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کے تابع ہو۔۱؎‘‘
۱؎ لینن سلکٹڈ ورکس، جلد دوم، صفحہ۶۸،۶۶۷(ماسکو۱۹۴۷)
اسی طرح سوشلسٹ فلسفہ مذہب کی اس حیثیت کو رد کرتا ہے کہ وہ انسان کو حق و صداقت پر قائم کرنے کی صراطِ مستقیم ہے۔ اس کے نزدیک یہ مظلوم طبقہ کے خلاف ظالم طبقہ کی ایک سازش ہے۔ یہ ظلم اور استحصال کے نظام کو باقی رکھنے کی ایک مکروہ کوشش ہے جو حق و صداقت کے نام سے شروع کی گئی ہے۔ مذہب کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک دائمی صداقت ہے جس میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی جو ہر زمانہ کے انسانوں کے لئے یکساں حیثیت سے ضروری ہے۔ مگر مارکسی فلسفہ اس کے برعکس ایسے کسی اصول کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ انسانی تاریخ کو مختلف تاریخی ادوار میں تقسیم کرتا ہے۔ اس کے نزدیک انسانی زندگی میں کسی دائمی صداقت کا کوئی سوال ہی نہیں، کیونکہ تمام اصول اور فلسفے کسی مخصوص اقتصادی دور کے تحت پیدا ہوتے ہیں اور جب کوئی اقتصادی دور ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا تو اس کے تحت پیدا شدہ فلسفے کس طرح ہمیشہ کے لئے ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب و اخلاق کا درس محض اضافی نوعیت رکھتا ہے جو ہمیشہ وقت کے معاشی حالات کے تابع رہا ہے۔ تمام اصول و تصورات کسی مخصوص معاشی نظام کی حمایت کے لئے وجود میں آتے ہیں اور اس معاشی نظام کے بدلنے کے ساتھ خود بھی بدل جاتے ہیں۔ انسانی زندگی میں دائمی صداقت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسے اصول ہو سکتے ہیں جو تاریخ کے کسی مخصوص دور میں انسان کی رہبری کا کام دیں، لیکن ان کا کام ایک متعین زمانہ کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہ اصول کسی کام کے نہیں رہتے۔ کیونکہ بعد کے دور میں جب سماجی حالات بدل جاتے ہیں اس وقت ان اصولوں میں بھی صداقت باقی نہیں رہتی جو قدیم سماجی حالات میں پیدا ہوئے تھے۔
اس نظریہ کے مطابق اسلام کا زیادہ سے زیادہ اعتراف یہ ہے کہ اس کو ایک تاریخی چیز مان لیا جائے جو صدیوں پہلے انسانی ترقی کے ایک قدم دور کی پیداوار تھا، اس کی قدر و قیمت اپنے تاریخی دور کے لئے خواہ کچھ ہو، مگر انسانی تہذیب ترقی کرتے کرتے اب جس دور تک پہنچی ہے اس میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسانیت کی تکمیل کے لئے اب اس سے روشنی حاصل کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جس دورِ تہذیب کی پیداوار ہے اس وقت تک ابھی انسانیت کی تکمیل ہی نہیں ہوئی تھی۔ وہ تو سفرِ ارتقاء کے ابتدائی زمانہ کی یادگار ہے، نہ کہ دورِ تکمیل کی پیداوار۔ پھر آج کی دنیا میں ایسے کسی نظریہ سے رہنمائی حاصل کرنے کا کیا سوال ہے، ماضی کے نظریات حال کے لئے بیکار ہیں اور حال کے نظریات مستقبل کے لئے بے کار ہوں گے۔ اسلام بھی اپنی قسم کے دوسرے نظریات کی طرح انسان کی عمرانی تاریخ کا ایک باب تھا جو اپنا وظیفۂ حیات پورا کرنے کے بعد ختم ہو چکا ہے۔
انگلش نے اپنی کتاب’’اینٹی ڈیورنگ کے ایک باب میں دائمی سچائیاں(Eternal truths) کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تمام انسانوں کے نزدیک اخلاق کا کبھی ایک معیار نہیں رہا ہے۔’’جب
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے موجودہ سماج کے تین طبقے جاگیرداری امرائ، بورژوا اور پرولتاریہ سب اپنا ایک ضابطہ اخلاق رکھتے ہیں تو ہم صرف اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے اخلاقی نظریئے اپنے عملی تعلقات سے اخذ کرتے ہیں جن پر ان کا طبقاتی وجود قائم ہے، یعنی ان اقتصادی تعلقات سے جن کے اندر وہ پیدا وار اور تبادلہ کا نظام قائم کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ لکھتا ہے:
’’اس لئے ہم ہر ایسی کوشش کی تردید کرتے ہیں جس کا مقصد ہمارے اوپر کسی بھی اخلاقی عقیدہ کو دائمی صداقت کے طور پر مسلط کرنا ہو، آخر اور ہمیشہ باقی رہنے والا اخلاقی قانون، اس حیلہ سے کہ(عالم مادی کی طرح) اخلاقی دنیا بھی اپنے مستقل اصول رکھتی ہے جو تمام قوموں میں تاریخ کے ہر دور میں یکساں حیثیت سے موجود رہتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اب تک کے تمام اخلاقی نظریئے، اپنے آخری تجزیہ میں وقت کے اقتصادی حالات کی پیدا وار رہے ہیں۔ اور چونکہ سوسائٹی اب تک طبقاتی اختلاف کی طرف حرکت کرتی رہی ہے، اس لئے اب تک کے تمام اخلاق بھی طبقاتی اخلاق رہے ہیں۔ اس میں وہ اخلاق بھجی شامل ہے جو برسراقتدار طبقہ کے تسلط اور اس کے مفاد کو جائز قرار دیتا
ہے اور وہ اخلاق بھی جو دبے ہوئے طبقہ کے برسرِاقتدار آنے تک موجودہ تسلط کے خلاف اس کی براہمی اور مستقبل میں اس کے مفاد کا اظہار کرتا ہے۔ اس عمل کے دوران میں اخلاقیات کا مجموعی طور پر ارتقاء ہو رہا ہے، جیسا کہ دوسرے انسانی علوم میں ارتقاء ہو رہا ہے، مگر ابھی تک ہم طبقاتی اخلاق کی حدوں سے پار نہیں ہو سکے ہیں۔ ایک حقیقی انسانی اخلاق جو طبقاتی خصومت سے بلند ہو اور اس کے تذکرہ تک سے پاک ہو اسی وقت ممکن ہوگا جب سوسائٹی ایسے مقام پر پہنچ جائے گی جہاں نہ صرف یہ کہ طبقاتی تضاد ختم ہو چکا ہوگا بلکہ عملی زندگی میں بھی وہ بالکل اسے بھلا دے گی۔ جو یہ کہتا ہے کہ ایسا بھی اخلاق ہو سکتا ہے جو وقت اور تبدیلی سے آزاد ہو اور ہر زمانہ میں جس کی تعمیل ضروری ہو، وہ ایک فرضی دعویٰ کرتا ہے کیونکہ آج کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ مستقبل کا سماجی ڈھانچہ کس قسم کا ہوگا۔۱؎
یہ سوشلسٹ فلسفہ کا دوسرا جزو ہے جس کا مطلب یہ ہے اسلام کے اندر ممکن ہے کچھ صداقت ہو مگر یہ صداقت کوئی ابدی صداقت نہیں ہے۔ اس کی جو کچھ بھی قدر و قیمت قرار دی جائے وہ محض وقتی قدر و قیمت ہوگی جو اپنے زمانہ کے لئے تھی اور اس زمانہ کے ختم ہونے کے ساتھ اس کی یہ قدر و قیمت بھی ختم ہو چکی ہے۔ بعد کے زمانوں میں اسلام کو پیش کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اینٹ اور سیمنٹ کے موجودہ دور میں کوئی شخص بھٹ کے اندر زندگی گزارنے پر اصرار کرے۔
یہ نظریہ صرف انہیں حیثیتوں سے دین حق کے ساتھ نہیں ٹکراتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ شریعت الٰہی کی
۱؎ اینٹ یڈیورنگ ، صفحہ ۳۳۔۱۳۱(ماسکو ۱۹۵۴)
ضرورت ہی کا انکار کرتا ہے۔ اس کے نزدیک نہ تو اس کائنات کا کوئی خدا ہے اور نہ اس کی ضرورت کہ آدمی اس سے ہدایت حاصل کرے۔ اس نظریہ کو تسلیم کرنے کے بعد انسانیت کی تکمیل اور زندگی کو کامیابی تک لے جانے میں کسی مابعد الطبیعی نظریہ کا کوئی کام باقی نہیں رہتا۔ ہمارا ایمان ہے کہ انسان حقیقت تک اس کے بغیر نہیں پہنچ سکتا کہ وہ شریعت الٰہی اور رسول خدا کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا رہنما بنائے مگر مارکسی تشریح کے مطابق انسان کو اپنی زندگی کی تعمیر و ترقی کے لئے اس طرح سے کسی ہدایت نامہ کی سرے سے ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ ایک مادی عمل کے ذریعہ خود ہی کامیابی کی طرف
رواں دواں ہے۔ وہ کسی خالق اور رب کے بغیر مادی اسباب کے ذریعہ خود بخود انسانی شکل میں مجسم ہوا تھا اور اب معاشی عمل کے ذریعہ ایک ایسے مستقبل کی طرف سرگرم سفر ہے جہاں اس کی تکمیل ہو جائے گی، جہاں اسے وہ سب کچھ مل جائے گا جو وہ چاہتا ہے۔ گویا ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے خدا کے وجود سے انکار کیا تھا اور مارکسی فلسفہ وحی و رسالت کی ضرورت سے انکار کر رہا ہے۔ ایک نے خدا کو بے ضرورت ثابت کیا اور دوسرے نے خدا کے رسول کو۔ بلکہ ایک لحاظ سے مارکسزم ان دونوں نظریات کا مجموعہ ہے، کیونکہ وہ ڈارون کے نظریہ کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی بنیاد بنا کر اس کے اوپر اپنے نظریہ کی اگلی منزل تعمیر کرتا ہے اور اس کو زیادہ مکمل بنا دیتا ہے۔ مارکس کا رفیق کار فریڈرش انگلس اپنی کتاب’’سوشلزم۔ یوٹوپین اینڈ سائنٹفک‘‘ میں یہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح لمبے معاشی سفر کے بعد انسانی تاریخ کے ایک ایسے مقام پر پہنچی ہے کہ’’ذرائع پیدا وار پر پوری سوسائٹی کا قبضہ ہو جائے‘‘ لکھتا ہے:
’’… یہ امکان کہ اجتماعی پیداوار کی بدولت سوسائٹی کا ہر فرد ایسی زندگی بسر کرے کہ نہ صرف اس کی مادی ضروریات بخوبی پوری ہونے لگیں بلکہ ان کے لئے اس بات کی بھی ضمانت ہو کہ ہر فرد اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو پوری آزادی کے ساتھ ترقی دے سکے، پہلی بار پیدا ہوا ہے۔ جب ذرائع پیداوار پر سوسائٹی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو پھر اجناس تبادلہ کی پیداوار بھی ختم ہو جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی پیداوار کا اس کے پیدا کرنے والوں پر غلبہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ پیداوار کی انارکی ختم ہو کر اس کی جگہ پیداوار کی ہوش مندانہ تنظیم شروع ہو جاتی ہے۔ انفرادی بقاء کے لئے کش مکش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس وقت انسان پہلی بار حقیقی معنوں میں بقیہ حیوانی دنیا سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جاتا ہے اور زندگی کے خالص حیوانی دور سے نجات پا کر ایک حقیقی انسانی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے، زندگی کا وہ پورا ماحول جو اب تک اس کا احاطہ کئے ہوئے تھا اور جو اب تک انسان پر حکومت کرتا تھا اب انسان کے ماتحت ہوگا۔ انسان پہلی مرتبہ فطرت کا باشعور آقا بنے گا۔ کیونکہ وہ اپنی مجلسی تنظیم کا آقا بن چکا ہوگا۔ انسان کی اپنی مجلسی سرگرمیوں کے قوانین جو اب تک خارجی فطرت کے قوانین کی طرح اس کے بالمقابل تھے اور اس پر حکومت کرتے تھے اس وقت پورے شعور کے ساتھ استعمال کئے جائیں گے اور انسان کا ان پر قبضہ ہو چکا ہوگا۔ انسان کی اپنی مجلسی تنظیم جس سے وہ اب تک اس حیثیت سے دو چار تھا،
گویا یہ ایک جبری حالت ہے جو قدرت اور تاریخ کی طرف سے اس کے اوپر عائد کر دی گئی ہے، اب اس کا اپنا اختیاری معاملہ بن جائے گی۔ وہ خارجی قوتیں جو اب تک تاریخ پر غالب تھیں انسان کے اپنے تصرف میں آ جائیں گی۔ صرف اسی مرحلہ پر پہنچ کر انسان اپنے پورے شعور کے ساتھ اپنی تاریخ آپ بنائیں گے۔ صرف اسی مرحلہ پر پہنچ کر انسان کی حرکت میں لائے ہوئے مجلسی اسباب انسان کی اپنی مرضی کے مطابق نتائج پیدا کریں گے۔ انسان احتیاج کی دنیا سے نکل کر اختیار کی دنیا میں داخل ہو جائے گا۔۱؎‘‘
یہ اشتراکی کی فلسفہ کا تیسرا جزء ہے جو اسلام کی ساری حیثیت کو ختم کر دیتا ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام زندگی کی شاہراہ ہے۔ وہ انسان کو حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ مگر یہ نظریہ بتاتا ہے کہ زندگی کے سفر میں اسلام کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ انسان کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔ جو چیز ہمیں اپنی منزل تک پہنچاتی ہے وہ دولت کی پیداوار کا ایک خالص نظام ہے جو تاریخی اسباب کے تحت وجود میں آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کی کامیابی کا راز کسی وحی خداوندی میں ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے اسباب خود ہمارے سماجی حالات میں موجود ہیں اور مستقل طور پر اپنا کام کر رہے ہیں۔ جو کامیاب زندگی ہم چاہتے ہیں وہ انہیں حالات کے اندر سے ایک روز برآمد ہوگی نہ کہ خدا کے قانون پر عمل کرنے سے حاصل ہوگی۔
اوپر میں نے مارکسی فلسفہ کا جو تجزیہ کیا ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ مارکسزم اسلام کے بالمقابل اس کے ایک برعکس نظریہ ہے جس پر ایمان لانے کے بعد اسلام کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم ایک مکمل غیر اسلامی نظریہ ہے جس کو اختیار کرنا ایمان و اسلام سے دستبردار ہونے کے ہم معنی ہے۔ چنانچہ فریڈرش انگلس نے ’’تاریخی مادیت‘‘ کے نظریہ پر بحث کرتے ہوئے۱۸۹۲ء میں کہا تھا:
’’اس عالم کے ارتقائی وجود میں آج کسی بادشاہ یا کسی خدا کے لئے مطلق کوئی جگہ باقی نہیں ہے۔ اور کسی ایسی ہستی اعلیٰ(Supreme Being) کا تصور کرنا جو اس عالم موجودات سے الگ تھلگ ہو، اپنے اندر ایک عظیم اصطلاحی تضاد رکھتا ہے۔‘‘۲؎
لینن نے لکھا ہے:۔
’’مارکسزم، مادیت کا دوسرا نام ہے اور اس لئے یہ مذہب کی ویسی ہی سخت دشمن ہے، جیسی اٹھارویں صدی کی عام مادیت یا فیورباخ کی مادیت تھی۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ مگر مارکس اور انگلس کی’’جدلی مادیت‘‘ فیورباخ اور اٹھارویں صدی کے دوسرے مادہ پرستوںسے آگے جاتی ہے۔ یہ مادی فلسفہ کو تاریخ اور عمرانیات پر استعمال کرتی ہے‘‘
۱؎ مارکس انگلس سلکٹڈ ورکس ، جلد دوم، صفحہ ۴۱۔۱۴۰
۲؎ کارل مارکس سلکٹڈ ورکس، جلد دوم، صفحہ ۳۳۷(ماسکو ۱۹۶۴)
یعنی مارکس کا فلسفہ اور اس کی خدا بے زاری دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں کہ کوئی شخص خدا کے بارہ میں اس کے اقوال کو اس کا ایک نجی معاملہ قرار دے کر اس کے فلسفہ کو قبول کر لے۔ بلکہ انکارِ خدا ہی پر اس کے سارے فلسفہ کی بنیاد ہے۔ یہ ایک وحدت کے دو رُخ ہیں۔ مارکس نے مادی طرز فکر کو سماجی مسائل کا مطالعہ کرنے اور اس کا حل ڈھونڈھنے میں استعمال کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا کا نہ تو کوئی خدا ہے اور نہ وہ ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ مارکس الگ سے خدا کا انکار نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے جو فلسفہ مرتب کیا ہے خود اس کے لازمی تقاضے کے طور پر خدا اور مذہب بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔
سوشلزم اور اسلام کے فرق کو نہ سمجھنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سوشلزم کو عام طور پر صرف ایک معاشی نظریہ سمجھا جاتا ہے۔ اس تعبیر میں صداقت کا ایک جزء ہے۔ مگر حقیقۃً یہ ایک ناقص تعبیر ہے۔ سوشلزم زندگی کا ایک جامع تصور ہے جس طرح اسلام زندگی کا ایک جامع تصور ہے۔ اسلام کے بارہ میں جس طرح یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ وہ زندگی بعد موت کا ایک نظریہ ہے۔ اسی طرح سوشلزم کے بارہ میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ صرف ایک معاشی نظریہ ہے۔ زندگی کا معاشی یا سیاسی نظریہ بجائے خود کچھ نہیں ہوا کرتا۔ وہ دراصل اس بنیادی تصور کا عکس ہوتا ہے جو زندگی کے بارہ میں طے کیا جاتا ہے۔ ہم کیا ہیں اور یہ کائنات کیا ہے۔ یہ ہماری زندگی کے بنیادی سوالات ہیں۔ ان سوالات کا جو جواب ہوگا اسی کی مناسبت سے زندگی کے سیاسی اور تمدنی نقشے بنائے جائیں گے۔ جو کچھ ہے وہ کیوں ہے، اس سوال کا جواب متعین کرنے کے بعد ہی ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہونا چاہئے وہ کیا ہے۔ اسلام ان سوالات کا ایک جواب دیتا ہے جس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اس کا معاشی تصور سامنے آتا ہے۔ ایک اس کا
فلسفہ ہے دوسرا اس کا عملی نظام۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
جو لوگ مذہبی نظریات کے ساتھ سوشلزم کے اصل فرق کو نہیں سمجھتے وہ عموماً اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ مذہب کے ساتھ سوشلزم کا اختلاف شاید ان اقوال سے ظاہر ہوتا ہے جو مارکس اور اس کے متبیعین کی طرف منسوب ہیں۔ مثلاً’’مذہب عوام کی افیون ہے‘‘’’خدا اور بادشاہ دو بھوت ہیں۔‘‘ یا پھر اس اختلاف کا ثبوت وہ واقعات ہیں جو کمیونسٹ ملکوں میں پیش آئے۔ یعنی مسجدوں اور گرجائوں کو کلب گھر بنا دینا، مذہبی اوقات کو ضبط کر لینا، اہلِ مذاہب کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا، مذہبی تعلیم اور مذہبی شعائر کا خاتمہ کرنا، وغیرہ۔
۱؎ لینن آن ریلیجن ، صفحہ ۲۱۔
اسی لئے بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ اقوال اگرچہ بہت سخت ہیں اور مذہب کے خلاف جو کارروائیاں کی گئیں وہ بھی بڑی ظالمانہ ہیں۔ مگر ان کا تعلق سوشلسٹ فلسفہ سے نہیں ہے۔ جہاں تک اقوال کا معاملہ ہے اس میں شک نہیں کہ ان میں خدا اور تمام مذہبی تصورات پر سخت تنقید کی گئی ہے، مگر یہ تمام اقوام دراصل اس بگڑے ہوئے مذہبی نظام سے متعلق ہیں جو مارکس اور دوسرے اشتراکی مفکروں کے سامنے موجود تھا۔ یہ اقوال دراصل پاپائی نظام پر چسپاں ہوتے ہیں نہ کہ صحیح مذہب پر۔ ان اقوال سے اگر قطع نظر کر لیا جائے تو اسلامی نقطہ نظر سے مارکسی فلسفہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اسی طرح اشتراکی ممالک میں مذہب والوں پر جو مظالم کئے گئے ہیں ان کی بھی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ ان واقعات کی ذمہ داری کچھ تو خود اہلِ مذاہب پر ہے جو مذہب کی صحیح تعلیمات سے ہٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے غلط اور دقیانوسی طرزِ عمل سے خود ہی اپنا و قار کھو دیا۔ اس لئے ان کے ساتھ جو کچھ پیش آیا ایک لحاظ سے وہ اسی کے مستحق تھے اور کچھ ذمہ داری ان واقعات کی ان حکمرانوں پر ہے جن کو کمیونسٹ نظام کا سربراہ کار بنایا گیا تھا۔ پھر بعض اشخاص نے اگر مشتعل ہو کر مذہب کے خلاف کچھ سخت اقدامات کئے تو اس سے اصل فلسفہ یا اس کے بانیوں کی غلطی کہاں ثابت ہوتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض فریب ہے، ایسا کہنے والے لوگ یا تو سوشلسٹ فلسفہ سے بے خبر ہیں یا جان بوجھ کر دوسروں کو فریب دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے مارکسزم ایک مکمل نظریہ ہے جو مذہبی تصورات
کے عین بالمقابل کھڑا کیا گیا ہے۔ مذہب زندگی کے بنیادی سوالات کی ایک تشریح ہے۔ وہ زندگی کو حقیقی کامیابی تک پہنچانے کا ایک پروگرام ہے۔ جو یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے، وہی سارے واقعات کا حقیقی سبب ہے۔ اس نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے کچھ اصول بھیجے ہیں، یہی وہ اصول ہیں جو انسانی ارتقاء کی شاہراہ ہیں۔ جو ان اصولوں کو اپنی زندگی میں اختیار کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو انہیں ترک کر دے گا وہ ناکام ہوگا۔
مارکسزم اس کے برعکس مذکورہ سوالات کی بالکل دوسری تشریح پیش کرتا ہے۔ وہ زندگی کی کامیابی کا ایک اور ہی راز بتاتا ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے تمام واقعات کا آخری سبب مادی قوانین میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ وہ صرف مادی حالات ہیں جنہوں نے انسان کو اس کی موجودہ شکل میں وجود دیا ہے۔ پھر وہ مادی حالات ہی ہیں جو اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچائیں گے۔
اس عالم کا کوئی خدا نہیں ہے جس کی مرضی کو پالینا کامیابی ہو۔ اور نہ یہاں کسی قسم کے ابدی اصول ہیں جن کی پابندی کرنی ضروری ہو۔ انسان کا اپنا مادی ماحول ہی وہ قوت ہے جو انسان کو سب کچھ بتاتا ہے۔ تمام تصورات اور نظریات انہیں مادی حالات کے زیر اثر پیدا وئے ہیں یہی مادی حالات ہیں جو ایک خاص اندرونی منطق کے تحت اس کو ارتقاء کی منزل کی طرف لے جا رہے ہیں۔
یہ دراصل مادہ ہے جس نے انسان کو وجود دیا ہے۔ یہ مادہ ہے جو انسان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ یہ مادہ ہے جو انسان کو زندگی کے صحیح اصول دیتا ہے۔ یہ بھی مادہ ہے جو انسان کو اس کی آخری کامیابی تک پہنچا دے گا۔ ایسے ایک نظریہ کو ماننے کے بعد خدا اور مذہب کا کیا سوال باقی رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مارکسزم ایک متوازی قسم کا مکمل مذہب ہے۔ اس کا اپنا ملک مستقل فلسفہ ہے۔ اس کا اپنا ایک علیحدہ نظام فکر اور نظام عمل ہے۔ ایک لفظ میں مارکسزم الہامی مذہب کی تردید ہے۔ جہاں مارکسزم ہوگا وہاں مذہب نہیں ہوگا۔ اور جہاں مذہب ہوگا وہاں مارکسزم نہیں ہوگا۔ دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔
اوپر ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ سوشلزم کا فلسفہ کس طرح اسلام کے فلسفہ سے متصادم ہے۔ خدا کے بغیر انسانی وجود اور اس کی زندگی کی تشریح کرنے کا یہ نظریہ بڑے دعوئوں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنا بودا اور لغو تھا اور اس کے اندر اتنے تضادات تھے کہ فوراً ہی اس کا تاروپود بکھر گیا۔ جب اس کو عملی زندگی میں لایا گیا تو قدم قدم پر اس کی غلطیاں نمایاں ہونے لگیں، لوگوں نے دیکھا کہ اس کے اصولوں کو حقیقی صورت حال پر منطبق کرنا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے متن کی شرحیں لکھی جانے لگیں اور تاویلات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ مارکسزم کی یہ تشریح و توجیہہ جو انگلس کے وقت سے شروع ہوئی تھی، اب تک اس کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو تشریح کے بجائے تحریف کہنا زیادہ صحیح ہوگا کیونکہ اس نے اصل سوشلسٹ فلسفہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے اور اس کو بدلتے بدلتے کچھ کا کچھ بنا ڈالا ہے۔
اب تک دنیا میں مذہب ہی ایک ایسا نظریہ تھا جو زندگی کے بارہ میں ایک جامع تصور دیتا تھا، جو تمام واقعات اور موجودات کی تشریح کرتا تھا۔ مارکسزم تاریخ کی پہلی کوشش ہے جب کہ انسان نے مذہب کے تصور کو رد کرکے نئی بنیادوں پر زندگی کی تشریح کی اور اس کے بالمقابل ایک جامع فلسفہ مرتب کیا۔ اس سے پہلے بھی انسان مذہب کے پیش کئے ہوئے تصور سے انحراف کرتا تھا، مگر یہ انحراف صرف ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ہوتا تھا جس کے پیچھے دلیل کی کوئی قوت نہیں تھی۔ مارکسزم تاریخ کی پہلی کوشش ہے جب کہ انسان نے فلسفہ و استدلال کی بنیاد پر اپنے خدا سے انحراف کیا ہے۔ مگر یہ نظریہ خواہ اصل مارکسی شکل میں ہو یا مارکس کے بعد اس کے متبیعین کی تعبیرات کی شکل میں، ہر حالت میں اتنا لغو ہے کہ کبھی بھی وہ انسانی ذہن کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ چنانچہ مسلمانوں نے بھی(چند سر پھروں کو چھوڑ کر) اس نظریہ کو کبھی اس حیثیت سے تسلیم نہیں کیا کہ وہ انسانی زندگی کی صحیح اور بہتر تشریح کرتا ہے۔ ان کا اسلامی شعور اس اعتبار سے سوشلزم کو قبول کرنے میں ہمیشہ بہت بڑا مانع رہا ہے۔ مگر اس نظریہ کے لازمی
تقاضے کے طور پر مارکس نے مسائل زندگی کے حل کے لئے جس تجویز کا حوالہ دیا تھا وہ بہت تیزی سے ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس حل کے پیچھے استدلال کی قوت اگرچہ وہی مادی فلسفہ تھا جو اوپر بیان کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ اس مادی فلسفہ سے الگ کر دینے کے بعد اس کے حل کے کوئی معنی نہیں رہتے۔ مگر یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ لوگوں نے دلیل کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ وہ صراحتہً غلط تھی مگر اس غلط دلیل سے جو نتیجہ برآمد ہوتا تھا اس نتیجہ کو قبول کر لیا۔
مارکس کا حل بہت تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس حل کے پیچھے جو فلسفہ ہے اس نے لوگوں کو یقین دلا دیا ہے کہ اس کا تجویز کیا ہوا حل ہی انسانیت کے مسائل کو درست کر سکتا ہے۔ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی مثال ایک ایسے مریض کی ہے جو اپنی تکلیف وہ علالت سے اس قدر گھبرا اٹھا ہو کہ جو شخص بھی اسے ایک دوا بتا دے، وہ اس کا تجربہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ سوشلزم کی مقبولیت کا راز اس کے فلسفہ میں نہیں ہے، بلکہ دکھی انسانیت کی اپنی بے قراری اس کا سبب ہے۔ یہی وہ شگاف ہے جس کے راستہ سے یہ مکمل الحادی فلسفہ انسانی آبادی میں نفوذ کر رہا ہے۔ بڑے بڑے کمیونسٹ تک اس سے اسی حیثیت سے متاثر ہوئے ہیں نہ کہ اس کے مادی فلسفہ پر ایمان لا کر اس کی طرف بڑھے ہیں۔ برٹرینڈرسل کے الفاظ میں’’سوشلزم اور انارکزم کی اشاعت کا راز موجودہ انسانی دکھوں میں اس گہرے تعلق کی پیدائش ہے جس نے بے دست و پا مفکرین کی امیدوں کو سیاسی تحریکوں کا محرک بنایا۔ یہی سوشلزم اور انارکزم کی اہمیت کا راز ہے۔‘‘
امریکہ کا مشہور کمیونسٹ ادیب ہوورڈفاسٹ(Howard Fast) جو پچھلی چوتھائی صدی سے کمیونسٹ پارٹی کی صفوں میں عالمی شخصیت کا مالک سمجھا جاتا تھا۔۱۹۵۶ء کے آخر میں اس نے کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت سے استعفا دے دیا___ اس سلسلہ میں اپنے اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے وہ ایک مضمون میں لکھتا ہے:
’’میں مارکسی اپنے شخصی فکری ڈھانچہ ہی میں بنا۔ اور میرا خیال ہے کہ یہی حال بہت سے دوسرے لوگوں کا بھی ہے۔ مجھے (مستعفی ہونے کے بعد) مذہبی شخص کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ میں وسیع تر مفہوم میں اس سے انکار نہیں کرتا۔
لیکن میرے مذہب کا مرکز آدمی تھا۔ کوئی ماورائی قوت نہیں۔ اگر نیکی اور آدمی کی پُرشکوہ تقدیر میں گہرا اور ناقابل تزلزل ایمان مذہب ہے تو مجھے مذہبی ہونے کا اعتراف کرنا چاہئے۔‘‘
میں نے کمیونسٹ پارٹی میں شرکت دو اسباب سے کی۔ مجھے یقین تھا کہ کمیونسٹ پارٹی صحیح انسانی اخوت کی ابتداء ہے اور صدق دل سے سوشلزم، امن اور جمہوریت کے لئے کام کر رہی ہے۔ دوم مجھے یقین تھا کہ کمیونسٹ پارٹی ہی فاشزم کی مئوثر مزاحمت کر رہی ہے۔
اس سلسلہ میں لاکھوں نیک دل اشخاص کی طرح مجھے یقین تھا کہ سوویت یونین کے دوست جو تصویریں پیش کرتے ہیں ان میں سوویت یونین کے متعلق سچائی ہی بیان کی جاتی ہے۔‘‘۱؎
سوشلزم نے اپنے فلسفہ کے تحت زندگی کا جو حل پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان جدوجہد کرکے اپنے معاشی حالات کو بدل ڈالے۔ جب انسان صرف ایک مادی مخلوق ہے تو اس کی حرکت اور تبدیلی کے قوانین بھی مادی ہونے چاہئیں۔ لوہے کو پرزہ کی شکل دینے کے لئے اس کے اوپر ایک مخصوص مادی عمل کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ ڈھلے ڈھلائے پرزہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ایک مادی مخلوق ہے اور اس کو دکھ اور مصیبت سے نکال کر بہتر انجام کی طرف لے جانے اور اس کو مستقل طور پر تمام آفات و خطرات سے پاک کر دینے کا کام بھی کسی ماد عمل ہی کے ذریعہ انجام پا سکتا ہے۔ یہ مادی عمل مارکس کے نزدیک معاشی پیداوار میں تبدیلی کا عمل ہے۔ وہ نظام پیداوار جو نامعلوم مدت سے انفرادی ملکیت پر مبنی چلا آ رہا ہے، اس کو بدل کر اجتماعی ملکیت کی شکل دے دینا، یہی و عمل ہے جو انسان کو بدل دے گا۔ اس کو بدتر حالت سے بہتر حالت کی طرف لے جائے گا۔
یہ اجتماعی ملکیت کا حل جس کو مارکس نے ایک فلسفہ کی شکل دے دی ہے دراصل یورپ میں صنعتی انقلاب سے پیش آنے والے حالات کا لازمی نتیجہ تھا۔ جب ظلم کی ایک حالت سامنے ہو تو اس وقت قدرتی طور پر لوگوں کی نفسیات یہ ہو جاتی ہے کہ وہ اس مخصوص حالت ہی کو ظلم کا اصل سبب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہو جاتا ہے کہ اگر اس مخصوص حالت کو ختم کرکے اس کے برعکس حالت قائم کر دی
جائے تو ظلم کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ چنانچہ انیسویں صدی کی ابتداء میں جب بے قید کاروبار اور تجارت میں اندھا دھند مقابلے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں رونما ہوئیں تو اس کے ردعمل کے طور پر لوگوں نے یہ سمجھ لیاا کہ سرمایہ اور دوسرے ذرائع پیداوار پر انفرادی قبضہ ہی ان تمام خرابیوں کا اصل سبب ہے۔ چنانچہ عام طور پر یہ رحجان پیدا ہونے لگا کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرکے اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنا چاہئے۔ اس عام احساس کو مارکس نے پوری طرح جذب کرکے اس کو زیادہ مدلل اور منظم طریقہ پر پیش کر دیا۔ مارکس کا یہی وہ کارنامہ ہے جس کی بنا پر سوشلزم کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور سوشلزم کے سائنیٹفک تصور کا دوسرا نام’’مارکسزم‘‘ پڑ گیا ہے۔
یورپ میں جس وقت یہ تصور ابھرا تو صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف موجود الوقت صنعتی نظام تھا
____________________________________________________________
۱؎ ماہنامہ تحریک(دہلی)جو۱۹۵۷ء
جو لوٹ کھسوٹ کی انتہائی بھیانک شکل اختیار کر گیا تھا۔ یہ نظام چونکہ انفرادی ملکیت کے تصور پر مبنی تھا اور اس کے وکیل انفرادی ملکیت ہی کے حوالہ سے اپنے برسرِحق ہونے پر استدلال کر رہے تھے اس لئے قدرتی طور پر اس کی یہ حیثیت ہوگئی گویا یہی وہ نظام ہے جو انفرادی ملکیت کے تصور کے تحت پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ مسلمان، خواہ وہ اسلامی تصورات کے عین برعکس کیوں نہ ہوں، مگر اسلام کے نام لیوا ہونے کی وجہ سے یہی اسلام کے حقیقی نمائندے سمجھے جاتے ہیں اور انہیں کی زندگیوں کو دیکھ کر دنیا خود اسلام کے بارے میں رائے قائم کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح یورپ کا بے قید سرمایہ دارانہ نظام اصولی طور پر انفرادی ملکیت کے نظریہ کا نمائندہ قرار پا گیا۔ دوسری طرف اجتماعی ملکیت کا تصور تھا جس نے ابھی تک کہیں عملی نظام کی شکل اختیار نہیں کی تھی، جو صرف ایک تمنا کے طور پر لوگوں کے دلوں میں اُبھر رہا تھا۔
اس طرح یہ بحث جو دراصل ایک بگڑے ہوئے معاشی نظام اور اجتماعی ملکیت کے خیالی تصور کے درمیان تھی نہایت آسانی سے انفرادی ملکیت کے نظام اور اجتماعی ملکیت کے نظام کی بحث بن گئی۔’’انفرادی ملکیت کا نظام کیسا ہوتا ہے؟‘‘ اس کو سمجھنے کے لئے لوگ وقت کے معاشی نظام کو دیکھتے
تھے اور ’’اجتماعی ملکیت کا نظام کیسا ہوگا؟‘‘ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے علمبردار مفکرین کے وہ دعوے تھے جو وہ اپنے خیالی نظام کی حمایت میں نشر کر رہے تھے۔ انفرادی ملکیت کے تصور کی نمائندگی کے لئے ایک بگڑا ہوا معاشی نظام تھا جو اپنی ساری خرابیوں کے ساتھ سامنے موجود تھا۔ اور اجتماعی ملکیت کے تصور کی نمائندگی کے لئے صرف وہ خوبصورت لفظی تصویریں تھیں جو اس کے حامی پورے زورشور کے ساتھ پیش کر رہے تھے۔ ان حالات میں قدرتی طور پر ایک ایسی فضا بن گئی کہ اب جو شخص انفرادی ملکیت کا نام لے وہ گویا انیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظام کا حامی ہے اور جو شخص اجتماعی ملکیت کی باتیں کرے وہ گویا اس نظام کو لانا چاہتا ہے جو صحیح ترین معاشی نظام ہوگا۔ جو وقت کی تمام خرابیوں سے پاک ہوگا۔ انفرادی ملکیت کی حمایت وحشیانہ رجعت پسندی قرار پائی اور اجتماعی ملکیت کا نعرہ لگانے والوں کو روشن خیال اور انسانی بہتری کا علم بردار قرار دیا گیا۔
یہ صورتِ حال اہل مذاہب کے لئے بڑی سخت ثابت ہوئی۔ یہ واقعہ ہے کہ مذہب اپنے چند خاص شرائط کے ساتھ ہمیشہ سے انفرادی ملکیت کا حامی رہا ہے۔ تمام مذاہب کے نزدیک کسی شخص کی ملکیت، اگر وہ جائز لکیت ہے، قطعی طور پر محترم ہے اور اس کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ مذاہب کی اسی تعلیما کی بنا پر مارکس کو مذہب کے خلاف سخت محاذ بنانا پڑا۔ وہ اپنے حامیوں کو جس ملکیتی نظام کا تختہ الٹنے کے لئے تیار کرنا چاہتا تھا اس کی پشت پر سب سے بڑی نظریاتی حمایت یہی مذہب کی تعلیمات تھیں۔ اس لئے اس نے کہا کہ مذہب کی حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ ملکیتی طبقہ کا ڈھونگ ہے جس کو اس نے اپنی ملکیتوں کے تحفظ کے لئے گھڑ لیا ہے۔
یہ حالات اس وقت پیش آئے جب کہ ابھی جلد ہی یورپ میں سائنس اور مذہب کے تصادم میں مذہب کو شکست ہوئی تھی اور اقتدار کا مرکز کلیسا کے ہاتھ سے نکل کر مادیت کے علم برداروں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ کلیسا کے اوبام و خرافات، جن کو غلطی سے مذہب کا نام دے دیا گیا تھا اور جن کے تحفظ کے لئے طویل مدت تک جنگیں کی گئی تھیں، وہ سائنس کے جدید انکشافات کی روشنی میں بے بنیاد ثابت ہو چکے تھے۔ ان حالات کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ سوسائٹی کے اوپر سے مذہب کا وہ اقتدار ختم ہوگیا جو مدت دراز سے چلا آ رہا تھا۔ دوسرا اس سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اہل مذاہب مستقل طور پر ذہنی شکست خوردگی میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے اندر احساس کمتری پیدا ہوگیا۔ وہ سمجھنے لگے کہ حق ہماری جانب نہیں بلکہ سائنس کی جانب ہے۔ وہ اپنی ہر بات کو مشتبہ اور نام نہاد سائنس کے علم برداروں کی طرف سے پیش کی ہوئی ہر بات کو قطعی سمجھنے لگے۔ مگر اس کے باوجود ان میں بہت سے لوگوں کے لئے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ مذہب کو بالکل اپنے ذہن سے کھرچ کر نکال دیتے وہ سائنس کی فتوحات سے مرعوب تھے مگر اسی کے ساتھ مذہب کے تعویذ کو بھی سینہ سے لگائے رکھنا چاہتے تھے۔ مگر سوال یہ تھا کہ ان دو متضاد قسم کے رجحانات کے درمیان مطابقت کی شکل کیا ہو۔ سائنس ہر گز اس کے لئے تیارنہیں ہو سکتی تھی کہ اپنے مزعومات کو مذہب کے اصولوں کا پابند رکھنے کی کوشش کرے۔ غالب اپنے مغلوب کے حق میں کبھی روادار نہیں ہوتا۔ یہ کام مذہب کو کرنا تھا نہ کہ سائنس کو۔ چنانچہ ان اہل مذاہب نے اس وقت مذہب کی بہترین خدمت یہ سمجھی کہ مذہب کو تراش خراش کر جدید نظریات کے عین مطابق ثابت کر دکھائیں۔ اپنی مخصوص ذہنیت کے ساتھ وہ یہی کام کر سکتے تھے اور یہی انہوں نے کرنا شروع کر دیا۔
یہ قصہ صرف ان غلط روایات و نظریات کے ساتھ پیش نہیں آیا جن کو مذہب والوں نے خود سے گھڑ کر مذہب کی طرف منسوب کر دیا تھا اور اب نئی دریافتوں نے جن کی غلطی بالکل واضح کر دی تھی، بلکہ مذہب کی اصل تعلیمات بھی اس کی زد میں آگئیں جن کے خلاف سائنس کے پاس کوئی حقیقی دلیل
نہیں تھی بلکہ اس نے ضد اور ردعمل کے جوش میں ان سے انکار کر دیا تھا۔ اسی سلسلہ کی ایک مثال یہ سوشلسٹ نظریہ بھی ہے جو سائنس اور صنعت کی ترقی کے ساتھ یورپ میں پھیلا اور بالآخر ساری دنیا میں چھا گیا۔
اس صورتِ حال کا سب سے پہلا اور براہِ راست اثر مسیحی مذہب پر ہوا ہے۔ چنانہ عیسائیوں میں بہت سے لوگ اٹھے جنہوں نے کہنا شرو کیا کہ’’سوشلزم ہی خدا کو پسند ہے‘‘ اور ’’سچی عیسائیت مشترک ملکیت کا دوسرا نام ہے۔‘‘ اس زمانہ میں’’عیسائی اشتراکیت‘‘(Christian Socialism) کی ایک مخصوص اصطلاح وضع ہئی جس کا مطلب تھا’’سوشلزم کی حامی عیسائیت‘‘ جرمن ادب میں اس’’عیسائی اشتراکیت‘‘ کی مخصوص مثال پروٹسٹنٹ پادری ٹاٹ(Todt)کی کتاب ہے جو ۱۸۷۷ء میں شا ئع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں مصنف نے انجیل کے سینکڑوں ایسے اقتباسات پیش کئے ہیں جن کا مقصد عیسائیت کے بنیادی خیالات کو اشتراکی اصول کے مطابق ثابت کرتا ہے۔ ٹاٹ اپنی کتاب ان الفاظ سے شروع کرتا ہے:
’’جو شخص سماجی مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ اپنے ایک ہاتھ کی طرف اقتصادیات و معاشیات کی کتاب، دوسرے ہاتھ کی جانب اشتراکیت کا علمی ادب اور سامنے عہد نامہ۱؎ جدید کھول کر رکھ لے۔‘‘
فرانس اور انگلستان میں خاص طور پر عیسائی اشتراکیت کے بہت سے بڑے بڑے حامی پیدا ہوئے۔ فرانس کا مشہور اشتراکی مفکرین سائمن(St. Simon) اپنی تصنیفات میں بار بار عیسائی تعلیم کے حوالے دیتا ہے۔ وہ سوشلزم کو جدید عیسائیت کی تکمیل تصور کرتا تھا۔ انگلستان کے سرکاری گرجا کا پادری فریڈرک موریس (Friedric Denison Maurice) جو آخر عمر میں کیمبرج میں فلسفۂ اخلاق کا پروفیسر ہوگیا تھا اور۱۸۷۲ء میں جس کا انتقال ہوا، وہ کہتا ہے کہ ’’عیسائیت کو کسی خوف و خطر کے بغیر یہ اعلان کر دینا چاہئے کہ اشتراکیت کے اقتصادی اصول عین انجیل کے اصول ہیں، انسانی جماعت ایک جسم کی مانند ہے جو بہت سے اعضاء سے ترتیب دیا گیا ہے، وہ ایک ایسا کُل نہیں ہے جس کے اجزاء ایک دوسرے کی بربادی پر تُلے ہوئے ہوں۔ اس کے اعضاء ایک دوسرے کے حریف ہونے کے
بجائے ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے والے ہونے چاہئیں۔‘‘ چنانچہ موریس اور کنگسلے(Kingsley) کے مقلدین اور دوسرے اس خیال کے لوگ اپنے کو’’عیسائی اشتراکی‘‘(Christian Socialist) کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عیسائیت اتحادِ عمل کو واحد جائز اصول مانتی ہے اور اسی لئے وہ بھی اشتراکیت سے قریب ہے۔ چونکہ ہم عیسائی ہیں اس لئے ہم کو اشتراکی ہونا چاہئے۔ اسی طرح انگلستان میں لارڈ بشپ وسٹ کاٹ(Lord Bishop Westkott) عیسائی اشتراکیت کا حامی تھا۔ اکتوبر۱۸۹۰ء میں انگریزی سرکاری گرجا کی سالانہ کانفرنس(Church Congress) میں تقریر کرتے ہوئے اس نے سوال کیا’’کیا ہمارے شہروں اور قصبوں کی حالت عین خدا کی مرضی کے مطابق پائی جاتی ہے‘‘ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ’’موجودہ تقسیم دولت کا معیار امیروں کے لئے بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسا کہ وہ غریبوں کے لئے ہے جو بھوکے مر رہے ہیں۔ صرف انجیل کے اصول مقصد کے مطابق سوسائٹی کا جدید اشتراکی نظام ہی ایسی حالت میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔‘‘ لندن میں سٹی ٹمپل کے پادری کیمبل(Rev.J. Campbell)
___________________________________________________________
۱؎ یعنی بائبل کا وہ حصہ جس میں مسیحی تعلیمات کا ذکر ہے۔
نے ایک جلسہ میں جو مارچ۱۹۰۷ء میں لیوریول کی’’آزاد مزدور پارٹی‘‘ کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا، اپنے خیال کا اظہار اس طرح کیا:
’’میں ایک اشتراکی ہوں اس لئے کہ میں عیسائی ہوں۔ خود انجیل کی منطق نے مجھے اس نتیجہ پر پہنچایا کہ جو کچھ حضرت عیسیٰ کا گرجا اپنے ابتدائی زمانہ میں چاہتا تھا۱؎ وہی آج اشتراکی پارٹی چاہتی ہے۔ وہ درحقیقت خدا کی سلطنت کو قائم کرنے کی جرأت کر رہی ہے۔ انیس سو برس گزر گئے اور ابھی تک یہ نصب العین پورا نہ ہو سکا۔ لیکن اسے اشتراکیو! تم نئے نئے سرے سے اس قدیم حق کے حاصل کرنے کی تبلیغ کرو اور دکھا دوکہ گرجا کی صحیح تعلیم کی عملی شکل تم میں موجود ہے۔‘‘
جنوری۱۹۰۸ء میں انگلستان کے مختلف گرجائوں کی انجمنوں کے سو سے زائد پادریوں نے اشتراکیت کی حمایت میں ایک متفقہ اعلان شائع کیا تھا۔ اس میں انہوں نے غلط فہمی سے بچنے کے لئے صاف طور پر یہ بھی تحریر کیا تھا کہ ان کی اشتراکیت کوئی الگ قسم کی اشتراکیت نہیں ہے۔ بلکہ’’وہی ہے جس کا تعلق تمام دنیا کی اشتراکیوں سے ہے اور اس میں پیداوارِ دولت کے ذرائع کا مشترکہ ہونا شامل ہے۔ ہمارا اشتراکیت کا تصور کچھ کم سنجیدہ یا کچھ کم درجہ کا نہیں ہے کیونکہ اس میں عیسائیت کی روح نے جان ڈال دی ہے‘‘۔۲؎
بعینہ یہی کیفیت خود مسلمانوں کے درمیان بھی پیش آئی۔ انہوں نے جب دیکھا کہ سوشلزم عہد جدید کا مذہ بن چکا ہے اور زندگی کے مسائل پر ’’سائنٹیفک انداز‘‘ میں سوچنے والے تمام لوگ اس کے حامی ہوتے جا رہے ہیں، تو ان کو اس احساس سے بہت شرمندگی لاحق وئی کہ ان کا محبوب اسلام ترقی کی دوڑ میں دنیا سے پیچھے رہ جائے۔ وہ اسلام کے حق میں رجعت پسندی کو برداشت نہ کر سکے۔ ان کو گوارانہ ہوا کہ اسلام ایک ایسے ملکیتی نظام کی حمایت کرنے والا ہو جس کا تعلق تاریک دور کے جاگیرداری سماج سے ہے۔ انہوں نے فوراً زمانہ کی آواز میں
_____________________________________________________________________________
۱؎ یہاں غالباً تاریخ حوارمین کے اس بیان کی طرف اشارہ ہے جو ابتدائی عیسائی جماعت کی زندگی سے متعلق ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح کے’’ابتدائی پیرواور حوارئیین ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر زندگی گزارتے تھے ان کی تمام اشیاء باہم مشترک ہوتی تھیں اور اپنی کمائی کو آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے‘‘ یہ غالباً اسی قسم کی کوئی صورت حال تھی جیسی کہ اسلامی تاریخ میں ہجرت کے بعد مدینہ کی ابتدائی زندگی میں ملتی ہے۔ تاہم یہ طریقہ باعتبار ضرورت تھا نہ کہ باعتبار معیار۔
۲؎ یہ تفصیلات پروفیسر کارل ڈیل(Karl Diehl) کی کتاب’’سوشلزم کی بنیادی حقیقت اور اس کی اہم قسمیں‘‘ سے لی گئی ہیں، جو کہ اصل جرمن زبان سے براہِ راست اردو میں ترجمہ کرکے ندوۃ المضفین(دہلی) نے شائع کی ہے۔ حوالہ صفحہ۸۸۔۱۸۲
اپنی آواز مالا کر یہ اعلان کر دیا کہ’’اسلام انفرادی ملکیت کا سخت مخالف ہے’’ حضرت محمد سب سے بڑے سوشلسٹ تھے‘‘ اور’’قرآن سرتاپا اشتراکی تعلیمات سے بھرا ہوا ہے۔‘‘
زندگی کے معاشی مسائل کو حل کرنے کا یہ طریقہ صد فیصد غلط نہیں ہے۔ یقینا بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ حکومت کسی معاشی اسکیم کو اپنے انتظام میں شروع کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ ان معنوں میں سوشلزم قدیم ترین ریاستی نظاموں میں بھی موجود تھا۔ مگر جدید سوشلزم جس کو مارکس اور اس کے متبعین پیش کرتے ہیں وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ مارکسی سوشلزم معاشیات کی تنظیم کے لئے اجتماعی ملکیت ہی کو اصل قرار دیتی ہے اور انفرادی ملکیتوں کو مجبوراً صرف وہاں تسلیم کرتی ہے جہاں اس کے سوال کوئی چارہ نہ ہو۔ جب کہ پرانے نظام میں اصلاً انفرادی ملکیت ہوتی تھی اور اجتماعی ملکیت کو کسی خاص ضرورت کے وقت جزئی طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔
کسی نظام کو جب دوسرے کسی نظام کا مخالف قرار دیا جائے تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ دونوں کے درمیان کوئی جزئی مشابہت بھی نہیں ہے۔ ایسی مشابہت تو انتہائی متضاد چیزوں میں بھی ثابت کی جا سکتی ہے۔ دو نظاموں کا مقابلہ ہمیشہ اس لحاظ سے کیا جاتا ہے کہ بنیادی طور دونوں کا رُخ کیا ہے۔ اور زندگی کے بارہ میں اصلاً دونوں کیا نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے جب ہم سوشلزم کے معاشی حل کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس کا فلسفہ اسلام کے برعکس ایک فلسفہ ہے ٹھیک اسی طرح اس فلسفہ کے بطن سے نکلا ہوا معاشی حل بھی اسلام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ دونوں کو ایک جگہ جمع نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام اپنے معاشی نظام میں اجتماعی ملکیت کا پیوند لگانے سے قطعی طور پر انکار کرتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم ان اصولی اسباب کو بتائیں گے جن کی بنا پر اسلام کے اندر اشتراکیت کے حل کو اختیار نہیں کیا جا سکتا۔
اجتماعی ملکیت کا نظریہ کیوں اسلام سے مطابقت نہیں کھتا، اس کو اگلی سطروں میں نمبروار بیان کیا جاتا ہے۔
۱۔ زندگی کے تمام معاملات میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ معاملہ کی فطری حالت کو اصلاً برقرار رکھ کر قوانین کے ذریعہ ان راستوں کو بند کر دیتا ہے جہاں سے خرابیاں ظہور کرتی ہیں۔ معیشت کی تنظیم کے لئے انفرادی ملکیت کا اصول ہی فطری اصول ہے، اس کے دو نہایت مضبوط قرینے ہیں۔ پہلا یہ کہ آدمی کے اندر فطری طور پر یہ خواہش موجود ہے کہ جو کچھ وہ حاصل کرے وہ اس کی ذاتی ملکیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جتنی دل چسپی کے سالتھ اپنے لئے کام کرتا ہے، دوسرے کے لئے نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کو عملی طور پر تمام کمیونسٹ ملکوں میں ہمیشہ سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اور اب تو نظری طور پر بھی کمیونسٹ حضرات اس کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ تاریخ کے تمام معلوم زمانوں میں انفرادی ملکیت کا طریقہ رائج رہا ہے انسانی تاریخ پورے تسلسل کے ساتھ انفرادی ملکیت کے حق میں شہادت دیتی ہے نہ کہ نام نہاد اجتماعی ملکیت کے حق میں۔ تاریخ کے اسی خلا کو پُر کرنے کے لئے سوشلزم کے علم برداروں نے ابتدائی انسانی سماجی کے بارہ میں یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ وہ اشتراکی سماج تھا۔ یعنی اس میں تمام چیزیں، حتیٰ کہ عورت بھی، مشترک طور پر سب کے قبضہ میں ہوا کرتی تھی۔ مگر یہ محض ایک مفروضہ ہے جس کے لئے قیاس و گمان کے سوا کوئی قطعی دلیل نہیں دی جا سکتی۔
اسلامملکیت کے اسی فطری طریقہ کو اصولاً تسلیم کرتا ہے۔ اور قوانین کے ذریعہ اس کا تحفظ کرتا ہے۔ آدمی جائز طور پر جو کچھ کماتا ہے اسلام کی نگاہ میں وہ اس کی ملک ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کے وارثوں کی ملک ہے۔ کسی فرد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کا اثاثہ چھین لے اور نہ اسلامی ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ کسی کی ملکیت کو بحق سرکار ضبط کر لے۔ وہ کسی کی ملکیت میں صرف مداخلت کر سکتی ہے جب کہ متعلقہ شخص نے احکام الٰہی میں سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرکے اسے حاصل کیا ہو یا
وہ ان راہوں میں اس کو استعمال کر رہا ہوں
جن راہوں میں استعمال کرنے سے خدا نے منع فرمایا ہے۔ خدا کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
کل المسدم علی المسلم حرام دمہ ومالہ عرضہ(مسلم) ہر مسلمان کے اوپر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے۔
دوسری جگہ آپ نے فرد کے اوپر اسلامی ریاست کے اختیارات کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان فرمایا،
۲۔ سوشلزم کا بنیادی فلسفہ اسلام سے جس طرح ٹکراتا ہے اسی طرح اس کے معاشی حل کے پیچھے جو منطق ہے اس کے لئے بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ انسانیت کے مسئلہ کو حل کرنے کا سوال اصلاً یہ سوال ہے کہ انسان کو کس طرح بدلا جائے۔ انسان کے اندر تبدیلی کا احساس پیدا کئے بغیر حالات کو بدلنا ممکن نہیں ہے۔ اگر انسان نہ بدلیں تو رشوت بند کرنے کا قانون بھی بگڑے ہوئے افسروں او اہل کاروں کے ہاتھ میں پڑ کر مزید رشتوتیں وصول کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، اور بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے لئے خرچ کی ہوئی رقمیں چند ٹھیکہ داروں اور اعلیٰ عہدیداروں کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔ اسی لئے انسانی مسائل کی اصلاح کے لئے جو تحریکیں اٹھی ہیں وہ ہمیشہ اس سوال کو بنیادی اہمیت دیتی ہیں کہ انسان کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔ سوشلسٹ حل دراصل ا سی سوال کا ایک جواب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مادی تبدیلی کا جو قانون ہے وہی انسان کی تبدیلی کا بھی قانون ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سوشلزم’’اصلاح بذریعہ جبر‘‘ کا طریقہ ہے اور اسلام’’اصلاح بذریعہ تربیت‘‘ کا۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی تربیت کے ذریعہ اصلاح تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اسلام شعوری تبدیلی کے ذریعہ اصلاح کرنا چاہتا ہے اور مارکسزم کا دعویٰ یہ ہے کہ مادی تبدیلی کے ذریعہ
انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔ گویا اسلام اور مارکسزم میں فرق طریق کار کا نہیں ہے بلکہ اصول اور بنیاد کا ہے۔ اس فرق کو دوسرے لفصوں میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کا کہنا ہے کہ’’انسان
کو بدلنا چاہئے ہو تو اس کے ذہن کو بدل دو۔‘‘ اس کے برعکس مارکس کا کہنا ہے کہ ’’انسان کو بدلنا چاہتے ہو تو اس کے مادی حالات و بدل دو۔
وہ بنیادی فلسفہ جس کو مارکس نے اس سلسلہ میں مرتب کیا تھا اس کو اپنی اصل شکل میں دنیا نے بہت کم قبول کیا۔ مگر مخصوص حالات کی بنا پر اس کے اس تجویز کئے ہوئے یا زیادہ صحیح لفظوں میں دریافت کئے ہوئے حل نے بڑی کثرت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت سماج جن دشواریوں میں مبتلا ہے اس کے علاج کے لئے تحدید ملکیت، مشترکہ کھیتی، اقتصادی منصوبہ بندی اور نیشلائزیشن کی تدبیریں اسی طرزِ فکر کا نتیجہ ہیں۔ انسان اب عام طور پر یہ سوچنے لگے ہیں کہ ملکیتی نظام میں تبدیلی اور کچھ معاشی کارروائیوں کے ذریعے انسانیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اسی سے معاشی ناہمواری ختم ہوگی، اسی سے سماجی اونچ نیچ کا علاج ہوگا، اسی سے بگڑے ہوئے اخلاق درست ہوں گے، اسی سے سیاسی استبداد کا خاتمہ ہوگا، اسی سے بین الاقوامی امن قائم ہوگا۔ غرض انسانیت کے سارے دکھوں کا علاج اور اس کی کامیابی کی راہ صرف یہ ہے کہ مادی زندگی یا دوسرے لفظوں میں اس کے معاشی شعبے میں کچھ تبدیلیاں کر دی جائیں۔ یہی وہ فلسفہ ہے جس سے متاثر ہو کر اسلام میں اجتماعی ملکیت کی گنجائش ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر یہ طرز فکر بنیادی طور پر اسلام سے ٹکراتا ہے۔ اسلام نہ تو اس فلسفہ کو تسلیم کرتا اور نہ اس کی تعلیمات میں اس کی گنجائش ہے کہ انفرادی ملکیت کے فطری نظام کو الٹ کر نام نہاد سماجی ملکیت کا نظام انسانیت کے اوپر لادنے کی کوشش کی جائے۔ اسلام کے نزدیک انسان کے بننے یا بگڑنے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے یا خدا سے نہیں ڈرتا۔ جب کہ سوشلزم کے نزدیک انسان کا بننا یا بگڑنا اس بات سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ کس قسم کے معاشی قوانین کے اندر زندگی گزار رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشیات کی تنظیم کے بارہ میں اسلام کا نقطۂ نظر سوشلزم کے نقطۂ نظر سے اسی طرح ٹکراتا ہے جس طرح خدا پرستی اور مادہ پرستی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح’’جدلی مادیت‘‘ زندگی کی صحیح تشریح نہیں ہے اسی طرح اجتماعی ملکیت کا نظریہ بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
۳۔ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ کوئی ایسی دنیا نہیں ہے جہاں ابھی ملکیتیں قائم نہیں ہوئی ہیں اور ہمیں اس کام کی ابتداء کرنے کے لئے کوئی نقشہ بنانا ہے۔ بلکہ صورتحال یہ ہے کہ دنیا کا نظام صدیوں
سے انفرادی ملکیت پر مبنی چلا آ رہا ہے۔ ہم کو نئی نیا نہیں بنانی ہے بلکہ بنی ہوئی دنیا میں تبدیلی کرنی ہے۔ ایسی حالت میں اجتماعی ملکیت قائم کرنے کا سوال سب سے پہلے یہ سوال سامنے لاتا ہے کہ اس طرح کی کسی اسکیم کے لئے لوگوں کی قائم شدہ ملکیتوں کو ان کی مرضی کے خلاف حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کا سوال مثبت سے زیادہ منفی نوعیت رکھتا ہے۔ ہم کو صرف یہ نہیں دیکھنا ہے کہ اسلامی شریعت میں اس کے موافق کوئی دفعہ پائی جاتی ہے یا نہیں بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ دیکھنا ہے کہ اس اسکیم کو اگر کسی آبادی میں نافذ کیا جائے تو شریعت کے قائم کئے ہوئے حدود کے اندر رہ کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
اس حیثیت س جب ہم اسلام کے قانون ملکیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے شخصی جائیداد کے لئے جو تحفظات تسلیم کئے ہیں ان کو ساقط کئے بغیر کسی آبادی میں اجتماعی ملکیت کی اسکیم کو جاری نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام نے کسبِ معاش کے لئے کچھ حدود و شرائط مقرر کی ہیں۔ جو شخص ان حدود و شرائط کا پابند رہتے ہوئے دولت اور جائیداد حاصل کرتا ہے وہ گویا اسلامی قانون کی رو سے ایک جائز ملکیت کا مالک بنا ہے۔ پھر آپ کس بنا پر اس سے ملکیت کا حق ساقط کریں گے۔ اس عمل کے لئے قانونی بنیاد کیا ہے۔ وہ کون سی منطق ہے جس کے ذریعہ آپ کا فعل حق بجانب قرار دیا جا سکتا ہے۔ چونکہ دنیا میں اب تک کا سارا کاروبار انفرادی ملکیت کے اصول پر چل رہا ہے، اس لئے اجتماعی ملکیت کا نظام لانے کے لئے سابقہ انفرادی ملکیتوں کو سلب کرنا پڑے گا۔ اس عمل کے بغیر اجتماعی ملکیت کا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نظام کلاً یا جزاً جس درجہ میں بھی اختیار کیا جائے اسی کے بقدر افراد کی ملکیتوں کو غصب کرنا ضروری ہوگا۔ پھر کیا اسلام کے قانون میں ایسی کسی دفعہ کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جو محض اجتماعی تنظیم کے لئے افراد کی ملکیتوں کو سلب کرنا جائز قرار دیتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ دولت حاصل کرنے کے طریقے کیا ہوں اور حاصل شدہ دولت کو کن راہوں میں صرف کیا جائے، اس سلسلہ میں نہایت تفصیلی ہدایات دے کر شریعت ایک طرف جائز طور پر حاصل کی ہوئی انفرادی ملکیتوں کی تصدیق کرتی ہے اور دوسری طرف یہ بھی متعین کر دیتی ہے کہ افراد کی ملکیتوں میں حکومت کس حد تک اور کن پہلوئوں سے دخل دینے کی مجاز ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سے کوئی تعلیم اور صدرِ اول کے
نظائر میں سے کوئی نظیر اس امر کی تائید میں پیش نہیں کی جا سکتی کہ افراد کو ملکیت بنانے کی ممانعت ہو یا اس پر حد بندی قائم کی گئی ہو، اور نہ اس کا کوئی ثبوت دیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کی ملکیتیں محض اس لئے چھینی جا سکتی ہیں کہ ریاست کی طرف سے ان کا یکجائی انتظام کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں جتنی دلیلیں دی گئی ہیں وہ سب نہایت کمزور ہیں اور ان سے شریعت کے اصل منشاء کے بجائے زبردستی اپنا منشاء برآمد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۴۔ اسلام کے معاشی نظام کا پورا ڈھانچہ انفرادی ملکیت کے اصول پر قائم ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اسلام کا معاشی نظام اپنی مخصوص نوعیت کے ساتھ انفرادی ملکیت کا نظام ہے۔ اس مجموعہ میں اجتماعی ملکیت کا اصول کلاً یا جزٔاً جس درجہ میں بھی اختیار کیا جائے اس سے زبردست تضادات پیدا ہوتے ہیں۔ غور کیجئے، لوگوں کی ذاتی ملکیتوں کو چھین کر انہیں اجتماعی ملکیت بنا دینے کے تصور کے پیچھے اصل منطق کیا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص زرعی فارم کا مالک ہے یا اس نے اپنی کوشش سے کوئی کارخانہ قائم کیا ہے، یا کسی کے پاس مشین اور دوسرے آلات پیدا وار ہیں تو آخر کس بنا پر یہ چیزیں اس سے چھین لی جائیں گی۔ ذرائع پیداوار کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اس کو اجتماعی ملکیت بنانے کا جو تصور ہے اس کے پیچھے نظریاتی بنیاد کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی ملکیت کا تصور اس نظریہ محنت کی پیداوار ہے جو مارکس اور دوسرے فلسفیوں نے وضع کیا تھا۔ انگریز ماہر اقتصادیات ڈیوڈ ریکارڈو(David Recardo) کا خیال تھا کہ’’کسی تجارتی سامان کی قیمت اس مقدار محنت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے جو اس کی تیاری میں صرف کی گئی ہو‘‘ ریکارڈو کے اس خیال کو لے کر مارکس نے وہ نظریہ قائم کیا جس کو قدر زائد(Surplus value) کا خیال تھا کہ ’’کسی تجارتی سامان کی قیمت اس مقدار محنت کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے جو اس کی تیاری میں صرف کی گئی ہو‘‘ ریکارڈو کے اس خیال کو لے کر مارکس نے وہ نظریہ قائم کیا جس کو قدر زائد(Surplus value) کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ مارکس کے اس نظریہ کے مطابق محنت ہی کے ذریعہ اشیاء میں قدر و قیمت پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے کسی چیز سے حاصل شدہ قیمت کو بھی صرف محنت کا حصہ ہونا چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں محنت ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے حق میں کسی چیز کی ملکیت کا استحقاق پیدا
کرتی ہے۔ جہاں ذاتی محنت کے بغیر آدمی کسی چیز کا مالک بن جائے۔ وہ اس کا مالک نہیں بلکہ غاصب ہے جس کو چھین ہی لینا چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سوشلزم صرف ذاتی محنت کی کمائی کو جائز سمجھتا ہے اس کے نزدیک دولت اور جائیداد کے ذریعہ حاصل کی ہوئی آمدنی جائز آمدنی نہیں ہے کیونکہ وہ حقوق مالکانہ کے طور پر حاصل کی جاتی ہے نہ کہ ذاتی محنت کے معاوہ میں، اس بنا پر سوشلزم کا خیال ہے کو جو جائیدادیں___ یعنی وہ چیزیں جن پر دوسروں کی محنت سے کام لے کر دولت پیدا کی جاتی ہے___لوگوں کے قبضہ میں ہیں وہ لوٹ کا مال ہیں۔ یہ ایسے ہتھیار ہیں جن کے ذریعہ کچھ لوگ بے کار بیٹھ کر دوسروں کی محنت کی کمائی ہڑپ کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے جائیدادوں کو افراد کے قبضہ سے نکال کر، افراد کے نمائندہ ادارہ، اسٹیٹ___ کے قبضہ میں دے دینا چاہئے۔ تاکہ وہ پیداوار دولت کے نظام کو صحیح راستہ پر لگائے، تاکہ استحصال کا نظام ختم کیا جا سکے۔ گویا سوشلسٹ فلسفہ کے مطابق جب کسی سے کوئی جائیداد یا ذریعہ پیدائش کو چھینا جاتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ کسی سے اس کی ملکیت چھین لی گئی ہے بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہوتے ہیں کہ آدمی سے وہ چیز چھین لی گئی ہے جس کے ذریعہ وہ دوسروں کی کمائی کو ناجائز طور پر ہڑپ کر رہا تھا۔
یہی وہ نظریہ ہے جس سے اجتماعی تنظیم کے لئے افراد کی ملکیتوں کو چھیننے کے حق میں دلیل حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس منطق کو اگر قبول کر لیا جائے تو یہ اسلام کے نظریہ ملکیت سے براہ راست ٹکراتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پھر کسی ایسی جائداد پر کسی کا شخصی قبضہ جائز نہیں ہے جس پر وہ خود کام کرکے پیداوار حاصل نہ کرتا ہو بلکہ دوسروں کی محنت استعمال کرکے نفع کماتا ہو۔ اس طرح اسلام کا پورا قانون وراثت غلط ہو جاتا ہے کیونکہ وہ کسی محنت کے بغیر آدمی کو جائیداد کا مالک قرار دیتا ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ کھیت کو بٹائی پر دینا غلط ہے کیونکہ اس صورت میں کسی ذاتی محنت کے بغیر آدمی ایک کھیت کی پیداوار میں شریک ہو جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مکان، سواری اور دوسری چیزوں کو کرایہ پر اٹھانا غلط ہے کیونکہ اس عمل سے مکان یا سواری وغیرہ کا مالک اپنے لئے جو معاوضہ حاصل کرتا ہے اس میں اس کی ذاتی محنت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مضاربت کے اصول پر کسی کو روپیہ دے کر اس کی محنت کی کمائی میں شریک ہونا غلط ہے کیونکہ یہاں بھی محنت صرف ایک کی ہے نہ کہ دونوں کی۔ اس نظریہ
کے مطابق زکوٰۃ کا قانون ایک غلط بنیاد پر قائم ہے کیونکہ بہت سی صورتوں میں اس کا انطباپق جائیدادوں کی آمدنی پر ہوتا ہے نہ کہ صرف ذاتی محنت کی کمائی سے پس انداز کی ہوئی رقموں پر۔
غرض یہ نظریہ محنت جو یہ بتاتا ہے کہ کسی چیز کی آمدنی پر ملکیت کا استحقاق کب پیدا ہوتا ہے۔ یہ اسلام کے تصورِ ملکیت اور اس کے معاشی قوانین کے پورے ڈھانچہ سے ٹکراتا ہے۔ اگر اس نظریہ کو تسلیم کرکے اس سے ملکیتوں کے سلب کرنے پر استدلال کیا جائے تو یہ خود اسلام کی تنسیخ ہے۔ یہ ’’اسلام کے معاشی مقاصد‘‘ حاصل کرنے کے نام پر خود اسلام کے معاشی نظریہ کو ترک کر دینا ہے۔ حال میں ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے’’مسئلہ زمین اور اسلام‘‘۔ مصنف نے اس کتاب میں زرعی اصلاح کے لئے کچھ تجویزیں پیش کی ہیں۔ ان کی پہلی تجویز یہ ہے کہ زمین کی ملکیت بتدریج کاشتکار میں منتقل کی جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ہماری زرعی اصلاح کی پہلی بنیادی اینٹ یہ ہے کہ کوئی زمین کا ٹکڑا کسی ایسے آدمی کو کوئی فائدہ نہ پہنچائے جس پر وہ خود محنت نہیں کرتا۔ گویا زمین کی فصل کلیۃً اس کو ملے جو زمین پر خود کام کرتا ہے۔ زرعی اصلاح کا یہ پہلا’’کم سے کم‘‘ جہاں سوشلسٹ اصلاح کی ابتداء ہوتی ہے وہ ایک ایسا اصول ہے جو اسلام کے پورے معاشی ڈھانچہ کو گرا دیتا ہے۔
’’محنت‘‘ کو معاشی حقوق کی بنیاد قرار دینا بظاہر بہرت خوصورت معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ فطرت اور اسلام دونوں کے خلاف ہے۔ محنت کی ساری اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود محنت کا یہ نظریہ تسیم کرنا ممکن نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر کام میں جسم اور دماغ دونوں قسم کی محنت لگانی پڑتی ہے۔ مزید یہ کہ پیدائشی طر پر ایک انسان اور دوسرے انسان میں صلاحیت کا فرق ہوتا ہے۔ کسی شخص کے اندر جسمانی طاقت زیادہ ہوتی ہے اور کسی شخص کے اندر دماغی طاقت زیادہ۔ دونوں قسم کے انسانوں کے ملنے سے تمدن کا نظام چلتا ہے۔ اشتراکی نظریہ اس فطرت سے لڑ کر بنایا گیا ہے۔ اسلام کا معاشی نظام اس حقیقت واقعہ کو تسلیم کرنے کی بنیاد پر بنا ہے۔
یہ چند نمایاں اسباب ہیں جن کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ
اجتماعی پیداوار کو رائج کرنے کے لئے لوگوں کی ملکیتیں کلاً یا جزء اً سلب کر لی جائیں۔ اسلام کا فلسفہ اس کی روح اور اس کا قانونی ڈھانچہ سب کے سب اس طریقہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جہاں ملکیتیں سلب نہ کی جا سکتی ہوں وہاں اجتماعی ملکیت کا نظام قائم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ دونوں بالکل لازم ملزوم ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیں گے جو اسلام کو سوشلزم کے عین مطابق ثابت کرنے اور اسلام کی تعلیمات سے نام نہاد سماجی ملکیت کا نظریہ برآمد کرنے کے لئے پیش کی جا رہی ہیں۔
اجتماعی ملکیت۱؎ کے طریقہ کو عین اسلامی طریقہ ثابت کرنے کے لئے جو دلیلیں دی گئی ہیں وہ عموماً اس قدر بے معنی ہیں کہ ان پر گفتگو کرنا بھی اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا ہے۔ اس قسم کے دلائل کا مطالعہ کرنے کے لئے میں نے حال میں جناب چودھری غلام احمد پرویز کی کتاب’’نظام ربوبیت‘‘حاصل کی تھی جو موصوف کی شاہ کار تصنیف کہی جاتی ہے۔ پرویز صاحب اگرچہ اشتراکیت کے نام پر اجتماعی نظام پیداوار کے حامی نہیں۔ انہوں نے سرمایہ داری کو ’’جذام‘‘ اور کمیونزم کو’’سرسام‘‘ کہا ہے۔’’اسلامی اشتراکیت‘‘ کی اصطلاح ان کے نزدیک ایسی ہی ہے جیسی ’’قرآنی دہریت‘‘۲؎۔ مگر خود اسلام کے معاشی نظام کو جو تشریح وہ کرتے ہیں، اس میں اور اشتراکیت میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ ان کا ’’قرآنی معاشرہ‘‘ بعینہ اسی قسم کا ایک معاشرہ ہے جو اشتراکیت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ میں نے اس کتاب کو خاص طور پر دیکھا، کیونکہ میرا خیال تھا کہ کم ازکم اپنے موضوع پر وہ ایک مکمل کتاب ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کو لکھنے میں پرویز صاحب نے اپنا پورا زور قلم صرف کر دیا ہے۔ مگر دیکھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ پرویز صاحب کی یہ کتاب اگر ان کا شاہ کار ہے تو اپنے موضوع کے اعتبار سے نہیں بلکہ وہ دراصل ان کے اس مخصوص طرز استدلال کا شاہ کار ہے جو مختلف مسائل کے سلسلہ میں وہ پیش فرماتے رہے ہیں۔
اس کتاب میں قرآن کی آیتوں کا مطلب بیان کرنے میں بالکل اسی قسم کی مہارت کا ثبوت دیا گیا ہے جیسا کہ ایک صاحب کے سامنے میرانیس کا یہ شعر پڑھا گیا:
________________________________________________________________
۱؎ افراد سے ان کی ملکیتیں چھین کر حکومت کے ذریعہ ان کا یکجائی انتظام کرنے کے نظریہ کو اجتماعی ملکیت یا سماجی ملکیت کہا جاتا ہے مگر اس نظریہ کا یہ نام محض ایک قانونی اور اصطلاحی فریب ہے۔ اس کو حکومتی طبقہ کی ملکیت کہنا چاہیے، نہ کہ سارے سماج کی ملکیت
۲؎ نظام ربوبیت، صفح۱۹۔۲۸
سب خوشہ رُبا ہیں میرے خرمن کے جہاں میں
انہوں نے اس کا مطلب یہ بتایا کہ ’’میرے آگے سب لومڑی کی دم ہیں‘‘ اس مصرعہ میں’’ربا‘‘ ان کے نزدیک لومڑی کا ہم معنی فارسی لفظ’’روباہ‘‘ کا مخفف تھا اور خوشہ سے مراد لومڑی کی گھچے دار دم تھی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے استدلال کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکتا۔ اسلام کے اندر اجتماعی ملکیت ثابت کرنے کے لئے دوسرے لوگ جو دلیلیں دیتے ہیں ان کا انداز بھی عموماً اسی قسم کا ہے۔ تاہم استدلالات کے اس مجموعہ میں بعض دلیلیں جو کسی قدر وزنی معلوم ہو سکتی ہیں، ہم یہاں ان کے بارہ میں مختصر گفتگو کریں گے۔
یہ دلیلیں جو سوشلزم کے حق میں سوشلسٹ ذہن رکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں وہ عموماً تین قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کی عمارت اسلام کے بنیادی افکار و تصورات پر قائم کی گئی ہے۔ دوسری وہ دلیلیں ہیں جو اسلام کے فلسفہ شریعت سے اخذ کی گئی ہیں۔ اور تیسری قسم کی دلیلیں وہ ہیں جو تاریخ اسلام کے نظائر سے کی جاتی ہیں۔ ہم تینوں قسم کی دلیلیوں پر ترتیب وار گفتگو کریں گے۔
اسلام کے اسیاسی تصورات سے جو استدلال کیا جاتا ہے پہلے اس کو لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ عملی زندگی کے کسی شعبے میں اسلام جو رویہ اختیار کرتا ہے وہ دراصل زندگی کے بارہ میں اس کے بنیادی تصورات ہی کا عکس ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کی ساری تفصیلات اور اس کے تمام فقہی اور قانونی ضابطے دراصل حیات، کائنات اور انسان کے بارہ میں اس بنیادی فلسفہ کے قدرتی اور منطقی نتائج کے طور پر اُبھرے ہیں جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ اس لئے کسی مخصوص قانون کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے بنیادی فلسفہ سے وہ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ ان حضرات کا دعویٰ ہے کہ اس اعتبار سے اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا فلسفہ نہ صرف یہ کہ اجتماعی ملکیت کے خلاف نہیں معلوم ہوتا بلکہ اس کا یہ صریح تقاضا نظر آتا ہے کہ ایسا ہی ہو۔
اس فلسفہ کے دو خاص جزء حسب ذیل ہیں:
۱۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ نے پیدا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز اصلاً انسان کی ملک نہیں، انسان کے پاس جو اموال و املک ہیں وہ دراصل خدا کی طرف سے امانت کے طور پر عارضی تصرف کے لئے دیئے گئے ہیں۔ اس امانت کا مقصد انسان کو اس کا مالک بنانا نہیں بلکہ اس بات کا امتحان لینا ہے کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے یا نہیں۔ ہر امانت کی طرف اس امانت پر بھی انسان کا قبضہ عارضی ہے نہ کی دائمی۔
۲۔دوسری چیز’’وحدتِ بنی آدم‘‘ کا تصور ہے۔ یعنی خدا کے نزدیک مختلف انسان الگ الگ نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ سب کی فلاح و سعادت کے اصول اور سب کے حقیقی مفادات یکساں ہیں۔ اس لئے ان کے درمیان فطری رشتہ اخوت و تعاون اور مواساۃ دیہی خواہی کا ہے نہ کہ کشمکش اور نزاع کا۔ اگر کسی مرحلہ میں ملکیت کا قانون اسلام کے تصور انسانی سے ٹکرا جائے تو اس وقت تصورِ انسانی کو باقی رکھنے کے لئے ذاتی ملکیت کو ختم کر دیا جائے گا۔
اسلام کے ان تصورات کا تقاضا ہے کہ افرادِ انسانی کے لئے املاک کی کسی مطلق اور مقدس فہرست کو تسلیم نہ کیا جائے۔ کیونکہ ساری ملکیتیں خدا کی ہیں نہ کہ کسی انسان کی۔ یہ ملکیتیں انسان کو اصل مالک کی طرف سے بطور امانت دی گئی ہیں۔ اس لئے کسی انسان کا ان پر ذاتی حق نہیں۔ جو حق ہے وہ ان شرائط کی تکمیل کے ساتھ مشروط ہے جس کے لئے اصل مالک نے یہ ملکیتیں عطا کی ہیں۔ اگر تصرف کا حق ادا نہ ہو سکے تو مالک کو اختیار ہے کہ اسی طرح اپنی املاک کو اس سے چھین لے جس طرح اس نے پہلے عطا کیا تھا۔ اس اصول کا اطلاق مال و املاک رکھنے اور مالکانہ تصرفات کرنے اور دوسرے تمام حقوق پر یکساں حیثیت سے عائد ہوتا ہے۔
ملکیت کی یہ نوعیت اور وحدتِ نبی آدم کا اسلامی تصور تقاضا کرتا ہے کہ خدا نے انسانوں کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ چند افراد یا کسی ایک طبقہ کی میراث بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ان سے تمام انسانوں کو مستفید ہونے کا موقع ملے۔ بنی آدم ایک خاندان ہیں اور کائنات کی جن اشیاء اور قوتوں کو اس پورے خاندان کی تحویل میں دیا گیا ہے، ان سے استفادہ کرنے میں سب کو ایک خاندان کے افراد کی طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ جس طرح ایک خاندان کے اندر تمام چیزیں مشترک ہوتی ہیں اسی طرح
اسلام کے تصورِ انسان کا تقاضا ہے کہ سارے بنی آدم کے لئے چیزوں کا اشتراک تسلیم کیا جائے اور کسی کو یہ موقع نہ دیا جائے کہ کچھ چیزوں پر وہ مستقل قبضہ کرکے دوسرے لوگوں کو اس سے محروم کر دے۔ اسی لیے قرآن مال و املاک کی کسی ایسی تقسیم کو گوارہ نہیں کرتا جو انسانوں کے ایسے طبقہ کو مقصدِ زندگی کے ناگزیر ذرائع سے محروم کر دے۔
یہ ہے ان دلائل کا خلاصہ جو اسلام میں اجتماعی ملکیت ثابت کرنے کے لئے نظریاتی پس منظر کے طور پر مہیا کی گئی ہیں۔ اس دلیل کا پہلا جزء یہ ہے کہ انسان کائنات کے اندر کسی چیز کا حقیقی مالک نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کائنات کے اندر انسان کوئی مالکانہ حیثیت نہیں رکھتا۔ ملکیت کی کوئی ایسی فہرست نہیں بنائی جا سکتی جو’’مطلق‘‘ اور مقدس ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان کی یہ حیثیت کس کے مقابلہ میں ہے۔ خدا کے مقابلہ میں یا بندوں کے مقابلہ میں۔ خدا کے مقابلہ میں انسان کی حیثیت یقینا صرف مکلف اور ذمہ دار ہستی کی ہے نہ کہ حقدار کی۔ مگر انسان کے مقابلہ میں یقینا وہ حقدار ہے اور ملکیت کی مقدس فہرست رکھتا ہے۔ اللہ مالک حقیقی نے خود ہی ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلہ میں بہت سے حقوق دیئے ہیں اور ان کو محترم ٹھہرایا ہے جن کو اذنِ الٰہی کے بغیر ساقط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقوق خدا نے دیئے ہیں اور وہی اپنے حق میں انہیں واپس لے سکتا ہے۔ کسی انسان کو یہ حق نہیں کہ اپنے خود ساختہ فلسفہ کی بنا پر لوگوں سے ان کی جائز ملکیتیں چھین لے اور پھر یا تو خود ان پر قابض ہو جائے یا کچھ دوسرے لوگوں کے حوالہ کر دے۔
اس سلسلہ میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی ریاست خدا کی نائب ہے، وہ خدا کی زمین پر خدا کی خلافت کی تنظیمی شکل ہے، اس بنا پر اس کو بندگان خدا کی تمام املاک پر کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہیں دوسرے لفظوں میں نائب ہونے کی وجہ س اس کو وہی حقوق حاصل ہیں جو مالک کے ہوتے ہیں۔ اس مخصوص حیثیت کی بنا پر اسلامی ریاست کو افراد کے حقوق میں مداخلت کرنے کا پورا حق ہے۔ جس طرح مالک اپنے دیئے ہوئے حق کو منسوخ کر سکتا ہے اسی طرح اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ضرورت سمجھے تو خدا کے دیئے ہوئے ملکیتی حقوق کو ساقط کر دے۔ ان اختیارات کا منشاء یہ ہے کہ یہ املاک مفید ہی اغراض کے لئے استعمال کی جائیں اور فی الجملہ ان سے وہی کام لیا جائے جو مقصد تخلیق
سے ہم آہنگ ہو۔
یہ وہی پرانی دلیل ہے جو اس سے پہلے ڈکٹیٹر شپ کی حمایت میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ کمزور دلیل اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ خدا کے قانون کے تحت زمین پر جو اسلامی ریاست منظم ہوتی ہے اس کا کام یہ نہیں ہے کہ اپنے خود ساختہ نظریات کے تحت ان حقوق کو منسوخ کر دے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دیئے ہیں، اس کے برعکس اس کا کام یہ ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ خدا کے دیئے ہوئے حقوق لوگوں کو مل رہے ہیں یا نہیں۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کو نافذ کرنے والی ہوتی ہے نہ کہ اس کو معطل کرنے والی۔ کسی حکومت کے اسلامی حکومت ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ زمین پر خدا کی قائم مقام ہوگئی ہے اور اس کو مطلق اختیار حاصل ہے کہ جو چاہے کرے۔ بلکہ وہ تو اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ زمین پر خدا کے قوانین کی پابندی ہوگی اور ان کو توڑا نہیں جائے گا۔ جو اسلامی ریاست خدا کے مقرر کئے ہوئے حدود سے تجاوز کرے اور انسانوں سے وہ حقوق سلب کرنے لگے جو خدا نے خود اپنی شریعت کے ذریعہ انسانوں کو دیئے ہیں وہ اپنے مقصدِ وجود کے خلاف کام کرتی ہے۔ ایسی حکومت خدا کی نائب نہیں، خدا کی باغی ہے۔ اس کی ساری کارروائیاں غیر قانونی ہیں اور اس کے افراد خدا کی عدالت میں سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ایسی حکومت لینن اور سٹالن کی نائب ہو تو ہو، خدا کی نائب ہر گز نہیں ہے۔
اس دلیل کا دوسرا جزء وحدت بنی آدم کا نظریہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ساری مخلوق ایک بڑے خاندان کی حیثیت رکھتی ہے اور ایک خاندان کے اندر جس طرح سب کچھ مشترک ہوتا ہے اسی طرح پوری انسانیت میں سب کچھ یا ان کا بڑا حصہ ہر ایک کے درمیان مشترک ہونا چاہئے۔
وحدتِ بنی آدم کی بات تو اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہے مگر اس سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص قرآن کی یہ آیت پڑھے:
خلق لکم من انفسکم ازواجا
لتسکنواالیھا۔ (روم۔۲۱)
اے انسانو! خدا نے تمہارے لئے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے(صنفِ مقابل) پیدا کئے ہیں تاکہ تم انسے سکون حاصل کرو
اور اس کی تفسیر یہ کرے کہ اس میں’’مشترک شادی‘‘ کا اصول بیان کیا گیا ہے۔ یعنی تمام عورتیں تمام مردوں کے لئے اور تمام مرد تمام عورتوں کے لئے۔ اگر استدلال کا یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو اس طرح تو دنیا کی ہر بات ثابت کی جا سکتی ہے۔
وحدتِ بنی آدم کا یہ مطلب تو ضرور ہے کہ انسانوں کا باہمی تعلق صلہ رحمھی، مواساۃ اور ایثار و تعاون پر مبنی ہونا چاہئے نہ کہ خود غرضی، کشمکش اور نزاع پر۔ مگر اس سے یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ سامان حیات پر لوگوں کا الگ الگ تشخص نہ ہو، بلکہ اموال و املاک سب کی مشترک ملکیت میں دیدیئے جائیں۔ اگر بنی آدم کو ایک بڑا خاندان ماننے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے درمیان ملکیتوں کا اشتراک ہونا چاہئے تو یہ بات اس بڑے خاندان سے پہلے چھوٹے چھوٹے خاندانوں پر چسپاں ہوتی ہے جن کے مختلف افراد کے لئے شریعت نے الگ الگ حصے مقرر کئے ہیں۔ پھر وحدتِ بنی آدم کی اس تشریح کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسلام کا قانونِ وراثت اس کے تصور انسان کے خلاف ہے۔ جس طرح’’ بڑے خاندان‘‘ کے حق میں آپ ملکیتوں کی علیحدگی صحیح نہیں سمجھتے اسی طرح چھوٹے خاندان میں بھی یہ اصول صحیح نہیں ہو سکتا کہ ہر ایک کا___الگ الگ حصہ ہو اور خاندان کی تمام املک اور ان کا منافع ہر ایک کے نام اس کے حصہ کے بقدر تقسیم کرکے دیا جائے۔ گویا نعوذ بااللہ اسلام کے تصورِ انسان کا تقاضا جتنا یہ حضرات سمجھ رہے ہیں، اتنا بھی اللہ تعالیٰ اس کو سمجھ نہ سکا۔ اس نے معاشرہ کے لئے جو اجتماعی تصور دیا تھا، معاشرہ کی ابتدائی وحدت(خاندان) کے حقوق و فرائض متعین کرتے وقت خود ہی اس کو بھول گیا۔
وحدتِ بنی آدم کا مطلب اگر یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں’’وہ چند افراد یا کسی ایک طبقہ کی میراث بن کر نہ رہ جائیں بلکہ ان سے تمام انسانوں کو مستفید ہونے کا موقع ملے’’دوسرے لفظوں میں اشیاء پر افراد کا ملکیتی تشخص نہ ہو، بلکہ خدا کی نعمتیں اس کے تمام بندوں کے لئے عام ہوں۔ اگر وحدتِ بنی آدم کا مطلب یہ ہے تو اس فلسفہ کے مطابق اجتماعی ملکیت کا مجوزہ نظام بھی غلط ہے۔ کیونکہ اس نظام میں بھی تصرف کا اختیار عملاً ایک ہی طبقہ کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ اجتماعی ملکیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ سب کو اجازتِ عام حاصل ہوگئی، جو چاہے اپنی مرضی کے مطابق املک میں تصرف کرے، اجتماعی ملکیت درحقیقت حکومتی ملکیت ہے جس میں حکمراں طبقہ املاک کا متولی بن
جاتا ہے۔ جس طرح ملکیتی نظام میں مالکان جائیداد کو اس کے غیر مالکوں کے مقابلہ میں تصرف کا خصوصی اختیار ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح اجتماعی نظام میں حکمراں طبقہ کو غیر حکمرانوں کے مقابلہ میں تصرف کا خصوصی اختیار حاصل ہو جاتا ہے، وہ دیں تو دوسروں کو چیزیں ملیں گی، وہ نہ دیں تو خود سے کوئی شخص نہیں لے سکتا۔ اگر وحدتِ بنی آدم کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں سے تمام لوگ بے روک ٹوک استفادہ کر سکیں تو اس کی صحیح شکل یہ ہے کہ تمام چیزیں بالکل کھلی چھوڑ دی جائیں۔ جس کسی کو بھی جب اور جہاں جس چیز کی ضرورت ہو وہ ہوا اور پانی کی طرح اس کو حاصل کر سکے۔ گویا نہ نجی ملکیت ہو اور نہ حکومتی ملکیت، بلکہ انسانی زندگی میں جنگل کا طریقہ جاری کر دیا جائے جہاں ہر جانور ہر چیز سے استفادہ کر سکتا ہے۔ کسی کو کسی چیز پر ملکیتی یا انتظامی اختیار نہیں ہوتا، وحد بنی آدم کی یہ منطق نجی ملکیت کا نظام توڑ کر اس کو حکومتی طبقہ کی ملکیت بنانے کی تائید نہیں کرتی بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا نظام قائم ہونا چاہئے جس میں سب کو اجازت عام حاصل ہو۔ نہ مالک اور غیر مالک کا فرق ہو اور نہ حاکم اور محکوم کی تفریق باقی رہے۔ گویا وہ نظام جس کے علم بردار بعض انارکسٹ ہیں۔ کیا انسانی معاشرہ میں اس طرح کا نظام قائم کرنا ممکن ہے اور کیا اس دلیل سے اسلام میں سوشلزم کی گنجائش ثابت کرنے والے حضرات اس کی تائید کریں گے۔
یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب کچھ مشترک ہو، بلکہ کچھ ابتدائی ضروریات کی چیزیں انفرادی ملکیت میں رکھ کر بقیہ چیزوں کو مشترک ملکیت میں دے دیا جائے، جیسا کہ موجودہ اشتراکی ملکوں میں بالفعل پایا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کچھ چیزوں کا استثناء کہاں سے نکل آیا۔ وحدتِ بنی آدم کا جو تصور آپ بتا رہے ہیں اس کے مطابق مکمل تعاون کی شکل تو یہی ہو سکتی ہے کہ کچھ نہیں، بلکہ سب کچھ مشترک ہو، اموال و املاک کی جس مقدار پر بھی آپ اس تصورِ اشتراک کو چسپاں نہ کریں گے اسی کے بقدر آپ کے نظریہ میں تضاد واقع ہوگا۔ البتہ اگر وحدتِ بنی آدم کا مطلب اموال کا اشتراک نہ لیا جائے بلکہ نظریاتی اور انسانی اشتراک لیا جائے، جیسا کہ فی الواقع ہے، تو کسی مقام پر بھی کوئی تضاد واقع نہیں ہوتا۔ ہر دائرہ کے اندر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مختلف انسانوں کو اپنے مفاد کے ساتھ دوسروں کے مفاد کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور ٹکرائو کی نوبت نہ آنے دینی چاہئے۔ اور حکمت کو
چاہئے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ افراد اس قسم کی کوئی حرکت نہ کرنے پائیں۔ جو شخص یا گروہ ایسا کوئی اقدام کرتا ہوا ملے اس کو فوراً روک کر اپنی حد کے اندر واپس جانے پر مجبور کیا جائے۔
ان حضرات کے استدلال کی دوسری بنیاد فلسفہ شریعت ہے۔ یعنی وہ مقاصد جن کے لئے اسلام نے اپنے احکام وضع کئے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے قانونی ہدایات دی ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک بات یہ پیش کی جاتی ہے کہ اسلام کے احکام و ہدایات دو قسموں پر مشتمل ہیں ایک قانون اور دوسرے اخلاق۔ قانون کے دائرہ میں وہ احکام آتے ہیں جو شریعت نے فرض قرار دیئے ہیں اور اخلاق سے مراد وہ ہدایات ہیں جو لازم نہیں قرار دی گئی ہیں بلکہ ان کے سلسلہ میں ترغیب و تلقین پر اکتفا کیا گیا ہے۔ یہ دونوں قسم کے احکام اگرچہ بظاہر مختلف معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ سب کو لازم نہیں قرار دیا گیا ہے مگر اس حیثیت سے دونوں یکساں ہیں کہ وہ سب کے سب مطلوب ہیں اور سب کی پشت پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کی سند اور خود انسانی مصالح کا تقاضا موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لازم اور غیر لازم کی یہ تقسیم اپنی جملہ تفصیلات کے ساتھ دائمی نہیں ہے، بلکہ قانونی اور اختیاری حلقوں کی سرحدیں زمانہ،حالات اور سماج کے اخلاقی معیار کے ساتھ ساتھ تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ اسلام کی قانونی ہدایات کی طرح اس کی اخلاقی ہدایات کا تعلق بھی اہم اجتماعی امور سے ہے جن کو بہرحال انجام پانا چاہئے، کیونکہ ان کی تکمیل سے پورے معاشرے کے ناگزیر مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ ان کو ہر ہر فرد پر لازم اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر فرد میں ان کی بجا آوری کی استعداد و قوت پائی جائے۔ لیکن اگر سارے ہی افراد ان ہدایات کو ترک کر دیں تو شریعت کے بعض ایسے مقاصد متاثر ہوتے ہیں جو کسی حال میں نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔ اسی لئے عام غفلت کی صورت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ ان ہدایات کو قانوناً نافذ کیا جائے۔
اجتماعی تنظیم کے لئے سلب ملکیت کے حق میں یہ استدلال بڑے زور شور کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق نہ عقل سے ہے اور نہ اسلام سے۔ آخر جس معاشرہ کے ’’سارے ہی
افراد‘‘ کا یہ حال ہو جائے کہ وہ اپنے فرائض بھول جائیں اور مفاد پرستی ان پر اس قدر غالب آ جائے کہ اپنے فائدے کے لئے دوسروں کے حقوق پامال کرنا شروع کر دیں، ایسے معاشرہ میں وہ لوگ کہاں سے آئیں گے جن کو سارے ذرائع و وسائل یا ان کا بیشتر حصہ اس امید میں سونپا جا سکے کہ وہ نہایت ایمان داری کے ساتھ دوسروں کا حق پہنچاتے رہیں گے۔ معیشت کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے لئے وزراء اور افسران سے لے کر ہزاروں، لاکھوں اہل کاروں کی ضرورت ہوتی ہے جو پیداوار اور تقسیم کے مختلف مراحل کا چارج لے سکیں اور عام پبلک تک ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک پہنچاتے رہیں۔ پھر جس معاشرہ میں عام غفلت طاری ہو جائے وہاں صالحین کی یہ فوج کیا مریخ سے بلائی جائے گی، جب معاشرہ کا ایک ایک فرد بگڑ چکا ہو اور نجی مالک کی حیثیت سے اپنیفرائض انجام نے دے رہا ہو تو اس معاشرے کے افراد سے یہ امید کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ وزیر صنعت اور راشننگ انسپکٹر بن کر اس کام کو ٹھیک طریقہ سے انجام دینے لگیں گے جس کو وہ تاجر اور زمین دار کی حیثیت سے انجام نہ دے سکے۔ پہلی شکل میں تو آدمی کے پاس صرف ملکیت ہوتی ہے اور دوسری شکل میں ملکیت اور اختیار دونوں اکٹھا ہو جاتے ہیں۔ پھر جس معاشرہ کے لوگ ایک حیثیت کی ذمہ داری سنبھال نہ سکیں اسی معاشرے سے لئے ہوئے افراد سے یہ امید کس طرح کی جا سکتی ہے کہ دو حیثیتوں کا مالک بننے کے بعد وہ بالکل بدل جائیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینے لگیں گے۔ جس معاشرہ کی’’عام اخلاقی حالت‘‘ بگڑ چکی ہو، ایسے معاشرہ کے افراد کو عام حالات سے زیادہ اختیار دینا ان کو ظلم اور لوٹ کھسوٹ کے زیادہ مواقع فراہم کرنے کے ہم معنی ہے۔ یہ تدبیر حالات کو اور زیادہ بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے نہ کہ سُدھار اور اصلاح کی طرف۔
یہی وہ دانش مندانہ تدبیر ہے جس کو یہ حضرات خدا کی شریعت میں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ جن ہدایات کو شارع حق جل سبحانہ نے ترغیبی ہدایات کا درجہ دیا ہے، آپ کو کیا حق ہے کہ انہیں قانون کا درجہ دے دیں اور بالفرض اگر کسی جزئیہ سے آپ اس کی نظیر ڈھونڈ نکالیں کہ مخصوص ہنگامی حالات میں کسی اخلاقی فضیلت کو قانونی لزوم کا درجہ دیا گیا ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ افراد کی ملکیتیں بھی چھینی جا سکتی ہیں۔ اسلام نے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے پر بہت زور دیا
ہے، غریبوں اور محتاجوں کی دستگیری کرنے کی طرف رغبت دلائی ہے، یتیموں اور بیوائوں کی خبرگیری کو بہت بڑے ثواب کا کام بتایا ہے، اس طرح کی اور بہت سی چیزیں ہیں جن کو اسلام نے لازم نہیں قرار دیا ہے، البتہ مختلف طریقوں سے ان کی طرف ترغیب دلائی ہے اور ان پر عمل کرنے والے کے لئے بہت بڑا انعام پانے کی خوش خبری دی ہے۔ یہ جو ہدایات دی گئی ہیں یقینا یہ محض اس لئے نہیں ہیں کہ ان پر عمل کرنے والے افراد کچھ ثواب کا استحقاق حاصل کر لیں بلکہ ان کے اندر دوسری نہایت اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے معاشرہ کے مسائل حل ہوتے ہیں اور مجموعی حیثیت سے پورے معاشرہ کا فائدہ ہوتا ہے۔
فرض کیجئے کہ کسی مخصوص ہنگامی حالت کے پیش آنے کی بنا پر آپ یہ طے کریں کے ان اخلاقی ہدایات کو قانون کا درجہ دیا جانا چاہئے تو سوال یہ ہے کہ آپ کس چیز کو قانون کا درجہ دیں گے۔ انہیں اخلاقی ہدایات کو یا کسی اور چیز کو۔ آپ کے استدلال کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ مخصوص حالات میں خوش حال افراد کو اس کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے محتاج بھائیوں کی مدد کریں، یا ریاست ان کے اوپر ٹیکس لگا کر ایسی رقمیں حاصل کر سکتی ہے جس کو دوسرے ضرورت مند افراد تک
پہنچایا جا سکے۔ ہر حالت میں صرف اسی چیز کو قانون کا درجہ دیا جا سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے عام حالات میں اختیاری اخلاق کا درجہ دیا ہے۔ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ اخلاقی ہدایات کی خلاف ورزی کو ایسا جرم قرار دیں جو قابل دست اندازی پولس ہو، جس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہو، جس پر عمل نہ کرنے والے کو جیل بھیجا جا سکتا ہو،یا اس پر جرمانہ لگایا جا سکتا ہو۔ آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں مگر اس سے آخر یہ بات کیسے نکلتی ہے کہ لوگوں سے پیدائش دولت کے ذرائع چھین لو اور اس کا یکجائی انتظام کرو۔ اگر کسی کے ذمہ آپ کا روپیہ باقی ہو اور آپ مانگنے جائیں تو وہ نہ دے۔ ایسی صورت میں آپ کو یہ حق تو ہے کہ پولس اور عدالت کی مدد سے اپنا روپیہ برآمد کرنے کی کوشش کریں، مگر کیا آپ کو یہ حق بھی ہے کہ اس آدمی ہی کو قتل کر ڈالیں۔ یا اس کی پوری جائیداد کو آگ لگا دیں۔
ایک مثال سے اس استدلال کی مضحکہ خیز نوعیت اور واضح ہو جائے گی۔ اسلام کے جو ترغیبی
احکام ہیں ان کا تعلق صرف معاشی زندگی سے نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں سے ہے۔ مثلاً نفل نمازیں اور نفل روزے بھی ترغیبی احکام میں شامل ہیں۔ پھر اگر کسی معاشرہ میں اس کے تمام افراد نفل عبادات کو ترک کر دیں اور اس کی ضرورت محسوس ہو کہ لوگوں کو نفل عبادات پر عمل کرانا چاہئے ورنہ تقویٰ اور اخلاق کا معیار بہت گر جائے گا۔ ایسی حالت میں اسلامی ریاست کیا فرض انجام دے گی۔ ایک شکل یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اکسائے اور ایسے محتسب مقرر کرے جو اس کی نگرانی کرتے پھریں کہ افراد اس پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں۔ اور دوسری شکل یہ ہے کہ افراد کے اس حق کو بحق سرکار ضبط کر لیا جائے کہ وہ نفل عبادات بھی کر سکتے ہیں۔ مذکورہ بالا سوشلسٹ منطق کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہی دوسرا عمل کیا جائے۔ یعنی نفل عبادات کو سماجی ملکیت قرار دے کر اس پر ریاست کی اجارہ داری قائم کر دی جائے۔ افراد کو بذاتِ خود نفل عبادات کی ادائیگی کی اجازت نہ ہو، حکومت’’سماجی اہتمام‘‘ کے ذریعہ ان کی ادائیگی کرائے اور پھر اس کے ثواب کو راشننگ سکیم کے تحت لوگوں کے درمیان تقسیم کر دے۔
اس سلسلہ میں فرض کفایہ سے بھی دلیل دی جاتی ہے۔ فرض کفایہ وہ اعمال ہیں جو افراد کے لئے اخلاقی نوعیت رکھتے ہیں مگر پوری جماعت کے لئے وہ فرض ہیں۔ اگر کچھ لوگ اسے انجام دیں تو سب لوگوں کے سر سے ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔ لیکن اگر کوئی بھی انجام نہ دے تو تمام صاحب استطاعت افراد کے لئے یہ اخلاقی ذمہ داری ایک فرض عین کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے اور اگ اس کے باوجود کوئی شخص اس کو پورا نہ کرے تو ریاست کی مشین حرکت میں آتی ہے اور اس کی بجاآوری کے لئے مناسب اقدامات کرتی ہے۔ اس فرض کفایہ کی فہرست میں بہت سے دینی امور کے ساتھ وہ دنیوی امور بھی شامل ہیں جو سوسائٹی کی معاشی زندگی کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ اس لئے اگر ریاست یہ دیکھے کہ معاشی زندگی سے متعلق فرض کفایہ کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے ہیں تو اس کو حق ہے کہ افراد کی ملکیتوں پر قبضہ کر لے اور اجتماعی مفاد کے مطابق ان کا مناسب انتظام کرے۔
اس دلیل کا جواب بھی وہی ہے جو اوپر ہم قانون اور اخلاق کی بحث کے سلسلہ میں لکھ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس معاشرہ کا یہ حال ہو جائے کہ اس میں بار بار ایسے مواقع آئیں جن میں میں چند افراد کے حصہ لینے سے بھی پورے معاشرہ کا کام بن جاتا ہے۔ اور ان افراد کو اپنے ایک ذاتی عمل کے
نتیجہ میں سارے معاشرہ کا ثواب ملتا ہے۔ مگر وہاں چند افراد بھی ایسے نہ ہوں جو نیکی کے اتنے بڑے کام کا موقع اپنے سامنے دیکھیں تو اس کے لئے اٹھ کھڑے ہوں، ایسے بگڑے ہوئے معاشرہ کی نمائندہ حکومت اور ایسے معاشرہ سے لئے ہوئے پبلک حکام سے کب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں کوئی چارج دے دیا جائے گا تو اچانک وہ نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنا فرض انجام دینے لگیں گے۔
پھر وہ دوسرا سوال یہاں بھی پیدا ہوتا ہے جو اوپر ہم نے نقل کیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ’’ناگزیر اجتماعی مقاصد اگر اخلاق کے ذریعہ حاصل نہ ہو سکیں تو انہیں قانون کے ذریعہ حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ہے‘‘ مگر اس سے آخر اجتماعی ملکیت کے حق میں کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی فرض کفایہ ادا نہ ہو رہا ہو اور حکومت کو اس کی ادائیگی کے لئے حرکت کرنا پڑے تو اس کی حرکت کس سمت میں ہوگی اور وہ کیا اقدامات کرے گا۔ وہ یہی تو کرے گی کہ جس معاشرہ پر کوئی فرض کفایہ عائد ہوتا ہے اس کے صاحب استعداد افراد سے مطالبہ کرے گی کہ وہ اس کو ادا کریں اور بالجبر ان سے وہ کام کرائے گی جس کو بالرضا انہوں نے انجام نہیں دیا تھا۔ ایسے حالات میں اس کا کام صرف یہ ہو سکتا ہے کہ کسی ہنگامی وقفہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے ایسے حکم کو جو مخصوص طور پر کسی فرد کے حق میں متعین نہیں ہے اس کو مخصوص فرد یا افراد کے لئے متعین قرار دے دے اور بذریعہ قانون اس کی تکمیل کے لئے انہیں مجبور کرے۔ اس کے ماسوا یہ بالکل نیا اور غیر متعلق حق کسی ریاست کو کیسے مل سکتا ہے کہ وہ لوگوں سے ان کی ملکیتیں چھین لے اور خود ہی سارا انتظام شروع کر دے۔ کیا یہ بھی کوئی سوشلسٹ منطق ہے کہ مقدمات خواہ کچھ ہوں ان سے ہمیشہ ایک ہی نتیجہ برآمد ہوگا۔
یہاں بھی میں اس سوشلسٹ تفسیر کی مضحکہ کی خیز نوعیت کو مثال کے ذریعہ واضح کروں گا۔ اسلامی فقہ کی اصطلاح میں جو اعمال فرض کفایہ ہیں ان کی فہرست بہت بڑی ہے۔ ان میں صرف معاشی قسم کے احکام ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے بہت سے احکام بھی ہیں۔ مثلاً دفاع، جہاد فی سبیل اللہ، دعوت حق، تعلیم و تربیت، شریعت کا علم حاصل کرنا، نماز جنازہ، میت کی تجہیز و تکفین، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ۔ اب اگر کسی معاشرہ میں یہ تمام فرائض کفایہ یا ان میں سے کوئی ادا نہ ہو رہا ہو تو عدم ادائیگی فرض
کی صورت میں سماجی ملکیت بنا دینے کی سوشلسٹ منطق یہاں بھی لاگو ہونی چاہئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو معاشرہ ان فرائض سے غافل ہو جائے وہاں حکومت کا کام یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں کو ان کے کرنے پر آمادہ کرے یا بذریعہ قوت انہیں مجبور کرے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرنے لگیں۔ اس کے برعکس حکومت یہ کرے گی کہ لوگوں سے ذاتی طور پر ادائیگی فرض کا حق چھین لے گی اور سماجی پیمانہ پر خود ان کی ادائیگی کا اہتمام شروع کر دے گی۔ کیا اسلام کے یہ سوشلسٹ مفسرین اپنی منطبق کے اس نتیجہ کو ماننے کے لئے تیار ہیں۔ مثلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک فرض کفایہ ہے۔ اب اگر کسی زمانہ میں لوگ اس کو ادا کرنا چھوڑ دیں تو کیا اسلامی حکومت کا کام یہ ہوگا کہ تمام افراد معاشرہ سے تبلیغ حق اور تردیدِ باطل کا حق سلب کر لے اور خود اس کی تنہا اجارہ دار بن جائے۔ ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال کا علاج صرف یہ ہے کہ ریاست لوگوں کو اُکسائے، انہیں مجبور کرے کہ وہ اپنا فریضہ پہچانیں نہ یہ کہ لوگوں سے حق تواصی ضبط کر لے اور اس کو اجتماعی ملکیت قرار دے کر خود اس کی متولی بن جائے۔
جب قرآن سے براہ راست کوئی دلیل نہیں ملتی تو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اسلام یقینا انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ افراد، سماج دشمن سرگرمیوں میں مبتلا ہوں۔ اسلام اس سادہ لوحی سے بری ہے۔ وہ فرد کو حقوق دینے کے ساتھ اجتماعی مفاد کا بھی تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ اجتماعی مفاد کی خاطر غلط افراد کو ایسی حرکتوں سے باز رکھا جائے، خواہ اس کے لئے سیاسی قوت اور جبر ہی سے کیوں نہ کام لینا پڑے۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اسلام نے اگر انفرادی ملکیت کی اجازت دی ہے تو وہ اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ اگر وہ دیکھے گا کہ افراد اپنی ملکیتوں کو سماج دشمن سرگرمیوں میں استعمال کر رہے ہیں تو یقینا ان سے ملکیتیں چھین لی جائیں گی اور حکومت اپنے اہتمام میں ان کا انتظام کرے گی۔
یہ صحیح ہے کہ کسی فرد کو ملکیت کے باب میں اتنی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ وہ اس کے غلط استعمال س سماجی میں فساد پیدا کرے اور اسے زوال و ہلاکت تک پہنچانے کا ذریعہ بنا لے۔ افراد اگر اپنی ملکیتوں کے استعمال میں شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرنے لگیں اور سماج دشمن سرگرمیوں میں مبتلا ہو جائیں تو اسلامی ریاست کو پورا حق ہے کہ انہیں اس سے روکے اور ان کو اپنی حد کے اندر واپس جانے پر
مجبور کرے۔ مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ حکومت افراد کی جائز طور پر حاصل کی ہوئی نجی ملکیتوں پر قبضہ کر سکتی ہے۔ ان حضرات کے نزدیک شاید کسی چیز پر انفرادی ملکیت بھی’’سماج دشمن سرگرمیوں‘‘ کی تعریف میں آتی ہوگی۔ اشتراکی ملکوں کی منطق تو یہی بتاتی ہے۔
اس استدلال میں دراصل غلط مبحث سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں ذرائع اور اس کے استعمال کے فرق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، اور اس طرح ذرائع کے غلط استعمال کی آزادی چھین لینے کے اصول سے خود ذرائع کے چھین لینے پر استدلال کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اسباب و وسائل انسان کو عطا کئے ہیں ان کو صحیح سمت میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور غلط سمت میں بھی۔ اسلامی ریاست قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسی قوت فراہم کی جائے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح سمت میں استعمال کرنے پر مجبور کرے نہ کہ خود ان نعمتوں کو انفرادی قبضہ سے چھین کر بیت المال میں جمع کر دے۔ یقینا ایسے مواقع آتے ہیں کہ اسلامی ریاست کو لوگوں کے اوپر جبر کرنا پڑتا ہے۔ مگر اس کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ لوگوں سے ان کا جائز اثاثہ چھینتی پھرے۔ البتہ وہ آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو صحیح سمت میں استعمال کرے۔ مثال کے طور پر کپڑا خدا کی ایک نعمت ہے جو انسان کو سترپوشی کے لئے دیا گیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کپڑا لے کر اس کو سر پر باندھ لے اور ننگا گھومنا شروع کر دے تو اس سے کپڑا نہیں لے لیا جائے گا البتہ اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ کپڑے کا صحیح استعمال کرے اور اس کے ذریعہ اپنے بدن کو چھپائے۔ ذرائع و وسائل کے استعمال پر پابندی لگانے کے بجائے خود ذرائع ووسائل کو چھین لینا خالص سوشلسٹ فکر کی پیداوار ہے جس سے اللہ اور اس کا رسول بری ہیں۔
اسلام کے نظریہ اجتماع سے مسئلہ ملکیت پر یہاں جو استدلال کیا گیا ہے وہ کس قدر لغو ہے اس کو ہم ایک مثال کے ذریعہ سمجھ سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اموال و املاک کو زندگی کے قیام کا ذریعہ بتایا ہے(نسائ۵) ٹھیک اسی طرح بیوی بھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سے ہے جو انسان کو فرائض زندگی ادا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اب فرض کیجئے کہ کسی معاشرہ میں لوگ بیویوں کے حقوق ادا نہ کریں یا کسی وجہ سے اس کا خطرہ پیدا ہو جائے کہ لوگ اپنی بیویوں کو غلط مقاصد میں استعمال کریں گے تو اس نظریہ کا تقاضا ہے کہ لوگوں سے ان کی بیویاں چھین لی جائیں اور تمام بیویوں کو سماجی ملکیت قرار دے دیا
جائے۔ تاکہ عورتیں مفید ہی اغراض کے لئے استعمال کی جائیں اور فی الجملہ ان سے دہی کام لیا جائے جو مقصد تخلیق سے ہم آہنگ ہو۔ کیا اسلامی ریاست ایسا کوئی اقدام کر سکتی ہے۔ کیا کسی حال میں بھی اجتماعی تحفظ کے یہ معنی ہو سکتے ہیں کہ تمام عورتوں کو سماجی ملکیت قرار دے دیا جائے۔
اس سلسلہ میں آخری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جدید حالات میں جب کہ ٹکنیکل ترقی نے معیشت کی ایک خاص طرح کی تنظیم ضروری قرار دے دی ہے بہت سی ملکیتوں کو اجتماعی قبضہ میں لینا ضروری ہوگیا ہے تاکہ سماج کی فلاح و ترقی کے بارہ میں اسلام کے مقاصد کا یقینی حصول ممکن ہو سکے۔ میرا جواب یہ ہے کہ شریعت نے صرف مقاصد کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ ان مقاصد کے حصول کے لئے بنیادی طریقہ بھی متعین کر دیئے ہیں اور یقینا ان مقاصد کے حصول کا طریقہ وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بتایا ہے۔ دوسرے طریقے یقینی حصول کے طریقے نہیں ہیں بلکہ یقینی طور پر صرف بگاڑ کے طریقے ہیں۔ انسان کے جائز طور پر کمائے ہوئے مال و جائیداد کو اللہ تعالیٰ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ ریاست صرف ان مخصوص استثنائی صورتوں میں ان کے اندر مداخلت کر سکتی ہے جو خود شریعت نے متعین کر دی ہیں۔ ان مخصوص و متعین صورتوں کے علاوہ کسی کو حق نہیں ہے کہ انسان کی املاک اور اس کی جائیداد میں تصرف کرے۔ شریعت کی اس فہرست میں ’’اجتماعی تنظیم کے لئے مداخلت‘‘ کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص ایک خود ساختہ اصول کو نافذ کرنے کے لئے اسلام کے دیئے ہوئے حقوق میں مداخلت کرتا ہے تو یقینی طور پر وہ انسانی و ساوس کو شریعت کا درجہ دے رہا ہے۔ وہ خدا کے دین میں تصرف کا ذمہ دار ہے۔
اگر اسلام میں اس کی گنجائش ہے کہ حالات زمانہ کا حوالہ دے کر اس کے احکام کو بدلا جا سکے تو پھر ایک شخص یہ بھی مطالبہ کر سکتا ہے کہ موجودہ زمانہ بہت مصروفیت کا زمانہ ہے، خاص طور پر قومی ترقی کا دوڑ میں اس بات کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے کہ ہم اپنی انسانی صلاحیتوں کو پوری طرح قومی ترقی کے حصول میں لگا دیں اس لئے پنج وقتہ نماز کے حکم کو اب صرف بوڑھے اور ازکار رفتہ لوگوں کے ساتھ مخصوص کر دیا جائے اور بقیہ افراد کو آزاد کر دیا جائے کہ وہ پوری طرح فارغ ہو کر ترقیاتی کاموں میں اپنا حصہ ادا کر سکیں۔ ایک نماز ہی کیا، یہ دلیل تو ایسی ہے کہ پوری شریعت کو اس کے ذریعہ منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
ٹکنیکل ترقیوں کا حوالہ دے کر اجتماعی ملکیت کی ضرورت ثابت کرنا دراصل اسلام کے اوپر ایک
بہت بڑا الزام عائد کرنا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں اس بات کا اعلان کرنا ہے کہ موجودہ تمدن کے پیچیدہ مسائل کو اسلام حل نہیں کر سکتا اس لئے ضروری ہے کہ کم ازکم معاشیات کی دنیا میں اسلام کے بجائے غیر اسلام کو اختیار کر لیا جائے۔ گویا ان حضرات کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دائمی شریعت تو بھیج دی مگر نعوذباللہ اس کو بیسویں صدی کے حالات معلوم نہ تھے اس لئے وہ اپنی شریعت میں ایسی ہدایات کو شامل نہ کر سکا جو موجودہ ترقی یافتہ حالات میں ہماری رہنمائی کر سکیں۔
اگر صورتِ حال یہی ہے تو یہ محض قرآن کی بعض آیتوں کی تفسیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کو منسوخ کرکے’’اشتراکیت کی انجیل‘‘ کو قرآن کا مقام دینا ہے۔ کیا اسلام کی سوشلسٹ تفسیر کرنے والے لوگ اس اعتراف کی جرأت کریں گے۔
یہ چند نمایاں مثالیں اس استدلال کی تھیں جن کے ذریعہ سے اجتماعی ملکیت کو اسلام کی شریعت اور فلسفۂ شریعت سے برآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب شریعت کے مسلّمہ اصولوں سے اس نظریئے کے حق میں کوئی دلیل نہیں ملتی تو یہ حضرات اسلامی تاریخ کے بعض واقعات سے اس کے حق میں دلیل لاتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ تو اس کو اسلام کے مفاخر میں شمار کرتے ہیں کہ اس نے جائیداد کو قومی ملکیت میں لینے کا اصول سب سے پہلے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا جلد۱۳ میں زمین کو سماجی ملکیت میں لینے کے عنوان پر جو مقالہ ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ___’’حکومت کی جانب سے آراضی کے خرید لینے کے طریقے کو ایک جرمن گوسن نے پیش کیا۔ اس کے بعد ایک فرانسیسی پروفیسر لیان والرس نے اس کو ازسرِنو دریافت کیا‘‘ چنانچہ ایک صاحب نے اس کو مقالہ نگار کی ناواقفیت قرار دیا ہے اور تحریر فرمایا ہے کہ حکومت کی طرف سے زمین کو خریدنے کی سب سے پہلی مثال اسلام نے پیش کی ہے۱؎۔ انہوں نے دورِ نبوت اور خلافتِ راشدہ کے بہت سے واقعات کو اکٹھا کرکے دکھایا ہے کہ حکومت اسلامی نے زمینوں کی قیمت دے کر ان کے مالکوں سے جبراً انہیں خرید لیا تھا۔ اور یہ اس وقت ہوا جب کہ جرمنی اور فرانس کے سوشلسٹ مفکرین ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ مگر فاضل معترض شاید یہ بھول گئے
کہ یہاں اصل سوال محض’’حکومت کی طرف سے زمین کو خریدنے‘‘ کا نہیں ہے بلکہ سماجی مفاد کے نام سے افراد کی ملکیتوں کو واپس لینے کا ہے۔ اگر محض ’’خریداری‘‘ کا مسئلہ ہو تو اس کی مثالیں اسلام سے بہت پہلے قدیم ترین سلطنتوں کی تاریخ میں بھی مل سکتی ہیں۔ اس سلسلہ میں اسلام کو اولیت کا سہرا پہنانے کی کوئی وجہ نہیں۔
ہم کو اس سے انکار نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ میں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کی ملکیت کو جبراً ان سے حاصل کر لیا گیا تھا۔ مگر ان واقعات کا ’’اجتماعی ملکیت‘‘ کے نظریئے سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ میں ملکیت کو چھیننے کی کوئی مثال ملتی ہے یا نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تاریخ میں اجتماعی معاشی فلسفہ کے تحت کسی کی ملکیت کو جبراً اس سے واپس لیا گیا ہے۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو یہ تمام مثالیں اصل مسئلے سے بابکل غیر متعلق نظر آتی ہیں۔ ان سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اجتماعی ملکیت کے قیام کے لئے انفرادی ملکیتوں کی تنسیخ کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دلیلوں کی حیثیت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ:
________________________________________________________
۱؎ ڈاکٹر محمد یوسف الدین، اسلام کے معاشی نظریئے، جلد اول صفحہ۳۰۸
’’کہیں کی اینٹ کہیں کاروڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ کے دور سے ملکیتوں کو چھینے کے جتنے واقعات پیش کئے جات ہیں وہ سب اصل مسئلے سے غیر متعلق ہیں۔ مثلاً مدینہ اور اطراف مدینہ کے مختلف قبائل کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے جلاوطن کر دینے کی مثال دی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ ’’اجتماعی کاشت‘‘ کی غرض سے نہیں چھینی گئی تھی۔ بلکہ اس کی وجہ یہود کی مسلسل غداری اور بدعہدی تھی۔ وہ اسلام کی قلمرو میں رہ کر اسلام کے خلاف مستقل سازشیں کرتے تھے اور اسلامی حکومت سے کئے ہوئے معاہدوں کو درپردہ توڑتے رہتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں خود ان کے اپنے مذہبی قانون کے مطابق انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔
اسی طرح یہ مثال بھی دی جاتی ہے کہ خانہ کعبہ کی عمارت کو وسیع کرنے کے سلسلے میں حضرت عمرؓ نے بعض لوگوں کے مکانات کو جبراً ان سے لے لیا تھا۔ اس کی وجہ بھی ملکیت کا سوشلسٹ نظریہ نہیں تھا
بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود خدا کے رسولؐ نے کعبہ کی مخصوص استثنائی حیثیت کی بنا پر اس کے گرد حرم کی حدود مقرر کرکے یہ فرما دیا ہے کہ اس کے اندر کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتی۔
بعض لوگوں سے زمینیں اس لئے واپس لے لی گئی تھیں کہ وہ ان کو بے کار ڈالے ہوئے تھے اور ان پر کاشت نہیں کرتے تھے، ان مثالوں کو بھی دلیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کا تعلق اس اصول سے نہیں ہے کہ ملکیت انفرادی ہو یا اجتماعی۔ بلکہ اس کا تعلق افتادہ زمینوں کے بارے میں اسلام کے قانون سے ہے۔ ایسی کسی زمین پر جو شخص قبضہ کرے مگر اس کے بعد وہ مسلسل اس کو غیر آباد رکھے۔ نہ خود کاشت کرے نہ دوسرے کو کاشت کرنے کے لئے دے تو ایک خاص مدت گزرنے کے بعد اس سے زمین واپس لے کر ایسے شخص کو دے دی جائے گی جو اس پر کام کرکے اس سے پیدا وار حاصل کرے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی بھی مثال پیش کی جاتی ہے کہ آپ نے شاہی خاندان کی بہت سی جاگیروں کو ضبط کر لیا تھا۔ حالانکہ یہ ضبطی اس لئے تھی کہ یہ جاگیریں ناجائز طور پر کچھ لوگوں کے قبضہ میں تھیں۔ آپ نے ان کو لے کر اصل حق دار کو واپس کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ سے کوئی ایک نظیر بھی اس بات کی پیش نہیں کی جا سکتی کہ’’معاشیات کی اجتماعی تنظیم‘‘ کے لئے لوگوں کی جائز ملکیت ان سے چھین لی گئی ہو۔ اس سلسلے میں جتنی مثالیں دی جاتی ہیں ان کا تعلق اجتماعی معاشیات سے ہیں ہے بلکہ قطعی طور پر دوسری چیزوں سے ہے۔
اس سلسلے کی تمام مثالوں پر تفصیلی گفتگو کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ اس لئے میں صرف ایک مثال کا تجزیہ کروں گا۔ جس کو خاص طور پر اس کی مثال قرار دیا جاتا ہے کہ حکومت کو اختیار ہے کہ اگر وہ معاشی مصالح کے لئے ضرورت سمجھے تو کسی کی ملکیت چھین سکتی ہے۔ اسی سے دوسری تمام مثالوں کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔ یہ واقعہ سواد عراق کی زمینوں سے متعلق ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پیش آیا۔ کہا جاتا ہے کہ خلیفہ ثانی کے دور میں جب عراق فتح ہوا تو وہاں کی زمینوں کے بارہ میں سوال اٹھا کہ اسے کس کی ملکیت قرار دیا جائے۔ فوج کے سپاہیوں کا کہنا تھا کہ اس کو ہمارے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔ اور حضرت عمرؓ کا کہنا تھا کہ اس کو حکومت کے قبضہ میں رہنا چاہئے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ غربا و مسکین کی مدد کر سکے۔ ان حضرات کے نزدیک، ایک طرف انفرادی ملکیت کا مطالبہ تھا اور
دوسری طرف سماجی ملکیت کا۔ اس قضیہ کا جو آخری فیصلہ ہوا وہ یہ کہ زمین حکومت کے قبضہ میں دے دی گئی۔ اس طرح خلیفہ دوم کے عمل نے انفرادی ملکیت کو رد کر دیا اور اجتماعی ملکیت کے طریقہ کو صحیح قرار دیا۔
یہ ہے اس استدلال کا خلاصہ۔ لیکن اگر واقعہ کی اصل تصویر کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ یہ استدلال بالکل اسی قسم کا ہے جیسے نئی ہلی کی کسی سڑک پر ایک انگریز کا مجسمہ دیکھ کر کوئی شخص یہ سمجھ لے کہ ہندوستان پر اب بھی انگریزوں کی حکومت قائم ہے۔ اور یہ فرض کرکے انگریزی حکومت کی تائید میں تقریر کرنا شروع کر دے۔
عراق کی زمینوں کا مسئلہ پیش کرکے سوشلسٹ حضرات دوباتیں ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ صدر اول میں سماجی ملکیت کا طریقہ اختیار کرنے کی مثال موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی جائیداد کو حکومت کے انتظام میں لینے کے لئے افراد کی ملکیتوں کو چھینا جا سکتا ہے۔
مگر مذکورہ بالا مثال کا ان دونوں باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وہاں سوال یہ نہیںتھا کہ کھیتوں کو انفرادی کاشت کاروں کے پاس رہنے دیا جائے یا حکومت کے قبضہ میں لے کر اجتماعی کاشت کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ وہاں جو سوال تھا وہ یہ تھا کہ ان نئی حاصل شدہ زمینوں کا انتظام کس طرح ہو۔ ان زمینوں کو سپاہیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے یا مقامی باشندوں کے قبضہ میں حسب سابق برقرار رکھ کر ان پرخراج لگا دیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں ان زمینوں کو ہرحال میں انفرادی کسانوں کے زیر کاشت رہنا تھا۔ وہاں کسی کا بھی یہ دعویٰ نہیں تھا کہ ان کو انفرادی کاشت کاروں سے واپس لے لیا جائے بلکہ اصل سوال یہ تھا کہ انفرادی کاشت کار کون ہو۔ مسلمان فوج کے سپاہی یا وہ مقامی باشندے جو پہلے سے ان زمینوں پر کاشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دونوں میں سے جو صورت بھی طے پاتی یہ زمینیں بہرحال انفرادی کاشت کاروں کے استعمال ہی میں رہتیں اور حکومت کو یہ حق ہوتا کہ ایک بندوبست کی صورت میں ان زمینوں سے عشر لے اور دوسرے بندوبست کی صورت میں ان سے خراج وصول کرے۔
اگر یہ بھی سوشلزم کی کوئی قسم ہے کہ ذرائع پیداوار افراد کے قبضہ میں ہوں اور وہ ان پر تنہا یا دوسروں کی مدد سے کام کرکے پیدا وار حاصل کریں اور ہر سال پیداوار کا ایک حصہ یا مقررہ ٹیکس حکومت
کو ادا کر دیا کریں تو ان معنوں میں قدیم شاہی نظام عین سوشلسٹ نظام تھا۔ کیونکہ اس میں بھی یہی ہوتا تھا کہ زمینوں پر افراد ذاتی حیثیت سے کام کرتے تھے اور اس کے بعد براہ راست یا جاگیردار اور زمیندار کے واسطہ سے حکومت کو مقررہ ٹیکس ادا کر دیتے تھے۔
دوسرا استدلال اور بھی زیادہ بے معنی ہے کیونکہ وہاں کسی کی ملکیت چھیننے کا سوال نہیں تھا بلکہ یہ سوال تھا کہ ایک نئی حاصل شدہ چیز کو قانوناً کس کی ملکیت قرار دیا جائے۔
فتوحات کے ذریعہ جو غیر منقولہ جائیدادیں اسلامی حکومت کو حاصل ہوتی تھیں ان کے سلسلہ میں اب تک دو قسم کے طریقے رائج تھے۔ ایک یہ کہ انہیں سپاہیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ انہیں اسلامی حکومت کی براہِ راست ملکیت میں رکھا جائے اور اس کی آمدنی سے حکومت کی ضروریات پوری کی جائیں۔۱۶ھ میں جب عراق فتح ہوا اور وہ سرسبز و شاداب علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا جو دجلہ و فرات کے درمیان واقع ہے تو سوال پیدا ہوا کہ ان زمینوں کے بارے میں مذکورہ بالا دونوں طریقوں میں سے کس طریقہ پر عمل کیا جائے۔ گویا وہاں کسی کی ملکیت چھیننے کا سوال نہیں تھا بلکہ ملکیت کو متعین کرنے کا سوال تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی کی م لکیت نہیں چھین رہے ہیں بلکہ ملکیت جسے ملنی چاہئے اسے دے رہے ہیں۔ اس تقریر کے چند فقرے یہ ہیں:۔
قدسمعتم کلام ھولاء القوم الذین زعمواانی اظلمھم حقوقھم۔ وانی اعوذ باللہ ان ارکب ظلما، لنن کنت ظلمتھم شیئا ھولھم واعطیتہ غیر ھم لقد شقیت۔ ولکن رأیت انہ لم یبق شیٔ یفتح بعد ارض کسریٰ وقد غنمنا ا للہ اموانھم وارضھم وعلوجھم فقسمت ماغنموامن اموال بین اھلہ واخربت الخمس فوجھۃ علیٰ وجھہ وانافی توجیھہ۔ وقدرایت ان احبس الارضین بعلو جھا واضع علیھم فیھا الخراج و فی رقابھم الجزیۃ یودونھا فتکون فیئا للمسلمین المقاتلۃ والسذیۃ ولمن یاتی من بعد ھھم۔؎۱
تم نے ان لوگوں کی باتیں سن لیں جن کا خیال ہے کہ(میں نے عراق کی زمین کو فوجیوں کے درمیان تقسیم نہ کرکے) ان کے اوپر ظلم کیا ہے۔ خدا کی پناہ کہ میں کسی کے اوپر ظلم کروں۔ اگر میں نے کوئی ایسی چیز لی ہوتی جو ان کی تھی اور ان سے چھین کر دوسرے کودے دیتا تو البتہ میں غلط کار تھا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر میں کسریٰ کی اس زمین کو تقسیم کر دوں تو آئندہ فتوحات کا سلسلہ جاری نہ رہ سکے گا۔(کیونکہ فوجی مہموں کے اخراجات پورے کرنے کی دوسری کوئی صورت نہیں ہے) اس فتح میں اللہ نے ہم کو مختلف قسم کے اموال میں سے میں نے پانچواں حصہ نکال کر بقیہ کو اس کے مستحقوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے صحیح کیا۔ اور زمینوں کے متعلق میرا خیال ہے کہ ان کے کافر مالکوں کے ہاتھ میں انہیں رہنے دوں اور اس کے بدلے ان پر خراج عائد کروں اور ان کے اوپر جزیہ بھی ہے جس کو وہ ادا کریں گے۔ اس طرح م سلمان فوجیوں کے لئے اور ان کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے یہ ایک فے ہوگی۔
حضرت عمرؓ کی تقریر کے بعد سب نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ
فقالواجمیعاالرای رایک فغم ماقلت و مارأیت(آپ ہی کی رائے صحیح ہے، جو کچھ آپ نے کہا ٹھیک کہا)
یہ ہے اصل واقعہ۔ اب غور کیجئے کہ کیا اس سے کسی بھی طرح سے اجتماعی کاشت اور سلب ملکیت کا سوشلسٹ اصول اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اس واقعہ کا تمام تر تعلق اس بات سے ہے کہ مفتوحہ زمین کس کی ملکیت ہوتی ہے نہ یہ کہ افراد کی جائز ملکیت ہوتی ہے نہ یہ کہ افراد کی جائز ملکیتوں کو ان سے چھینا جا سکتا ہے یا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں خودیہ فرما دیا ہے کہ مجھے کسی کی ملکیت چھینے کا حق نہیں ہے۔ اگر میں ایسا کروں تو میں غلط کار ہوں گا۔
عراق کی زمینوں کے مسئلے کا اوپرزم نے جو تجزیہ کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سوشلسٹ
__________________________________________________________________
۱؎ کتاب الخراج اما م ابو یوسف، صفحہ۳۰،(مطبوعہ قاہرہ۱۳۴۶ھ)
حضرات کے دلائل کس طرح تمام تر مغالطے پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان سے نہ تو اجتماعی ملکیت کے حق میں دلیل ملتی اور نہ یہ ثابت ہوتا کہ زمینوں کی اجتماعی تنظیم کی خاطر افراد کی ملکیتیں چھینی جا سکتی ہیں۔
اسلامی تاریخ سے اس نوعیت کی جتنی بھی مثالیں کی جاتی ہیں، ان میں یہ زمینیں اس لئے نہیں لی گئی تھیں کہ ان کو لے کر سرکاری انتظام کے تحت ان پر اجتماعی کاشت کرائی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ’’اجتماعی ملکیت‘‘ کے نام نہاد تصور سے بالکل خالی ہے۔ اگر کوئی زمین کبھی لی گئی تو وہ ایک شخص سے لے کر دوسرے شخص کو دے دی گئی۔ ان زمینوں پر حکومت کا قبضہ خواہ جس نوعیت کا بھی ہو، مگر کاشت کے اعتبار سے وہ بعد کو بھی اسی طرح شخصی قبضہ میں رہیں جس طرح وہ پہلے شخصی قبضہ میں تھیں۔
اور پرہم نے جو جائزہ پیش کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اور اشراکیت دو الگ الگ نظریئے ہیں جو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے باہم ٹکراتے ہیں۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات سے ان دونوں کا اتحاد ثابت کرتے ہیں ان کے کام کی نوعیت دراصل یہ نہیں ہے کہ اسلام کے مطالعہ نے انہیں اس حقیقت تک پہنچایا ہے اور اب وہ اس کو اسلام کی صحیح تشریح کے طور پر پیش کر رہے ہیں ملکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات سوشلزم سے متاثر ہیں یا باقاعدہ اس پر ایمان لا چکے ہیں۔ مگر کسی وجہ سے وہ یہ نہیں چاہتے کہ سوشلزم کو سوشلزم کے نام پر پیش کریں۔ وہ سوشلزم کو اسلام کے نام پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ ذہن ہے جس نے وہ تمام دلائل ایجاد کئے ہیں جن میں سے بعض کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اس قسم کی ذہنیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ بات بہت پہلے سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ جب دنیا میں شہنشاہی نظام رائج تھا اور بہت سے لوگوں کے مفادات اس سے وابستہ ہوگئے تھے تو انہوں نے بادشاہت کو عین اسلامی ثابت کرنے کے لئے حدیث نبوی’’السلطان ظل اللہ‘‘ میں تحریف کی اور اس سے یہ مطلب نکالا کہ شاہی نظام خدا کا پسندیدہ نظام ہے۔ اس کے بعد جمہوریت کا زمانہ آیا تو’’امرھم شوریت بینھم‘‘ سے جمہوریت کے حق میں دلیل فراہم کی گئی۔ نازیت کا عروج ہوا تو بہت سے لوگوں کو اسلام کا حکومت الٰہیہ کا تصور نازی ڈکیٹر شپ کے عین مشابہ نظر آنے لگا۔ اب سوشلزم کا دور ہے تو اس کے حق میں قرآن و سنت سے دلیلیں ڈھونڈی جا رہی ہیں۔ کاش یہ لوگ تاریخ سے سبق لیتے اور زمانہ کے مٹنے والے نقوش سے ہم آہنگ کرنے کے شوق میں اسلام کی ابدی تصویر کو بگاڑنے کی کوشش نہ کرتے۔
معاش اور روزگار کا مسئلہ آج ساری دنیا میں مسئلہ نمبر۱ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر سو سال پہلے اور ہندوستان کے اعتبار سے تو صرف پچاس سال پہلے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انیسویں صدی کا انسان درحقیقت روٹی کے اس سوال سے بالکل ناانشنا تھا جس سے آج بیسویں صدی کی ترقی یافتہ دنیا دو چار ہو رہی ہے۔ اس وقت کوئی بھی شخص اپنے قریبی ماحول میں ہاتھ پائوں مار کر زندگی کی ضروریات فراہم کر لیتا تھا اور آج یہ حالت ہے کہ یونسکوUNESCO کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی دو تہائی آبادی نہایت غریبی (Abject poverty) کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے۔
جن ملکوں میں بظاہر بڑی خوش حالی نظر آتی ہے وہاں بھی یہ خوش حالی صرف چند دولت مندوں کے لئے ہے نہ کہ عام آبادی کے لئے۔ امریکہ جو دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند ملک سمجھا جاتا ہے، وہاں سولہ کروڑ کی آبادی میں صرف ۱۴۸ کروڑ پتی ہیں۔۲؎ اور یہی لوگ سارے ملک کی صنعت و تجارت پر قابض ہیں۔ برطانیہ کی آدھی آبادی مفلسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے۔ ایک انگریز چارلس کنگسلے(Charles Kingsley) نے کہا ہے:
’’انگلینڈ ان لوگوں کے لئے بڑی آرام کی جگہ ہے جو دولت مند ہیں۔ مگر انگلینڈ ان لوگوں کے لئے بڑی سخت جگہ ہے جو میری طرح غریب ہیں۔۳؎‘‘
غرض آج دنیا کی بیشتر آبادی ایک طرح کے معاشی عذاب میں مبتلا ہے۔ جس سے رہائی کی کوئی
_______________________________________________________________________________________________________
۱؎ Amrita Vazar Patrika.July30.1955
۲؎ قومی آواز۲۲ جولائی۱۹۵۵ء
۳؎ Book of Quotations.p 77 واضح ہو کہ یہ مضمون۱۹۵۸ء میں لکھا گیا تھا۔
سبیل اسے نظر نہیں آتی۔
آج کل کے ماہرین معاشیات کے نزدیک اس مسئلے کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ
دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مثلاً۱۸۱۸ء میں غیر منقسم ہندوستان کی آبادی تقریباً ساڑھے۲۵ کروڑ تھی اور اب انڈیا کی آبادی تقریباً۳۸ کروڑ ہے اور اگر پاکستان کی تعداد بھی شامل کر لی جائے جو۱۹۵۱ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً آٹھ کروڑ ہے، تو کہا جا سکتا ہے پچھلے ۷۵ سال کے اندر صرف اس ایک حصہ زمین کی آبادی میں جو ایک طرف ہمالیہ پہاڑ اور دوسری طرف خلیج بنگال اور بحرعرب کے درمیان واقع ہے، بیس کروڑ انسانوں کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح۱۸۰۰ء میں ساری دنیا کی کل آبادی کا اندازہ نوے کروڑ کیا گیا تھا، اور اب ڈیڑھ سو سال کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق دنیا کی آبادی ڈھائی ارب ہو چکی ہے۔ یعنی پہلے کے مقابلہ میں تقریباً تین گنا زیادہ۔
آبادی کے اس غیر معمولی اضافہ کو دیکھ کر عام طور پر خیال کیا جانے لگا ہے کہ بے روزگاری اور دوسرے معاشی مسائل کے پیدا ہونے کی اصل وجہ یہی ہے۔ مگر آبادی میں اضافہ کو معاشی دشواریوں کا سبب اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب یہ ثابت ہو جائے کہ دنیا میں پیداوار کے جو امکانات ہیں وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورتوں کے لئے ناکافی ہیں۔
ایک ایسی دنیا جہاں فالتو پیداوار کو کھپانے کے لئے یہ مسئلہ اٹھتا ہو کہ اس کو جلا دیا جائے یا سمندر میں ڈال دیا جائے، وہاں یہ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا کہ روٹی کا مسئلہ اس لئے اہم ہوگیا ہے کہ کھانے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سطح زمین کا تقریباً
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر سال تقریباً تیس لاکھ ٹن اناج باہر سے منگانا پڑتا تھا۔ مگر مسٹر رفیع احمد قدوائی کی وزارت کے زمانہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ یہ کمی دراصل ذخیرہ اندوزی اور کنٹرول سسٹم کے مصنوعی نظام کی وجہ سے تھی، ورنہ اگر ٹھیک انتظام کیا جائے تو ہندوستان غذائی اعتبار سے بالکل ایک خود کفیل ملک ہے جو اپنی بڑھی ہوئی آبادی کی تمام غذائی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ ہندوستان کی وزارت خوراک و زراعت کے شعبہ اقتصادیات و
اعدادوشمار کی اطلاع کے مطابق۵۴۔۱۹۵۳ء میں غذائی اجناس کی پیداوار پانچ کروڑ۶۱ لاھ۲۰ ہزار ٹن تھی۔۱؎ اس پیداوار کے مطابق ہندوستان میں بسنے والے ایک ایک شخص کے حصہ میں روزانہ آٹھ چھٹانک غلہ آتا ہے۔ جبکہ پچھلے کنٹرول میں حکومت کی طرف سے بڑوں کو چھ چھٹانک اور بچوں کو صرف تین چھٹانک راشن ملتا تھا۔
پیداوار کا یہ حال اس وقت ہے جب کہ ہندوستان کے رقبۂ زمین کا صرف۴۳ فیصد حصہ بویا جا رہا ہے۔ اور جنگلات وغیرہ کو چھوڑ کر اس کا سولہ فیصد قابل کاشت حصہ ابھی تک بیکار پڑا ہوا ہے۔ پھر جو زمینیں زیر کاشت ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ۲۷ کروڑ۷۰ لاکھ ایکڑ میں سے ۱۹۵۱ء کے اعدادوشمار کے مطابق صرف پانچ کروڑ دس لاکھ ایکڑ اراضی کے لئے آبپاشی کی سہولتیں حاصل ہیں۔ یعنی کل بوئی جانے والی زمینوں کا تقریباً۱۸ فیصد حصہ، جب کہ ہمارے ملک میں بہت بڑے بڑے دریا ہیں جن میں بہنے والے پانی کا اندازہ ایک ارب ۳۵ کروڑ ساٹھ لاکھ ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ اس میں سے صرف سات کروڑ ساٹھ لاکھ ایکڑ فٹ یعنی پانچ اعشاریہ چھ فیصد پانی آبپاشی کے لئے ا ستعمال ہوتا ہے۔ باقی یوں ہی سمندر میں جا گرتا ہے۔۲؎ اگر آبپاشی کا مکمل انتظام ہو جائے اور سائنس کے آلات اور جدید فن زراعت کے مطابق کھیتی کی جاے توموجودہ پیداوار کو کئی گنا تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
پھر زمینی پیداوار کے علاوہ گوشت انسان کی ایک اہم غذا ہے۔ ہندوستان کے دریائوں اور سمندروں سے اس وقت جتنی مچھلی حاصل کی جا رہی ہے وہ تقریباً دس لاکھ ٹن سالانہ ہے۔ پلاننگ کمیشن نے اس مقدار کو ساٹھ لاکھ ٹن تک پہنچانے کا مشورہ دیا ہے۔۳؎ اور اگر جدید ترین ذرائع اختیار کئے جائیں تو ہندوستان کے ساحل سے ہر سال کروڑوں من مچھلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قدرت نے اور بہت سی جاندار چیزیں ہمارے کھانے کے لئے پیدا کی ہیں، مگر انسان اپنی حماقت کی وجہ سے ان کو اپنی خوراک بنانے کے بجائے خود اپنی خوراک کا ایک بڑا حصہ ان کو کھلا رہا ہے۔ ایسی صورت میں خاندان کی پلاننگ کی بات بے معنی ہو جاتی ہے جس کو ہمارے بڑے بڑے لیڈر تک معاش کے مسئلہ کا سب سے بڑا حل سمجھتے ہیں۔
____________________________________________________________
؎ قومی آواز۲۷اکتوبر۱۹۵۴ء ۲؎ حکومت ہند کے نائب وزیر آبپاشی و برق مسٹر جے سکھ لال کی آل انڈیا ریڈیو سے تقریر۶ جولائی۵۵ء بحوالہ قومی آواز۱۰ جولائی۱۹۵۵ئ۔
۳؎ پہلا پنج سالہ پلان، ص۱۹۶۔
ہمارے نزدیک معاشی مسئلہ کا سب آبادی کا بڑھنا نہیں ہے۔ ایک سو سال پہلے جتنے انسان روئے زمین پر بستے تھے، اگر زمین میں اس سے زیادہ آباد کاری کی صلاحیت تھی تو کیوں نہ اور انسان پیدا ہوتے۔ یہ زمین اور اس کے ذرائع و وسائل اس لئے تو نہیں ہیں کہ بس بے کارپڑے رہیں۔ ان کو وجود میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ انہیں کام میں لایا جائے۔ درحقیقت اس خوفناک مسئلہ کے پیدا ہونے کا سبب قدرت کے انتظام میں نہیں بلکہ خود انسانی انتظام میں ہے۔ خدا نے اناج پیدا کرنے کے لئے زمین بنائی ہے، مگر ہم اپنے کھیتوں سے غلہ اگانے کے بجائے اس کو بے کار چھوڑ دیں یا فصل اگائیں مگر کھلیان میں آگ لگا دیں تو کیا ان کے بعد آنے والے نتائج کی ذمہ داری بھی خدا پر ہوگی۔
معاش کے سلسلہ میں اصل چیز جو اہمیت رکھتی ہے وہ سرمایہ کی گردش ہے۔ یہ گردش اگر اس طرح ہو کہ روپیہ ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچتا رہے تو سب لوگ خوش حال ہوں گے۔ اور اگر ایسا ہو جائے کہ روپیہ صرف چند لوگوں کے درمیان گھومے تو خوش حالی بھی صرف چند لوگوں کے حصہ میں چلی جائے گی اور بقیہ لوگ بدحالی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔
۵۲۔۱۹۵۱ء میں ہندوستان کی قومی آمدنی کا جو اندازہ کیا گیا تھا وہ ننانوے ارب، نوے کروڑ روپیہ ہے۔ جس کے مطابق فی کس آمدنی صرف بارہ آنے ہوتی ہے۔ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلہ میں یہ مقدار چونکہ بہت کم ہے، یعنی بارہواں یا پندرھواں حصہ، اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ ہندوستان بہت غریب ملک ہے۔ مگر خوش حالی اور بدحالی کو ناپنے کا یہ معیار صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جو چیز اصل اہمیت رکھتی ہے وہ یہ سوال ہے کہ ملک کے اندر جتنی دولت ہے، وہ ٹھیک طریقہ سے گردش کر رہی ہے یا نہیں۔ کسی ملک میں اگر دولت کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ آبادی کے عددسے اس کو تقسیم کیا جائے تو فی کس بہت بڑی رقم آتی ہے۔ لیکن یہ تمام دولت صرف چند لوگوں کے درمیان گھوم
رہی ہو تو یہ چند لوگ تو ضرور خوش حال ہوں گے مگر بقیہ آبادی مفلس پڑی رہے گی۔ قومی آمدنی کے جو اندازے کئے جاتے ہیں ان کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملک کے اندر اتنی تعداد میں دولت موجود ہے مگر اجتماعی زندگی میں کسی دولت کی قدر و قیمت اس کی مقدار کے اعتبار سے متعین نہیں ہوتی بلکہ لین دین کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ جتنا زیادہ لین دین کیا جائے گا اسی کے بقدر اس کی قیمت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
مثال کے طور پر آج آپ کے پاس ایک روپیہ ہے، مگر جب آپ کسی مزدور سے کام لے کر اس روپیہ کو مزدور کے حوالہ کرتے ہیں تو عملاً وہ دو روپیہ کے برابر ہو جاتا ہے۔ پھر اس مزدور نے غلہ خریدا تو وہ تین روپیہ بن گیا۔ پھر دکاندار نے اس سے کپڑا خرید لیا تو وہ چار روپیہ بن گیا۔ کپڑے کے دکاندار نے ایندھن کی لکڑی خرید کر اسے پانچویں آدمی کے حوالہ کیا تو وہ ایک روپیہ پانچ روپیہ بن گیا۔ اسی طرح جتنی زیادہ گردش ہوگی اتنی ہی زیادہ اس کی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ یہی ایک روپیہ اگر ایک درجن آدمیوں کے ہاتھ میں پہنچے اور وہ سب اس کو خرچ کرتے چلے جائیں تو وہ بارہ روپیہ بن کر ایک درجن آدمیوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ اگر آپ اس کو خرچ نہ کرتے تو وہ بس ایک روپیہ کی شکل میں آپ کو بکس کے اندر پڑا رہتا۔ مگر جب وہ استعمال ہوا تو اس نے بہت سے آدمیوں کو فائدہ پہنچایا اور کئی روپیہ کے برابر کام کیا۔
اس مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ماہرین اعدادوشمار کے اندازہ کی حقیقت کیا ہے۔ ان ماہرین کو اگر مذکورہ بالا بارہ آدمیوں کی فی کس آمدنی متعین کرنی ہو تو وہ بس یہ دیکھیں گے کہ ان لوگوں کے درمیان جو دولت ہے اس کی مقدار کیاہے۔ پھر جب انہیں معلوم ہوتا کہ وہ صرف ایک روپیہ ہے تو کہہ دیں گے کہ ان لوگوں کی فی کس آمدنی تقریباً تین پیسے کے برابر ہے۔ حالانکہ عملاً جو صورتحال ہے وہ یہ کہ اگر یہ دولت گردش کرے تو ہر ایک کو ایک روپیہ کے بقدر آمدنی دے سکتی ہے۔ اور گردش نہ کرے تو اس ایک شخص کی آمدنی تو ایک روپیہ ہوگی جس کے پاس وہ موجود ہوگا اور بقیہ لوگوں کی آمدنی ایک پیسہ بھی نہیں ہوگی۔
پلاننگ کمیشن نے کہا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ قومی آمدنی کو دگنا کرنے کے لئے ہم کو پانچ پنج
سالہ منصوبوں کا انتظار کرنا چاہئے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ہر ایک شخص کی آمدنی سوا سو روپیہ ماہوار ہو جائے تو اس کے لئے ہمیں پوری ایک صدی تک انتظار کرنا ہوگا۔ میں یہ مانتا ہوں کہ صنعت و تجارت کی ترقی سے ہماری ملکی دولت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے گا۔ مگر جیسا کہ خود پلاننگ کمیشن نے بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے، یہ ہو سکتا ہے کہ بڑھی ہوئی دولت کا زیادہ حصہ چند لوگوں کے ہاتھ میں چلا جائے اور عوام کی اکثریت اپنی موجودہ مفلسی کے عالم میں پڑی رہے۔ اگر ایسا ہوا تو لمبی مدت گذارنے کے بعد بھی اصل سماجی مقصد کے حاصل کرنے میں ناکامی ہوگی۔۱؎ کیونکہ اصل مقصد خوش حال لوگوں کو خوش حال تر بنانا نہیں ہے۔ بلکہ
_____________________________________________________________________
۱؎ پہلا پنج سالہ پلان۔ ص۱۱۔
خوش حالی میں عام انسانوں کو شریک کرنا ہے۔
کسی ملک میں دولت کے حصول اور اس کی تقسیم کے ذریعے دو طبقے کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ ا یک حکومت جو مختلف قسم کے ٹیکس، بڑی بڑی صنعتوں پر اجارہ داری اور دوسرے ذرائع سے کثیر مقدار میں سرمایہ حاصل کرتی ہے۔ دوسرے عوام میں سے وہ لوگ جو ملک کی زراعت اور کاروبار پر قابض ہوتے ہیں۔ روپیہ کی گردش کا سوال دراصل ان ہی دونوں طبقوں کی کارکردگی سے تعلق رکھتا ہے۔
پہلے حکومت کو لیجئے۔ حکومت اپنے ذرائع سے جو رقم حاصل کرتی ہے اس کو گردش دینے کا سب سے بڑا ذریعہ سرکاری ملازمتیں ہیں۔ عوام سے جو روپیہ وصول کیا جاتا ہے وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے ذریعہ عوام کو واپس کیا جاتا ہے۔ مگر اس معاملہ میں ساری دنیا میں یہ طریقہ رائج ہے کہ ملازمین کی دو تقسمیں کر دی گئی ہیں۔ ایک طرف وہ تھوڑے سے اونچے عہدیدار ہیں جن کو بڑی بڑی تنخواہیں اور بھاری الائونس دیئے جاتے ہیں۔ جن کو سفر و حضر میں مختلف قسم کی رعایتیں اور اعزازات حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف عام ملازمین کی وہ بھیڑ ہے جس کو نہایت قلیل تنخواہ پر کام کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ اس طرح وہ سرمایہ جو سارے ملک سے وصول کیا جاتا ہے، اس کا بڑا حصہ چند اشخاص کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کا صرف تھوڑا حصہ زیادہ اشخاص کے درمیان تقسیم ہوتا ہے۔
یہ مسئلہ قدیم ترین زمانے سے انسان کے لئے پریشانی کا باعث رہا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسا ہوا ہے کہ جو لوگ اقتدار کے مالک تھے، انہوں نے شرف اور دولت کا بڑا حصہ صرف اپنے لئے سمیٹ لیا۔ اور بقیہ آبادی کو مجبور کیا کہ وہ ہر قسم کی نعمتوں سے محروم ہو کر زندگی گزارے۔ دنیا میں جو انقلابات ہوئے ہیں انہوں نے صرف یہ کیا کہ ایک طبقہ کی ولی عہدی ختم کرکے دوسرے طبقہ کے حوالہ کر دی۔ مگر زندگی کی نعمتوں پر اجارہ داری کی صورت حال کو وہ ختم نہ کر سکے۔
ابتدائی زمانہ میں جب دنیا میں قبائلی نظام رائج تھا۔ قبیلوں کے سردار تمام فائدے اور امتیاز کے مالک ہوتے تھے۔ پھر شہنشاہی نظام میں شاہی خاندان نے یہ حیثیت حاصل کرلی۔ اس کے بعد جمہوری انقلاب آیا۔ مگر اس نے بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا کہ پہلے جو کچھ محل کے شہزادوں کے لئے مخصوص ہوتا تھا اس کو سیاسی لیڈروں کے حوالہ کر دیا۔ پھر سرمایہ دارانہ جمہوریت کو ختم کرنے کے لئے اشتراکیت اٹھی۔ مگر اس کا انجام بھی صرف یہ ہے کہ پچھلے سرمایہ داروں کی جگہ کمیونسٹ لیڈروں نے لے لی ہے۔ زارنکولس اور چیانگ کائی شک کے زمانہ میں بھی عوام زندگی کی نعمتوں سے محروم تھے اور اب مارشل بلگانن اور چائو ان لائے کے اقتدار کے تحت بھی وہ بدستور محروم ہیں۔۱؎
ہندوستان میں آزادی کا انقلاب جن تمنائوں کے ساتھ آیا تھا وہ یہ کہ ملک کے ذرائع و وسائل جن پر چند لاکھ انگریز قابض ہوگئے ان کو چھین کر ملک کے تمام باشندوں تک پھیلا دیا جائے۔ انگریز صرف اس لئے برا نہیں تھا کہ وہ بدیسی قوم سے تعلق رکھتا تھا، بلکہ اس لئے برا تھا کہ اس کے انتظام میں کچھ لوگ خوش حال اور بقیہ تمام آبادی بدحال ہوگئی تھی۔۱۹۳۰ء میں وائسرائے ہند اور مہاتما گاندھی کے درمیان خط و کتابت ہوئی تھی جس میں گاندھی جی نے لکھا تھا:
’’آپ سوال کریں گے کہ میں برطانوی حکومت کو لعنت کیوں سمجھتا ہوں، اس حکومت نے ہندوستان کے کرڑوں بے زبان انسانوں کو ایڈمنسٹریشن کے فضول سسٹم اور فوج کے غیر معمولی اخراجات سے مفلس دقلاش بنا دیا ہے۔‘‘۲؎
مگر آزادی کے بعد بھی وہی کیفیت باقی ہے، بلکہ اب فوج اور ایڈمنسٹریشن کے اخراجات پہلے سے کئی گناہ زیادہ ہوگئے ہیں، اور چھوٹے ملازمین اور بڑے عہدیداروں کے درمیان اب بھی وہی فرق
پایا جاتا ہے جو انگریزوں کے زمانہ میں تھا۔
ایک طرف اس ملک کے کروڑوں عوام کی آمدنی۲۵۔۳۰ روپئے ماہوار سے زیادہ نہیں ہے، دوسری طرف اتنے ہی دنوں کے لئے عوامی جمہوریہ کے صدر کی جو تنخواہ ازروئے دستور مقرر کی گئی ہے وہ دس ہزار اور ریاستوں کے گورنر کے لئے ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ہے۔ اس کے علاوہ تمام الائونس اور امتیازات جو انگریزی حکومت میں گورنر جنرل اور گورنر کو دیئے جاتے تھے، وہ اب آزاد ہندوستان کے صدر اور موجودہ گورنروں کو حاصل ہیں۔۳؎ اور ان امتیازات اور الائونس کے سلسلہ میں جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اس کی مقدار اصل تنخواہ سے بہت زیادہ ہے۔
_________________________________________________________________________________
۱؎ واضح ہو کہ یہ مضمون۱۹۵۸ء میں لکھا گیا تھا۔
۲؎ تاریخ کانگریس (ڈاکٹر پٹا بھی سیتارامیہ)ص۶۱۴
۳؎ Constitution of India.ll Sehedule
چپراسی کی تنخواہ۳۷ روپیے اور ایک افسر کی پانچ سو روپئے سے شروع ہوتی ہے اور آخری حد پر پہنچ کر چپراسی کی تنخواہ جب پچاس روپئے اور افسر کی تنخواہ ساڑھے تین ہزار ہ و جاتی ہے تو یہ فرق ایک اور سو تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر ایک صوبائی وزیر کی تنخواہ اور اس کے وہ اخراجات جو حکومت کے خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔ جوڑے جائیں تو آٹھ ہزار روپئے ہوتے ہیں۔ اور وزیر اور چپراسی کے درمیان تنخواہ کا فرق ایک اور پونے دو سو کا ہو جاتا ہے۔۱؎
ابتدائی مدرسوں کے لاکھوں استاد جو قوم کے کروڑوں بچوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کو صرف چند روپیہ مہینہ کے معاوضہ پر ساری عمر کام کرنا ہوتا ہے اور حکومت کو اس سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، مگر خود اپنے بارہ میں اس کا حال یہ ہے کہ ہزاروں روپئے کی تنخواہیں اور الائونس بھی اس کے لئے ناکافی ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ اس میں مزید اضافہ کر دیا جائے۔
ملک کے کروڑوں باشندے گرمیوں میں جھلس کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں، دوسری طرف وزیروں او راعلیٰ عہدیداروں کا حال یہ ہے کہ ان کو اپنے بنگلہ کے اندر خس کو ٹیٹوں اور بجلی کے پنکھوں
سے بھی آرام نہیں ملتا اور مئی جون میں ان کے دفاتر پہاڑ کی چوٹیوں پر منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ جہاں ان کے لئے مستقل گرمائی دارالسلطنت بنے وئے ہیں۔ اسپیشل ٹرینوں کے ذریعہ سرکاری طور پر ان کو وہاں پہنچایا جاتا ہے اور پھر واپس لایا جاتا ہے۔
اس صورتِ حال کا علاج اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ وہ تمام فرق جو محض عہدہ اور حیثیت کی بنا پر ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان قائم ہوتے ہیں، ان کو مٹا دیا جائے۔ اور کاغذی مساوات کے بجائے حقیقی معنوں میں تمدنی مساوات اور معاشی انصاف قائم کیا جائے۔
عرب میں جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے لفظوں میں صاف صاف اعلان کر دیا کہ اس معاملہ میں اسلامی نظام حکومت کی پالیسی کیا ہوگی۔ آپ نے فرمایا۔
لیس لاحدعلیٰ احد فضل الابدین اوتقوی
خدا پرستی اور خدا ترسی کے سوا اور کسی بنیاد پر ایک شخص کو دوسرے شخص پر فضیلت نہ ہوگی۔
________________________________________________________________________
۱؎ National Herald. December 10.1954
اس پالیسی پر اسلامی حکومت میں اس طرح عمل ہوا کہ عام پبلک اور بڑے عہدیداروں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ حضرت عمرؓ جو اپنے زمانہ کی ایک عظیم سلطنت کے سب سے بڑے عہدیدار تھے، انہوں نے اپنی نسبت فرمایا:
انی انزلت نفسی من مال اللہ بمنزلۃ والی الیتیم ان استغنت استعفف وان افتقرت اکلت بالمعروف(خربہ البیہقی)
حکومت کے مال میں میں نے اپنے آپ کو یتیم کے سرپرست کا درجہ دے رکھا ہے۔ فراغت کی حالت میں اس مال سے پرہیز کروں گا، اور احتیاج کی صورت میں صرف بقدر ضرورت لوں گا۔
آپ نے ایک موقع پر خود اپنے مصارف اس طرح بتائے:
اُخبر کم بمایستحل لی منہ حلتان حلۃ فی الشتاء وحلۃ فی القیظ وما احج علیہ و اعتمرمن الظھر وقوتی وقوت اھلی کقوت رجل من قریش لیس باغناھم دلابافقرھم ثم انا بعد رجل من المسلمین یصیبنی مااصابھم
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حکومت کے خزانہ سے میرے لئے کتنا لینا جائز ہے۔ دو جوڑے کپڑے۔ ایک جاڑے کے لئے اور ایک گرمی کے لئے۔ ایک سواری جس پر حج اور عمرہ ادا کر سکوں اور اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے کھانا قریش کے ایک آدمی کے کھانے کے برابر جو نہ ان میں سب امیر ہو اور نہ سب سے غریب۔ اس کے بعد میں عام شہریوں میں سے ایک شہری ہوں۔ جو سب کا حال ہے وہی میرا حال ہے۔
حضرت عمر بنؓ عبدالعزیز جو اپنے وقت میں دنیا کی عظیم ترین سلطنت کے مالک تھے۔ ان کے گھر عراق سے ایک بڑھیا آئی، جس کو اپنی لڑکیوں کی شادی کے سلسہ میں روپیہ کی ضرورت تھی اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ ایک نہایت معمولی مکان ہے جس میں نہ کوئی فرنیچر ہے نہ کوئی اور سازو سامان۔ اس نے کہا’’یہ گھر تو خود ویران ہے، یہ میری کیا مدد کرے گا۔‘‘ عمر بنؓ عبدالعزیز کی بیوی نے جواب دیا’’تمہیں لوگوں کا گھر بنانے میں تو یہ گھر اس طرح اجڑ گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد خلیفہ آئے اور انہوں نے بڑھیا کی تمام ضرورتیں پوری کر دیں۔
اس قسم کے واقعات سے اسلامی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ اسلامی معاشرہ میں عام پبلک اور حکمرانوں کے درمیان سیاسی اختیارات کے سوا اور کسی حیثیت سے فرق نہیں ہوتا۔ ایک عام آدمی کے جو شہری حقوق ہوتے ہیں وہی بڑے سے بڑے عہدیدار کے بھی ہوتے ہیں۔ اور سرکاری خزانہ سے وزیروں گورنروں کو بھی اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا عام شہریوں کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکسوں اور دوسری سرکاری مدوں سے جو دولت اکٹھا ہوتی ہے وہ صرف گورنمنٹ ہائوسوں میں خرچ نہیں ہوتی بلکہ تمام باشندوں تک منصفانہ طریقہ سے پہنچتی ہے۔ اور ہر طرف خوش حالی دوڑ جاتی ہے۔ چنانچہ عرب میں جو
اسلامی انقلاب آیا اس کے بعد وہاں یہ حال ہوگیا تھا کہ شہروں میں لوگ صدقات کی رقمیں لیے پھرتے تھے اور کوئی اس کو لینے والا نہیں ملتا تھا۔
ذہنی صلاحیت کی کمی بیشی کے اعتبار سے مختلف افراد کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی تمدنی نظام حقیقی معنوں میں نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر اس سلسلہ میں دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ فرق لامحدود نہ ہو اور دوسرے یہ کہ عہدہ کے اعتبار سے اعزازات اور رسمی تحفظات کی فضول تقسیم مٹا دی جائے۔ آج کل ایک وزیر کے سفر میں لاکھوں روپئے بالکل فضول صرف کر دیے جاتے ہیں۔ اس طرح کے اخراجات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور ان ہی چیزوں سے وہ غیر حقیقی امتیاز پیدا ہوتا ہے جس کو مٹائے بغیر کوئی ہموار معاشی نظام نہیںبنایا جا سکتا۔
سرمایہ کی گردش کا دوسرا میدان کاروبار اور وہ تجارتی لین دین ہے جو عام پبلک کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں آج کل کی دنیا میں دو طریقے رائج ہیں۔ ایک بالکل آزاد اور بے قید تجارت۔ جیسا کہ جمہوری ممالک میں ہے۔ اور دوسرے یہ کہ تمام کاروبار کو قومی ملکیت قرار دے کر حکومت کی تحویل میںدے دیا جائے اور حکومت کے ملازم اسے چلائیں۔ یہ دونوں طریقے دولت کو عمومی گردش میں آنے سے روکتے ہیں۔
قومی ملکیت کے نظام میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں طاقت اور کاروبار دونوں ایک گروہ کے ہاتھ میں اکٹھا ہو جاتے ہیں۔ زمینداروں اور کارخانہ داروں سے تو یہ کہہ کر ان کی ملکیتیں چھینی جاتی ہیں کہ یہ پوری قوم کے لئے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ ان کا انتظام کسی ملک کے تمام باشندے نہیں کر سکتے۔ چنانچہ انتظام کے نام سے وہی لوگ ان پر قبضہ کر لیتے ہیں جو پہلے سے اقتدار کے مالک ہیں۔ پھر جب پچھلا سرمایہ دار محض اس لئے بے حساب نفع اپنے لئے سمیٹ رہا تھا کہ وقت کا قانون اس کو اس بات کی اجازت دیتا ہے، تو یہ دوسرا سرمایہ دار بھی آخر وہی کام کیوں نہیں کرے گا جب کہ اس کو قانون بنانے اور چلانے کا اختیار بھی حاصل ہوگیا ہے۔
یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس کی واضح مثال خود ان ملکوں میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں عملاً آج قومی ملکیت کے اصول کی حکومت ہے۔ روس میں کمیونزم کے غلبہ کو نصف صدی سے زیادہ ہو رہے
ہیں مگر خود کمیونسٹ حضرات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہاں معاشی مساوات نہیں آئی ہے جس کے لئے ساری ماردھاڑ کی گئی تھی۔
’’سوویت یونین‘‘ جو روس کی سرکاری نیوز ایجنسی’’تاس‘‘ کا پندرہ روزہ ترجمان ہے۔ ایک سوال’’کیا سوویت یونین میں برابری ہے‘‘؟ کا جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے:
’’سوویت شہریوں کو اپنی مادی ضرورتیں پوری کرنے کے معاملہ میں اب بھی پوری برابری حاصل نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ انہیں سماج کی پیداوار سے اپنی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ محنت کے مطابق حصہ ملتا ہے۔ عوام کی تمام ضرورتیں پوری کرنے کے متعلق مکمل مساوات صرف کمیونزم کے تحت ہی ممکن ہے۔ جس کی تعمیر آج کل سوویت یونین میں ہو رہی ہے۔ کمیونزم کے تحت سماجی زندگی کا بنیادی اصول یہ ہوگا___‘‘ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے۔ ہر ایک کو اس کی ضرورتوں کے مطابق دیا جائے۔۱؎‘‘
۱۹۱۷ء میں لینن نے وعدہ کیا تھا’’بڑے عہدیداروں کی تنخواہ چھوٹے ملازمین سے زیادہ نہیں رکھی جائے گی۔‘‘ مگر آج روس میں آمدنیوں کا وہی فرق پایا جاتا ہے جو سرمایہ دار ملکوں میں ہے۔ سوویت انکم ٹیکس شیڈول ۱۹۴۰ء میں ٹیکس لگانے کا جو ریٹ دیا گیا ہے، وہ پانچ سو روبل سے لے کر تین لاکھ روبل کی آمدنی تک ہے۔ جس کے معنی یہی ہیں کہ اشتراکی روس میں اگر ایک طرف پانچ سو روبل کی آمدنی رکھنے والے انسان بستے ہیں تو دوسری طرف اسی ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی قانونی آمدنی تقریباً تین لاکھ روبل ہے۔۲؎
جمہوری ممالک کا بھی یہی حال ہے جہاں بے روک ٹوک ہر شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اپنی آمدنی مسلسل بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ جب یہ نظام معیشت اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو یہ حال ہو جاتا ہے کہ دولت ہر طرف سے کھینچ کھینچ کر صرف چند لوگوں کے قبضہ میں چلی جاتی ہے اور کاروبار پر ان کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ اور
۱؎ سوویت دیس۱۵ دسمبر۱۹۵۴ئ ۲؎ Student`s Votee, December 1954
بقیہ عوام کے لئے اس کے سوا کوئی ذریعہ معاش باقی نہیں رہتا کہ ان ہی چند سرمایہ داروں کے ملازم بن جائیں اور اس کی ایجنسی لے کر ان کے کار خانہ کا بنا ہوا مال فروخت کرتے پھریں۔
چنانچہ ہندوستان کے صنعتی سرمایہ کا پچاس فیصد حصہ صرف نوخاندانوں کے قبضہ میں ہے۔ یہاں ایک سوجوٹ کی ملیں چل رہی ہیں۔ لیکن ان کا پورا منافع صرف سات افراد کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔۲۴۷ کوئلہ کی کمپنیاں ہیں جن کو۱۸ سرمایہ دار ساڑھے دس کروڑ روپیہ کے سرمایہ سے چلا رہے ہیں۔ چائے پیدا کرنے والی کمپنیوں کی تعداد۱۱۷ ہے۔ لیکن ان کا انتظام اور کنٹرول صرف سترہ خانگی کمپنیوں کے ذمہ ہے۔ بمبئی میں۳۹ کپڑے کی ملیں ہیں۔ لیکن ان کا تختہ موازنہ(Balance sheet) بتاتا ہے کہ ستر فیصد نفع منیجنگ ایجنٹوں کی جیبوں میں جاتا ہے اور صرف تیس فیصد حصہ داروں میں تقسیم کے لئے بچتا ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ ملکی صنعت سے جو آمدنی ہوتی ے اس کی مقدار۳۵۰ کروڑ روپیہ سالانہ ہے۔ مگر اس منافع کا ستر فیصد حصہ صرف۷۵ بڑے سرمایہ داروں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔۱؎
یہی حالت ان تمام ملکوں کی ہے جہاں بے قید تجارت کا اصول جاری ہے۔
اسلام قومی ملکیت اور بے قید ملکیت دونوں انتہائوں کے درمیان ایک معتدل راستہ تجویز کرتا ہے۔ وہ انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے اور کھلے لین دین کے اس طریقہ کو باقی رکھتا ہے جو ابتدا سے انسانوں کے درمیان معاشی سرگرمی کی فطری بنیاد رہا ہے۔ البتہ وہ کچھ پابندیاں اور کچھ تحفظات تجویز کرتا ہے تاکہ تقسیم دولت کا توازن بگڑنے نہ پائے اور ہر شخص کو کم ازکم زندگی کی انگزیر ضرورتیں فراہم ہوتی رہیں۔
اس سلسلہ میں اسلام کی پہلی کوشش یہ ہے کہ دولت کے یک طرفہ بہائو کو روکا جائے اور ایسے تمام کاروبار کو قانوناً بند کر دیا جائے جس میں ایک شخص کا فائدہ اور بہت سے لوگوں کا نقصان ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلام کا قانون سب سے پہلے سود کی تمام شکلوں کو حرام قرار دیتا ہے۔ سود کا
مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جس کے پاس سرمایہ ہو اس کو ہمیشہ کے لئے خوش حالی کا پٹہ
_________________________________________________________________________
۱؎ ’’دی کمرشل جنرل‘‘ اگست۱۹۵۵ء
لکھ دیا جائے اور ہر قسم کے خطرات اور نقصان سے اس کو مستقل طور پر محفوظ کر دیا جائے۔ ایک پیشہ ور کا کام بند ہو سکتا ہے، ایک ملازم کی ملازمت ختم ہو سکتی ہے، ایک تاجر کا کاروبار فیل ہو سکتا ہے، مگر سودی قرض وہ کاروبار ہے جس میں گھاٹے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ ہمیشہ نفع لے کر واپس آتا ہے۔ اگر قرض لینے والے کا روزگار ختم ہو جائے تو عدالتیں اس کے گھر کا اثاثہ بکوا کر اصل مع نفع سود خوار کے گھر پہنچا دیتی ہیں۔
سودی کاروبار کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ پچھلے زمانہ کا مہاجنی سسٹم تو یقینا براتھا مگر نئے طرز کے بنکوں کی سود خواری عین جائز بلکہ تری کا ذریعہ ہے۔ مگر درحقیقت یہ ایک دھوکے کے سوا اور کچھ نہیں۔ موجودہ زمانہ میں سائنس کی ایجادات نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ چیزوں کی تیاری کے لئے بہت بڑے بڑے کارخانے قائم کئے جائیں، مگر بڑے بڑے کارخانے بنانے کے لئے بے حساب روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے جس کو مہیا کرنا کسی ایک شخص کے بس میں نہیں ہوتا۔ روپیہ کی اس فراہمی کے لئے موجود زمانہ میں بینکنگ کا طریقہ رائج کیا گیا ہے۔ عوام کو سود کا لالچ دے کر سارے ملک کی دولت چند بنکوں میں اکٹھا کر لی جاتی ہے۔ اس طرح چند سرمایہ دار سارے ملک کی دولت کم شرح سود پر جمع کر لیتے ہیں اور پھر زیادہ شرح سود پر اس کو کارخانہ داروں کو قرض دیتے ہیں۔ اس زمانے میں جتنے کارخانے قائم ہوتے ہیں۔ ان میں اصل مالکوں کا سرمایہ بہت کم ہوتا ہے۔ بیشتر سرمایہ ان ہی سودی قرضوں کا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک بنک ڈیڑھ فیصد سود کی شرح پر عوام سے پچاس لاکھ روپیہ وصول کرتا ہے، پھر اسی روپیہ کو وہ کپڑے سینے کی مشین کے ایک کارخانہ کو نوفیصد سود کی شرح پر قرض دیتا ہے، جس کا سالانہ سودچار لاکھ پچاس ہزار روپیہ ہوا۔ یہ رقم کوئی کارخانہ دار اپنے گھر سے نہیں دیتا بلکہ اپنے یہاں کی بنی ہوئی مشینوں کی قیمت مقرر کرتے وقت وہ سود کی اس مقدار کو بھی اس پر چڑھا دیتا ہے۔ اس طرح
چیزیں سودی رقم کے بوجھ سے دبی ہوئی بازار میں آتی ہیں اور تمام خریدار جنہوں نے اپنا روپیہ جمع کرکے صنعتوں کے لئے سرمایہ فراہم کیا تھا، ان ہی کے ہاتھ سامان بیچ کر اس سود کی رقم وصول کی جاتی ہے۔ بینک بظاہر تو یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کو ان کے جمع کئے ہوئے پچاس لاکھ کے بدلے ڈیڑھ فیصد کی شرح سے ایک لاکھ پچیس ہزار روپیہ سالانہ سود ادا کر رہا ہے۔ مگر درحقیقت یہ رقم اس لوٹ کا چوتھائی حصہ ہوتی ہے جو بینک اپنے مقروض کارخانہ دار کی معرفت خود عوام سے ساڑھے چار لاکھ روپیہ کے بقدر وصول کر چکا ہے۔
اس طرح سودی معاشیات کے نتیجہ میں خود عوام سے حاصل کی ہوئی دولت اس بات کا ذریعہ بن رہی ہے کہ دولت کے بہائو کے رُخ کو عوام کے بجائے چند سرمایہ داروں کی طرف کر دیا جائے۔
اسلام میں بینکنگ ممنوع نہیں ہے۔ بینکنگ اپنی ابتدای صورت میں ایک سادہ اقتصادی تدبیر کا نام ہے۔ بڑا کاروبار بڑا سرمایہ چاہتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کے پاس بیک وقت بڑا سرمایہ موجود نہیں ہوتا اس لیے افراد یہ کرتے ہیں کہ اجتماعی سرمایہ کاری سے وہ اپنی مالیاتی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ اسی کا نام بینکنگ ہے۔ بینک بہت سے لوگوں کی امانتوں(Deposits) کو جمع کرکے بڑا سرمایہ اکٹھا کرتا ہے اور پھر لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ مخصوص شرائط پر اس سے قرض لے کر بڑے بڑے کاروبار کریں۔
عام بینکوں میں سرمایہ کاری کی بنیاد سود پر ہے۔ عام بینک یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ جمع کرنے والے افراد کو کم شرح سود دے کر قرض لینے والوں سے بڑی شرح سود وصول کرتے ہیں۔ اسلام کے مطابق بینکنگ کی صحیح بنیاد مضاربت ہے۔ مضاربت کا طریقہ تجارتی عمل میں معاون بننے کے ساتھ دولت کی گردش کو پھیلاتا ہے۔ سود کا طریقہ بھی تجارتی عمل میں معاون ہے۔ مگر اس کی معاونت اس قیمت پر ہوتی ہے کہ دولت کی گردش سمٹ جائے، دولت کھینچ کھینچ کر چند ہاتھوں میں پہنچنے لگے۔
اسلام میں سودی کاروبار ناجائز ہے۔ کیونکہ سود کا نظام ایک یا چند اشخاص کے نفع کو یقینی بنانے کو بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اسلام میں مضاربت کا طریقہ رکھا گیا ہے جو طرفین کے فائدہ اور نقصان پر مبنی ہے۔ سود کے اصول پر کام کرنے سے چند لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے اور مضاربت کے اصول پر کام کرنے سے تمام لوگوں کو سود اگر استحصال(Exploitation) کا آلہ ہے تو مضاربت عمومی نفع بخشی کی صورت ہے۔
مضاربت میں ایک شخص اپنا روپیہ دوسرے کو دیتا ہے۔ اور دوسرا شخص اقرار کرتا ہے کہ وہ روپیہ کے ساتھ اپنی محنت کو شامل کرکے جو نفع کمائے گا اس میں سے ایک مقرر حصہ(مثلا نصف) دوسرے شخص کو دیتا رہے گا۔ اس معاملہ میں اصل رقم کو راس المال، رقم دینے والے کو رب المال اور رقم لے کر کام کرنے والے کو مضارب کہا جاتا ہے۔
اسلامی نظام اقتصادیات میں بینک کی حیثیت مضارب کی ہوگی۔ وہ لوگوں کی امانتی رقمیں جمع کرے گا اور پھر اس سے کاروباری قرضے دے گا۔ اسلامی نظام اقتصادیات میں بینک ہوگا مگر سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف۔ اسلام نے چونکہ سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اس بنا پر اگر اسلامی بینک بنایا جائے تو اس میں لین دین کی بنیاد نفع میں شرکت ہوگی نہ کہ سود جس پر موجودہ زمانہ میں بینکنگ کا نظام چل رہا ہے۔
سودی نظام میں قرض دینا ایک تجارت ہے۔ کیوں کہ وہ ایک مقررہ شرح کے مطابق اضافہ ہو کر قرض دینے والے کو لوٹتا ہے۔ مگر اسلامی معاشرہ میں قرض دینا ایک انسانی عمل ہے نہ کہ کاوباری عمل۔ اسلامی معاشرہ میں ایک شخص دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے تاکہ اس کی ضرورت پری ہو۔ اور بعد کو وہ اس کی اصل رقم اسے لوٹا دے۔ اس کے برعکس سودی نظام میں قرض اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ یقینی نفع کے ساتھ قرض دینے والے کی طرف لوٹے۔
اسلامی شریعت میں تجارتی قرضہ کو مضاربت کہا جاتا ہے۔ یعنی نفع نقصان دونوں میں شرکت کی بنیاد پر قرض دینا۔ الف کی رقم پر جیم ایک کاروبار کرتا ہے۔ اگر اس میں اس کو نفع ہو تو حسب معاہدہ دونوں اس کے نفع کو تقسیم کر لیں گے۔ اور اگر نقصان ہو جائے تو جتنا نقصان ہوا ہے وہ قرض دینے والے کو برداشت کرنا پڑے گا۔
ایک انفرادی شخص اگر دوسرے انفرادی شخص کو قرض دے تو اس میں یقینا نفع اور نقصان دونوں کا امکان ہے۔ لیکن اگر یہ کام اجتماعی بینکوں کے ذریعہ ہو تو عملاً نقصان صفر کے برابر ہو جاتا ہے۔ بینک کی صورت میں ہزاروں آدمیوں کا سرمایہ ایک ادارہ میں جمع ہوگا اور پھر سیکڑوں اور ہزاروں تاجروں کو بطور قرض دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں اگر ان میں سے چند کو نقصان ہو جائے تو بینک کا مجموعی کاروبار پھر بھی نفع میں ہے گا۔ اس کا نقصان غیرمرئی ہو کر رہ جائے گا۔
اس کو انشورنس کمپنیوں کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ انشورنش کمپنیاں حادثات اور نقصانات کا بیمہ کرتی ہیں، اس کے باوجود ان کو نفع ہوتا ہے۔ حالاں کہ اگر ان کے تمام گاہکوں کو نقصان یا حادثہ چند ہی افراد کو پیش آتا ہے، بیشتر لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ زندگی کے اسی قانون کا فائدہ انشورنس کمپنی کو ملتا ہے اور چند افراد کے معاملہ میں نقصان اٹھانے کے باوجود آخری طور پر انہیں نفع حاصل ہوتا ہے۔ انفرادی مضاربت میں یقینا گھاٹے کا بھی اندیشہ ہے مگر بینکوں کے ذریعہ اجتماعی مضاربت اسی طرح عملاً نفع بخش بن جاتی ہے جیسے موجودہ سودی بینکنگ۔
مضاربت کے اصول پر بینکنگ کا نظام قائم کرنے سے بیک وقت دو فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ سماج دولت کے اس یک طرفہ بہائو کے نقصان سے بچ جاتا ہے جو سودی طریق معیشت کا لازمی خاصہ ہے۔ اور جس کی وجہ سے دولت کی افراط کے باوجود دنیا سے غریبی ختم نہیں ہوتی۔ دوسری طرف سماج کو وہ فائدہ بھی پوری طرح ملتا ہے جس کے لیے بینک کا طریقہ رائج کیا گیا ہے۔
۲۔دوسری چیز جس کو اسلام کا قانون حرام قرار دیتا ہے وہ جوا ہے۔ جس کی مختلف شکلیں اس زمانہ میں رائج ہیں۔ جوے میں یہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ مل کر مستقبل کے متعلق بازی لگاتے ہیں، اور اس بازی میں شریک ہونے کے لئے ایک مقررہ رقم اس شخص کے پاس جمع کرتے ہیں جو اس کاروبار کا ناظم ہوتا ہے۔ پھر اتفاق سے جس کی اٹکل صحیح نکلتی ہے اس کو ایک طے شدہ رقم بطور انعام دیدی جاتی ہے۔ اور بقیہ لوگوں نے جو رقم جمع کی تھی اس کو کاروبار کا ناظم ہڑپ کر لیتا ہے۔ اس طرح یہ طریقہ دولت کو عوام سے کھینچتا ہے بغیر اس کے کہ اس کے بدلے انہیں کچھ دیا گیا ہو۔ اور اس کو چند لوگوں کے حوالہ کر دیتا ہے بغیر اس کے کہ اس پر ان کا کوئی حق قائم ہوتا ہو۔
مثال کے طور پر بیمہ ایک جوے کا کاروبار ہے۔ بیمہ کمپنیاں اس بات کا ذمہ لیتی ہیں کہ آپ کی زندگی یا جائیداد کو کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس کا مقررہ معاوضہ ادا کر دیں گی۔ اس ’’ذمہ‘‘ کے بدلے وہ ہر شخص سے پیشگی ایک رقم وصول کرتی ہیں۔ اگر حادثہ پیش آ جائے تو آپ کو وہ مقررہ رقم دیدی جائے گی۔ اور حادثہ پیش نہ آئے تو وہ رقم کمپنی کی ملکیت ہوگی جس کو ذمہ داری قبول کرنے کے معاوضہ میں پہلے وصول کیا گیا تھا۔
چونکہ عام حالات میں حادثے کا پیش نہ آنا حادثات کے پیش آنے کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے، اس لئے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی چند آدمیوں کو کچھ رقم دے کر بیشتر آدمیوں کی بڑی رقم پر قبضہ کر لیتی ہے۔ ہندوستان میں اورنٹیل گورنمنٹ سکیورٹی لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ بہت بڑی بیمہ کمپنی ہے۔ جو ۱۸۸۴ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس نے ۱۹۵۳ء تک مختلف اشخاص اور اداروں کو جو رقمیں ادا کیں ہیں ان کی مقدار ۲۸۲،۰۲،۳۶،۶۱ روپئے ہے۔ مگر اس دوران میں خود اس نے جو سرمایہ حاصل کیا ہے وہ اخراجات اور سالانہ منافع کی ادائیگی کے بعد۳۷۶،۶۷،۹۹،۲۰۶ روپیہ۱۹۵۳ میں ہے اس کے علاوہ۸۳۹،۲۲،۲۳،۷۲ روپیہ اس کے پاس مستقل فنڈ کی شکل میں موجود ہے۔۱؎
(1) National Herald. December 16. 1954
بیمہ کنٹرولر حکومت ہند کی سالانہ رپورٹ برائے۱۹۵۳ء کے مطابق ہندوستان کی ملکی اور غیر ملکی انشورنس کمپنیوں کو زیرنظر سال میں اس کاروبار سے جو آمدنی ہوئی ہے وہ۶۳ کروڑ۸۷ لاکھ روپیہ ہے۔ اور اس مدت میں واجبات(Claims) اور معاوضہ دست برداری کی صورت میں جو رقمیں ادا کی گئی ہیں۔ ان کی مقدار۳۶ کروڑ۴۶ لاکھ ہے۔ یعنی پبلک سے جتنا روپیہ وصول کیا گیا ہے اس کا صرف آدھا حصہ اسے واپس کیا گیا ہے۔ اور یہ آمدنی نظم و نسق کے اخراجات کے بعد ہے جس پر پورے کاروبار کا۳ئ۲۷ فیصد خرچ ہوا ہے۔
مختلف قسم کی پالیسیوں سے جو واجبات ادا کئے گئے ہیں، ان کی آمد و خرچ کا فرق حسب ذیل ہے:
آگ کا بیمہ
پریمیم کی آمدنی کا۳۵ فیصد
بحری بیمہ
پریمیم کی آمدنی۵۶ فیصد
متفرق
پریمیم کی آمدنی کا۵۰ فیصد
مذکورہ بالا حساب کے مطابق ہندوستان کی بیمہ کمپنیوں نے ’’انشورنس‘‘ کے نام پر کثیر رقم وصول کی ہے اور پھر کسی واقعی استحقاق کے بغیر محض ہیر پھیر کے نتیجہ میں ہر ایک سو میں سے ۵۳ روپیہ انہوں نے
خود رکھ لیا ہے اور صرف۴۷ روپیہ ان حق داروں کو ادا کیا ہے جن کی جیب سے یہ پورے سو روپئے نکالے گئے تھے۔
جوے کی ایک قسم سٹہ(Speculation) ہے۔ جس نے اس زمانہ میں بڑی وسعت اختیار کر لی ہے۔ سٹہ کا مطلب یہ ہے کہ چند لوگ جن کے پاس روپیہ ہو اور بڑے بڑے بنک جن کے لئے ادائیگی کی ضمانت لے سکتے ہوں، محض بولی اور ٹیلیفون کے ذریعہ غائبانہ طور پر چیزوں کو خریدتے اور بیچتے رہیں۔ ایک سامان جو کلکتہ میں تیار ہو کر مارکٹ میں آنا چاہتا ہے، اس کو بمبئی میں بیٹھا ہوا ایک شخص محض ٹیلی فون کے ذریعہ پچاس لاکھ میں خرید لے اور پھر ٹیلیفون ہی پر دوسرے سٹہ باز کے ہاتھ ساٹھ لاکھ میں بیچ دے۔ پھر یہ دوسرا شخص بھی سامان کو دیکھے اور اس کو ہاتھ لگائے بغیر تیسرے شخص کے ہاتھ ستر لاکھ میں فروخت کر دے۔ اسی طرح غائبانہ سودے کا سلسلہ چلتا رہے۔ یہاں تک کہ آخری بار جس کے ہاتھ فروخت ہو کر وہ بازار میں پہنچے تو اس پچاس لاکھ روپیہ کے سامان کی قیمت ایک کروڑ روپیہ ہو چکی ہو،
اس طرح مصنوعی طور پر قیمتیں چڑھتی ہیں اور اص خریدار اور بیچنے والے کے درمیان کچھ لوگ اپنی محنت اور اپنے مال کا کوئی واقعی حصہ صرف کئے بغیر مفت میں نفع کے حقدار بن جاتے ہیں اور پبلک کو مجبور کرتے ہیں کہ جس چیز کو وہ بازار سے دس روپیہ میں خرید سکتے تھے، اس کو بیس روپئے میں خرید کران سرمایہ داروں کا لازمی حصہ ادا کریں۔
جوے کی ایک شکل معمہ اور لاٹری ہے۔ اس زمانہ میں معمے کا رواج بہت بڑھ گیا ہے۔ تقریباً ہر روزانہ اخبار اور رسالے میں آپ معمے کا ایک اشتہار دیکھ سکتے ہیں۔ معمے کی حقیقت یہ ہے کہ دو آدمی جن میں سے ایک وہ ہوتا ہے جو معمے کا اعلان کرتا ہے اور دوسرا وہ موہوم شخص جس کو اتفاق سے انعام ملنے والا ہے، مل کر ایک لاکھ یا اس سے زیادہ روپئے کے انعام کا اعلان کرتے ہیں لوگ اس بڑی رقم کی لالچ میں کوپن بھرنا شروع کرتے ہیں۔ اور ہر کوپن کے ساتھ ایک روپیہ یا اس سے زیادہ رقم معمے اور لاٹری کے دفتر میں روانہ کرتے ہیں۔ ایک آدمی بسااوقات ایک ایک سو کوپن خریدتا ہے، کیونکہ اسے یہ امید لگی رہتی ہے کہ سو پچاس روپئے خرچ کرکے وہ چند دن میں لاکھوں روپئے حاصل کر سکتا ہے۔ اس طرح کسی حقیقی خدمت کے بغیر صرف ایک مہینہ میں ایک شخص لاکھوں روپئے جمع کرلیتا ہے جو ہزاروں
لاکھوں کی جیب سے نکل کر آتا ہے۔ اس طرح پبلک کو بیوقوف بنا کر ہر مہینے بے شمار روپئے جمع کئے جاتے ہیں۔ اور پھر چند آدمی ان کو بانٹ لیتے ہیں۔
یہ معمہ یالاٹری کس قدر تباہ کن ہے، اس کا اندازہ آپ اس طرح کر سکتے ہیں کہ مدراس میں۱۹۵۴ء میں معموں کے ۲۲ مقابلے جاری تھے، ایک خاندان بہت دنوں سے معمے کا حل بھیج رہا تھا۔ مگر اسے کوئی انعام نہیں ملا۔ ہر ناکامی کے بعد دوبارہ انعام حاصل کرنے کی امید میں وہ کوپن بھرتا رہا۔ یہاں تک کو جوے کے اس کھیل میں جب اس کا سب کچھ لٹ گیا تو پورے خاندان نے ایک ساتھ خودکشی کر لی۔ یہی حال لاٹری کا بھی ہے۔
اس قسم کی تمام چیزوں کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس میں لازماً ایک فریق کا فائدہ اور دوسرے فریق کا نقصان ہے۔ یہ کاروبار کچھ لوگوں کے لئے تو سوسائٹی کی کسی حقیقی خدمت کے بغیر روپیہ کا ڈھیر لگا دیتا ہے اور دوسرے بہت سے لگوں کو کسی حقیقی سبب کے بغیر مفلس بنا دیتا ہے۔
۳۔ اسی طرح اسلام ذخیرہ اندوزی(Hoarding) کو بھی ختم کر دینا چاہتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ ایک تاجر جس کے پاس ضروریات زندگی میں سے کسی چیز کا اسٹاک ہو وہ اس کو بیچنے کے بجائے روک لے۔ یا کسی کے پاس روپیہ ہو اور وہ دوسروں سے سامان خرید کر اپنے گودام میں جمع کر لے۔ اس طرح بازار کے اندر مصنوعی طور پر ان کی قلت ہو جائے اور ضرورت مند لوگ زیادہ دام پر خریدنے کے لئے مجبور ہو جائیں۔ اس طرح جب قیمتیں خوب چڑھ جائیں تو وہ اپنا اسٹاک زیادہ دام پر خریدنے کے لئے مجبور ہو جائیں۔ اس طرح جب قیمتیں خوب چڑھ جائیں تو وہ اپنا اسٹاک بازار میں لے آئے اور مہنگے داموں فروخت کرکے بے شمار منافع حاصل کر لے۔
جولائی۱۹۵۵ء میں ہندوستان کے مشرقی علاقہ میں جو زبردست سیلاب آیا تھا اور جس میں بہت سے شہروں اور بستیوں کو پانی نے اس طرح گھیر لیا تھا کہ وہ بقیہ دنیا سے بالکل کٹ گئے۔ اس موقع پر دکانداروں نے عام طور پر اپنا اسٹاک روک لیا اور ضرورت کی چیزیں نہایت مہنگے داموں فروخت کرنے لگے۔ یہاں تک کہ جلانے کے لئے مٹی کا تیل جو عام حالات میں چار آنے فی بوتل فروخت ہوتا ہے وہ ایک روپیہ چار آنے بوتل بکنے لگا۔ اس طریقہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کی خریداری میں اصل نرخ
کے مطابق پبلک کی جیب سے ایک کروڑ روپیہ نکلنے والا تھا، وہ بڑھے ہوئے نرخ کی صورت میں پانچ کروڑ اور دس کروڑ کے بقدر نکل کر سرمایہ داروں کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس کاروبار میں چند آدمی لکھ پتی سے کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔ مگر بقیہ آبادی کے حصہ میں افلاس کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔
یہی طریقہ تھا جس کے مطابق۱۹۴۳ء میں بنگال کے اندر وہ ہولناک قحط پڑا جس کو انسان کا لایا ہوا قحط(Man-made famine) کہا جاتا ہے۔ اس قحط کے اسباب میں دوسری وجہوں کے ساتھ ایک سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ تاجروں نے بڑے پیمانہ پر غلہ کا ذخیرہ کر لیا تھا۔ خود حکومت کے گوداموں میں کروڑوں من چاول پڑا ہوا تھا۔ مگر قیمتیں اتنی زیادہ تھیں کہ عوام خرید نہیں سکتے تھے۔ اس طرح مصنوعی طور پر قحط کی کیفیت پیدا ہوگئی اور لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ طرح طرح کی بیماریاں پھیل گئیں۔ گورنمنٹ کے مقرر کردہ وڈہڈکمیشن(Woodhead Commission) کی رپورٹ کے مطابق اس قحط میںبنگال کے پندرہ لاکھ آدمی مر گئے۔ اسی زمانہ میں کلکتہ یونیورسٹی نے بھی غیر سرکاری طور پر معلومات جمع کی تھیں اس کی رپورٹ کے مطابق اس مصنوعی قحط میں مرنے والوں کی تعداد۳۵ لاکھ ہے۔۱؎
۴۔ اسی طرح اسلام آمدنی حاصل کرنے کے ان تمام طریقوں کو بھی بند کرتا ہے جس میں ایک شخص کسی کو اس بنا پر
___________________________________________________________
1 J.K. Mitra. Indian Economics.
A Mukherjee & Co. Ltd..1949p.
شخص کسی کو اس بنا پر گاہک نہیں بناتا کہ وہ ضرورت کی ایک چیز بیچ رہا ہے اور دوسرا اپنی ضرورت کے لئے اسے خرید رہا ہے، بلکہ خرید و فروخت کی بنیاد محض سطحی کشش ہوتی ہے۔ اس طرز کے کاروبار میں دو نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ظاہری چیزوں سے فریب کھا کر آدمی معمولی اور کم قیمت کا سامان زیادہ دام دے کر خرید لیتا ہے۔ اور تاجر بھی سامان کو اچھا بنانے کے بجائے جھوٹے پروپیگنڈے میں اپنے وقت اور پیسہ کو ضائع کرتا ہے۔ دوسرے نقصان یہ ہے کہ آدمی جذباتی ہیجان میں پڑ کر اپنی ضرورت کو صحیح طور پر نہیں سمجھتا اور ایک ایسی چیز کی خریداری میں اپنا روپیہ لگا دیتا ہے جس کو حقیقۃً اس کو ضرورت نہیں ہے۔
مثلاً اشتہار کے لئے عورتوں کی تصویریں استعمال کرنا جس نے اس زمانہ میں بہت بڑے فتنہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ بڑے بڑے تاجر عورتوں کی عریاں تصویریں بنواتے ہیں اور انہیں مصوروں سے خرید کر نہایت وسیع پیمانہ پر لیبل، اخبارات اور سائن بورڈ وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ اور اس طرح عوام کے سطحی جذبات کو بھڑکا کر اپنی مصنوعات فروخت کرتے ہیں۔ گویا پبلک کو ایک صابون کا گاہک اس بنیاد پر نہیں بنایا جاتا کہ وہ اچھا ہے اور بہتر کام کرتا ہے بلکہ یہ کہ ایک ایکٹرس یا کوئی فرضی تصویر اس کو اپنے نازک ہاتھوں میں لے کر نہا رہی ہے۔
اسی طرح سینما، شراب، کلب گھر، رقص و سرود، اور آرٹ سو سائیٹیوں کے ذریعہ پبلک کا بے شمار روپیہ چند ہوشیار تاجروں کے قبضہ میں چلا جاتا ہے۔ ان کا شکار صرف وہی لوگ نہیں ہوتے جن کی آمدنیاں بہت زیادہ ہیں۔ ان چیزوں کا پروپیگنڈا اس طرح کیا گیا ہے اور لوگوں کو ایسا چسکا لگا دیا گیا ہے کہ معمولی آمدنی والے بھی بیوی بوں کا حق ادا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی ’’ٹاکیز‘‘ میں جا کر فلمی ستاروں کا حق ادا کر آئیں۔ یا کسی شراب کے ٹھیکہ دار کی تجوری بھرنے کے لئے ہر روز شام کو اپنی جیب خالی کر دیا کریں۔
یہ سینما جس کو ’’آرٹ‘‘ کا خوبصورت نام دیا گیا ہے، دراصل چند نہایت چالاک قسم کے مردوں اور عورتوں کی تجارت ہے جن کی فلمی ستاروں اور ڈائریکٹر و پروڈیوسر کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ عشرت کدے بنا کر ان میں عیش کرتے ہیں۔ اور اس عیاشی کی تصویریں سکرین پر دکھا کر غریب عوام سے اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے پاس رہنے کے لئے عمدہ مکان نہیں ہے جن کو اپنی بیوی بچوں میں خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ جو رزق برق کاروں کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور کبھی اس میں بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔ جن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ پہاڑی مناظر کی سیر کر سکیں۔ جن کو ایسی بیوی حاصل نہیں ہے جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، جو پیانو بجائے اور عمدہ گانے سنائے۔ جن کو زمانہ نے لذتوں سے محروم کر رکھا ہے۔ جن کے سینے آرزئوں کا قبرستان ہیں۔ یہ تمام لوگ سینما کا ٹکٹ خرید کر ان مناظر کی تصویریں دیکھنے جاتے ہیں جن کو اوہ اپنی زندگی میں حاصل نہ کر سکے۔ اور اس طرح دبے ہوئے احساسات کو تھوڑی دیر کے لیے تسکین دے کر واپس چلے آتے ہیں۔ شاہ فاروق کو لوگ برا کہتے ہیں کہ
وہ مصری عوام سے ٹیکس وصول کرکے محلوں میں عیش کرتا تھا۔ مگر یہ فلمی دنیال کے رانی اور راجے جو انسان کے نازک جذبات اور اس کی محروم تمنائوں کی تجارت کرتے ہیں، یہ شاہ فاروق سے بھی زیادہ بڑے قسم کے لٹیرے ہیں۔
یونسکو کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ سینما گھر ہیں۔ جن میں سالانہ دس ارب اشخاص فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔ اس سے فلمی صنعت کو تقریباً چار سو کروڑ ڈالر یعنی چور اسی ارب روپیہ وصول ہوتا ہے،۱۹۵۳ء کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ فلم تیار کرنے والے ملکوں کے نام حسب ذیل ہیں۔۱؎
ریاست ہائے متحدہ امریکہ ۳۴۴ فلمیں۔
جاپان
۳۰۲فلمیں
ہندوستان میں سینما گھروں کی تعداد تین ہزار پانچ سو ہے، جن میں روزانہ۲۵ لاکھ آدمی سینما دیکھتے ہیں۔۲؎ اگر فی آدمی صرف ایک روپیہ خرچ کا اوسط رکھا جائے تو ایک سال کے اندر عوام کی جیب سے تقریباً ایک ارب روپیہ نکل کر چند پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں اور ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی جیب میں پہنچ جاتا ہے، جو سینما نہ دیکھنے کی صورت میں ضروریات زندگی میں خرچ ہو کر عوامی خوش حالی کا سبب بنتا۔
۵۔ اوپر اسلام کے وہ قوانین درج کئے گئے ہیں جو ناجائز طریقہ پر دولت کے سمٹائو کو
____________________________________________________________________
1 United Nations Weekly Newsletter. February 10,1956
2 Hindustan Year Book, 1954,9.
روکتے ہیں۔ مگر خواہ کتنے ہی جائز طریقہ پر کام کیا جائے دولت سمٹنے کے عمل کو بالکل ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی آبادی میں بہرحال ایسا ہوگا کہ کچھ لوگ خوش حال ہوں گے اور کچھ لوگ حاجت مند۔ کچھ لوگ محروم ہوں گے اور کچھ آدمیوں کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت جمع ہو جائے گی۔ اس صورتِ حال کے علاج کے لئے اسلام نے حکومت کو قانونی طور پر اس بات کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ
اپنے علاقہ کے تمام ناداروں اور اپاہجوں کے لئے کھانا کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم کا مفت انتظام کرے۔ اس فنڈ کی سب سے بڑی مد زکوٰۃ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ امیر(صاحب نصاب) ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کرکے غریب لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔ اس مالیہ کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لفظوں میں بیان فرمائی ہے:۔
توخذمن اغنباء کم
وتردالیٰ فقراء کم
یعنی زکوٰۃ اسلامی سوسائٹی کے امیر لوگوں سے لی جاتی ہے اور اس کے غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔
دنیا میں جتنے محصول رائج ہیں، وہ سب آمدنی کے اوپر لگائے جاتے ہیں۔ مگر زکوٰۃ حکومت کا ایک ایسا مالیہ ہے جو سرمایہ پر لگایا گیا ہے۔ اسلام نے ہر قسم کی ملکیت کا ایک معیار مقرر کر دیا ہے۔ جس کے پاس بھی اس معیار سے زیادہ دولت پائی جائے گی اس سے ہر سال زکوٰۃ کا لازمی مالیہ وصول کیا جائے گا۔
جن مختلف سامانوں پر زکوٰۃ واجب ہے ان کی شرح حسب ذیل ہے:
زرعی پیداوار
۱۰فیصد
جب کہ وہ بارانی زمینوں سے حاصل ہو۔
۵ فیصد جب کہ وہ مصنوعی آبپاشی سے حاصل ہو۔
نقدی اور سونا چاندی:
اموال تجارت:
مویشی:(اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور جوان کی مانند ہو) جانوروں کی ز کوٰۃ کی مختلف صورتیں ہیں۔
جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ سیرۃ النبی مصنفہ مولانا سید سلیمان ندوی جلد پنجم صفحہ۲۷۔۱۶۵ میں اس کا مفصل نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔
معاون(کان سے نکلنے والی چیزیں مثلاً لوہا، پٹرول گندھک وغیرہ)
رکاز(دفینے)۲۰ فیصد
کارخانوں کے اموال۔
یہ زکوٰۃ اسلامی قانون معاشیات کی ایک عظیم الشان دفعہ ہے اور اگر کوئی ملک اسلامی نظریہ زندگی کو قبول کرکے اپنے ملک میں یہ قانون نافذ کر لے تو وہاں سے افلاس، گداگری اور بہت سے جرائم کا کلی خاتمہ ہو جائے گا۔
مثلاً ہندوستان کو لیجئے۔ پلاننگ کمیشن کے اندازہ کے مطابق یہاں حکومت کی املاک کو چھوڑ کر نجی طور پر لوگوں کے پاس جو سامان اور پیداواری اثاثے ہیں، ان کی قیمت تقریباً ایک سوپندرہ ارب روپیہ ہے۔ جس کی زکوٰۃ دو ارب ساڑھے ستاسی کروڑ روپیہ ہوتی ہے۔ غذائی اجناس کی پیداوار ساڑھے پانچ کروڑ ٹن ہے، جس کواگر نصف بارانی اور نصف غیر بارانی مان لیا جائے تو اس کو زکوٰۃ اکتالیس لاھ پچیس ہزار ٹن ہوگی۔ جس کی قیمت اگر دس روپئے من رکھی جائے تو ایک ارب پندرہ کروڑ پچاس لاکھ روپے ہوگی۔ یہاں ہر سال شادی کے موقع پر اور اس سے پہلے لڑکیوں کو آراستہ کرنے کے لئے ایک ارب پچاس کروڑ روپیہ کا سوانا اور چاندی زیورات میں منتقل کیا جاتا ہے، اگر ہندوستان میں موجود تمام زیورات کا اندازہ پچاس ارب روپیہ کیا جائے تو ان کی سالانہ زکوٰۃ ایک ارب پچیس کروڑ ہوگی۔
اس طرح صرف تین مد کی زکوٰۃ سالانہ پانچ ارب اٹھائیں کروڑ پچاس لاکھ ہوتی ہے۔ اور اگر بقیہ مدوں کی زکوٰۃ بھی ایک ارب روپیہ فرض کر لی جائے جو درحقیقت بہت کم اندازہ ہے، تو صرف زکوٰۃ کی مد سے ساڑھے تین کروڑ افراد کے گزارہ کے لئے پندرہ روپیہ ماہوار دیے جا سکتے ہیں۔ یعنی اس طرح کے چار افراد کے خاندان کے لیے ساٹھ روپے۔۱؎
اس طرح زکوٰۃ کا یہ قانون ایک طرف دولت کے سمٹائو کو روکتا ہے اور دوسری طرف ملک کے ان لوگوں کے لیے نہایت وسیع پیمانہ پر انشورس کا انتظام کرتا ہے جو ازکار رفتہ ہوگئے ہوں۔ یا کسی وجہ سے معاشی دوڑ میں اپنا حصہ پانے میں ناکام رہے ہوں۔
اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ضرورت مندوں کے لیے اس انتظام کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ زکوٰۃ کی مد سے جتنا روپیہ وصول ہو اس کو متعین اشخاص کے درمیان
۱؎ یہ مضمون۱۹۵۸ میں لکھا گیا تھا۔
تقسیم کر دیا جائے۔ بلکہ اسلامی حکومت قانونی طور پر اس بات کی ذمہ دار ہے کہ اس کی مملکت میں جو شخص بھی ناگزیر انسانی ضروریات سے محروم ہو وہ اس کی ضرورت پوری کرے اور اس فنڈ کی فراہمی میں زکوٰۃ کا قانون سب سے زیادہ اہم حصہ ادا کرتا ہے۔ اگر زکوٰۃ کی مد سے وصول شدہ رقم اس کے لیے کافی نہ ہو تو اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ دوسری مدوں سے اس کمی کو پورا کرے۔
آخری سوال بے روزگاری سے متعلق ہے، جس نے صنعتی انقلاب کے بعد ساری دنیا میں ایک عظیم مسئلہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ پہلے یہ تھا کہ ایک کروڑ آدمی جس کپڑے کو پہنتے تھے، اس کو کئی لاکھ آدمی بنتے تھے مگر آج ایک کروڑ آدمی کی ضرورت کے کپڑے صرف چند ہزار آدمی تیار کرل یتے ہیں۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار کروڑوں آدمی اس عجیب و غریب صورتِ حال سے دو چار ہیں کہ وہ کام کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں کام نہیں ملتا۔ مشینوں نے ان کے اپنے کرگھے اور بھٹیاں ختم کر دی ہیں، اور اب وہ کام حاصل کرنے کے لیے جس کارخانہ کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں۔ کلوں کی گڑگڑاہٹ دور ہی سے انہیں بتا دیتی ہے کہ مشینی دیو کی خدمت گزاری نے اب انسانی محنت کی ضرورت باقی رہنے نہیں دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ انسان نے جو مشینیں ایجاد کی ہیں کیا یہ اس کی غلطی تھی اور اس کو دوبارہ پتھر کے زمانہ کی طرف واپس جانا چاہئے۔ یہ وقت کا اہم ترین سوال ہے جس کا کوئی حل ابھی تک دنیا دریافت نہیں کر سکی ہے۔ ہندوستان میں اس مسئلہ کا یہ سوچا جا رہا ہے کہ گھریلو صنعتوں کو رواج دیا جائے۔ مگر موجودہ صورتِ حال میں بڑے بڑے کارخانوں کے ساتھ گھریلو صنعتوں کی بات بالکل بے معنی ہے۔ بڑے کارخانوں میں جو چیزیں یقینا مشینوں سے بنی ہوئی چیزوں کے مقابلہ میں گھٹیاں ہوں گی اور مہنگی بھی پڑیں گی۔ پھر کون انہیں خرید گا۔
ہندوستان میں جو گھریلو صنعتیں ابھی تک زندہ ہیں ان کی زندگی صرف اس لیے ہے کہ ابھی تک
مشینیں ان کے حدود میں داخل نہیں ہوئی ہیں اور ان کو وہ مقابلہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا ہے جس سے شکست کھا کر دستکاریاں ختم ہو چکی ہیں۔ اس وقت صرف ایک ہی گھریلو صنعت ہے جو بھاری مشینوں کی موجودگی میں کسی قدر کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے اور وہ چرخے کی صنعت ہے۔ مگر اس کی کامیابی کی وجہ دوسری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ کھادی کے بنے ہوئے کپڑے مل کے کپڑوں کے مقابلہ میں مہنگے پڑتے ہیں۔ مگر ان کو سیاسی پارٹیوں کے افراد محض اس لیے خرید کر پہنتے ہیں کہ وہ ان کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ عام لوگ اسے بہت کم خریدتے ہیں۔ اگر کھادی کی یہ حیثیت ختم ہو جائے تو وہ ملوں کے مقابلہ میں ایک دن بھی نہ چل سکے گی۔
ہمارے نزدیک بے روزگاری پیدا ہونے کا اصل سبب یہ ہے کہ موجودہ معاشی نظام نے عوام کو قوت خریداری سے محروم کر دیا ہے۔ روزگار حقیقت میں ان چیزوں کی فراہمی میں لگنے کا نام ہے جن کی انسان کو ضرورت ہے۔ جب ایک شخص ضرورت کا کوئی سامان تیار کرتا ہے یا اس کی تقسیم کے کسی شعبہ میں کام کرتا ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ سوسائٹی کی ایک ضرورت پوری کر رہا ہے، بلکہ ٹھیک اسی کے ساتھ وہ خودباکار ہو کر اپنے اور گھر والوں کے لیے روزی بھی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح روزگار کا سوال حقیقت میں لین دین کا سوال بن جاتا ہے۔
کسی ملک میں اگر بے روزگار لوگ موجود ہوں تو ان کی بے کاری کا سبب اور علاج معلوم کرنے کے لیے یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہاں پیدائش اور موت کی شرح کیا ہے تاکہ اگر پیدا ہونے والوں کی تعداد مرنے والوں سے زیادہ ہو تو پیدائش کی شرح گھٹا کر موت کی شرح بڑھا دی جائے۔ بے روزگاری کا علاج معلوم کرنے کے لیے اصل میں جو چیز دیکھنے کی ہے وہ یہ کہ ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں یا نہیں جن کو ضروریات زندگی نہ پہنچ رہی ہوں۔
اگر ایسے لوگ موجود ہوں اور ملک میں ایسے وسائل بھی موجود ہوں جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو بے روزگار ہونے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت مند اشخاص کی موجودگی دوسرے لفظوں میں خریداروں کی موجودگی ہے۔ جو بے روزگاری کی اصل بنیاد ہے۔ ایسی صورت میں کرنے کا کام یہ نہیں ہے کہ برتھ کنٹرول کی اسکیم چلای جائے بلکہ اصل کام یہ ہے کہ ایسی
تدبیریں سوچی جائیں جن سے ضرورت مند لوگ اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے قابل ہو جائیں۔ جب خریداری بڑھے گی تو چیزوں کی مانگ پیدا ہوگی اور چیزوں کی مانگ پیدا ہوگی تو نئے نئے ادارے اور نئے کارخانے کھلیں گے جن میں بے روزگار لوگ کھپتے چلے جائیں گے۔
انسان کی ضرورتیں دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم’’کھانا‘‘ کہتے ہیں، اس سلسلہ میں آدمی کو اناج، پھل، ترکاریاں، گوشت، دودھ اور شکر وغیرہ کی ضرورت ہے۔ دوسری ضرورت وہ ہے جو متمدن زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے۔ مثلاً کپڑا، جوتا، مکان، گھڑی، قلم، کاغذ، سواریاں اور اسی قسم کی دوسری بہت سی چیزیں۔ قدرت نے ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے زمین کے اندر اور باہر بے شمار قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں۔
جہاں تک اہمیت کا سوال ہے، یہ واقعہ ہے کہ کھانا انسان کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کے بغیر سرے سے زندگی ا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مقدار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دوسری ضروریات کھانے کے مقابل میں بہت زیادہ ہیں۔ کھانے کے سلسلے میں جن چیزوں کی ضرورت ہے اگر ہم چاہیں تو انگلیوں پر ان کی فہرست گن سکتے ہیں۔ مگر متمدن زندگی گزارنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اب اگر آپ دنیا کی حالت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ کھانے کی ضرورت تو آدمی کسی نہ کسی طرح پوری کر رہا ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ سرے سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر دوسری ضروریات سے نوے فیصد آدمی ابھی تک محروم ہیں۔ لوگوں کے پاس اگر روپیہ ہو تو ان کو سیکڑوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ مگر روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ خرید نہیں سکتے۔ اور مجبوراً نہایت مختصر سامان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
مثلاً ہندوستان کو لیجئے۔ یہاں اس وقت تقریباً گیارہ کروڑ خاندان رہتے ہیں جن میں بیشتر نہایت تنگ اور کچے مکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سب لوگ یقینا پختہ مکانوں میں رہنا چاہتے ہیں جن کے لیے کروڑوں کی تعداد میں مکان بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ تعمیر شروع ہو جائے تو بہت
بڑی تعداد میں اینٹ، سیمنٹ، لوہا، لکڑی وغیرہ درکار ہوگا۔ جس کی تعمیر اور فراہمی سے لاکھوں انسان باروزگار ہو سکتے ہیں، مگر یہ کام اس لیے نہیں ہوتا کہ لوگوں کے پاس مکان بنانے کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
کپڑا انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ہندوستان کی تمام ملیں اس وقت جتنا کپڑا تیار کرتی ہیں وہ یہاں کی آبادی میں تقسیم کیا جائے تو ایک شخص کے حصہ میں سالانہ چودہ گز کپڑا آتا ہے۔ اور ملوں کے اندر ملازمت سے جو لوگ روزی حاصل کر رہے ہیں ان کی تعداد دس لاکھ ہے۔ مگر قوت خریداری کی کمی کے باعث موجودہ پیدا وار بھی پوری ہندوستان میں نہیں کھپتی، اور سالانہ ساڑھے تین کروڑ گز کپڑا دوسرے ملکوں میں فروخت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ اگر آپ ضرورت کے لحاظ سے دیکھیں تو ایک اوسط درجہ کے آدمی کو اپنے کپڑے، بستر اور دوسری ضرورتوں کے لیے سال میں پچاس گز کپڑے کی ضرورت ہے۔ اس طرح اگر عوام کی قوت خریداری بڑھ جائے تو موجودہ مقدار کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ کپڑا تیار کرنا پڑے گا۔ جس سے مزدوری، ملازمت اور دکانداری کے ذریعہ بہت سے آدمی باروزگار ہو سکتے ہیں۔
سائیکل موجودہ زمانہ کی سب سے سستی اور کارآمد سواری ہے جس کی ضرورت تقریباً ہر شخص کے لیے ہے۔ ہندوستان میں اس وقت جتنی سائیکلیں بن رہی ہیں ان کی تعداد سالانہ ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔ مگر یہ تعداد بھی یہاں مشکل سے فروخت ہوتی ہے۔ جب کہ ہندوستان کی آبادی۳۶ کروڑ سے زیادہ ہے۔ اور ہر سال۴۵ لاکھ نئے انسان پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہر ضرورت مند شخص خریدنے کے قابل ہو جائے تو کروڑوں کی تعداد میں مزید سائیکلوں کی مانگ پیدا ہو جائے گی۔ جس کی تیاری اور فروخت میں لاکھوں آدمی روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔
سلائی کی مشین ایک ایسی چیز ہے جو ہر گھر میں ہونی چاہئے۔ مگر پہلے پنج سالہ پلان کے خاتمہ پر ہندوستان میں مشینوں کی پیداوار سالانہ صرف۲۴ ہزار ہے۔ اور وہ بھی پوری فروخت نہیں ہوتی۔ اگر لوگوں کے پاس پیسے ہوں تو اس کے بنانے اور بیچنے کے لئے سیکڑوں ہزاروں نئی نئی دکانیں اور کارخانے کھل جائیں گے جن سے بے شمار لوگ اپنی روزی حاصل کر سکتے ہیں۔
دوا علاج ہر شخص کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر چھ ہزار تین
سو آدمی پر ایک ڈاکٹر ہے، ساٹھ ہزار عورتوں کے درمیان صرف ایکدائی اور ۴۳ ہزار کے درمیان صرف ایک نرس ہے۔ دانت کے ڈاکٹر اور بھی کم ہیں۔ جن کا اوسط تین لاکھ اشخاص کے درمیان ایک ہے۔ دوا بنانے والوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ چالیس لاکھ آبادی کے درمیان ان کی تعداد صرف ا یک ہوتی ہے۔ ایسا محض اس لیے ہے کہ لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹر کی فیس اور دوا کی قیمت دے سکیں۔ اگر لوگوں کے پاس پیسے ہو جائیں تو بہت بڑی تعداد میں دوائوں اور ڈاکٹروں کی مانگ پیدا ہو جائے گی جس میں بے شمار آدمی باروزگار ہو سکتے ہیں۔
ہندوستان میں اکیس عدد کاغذ بنانے کے کارخان ہیں جن میں۲۶ ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ اور سالانہ دو لاکھ ستاسی ہزار ایک سو دس ٹن کاغذ تیار ہوتا ہے۔ یہ مقدار اگر ملک کی پوری آبادی پر تقسیم کی جائے تو ایک شخص کے حصہ میں سال بھر میں صرف دو پونڈ کاغذ آتا ہے۔ حالانکہ اگر تعلیم عام ہو جائے اور لوگوں کے پاس اتنا وقت اور پیسہ ہو کہ وہ اپنے روزمرہ کے پروگرام میں پڑھنے لکھنے کو بھی جگہ دے سکیں تو اخبار، رسالے، کتابیں، خط و کتابت اور دوسری گھریلو ضروریات کے لئے ایک آدمی کو ہر روز دو پونڈ کاغذ کی ضرورت ہے۔ جس کو پورا کرنے لئے ہر شہر میں ایک مل قائم کرنی ہوگی۔ اور لاکھوں آدمیوں کے لئے روزگار فراہم ہو جائے گا۔
اسی طرح ضروریات زندگی سے متعلق بے شمار چیزیں ہیں جن کو ہر شخص حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور ایک شخص کا اپنی ضروریات پوری کرنا دوسرے کو باروزگار بنانا ہے۔ مگر نہ اس کی ضرورت پری ہوتی، اور نہ دوسرے کو روزگار ملتا۔
ضرورت کے یہ سامان جن خام اشیاء سے بنائے جاتے ہیں وہ بہت بڑی تعداد میں ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ پٹرولیم کے علاوہ تقریباً وہ تمام معدنیات یہاں بافراط پائی جاتی ہیں۔ جن کی بنیادی صنعتوں کو ضرورت ہے۔ اور جو نباتاتی چیزیں ہیں ان کو اگانے کے لئے بھی ہمارے پاس لاکھوں ایکڑ زمین بے کار پڑی ہوئی ہے۔ مگر ہم ان سے کام نہیں لے سکتے۔
اندازہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں بیس ہزار ملین ٹن قابل استعمال کوئلہ ابھی تک زمین کے نیچے دبا پڑا ہے۔ کچے لوہے کے عظیم الشان ذخیرے موجود ہیں ن میں تخمیناً دس ہزار ملین ٹن سے زیادہ عمدہ قسم
کا لوہا ہوگا۔ مینگینز(Manganese) ایک اہم دھات ہے۔ جو لوہے اور فولاد کی صنعتوں کے لئے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ پگھلی ہوئی دھات کو صاف کرنے کے کام آتی ہے۔ شیشہ سازی اور کیمیاوی صنعتوں میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ نیز اس سے بیٹری کے خشک سل(Cells) تیار کئے جاتے ہیں۔ روس کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں اس دھات کے اتنے اہم ذخیرے نہیں پائے جاتے جیسے کہ ہندوستان میں اندازہ کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ درجہ کا مینگنیز پندرہ اور بیس ملین ٹن کے درمیان ہے اور گھٹیا قسم کا اس سے تین گنا باکسائٹ(Bauxite) خام المونیم میں استعمال ہونے والی ایک خاص دھات ہے۔ یہ کھرچنے والے آلے اور آگ کا اثر قبول نہ کرنے والی اینٹوں کی تیاری میں بھی کام آتا ہے، جس سے لوہا پگھلانے کی بھٹیاں بنتی ہیں۔
ریاست مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش اور بہار میں اس کے اہم ترین ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ تخمینے کے مطابق ہمارے پاس کل ڈھائی سوملین ٹن باکسائٹ ہے جس میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ ٹن اعلیٰ قسم کا ہے۔ اسی طرح ہمارے پہاڑی علاقوں میں تانبہ، سیسہ، زنک اور ٹن کے ذخیرے موجود ہیں۔ میگنی سائٹ(Magnesite) ابرک، کھریا مٹی اور گندھک وغیرہ ضرورت کی تمام چیزیں کھود کر نکالی جا سکتی ہیں۔ مگر یہ سارے خزانے ہمارے قدموں کے نیچے دفن پڑے ہیں۔ اور اس کے اوپر ہم اس حال میں زندگی گزار رہے ہیں کہ ہمارے پاس نہ رہنے کے لئے مکان ہے نہ پہننے کے لئے کپڑا، نہ ضرورت کے دوسرے سامان۔۱
اوپر جو تفصیلات پیش کی گئی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ افلاس اور بے روزگاری کا سوال درحقیقت ایک مصنوعی سوال ہے۔ اور صرف غلط معاشی انتظام کی وجہ سے پیدا ہا ہے۔ اس وسیع سرزمین پر وہ سب کچھ موجود ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ وہ مواقع بھی موجود ہیں جس میں لگ کر آدمی اپنے لیے روزگار فراہم کر سکتا ہے۔ اور وہ امکانات بھی پوری طرح موجود ہیں جن کے بروئے کار آنے سے ہر طرف سرسبزی اور خوش حالی پھیل جائے گی۔ مگر سارا سوال یہاں آ کر رک گیا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ اور پیسہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا بہائو تمام تر اوپر کے طبقوں اور سرمایہ داروں
کی طرف ہوگیا ہے۔ بیشتر لوگوں کا یہ حال ہے کہ ان کے پاس ناگزیر ضروریات خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں اور تھوڑے سے لوگوں کا یہ حال ہے کہ ان کے پاس ہر طرف سے کھینچ کھینچ کر اتنی دولت جمع ہو رہی ہے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دولت کو کہاں خرچ کریں۔ کچھ لوگوں کو یہ مواقع حاصل ہیں کہ صرف ایک مرتبہ کی ہاتھ کی صفائی سے وہ دور دور کروڑ روپیہ حاصل کر لیتے ہیں۔۲؎ اور کچھ لوگ چند روپیہ ماہوار کی ملازمت کے لیے مہینوں چکر لگاتے رہتے ہیں اور کامیابی نہیں ہوتی۔
______________________________________________________________
۱؎ اوپر کی معلومات پلاننگ کمیشن کے پہلے پنج سالہ پلان سے لی گئی ہیں۔
۲؎ یہاں اس مشہور واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں سیٹھ رام کرشن ڈالمیا نے بھارت انشورنس کمپنی کے سرکاری تمسکات سے دو کروڑ۲۲ لاکھ روپئے خردبرد کے ذریعہ حاصل کر لیے اور اسکو سٹہ بازی میں خرچ کر دیا، جس کے بعد وزارت مالیات کے ڈپٹی سیکرٹری مسڑکول کی اطلاع پر حکومت ہند کی اسپیشل پولس سٹبلشمنٹ نے ۲۵ستمبر۱۹۵۵ء کو انہیں نئی ہلی میں ان کے مکان میں گرفتار کرلیا تھا۔
اس کا علاج یہی ہے کہ دولت کی گردش کو عام کیا جائے، جس کے طریقے ہم نہایت تفصیل کے ساتھ اوپر بیان کر چکے ہیں۔ اگر ملازمین کی تنخواہوں کے اس فرق کو مٹا دیا جائے کہ کچھ لوگوں کو اتنا زیادہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس کو تجوریوں میں رکھنے کے سوا کوئی مصرف نہیں پاتے۔ اور کچھ لوگوں کو اتنا کم ملتا ہے کہ ان کی اور ان کے گھر والوں کی ابتدائی ضروریات بھ پوری نہیں ہوتیں۔ سود اور جوے کی تمام شکلوں کو قانوناً بند کر دیا جائے جس نے دولت کے بہائو کو عوام سے خواص کی طرف کر دیا ہے۔ ذخیرہ اندوزی کو قابل دست اندازی پولس جرم قرار دیا جائے جو درحقیقت ایک مہذب ڈاکہ ہے۔ تجارت کی ان تمام شکلوں کو بالکل مٹا دیا جائے جن میں چند چالاک لوگ پر فریب تماشے دکھا کر یا کسی چیز کا چسکا ڈال کر عوام کو لوٹتے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد سوشل انشورنس کا ایک ہمہ گیر انتظام قائم کیا جائے جس کے تحت ہر اس شخص کو لازمی امداد کی جائے جو کسی وجہ سے قوت خرید سے محروم ہوگیا ہو۔ اس طرح معاشیات کی گاڑی ایک مرتبہ چلا دی جائے جس کے متعلق ہم تفصیل سے اوپر لکھ چکے ہیں۔
تو ہر طرف خوش حالی پھوٹ پڑے گی اور کوئی شخص بھی زمین پر محتاج اور بے روزگار باقی نہیں رہے گا۔
میرا جواب یہ ہے کہ مشینوں کی ایجاد نے آدمیوں کی ضرورت ختم نہیں کی ہے۔ نہ آئندہ کبھی ایسا ہونے کی امید ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ صرف یہ کہ محنت کے بڑے بڑے کام جو پہلے بہت سے آدمی مل کر زیادہ وقت میں کیا کرتے تھے۔ اس کو مشینیں کم وقت میں انجام دینے لگیں۔ مگر مشینوں کی رہنمائی اور دیکھ بھال کے لیے اب بھی انسانوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں ہے کہ مشینوں کی ایجاد کے بعد انسانوں کے لیے کرنے کا کوئی کام باقی نہیں رہا۔ بلکہ سوال صرف یہ ہے کہ مشینوں پر کام کرنے کے لیے کتنے آدمی لگائے جائیں۔
اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے کہ وہ تمام لوگ کام پر لگائے جائیں جن کے روز گار کو کوئی مشین متاثر کر رہی ہو۔ مزدور ہو یا کارخانہ دار سب کے لیے آمدنی کا ذریعہ وہ باہمی لین دین ہے جس کے تحت ایک آدمی ضرورت کا کوئی سامان تیار کرکے بیچتا ہے اور دوسرا آدمی اپنی ضرورت کے لیے اسے خریدتا ہے۔ ایک بستی جہاں کسی صنعت سے ایک ہزار آدمی روزی کما رہے تھے اس کے معنی درحقیقت یہ تھے کہ بستی کے اندر اس قسم کے سامانے کی جتنی کھپت ہے وہ ایک ہزار انسانوں کی کفالت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ پھر یہی کام جب مشینوں مدد سے لیا جائے گا تو بستی کی خریداری کی صلاحیت جو ایک ہزار انسانوں کے درمیان پھیلی ہوئی تھی کیوں صرف چند آدمیوں کے حوالہ کر دی جائے۔
جس طرح زراعت میں کھیت سے غلہ اگتا ہے اسی طرح عوام صنعت و تجارت کی کھیتیاں ہیں جو مصنوعات کو خرید کر اس کو منافع کی شکل دیتے ہیں۔ اگر یہ عوام نہ ہوں تو کوئی کارخانہ دار پہاڑوں اورجنگلوں میں اپنی مصنوعات کی نکاسی نہیں کر سکتا۔ کیا سرمایہ دار کو محض سرمایہ کا مالک ہونے کی بنا پر یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ انہیں روزگار سے محروم کرکے صرف اپنا گاہک بنا لے اور خریداری کی وہ صلاحیت جو ہزاروں آدمیوں کے درمیان گرش کر رہی تھی اور سب کی خوش حالی کا سبب بنی ہوئی تھی اس پر اجارہ داری حاصل کرکے سارا منافع صرف اپنے لیے سمیٹ لے۔
یہی وجہ ہے جس کی بنا پر میں کہتا ہوں کہ کارخانہ کے اندر مزدوروں کی تعداد کا تعین کارخانہ دار کا کام نہیں ہے، یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ دیکھے کہ مشین کتنے آدمیوں کو متاثر کر رہی ہیں اور پھر مشینیں لگانے والوں کو بذریعہ قانون مجبور کرے کہ وہ اس پوری تعداد کو اپنے کارخانوں کے اندر کھپائیں جن
کے روزگار کو چھین کر وہ انہیں صرف خریدار کی صورت میں باقی رکھنا چاہتے تھے۔ اور اس کی عملی شکل یہ ہے کہ اوقات کار میں اس کے بقدر کمی کر دی جائے جتنے آدمیوں کو اپنی چھنی ہوئی روزی کو واپس لینے کے لیے کارخانہ میں ملازمت کرنے کی ضرورت ہو۔
انیسویں صدی کے آخر تک ہندوستان میں مزدوروں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا۔ پہلا فیکٹری ایکٹ۱۸۸۱ء میں پاس ہوا۔ اس وقت کام کے اوقات مقرر نہیں کئے گئے تھے۔کارخانوں کے مالک سولہ سولہ گھنٹے تک مزدوروں کو مصروف رکھتے تھے اور جواجرت چاہتے تھے دیتے تھے۔۱۸۹۰ء میں ایک فیکٹری کمیشن مقرر کیا گیا جس کی سفارشات کے مطابق۱۸۹۱ء میں فری سمتھ کمیٹی زوروں کے حالات کی جانچ کے لئے مقرر کی گئی۔ جس نے بڑے بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے کیا کہ مزدوروں سے بارہ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں لینا چاہیے۔ پھر۱۹۲۲ء میں یہ اوقات دس گھنٹے کر دیئے گئے۔ آزادی کے بعد کانگریسی حکومت نے پچھلے قوانین میں ترمیم اور اضافے کرکے ۱۹۴۸ء میں ایک نیا ایکٹ(Factories Act 1949) منظور کیا جس کی روسے کام کرنے کے اوقات۹ گھنٹے کر دیے گئے۱؎ اور اب بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن(ILO) کے فیصلہ کے مطابق مزدوروں اور ملازموں سے آٹھ گھنٹہ سے زیادہ دیر تک کام نہیں لیا جا سکتا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کام کے اوقات کا تعین ایک اضافی چیز ہے۔ جو مختلف حالات میں بدلتا رہا ہے۔ اب اگر موجودہ حالات کے تحت ہم اس کی ضرورت سمجھیں کہ یہ اوقات آٹھ گھنٹہ کے بجائے چار گھنٹہ کے بجائے چار گھنٹہ ہونے چاہئیں تو ایسا کرنے میں آخر کی قباحت ہے۔
مشینی انقلاب نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے اس کی نوعیت دراصل یہ نہیں ہے کہ اس نے آدمی کا کام لوہے کی کلوں کے سپرد کر دیا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لین دین کا وہ ذریعہ جس سے روپیہ عام آبادی کے درمیان کے درمیان گردش کرتا تھا، اس پر مل مالکوں اور ان کے ڈسٹری بیوٹروں کی اجارہ داری قائم کر دی۔ مل مالک تو سب کو اپنا خریدار بنا کر ان کی جیبیں خالی کر رہا ہے۔ مگر مل مالک کے پاس جو سرمایہ اکٹھا ہوتا ہے وہ پھر عوام کا رخ نہیں کرتا۔ کیونکہ عوام کو اس میں سے اپنا حصہ لینے کا ذریعہ ملازمت اور مزدوری تھی اور وہ کام اس وقت چند آدمیوں کے ذریعہ بڑی بڑی مشینیں انجام دیتی ہیں۔ یہی پیچیدگی آگے چل کر قوت خریداری میں کمی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور بالآخر خود سرمایہ دار کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔
ایرک گل(Eric Gill) نے لکھا ہے:
’’ہمیں کارخانوں میں انسانوں کی ضرورت نہیں مشینیں ان سے بہتر ہیں ان کی ایجاد اور استعمال کا سب سے بڑا مقصد انسانی محنت کی بچت ہے۔ لہٰذا ہمی مشینوں کو نہیں انسانوں کو ختم کرنا ہے، مگر وہ انسان جسے ہم دنیا سے مٹا دینا چاہتے ہیں، وہ وہ انسان ہے جو کارخانہ میں کام کرتا ہے۔ نہ کہ محلہ میں بسنے والا انسان۔ محلوں میں رہنے والے انسان ہمارے ساتھی ہیں۔ وہ ہمارے دوست ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارا مال خریدتے ہیں۔ آج کل سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح پیدائش‘‘
____________________________________________________
1- Times of India Year Book 1950.p.98-99
میں انسانی محنت کے دخل کو ختم کیا جائے، اور دوسری طرف صارفین(Consumers) کی تعداد اور ان کی قوت خرید کو بڑھایا جائے۔ یہی ہمارا بنیادی مسئلہ ہے۔ جڑ بھی یہی ہے اور شاخ بھی یہی ہے۔‘‘
سرمایہ داری نظام کے اس تضاد کا حل وہی ہے جسے ہم نے اوپر پیش کیا ہے۔ روزگار بڑھے گا تو لوگوں کی قوت خرید بڑھے گی، اور جب خریدنے کی قوت بڑھے گی تو کارخانوں سے نکلا ہوا مال زیادہ مقدار میں فروخت ہونے لگے لگا۔ اس طرح سرمایہ دار کا کاروبار ترقی کرے گا اور عوام بھی خوش حال ہو جائیں گے۔ دنیا میں ابھی ضرورت کے سامانوں کی بے انتہا کھپت ہے مگر ہمارے کارخانہ اصل ضرورت سے بہت کم مقدار میں جو مال تیار کرتے ہیں وہ بھی فروخت نہیں ہوتا۔ کیونکہ لوگوں کی اکثریت اگرچہ اشیائے صرف کی محتاج ہے، مگر بے روزگار یا نیم بے روزگار ہونے کی وجہ سے اپنے اندر یہ طاقت نہیں رکھتی کہ کارخانے کے تیار شدہ مال کو خرید سکے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر آٹھویں دسویں سال دنیا کے سر پر تجارتی چکر(Trade cycle) کی مصیبت نازل ہو رہی ہے۔ سرمایہ دار مسلسل پیداوار میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ مگر عوام کی قوت خرید میں کمی کی وجہ سے سامان کی نکاسی اس رفتار کے ساتھ نہیں ہوتی جس رفتار سے وہ کارخانوں سے بن کر نکلتا ہے۔
یہاں تک کہ سامانوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے اور کارخانہ دار کے سامنے یہ خوفناک مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اس بھاری مقدار کو کس طرح بازار میں فروخت کرے۔ اس وقت سرمایہ دار کے لیے اس کے سوا کوئی شکل نہیں ہوتی کہ مال کی پیداوار گھٹا دے۔ بڑی تعداد میں کارخانے بند ہونے لگتے ہیں۔ مزدوروں کی اکثریت بے کار ہو جاتی ہے اور منڈیوں کی گرم بازاری اچانک سرد بازاری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ مصیبت صرف کارخانہ داروں تک محدود نہیں رہتی بلکہ تجارتی چکر کے اس گرداب میں پوری سوسائٹی مبتلا ہو جاتی ہے۔
کارلائل نے کہا ہے کہ’’ایک طبقہ اس وجہ سے چیخ رہا ہے کہ اس کی بیس لاکھ قمیصیں بے کار پڑی ہوئی ہیں اور ان کا کوئی گاہک نہیں ملتا۔ اور دوسری طرف بیس لاکھ انسان اس لیے چلا رہے ہیں کہ ان کے پاس تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا نہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ قمیصیں تو صرف بیس لاکھ پڑی ہیں، مگر ان لوگوں کی تعداد بیس کروڑ سے بھی زیادہ ہے جو ان قمیصوں کے ضرورت مند ہیں۔ مگر دام نہ ہونے کی وجہ سے خرید نہیں سکتے اگر ہم دولت کی گردش کو عام کردیں اور زیادہ انسانوں کو روزگار دے کر ان کی قوت خرید بڑھا دیں تو نہ صرف یہ بیس لاکھ قمیصیں ختم ہو جائیں گی بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مزید قمیصیں بنانی پڑیں گی۔ خاندان کے ایک فرد کو روزگار دینا پورے خاندان کو اپنے سامانوں کا خریدار بنانا ہے۔
پلاننگ کمیشن نے ہندوستان کے روزگار کے مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر پیدائش پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کام مہیا کرنا مشکل ہوگا۔ کمیشن کے خیال میں:
’’بھارت میں آبادی کا دبائو اتنا زیادہ ہے کہ پیدائش کی شرح میں کمی کو ایک بہت بڑی ضرورت سمجھنا چاہیے۔‘‘ پنج سالہ پلان ص۱۸
مگر یہ بات صرف حالات کے سطحی مطالعہ کا نتیجہ ہے، ہندوستان میں اگر ہر سال۱۸ لاکھ نوجوان ایسے نکلتے ہیں جن کو روزگار فراہم کرنا ہوتا ہے تو دوسری طرف یہاں کی آبادی میں جو اضافہ ہو رہا ہے، اس کی تعداد۴۵ لاکھ سالانہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کو ہمیں روزگار دینا ہے وہ تو سالانہ ۱۸ لاکھ کے بقدر بڑھ رہے ہیں مگر اشیائے صرف کے خریداروں کی تعداد میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ ۴۵ لاکھ ہے۔ یعنی پہلی تعداد کے مقابلہ میں ڈھائی گنا زیادہ پھر یہ کہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ خاندان کی
پلاننگ کے بغیر روزگار کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا بہت بڑی تعداد میں ایسے انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے جن کے لیے معاشی اور تمدنی ضروریات کے بہت سے سامان درکار ہیں۔ مگر آپ اس کو نہیں دیکھتے آپ کو صرف یہ نظر آتا ہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو روزگار ک طالب ہیں۔ حالانکہ دو آدمی اگر روزگار مانگ رہے ہیں تو پانچ آدمی ایسے ہیں جو اشیائے صرف کے طلب گار ہیں۔ چندآدمیوں کو روزگار دینا دراصل بہت سے لوگوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ کارخانہ کی بنی ہوئی چیزیں خرید سکیں۔ اس میں مل مالک کا اتنا ہی فائدہ ہے جتنا مزدور کا۔
’’اسلام اور سوشلزم كو بيك وقت اختيار كيا جاسكتا هے، ان دونوں ميں كوئي تضاد نهيں‘‘۔ يه ايك سراسر غلط خيال هے جس كي بنياد ايك دوسرے غلط خيال پر قائم هے۔ اس طرح كي بات كهنے والے لوگ سمجھتے هيں كه اسلام ايك مذهبي نظريه هے اور سوشلزم ايك معاشي نظريه۔ دوسرے لظوں ميں اسلام ايك عقيده هے اور سوشلزم ايك سماجي نظام۔ پھر دونوں پرايك ساتھ ايمان لانے ميں كيا حرج هے۔ مگر حقيقت يه هے كه اسلام اور سوشلزم دو الگ الگ نظام هيں جو فلسفه اور عمل دونوں اعتبار سے باهم متصادم هيں۔ زير نظر كتاب اسي كي تفصيل هے۔
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.