زیر نظر کتاب، معروف معنوں میں کوئی کتاب نہیں ہے۔ وہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ماہنامہ الرسالہ میں، پچھلے برسوں میں، امن اور اسلام کے موضوع پر جو مضامین چھپتے رہے ہیں اُن کو اس مجموعہ میں اکھٹاکردیا گیا ہے۔ ان مضامین کا مقصد مشترک طورپر یہ ہے کہ امن اور جنگ کی نسبت سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور اس موضوع پر اسلام کے صحیح تصور کو واضح کیا جائے۔
اسلام مکمل طورپر ایک پُر امن مذہب ہے۔ اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثنا (exception)کی ۔ یہ نادر استثنا ہمیشہ دوسروں کی طرف سے اضطراری طورپر پیش آتا ہے، نہ کہ خود اپنی طرف سے یک طرفہ اقدام کی صورت میں۔
اسلام کا اصل مقصد انسان کی سوچ کو بدلنا ہے۔ انسان کے اندر توحید کی بنیاد پرایک ذہنی انقلاب لانا ہے۔ اس حقیقت کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً:إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ(صحيح البخاري، حديث نمبر
اس حدیث میںقلب سے مراد کیا ہے۔ ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ عقل قلب کے اندر ہے (وَيُسْتَدَلُّ بِهِ عَلَى أَنَّ الْعَقْلَ فِي الْقَلْبِ) فتح الباری،
جلد1، صفحہ
انسان کے اعمال کی درستگی ہمیشہ اُس کی فکر کی درستگی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لیے اسلام میں سارا زور فکر صحیح کو زندہ کرنے پر دیا گیا ہے۔ ایسی حالت میں جنگ اسلام کے ایجابی نقشۂ عمل سے خارج ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر حال میں سارا زور فکر و شعور کی بیداری پر دیا جائے۔ انسانی نفسیات کے مطابق، سوچ سے عمل پیدا ہوتا ہے، مگر عمل سے سوچ نہیں پیدا ہوسکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ اسلام کے نقشۂ اصلاح کو بگاڑنے والی ہے، جنگ اسلام کے نقشۂ اصلاح کو بنانے والی نہیں۔ خواہ اسلام ہو یا غیر اسلام، کسی کے لیے بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ جنگ اور تشدد کے ذریعہ کوئی مثبت فائدہ حاصل کرسکے۔ اس لیے جنگ کو ٹالنے کی تمام کوششوں کے باوجود اگر اضطراری طورپر جنگ کی نوبت آجائے تو اہلِ اسلام کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ جلد سے جلد جنگ کا ماحول ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ امن کے ماحول میں اسلام کا اصل مثبت کام جاری ہوسکے۔
جہاد کیا ہے۔جہاد پر امن جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ آج کل کی زبان میں جہاد کو پیس فل ایکٹوزم (peaceful activism) کہاجا سکتا ہے۔ یعنی پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے کسی اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
جہاد کے لفظی معنٰی کوشش یا جدوجہد کے ہیں۔ قرآن میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ خدا کی کتاب کے ذریعہ ان کے اوپر جہاد کبیر کرو (الفرقان،
تھی جس میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی۔ واپسی کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں (رَجعْنَا من الْجِهَاد الْأَصْغَر إِلَى الْجِهَاد الْأَكْبَر)۔ ديكھيے، البيهقي، الزهد الكبير، حديث نمبر
جہاد تمام تر ایک پر امن عمل کا نام ہے۔ انفرادی اعتبار سے جہاد یہ ہے کہ آدمی نفس کی ترغیبات سے اور ماحول کی ناخوشگواریوں کے باوجود خدا کے پسندیدہ راستہ کو نہ چھوڑے۔ مخالفانہ اسباب کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو حق کی روش پر قائم رکھے۔ اجتماعی اعتبار سے جہاد کو پر امن جدوجہد کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی اسلامی مقصد کے لیے جب کوئی تحریک اٹھائی جائے تو اس کو مجاہدانہ انداز سے آگے بڑھایا جائے نہ کہ متشددانہ انداز سے۔ متشددانہ انداز میں آدمی طاقت پر بھروسہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں مجاہدانہ انداز یہ ہے کہ ترغیب کے فطری طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کیا جائے۔
مجاہدانہ اسلوب میں سب سے زیادہ اعتماد ذہنی بیداری پر کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے اندر صحت مند اسپرٹ جگائی جاتی ہے۔ تعمیری شعبوں میں مثبت استحکام پر ابھارا جاتا ہے۔ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کے اندر اعلیٰ کردار پیدا ہو۔ لوگ دوسروں کے لیے نفع بخش بنیں۔ لوگوں کے اندر دوسروں کے لیے ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہو۔ جہاد کا ہتھیار محبت ہے، نہ کہ نفرت اور تشدد۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاد کو قتال کے ہم معنٰی سمجھناجہاد کی تصغیر ہے۔ قتال ایک بے حد محدود اور وقتی عمل ہے۔ اس کے برعکس جہاد ایک مسلسل اور ہمہ گیر عمل ہے۔ جہاد اسلام کا ایک عظیم ترین عمل ہے جو انسان کی زندگی میں ہردن اور ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔ وہ کسی بھی حال میں موقوف نہیں ہوتا۔
آدمی کے اندر جب سچائی کی تلاش کا جذبہ اُبھرتا ہے تو وہ ایک فکری جہاد میںمشغول ہوجاتا ہے۔ پھر جب اُس کو سچائی کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کی زندگی میں جہاد مزید اضافہ کے ساتھ جاری ہوجاتا ہے۔ اب انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ نفس اور شیطان اور ماحول کے مقابلہ میں جدوجہد
کرتے ہوئے اپنے ایمان کو مسلسل بڑھائے۔ وہ اپنے اندر مثبت ذہنی عمل کو اس طرح جاری رکھے کہ اُس کی معرفت ہر لمحہ ترقی کرتی رہے۔ یہاں تک کہ وہ مقامِ اعلیٰ تک پہنچ جائے۔
حدیث میں آیا ہے الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ(سنن ابن ماجه، حديث نمبر
نئی دہلی،
امریکن یونیورسٹی (واشنگٹن) میںایک سہ روزہ سمپوزیم فروری 1998ء میں ہوا۔ اس کے اجلاس 6فروری میں راقم الحروف نے اسلام اور امن پر ایک تقریر کی۔ اس تقریر کا ایک حصہ یہ تھا
It is no exaggeration to say that Islam and violence are contradictory to each other. The concept of Islamic violence is so obviously unfounded that prima facie it stands rejected. The fact that violence is not sustainable in the present world is enough to believe that violence as a principle is quite alien to the scheme of things in Islam. Islam claims to be an eternal religion and an eternal religion cannot afford a principle in its scheme which was not sustainable in the latter periods of human history. Any attempt to bracket violence with Islam amounts to making the very eternity of Islamic religion doubtful. (Al-Risala, August 1998, p. 9)
اسلامک ٹیررزم اسی طرح ایک متضاد اصطلاح ہے جس طرح پُر امن دہشت گردی (pacifistic terrorism) ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات امن کے اصول پر مبنی ہیں، خواہ براہ راست طورپر یا بالواسطہ طور پر۔
خود لفظ اسلام میں امن کا مفہوم شامل ہے۔ اسلام کا روٹ ورڈ سِلم ہے۔ سِلم کے معنی امن کے ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام کا مطلب ہے، امن کا مذہب۔ حدیث میں آیا ہے کہ تین چیزیں ایمان کا جزء ہیں (ثَلَاثٌ مِنَ الْإِيمَان)۔ ان میں سے ایک یہ ہے وَبَذْلُ السَّلاَمِ لِلْعَالَمِ(مسند البزار، حدیث نمبر 1396)یعنی دنیا میں امن پھیلانا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن و سلامتی ایمان کا جزء ہے۔ اسی طرح حدیث میں ہے:الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ
النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِم (سنن النسائی، حدیث نمبر 4995)۔ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جس کے ہاتھ سے لوگمحفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے جان و مال کے معاملے میں امن سے رہیں۔
قرآن میں اللہ کے جو نام (صفت) بتائے گئے ہیں ان میں سے ایک السلام (
قرآن میں ارشاد ہوا ہے:وَالصُّلْحُ خَيْرٌ (
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ بنت ابی بکر اجتماعی معاملات میں آپ کی جنرل پالیسی کو اس طرح بیان کرتی ہیں:مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا (صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب پُرامن عمل(peaceful activism) دستیاب ہو تو پُر تَشدد ایکٹوزم (violent activism) کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ پُر امن عمل کی حیثیت مقابلۃ ً آسان انتخاب (easier option) کی ہے اور پُر تشدد عمل کی حیثیت مقابلۃً مشکل انتخاب (harder option) کی۔
مثلاً کسی تحریک کے پہلے ہی مرحلہ میں اسٹیٹس کو کو بدلنے کی کوشش کرنا مشکل انتخاب ہے اور اسٹیٹس کو کو بدلے بغیر حاصل شدہ دائرہ میں اپنا عمل جاری کرنا آسان انتخاب ۔ نزاع کے موقع پر لڑجانا مشکل انتخاب ہے اور نزاع کے موقع پر صلح کرلینا آسان انتخاب۔ حریف کے مقابلہ میں متشددانہ طریقِ کار کو اپنانا مشکل انتخاب ہے اور حریف کے مقابلہ میں پر امن طریقِ کار کو اپنانا آسان انتخاب۔ جارحیت کا جواب جارحیت سے دینا مشکل انتخاب ہے اور جارحیت کا جوا ب صبر و تحمل سے دینا آسان انتخاب۔ مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں ہنگامہ آرائی کا انداز اختیار کرنا مشکل انتخاب ہے اور مسئلہ پیدا ہونے کی صورت میں خاموش تدبیر اختیار کرنا آسان انتخاب۔ اصلاح کے لیے ریڈیکل طریقہ اختیار کرنا مشکل انتخاب ہے اور اصلاح کے لیے تدریجی طریقہ اختیار کرنا آسان انتخاب۔نتیجہ کی پروا کیے بغیر پر جوش اقدام کرنا مشکل انتخاب ہے اور نتیجہ کو سامنے رکھتے ہوئے حکیمانہ اقدام کرنا آسان انتخاب۔ حکمرانوں سے محاذ آرائی کرنا مشکل انتخاب ہے اور حکمرانوں سے اعراض کرتے ہوئے تعلیم و تربیت کے دائرہ میں اپنے عمل کا آغاز کرنا آسان انتخاب۔ ان چند مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ حدیث کے مطابق، اختیار ایسر کیا ہے اور اختیار اعسر کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا (exception) کی۔ اسلام کی تمام تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی عملی زندگی اس کی تصدیق کرتی ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر 610ء میں مکہ میں پہلی وحی اتری۔ اللہ نے آپ کو جس مشن پر مامور کیا وہ توحید کا مشن تھا۔ اس مشن کی نسبت سے مکہ میں ایک بہت بڑا عملی مسئلہ موجود تھا۔ وہ یہ کہ کعبہ جس کو اللہ کے پیغمبر ابراہیم اور اسماعیل نے توحید کے گھر کی حیثیت سے بنایا تھا اس کو بعد کے زمانہ میں عملاً شرک کا مرکز بنا دیا گیا ۔وہاں 360 بت رکھ دئے گئے۔
اس صورت حال کا بظاہر یہ تقاضا تھا کہ قرآن میں پہلا حکم اس مفہوم کا اترے کہ:طَھِّر الکعبۃ
من الأصنام (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔ مگر اس مسئلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس وقت قرآن میں پہلا حکم یہ اترا کہ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (
پیغمبر اسلام نے ایسا اس لیے کیا تا کہ مشرکین سے جنگ اور ٹکراؤ کو اوائڈ(avoid)کیاجا سکے اور امن کی حالت برقرار رہے۔ آپ کی پوری زندگی اسی امن پسندانہ پالیسی کی مثال تھی— مکہ سے ہجرت کے موقع پر مشرکین جنگ پر آمادہ تھے مگر آپ خاموشی کے ساتھ مکہ سے نکل کر مدینہ چلے گئے۔ حدیبیہ ٹریٹی (
اسلام توحید کا مشن ہے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو ایک اللہ کا پرستار بنایا جائے۔ لوگوں کے دل و دماغ کو اس طرح بدلا جائے کہ وہ صرف ایک اللہ سے محبت کریں (البقرہ،
اس قسم کا دعوتی مشن جنگ اور متشددانہ ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ جنگ اور تشدد کے حالات پیدا ہونے کے بعد وہ معتدل فضا ختم ہو جاتی ہے جب کہ ذہنی اصلاح اور روحانی انقلاب کی کوئی تحریک مؤثر طورپر چلائی جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ پر امن حالات ہمیشہ اسلام کے لیے
موافق فضا بناتے ہیں اور پُر تشدد حالات ہمیشہ اسلام کے لیے مخالف فضا وجود میں لاتے ہیں۔
اسلام میں جنگ عوام کا کام نہیں ہے بلکہ وہ باضابطہ طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ یعنی جس طرح عوام وقت آنے پر بطور خود نماز پڑھ لیـتے ہیں اسی طرح وہ بطور خود جنگ یا قتال نہیں کر سکتے۔ جنگ یا قتال کا اعلان صرف ایک قائم شدہ ریاست کر سکتی ہے۔ حکومت اگر پکارے تو عوام اس کے معاون بن کر اس کے تحت شریک ہوسکتے ہیں مگر خود سے وہ ہر گز کوئی جنگ نہیں چھیڑ سکتے۔
قرآن میں ایک عمومی حکم کے طورپر یہ اصول بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی خوف (یا خارجی حملہ) کی صورت پیدا ہو تو عوام کو خود سے کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو صرف یہ کرنا چاہیے کہ وہ اس معاملہ کو اولو الأمر (النساء،
یہی بات حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے:إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ (صحيح البخاري، حديث نمبر 2957)۔ یعنی حکمراں ڈھال ہے، قتال اس کی ماتحتی میں کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعہ بچاؤ حاصل کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قتال کا اعلان یا اس کی منصوبہ بندی مکمل طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے۔ عامۃ المسلمین اس کی ماتحتی میں رہ کر اور اس کے زیر حکم حسب ضرورت اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، اس سے آزاد ہو کر نہیں۔
اس اسلامی اصول سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں اس غیر حکومتی جنگ کی کوئی گنجائش نہیں جس کو عام طورپر گوریلا وار(Gorilla War) کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ گوریلا وار عوام کی آزاد تنظیموں کی طرف سے لڑی جاتی ہے، نہ کہ حکومتی ادارہ کی طرف سے۔ خود حکومتی ادارہ کے لیے ضروری ہے کہ اگر وہ کسی ملک یا قوم کے خلاف دفاعی جنگ لڑنا چاہتی ہے تو قرآن کے مطابق، پہلے وہ اس کا باضابطہ اعلان کرے۔ اور اگر اس کے خلاف کوئی معاہدہ ہے تو اس معاہدہ کو وہ منسوخ کردے (الانفال،
اسلام میں نہیں۔ اس اصول کے مطابق، پراکسی وار (proxy war) اسلام میں جائز نہیں۔
اسلام کے تمام اعمال کی کچھ شرائط ہیں۔ اسی طرح اسلام میں جنگ کے لیے بھی کچھ لازمی شرائط ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جنگ خواہ کوئی باقاعدہ مسلم حکومت کرے ، اور خواہ وہ دفاعی ہو، تب بھی اس جنگ کا نشانہ جارح لوگوں تک محدود ہوگا۔ یعنی اس جنگ میںمسلمانوں کی فوج صرف مقاتلین (combatants) پر وار کر سکتی ہے، غیر مقاتلین(non combatants)کو اپنے حملہ کا نشانہ بنانا پھر بھی جائز نہ ہوگا۔
چنانچہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جنگ نہ کرو جنہوں نے تم سے جنگ نہیں کی۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تم حسن سلوک اور انصاف کا معاملہ کرو۔ البتہ جن لوگوں نے تم سے جنگ کی ان سے جنگ کرنے کے لیے تم آزاد ہو۔ ان کے ساتھ تمہارا معاملہ دوستی کا معاملہ نہیں (
اگر بالفرض کسی قوم کے ساتھ مسلم حکومت کی جنگ چھڑ جائے اور یہ جنگ اسلامی شرائط کے مطابق ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ وہ عام شہریوں کے خلاف اس قسم کی تخریبی کارروائی کریں جیسی تخریبی کارروائی مثال کے طورپر ،
اسی طرح جائز اسلامی جنگ میں بھی مسلمانوں کو اجازت نہیں کہ وہ فریقِ ثانی پر خود کش بمباری کریں۔ یعنی بالقصد اپنے جسم پر بم باندھ کر فریقِ ثانی کی فوجی یا شہری آبادی پر ٹوٹ پڑیں اور جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کرکے فریقِ ثانی کو ہلاک کریں۔ اس قسم کا معاملہ ہر گز شہادت یا استشہاد نہیں۔ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں ہے۔
اللہ نے اپنی حکمتِ امتحان کے تحت دنیا میںانسان کو آزادی دی ہے۔ اس آزادی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان دشمنیاں قائم ہوتی ہیں (طٰہٰ ،
اہل اسلام کو یہ حق نہیں کہ وہ جس کو اپنا دشمن سمجھیں اس کے خلاف وہ جنگ چھیڑ دیں۔ دشمن کے مقابلہ میں اہلِ اسلام کو صرف پُر امن دعوت کا کام کرنا ہے، نہ کہ ان سے جنگ چھیڑ دینا۔ اس سلسلہ میں قرآن میںواضح حکم دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میںفرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (فصلت،
اسلام میںجنگ کی اجازت ہے مگر یہ اجازت صرف ان حالات میں ہے جب کہ اعراض کے باوجود فریقِ ثانی حملہ کردے اور حقیقی دفاع کی صورت پیدا ہو جائے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (
معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیم کے مطابق، جنگ دشمن کے خلاف نہیں بلکہ حملہ آور کے خلاف ہے۔ مسلمان اگر کسی کو اپنا دشمن سمجھیں تو ان کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اس کے خلاف حملہ کر دیں۔ ایسے لوگوں کے مقابلہ میںاوّل و آخر جو حق دیا گیا ہے وہ پُر امن دعوت ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ متشددانہ جارحیت کے خلاف دفاعی جنگ اسلام میں جائز ہے، مگر وہ بھی اس وقت جب کہ جنگ سے اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہوں۔ پیغمبر اسلام کا عملی نمونہ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
اسلام کے لیے جنگ کا ماحول اتنا ہی غیر مطلوب ہے جتنا کہ تجارت کے لیے نفرت و تشدد کا ماحول غیر مطلوب ہے۔ تجارت امن اور اعتدال کے ماحول میں کامیاب ہوتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے مقاصد صرف امن کے حالات اور نارمل تعلقات میں حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے
کہ: أیّھا الناس لا تتمنوا لقاء العدو، و سلوا اللہ العافیۃ (صحيح البخاري، حديث نمبر 2966؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 1742؛ ابو داؤد، حديث نمبر 2631؛ مسند احمد، حديث نمبر 19114) یعنی اے لوگو، تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو، بلکہ تم اللہ سے امن مانگو۔
جنگ کرنے والے ہمیشہ سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے جنگ کرتے ہیں اور سیاسی اقتدار اسلام میں کوئی ایسی چیز ہی نہیں جس کے حصول کے لیے جنگ کی جائے۔ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار اہلِ اسلام کا نشانہ نہیں بلکہ وہ ایک امرِ موعود (النور،
اس قرآنی حقیقت کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ سیاسی اقتدار کا ملنا یا سیاسی اقتدار کا چھینا جانا دونوں فطرت کے قانون کے تحت پیش آتے ہیں، اقتدار نہ کسی گروہ کو اس کی کوشش سے ملتا ہے اور نہ کسی دوسرے گروہ کی سازش اس کو کسی سے چھین سکتی ہے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ (
کے مطالبہ کو مان لیا اور دس سال کا امن معاہدہ کرکے حدیبیہ سے مدینہ واپس آگئے۔
معاہدۂ حدیبیہ بظاہر مقابلہ کے میدان سے واپسی کا معاہدہ تھا۔ مگر جب یہ معاہدہ ہوگیا تو قرآن میںاس کو اہل اسلام کے حق میں فتح مبین (الفتح،
اس کا مطلب کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنگ سے اعراض کرکے اور امن کا معاہدہ کرکے اہل اسلام کو یہ موقع(opportunity) حاصل ہوگیا کہ وہ اپنی طاقتوں کو جنگ میں ضائع ہونے سے بچائیں اور اس کو مکمل طورپر تعمیر اور استحکام میں لگائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حدیبیہ کے معاہدۂ امن کے بعد دو سال کے اندر اہل اسلام نے اپنے آپ کو اتنا مستحکم بنا لیا کہ وہ اس حیثیت میں ہوگئے کہ کسی باقاعدہ لڑائی کے بغیر صرف پُر امن تدبیر کے ذریعہ مکہ پر فتح حاصل کر لیں۔ ’’جنگ کے بغیر فتح‘‘ کا یہ اصول بلاشبہ اسلام کا ایک نہایت اہم اصول ہے۔ یہ اصول فطرت کے اٹل نظام پر قائم ہے۔ وہ افراد اور گروہوں کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہے جتنا کہ حکومتوں کے لیے۔ اس اصول کو ایک جملہ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے—ٹکراؤ سے اعراض کرو اور مواقع کو استعمال کرو۔
Avoid the confrontation, and avail the opportunities.
قرآن میںرسول اوراصحاب رسول کو جو احکام دیے گئے، ان میں سے ایک حکم یہ تھا: وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(
اس آیت کے دو حصے ہیں۔ یہاں ایک ہی بات کو پہلے منفی اور اس کے بعد مثبت انداز میں بیان کیا گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فتنہ کی حالت کو اس طرح ختم کردو کہ پوری طرح غیر فتنہ کی حالت قائم ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کی پیدا کردہ مصنوعی حالت نہ رہے بلکہ خدا کی
مقرر کی ہوئی فطری حالت واپس آجائے۔
اس آیت میں فتنہ سے مراد مذہبی جبر ہے جو قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں رائج تھا۔ قدیم زمانہ میں ہر جگہ بادشاہت کا رواج تھا۔ اس زمانہ میں زندگی کے صرف دو بڑے شعبے ـتھے—اقتدار اور زمین۔ یہ دونوں شعبے مکمل طورپر بادشاہ کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ اس طرح پوری انسانی زندگی عملاً بادشاہ کے قبضہ میں رہتی تھی۔ حتی کہ لوگوں کا مذہب بھی وہی ہوتا تھا جو بادشاہ کا مذہب ہوتا تھا۔ اس زمانہ کی حالت کو ایک قدیم عربی مقولہ میںاس طرح بیان کیا گیا ہے: النَّاسُ عَلَى دِينِ مُلُوكِهِمْ (لوگ اپنے بادشاہوں کے مذہب پر ہوتے ہیں)۔
قدیم زمانہ میں جبر کی یہ صورتِ حال خدا کی فطری اسکیم کے خلاف تھی۔ اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میںایک قسم کی سیاسی مرکزیت (political centralization) قائم ہوگئی تھی۔ اس نظام کے اندر ہر کام صرف بادشاہ کی اجازت کے تحت ہوسکتا تھا۔ عام افراد کوئی بھی کام آزادانہ طورپر کرنے کی پوزیشن میںنہیں ہوتے تھے۔ یہ تقریباً وہی صورتِ حال تھی جس کا ایک نمونہ کمیونسٹ ڈکٹیٹر شپ کے تحت قائم شدہ سابق سوویت یونین میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اللہ کو مطلوب تھا کہ سیاسی جبر کے اس غیر فطری نظام کو ختم کردیا جائے اور زندگی کا پورا نظام اس حالتِ فطری پر قائم ہو جائے جواللہ نے امتحان کی مصلحت کے تحت انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ یعنی سیاسی اقتدار کی اجازت کے بغیر ہر آدمی آزادانہ طور پر وہ کام کر سکے جس کو وہ کرنا چاہتا ہے۔
اسلام کے دور اول میں ملوکیت کو ختم کرکے خلافت کا قیام اسی عمل کا آغاز تھا۔ یہ نظام سب سے پہلے عرب میں قائم کیا گیا۔ اس وقت کی دنیا میں دو بڑی سلطنتیں —بازنطینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر قائم تھیں۔ ان سلطنتوں کے لیے مذکورہ قسم کا اصلاحی پروگرام ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس اصلاحی تحریک کو کچلنا چاہا۔ اس کے نتیجہ میں اصحابِ رسول کا ان سلطنتوں کے ساـتھ زبردست مقابلہ پیش آیا۔ اللہ کی مدد سے اس مقابلہ میں اصحابِ رسول کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس جبری نظام کا خاتمہ ہوگیا جس کو فرانسیسی مورخ ہنری پرین(Henry Pyrrene) نے مطلق
شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔
ہزاروں سال سے قائم شدہ جبری نظام کو ختم کرکے آزادی کا نظام قائم کرنا ایک انتہائی انقلابی واقعہ تھا۔ یہ واقعہ اپنے پہلے ہی دور میں مکمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اسلام کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اللہ کی مدد سے ساتویں صدی عیسوی میںاس قدیم جبری نظام کے تاریخی تسلسل کو توڑ دیا۔ اس کے بعد یہ تبدیلی ایک عمل(process) کے روپ میں انسانی تاریخ میں داخل ہوگئی۔ یہ عمل مختلف قسم کے فطری نشیب و فراز کے ساتھ مسلسل جاری رہا یہاں تک کہ وہ بیسویں صدی عیسوی میں اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔
عدم ترکیز (de-centralization) کا یہ واقعہ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں پیش آگیا۔ اب سیاسی اقتدار محدود ہو کر صرف انتظامیہ (administration) کی حیثیت میں باقی رہا۔ اب سیاسی ادارہ کا دخل زندگی کے ایک فیصد حصہ تک محدود ہوگیا۔ اور زندگی کے بقیہ ننانوے شعبے اس طرح آزاد ہوگئے کہ ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق، ان کو اپنے لیے استعمال کر سکے۔
انسانی زندگی کے نظام میںیہ عظیم تبدیلی عین اسلام کے حق میں تھی۔ اب (دوسروں کی طرح) اہل اسلام کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ سیاسی معنوں میں خواہ وہ حکمراں ہوں یا نہ ہوں، زندگی کی تعمیر و تشکیل میں وہ اپنا ہر منصوبہ کسی رکاوٹ کے بغیر چلا سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تبدیلی نے زندگی کے نظام کو بادشاہت کے دور سے نکال کر اداروں (institutions) کے دور میں پہنچا دیا۔
اب اہل اسلام کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ ہر قسم کے ادارے قائم کر کے زندگی کے تمام شعبوں پر قابض ہو سکیں۔ حتی کہ خود سیاسی ادارہ کو بھی بالواسطہ انداز میں اپنے زیر اثر کرلیں۔
مذکورہ تبدیلی کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ اہل اسلام بڑے پیمانہ پر ہر قسم کے آزادانہ ادارے قائم کریں، اور اداروں کے ذریعہ— معاشرہ میں وہ نفوذ حاصل کرلیں جو پہلے صرف سیاسی اقتدار کے ذریعہ ممکن ہوا کرتا تھا۔ مثلاً تعلیمی اداروں کے ذریعہ نئی نسلوں کی تربیت، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ عمومی فکری فضا بنانا، کتابوں کے ذریعہ اپنے افکار کی اشاعت، تحقیقی اداروں
کے ذریعہ اجتہاد کا عمل جاری رکھنا، مساجد اور مدارس کے ذریعہ اپنے مذہب کی حفاظت، صنعتی اداروں کے ذریعہ مالیات کا حصول، مواصلات کے ذریعہ اپنے مقاصد کی عالمی تنظیم، مختلف قسم کے این جی او(NGOs) کے ذریعہ اپنے مذہبی اور ثقافتی امور کی تنظیم، وغیرہ۔
موجودہ زمانہ میں جن قوموں نے تبدیلی کے اس راز کو سمجھ لیا ہے وہ بظاہر سیاسی اقتدار کی کرسی پر نہ ہوتے ہوئے بھی ہر قسم کی کامیابیاں حاصل کیے ہوئے ہیں۔ کسی گروہ نے ملک کے اندر اپنا تعلیمی ایمپائر بنا لیا ہے اور کسی نے صنعتی ایمپائر۔ کسی نے اپنا اشاعتی ایمپائر بنا لیا ہے اور کسی نے مواصلاتی ایمپائر۔ کسی نے اپنا مالیاتی ایمپائر بنا لیا ہے اور کسی نے معالجاتی ایمپائر۔ اس غیر ریاستی ایمپائر کی آخری مثال کمپیوٹر ایمپائر ہے جس نے لوگوں کو موقع دیا ہے کہ وہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین اقوامی سطح پر پورے نظام زندگی کو اپنے کنٹرول میں لے سکیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کی آیت ( وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ) کاایک اہم پہلو یہی زمانی تبدیلی ہے۔ اس تبدیلی نے سیاسی اقتدار کو گھٹا کر اب اس کو صرف ایک قسم کا سیاسی دردِ سر (political headache) بنا دیا ہے۔ اب اہل اسلام کے لیے ضروری نہیں کہ وہ سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے جنگ کریں۔ سیاسی اقتدار، خواہ جس کسی کے قبضہ میں ہو، وہ ہر حال میں ایسا کرسکتے ہیں کہ غیر سیاسی ادارے قائم کرکے اپنے تمام مطلوب فائدے حاصل کرلیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہلِ اسلام سیاست سے دست بردار ہو جائیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اداروں اور تنظیموں کے ذریعہ ملنے والے فوائد کو حاصل کرتے ہوئے وہ محدود دائرہ میں پُر امن سیاسی عمل کا طریقہ اپنا ئیں۔ وہ سیاسی ہنگامہ آرائی سے مکمل پر ہیز کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں اپنا خاموش سیاسی سفر جاری رکھیں، یہاں تک کہ اللہ ان کے لیے وہ مواقع کھول دے جو انہیں سیاست کے ادارہ تک بھی پہنچا دے۔
حدیث میں آیا ہے : إِنَّ اللهَ يُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ(صحيح مسلم،
حديث نمبر 2593) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔ اس حدیث کے مطابق، پُر امن طریقِ کار (peaceful activism) کو متشددانہ طریقِ عمل(violent activism) کے اوپر واضح فوقیت حاصل ہے۔
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ اور معلوم فطری حقیقت ہے۔ جنگ اور تشدد کی صورتِ حال میں یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے درمیان نفرت اور عداوت بھڑکتی ہے۔ موجود ذرائع تباہ ہوتے ہیں۔ دونوں طرف کے بہترین افراد قتل کیے جاتے ہیں۔ پورا سماج منفی نفسیات کا جنگل بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں تعمیر واستحکام کا کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ و تشدد میں نقصان تو یقینی ہے مگر نقصان کے باوجود اس میں کوئی فائدہ نہیں۔
اس کے برعکس امن کا ماحول ہو تو لوگوں کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ دوستی اور محبت میںاضافہ ہوتا ہے۔ موافق ماحول کے نتیجہ میں تعمیری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ موجود ذرائع کو ترقیاتی کاموں میںاستعمال کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ لوگ مثبت نفسیات میں جیتے ہیں جس کی بنا پر علمی اور فکری ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔
جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ مواقع کار کو مسدود کر تی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ مواقعِ کار کو آخری حد تک کھول دیتی ہے۔ جنگ سے ہمیشہ مزید نقصان ہوتا ہے، اور امن سے ہمیشہ مزید فائدہ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ہر قیمت پر اور آخری حدتک جنگ اور ٹکراؤ سے اعراض کی تعلیم دیتا ہے۔ اورامن کو ہر قیمت پر قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔
قرآن میں بعض آیتیں ایسی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے: اور ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ (
اصل یہ ہے کہ قرآن بیک وقت ایک مکمل کتاب کی صورت میں نہیں آیا، بلکہ وہ
احکام کی یہ تقسیم ایک فطری تقسیم ہے۔ وہ اس قسم کی ہر کتاب میں پائی جاتی ہے۔ مثال کے طورپرہندوازم کی مقدس کتاب گیتا کو لیجیے۔ گیتا میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو حکمت اور اخلاق سے تعلق رکھتی ہیں۔اسی کے ساتھ گیتا میں یہ بھی ہے کہ کرشن جی ارجن سے کہتے ہیں کہ اے ارجن، آگے بڑھ اور یُدھ (جنگ) کر۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گیتا کو ماننے والے بس ہر وقت جنگ کرتے رہیں۔ چنانچہ اسی گیتا سے مہاتما گاندھی نے اپنا اہنسا کا فلسفہ تشکیل دیا۔ کیوں کہ جنگ کی بات گیتا میں استثنائی طورپر حالتِ جنگ کے لیے ہے۔ عمومی زندگی کے لیے اس میں وہی پُر امن احکام بتائے گئے ہیں جو مہاتما گاندھی نے اس سے اخذ کیے۔
اسی طرح بائبل (نیا عہد نامہ) میںحضرت مسیح کی زبان سے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں: یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں (متّٰی،
یہی معاملہ قرآن کا بھی ہے۔ پیغمبر اسلام نے جب مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو اس کے بعد مشرک قبائل نے آپ کے خلاف جارحانہ حملے کرنے شروع کر دیے۔ آپ ہمیشہ ان حملوں کو صبر و اعراض کی تدبیروں سے ٹالـتے رہے۔ تاہم بعض مواقع پر ایسا ہوا کہ جوابی مقابلہ کے سوا کوئی
اور انتخاب (option) موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے آپ نے وقتی طورپر ان سے دفاعی جنگ کی۔ یہی وہ حالات تھے جن کے پیش آنے پر قرآن میں جنگ کے استثنائی احکام اترے۔ یہ احکام یقینی طورپر وقتی نوعیت کے تھے، نہ کہ ابدی نوعیت کے ۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر اسلام کی مستقل حیثیت کو رحمت للعالمین (
اسلام کے مطابق، ٹیررزم (دہشت گردی) کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ ٹیررزم سادہ طورپر، غیر ریاستی تشدد کا دوسرا نام ہے۔ تشدد کے ذریعہ کسی مقصد کا حصول، بوقت ضرورت، صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کے لیے درست ہے۔ غیر حکومتی افراد یا جماعتوں کے لیے کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔ اگر کسی شخص یا گروہ کو کوئی شکایت ہو تو اس کے لیے جائز طورپر صرف دو صورتیں ممکن ہیں۔ یا تو وہ پر امن حدود میں رہ کر اپنی شکایت کا حل تلاش کرے، یا وہ اپنے معاملہ کو عدالت اور حکومت کے سپرد کردے تاکہ وہ قانون کے مطابق، دخل دے کر اس کے معاملہ کو حل کریں۔
آج کل میڈیا میں اکثر اسلامک ٹیررزم (اسلامی دہشت گردی) کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ بلاشبہ غلط ہے۔ اسلام کو ٹیررزم کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ تاہم اس معاملہ میں اصل ذمہ دار میڈیا نہیں ہے بلکہ وہ مسلمان ہیں جو میڈیا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کے عمل کو اس قسم کے عنوان کے ساتھ رپورٹ کرے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمان مختلف مقامات پر غیر حکومتی جنگ چھیڑے ہوئے ہیں۔ یہ تمام جنگیں یقینی طورپر ملک و مال کے لیے یا مسلم قومی مفاد کے لیے ہیں۔ مگر جو مسلمان اس قسم کی متشددانہ تحریکیں چلا رہے ہیں وہ ان کو اسلامی جہاد کا نام دیتے ہیں۔ اب ظاہرہے کہ میڈیا کا کام تجزیہ کرنا نہیں ہے بلکہ رپورٹ کرنا ہے۔ چنانچہ میڈیا مسلمانوں کے اس قسم کے متشددانہ عمل کو اسی طرح اسلام کے ساتھ منسوب کردیتا ہے جس طرح خود مسلمان ان کو اسلام کے ساتھ منسوب کیے ہوئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ مسلمان جب اپنے تشدد کو اسلام کا عنوان دیں تو میڈیا بھی اپنی رپورٹنگ میں اس کو اسلام ہی کا عنوان دے گا، نہ کہ کسی اور چیز کا۔
مسلمانوں کی اس روش نے موجودہ زمانہ میں اسلام کو بہت زیادہ بدنام کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں اسلام کی تصویر خلاف واقعہ طورپر یہ بن گئی ہے کہ اسلام نفرت اور تشدد کا مذہب ہے، نہ کہ امن اور انسانیت کا مذہب۔
مثال کے طورپر ملاحظہ ہو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (1 اکتوبر 2001) میں مسٹر امولیہ گنگولی کا مضمون اسلام کی تصویر (Image of Islam)۔ اسی طرح لندن کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف میں شائع شدہ مضمون جس کا عنوان یہ ہے— ایک مذہب جو تشدد کو جائز قرار دیتا ہے:
A religion that sanctions violence.
اسلام کواس بدنامی سے بچانے کی واحد تدبیر یہ ہے کہ مسلمان اپنی قومی لڑائیوں کو اسلام کا عنوان دینا چھوڑ دیں۔ اس معاملہ میں وہ جو کچھ کریں ان کو اپنی قوم کی طرف منسوب کریں، نہ کہ اسلام کی طرف۔ تا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ان کا اپنا قومی عمل سمجھا جائے، نہ کہ اسلامی اور دینی عمل۔
جہاد کا مادہ جہد ہے۔ جہد کے معنی ہیں کوشش کرنا (to strive, to struggle)۔ اس لفظ میں مبالغہ کا مفہوم ہے یعنی کسی کا م میں اپنی ساری کوشش صرف کردینا۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ ’بَذَلَ جُهْدَه‘ یا ’ بَذَلَ مَجْهُودَه‘ یعنی اس نے اپنی پوری طاقت صرف کردی۔ لسان العرب میں ہے کہ :وجَهَدَ الرَّجُلُ فِي كَذَا أَي جدَّ فِيهِ وَبَالَغَ (جلد3، صفحہ
جہاد مبالغہ کا صیغہ ہے۔ یعنی کسی کام میں اپنی ساری ممکن کوشش صرف کرنا۔ لسا ن العرب میں ہے : الجِہَاد:الْمُبَالَغَةُ وَاسْتِفْرَاغُ الْوُسْعِ فِي الْحَرْبِ أَو اللِّسَانِ أَو مَا أَطاق مِنْ شَيْء(جلد3، صفحہ
عربی زبان میں جہاد اصلاً صرف کوشش یا بھر پور کوشش کے معنیٰ میں ہے۔ دشمن سے جنگ بھی چوں کہ کوشش کی ایک صورت ہے اس لیے توسیعی مفہوم کے اعتبارسے دشمن کے ساتھ جنگ کو بھی جہاد کہہ دیا جاتا ہے۔ تاہم اس دوسرے مفہوم کے لیے عربی میں اصل لفظ قتال ہے، نہ کہ جہاد۔
دشمن سے جنگ ایک اتفاقی واقعہ ہے جو کبھی پیش آتا ہے اور کبھی پیش نہیں آتا۔ لیکن جہاد ایک مسلسل عمل ہے جو مومن کی زندگی میں ہر دن اور ہر رات جاری رہتا ہے، وہ کبھی ختم نہیںہوتا۔ وہ مستقل جہاد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں اللہ کی مرضی پر قائم رہے۔ اس قیام میں جو چیزبھی رکاوٹ ہو اس کو اپنی زندگی پر اثر انداز نہ ہونے دے۔ مثلاً نفس کی خواہش، مفاد کی طلب، رسم ورواج کا زور، مصلحتوں کے تقاضے، ذاتی انا کا مسئلہ، مال کی حرص، وغیرہ۔ یہ تمام چیزیں عمل صالح کے لیے رکاوٹ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس قسم کی تمام رکاوٹوںکو زیر کرتے ہوئے اللہ کے حکم پر قائم رہنا، یہی اصل جہاد ہے، اور یہی جہاد کا ابتدائی مفہوم ہے۔ اس جہاد کے بارے میں حدیث میں
بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ مثلاً مسند امام احمد کی چند روایتیں یہ ہیں:
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ لِلَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23951)
االْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23965)
الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ (مسند احمد، حديث نمبر 23958)
موجودہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔ یہاں کا پورا ماحول اس طرح بنایا گیا ہے کہ آدمی مسلسل طورپر آزمائش کے حالات سے گزرتا رہے۔ ان آزمائشی مواقع پر آدمی کو طرح طرح کی رکاوٹوں کا سامنا پیش آتا ہے۔ مثلاً ایک حق اس کے سامنے آئے مگر اس کا اعتراف کرنے میں اپنا درجہ نیچا ہوتا ہوا دکھائی دے، کسی کا مال آدمی کے قبضہ میں ہو اور اس کو حقدار کی طرف واپس کرنے میں اپنا نقصان نظر آتا ہو، تواضع کی مطلوب زندگی گذارنے میں اپنے نفس پر جبر کرنا پڑے، غصہ اور انتقام کے جذبات کو برداشت کرنا اپنی نفی کے ہم معنیٰ بن گیا ہو، انصاف کی بات بولنے میں یہ اندیشہ ہو کہ لوگوں کے درمیان مقبولیت ختم ہوجائے گی، خودغرضانہ کردار کے بجائے با اصول کردار اختیار کرنے میں سہولیات سے محرومی نظر آتی ہو، وغیرہ۔
اس طرح کے مختلف مواقع پر بار بار آدمی کو اپنی خواہش کو دبانا پڑتا ہے۔ اپنی نفسیات کی قربانی دینا ضروری ہوجاتاہے۔ حتی کہ بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے اپنی انا کو ذبح کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے تمام مواقع پر ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے اور ہر نقصان کو جھیلتے ہوئے حق پر قائم رہنا یہی اصلی اور ابتدائی جہاد ہے۔ جو لوگ اس جہاد پر قائم رہیں وہی آخرت میں جنت کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔
جہاد اصلاً پُرامن جدوجہد کا عمل ہے۔ اسی پُر امن جدو جہد کی ایک صورت وہ ہے جس کو دعوت و تبلیغ کہا جاتا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (
کو لے کر ان کے خلاف دعوت و تبلیغ کا عمل کرو اور اس عمل میںاپنی آخری کوشش صرف کردو۔ اس آیت میں جہاد سے مراد کوئی عسکری عمل نہیں ہے بلکہ اس سے مراد تمام تر فکری اور نظریاتی عمل ہے۔ اس عمل کو ایک لفظ میں ابطال باطل اور احقاق حق کہا جاسکتا ہے۔
جہاد بمعنیٰ قتال بھی اپنے ابتدائی مفہوم کے لحاظ سے پُر امن جدوجہد ہی کا دوسرا نام ہے۔ دشمن کی طرف سے اگر فوجی اور عسکری چیلنج دیا جائے تب بھی اولاً ساری کوشش اس بات کی کی جائے گی کہ اس کا جواب پُر امن طریقہ سے دیا جائے۔ پُر امن طریقہ کو صرف اُس وقت ترک کیا جائے گا جب کہ اس کو استعمال کرنا ممکن ہی نہ ہو، جب کہ قتال کے جواب میں قتال ہی واحد ممکن انتخاب کی صورت اختیار کرلے۔
اس معاملہ میں حضرت عائشہ کی ایک روایت ہمارے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا: ما خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین إلا اختار أیسرھما (صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327؛ ابو داؤد، حديث نمبر 4785؛ سنن ابن ماجه، حديث نمبر 1984؛ مسند احمد، حديث نمبر 24549) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوتا توآپ ہمیشہ آسان کا انتخاب کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کسی معاملہ میںدو امکانی انتخاب ہوتا ، ایک آسان انتخاب (easier option)اور دوسرا مشکل انتخاب(harder option) تو آپ ہمیشہ مشکل انتخاب کو چھوڑ دیتے اور جو آسان ہوتا اس کو اختیار فرما لیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کا تعلق زندگی کے صرف عام معاملات سے نہ تھا بلکہ جنگ جیسے سنگین معاملہ سے بھی تھا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے مشکل انتخاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کی سیرت کا مطالعہ بتا تا ہے کہ آپ نے کبھی خود اپنی طرف سے جنگ کا اقدام نہیں کیا۔ اور جب آپ کے مخالفین کی طرف سے آپ کو جنگ میں الجھانے کی کوشش کی گئی تو آپ نے ہمیشہ اعراض کی کوئی تدبیر اختیار کرکے جنگ کو ٹالنے کی کوشش کی۔ آپ صرف اُس وقت جنگ میں شریک
ہوئے جب کہ دوسرا کوئی راستہ سرے سے باقی ہی نہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق، اسلام میں جارحانہ جنگ نہیں ہے، اسلام میں صرف مدافعانہ جنگ ہے اور وہ بھی صرف اس وقت جب کہ اس سے بچنا سرے سے ممکن ہی نہ رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ دو میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ رہتا ہے— پُرامن جدو جہد، اور پُر تشدد جدو جہد۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اور ہر معاملہ میں یہی کیا کہ پُر تشدد طریق کار کو چھوڑ کر پُر امن طریق کار کو اختیار فرمایا۔ آپ کی پوری زندگی اسی اصول کا ایک کامیاب عملی نمونہ ہے۔ یہاں اس نوعیت کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
1۔ پیغمبری ملنے کے بعد فوراً ہی آپ کے سامنے یہ سوال تھا کہ آپ مذکورہ دونوں طریقوں میں سے کس طریقہ کو اختیار کریں۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر کی حیثیت سے آپ کا مشن یہ تھا کہ شرک کو ختم کریں اور توحید کو قائم فرمائیں۔ مکہ میں کعبۃ اللہ اسی توحید کے مرکز کے طورپر بنایا گیا تھا مگر آپ کی بعثت کے وقت کعبہ میں 360 بت رکھ دیے گئے تھے۔ اس لحاظ سے بظاہر یہ ہونا چاہیے تھا کہ قرآن میں سب سے پہلے اس طرح کی کوئی آیت اترتی کہ : طَهِّرْ الکَعْبَۃَ مِنْ الأصْنَامِ (کعبہ کو بتوں سے پاک کرو) اور اس کو دوبارہ مرکز توحید بنا کر اپنے مشن کو آگے بڑھاؤ۔
مگر کام کا یہ آغاز قریش سے جنگ کرنے کے ہم معنیٰ تھا، جن کی قیادت عرب میں اسی لیے قائم تھی کہ وہ کعبہ کے متولی بنے ہوئے تھے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے کعبہ کی عملی تطہیر کے معاملہ سے مکمل طورپر احتراز فرمایا اور اپنے آپ کو صرف توحید کی نظری دعوت تک محدود رکھا۔ یہ گویا پُر تشدد طریق کار کے مقابلہ میں پُر امن طریقِ کار کی پہلی پیغمبرانہ مثال تھی۔
2 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پُر امن اصول پر قائم رہتے ہوئے تیرہ سال تک مکہ میں اپنا کام کرتے رہے۔ مگر اس کے باوجود قریش آپ کے دشمن بن گئے۔ یہاں تک کہ ان کے سرداروں نے باہمی مشورہ سے یہ طے کیا کہ سب مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں۔ چنانچہ انہوں نے تلواروں سے مسلح ہوکر آپ کے گھر کو گھیر لیا۔
یہ گویارسول اور اصحاب رسول کے لیے جنگ کا کھلا چیلنج تھا۔ مگرآپ نے اللہ کی رہنمائی کے تحت یہ فیصلہ فرمایا کہ جنگی مقابلہ سے اعراض کریں۔ چنانچہ آپ رات کے سناٹے میں مکہ سے نکلے اور خاموشی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے مدینہ پہنچ گئے۔ اس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں ہجرت کہا جاتا ہے۔ ہجرت واضح طورپر پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلہ میں پُر امن طریقِ کار کو اختیار کرنے کی ایک مثال ہے۔
3 ۔ غزوہ ٔ خندق یا غزوہ ٔاحزاب بھی اسی سنت کی ایک مثال ہے۔ اس موقع پر مختلف قبائل کے لوگ بہت بڑی تعداد میں جمع ہوکر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ واضح طورپر آپ کے مخالفین کی طرف سے ایک جنگی چیلنج تھا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ سے بچنے کے لیے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ رات دن کی محنت سے اپنے اور مخالفین کے درمیان ایک لمبی خندق کھوددی ۔ اس وقت کے حالات میںیہ خندق گویا ایک حاجز یا ٹکر روک طریقہ (buffer) تھا۔ چنانچہ قریش کا لشکر خندق کے دوسری طرف کچھ دن ٹھہرا رہا اور اس کے بعد واپس چلا گیا۔ یہ خندق بھی گویا پرُتشدد عمل کے مقابلہ میں پُر امن عمل کا انتخاب لینے کی ایک مثال ہے۔
4۔ اسی طرح صلح حدیبیہ بھی اسی قسم کی ایک سنت کی حیثیت رکھتی ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر یہ صورت تھی کہ رسول اور اصحاب رسول مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر مکہ کے سرداروں نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کو روک دیا اور کہا کہ آپ لوگ مدینہ واپس جائیں۔ ہم کسی قیمت پر آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ یہ گویا قریش کی طرف سے آپ کے لیے ایک جنگی چیلنج تھا۔ اگر آپ اپنے ارادہ کے مطابق عمرہ کرنے کے لیے مکہ کی طرف بڑھیں تو یقینی تھا کہ قریش سے جنگی ٹکراؤ پیش آئے گا۔ مگر آپ نے حدیبیہ پر اپنا سفر ختم کردیا اورقریش کی یک طرفہ شرطوں پر امن کا معاہدہ کرکے مدینہ واپس آگئے۔ یہ بھی واضح طورپر تشدد کے مقابلہ میں امن کا طریقہ اختیار کرنے کی ایک پیغمبرانہ مثال ہے۔
5 ۔ فتح مکہ کے واقعہ سے بھی آپ کی یہی سنت ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت آپ کے پاس
جاں نثار صحابہ دس ہزار کی تعداد میں موجود تھے۔ وہ یقینی طورپر قریش سے کامیاب لڑائی لڑ سکتے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال طاقت کے بجائے مظاہرۂ طاقت کا طریقہ اختیار فرمایا ۔ آپ نے ایسا نہیں کیا کہ دس ہزار افراد کی اس فوج کو لے کر اعلان کے ساتھ نکلیں اور قریش سے جنگی تصادم کرکے مکہ پر قبضہ حاصل کریں۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ کامل رازداری کے ساتھ سفر کی تیاری کی اور اپنے اصحاب کے ساتھ سفر کرتے ہوئے نہایت خاموشی کے ساتھ مکہ میں داخل ہوگئے۔ آپ کا یہ داخلہ اتنا اچانک تھا کہ قریش آپ کے خلاف کوئی تیاری نہ کرسکے اور مکہ کسی خونی تصادم کے بغیر فتح ہوگیا —یہ بھی پُر تشدد طریقِ کار کے مقابلہ میں پُر امن طریق کار کو اختیار کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ ان چند مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف عام حالات میں بلکہ انتہائی ہنگامی حالات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے مقابلہ میںامن کے اصول کو اختیار فرمایا۔ آپ کی تمام کامیابیاں اسی سنتِ امن کی عملی مثالیں ہیں۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، اسلام میںامن کی حیثیت حکم عام کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف مجبورانہ استثنا کی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے اور پھر یہ دیکھیے کہ موجودہ زمانہ میں صورت حال کیا ہے۔ اس معاملہ میں جدید دور قدیم دور سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ قدیم زمانہ میں پُر تشدد طریقِ کار ایک عام رواج کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور امن کا طریقہ اختیار کرنا بے حد مشکل کام تھا۔ مگر اب صورت حال یکسر طورپر بدل گئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں پُر تشدد طریقِ کار آخری حد تک غیرمطلوب اور غیر محمود بن چکا ہے۔ اس کے مقابلہ میں پُر امن طریقِ کار کو واحد پسندیدہ طریقِ کار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ زمانہ میں پُر امن طریقِ کار کو ایسی فکری اور عملی تائیدات حاصل ہوگئی ہیں جنہوں نے پُر امن طریقِ کار کو بذاتِ خود ایک انتہائی طاقتور طریقِ کار کی حیثیت دے دی ہے۔
ان جدید تائیدات میںبہت سی چیزیں شامل ہیں۔ مثلاً اظہار رائے کی آزادی کا حق، جدید کمیونی کیشن کے ذریعہ اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے امکانات، میڈیا کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرنا، وغیرہ۔ ان جدید تبدیلیوں نے پُر امن طریقِ کار کو بیک وقت مقبول طریق کار بھی بنا دیا ہے اور اسی کے ساتھ زیادہ مؤثر طریق کار بھی۔
جیسا کہ عرض کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب پُر امن طریقِ کار عملاً دستیاب (available) ہو تو اسلامی جدوجہد میں صرف اسی کو اختیار کیا جائے گا، اور پُرتشدد جدوجہد کو ترک کردیا جائے گا۔ اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پُر امن طریقِ کار نہ صرف مستقل طورپر دستیاب ہے، بلکہ مختلف تائیدی عوامل (supporting factors) کی بنا پر وہ بہت زیادہ مؤثر حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ کہنا بلا مبالغہ درست ہوگا کہ موجودہ زمانہ میں پُر تشدد طریق کار مشکل ہونے کے ساتھ عملاً بالکل غیرمفید ہے، اس کے مقابلے میں پُر امن طریق کار آسان ہونے کے ساـتھ انتہائی مؤثر اور نتیجہ خیز ہے۔ اب پُر امن طریقِ کار کی حیثیت دو امکانی انتخابات (possible options) میں سے صرف ایک انتخاب کی نہیں ہے بلکہ وہی واحد ممکن اور نتیجہ خیز انتخاب ہے۔ایسی حالت میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ اب پرتشدد طریقِ کار عملاً متروک قرار پاچکا ہے، یعنی وہی چیز جس کو شرعی زبان میں منسوخ کہا جاتا ہے۔ اب اہل اسلام کے لیے عملی طورپر ایک ہی طریقِ کار کا انتخاب باقی رہ گیا ہے، اور وہ بلاشبہ پُر امن طریقِ کار ہے، إلاّیہ کہ صورتِ حال میں ایسی تبدیلی پیدا ہو جو دوبارہ حکم کو بدل دے۔
یہ صحیح ہے کہ پچھلے زمانہ میں بعض اوقات پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کیا گیا مگر اس کی حیثیت زمانی اسباب کی بنا پر صرف ایک مجبورانہ انتخاب کی تھی۔ اب جب کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں یہ مجبوری باقی نہیں رہی تو پُر تشدد طریقِ کار کو اختیار کرنا بھی غیر ضروری اور غیرمسنون قرار پاگیا۔ اب نئے حالات میں صرف پُر امن طریقِ کار کا انتخاب کیا جائے گا۔جہاں تک مسئلہ کا تعلق ہے، جہاد کے معاملہ میںامن کی حیثیت عموم کی ہے، اور جنگ کی حیثیت صرف ایک نادر الوقوع استثنا کی ۔
موجودہ زمانہ میں اس معاملہ کی ایک سبق آموز مثال ہندستانی لیڈر مہاتما گاندھی (وفات 1948) کی زندگی میںملتی ہے۔ اسی زمانی تبدیلی کی بنا پر مہاتما گاندھی کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ ہندستان میں ایک مکمل قسم کی سیاسی لڑائی لڑیں اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچائیں۔ اور یہ سب
کچھ شروع سے آخر تک عدم تشدد کا طریقہ(non-violent method) اور پُر امن عمل (peaceful activism) کے اصول کو اختیار کرکے انجام پایا۔
فقہ کا یہ ایک معلوم اصول ہے کہ:تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (ديکھيے ابن قيم الجوزيہ، اغاثة اللهفان، جلد 1، ص 330) يعني زمانہ اور مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ اس مسلّمہ فقہی اصول کا تقاضاہے کہ جب زمانی حالات بدل چکے ہوں تو شرعی احکام کا ازسر نو انطباق (re-application) تلاش کیا جائے، تاکہ شرعی حکم کو زمانی حالات سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ اس فقہی اصول کا تعلق جس طرح دوسرے معاملات سے ہے اسی طرح یقینی طور پراس کا تعلق جنگ کے معاملہ سے بھی ہے۔ اس اصول کا بھی یہ تقاضا ہے کہ پُر تشدد طریقِ کار کو اب عملاً متروک قرار دیاجائے اور صرف پُر امن طریقِ کار کو شرعی جواز کا درجہ دیا جائے۔
موجودہ زمانہ میں اسلامی جہاد کے نام سے بہت سے ملکوں کے مسلمان مسلّح جہاد کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ مگر کوئی تحریک محض اس بناپر جہاد کی تحریک نہیں ہوسکتی کہ اس کے َعلم برداروں نے اس کو جہاد کا نام دے دیا ہو۔ کوئی عمل صرف اس وقت اسلامی جہاد قرار پاتا ہے جب کہ وہ اسلام کی مقرر کی ہوئی شرطوں پر پورا اترے۔ جہاد کی شرطوں کی تکمیل کے بغیرجو جہاد کیا جائے وہ عملاً جہاد نہیں ہوگا بلکہ فساد ہوگا۔ جو لوگ اس کام میں مشغول ہوں وہ اپنے اس کام پر جہاد کا انعام نہیں پائیں گے بلکہ اللہ کی طرف سے وہ صرف سزا کے مستحق ہوں گے۔
جہاد بمعنیٰ قتال کی شرطیں کیا کیا ہیں، اس کو میں اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔یہاں صرف ایک بات کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جہاد بمعنیٰ قتال کی حیثیت نماز روزہ جیسے انفرادی عمل کی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسا عمل ہے جس کا تعلق مکمل طورپر ریاست سے ہے۔
جہاد (بمعنیٰ قتال ) کی یہ اصولی حیثیت قرآن وحدیث کی مختلف نصوص سے واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ دشمن کی طرف سے خوف کی صورت پیدا ہو تو اس کو لے کر
خود سے اس کے خلاف کارروائی شروع نہ کردو بلکہ اس کو اولوا الأمر (ارباب حکومت) کی طرف لوٹاؤ، تاکہ وہ معاملہ کی صحیح نوعیت کو سمجھیں اور اس کے بارے میں صحیح اور ضروری اقدام کریں (النساء
اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ :انما الامام جنۃ، یقاتل من ورائہ و یتقی بہ (صحيح البخاري، حديث نمبر 2957) یعنی بلاشبہ امام ڈھال ہے، قتال اس کی ماتحتی میں کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ حفاظت حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنگی دفاع ہمیشہ حاکم کی قیادت میں کیا جائے گا۔ عام مسلمانوں کا فرض صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنے حاکم کی اتباع کریں اور اس کا ساتھ دے کر حکومت کے منصوبہ کو کامیاب بنائیں۔
فقہ میں یہ مسئلہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے جس میں غالباً کسی قابلِ ذکر عالم کا اختلاف نہیں۔ چنانچہ فقہاء کے متفقہ مسلک کے مطابق، جنگ کا اعلان صرف ایک قائم شدہ حکومت ہی کرسکتی ہے، غیر حکومتی عوام کو اس قسم کا اعلان کرنے کا حق نہیں۔ اسی لیے فقہ میں یہ مسئلہ ہے کہ: الرحیل للإمام (جنگ کا اعلان کرنا صرف حاکم وقت کا کام ہے)۔
اصل یہ ہے کہ جنگ ایک انتہائی منظم عمل کا نام ہے۔ اس قسم کا منظم عمل صرف با اختیار حکومت ہی کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی اقدام صرف حکومت کے لیے جائز ہے، عوام کے لیے جنگی اقدام کرنا سرے سے جائز ہی نہیں۔
موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر مسلمان جہاد کے نام پر حکومتوں سے پُر تشدد ٹکراؤ چھیڑے ہوئے ہیں۔ مگر تقریباً بلا استثنا ان میں سے ہر ایک کی حیثیت فسادکی ہے، نہ کہ اسلامی جہاد کی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اُن میںسے کوئی بھی ’’جہاد‘‘ کسی حکومت کی طرف سے جاری نہیں کیا گیا ہے۔
آج کل کی زبان میں ان میں سے ہر ایک جہاد غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کی طرف سے
شروع کیا گیا اور انہی کی طرف سے ان کو چلایا جارہا ہے۔ اگر ان میں سے کسی جہادی سرگرمی کو بالفرض کسی مسلم حکومت کا تعاون حاصل ہے تو یہ تعاون بلا اعلان صرف خفیہ انداز میںکیا جارہا ہے، اور شریعت کے مطابق کسی مسلم حکومت کو بھی جہاد کاحق صرف اس وقت ہے جب کہ وہ باقاعدہ طورپر اس کا اعلان کرے (الأنفال،
موجودہ زمانہ میں مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی طرف سے جہاد کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، آج کل کی زبان میں وہ دو قسم کی ہیں۔ یا تو اس کی حیثیت گوریلا وار (gorilla war) کی ہے ، یا پراکسی وار(proxy war) کی۔ اور یہ دونوں ہی قسم کی جنگیں یقینی طورپر اسلام میں ناجائز ہیں۔ گوریلا وار اس لیے ناجائز ہے کہ وہ غیر حکومتی تنظیموں کی طرف سے چلائی جاتی ہے، نہ کہ کسی قائم شدہ حکومت کی طرف سے۔ اور پراکسی وار اس لیے ناجائز ہے کہ کوئی حکومت اس کو بلا اعلان جاری کرواتی ہے، اور اعلان کے بغیر جنگ اسلام میں جائز نہیں۔
اسلامی جہاد ایک مثبت اور مسلسل عمل ہے۔ وہ مومن کی پوری زندگی میں برابر جاری رہتا ہے۔ اس مجاہدانہ عمل کے تین بڑے شعبے ہیں:
1۔ جہاد نفس: یعنی اپنے منفی جذبات اور اپنے اندر کی نامطلوب خواہشات پر کنٹرول کرنا اور ہر حال میں اللہ کی پسندیدہ زندگی پر جمے رہنا۔
2۔ جہاد دعوت: یعنی اللہ کے پیغام کو تمام بندوں تک پہنچانا اور اس کے لیے یک طرفہ ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ بھر پور کوشش کرنا۔ یہ ایک عظیم کام ہے، اس لیے اس کو قرآن میں جہاد کبیر کہا گیا ہے۔
3۔ جہاد اعداء : یعنی دین حق کے مخالفوں کا سامنا کرنا اور دین کو ہر حال میں محفوظ اور قائم رکھنا۔ یہ جہاد پہلے بھی اصلاً ایک پر امن عمل تھا۔ اور اب بھی وہ اصلاً ایک پر امن عمل ہے۔ اس اعتبار سے جہاد ایک پر امن جدوجہد ہے، نہ کہ حقیقۃ ً کوئی مسلّح کارروائی۔
اہل علم امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ فنی اعتبار سے یہ تعریف بالکل درست ہے۔ کسی سماج میںجب تشدد اورجنگ نہ ہو تو اس کے بعد وہاں جو صورت حال پیدا ہوگی اسی کا نام امن ہے۔ جب بھی انسانوں کے درمیان جنگ اور تشدد کی حالت نہ ہو تو اُس کے بعد امن کی حالت اپنے آپ قائم ہوجائے گی۔
تاہم کسی سماج میںامن کی حالت قائم ہونا سادہ طورپر صرف یہ نہیں ہے کہ وہاں جنگ اور تشدد کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ اور تشدد کا ختم ہونا اس معاملہ کا سلبی پہلو ہے۔ اس کا ایجابی پہلو یہ ہے کہ جب بھی کسی سماج کے اندر حقیقی معنوں میں امن کی حالت قائم ہوجائے تو اُس کے بعد لازماً ایسا ہوگا کہ لوگوں کے اندر مثبت سرگرمیاں جاری ہوجائیںگی۔ ہر آدمی یکسوئی کے ساتھ اپنی زندگی کی تعمیر میں لگ جائے گا۔
کسی سماج کے اندر امن کا قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے دریا کے سامنے سے بَند کو ہٹا دیں۔ انسانی زندگی، بہتے دریا کی مانند، خود اپنے زورپر رواں دواں ہونا چاہتی ہے۔ وہ صرف اُس وقت رُکتی ہے جب کہ اُس کے سامنے کوئی مصنوعی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ رُکاوٹ نہ ہوتو خود فطرت کے زور پر زندگی کی تمام سرگرمیاں جاری ہوجائیں گی۔
جنگ و تشدد کی حیثیت زندگی کے عمل میںرُکاوٹ کی مانند ہے۔ اور امن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ زندگی کی دوڑ کے تمام راستے آخری حد تک کھول دیے گئے ہوں۔
امن (peace)کا مطالعہ عام طور پرجنگ کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔ مگر یہ امن کا بہت محدود مفہوم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ امن اپنے آپ میں ایک مکمل آئیڈیا لوجی ہے۔ امن شاہ کلید (master key) ہے جس سے ہر کامیابی کا دروازہ
کھلتا ہے۔ امن ہر کام کی کامیابی کے لیے موافق ماحول بناتا ہے۔ امن کے ساتھ ہر کام کیا جاسکتا ہے۔ اور امن کے بغیر کسی بھی کام کو کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات چھوٹے معاملات کے لیے بھی درست ہے اور بڑے معاملات کے لیے بھی۔
قرآن کی سورہ یٰس میں ارشاد ہوا ہے :لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (
قرآن کی اس آیت میںایک فلکیاتی واقعہ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ دنیا کا نظام کس اصول پر قائم ہے۔و ہ امن کا اصول ہے۔ کائنات کے اندر ان گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے۔ مگر کسی چیز کا دوسری چیز سے ٹکراؤ نہیںہوتا۔ کائنات کا ہر جزء اپنے اپنے دائرہ میںاپنا عمل انجام دیتاہے۔ یہاں کا کوئی جزء کسی دوسرے جزء کے دائرہ کار میںداخل نہیں ہوتا۔ اس لیے ایک کا دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہیں ہوتا۔
یہی امن کلچر انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو بھی یہی کرنا ہے کہ وہ کائنات کے اس ہمہ گیر اُصول کو اپنی زندگی میںاپنا لے، وہ بھی ٹکراؤ کے راستہ کو چھوڑ کر امن کے راستہ پر چلنے لگے۔
کائنات کا کلچر امن کلچر ہے۔ اسی امن کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات اربوں سال سے چل رہی ہے مگر اس میںکوئی ٹکراؤ پیش نہیں آیا جواُس کے نظام میںخلل ڈال دے۔ کائنات میںاگر تشدد کلچر کا رواج ہوتا تواب تک کائنات آپس میںٹکراکر تباہ ہوچکی ہوتی۔ وہ ہمارے لیے قابل رہائش دنیا کے طورپر موجود ہی نہ ہوتی۔
جس خالق نے کائنات کو پیدا کیاہے اُسی نے انسان کو بھی پیدا کیاہے۔ خالق کو مطلوب ہے کہ اُس نے وسیع تر کائنات میں جو امن کلچر قائم کر رکھا ہے، انسان بھی اُسی امن کلچر کو اپنائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہ امن کلچر بقیہ کائنات میں فطرت کے زور پر قائم ہے۔ انسان ایک آزاد
مخلوق ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس امن کلچر کو خود اپنے ارادہ اور اپنے فیصلہ کے تحت اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
قرآن بلاشبہ امن کی ایک کتاب ہے، وہ جنگ اور تشدد کی کتاب نہیں۔ قرآن کے تمام بیانات براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن سے متعلق ہیں۔ قرآن کا پہلا جملہ’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ ہے جس کے معنٰی یہ ہیں کہ اللہ نہایت مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس خدا نے یہ کتاب بھیجی ہے اُس کی سب سے بڑی صفت رحمت ہے۔ اور یہ کتاب خدا کی اسی صفتِ رحمت کااظہار ہے۔
قرآن کی تمام آیتیں براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن کی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ قرآن کی کُل آیتوں کی تعداد 6666ہے۔ ان میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو قتال (جنگ) کے حکم کو بیان کرتی ہیں۔یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں۔ زیادہ متعین طورپر کُل آیتوں کے مقابلہ میں صرف اعشاریہ چھ فیصد (0.6 per cent)۔
جو لوگ قرآن کوخداکی کتاب مانتے ہیں وہ قرآن کے حقیقی مومن صرف اُس وقت قرار پائیں گے جب کہ وہ قرآن کی اس تعلیم کی پیروی کرتے ہوئے مکمل طورپر امن پسندبن جائیں۔ وہ کسی حال میں بھی تشدد کا رویہ اختیار نہ کریں۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اسلام اور مسلمان کے درمیان فرق کریں۔ وہ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم کا نام نہ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کے معیار سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ اسلام کو مسلمانوں کے عمل سے سمجھا جانے لگے۔ اسلام ایک نظریہ ہے۔ مسلمان اُسی وقت مسلمان ہیں جب کہ وہ اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات کوچھوڑ دیں اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، خواہ بطور خود وہ اپنے آپ کو اسلام کاچیمپین بتاتے ہوں۔
امن ایک منصوبہ بند عمل ہے، اور تشدد صرف بھڑک کر جارحانہ کارروائی کرنے کا نام ہے۔ امن پسند آدمی پہلے سوچتا ہے اوراس کے بعد وہ عمل کرتا ہے۔ تشدد پسند آدمی پہلے کر ڈالتاہے، اس کے بعد وہ سوچتا ہے۔ پُرامن عمل میں پہلے بھی اُمید ہے اور آخر میں بھی اُمید۔ اور پُر تشدد عمل میں پہلے فرضی اُمید ہے اور آخر میں صرف مایوسی۔
امن پسند آدمی سچائی پر کھڑا ہوتا ہے اور پُر تشدد آدمی جھوٹ پر۔ امن کا راستہ شروع سے آخر تک ایک کھُلا ہوا راستہ ہے، اور تشدد کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا راستہ۔ امن میں تعمیر ہی تعمیر ہے اور تشدد میں تخریب ہی تخریب۔ امن پسند انسان دوسروں کی محبت میںجیتا ہے اورتشدد پسند انسان دوسروں کی نفرت میں۔ امن پسندی کا خاتمہ کامیابی پر ہوتا ہے اور تشدد پسندی کا خاتمہ شرمندگی پر۔
امن پسندی میںکوئی کام بگڑتا نہیں اور ہر کام بن جاتا ہے۔ تشدد پسندی میںکوئی کام بنتا نہیں اورہر کام بگڑ جاتا ہے۔ امن کا طریقہ انسانیت کاطریقہ ہے اور تشدد کا طریقہ حیوانیت کاطریقہ۔ امن کا عمل قانون کے دائرہ میںہوتا ہے اور تشدد کاعمل لاقانونیت کے دائرہ میں۔
امن پسند آدمی مسائل کو نظر اندازکرکے مواقع کو استعمال کرتا ہے اور تشدد پسند آدمی مواقع کو غیراستعمال شدہ حالت میں چھوڑ کر مسائل کے خلاف بے فائدہ لڑائی لڑتا رہتا ہے۔ امن کا عمل پیارو محبت کا باغ اُگاتا ہے اور تشدد کا عمل نفرت اور دشمنی کا جنگل اُگاتا ہے۔ امن کلچر فرشتوں کا کلچر ہے اور تشدد کلچر شیطانوںکا کلچر۔
امن میں خدا کے حقوق بھی ادا ہوتے ہیں اورانسان کے حقوق بھی۔ اورتشددمیں انسان کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور خدا کے حقوق کی بھی خلاف ورزی۔ امن اگر جنت ہے تو تشدد اُس کے مقابلہ میں دوزخ۔
امن اور جنگ دونوں یکساں نہیں۔ امن کسی انسان کے لیے ایک سچا انتخاب (choice) ہے۔ اور جنگ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی سچے انتخاب کو نہ پاسکا، وہ انتخاب کے ٹیسٹ میں
ناکام ہوگیا۔
دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اگر چہ عملاً موجود ہیں مگر وہ امتحان کے لیے ہیں، وہ مطلوب چیز کے طورپر نہیں۔مثلاً شراب دنیا میں موجود ہے۔ مگر شراب اس لیے نہیں ہے کہ کوئی آدمی اُس کو استعمال کرے۔ بلکہ شراب اس لیے ہے کہ آدمی اُس سے بچ کر یہ ثابت کرے کہ وہ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھتا تھا، وہ ایک محتاط انسان تھا۔ یہی معاملہ جنگ کا بھی ہے۔ جنگ کا طریقہ اگر چہ بظاہر قابل استعمال ہے مگر کسی انسان کے لیے اعلیٰ روش یہی ہے کہ وہ جنگ کے طریقہ کو استعمال نہ کرے۔
قدیم زمانہ میں جوحالات تھے اُن میں دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی گئی تھی۔ مگر یہ اجازت قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت تھی ۔ اب نئے حالات میں یہ ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے اب جنگ کی بھی ضرورت نہیں۔
قرآن کی سورہ النساء میں فطرت کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَالصُّلْحُ خَيْرٌ (
تاہم بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ مصالحت دونوں فریقوں کی یکساں خواہش کے مطابق ہو۔ بیشتر حالات میں یہ مصالحت یک طرفہ بنیاد پر ہوتی ہے، یعنی ایک فریق اپنی خواہش کو پیچھے رکھ کر دوسرے فریق کی خواہش پر معاملہ ختم کر نے کے لیے راضی ہوجائے۔
اس قسم کی یک طرفہ مصالحت کو بہتر کیوں کہاگیا ۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ نزاع کی حالت تعمیری عمل کو روک دیتی ہے۔ مصالحت پر راضی ہونے کا فائدہ آدمی کو یہ ملتا ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کا کوئی حصہ غیر ضروری ٹکراؤ میںضائع کیے بغیر اپنی تعمیری جدوجہد کو جاری رکھے۔ غیر
مصالحانہ طریقہ ہر حال میں نقصان کا طریقہ ہے۔ اور مصالحانہ طریقہ ہر حال میںفائدہ کا طریقہ۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی فرد یا گروہ نے جب بھی کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو اُس نے یہ کامیابی مصالحانہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد حاصل کی ہے۔ ٹکراؤ اورلڑائی کاطریقہ اختیار کرکے اس دنیا میں حقیقی کامیابی کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ صلح کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ صلح میں آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو بھر پور طور پر اپنے حق میں استعمال کرے جب کہ ٹکراؤ کے طریقہ میں یہ ہوتا ہے کہ ساری طاقت دوسروں کی تخریب میں ضائع ہوجاتی ہے۔ تعمیر کا کوئی کام سِرے سے انجام نہیں پاتا۔ حالانکہ ترقی کاراز اپنی تعمیر و استحکام میں ہے، نہ کہ مفروضہ دشمن کوبرباد کرنے میں۔
قرآن کی سورہ البقرۃ میں ایک کردار کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے:وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ(
قرآن کی اس آیت میںجس کردار کا ذکر ہے اُس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایک اصلاحی مقصد کے لیے سرگرم ہوں، مگر اُن کا طریقہ درست نہ ہو۔ اُن کا طریقہ ایساہو جوعملاً فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں فساد سے مراد یہ ہے کہ اُن کے طریقہ کے نتیجے میںلوگوں میںباہمی ٹکراؤ پیدا ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ لوگوں کے اندر اخلاقی احساس کمزور ہوجائے۔ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوں۔ اس قسم کی تمام چیزیں فساد فی الأرض کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے سماجی امن ختم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لڑائی اور ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے۔
قرآن کی اس تعلیم سے معلوم ہوا کہ کسی عمل کے درست ہونے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ بظاہر وہ ایک اچھے مقصد کے لیے شروع کیا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ دیکھنا ہوگا کہ اصلاح کے نام پر کی جانے والی سرگرمیاں کس قسم کا نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ لوگوں کے درمیان نفرت اور
تناؤ اورلڑائی جیسی چیزیں پیدا کریں تو بظاہر اصلاح کا نام لینے کے باوجود اُن کی سرگرمیاں مفسدانہ سرگرمیاں ہی کہی جائیں گی۔ ایسے لوگ انسانیت کے مجرم قرار پائیں گے ،نہ کہ انسانیت کے مصلح اور خادم۔
کوئی بھی اصلاحی کام صرف اُس وقت اصلاحی کام ہے جب کہ وہ امن او ر انسانیت کے دائرہ میںکیا جائے۔ اصلاح کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ کام غلط ہے جو سماجی امن کو درہم برہم کرے۔ جس کے نتیجہ میں جان اورمال کی تباہی ظہورمیں آئے۔ اصلاح کو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے بھی اصلاح ہونا چاہیے۔ جو اصلاح اپنے نتیجہ کے اعتبار سے فساد ہو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی فساد ہے، خواہ اُس کو کتنا ہی زیادہ خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو۔
قرآن کی سورہ آل عمران میں ارشاد ہوا ہے: اگر تم صبر کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو اُن کی کوئی سازش تم کو ہر گز نقصان نہ پہنچائے گی۔ (
موجودہ دنیا میں سازش کی حیثیت اگر بارش کی ہے تو صبر وتقویٰ کی حیثیت پختہ چھت کی۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بارش صرف اُن لوگوں کے لیے مسئلہ ہے جنہوں نے اپنے لیے پختہ چھت نہ بنائی ہو۔ جن کے پاس پختہ چھت ہو، اُن کے لیے بارش کا مسئلہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں۔
موجودہ دنیا کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر بنا ہے، اس لیے یہاں فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق اور دوسرے فریق کے درمیان رقابت قائم ہوجاتی ہے جو بڑھ کر سازش تک پہنچ جاتی ہے۔ جب بھی کسی کے خلاف ایسی صورت حال پیدا ہو تو اُس کو دشمن کی سازش کے بجائے فطرت کے ایک قانون کا اظہار سمجھنا چاہیے۔ سازش کو دشمن کی کارروائی سمجھنا آدمی کو تشدد
کی طرف لے جاتا ہے۔ اور سازش کو فطرت کے قانون کا نتیجہ سمجھنا آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتاہے کہ وہ حسن تدبیر کے ذریعہ اپنے آپ کو اس کی زد سے بچائے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک شخص بارش کے مقابلہ میں احتجاج نہیں کرتا بلکہ اس سے بچنے کے لیے گھر اور چھت کا انتظام کرتاہے۔
قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ(
غلو کا مطلب شدت یا انتہا پسندی (extremism) ہے۔ غلو ہر معاملہ میں غلط ہے۔ غلو دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ غلو کا یہی مزاج بڑھ کر تشدد اور لڑائی تک پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ غلو کی نفسیات کا شکار ہوں وہ اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اعتدال کی روش پرقانع نہیں ہوتے۔ وہ امن اور اعتدال کی روش کو معیار سے کم سمجھتے ہیں اس لیے وہ نہایت آسانی کے ساتھ تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ وہ مقصد کے حصول کے نام پر لڑائی شروع کردیتے ہیں۔
غلو کی ضد اعتدال ہے۔ جب لوگوں کے اندر اعتدال کی نفسیات ہو تو وہ ہمیشہ امن کے انداز میں سوچیں گے، وہ اپنی جدوجہد کوپر امن جدو جہد کے طورپر چلائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال اور امن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں اعتدال ہوگا وہاں امن ہوگا۔ جہاں امن ہوگا وہاں اعتدال پایا جائے گا۔
اس کے برعکس غلو کی نفسیات ہمیشہ آدمی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے، اور انتہاپسندی نہایت آسانی کے ساتھ تشدد اور ٹکراؤ میںتبدیل ہوجاتی ہے۔ غلو اور تشدد دونوں ایک دوسرے کے
ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں غلو کو بہت زیادہ ناپسند کیا گیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ غلو پسندی کا دوسرا نام تشدد پسندی ہے۔ اور غلو نہ کرنے کا دوسرا نام اعتدال پسندی ۔
قرآن کی سورہ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے:مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا(
قتل ایک انتہائی بھیانک عمل ہے۔ کسی فرد کو قتل کرنا صرف اُس وقت جائز ہے جب کہ وہ سماجی امن کے لیے ناقابلِ علاج خطرہ بن گیا ہو۔ حقیقی وجہ جواز کے بغیر کسی ایک انسان کو قتل کرنابھی سارے انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ اس سے احترام جان کی روایت ٹوٹتی ہے۔ ایک انسان کو ناحق قتل کرنا بظاہر ایک آسان فعل دکھائی دینے لگتا ہے۔
شراب کے بارے میں حدیث میںآیا ہے کہ: مااسکرکثیرہ فقلیلہ حرام (سنن ابن ماجه، حديث نمبر 3681)۔ یعنی جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کرے اس چیز کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ یہی معاملہ قتل کا بھی ہے۔ بہت سے انسانوں کو قتل کرنا جتنا بھیانک ہے اُتنا ہی بھیانک ایک انسان کو قتل کرنا بھی ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف ڈگری کا ہے، نوعیت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںامن وسلامتی کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سماج میںایک شخص کو قتل کردیا جائے تو پورا کا پورا سماج اُس پر تڑپ اٹھے۔ سماج میں دوبارہ امن وسلامتی کی حالت کو قائم کرنے کے لیے اس اہتمام کے ساتھ کام کیا جائے جیسے کہ کسی نے ایک فرد کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے پوری انسانیت پر حملہ کردیا ہے۔
قرآن کی سورہ المائدہ میں ارشاد ہوا ہے: كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ (
جب بھی وہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس آگ کو بُجھادیتا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق کا منصوبہ موجودہ دنیا کے بارے میں کیا ہے۔ یہ منصوبہ امن کے اصول پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ایک فریق لڑائی کی آگ بھڑکانے پر آمادہ ہو تو دوسرے فریق کو چاہیے کہ وہ پُر امن تدبیر سے اُس کو بجھادے تاکہ تشدد کی آگ پھیلنے نہ پائے۔ ایسا کبھی نہیں ہونا چاہیے کہ ایک فریق اگر بم مارے تو دوسرا فریق جوابی بم سے اُس کا مقابلہ کرے۔ خدا کی اس زمین پر جینے کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ ایک بم کے اوپر دوسرابم مارا جائے۔ صحیح اور مطلوب طریقہ یہ ہے کہ بم کو ناکارہ (defuse) کر دیا جائے۔
یہ خدائی اعلان بتاتا ہے کہ ایک بم کے اوپر دوسرابم مارنا شیطان کا طریقہ ہے۔ اس کے برعکس، خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ بم کو غیر مؤثر بنادیا جائے، بم کواُس کے پہلے ہی مرحلہ میںناکارہ کردیا جائے تا کہ امن کاماحول بگڑنے سے بچ جائے۔
سماج میں ناخوش گوار حالات کا پیش آنا بالکل فطری ہے۔ کوئی انسانی سماج ناخوش گوارباتوں سے خالی نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں مسئلہ کا اصل حل یہ نہیں ہے کہ خود ناخوش گواری کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ اس مسئلہ کا اصل حل یہ ہے کہ ایک ناخوش گواری پر دوسری ناخوش گواری کا اضافہ نہ کیا جائے۔ ایک بم کے اوپر دوسرا بم نہ مارا جائے۔ اس طرح ناخوش گواری کو پھیلنے سے روک کر اُس کو ختم کردیا جائے۔ یہی اس مسئلہ کا حل ہے، اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل ممکن نہیں۔
قرآن کی سورہ الاعراف میں ارشاد ہوا ہے: وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (
قرآن کی اس آیت میںایک فطری حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ زمین جس پر انسان آباد ہے وہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے ایک اصلاح یافتہ زمین ہے۔ یہاں کی ہر چیز اپنے مطلوب نقشہ کے
مطابق، بنائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اس زمین پر جو کام بھی کرے، فطرت کے نقشہ کو بدلے بغیر کرے۔ اگر اُس نے فطرت کے نقشہ کو بدلا تو اُس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قائم شدہ اصلاحی نظام ٹوٹ جائے گا اور ہر طرف بگاڑ پھیل جائے گا۔
مثلاً ہماری دنیا میں فطرت کے نظام کے تحت بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں— زمین کی مسلسل گردش، سورج سے اُس کا روشن ہونا، ہواؤں کا چلنا، بارش کا ہونا، دریاؤں کا بہنا، پودوں اور درختوں کا اُگنا، وغیرہ وغیرہ۔ زمین پر اس طرح کے بے شمار کام رات دن مسلسل جاری ہیں مگر یہ سارے کام انتہائی حد تک پُر امن طور پر ہورہے ہیں۔ کہیں کوئی تشدد نہیں، کہیں ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں۔
یہی اصلاح کا نقشہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ بھی اسی نقشہ پر چلے۔ وہ تشدد اور ٹکراؤ سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔ وہ اپنی ہر کوشش امن کے اصول پر جاری کرے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ یقینی طورپر زمین کے اوپر فساد برپا کریں گے، وہ کبھی زمین کے اوپر اصلاح کا نظام قائم کرنے والے نہیں۔
قرآن کی سورہ الاعراف میں حکم دیا گیا ہے کہ: وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ(
اعراض کامطلب احتراز (avoidance) ہے، اعراض کااُلٹا ٹکراؤ (confrontation) ہے۔ اعراض کا طریقہ آدمی کو پُرامن دائرہ میں محدود رکھتا ہے اور ٹکراؤ کاطریقہ اُس کو فریق ثانی کے مقابلہ میں متشددانہ کارروائی کی طرف لے جاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں کوئی انسان یا گروہ اکیلا نہیں ہے۔ اُس کے سوا دوسرے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے مقاصد رکھتے ہیں۔ ہر ایک کااپنا الگ ایجنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں بار بار ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ بار بار ایک فرد اور گروہ اوردوسرے فرد اور گروہ کے درمیان
کشمکش کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کے لیے دو راستے ہیں—اعراض یا ٹکراؤ، ان دو کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں۔ اب آدمی اگر ٹکراؤ کاراستہ اختیارکرے تو دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی ہوگی۔ ساری تاریخ کا تجربہ ہے کہ لڑائی سے صرف دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔ حقیقی معنوں میں اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ سے ہٹ جائے اوراعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اعراض کا طریقہ نہ صرف مزید نقصان سے بچاتا ہے بلکہ وہ آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنے ترقی کے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکے۔ اعراض کا عمل بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلہ میں ہوتاہے مگر اعراض کا مقصد خود اپنے آپ کو بے فائدہ ٹکراؤ سے بچانا ہے۔ اعراض کا مقصد یہ ہے کہ اپنے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھا جائے۔
قرآن کی سورہ الانفال میںارشاد ہوا ہے کہ : وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: وَاعْلَمْ أنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (مسند احمد، حديث نمبر 2803) یعنی جان لو کہ بے شک ناپسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں تمہارے لیے بہت بھلائی ہے۔ اور کامیابی صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی مشقت کے ساتھ ہے۔ اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کے سامنے مشکل حالات آئیں یا اُس کو کوئی تلخ تجربہ پیش آئے تو وہ گھبرا اُٹھتا ہے اور بعض اوقات تشدد پر اُتر آتا ہے۔ مگر اس قسم کا ردِّ عمل فطرت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کا قانون ہمیشہ اُن لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو حق اور انصاف پر ہوں۔ حق پرست فرد یا گروہ اگر جلد بازی نہ کرے اور صبر سے کام لے تو کامیابی اپنے آپ اُس کی
طرف چلی آتی ہے۔
بیشتر حالات میں ناکامی اُن لوگوں کے حصہ میںآتی ہے جو جلد بازی سے کام لیں اور قبل از وقت پُر جوش اقدام کر بیٹھیں۔ اس کے برعکس جو لوگ صبر کا طریقہ اختیار کریں اُن کے لیے ہمیشہ ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اُن کو کامیابی کی منزل تک پہنچا دیں۔
قرآن کے مطابق، صبر کا اُلٹا عجلت ہے (الاحقاف ،
قرآن کی سورہ الحج میں خدانے ارشاد فرمایا ہے:فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ (
اس آیت میں نزاع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اُنہیں نزاع کا موقع نہ دو۔ یعنی جب بھی تمہارے اور فریقِ ثانی کے درمیان کوئی اختلافی بات پیش آئے تواُس کو پُر امن بات چیت کے دائرہ میں محدود رکھو۔ ایسا ہر گز نہ ہونے دو کہ اختلاف اپنی ابتدائی حد سے گذر کر عملی نزاع بن جائے۔ اور متشددانہ مقابلہ آرائی کی نوبت آجائے۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی بات پر دو فریقوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ تناؤ بذات خود ایک فطری چیز ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہرمقام پر پیدا ہوگا۔ اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اس تناؤ یا اس اختلاف کو حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اختلاف کا امن کے دائرہ میں رہنا اُس کا حد کے اندر رہنا ہے۔ اختلاف کا عملی ٹکراؤ یا تشدد کے دائرہ میں پہنچ جانااُس کاحد سے تجاوز کرنا ہے۔ حد کے اندر کوئی بھی اختلاف بُرا نہیں، مگر حد کے باہر چلے جانے کے بعد ہر اختلاف بُرا بن جاتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں با مقصد انسان کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ایک انسان جو ایک سنجیدہ مقصد کے لیے اُٹھا ہو، اُس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے اور دوسروں کے درمیان صرف وہی چیز زیر بحث آئے جو کہ اس کا اصل مقصد ہے۔ دونوں کے درمیان کسی اور چیز کا زیر بحث آنا بامقصد انسان کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں کے درمیان عدم نزاع کی یہ فضا کیسے قائم ہو۔ جواب یہ ہے کہ یہ فضا صرف اُس انسان کے یک طرفہ صبر کے ذریعہ قائم ہوسکتی ہے جو ایک مثبت مقصد اپنے ساتھ لے کر اُٹھتا ہے۔ عملی اعتبار سے اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ بامقصد انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان معتدل ماحول قائم رکھے۔ تاکہ اُس کا سفر کسی توقف کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
قرآن کی سورہ الحج میںارشاد ہوا ہے :أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (
قرآن کی یہ آیت صرف ایک آیت نہیں وہ ایک بین اقوامی قانون کا بیان ہے۔ اس میں یہ بات طے کردی گئی ہے کہ جائز جنگ صرف وہ ہے جو واضح جارحیت کے مقابلہ میںدفاع کے طورپر لڑی جائے ۔ جنگ کی ہر دوسری قسم ظلم کی حیثیت رکھتی ہے اور ظالموں کے لیے خدا کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ اس آیت کے مطابق، دفاعی جنگ کے سوا کسی اور جنگ کے حق میں کوئی وجہِ جواز نہیں۔
قرآن کے مطابق، دفاعی جنگ بھی صرف اعلان کے ساتھ لڑی جاسکتی ہے، بلا اعلان نہیں۔ مزید یہ کہ دفاعی جنگ بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت لڑسکتی ہے۔ غیر حکومتی افراد کو کسی بھی عذر کی بنا پر لڑائی چھیڑنے کی اجازت نہیں۔ ان تعلیمات کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کے مقرر کیے ہوئے قانونِ جنگ کے مطابق، مجبورانہ نوعیت کی دفاعی جنگ کے سوا ہر جنگ ناجائز ہے— مثلاً گوریلا وار، پراکسی وار، بلا اعلان وار اور جارحانہ وار، یہ سب کی سب بلاشبہ اسلام میں ناجائز ہیں۔
جنگ ایک حیوانی فعل ہے، جنگ کوئی انسانی فعل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے ابدی قانون کے مطابق، امن ایک عموم (rule) ہے، اور جنگ صرف ایک استثنا (exception) ۔ امن ہر حال میں ایک قابل اختیار چیز ہے، جب کہ جنگ صرف شدید ضرورت کے وقت اپنے بچاؤ کے لیے اختیار کی جاتی ہے، وہ بھی اُس وقت جب کہ ٹکراؤ سے اعراض کی تمام پُر امن تدبیریں ناکام ہوگئی ہوں۔
قرآن کی سورہ الانفال میںکہاگیا ہے کہ:وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (
صابرانہ طریقِ کار کو دوسرے لفظوں میں پُر امن طریقِ کار کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقِ کار متشدادانہ طریقِ کار ہے۔ مذکورہ آیت فطرت کے اس قانون کو بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں جو لوگ پُر امن طریقِ کار اختیار کریں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے تمام اسباب اُن کی حمایت میں مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ متشددانہ طریقِ کار اختیار کریں وہ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجاتے ہیں، اور جو لوگ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجائیں اُن کے لیے خدا کی اس دنیا میں ناکامی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔
صبر کے طریقہ کا مطلب کیا ہے۔ صبر کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ناخوش گوار باتوں پر اپنی برداشت نہ کھوئے۔ تاکہ اس کی مثبت سوچ درہم برہم نہ ہونے پائے۔ وہ ممکن اور ناممکن میں فرق کرے اور ممکن کواپنا نقطۂ آغاز بنائے۔ وہ اچانک انجام کا خواہش مند نہ ہو بلکہ تدریج کا انداز اختیار کرے۔ وہ نقصان پر مایوس نہ ہو بلکہ مستقبل کے پیش نظر اپنا عمل جاری رکھے۔ جو کچھ آج ملنے والا ہے اُس کو وہ آج حاصل کرے اور جو کچھ کل ملنے والاہے اُس کے لیے وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ اپنی خواہش کو فطرت کے قانون کے ماتحت رکھے، نہ کہ فطرت کے قانون کو اپنی خواہش کے ماتحت بنانے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے، صبر کوئی
سلبی یا انفعالی روش نہیں۔
قرآن کی سورہ الفرقان میںاہل حق کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ :وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (
جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ایک کتاب ہے، ایک نظریاتی کتاب۔ وہ کوئی تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ قرآن کے افکار کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ قرآن کے پیغام کو پُر امن انداز میں لوگوں کے درمیان عام کرو۔ قرآن کے نظریات کو مدلّل انداز میں بیان کرکے اُس کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بناؤ۔
اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اسلام میںجس چیز کو جہاد کہا گیا ہے وہ پُر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے، اُس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد کا لفظ عربی زبان میں مبالغہ آمیز کوشش کے لیے بولا جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ محنت کرنا۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی آخری کوشش صرف کردینا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پُرتشدد کوشش کے مقابلہ میں پُر امن کوشش زیادہ عظیم ہے۔ کوئی آدمی جب متشددانہ طریقِ کار اختیار کرے تو کوشش کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ پرامن طریقِ کار اختیار کرے تو اُس کا دائرہ کار لامحدودحد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ متشددانہ طریقِ کار میں صرف تلوار یا گن کار آمد ہے لیکن پُر امن طریقِ کار میں ہر چیز آدمی کے لیے ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی ہے، حتیٰ کہ بند کمرہ میں استعمال ہونے والا ایک قلم بھی۔
قرآن کی سورہ فصلت میں ارشاد ہوا ہے: بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میںاور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک راز بتایا گیا ہے— وہ راز یہ ہے کہ ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو۔ اور پھر یہ معجزاتی واقعہ پیش آئے گا کہ جو آدمی بظاہر تمہارا دشمن دکھائی دیتا تھا وہ تمہارا قریبی دوست بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دشمنی کوئی فطری چیز نہیں، وہ ایک مصنوعی رد عمل ہے۔ جب بھی کسی وجہ سے کوئی شخص بظاہر تمہارا دشمن بن جائے تو تم اُس کے ساتھ رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرتے ہوئے اُس کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی کوشش کرو، خواہ یہ بہتر سلوک تم کو مفروضہ دشمن کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود یک طرفہ بنیاد پر کرنا پڑے۔
تمہارا یک طرفہ سلوک یہ کرے گا کہ وہ دشمن کے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات کو دبا دے گا۔ تمہارا یک طرفہ سلوک دشمن کی سوئی ہوئی انسانیت کو جگا کر اُس کو ایک نیا انسان بنادے گا۔ اور یہ نیا انسان وہی ہوگا جس کو قرآن میں قریبی دوست کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا آدمی ایک ہی مشترک فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی پہلے مسٹر نیچر ہے، اُس کے بعد وہ مسٹر دشمن یا مسٹر دوست بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ ہیں وہی آپ کا مفروضہ دشمن بھی ہے۔ اور جو آپ کا مفروضہ دشمن ہے وہی خود آپ بھی ہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ بظاہر دشمنی کے باوجود وہ فریقِ ثانی کے اندر اپنے مشترک انسان کو تلاش کرے۔ وہ دوسروں سے بھی وہی اُمید رکھے جو امید وہ اپنے آپ سے کیے ہوئے ہے۔
قرآن کی سورہ الشوریٰ میں کہا گیا ہے کہ: جو مصیبت بھی تمہارے اوپر پڑتی ہے وہ صرف تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے(
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا اسباب و علل کے اصول پر قائم ہے۔ جیسے اسباب ویسا نتیجہ ۔ یہ آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ کسی آدمی پر جب بھی کوئی مصیبت پڑے تو اُس کو چاہیے کہ اُس کا سبب وہ خود اپنے اندر دریافت کرے، نہ کہ وہ اپنے سے باہر اس کا
سبب تلاش کرنے لگے۔
زندگی کی یہ حقیقت جس آدمی کے ذہن میں بیٹھ جائے وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کسی کو اپنی مصیبت کا ذمہ دار بتاکر اُس کے خلاف تشددکا معاملہ کرنے لگے۔ اس کے بجائے وہ صرف یہ کرے گا کہ بے لاگ طورپر اپنی زندگی کاجائزہ لے گا۔ وہ خود اپنی غلطیوں کو دریافت کرے گا تاکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے وہ مصیبت کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ مصیبت کا حوالہ دے کر دوسرے کے خلاف کارروائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مریض اپنے مرض کا ذمہ دار اپنے پڑوسی کو بتا کر اُس سے لڑنے لگے۔
ایک شہر جہاں کا ٹریفک ضابطہ دائیں چلو(keep right) کے اصول پر قائم ہو، وہاں اگر کوئی شخص بائیں چلو (keep left) کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑانے لگے تو یقینی طورپر اُس کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوجائے گی۔
یہ حادثہ اگر چہ بظاہر فریقِ ثانی کی گاڑی کے ٹکرانے سے پیش آیا ہوگا مگرآپ یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ فریقِ ثانی نے ٹکر مار کر آپ کو زخمی کردیا۔ اس کے برعکس صحیح طورپر آپ کو صرف یہ کہنا چاہیے کہ میں غلط رُخ پر چل رہا تھا اور فریقِ ثانی کی گاڑی صحیح رخ پر۔ اس لیے فریق ثانی کی گاڑی میری گاڑی سے ٹکرا گئی۔
یہی معاملہ زندگی کے دوسرے تمام پہلوؤں کا بھی ہے۔ آپ کو جب بھی اپنی زندگی میں کسی نقصان سے دوچار ہونا پڑے تو پیشگی طورپر یہ سمجھ لیجیے کہ جو کچھ ہوا وہ خود آپ کی غلطی کی بنا پر ہوا۔ یہی زندگی کے معاملات میں صحیح سوچ ہے۔ اگر آپ صحیح انداز میں سوچیں تو آپ اپنی اصلاح کرکے اپنے مستقبل کو بچالیں گے۔ اور اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دیتے رہیں تو آپ اپنے مستقبل کو بھی برباد کریں گے، اور آپ کا ماضی اور حال تو پہلے ہی برباد ہوچکا ہے۔
قرآن کی سورہ الشوریٰ میں سچے انسانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: وَإِذَا مَا
غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (
اس کا مطلب سادہ طورپر صرف غصہ کو معاف کرنا یا اُس کو بھلا دینا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب غصہ کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملہ کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ دلانے کے باوجود آدمی بے غصہ ہو کر سوچے۔ وہ غصہ سے متاثر ہوئے بغیر اس کا جواب دے۔
غصہ ایک کمزوری ہے، اور غصہ نہ کرنا ایک طاقت ہے۔ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو وہ ہر صورت حال کو مینیج کرسکتاہے۔ وہ ہر معاملہ کو اپنے موافق بنا سکتا ہے۔ غصہ آدمی کی عقل کو مختل کردیتا ہے۔ ایسا آدمی صورت معاملہ کو نہ تو صحیح طورپر سمجھ سکتا ہے اور نہ صحیح طورپر اُس کا جواب دے سکتا ہے۔ کوئی آدمی غصہ ہوجائے تو فوراً وہ تشدد کی طرف جاتا ہے۔ حالاں کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ اور جو آدمی اپنے غصہ کو قابو میں رکھے، وہ مسئلہ کا پُر امن حل تلاش کرے گا۔ اور پُر امن حل ہی کسی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔
انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کی بھر پور صلاحیتوں کواپنے حق میںاستعمال کرے۔ مگر آدمی جب غصہ ہو جائے تو اُس کے ذہن کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی ذہنی صلاحیت کو بھر پور طورپر اپنے حق میںاستعمال کرے۔ غصہ نہ ہونا جیت ہے، اورغصہ ہونا اُس کے مقابلہ میں ہار۔
قرآن کی سورہ العصر میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو گھاٹے سے بچتے ہیں اور کامیاب زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (
جب بھی کوئی آدمی سچائی کے راستہ پر قائم ہوتا ہے یا لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتا ہے تو ہمیشہ ایساہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اُس کے مخالف بن جاتے ہیں۔ اُس کو لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت میں حق پرست آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کرے، وہ پیش آنے والی مشکلات کو اپنے اوپر سہے، وہ اُن کودوسروں کے اوپر انڈیلنے کی کوشش نہ کرے۔
صبر غیر جارحانہ طریقہ کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق پرست آدمی کو چاہیے کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں جوابی تشدد نہ کرے۔ وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو پُر امن طریقِ کار کا پابند بنائے۔ اسی روش کا دوسرا نام صبر ہے۔
حق اور تشدد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جو آدمی حق کو لینا چاہے تو اُس کو تشدد کو چھوڑنا پڑے گا۔ تشدد، خواہ کسی بھی عذر کی بنا پر استعمال کیا جائے، وہ تشدد ہے۔ ہر تشدد یکساں طورپر تباہ کُن ہے۔ کوئی خوب صورت عذر تشدد کو اُس کے تباہ کن اثرات سے بچا نہیں سکتا۔
حق کے حصول کے نام پر تشدد کرنا خود حق کی نفی ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر تشدد کریں وہ اپنے بارے میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُن کا کیس حق کا کیس نہیں۔ حق پسند آدمی کبھی تشدد پسند نہیں ہوسکتا۔ جو آدمی تشدد کو پسند کرے وہ یقینی طورپر حق پسند نہیں، خواہ وہ بطور خود اپنے آپ کو حق کا چیمپین کیوں نہ سمجھتا ہو۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کوئی چیز آدمی کو اُسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اُس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ ضروری قیمت ادا کیے بغیر اس دنیا میں کسی کو اپنی مطلوب چیز نہیں ملتی۔ یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ امن کی بھی ایک قیمت ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اُسی وقت امن کو حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ اس کی مطلوب قیمت ادا کرے۔ امن کی یہ قیمت نقصان کو برداشت کرنا ہے۔
یہ حقیقت قرآن کی سورہالبقرہ میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (
قرآن کی اس آیت میں زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا کانظام جس قانون کے تحت بنا ہے، اُس کے مطابق، ایسا ہونا ضروری ہے کہ لوگوں کو مختلف قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔ کبھی انہیں دوسروں کی طرف سے چیلنج پیش آئے، کبھی انہیں اقتصادی تنگی کا شکار ہونا پڑے، کبھی اُنہیں ملک ومال میں کمی کا تجربہ ہو، کبھی وہ کسی حادثہ کا شکار ہوجائیں، کبھی وہ کسی ایسے فائدے سے محروم ہوجائیں جس کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے، وغیرہ۔
اس قسم کے ناخوش گوار تجربات عین فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں ہر ایک کو کبھی نہ کبھی پیش آئیں گے۔ ایسی حالت میں لوگ اگر نقصان کو برداشت نہ کریں تو اسی کے نتیجہ کا نام تشدد ہے۔ اوراگر وہ اس کو برداشت کرلیں تو اسی کے نتیجہ کا نام امن ہے۔
نقصان پیش آنے پر صبر اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا کوئی پسپائی کی بات نہیں۔ یہ ہمت و حوصلہ کی بات ہے۔ یہ حقیقتِ واقعہ کو اختیارانہ طورپر تسلیم کرنا ہے۔ اس کا مطلب، ایک چیز کھونے کے بعد یہ یقین رکھنا ہے کہ بہت سی دوسری چیزیں اب بھی اُس کے پاس موجود ہیں جن کے سہارے وہ ازسرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے۔
صبر و برداشت کا فائدہ یہ ہے کہ چیز کو کھونے کے باوجود آدمی اپنے اعتدال کو نہیں کھوتا۔ وہ وقتی ناکامی کے باوجود اپنی اس صلاحیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ صورت حال پر معتدل انداز میں غور کرے۔ وہ معاملہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ازسرِ نو اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ وہ کھوئے ہوئے کو بھلا کر باقی رہنے والی چیزوں کی بنیاد پر دوبارہ اپنے کام کو منظّم کرے۔ وہ مایوسی کے بجائے تدبیر سے کام لے کر پھر سے زندگی کا سفر شروع کردے۔
موجودہ دنیا کی ایک صفت یہ ہے کہ یہاں ہر شام کے بعد دوبارہ صبح طلوع ہوتی ہے۔ دنیا امکانات ومواقع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاںایک موقع کھونے کے بعد آدمی کو دوسرا موقع مل جاتا ہے۔ ایک زینہ سے محرومی کے بعد اُس کے لیے دوسرے زینہ کے دروازے کھُل جاتے ہیں۔ اس طرح اس دنیا میں بار بار یہ امکان موجود رہتا ہے کہ ایک نقشہ ٹوٹنے کے بعدآدمی دوسرے نقشہ کو
استعمال کرکے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کرلے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر بُری خبر کے ساتھ ایک اچھی خبر شامل رہتی ہے۔ ہر حادثہ آدمی کوخاموش زبان میں یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تم مایوس اور بد دل نہ ہو۔ بلکہ ہمت سے کام لے کر نئے مواقع کی تلاش کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو فطرت کا نظام پیشگی طورپر تم کو یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تمہاری محرومی مستقل محرومی نہیںبنے گی۔ جلد ہی تم اپنے لیے ایک نئی اور زیادہ بہتر دنیا کی تعمیر کرلوگے۔ جلد ہی تمہاری شکست ایک نئی قسم کا رہنما ثابت ہوگی۔
جو لوگ نقصان کو برداشت نہ کریں، وہ منفی سوچ کا شکار ہوکر اپنی زندگی کوایک بوجھ بنالیتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ صبراور ہمت سے کام لیں وہ ماضی کے کھنڈر پر اپنے لیے ایک نیا محل تعمیر کرلیتے ہیں۔ وہ ایک شام کے بعد دوبارہ اپنے لیے ایک نئی صبح تلاش کرلیتے ہیں جس کی روشنی میں وہ اپنا سفر رُکے بغیر جاری رکھ سکیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش کی جارحیت کے نتیجہ میں، قریش اور مسلمانوں کے درمیان حالتِ جنگ قائم ہوگئی تھی۔ اس موقع پر جو احکام قرآن میںدیے گئے اُن میں سے ایک حکم یہ تھا:وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ،وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ (
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں امن آخری حد تک مطلوب ہے۔ حتیٰ کہ اگر رسک(risk)لے کر امن قائم ہوتا ہو تو رسک لے کر بھی امن قائم کیا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کی اس آیت میںتعلیم دی گئی ہے۔ حالت جنگ کے دوران اگر فریقِ ثانی صلح کی پیش کش کرے تو بلا تاخیر اُس کو قبول کرلینا چاہیے۔ بالفرض اگر یہ اندیشہ ہو کہ صُلح کی اس پیش کش میںکوئی دھوکہ چھپا ہوا
ہے تب بھی اس اعتماد پر فریقِ ثانی سے صُلح کی جائے گی کہ خدا ہمیشہ امن پسندوں کے ساتھ ہوتا ہے، نہ کہ فریب دینے والوں کے ساتھ۔
اس سے مزید یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیا میںامن ہمیشہ وہ لوگ قائم کرتے ہیں جو اعلیٰ حوصلہ کے مالک ہوں۔ موجودہ دنیا میںہمیشہ ایک اور دوسرے فریق کے درمیان مسائل موجودرہتے ہیں۔ ہمیشہ حقوق اور بے انصافی کے مسائل پائے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہی لوگ امن قائم کرسکتے ہیں جو ہر دوسرے تقاضہ سے بُلند ہوکر سوچیں، جوکسی بھی چیز کو عذر نہ بنائیں۔ صرف ایسے باحوصلہ لوگ ہی دنیا میں امن قائم کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے اندر یہ حوصلہ نہ ہو وہ صرف لڑتے رہیں گے، وہ امن کی تاریخ نہیں بناسکتے۔
قرآن کی سورہ طٰہ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بتایا گیا ہے: وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى(
اصل یہ ہے کہ زندگی کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی مادی دنیا کو اپنا نشانہ بنائے۔ وہ ملک و مال میںاپنی کامیابی تلاش کرے۔ ان چیزوں میںہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہی مادّی چیزیں ہیںجن میں چھین جھپٹ کا معاملہ چلتا رہتا ہے۔ اس لیے جو لوگ مادیّات میں جیتے ہوں وہ یکسرحق تلفی یا محرومی کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔ یہ احساس بار بار حسد اور انتقام اور تشدد کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔
زندگی کی دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی یافت (achievement) کے احساس میں جیتا ہو۔ ایسا آدمی اپنے آپ میں مطمئن ہوگا۔ اُس کے اندر پانے کا احساس اُس کو اس سے بچائے گا کہ وہ
دوسروں کے خلاف نفرت کرے یا اُن کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائے۔
یافت کا یہ احساس کن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کے الفاظ میں، رزق رب مل رہاہو۔ رزق رب سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو یہ یقین حاصل ہوکہ اُس نے سچائی کو پالیا ہے۔ اُس نے اس حقیقت کو دریافت کیاہو کہ خالق نے اُس کو جو وجود دیا ہے وہ سونے چاندی کے تمام ذخیروں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ اس طرح بیدار ذہن کے ساتھ دنیا میں رہے کہ پوری کائنات اُس کے لیے فکری اور روحانی خوراک کا دستر خوان بن جائے۔
جو آدمی دنیا سے اس طرح کا رزقِ رب پارہا ہو وہ اتنا زیادہ اوپر اُٹھ جاتا ہے کہ ملک و مال جیسی چیزیں اُس کے لیے حقیر بن جاتی ہیں۔ اُس کی یہ نفسیات اپنے آپ اُس کو امن پسند بنادیتی ہے۔ نفرت اور تشدد جیسی چیزیں اُس کو اتنا زیادہ بے معنٰی معلوم ہونے لگتی ہیں کہ اُس کے پاس اس کا وقت نہیں رہتا کہ وہ کسی کے خلاف نفرت کرے یا کسی کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائے—جس آدمی کو زیادہ بڑی چیز مل جائے وہ کبھی چھوٹی چیز کی طرف نہیں دوڑے گا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر سے اُس کی قوم نے کہا:وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ (
قدیم زمانہ میں جب کہ جدید طرز کا حکومتی نظام موجود نہ تھا لوگ قبائل کی حمایت میں رہا کرتے تھے۔ قبائلی روایات کے مطابق، ہر قبیلہ اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنے افراد کا تحفظ کرے۔ قدیم زمانہ میں یہی قبائلی روایت پیغمبروں کے لیے محافظ قوت بنی رہی۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہاشم کے سردار ابو طالب کی طرف سے یہ منعہ حاصل تھا۔ ابو طالب اگر چہ آخر
وقت تک ایمان نہیں لائے مگر وہ قبائلی روایات کی بنا پر، پیغمبر اسلام کے مخالفین کے مقابلہ میںآپ کے لیے منعہ(محافظ قوت) بنے رہے۔ (ديكھيے، السيرة النبوية لابن هشام، جلد 1، ص
موجودہ زمانہ میں قبائلی نظام ختم ہوچکا ہے۔ مگر جدید تصور ریاست کے تحت سیکولر نظام اہل ایمان اوراہل دعوت کو یہی منعہ فراہم کر رہا ہے۔ موجودہ زمانہ کی سیکولر حکومت اپنے ہر شہری کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے مانے اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے، اُس کو کوئی روک نہیں سکتا، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اہل مذہب یا اہل دعوت کسی کے خلاف تشدد نہ کریں۔
پیغمبروں کو قدیم زمانہ میں جو منعہ ملا وہ قبائلی منعہ تھا، نہ کہ اسلامی منعہ۔ اس کے باوجود پیغمبروں نے اُس کو قبول کیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو منعہ ملا وہ بھی سیکولر منعہ ہے، نہ کہ اسلامی منعہ۔ پیغمبروں کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کوچاہیے تھا کہ وہ اس منعہ کو قبول کرتے ہوئے اس کے ماتحت پُر امن طورپر دعوت کا کام کریں۔ مگر ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے سیکولرزم کو لادینیت قرار دے کر اُس کے خلاف لفظی اورعملی لڑائی چھیڑ دی۔ اس طرح وہ غیر ضروری طورپر سیکولرزم کے حریف بن گئے۔ سیکولر نظام کے تحت ملا ہوا قیمتی منعہ استعمال ہونے سے رہ گیا۔
قرآن کی سورہ الأنبیاء میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا ساری دنیا کے انسانوں کے لیے خدا کی رحمت کا ظہور تھا۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے وہ اصول بتائے جن کو اختیار کرکے انسان ’دارالسلام‘ (یونس،
نفرت اورتشدد سے بچـتے ہوئے اپنے لیے ایک صحت مند زندگی کی تعمیر کرسکے۔ آپ کے ذریعہ دنیا میں وہ انقلاب آیا جس نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ٹکراؤ اور جنگ سے بچتے ہوئے انسان ایک پُرامن سماج بنا سکے۔
پیغمبر اسلام کو اگر چہ مجبور کن حالات میں بعض ایسی لڑائیاں لڑنی پڑیں جواتنی چھوٹی تھیں کہ اُن کو جنگ کے بجائے جھڑپ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ پیغمبر اسلام نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا جس کو بجاطورپر غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے امن کو مکمل نظریۂ حیات کی حیثیت دی۔ آپ نے بتایا کہ تشددتخریب کا ذریعہ ہے اورامن تعمیر کا ذریعہ۔ آپ نے صبر کو سب سے بڑی عبادت بتایا جس کا مطلب مکمل طورپر امن کی روش پر قائم رہنا ہے۔ آپ نے فساد کو سب سے بڑا جرم بتایا جس کا مطلب فطرت کے پُر امن نظام کو درہم برہم کرنا ہے۔ آپ نے امن کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ ایک انسان کے قتل کوسارے انسانوں کے قتل کے برابر قرار دیا۔
ملاقات میں السلام علیکم کہنے کو رواج دینا ، اس کا مطلب یہ تھا کہ باہمی تعلقات کی بنیاد امن و سلامتی پر ہے۔ آپ نے آخرت کی کامیابی کو انسانی جدوجہد کی منزل بتایا، اس طرح آپ نے دنیوی ترقی کو نشانہ بنانے کی جڑ کاٹ دی جس کی وجہ سے ٹکراؤ اور تشدد کی تمام صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ آپ نے انسان کے لیے بہتر زندگی کا یہ فارمولا دیا — لوگوں کو نفع دینے والے بنو، اور اگر تم نفع نہیںدے سکتے ہو تو لوگوں کے لیے بے ضرر(harmless) بن جاؤ۔ آپ نے بتایا کہ کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھو۔ تم دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو، پھر تم کو معلوم ہوگا کہ ہر دشمن امکانی طورپر (potentially) تمہارا دوست تھا۔ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا تھا۔
ملّا علی قاری مشہور عالم اور فقیہ ہیں۔ اُن کا پورا نام یہ ہے: علی بن (سلطان) محمد، نورالدین الملّا الہروی القاری۔ ملّا علی قاری ہرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وفات
میں ہوئی۔ انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ (الأعلام للزرکلی، جلد5، صفحہ
ملاّ علی قاری کی ایک کتاب کانام مرقاۃ المفاتیح ہے جو مشکاۃ المصابیح کی شرح میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاری کتاب الجہاد کے تحت لکھتے ہیں کہ جہاد کے لفظ میں لغوی طورپر جدوجہد اور مشقت کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:ثُمَّ غَلَبَ فِي الْإِسْلَامِ عَلَى قِتَالِ الْكُفَّارِ(جلد
ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتاہے اور دوسرا استعمالی مفہوم۔ یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کالفظ جہد سے نکلا ہے۔ لغوی طورپر اس کے معنیٰ کوشش کے ہیں۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ استعمال میں یہ لفظ مختلف قسم کی جدوجہد کے لیے لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اُنہی میںسے ایک جنگ بھی ہے، تاہم اس کا استعمال صرف اس استثنائی جنگ کے لیے خاص ہے جو فی سبیل اللہ کی گئی ہو، ملک و مال کے لیے جو جنگ کی جائے اُس کو جہاد نہیں کہا جائے گا۔
قرآن میںاس سلسلہ میں دو مختلف لفظ استعمال کیے گئے ہیں— جہاد اور قتال۔ جب پُرامن جدوجہد مراد ہو تو وہاں قرآن میں جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کے ذریعہ پُر امن دعوتی جدوجہد (الفرقان،
اپنے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے جہاد ایک پُر امن عمل کا نام ہے، نہ کہ متشددانہ عمل کا نام۔ جہاد کا عمل انسان کو ذہنی اور روحانی طورپر بدلنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کو قتل کرنے کے لیے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی حد تک ایک امن پسند آدمی تھے۔ آپ کے مخالفین
نے بار بار آپ کو لڑائی میں الجھانا چاہا مگر ہر بار آپ اعراض کرکے لڑائی سے بچتے رہے۔ تاہم چند بار یک طرفہ جارحیت کی بنا پر آپ کو وقتی طورپر دفاعی جنگ کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ انہی چند دفاعی جنگوں میں سے ایک بدر کا غزوہ ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عین اُس وقت جب کہ دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں، پیغمبر اسلام کے پاس خدا کا فرشتہ آیا۔ اُس نے کہا کہ اے محمد ، اللہ نے آپ کو سلام (سلامتی) کا پیغام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا: ہو السلام ومنہ السلام والیہ السلام۔ (البداية والنهاية لابن كثير، جلد 3، ص
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عین لڑائی کے وقت بھی پیغمبر اسلام ایک امن پسندانسان بنے ہوئے تھے۔ اُس ہنگامی وقت میں بھی ایسا نہ تھا کہ آپ کا ذہن نفرت اور تشدد سے بھر جائے بلکہ اُس وقت بھی آپ امن اور سلامتی کی اصطلاحوں میںسوچتے ـتھے، اُ س وقت بھی آپ کا دل اس آرزو سے تڑپ رہا تھا کہ اللہ کی مدد سے وہ دنیا میں امن اورسلامتی کا ماحول قائم کر سکیں۔ سچا انسان وہ ہے جو جنگ کے وقت بھی امن کی بات سوچے، جو لڑائی کے ہنگاموں میں بھی سلامتی کا جذبہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہو۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ مثبت سوچ (positive thinking) کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، جنگ تمام منفی واقعات میں سب سے بڑا منفی واقعہ ہے۔ پیغمبر عین اس کے کنارے کھڑا ہوا ہے مگر اُس کی زبان سے خون اور تشدد کے بجائے امن اور سلامتی کے الفاظ نکل رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ اعلیٰ ترین انسانی صفت ہے۔ اعلیٰ انسان وہ ہے جو تشدد کے درمیان بھی امن کی بات سوچے، جو جنگ کے حالات میں بھی صُلح کامنصوبہ بنائے۔
قرآن میںاللہ کے مختلف نام (یا صفات) بتائے گئے ہیں۔ اُن میں سے ایک السلام ہے، یعنی سلامتی۔ گویا خدا خود سلامتی کا مظہر ہے، خدا خود سلامتی کا پیکر ہے۔ خدا کو امن و سلامتی اتنا زیادہ
پسند ہے کہ اُس نے اپنا ایک نام السلام رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میںابوسلیمان الخطابی نے لکھا ہے :هُوَ الذِي سلِمَ الخَلْقُ منْ ظُلْمِه (شان الدعاء للخطابي، ص
خدا کی حیثیت اعلیٰ ترین معیار کی ہے۔ جب خداکا برتاؤ انسانوں سے امن اور سلامتی پر مبنی ہو توانسانوں کو بھی دوسرے انسانوں کے ساتھ اسی برتاؤ کا معاملہ کرنا چائیے۔ ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ امن وسلامتی کا برتاؤ کرنا چاہیے، نہ کہ اس کے خلاف سختی اور تشدد کا۔
ایک حدیث کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ (صحيح البخاري، حديث نمبر 6114؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2609)۔ یعنی طاقت ور وہ نہیں ہے جو کُشتی میں لوگوں کو پچھاڑ دے۔ طاقتور صرف وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔
غصہ کے وقت غصہ کو روکنا سلف کنٹرول (self control) کی علامت ہے۔ اور سلف کنٹرول بلاشبہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایسے موقع پر سلف کنٹرول آدمی کو غلط کارروائیوں سے بچاتا ہے۔ اورجس آدمی کے اندر سلف کنٹرول کی طاقت نہ ہو، وہ غصہ کے وقت بپھر اُٹھے گا، یہاں تک کہ وہ متشددانہ کارروائی کرنے لگے گا۔ غصہ کو قابو میں رکھناامن پسند انسان کا طریقہ ہے اور غصہ کے وقت بے قابو ہوجانا تشدد پسند انسان کا طریقہ۔
ایک آدمی کی لڑائی دوسرے آدمی سے ہو اور وہ اُس کو لڑائی میںپچھاڑ دے تو یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسرے آدمی کے مقابلہ میں پہلا آدمی جسمانی اعتبار سے زیادہ طاقتور تھا۔ مگر جسمانی طاقت ایک محدود طاقت ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس شخص کا یہ حال ہو کہ اُس کے اندرغصہ بھڑکے مگر وہ اپنے غصہ پر کنٹرول کرلے اور غصہ دلانے والے کے ساتھ معتدل اندازمیں
معاملہ کرے، ایسا آدمی زیادہ بڑی طاقت کا مالک ہے۔ اُس کی یہ روش اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عقل کی طاقت رکھتا ہے، اور عقل کی طاقت بلاشبہ جسم کی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے۔ ایسا آدمی اپنی دانش مندانہ منصوبہ کے ذریعہ ہرجنگ کو جیت سکتا ہے، بغیر اس کے کہ اُس نے ایک انسان کا بھی خون بہایا ہو۔
سماجی امن کا فارمولاکیا ہے اور کسی سماج میں معتدل حالات کو کس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے، اس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ مَن أیقظہا (كنز العمال، حديث نمبر 30891) یعنی فتنہ سویا ہوا ہے، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو سوئے ہوئے فتنہ کو جگائے۔
یہ سماجی امن کا ایک فطری فارمولا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اَنا(ego) کا جذبہ موجود ہے۔ اور اَنا کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کو چھیڑا جائے تو وہ بہت جلد بھڑک اٹھے گا اور فساد برپا کرے گا۔ مگر فطرت نے اس جذبہ کو ہر آدمی کے سینہ میںسُلا دیا ہے۔ وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر تخلیقی نظام کے تحت وہ خوابیدہ حالت میں ہے۔ ایسی حالت میںکسی سماج کو پُر امن سماج بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے سینے میں سوئی ہوئی انانیت کو سویا رہنے دیا جائے۔
سماجی امن کو وہی لوگ درہم برہم کرتے ہیں جن کی انانیت کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ اگر اَنانیت کو بھڑکانے سے بچا جائے تو سماج کا امن بھی تباہ نہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سماجی امن کا قیام خود آپ کے اپنے بس میں ہے، نہ کہ دوسروں کے بس میں۔ آپ اپنے مثبت رویہ سے دوسروں کی اَنا کو نہ چھیڑیے، اور پھر یقینی طورپر آپ اُن کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
حدیثوں میںمختلف انداز سے خاموشی کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من صمت نجا (سنن الترمذي، حديث نمبر 2501،
سنن الدارمي، حديث نمبر 2755؛ مسند احمد، حديث نمبر 6481) یعنی جو شخص چُپ رہا اُس نے نجات پائی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بولنا چھوڑ دے، وہ بالکل خاموش رہے۔ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آدمی خاموش رہ کر سوچے، وہ پہلے خاموش رہ کر معاملہ کو سمجھے، اس کے بعد وہ بولے۔ یہ بلاشبہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ اپنی تربیت کرکے یہ عادت ڈالے کہ وہ بولنے سے زیادہ خاموش رہے۔ وہ بولے تو اُس وقت بولے جب کہ وہ سوچنے کا کام کر چکا ہو۔
یہ تربیت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ روزانہ کے معمول کی بات چیت میںوہ بالقصد اپنے آپ کواس کا عادی بنائے۔ اگر آدمی اپنی روزمرہ کی معمولی بات چیت میں یہ عادت ڈال لے تو اپنی اس عادت کی بناپر وہ اس وقت بھی ایسا ہی کرے گا جب کہ خلاف معمول کوئی بات پیش آگئی ہو۔
عام طورپر لوگ یہ کرتے ہیں کہ جب اُن کے سامنے کوئی بات آتی ہے تو فوری طورپر اُس کا جو جواب اُن کے ذہن میں آتا ہے، اُس کو اپنی زبان سے بولنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے سوچنے کا عمل کیا جائے اور پھر اُس کے بعد بولنا شروع کیاجائے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ اس انجام سے بچ جائیں گے کہ وہ اپنے بولے ہوئے الفاظ پر پچھتائیں۔ وہ اپنے کہے ہوئے بول کو لوٹانا چاہیں، حالاںکہ کسی کا کہا ہوا بول دوبارہ اُس کی طرف لوٹنے والا نہیں۔
عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات سامنے آتی ہے تو آدمی بھڑک کر ناپسندیدہ انداز میں کلام کرنے لگتا ہے۔ اس سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ کی معمولی بات چیت میں آدمی اس کی عادت ڈالے کہ وہ پہلے سوچے اور پھر بولے۔ جب ایسا ہوگا کہ معمول کی بات چیت میںوہ بولنے سے پہلے سوچنے کا عادی ہو جائے گا تو وہ اپنی اس عادت کی بنا پر خلاف معمول بات چیت میں بھی اسی طریقہ پر کار بند رہے گا۔ عام بات چیت میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولنے کی عادت اُس کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ ہنگامی مواقع پر بھی اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولے، وہ ذہنی
ڈسپلن کے ساتھ بات چیت کرے۔
دنیا کے اکثر فتنے الفاظ کے فتنے ہیں۔ کچھ الفاظ نفرت اور تشدد کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے الفاظ امن اور انسانیت کا ماحول قائم کرتے ہیں۔ اگر آدمی صرف یہ کرے کہ وہ بولنے سـے پہلے سوچے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بولے تو بیشتر فتنے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے۔
اپنے آپ کو قابو میںرکھ کر کلام کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ یہ صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جو اپنے آپ پر نظر ثانی کرتے رہیں، جو اپنے قول و عمل کا حساب لیتے رہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی بات سُنے تو وہ فوراً اُس کا جواب نہ دے، وہ فوراً اپنا رد عمل پیش نہ کرے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے ٹھہر کر سوچے کہ کہنے والے نے کیا بات کہی ہے اور میری طرف سے اس کا بہتر جوا ب کیا ہوسکتا ہے۔ بات کو سن کر ایک لمحہ کے لیے ٹھہرنا اس بات کی یقینی ضمانت ہے کہ وہ سنی ہوئی بات کادرست جواب دے گا، وہ پتھر کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے پتھر کا جواب پھول سے دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدو،وسلوا اللہ العافیۃ(صحيح البخاري، حديث نمبر 2966)۔ یعنی دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، تم اللہ سے امن مانگو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر تمہارا دشمن بن جائے تو ایسا نہ کرو کہ تم بھی اُس کے دشمن بن کر اُس سے لڑناشروع کردو۔ بلکہ فریق ثانی کی دشمنی کے باوجود تم اُس کے ساتھ اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ دشمنی کے حالات کے باوجود تمہارا طریقہ لڑائی سے بچنے کاہونا چاہیے، نہ کہ اپنے آپ کو لڑائی میں پھنسالینے کا۔
اللہ سے امن مانگو— اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ٹکراؤ کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرو اور اپنی امن پسندانہ کوششوں کے ساتھ خدا کو بھی دعاؤں کے ذریعہ اُس میں شامل کرو۔ تمہاری دعا یہ نہیں ہونی چاہیے کہ خدایا، دشمن کو ہلاک کردے بلکہ یہ ہونی چاہیے کہ خدایا، مجھے توفیق دے کہ میں
لوگوں کی دشمنی کے باوجود تشد د اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کروں بلکہ امن کے راستہ پر اپنی زندگی کا سفر طے کرتارہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور تشدد کی حیثیت صرف ایک استثنا (exception) کی۔ مزید اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بظاہر کوئی شخص یا گروہ آپ کا دشمن ہو تواُس سے نپٹنے کی صرف یہی ایک شکل نہیں ہے کہ اُس سے مڈبھیڑ کی جائے۔ زیادہ بہتر اور مؤثر شکل یہ ہے کہ امن کی تدبیر سے دشمن کے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ امن کی طاقت تشدد کی طاقت کے مقابلہ میں، زیادہ کارگر بھی ہے اور زیادہ مفید بھی۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ َيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ(صحيح مسلم، حديث نمبر 2593؛ سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4807) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتاہے جو وہ سختی پر نہیں دتیا۔ یہ دراصل فطرت کے اُس قانون کا بیان ہے جو خُدا نے موجودہ دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اسی قانون کی بنا پر ایسا ہے کہ جب کوئی شخص نرمی اور عدم تشدد کے حدود میں رہ کر کام کرے تو اُس کا کام زیادہ نتیجہ خیز بن جاتا ہے۔ اور جو شخص سختی اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے اُس کا کام آگے بڑھنے کے بجائے اور پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص سختی اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے تو اُس کی کوششیں غیرضروری طورپر دو محاذوں میں بٹ جاتی ہیں۔ ایک محاذ، اپنی داخلی تعمیر کا۔ اور دوسرا محاذ، خارجی حریف سے لڑنے کا۔ اس کے برعکس جو شخص نرمی اور عدم تشدد کا طریقہ اختیار کرے، اُس کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تمام موجود طاقتوں کو صرف ایک محاذ، داخلی تعمیر کے محاذ پر لگائے، اور اُس کے فطری نتیجہ کے طورپر زیادہ بڑ ی ترقی حاصل کرلے۔
اس حدیث میں فطرت کے اس قانون کاذکر ہے جس پر ہماری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ اسی نظام کے تحت ملتاہے، اس کے بغیر نہیں۔ فطرت کا یہ نظام تمام تر
امن اور عدم تشدد کے اصول پر قائم ہے۔ اس لیے یہاں جب بھی کسی کو کچھ ملے گا، امن اورعدم تشدد کے اصول پر ملے گا، اُس سے انحراف کرکے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ فرمایا کہ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ، أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ اَمِيْرٍ جَائِرٍ(سنن الترمذي، حديث نمبر 2174، سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4344؛ سنن ابن ماجه، حديث نمبر 4011) یعنی ظالم حکمراں کے سامنے حق و عدل کی بات کہنا افضل جہاد ہے۔
دوسری طرف حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: مَنْ رَأَى مِنْ أَمِيرِهِ شَيْئًا فَكَرِهَهُ فَلْيَصْبِرْ (صحيح البخاري، حديث نمبر 7143؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 1849) یعنی جو شخص اپنے حاکم میںایسی چیز دیکھے جو اُس کو پسند نہ ہو تو وہ اُس پر صبر کرے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُك َ(صحيح مسلم، حديث نمبر 1847) یعنی تم اپنے حاکم کی بات سُنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑا مارے اور تمہارا مال چھین لے۔
ان حدیثوں میں بظاہر دو قسم کے احکام ہیں۔ ایک طرف یہ حکم ہے کہ تم اپنے حاکم میں کوئی غلط بات دیکھو تو کھُلے طورپر اُس کااعلان کرو۔ دوسری طرف حدیث یہ بتاتی ہے کہ امیر کے اندر تمہیں کوئی غلط بات دکھائی دے تو اُس پر صبرکرو، اگر وہ تمہارے اوپر ظلم کرے تب بھی تم اُس کو برداشت کرو۔
یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے جس سے دو چیزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ ہے، اعلان اور اقدام کا فرق۔ یہ ایک مطلوب بات ہے کہ آدمی حکمراں کے اندر کوئی غلط بات دیکھے تو وہ نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میںاُس کا اعلان کرے۔ مگر جہاں تک عملی اقدام کا تعلق ہے تو آدمی کو اُس سے مکمل طورپر باز رہنا چاہیے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ نصیحت اور ٹکراؤ کی سیاست میں فرق کرے۔ نصیحت کے جائز حق کو استعمال کرتے ہوئے وہ سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طورپر بچے۔
فرق کا یہ اصول بے حد اہم ہے۔ سماج میںجب بھی تشدد کا ماحول بنتا ہے، وہ اُس وقت بنتا
ہے جب کہ لوگ حکمراں کے خلاف عملی ٹکراؤ کی مہم شروع کردیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ لیکن اگر اس قسم کی نزاعی سیاست سے بچتے ہوئے صرف قولی نصیحت پر اکتفا کیا جائے تو ہمیشہ ایسا ہوگا کہ سماج میں امن قائم رہے گا، سماج کبھی بھی تشدد کا جنگل نہیں بنے گا۔
ایک روایت میںبتایا گیا ہے کہ معاملات میںپیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ، إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا(صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی معاملہ میں دو میں سے ایک طریقہ کا انتخاب کرناہوتا توآپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان ترکا انتخاب کرتے تھے۔
اختیار أیسر کے اس اصول کو اگر متشددانہ طریقِ کار اور پُر امن طریقِ کار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اُس سے نپٹنے کے لیے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار نہ کیا جائے بلکہ پُر امن طریقِ کار کواختیار کیا جائے۔ کیوں کہ متشددانہ طریقِ کار یقینی طورپر مشکل ہے اور پُر امن طریقِ کار یقینی طورپر آسان۔
تاہم یہ سادہ طورپر صرف آسان اور مشکل کا معاملہ نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں پُر امن طریقہ ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے اور متشددانہ طریقہ یقینی طورپر بے نتیجہ ہے۔ وہ مسئلہ کو حل نہیںکرتا البتہ اُس میں کچھ اور اضافہ کر کے اُس کو مزید پیچیدہ بنادیتا ہے۔ حدیث میںمشکل طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول مشکل ہو۔ اس کے مقابلہ میںآسان سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول آسان اور یقینی ہو۔
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس حدیث میں مومن، بالفاظ دیگر،
خداپرست انسان کی مثال خامہ سے دی گئی ہے۔ خامہ نرم پودے کو کہتے ہیں۔ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مومن کا حال نرم پودے کی طرح ہے۔ جب بھی ہوا کا کوئی جھونکا آتا ہے تو وہ اُس کے مطابق، جھک جاتا ہے۔ اورجب جھونکا چلا جائے تو وہ دوبارہ اُٹھ جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو بلا اور مصیبت سے بچا لیتا ہے (صحيح البخاري، حديث نمبر 5644؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2810)۔
اس حدیث کے مطابق، کسی طوفان کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اُس کے مقابلہ میںاکڑ دکھائی جائے۔ اوردوسرا طریقہ یہ ہے کہ اُس کے مقابلہ میں لچک کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مقابلہ کا ایک طریقہ متشددانہ طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ پُر امن طریقہ ۔ خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے طریقہ کو چھوڑ دیا جائے اور دوسرے طریقہ کو اختیار کیا جائے۔
طوفان کے مقابلہ میں جو لوگ اکڑ کا طریقہ اختیار کریں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ انانیت میںمبتلا ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امن کا طریقہ تواضع پر مبنی ہے۔ خدا کی اس دنیا میںاَنانیت کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے تباہی ہے اور تواضع کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے کامیابی۔ یہی بات حدیث میں ان الفاظ میںکہی گئی ہے: من تواضع رفعہ اللہ(مسند الشهاب، حديث نمبر
۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ: المؤمن من أمنہ الناس علی دمائہم واموالہم (سنن الترمذي، حديث نمبر 2627) یعنی مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے خون اور اپنے مال کے معاملہ میں مامون ہوں۔
کسی سماج میں رہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان امن کے ساتھ رہے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے لڑائی جھگڑا کرتا رہے۔ اس حدیث کے مطابق، ایمانی طریقہ یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے درمیان پُر امن شہری بن کر رہے۔ دوسروں کی جان اور مال اور
عزت کے لیے وہ مسئلہ نہ بنے۔ وہ کسی حال میں دوسروں کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
زندگی کا وہ طریقہ کیا ہے جس میں سماج کے افراد ایک دوسرے کی زیادتیوں سے محفوظ ہوں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ شکایت کے باوجود آدمی اپنی معتدل روش کو برقرار رکھے۔ دوسروں سے شکایت کو وہ اپنے سینے میں دفن کردے، وہ اپنے سینے کی آگ کو دوسروں کے اوپر انڈیلنے سے بچے۔ اسی قسم کا سماج وہ سماج ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے مامون رہ کر زندگی گذاریں۔ پُر امن سماج معیاری انسانی سماج ہے۔ اس کے برعکس جس سماج میںتشدد ہو وہ حیوانی سماج ہے، نہ کہ انسانی سماج۔
امن پسندی ایک اعلیٰ اخلاق ہے۔ اس کے مقابلہ میں تشدد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی انسانی اخلاق کی سطح سے گر کر حیوانی اخلاق کی سطح پر آگیا ہو۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أفضل العبادۃ انتظار الفرج (سنن الترمذي، حديث نمبر 3571)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرناایک افضل عبادت ہے۔
ہر فرد اور ہر گروہ پر ہمیشہ ایسے حالات آتے ہیںجن میں وہ اپنے آپ کو تنگی میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر بیشتر لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر تنگی کو ایک مستقل حالت سمجھ لیتے ہیں اوراُس کو فوراً اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے حالات سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ اس قسم کی لڑائی ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ تنگی پر کچھ اور مشکلات کا اضافہ کر لیا جائے۔
تنگی کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں آتی، وہ صرف وقتی طورپر آتی ہے۔ ایسی حالت میں تنگی کے مسئلہ کا آسان حل صرف یہ ہے کہ انتظار کی پالیسی اختیار کی جائے۔ یعنی غیر ضروری طورپر حالات سے لڑائی نہ چھیڑی جائے بلکہ سادہ طورپر انتظار کرو اور دیکھو(wait and see) کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کا ذہنی سکون برباد نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ اپنے آپ اپنے وقت پر ہو جائے گا۔
جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے توآدمی یہ چاہنے لگتا ہے کہ فوراً اُس کا حل نکل آئے۔ یہی اصل غلطی ہے۔ آدمی اگر پیش آئے ہوئے مسئلہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دے تو کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بعدکے جن حالات سے پیشگی طورپر آگاہ کیا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں مسلم امت دوسری قوموں کی زدمیں آجائے گی۔ چنانچہ فرمایا: يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا (سنن ابو داؤد، حديث نمبر 4297) یعنی قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو پکاریں جس طرح کھانا کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان پر پکارتے ہیں۔
قرائن بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پیش آیا۔ ابتداء ً یورپ کی نو آبادیاتی قوموں کے ذریعہ یہ واقعہ ہوا۔ اس کے بعد دوسری قومیں اس میںشریک ہوتی چلی گئیں۔ اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ایسا کیوں ہوا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ براہ راست خدا کی سنت کے تحت پیش آیا۔ خدا کی سنت یہ ہے کہ قوموں کو جگانے کے لیے اُن پر تنبیہات نازل کی جاتی ہیں۔ یہ گویا شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہوتا ہے تاکہ وہ چونکیں اوراپنی اصلاح کریں۔ قرآن میں اس قانونِ فطرت کا ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(
اس آیت میںتزئین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے—ایک بُرے کام کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرنا تا کہ اُس کی بُرائی چھپ جائے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے ساتھ عین یہی واقعہ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے شعوری یا غیر شعوری طورپر عین وہی کام کیا جس کو مذکورہ آیت میں تزئین کہا گیا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر قوموں کی طرف سے جو مسائل پیش آئے وہ خدائی انتباہ (warning) تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان مسائل کو ظلم اور سازش کی اصطلاحوں میںبیان کرنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعہ اس لیے تھا کہ مسلمان اپنی کوتاہیوں کو محسوس کریں اور اپنی داخلی اصلاح میں سرگرم ہوجائیں۔ اس کے بجائے مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ساری سوچ غیر اقوام کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جس واقعہ سے احتسابِ خویش کا ذہن پیدا ہونا چاہیے تھا، اس سے احتسابِ غیر کا ذہن جاگ اُٹھا، جو بڑھتے بڑھتے تشدد تک جاپہنچا۔
حضرت عمر فاروق اسلامی تاریخ کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ اُن کا ایک قول ان الفاظ میںنقل کیا گیا ہے: أمیتوا الباطل بالصمت عنہ (تم لوگ باطل کو ہلاک کرو اُس کے بارے میں چپ رہ کر)۔ ديكھيے، ابو نعيم اصبهاني، حلية الأولياء ، جلد 1، ص
فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں حق کو زندگی ملتی ہے اور باطل کے لیے موت مقدر ہے ۔ ایسی حالت میں باطل کی ہلاکت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ اُس کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی جائے۔ باطل کے خلاف بولنا یا اُس کے خلاف ہنگامہ کرنا اُس کو زندگی دیتا ہے۔ اور باطل کو نظر انداز کرکے اُس کے بارے میں چپ رہنا اُس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔
باطل کے بارے میںچپ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو نظر انداز کیا جائے۔ اُس کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا جائے۔ اُس کے مقابلہ میں احتجاج اور صف آرائی کا طریقہ اختیار نہ کیاجائے۔ تاہم ایسا کرنا صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہے جو فطرت کی طاقت کو جانیں اور اُس پر بھروسہ کرسکیں۔ جو لوگ فطرت کی طاقت کو نہ جانیں، وہی لوگ باطل کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے اُس کو زندگی دینے کا سبب بن جاتے ہیں۔
تشدد محرومی کے احساس کانتیجہ ہے، اورامن یافت کے احساس کا نتیجہ۔ جولوگ اس احساس
میں مبتلا ہوں کہ وہ محروم ہیں، دوسروں نے اُن کی چیز اُن سے چھین لی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ منفی نفسیات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور اُن کا یہی احساس اکثر تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس احساس میں جیتے ہوں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں یافت کا تجربہ کیا ہے، ایسے لوگ ذہنی سکون سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پُر امن زندگی گذارتے ہیں۔
جو فرد یا گروہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے، جو دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے، وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محروم سمجھ رہا ہے۔ اس کے برعکس جو فرد یا گروہ امن پسندی کی زندگی گذارے وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں وہ چیز پالی ہے جو اُس کو پانا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ محرومی کا احساس کسی کو کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کون لوگ ہیںجو ہمیشہ یافت کے احساس میں جیتے ہیں۔
اس دنیا میں سب سے بڑا پانا یہ ہے کہ آدمی نے خدا کو پالیا ہو اور سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی خدا کو پانے سے محروم ہو۔ خدا کو پانے کے بعد کوئی اور چیز پانے کے لیے باقی نہیں رہتی، اور جو لوگ خدا کو پانے سے محروم ہوں وہ گویا محرومی کی اس آخری حالت پر پہنچ گئے ہیں جہاں محرومی ہی محرومی ہے، اول بھی اور آخر بھی، کوئی بھی چیز اُن کی محرومی کے احساس کو ختم کرنے والی نہیں۔
جب بھی کوئی آدمی عمل کرنا چاہے تواُس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے راستہ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایسا ایک فرد کے لیے بھی ہوتا ہے اور پوری قوم کے لیے بھی۔ اب عمل کاایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے رکاوٹوں سے لڑکر اُن کو راستہ سے ہٹا دیا جائے اور اُس کے بعد اپنا مطلوب عمل شروع کیا جائے۔ اس طریقہ کو عام طورپر ریڈیکلزم (radicalism) کہا جاتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ جذباتی لوگوں کو یا انتہا پسند لوگوں کو بظاہر پسند آتا ہے، مگر وہ کسی مثبت مقصد کے لیے مفید نہیں۔ ریڈیکلزم کا طریقہ تخریب کے لیے کار آمد ہے، وہ تعمیر کے لیے کار آمد
نہیں۔ ریڈیکلزم کے طریقہ میں صرف موجودہ سسٹم ہی نہیں ٹوٹتا، بلکہ اس عمل کے دوران وہ سماجی روایات ٹوٹ جاتی ہیں جو صدیوں کے درمیان بنی تھیں۔ قتل وخون اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے بے شمار لوگ طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ریڈیکلزم کا طریقہ نظریاتی طورپر بظاہر خوب صورت معلوم ہوتا ہے، مگر عملی انجام کے اعتبار سے اُس میں کوئی خوبی نہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صورت موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ صورت موجودہ (status quo) کو وقتی طورپر قبول کرتے ہوئے اُن مواقع کواستعمال کیا جائے جو اب بھی موجود ہیں۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میںپازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive status-quoism) کہا جاسکتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ تشدد پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم سماج کے امن کو باقی رکھتے ہوئے اپناکام انجام دیتا ہے۔ ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ مسئلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کا طریقہ سماج میں کوئی مسئلہ پیدا کیے بغیر اپنا عمل انجام دیتا ہے۔ ایک اگر بگاڑ کا راستہ ہے تو دوسرا بناؤ کا راستہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میںاصلاح کاجو طریقہ اختیار کیا اُس کو ایک لفظ میں، پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً اُس زمانہ میں خانۂ کعبہ کے اندر 360 بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ مگر قرآن کے ابتدائی دور میں اس قسم کا حکم نہیں اُترا کہ طہر الکعبۃ من الاصنام(کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔ اس کے بجائے اس ابتدائی دور میں قرآن میںجو آیت اُتری وہ یہ تھی: وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (
تشدد انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ تشدد انسانیت کا قتل ہے۔ تشدد تمام جرموں میں سب سے بڑا جرم ہے۔ اس کے باوجود لوگ کیوں تشددکرتے ہیں۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ ایسے
لوگ خود ساختہ طورپر اپنے لیے تشدد کا ایک جواز(justification) ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وہ بطور خود یہ خیال قائم کرلیتے ہیں کہ فلاں وجہ سے اُن کے لیے تشدد کرناجائز ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ تشدد کا ہر جواز جھوٹا جواز ہے۔ کوئی فرد یا گروہ جب بھی تشدد کرتا ہے، عین اُسی وقت اُس کے لیے عدم تشدد یا پُر امن طریقِ کار موجود ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں تشدد کیوں۔ جب تشدد کے بغیر عمل کرنے کا موقع موجود ہو تو تشدد کیوں کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد مطلق طورپر قابل ترک ہے اور امن مطلق طورپر قابل اختیار۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد نہ کرے، وہ ہر صورت حال میںپر امن طریقِ عمل پر قائم رہے۔
بہت سے لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں قوم ہماری دشمن ہے۔ پھر اس مفروضہ کے تحت وہ اُس قوم کے خلاف متشددانہ لڑائی چھیڑ دیتے ہیں تاکہ اُس کی دشمنی کے انجام سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ مگریہ مفروضہ بھی غلط ہے اور اس مفروضہ کی بنیاد پر بنایا جانے والا نقشۂ کار بھی غلط۔
دشمنی ہاتھ کی انگلی کی طرح انسانی وجود کا کوئی مستقل حصہ نہیں۔ وہ انسانی وجود کا ایک اوپری حصہ ہے۔ مثبت تدبیر کے ذریعہ ہر دشمنی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دشمنی کی مثال ایسی ہے جیسے گلاس کے اوپر لگی ہوئی مٹی۔ ایسی مٹی کونہایت آسانی کے ساتھ پانی سے دھوکر صاف کیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ گلاس میںمٹی کا لگنا مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس مٹی کو دھونے کے لیے صاف پانی نہ ہو۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے، ایک ہاتھ سے کبھی تالی نہیں بجتی۔ اسی طرح دشمنی ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کا دشمن بنے تو آپ خود اُس کے دشمن نہ بنیں۔ اس کے بعد دشمنی اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ دشمن کے ساتھ دشمنی نہ کرنا ہی دشمنی کے مسئلہ کا سب سے زیادہ کار گر عمل ہے۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک کامیاب تاجر ہیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میرا گھر شہر کے ایک ایسے کنارہ پر ہے جہاں سے غیر قوم کی آبادی شروع ہوجاتی ہے۔ میںنے
سوچا کہ مجھے اپنی اوراپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میںنے پیسہ خرچ کرکے اپنے گھر کے ہر فرد کے لیے لائسنس بنوایا اور پھر گھر کے ہر فرد کے نام گن اور ریوالور حاصل کر لیا۔ اب میںاپنے آپ کو اور اپنے خاندان کومحفوظ سمجھتا ہوں۔ اب مجھے دنگے اور فساد کا کوئی ڈر نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ تجارت کااصول جانتے ہیں مگرآپ سماجی زندگی کے اصول کو نہیں جانتے۔ سماجی تحفظ کا ذریعہ گن اور ریوالور نہیںہے۔ سماجی تحفظ کا اصول یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے بہترین پڑوسی بن کر رہیں۔ آپ دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں۔ اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوگا کہ آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ اگرآپ دوسروں سے نفرت کریں تو دوسروں کی طرف سے بھی آپ کو نفرت ملے گی اور اگر آپ کے دل میں دوسروں کے لیے خیر خواہی ہو تو دوسروں کی طرف سے بھی آپ کو محبت اور خیر خواہی کا تحفہ ملے گا۔
میں نے کہا کہ اگر آپ کے گھر کے سامنے غیر قوم کی بھیڑ اکٹھا ہوجائے او رآپ اپنی بالکنی پر کھڑے ہو کر اُس کے اوپر گولی چلادیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بس اتنے ہی پر معاملہ ختم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسانوں کے اوپر گولی چلانا آپ کے لیے قابل دست اندازی پولیس جرم (cognizable offence) کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ایسا ہوگا تو پولیس فوراً وہاں آجائے گی اورآپ ہر گز پولیس سے لڑ نہیں سکتے۔
آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے پاس گن ہونا اور پولیس کے پاس گن ہونا دونوں میں بے حد بنیادی فرق ہے۔ آپ گن رکھنے کے باوجود کسی کو گولی مارنے کا قانونی حق نہیں رکھتے۔ لیکن پولیس کے پاس گن ہے تو وہ گولی مارنے کا قانونی حق بھی رکھتی ہے۔ غیر قوم کے مقابلہ میں بظاہر مقابلہ دو مساوی فریق کے درمیان نظر آتا ہے مگر جب معاملہ آپ کے اور پولیس کے درمیان کا ہوجائے تو یہ مقابلہ مکمل طورپر غیرمساوی ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا گولی چلانا اپنے نتیجہ کے اعتبار سے، آبیل مجھے مار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا اقدام تحفظ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف ہلاکت کی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک شہر میںایک مسلمان نے اپنے لیے نیا گھر بنایا۔ گھر سے ملی ہوئی ایک زمین کو انہوں نے حصار بناکر اپنے گھر میں داخل کرلیا۔ اُن کے پڑوس میںایک ہندو ٹھیکہ دار تھا۔ اس ہند و ٹھیکہ دار کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین اُس کی ہے۔ چنانچہ اُس نے شہر کے کٹّر ہندوؤں سے مل کر انہیں بھڑکایا۔ یہاں تک کہ ایک دن ہندوؤں کی ایک بھیڑ گھر کے سامنے سڑک پر اکٹھا ہوگئی، اور نعرے لگانے لگی۔
مذکورہ مسلمان کے پاس اُس وقت دو بندوقیں تھیں۔ مگر اُنہوں نے بندوق نہیںاُٹھائی۔ وہ تنہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انہوں نے نعرہ لگانے والی بھیڑ سے کچھ نہیں کہا۔ اُنہوں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ ایک صاحب جن کا نام مسٹر سونڈ تھا، آگے بڑھے اور کہا، وہ میںہوں، بتائیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے۔ مسلمان نے بھیڑ سے کہا کہ آپ لوگ یہاںٹھہریئے اور مسٹرسونڈ کولے کر گھر کے اندر آگئے۔ اُن کو کمرہ میں لاکر اُنہیں کُرسی پر بٹھادیا۔
اس کے بعد مسلمان نے کہا کہ مسٹر سونڈ آپ لوگ کس سلسلہ میں یہاں آئے ۔ مسٹر سونڈ نے غصہ میں کہا کہ آپ نے ایک ہندو بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔ مسلمان نے نرمی کے ساتھ کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ زمین کاغذ پر ہوتی ہے۔ زمین کا فیصلہ کاغذ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آپ ایسا کیجئے کہ میرے پاس جو کاغذات ہیںاُن کو لے لیجیے اور ٹھیکہ دار صاحب کے پاس جو کاغذات ہیں اُن کو بھی لے لیجیے۔ اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیے۔ اس معاملہ میں میں آپ ہی کو جج بناتا ہوں۔ آپ کاغذات کو دیکھنے کے بعد جو بھی فیصلہ کردیں وہ مجھے بلا شرط منظور ہوگا۔
یہ سُن کر مسٹر سونڈ بالکل نارمل ہوگئے۔ وہ غصہ کی حالت میں اندر گئے تھے اور ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ اُنہوں نے سڑک پرکھڑی ہوئی بھیڑ سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ میاں جی نے خود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ اب ہم دونوں کے کاغذات دیکھ کر فیصلہ کریںگے۔ مسٹر سونڈ نے
اس کے بعد گھر جاکر دونوں کے کاغذات کو دیکھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھا۔ چند دن کے بعد اُنہوں نے صد فی صد مسلمان کے حق میںاپنا فیصلہ دے دیا۔
مذکورہ مسلمان اگر اپنی بندوق کو لے کر بھیڑ کے اوپر گولی چلاتے تو وہ بھیڑ کے نفس امارہ (ایگو) کو جگادیتے۔ اور پھر یقینی طورپر سارامعاملہ مسلمان کے خلاف ہوجاتا۔ مگر جب انہوں نے گن کے بجائے معقولیت کو استعمال کیا تواُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا نفس لوّامہ (ضمیر) جاگ اُٹھا۔ اور جب ضمیر جاگ اُٹھے تو اُس کا فیصلہ ہمیشہ انصاف کے حق میں ہوتا ہے، ضمیر کبھی ظلم اور بے انصافی کا فیصلہ نہیںکرتا۔
شاہ پائرس (King Pyrrhus) تیسری صدی قبل مسیح کا ایک یونانی بادشاہ تھا۔ اُس کی لڑائی رومیوں سے ہوئی۔ اس جنگ میں آخر کار شاہ پائرس کو رومیوں کے اوپر فتح حاصل ہوئی۔ مگر لڑائی کے دوران شاہ پائرس کی فوج اور اُس کے ملک کی اقتصادیات بالکل تباہ ہوچکی تھی۔ شاہ پائرس کے لیے یہ بظاہر فتح تھی مگر وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے شکست کے ہم معنیٰ تھی۔ اس تاریخی واقعہ کی بنا پر ایک اصطلاح مشہور ہوئی ہے جس کو پرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کہا جاتا ہے، یعنی بظاہر فتح مگر اپنی حقیقت کے اعتبا رسے مکمل شکست۔
جنگوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اکثر فتح پِرک فتح ہی ہوتی ہے۔ ہر فاتح کے حصہ میں دو نقصان کا پیش آنا لازمی ہے۔ ایک، جان اور مال کی تباہی۔دوسرے ،مفتوح کے دل میں فاتح کے خلاف نفرت۔ کوئی بھی فاتح ان نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ کوئی فاتح اس نقصان کو فوراً بھگتتا ہے ، اور کسی فاتح کے حصہ میں یہ نقصان کسی قدر دیر کے بعد آتا ہے۔
نقصان کا یہ معاملہ صرف پُرتشدد طریقِ کار کے ساتھ وابستہ ہے۔ پُر امن طریقِ کار کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ پُر امن طریقِ کار میں صرف فتح ہے، پُر امن طریقِ کار میںشکست کا کوئی
سوال نہیں۔ حتیٰ کہ اگر پُر امن طریقِ کار کا نتیجہ بظاہر شکست کی صورت میں نکلے تب بھی وہ فتح ہے۔ اس لیے کہ پُر امن طریقِ کار کی صورت میں آدمی جنگ کو کھوتا ہے مگر وہ مواقع کو نہیں کھوتا۔ مواقع اور امکانات اب بھی اُس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ ایک نئی جدوجہد شروع کرسکتا ہے اور از سرِ نو اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
شکایتی مزاج ایک قاتلانہ مزاج ہے۔ شکایتی مزاج آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کو مثبت سوچ سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس قسم کا مزاج بلاشبہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اکثر تشددکے پیچھے شکایتی مزاج ہی کام کرتاہوا نظر آتاہے۔
موجودہ دنیا کا تخلیقی نظام کچھ اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازماً ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایسے موقع پر کرنے کا کام یہ ہے کہ شکایت کا خیال آتے ہی فوراً اُس کو اپنے دماغ سے نکال دیا جائے۔ شکایت جب پیدا ہوتی ہے تو پہلے وہ آدمی کے شعوری ذہن (conscious mind) میں ہوتی ہے۔ اگر اُس کو یاد رکھا جائے یا بار بار دہرایا جائے تو وہ دھیرے دھیرے آدمی کے غیرشعوری ذہن (unconscious mind) میںچلی جاتی ہے۔ اوراس طرح بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے بعد کسی طرح اُس کو نکالا نہیں جاسکتا۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ شکایت کے معاملہ میں وہ ’’گُربہ کشتن روز اول‘‘ کا معاملہ کیا جائے۔ شکایت پیدا ہوتے ہی اس کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اگر پہلے ہی مرحلہ میںاُس کو ختم نہ کیا جائے تو دھیرے دھیرے وہ آدمی کی نفسیات کا مستقل جزء بن جائے گی۔ اس کے بعد آدمی کی سوچ منفی سوچ بن جائے گی۔ وہ دوسروں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا۔اگر موقع ہو تو وہ دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے گا۔ یہاں تک کہ وہ زیر شکایت لوگوں سے عملی ٹکراؤ شروع کردے گیا، خواہ اس کا نتیجہ برعکس صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔
شکایت کو پہلے ہی مرحلہ میںختم کرنے کا فارمولا کیا ہے، وہ فارمولا قرآن کے الفاظ میں یہ ہے:وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ(
تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آپ کو دوسرے کے خلاف شکایت پیداہو تو فوراً آپ کویہ کرنا چاہیے کہ شکایت کا رُخ اپنی طرف کرلیں۔ معاملہ کی کوئی ایسی توجیہہ ڈھونڈیں جس میںقصور خود آپ کا نکلتاہو۔ جب آپ کو یہ احساس ہوگا کہ کوتاہی خود آپ کی ہے، نہ کہ کسی غیر کی تو ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ آپ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں لگ جائیں گے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کے خلاف فریاد اور احتجاج میںوقت ضائع کریں گے۔
اسلام میں جنگ اور امن کی حیثیت کیا ہے، اس سوال کا جواب پانے کے لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلامی مشن کا نشانہ کیا ہے۔ جنگ اور امن دونوں دو مختلف طریقِ کار ہیں، وہ بذات خود مقصد نہیں ہیں۔ ایسی حالت میں اگر اس کا تعین ہو جائے کہ اسلامی مشن کا نشانہ کیا ہے تو اس کے بعد اپنے آپ اس کا تعین ہوجائے گا کہ اسلام کا طریقہ جنگ کاطریقہ ہے یا امن کاطریقہ۔
قرآن میں اس سوال کا واضح جواب دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ کی ایک متعلق آیت یہ ہے۔ قرآن میں پیغمبر اسلام کو خطاب کرتے ہوئے ایک عمومی حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے: وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (
قرآن ایک کتاب ہے، وہ کوئی گن یا تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب واضح طورپر پُر امن جدو جہد (peaceful struggle) ہے، نہ کہ مسلح جدوجہد(armed struggle)۔
قرآن جب ایک نظریاتی کتاب ہے تو اس کے ذریعہ پر امن جدوجہد کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو بدلا جائے۔ لوگوں کی سوچ کو قرآنی سوچ بنایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں، قرآن کا مشن زمین پر قبضہ کرنا نہیںہے بلکہ انسان کے ذہن پر قبضہ کرناہے۔ اسلام کا نشانہ ذہنی انقلاب ہے، نہ کہ لوگوں کو جسمانی اعتبار سے مغلوب کرنا۔
قرآن کا مطالعہ کیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ پیغمبراسلام نے اپنے مشن کو کس طرح جاری کیا تو واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا پورا مشن جس نشانہ پر چلایا وہ یہی تھا کہ لوگوں کے دل ودماغ کو بدلا جائے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے اپنے پیغمبر پراپنا کلام اس لیے اتارا تا کہ وہ لوگوں کو افکار کے اندھیرے سے نکال کر افکار کی روشنی میں لے آئے (الحدید،
ایک چیز کی ہے اور وہ اس کے دل کی اصلاح ہے (ألا وھي القلب) صحيح البخاري، حديث نمبر
قرآن اور سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام کا اصل نشانہ انسان کے ذہن کو بدلنا ہے۔ یہی اسلامی مشن کا اول بھی ہے اور یہی اس کا آخر بھی۔ مگر دنیا میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور خودتخلیقی نقشہ کے مطابق، ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایسا ہواکہ کچھ لوگ پیغمبر اسلام کے مخالف بن گئے۔ حتیٰ کہ کچھ لوگ اس آخری حد تک گئے کہ انہوں نے آپ کے مشن کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کردی۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس کی بنا پر پیغمبر اور آپ کے اصحاب کو اپنے دفاع میں وقتی طورپر ہتھیار اٹھانا پڑا۔ اس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف ایک استثنا (exception) کی۔
پیغمبر اسلام کی پیغمبرانہ عمر
مسئلہ در پیش تھا۔
قرآن میں کل
اس قسم کا فرق ہر ملک کے دستور میں اور ہر مذہبی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً بائبل (New Testament) میں بہت سی پر امن تعلیمات ہیں۔ اسی کے ساتھ مسیح کی زبان سے اس میں یہ قول بھی موجود ہے کہ میں صلح کروانے نہیں آیا ہوں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں:
I do not come to bring peace but a sword. (Matthew 10:34)
اسی طرح بھگوت گیتا میں بہت سی اخلاق اور حکمت کی باتیں ہیں۔ مگراسی کے ساتھ گیتا میں یہ بھی موجود ہے کہ کرشن نے ارجن سے اصرار کے ساتھ کہا کہ اے ارجن، آگے بڑھ اور جنگ کر۔ مگر ظاہر ہے کہ بائبل اور گیتا میںان اقوال کی حیثیت استثنا کی ہے، نہ کہ عموم کی۔
اسلام کی امن پسندی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام میں دشمن اور حملہ آور کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ یک طرفہ حملہ کے ذریعہ عملی طورپر جارحیت کی صورت پیدا کر دے تو اس وقت ایک ناگزیر برائی(necessary evil) کے طورپر دفاع کی ضرورت کے تحت جنگ کی جائے گی۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (
مگر جہاں تک دشمن کا تعلق ہے، ان کے خلاف محض دشمنی کی بنا پر جنگی کارروائی کی اجازت نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت اہل اسلام کو ایک واضح ہدایت دیتی ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو، پھر تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (
اس آیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی شخص تم کو دشمن نظر آئے تو اس کو اپنا ابدی دشمن نہ سمجھ
لو۔ ہر دشمن انسان کے اندر تمہارا ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو اور اس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بناؤ، اس کے بعد تمہیں کسی سے دشمنی کی شکایت نہ ہوگی۔
اس معاملہ کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے۔ اس روایت میں پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو بتاتے ہوئے آپ کی اہلیہ عائشہ نے کہا: ماخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین امرین إلا اختار أیسرھما (صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان کا انتخاب فرماتے تھے۔
یہ واضح ہے کہ طریق کار کی دو قسمیں ہیں۔ پرتشدد طریقِ کار (violent method) اور پر امن طریق کار (peaceful method)۔ اب دونوں کا تقابل کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی نزاعی معاملہ کے وقت پر تشدد طریق کار کو اپنانا مشکل انتخاب (harder option) ہے اور پر امن طریق کار کو اپنانا آسان انتخاب (easier option) ہے۔ اس کے مطابق، اسلام کی جنرل پالیسی یہ قرار پاتی ہے کہ جب بھی کسی فریق سے کوئی نزاع پیدا ہو تو اس سے مقابلہ کے لیے ہمیشہ پرامن طریق کار کا انتخاب کیا جائے، نہ کہ پر تشدد طریقِ کار کا۔ موجودہ زمانہ میں جب کہ آزادی کو انسان کاایک ناقابل تنسیخ حق مان لیا گیا ہے تواب صرف پر امن طریق کار ہی کا انتخاب کیا جائے گا۔ کیوں کہ وقت کے مسلّمہ اصول کے مطابق، پر تشدد طریق کار کو اختیار کرنے میں تو یقینًا رکاوٹیں ہیں مگر پر امن طریق کار کو اختیار کرنے میںکوئی رکاوٹ نہیں۔
یہاں یہ اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ پیغمبر اسلام کے زمانہ میں محدود نوعیت کی جو چند لڑائیاں پیش آئیں ان میں دراصل زمانی عامل (age-factor) کام کررہا تھا۔ یہ لڑائیاں ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں ہوئیں۔ یہ زمانہ مذہبی جبر اور مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں موجودہ قسم کا مذہبی ٹالرنس نہیں پایا جاتا تھا۔ اس بنا پر توحید کے مخالفوں
نے پیغمبراسلام کے خلاف جارحانہ کارروائی کرکے آپ کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ موجودہ زمانہ میں مذہبی آزادی ہر فرد اور ہر گروہ کا ایک مسلّم حق بن چکی ہے ۔ اس لیے موجودہ زمانہ میں مذہبی حقوق کے لیے جنگ کا کوئی سوال نہیں۔
اسلام میں امن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ہر ناخوش گوار صورت حال کو برداشت کرتے ہوئے حالت امن کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیاہے۔ فریقِ مخالف کی ایذا رسانی پر صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرنا اور اس کو ہر قیمت پر یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ باقی رکھنا اسلام کا اہم اصول ہے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا کیوں کہ اسلام کی تعمیری سرگرمیاں صرف پر امن اور معتدل ماحول ہی میں انجام دی جاسکتی ہیں۔ اس معاملہ میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ فریق ثانی کی طرف سے عملی جارحیت ہے۔
پیغمبر اسلام نے قدیم مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا۔ اس سلسلہ میں آپ تیرہ سال تک مکہ میں رہے۔ اس مدت میں مکہ کے مخالفین کی طرف سے بار بار زیادتیاں کی گئیں۔ مگر پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں نے ان زیادتیوں کو یک طرفہ طورپر برداشت کیا۔ اسی صبر و اعراض کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ پیغمبراور آپ کے اصحاب نے جنگ سے بچنے کے لیے یہ کیا کہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے گئے۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان تین سو میل کا فاصلہ ہے۔ مگر مکہ کے مخالفین نے خاموشی اختیار نہ کی بلکہ انہوں نے باقاعدہ طورپر مدینہ پر اقدامی حملے شروع کردئے۔ ان حملوں کو سیرت کی کتابوں میں غزوہ کہا جاتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے غزوات کی تعداد
جنگی مقابلہ سے اعراض کی اسی پالیسی کی ایک مثال وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ جب پیغمبر اسلام اور آپ کے مخالفین کے درمیان جنگی صورت حال پیدا ہوگئی تو آپ نے یہ کوشش
شروع کی کہ یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ جنگی حالات کو ختم کر دیا جائے اور دونوں فریقوں کے درمیان پر امن فضا کو بحال کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے آپ نے اپنے مخالفین سے صلح کی گفت و شنید شروع کی جو دو ہفتہ تک جاری رہی۔ یہ گفت وشنید مکہ سے دس میل دور حدیبیہ کے مقام پر ہوئی اس لیے اس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل دونوں فریقوں کے درمیان ایک امن معاہدہ تھا۔ گفت وشنید کے دوران پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ فریقِ ثانی اپنی ضد کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ چنانچہ آپ نے فریقِ مخالف کی یک طرفہ شرطوں کو مان کر ان سے امن کامعاہدہ کر لیا۔
اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان تناؤ کو ختم کیا جائے اور نارمل فضا کو قائم کیا جائے تا کہ معتدل حالات میں دعوت و تعمیر کا وہ کام کیا جاسکے جو اصلاً اسلامی مشن کا مقصود تھا۔ چنانچہ حدیبیہ کا معاہدہ ہوتے ہی حالات معمول پر آگئے اور اسلام کی تمام تعمیری سرگرمیاں پوری طاقت کے ساتھ جاری ہوگئیں جس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ اسلام پورے علاقہ میں پھیل گیا۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق، جنگ صرف باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت کا کام ہے، وہ غیرحکومتی افراد یااداروں کا کام نہیں۔ غیر حکومتی ادارے اگر کسی اصلاح کی ضرورت محسوس کریں تو وہ صرف امن کے دائرے میں رہ کر اپنی تحریک چلا سکتے ہیں ،تشدد کی حد میں داخل ہونا ان کے لیے ہر گز جائز نہیں۔
اس سلسلہ میں دو باتیں بے حد اہم ہیں۔ ایک یہ کہ غیر حکومتی تنظیموںکے لیے کسی بھی عذر کی بنا پر مسلح تحریک چلانا جائز نہیں۔ دوسرے یہ کہ قائم شدہ حکومت کے لیے اگر چہ دفاعی جنگ حکماًجائز ہے مگر اس کے لیے بھی اعلان کی شرط ہے، اسلام میں بلا اعلان جنگ قطعًا جائز نہیں ۔ ان دو شرطوں کو ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ گوریلاوار اور پراکسی وار دونوں ہی اسلام میں ناجائزہیں۔ گوریلا وار اس لیے کہ وہ غیر حکومتی تنظیموں کی طرف سے کی جاتی ہے اور پراکسی وار اس لیے کہ اس میں اگر چہ حکومت بھی شامل رہتی ہے مگراس کی شمولیت بغیر اعلان کے ہوتی ہے۔ اور اعلان کے بغیر جنگ کا
جواز اسلامی حکومت کے لیے بھی نہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (
موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازمًا دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں اسلام کا حکم یہ ہے کہ نزاع کو متشددانہ ٹکراؤتک نہ پہنچنے دیا جائے۔ اسی پالیسی کو قرآن میں صبر واعراض کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میںایک مستقل اصول کے طورپر فرمایا کہ الصلح خیر (النساء
اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے:كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ (
اس قرآنی آیت سے جنگ اور امن کے بارے میں اسلام کی اصل روح معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں مختلف اسباب سے لوگ باربار جنگ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا کے مخصوص نظام کا تقاضا ہے جو مسابقت (competition) کے اصول پر بنایا گیا ہے۔ مگر اہل اسلام کا کام یہ ہے کہ دوسرے لوگ جب جنگ کی آگ بھڑکائیں تو وہ یک طرفہ تدبیر کے ذریعہ اس آگ کو ٹھنڈا کردیں۔ گویا اہل اسلام کا طریقہ جنگ نہیں ہے بلکہ اعراض جنگ ہے۔ انہیں ایک طرف یہ کرنا ہے کہ جنگ کی حد تک جائے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ کریں۔ دوسری طرف ان کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ امن کے پیغامبر بنیں۔ وہ دنیا میںامن کے تاجر ہوں، نہ کہ جنگ کے تاجر۔
اسلام کی یہی اسپرٹ ہے جس کی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کو جب مدینہ میں اقتدار ملا
تو آپ نے ایسا نہیں کیا کہ لوگوں کو اپنا ماتحت بنانے کے لیے ان سے جنگ چھیڑ دیں۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ عرب میں پھیلے ہوئے قبائل سے گفت و شنید کرکے ان سے معاہدے کیے۔ اس طرح آپ نے پورے عرب میں پھیلے ہوئے قبائل کو معاہدات کے ایک شیرازۂ امن میں باندھ دیا۔
اسلام کی تعلیم کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام ان اسباب کی جڑ کاٹ دینا چاہتا ہے جوجنگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔جنگ کرنے والا جنگ کیو ں کرتا ہے۔ اس کے دو بنیادی سبب ہیں۔ ایک ہے دشمن کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔ اور دوسرا سبب ہے سیاسی طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ ان دونوں مقاصد کے لیے اسلام میں جنگ کا کوئی جواز موجود نہیں۔
جہاں تک دشمن کا معاملہ ہے، اس معاملہ میںجیسا کہ عرض کیا گیا، قرآن کی ایک آیت ابدی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں۔ تم جواب میں وہ کرو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (
اس سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ میںاسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کی دشمنی کو ختم کیا جائے، نہ کہ خود دشمن کو۔ اس کے مطابق، کوئی دشمن حقیقی دشمن نہیں ہوتا۔ ہر دشمن انسان کے اندر بالقوۃ طورپر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس لیے اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ یک طرفہ حسن سلوک کے ذریعہ اس چھپے ہوئے انسان تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ وہ حسن سلوک کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنالیں۔
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں دشمن اور حملہ آور کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔دشمن کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس سے نفرت کا معاملہ نہ کیا جائے بلکہ حسن تدبیر کے ذریعہ اس کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کی جائے۔ البتہ اگر کسی کی طرف سے یک طرفہ طورپر حملہ کر دیا جائے تو ایسے حملہ آور کے مقابلہ میںدفاع کے طورپر جنگ کرنا جائز ہے۔ یہ حکم قرآن کی جن آیتوں
سے معلوم ہوتا ہے ان میں سے ایک آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا(
اس طرح کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ کوئی فریق یک طرفہ طورپر اہل اسلام کے خلاف جارحانہ حملہ کردے۔ اس قسم کی عملی جارحیت کے بغیر اسلام میںجنگ کی اجازت نہیں۔
جنگ اور امن کے معاملہ میں اسلام کا جو بنیادی اصول ہے وہ قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے: فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ(
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 570ء میں مکہ میںہوئی۔ 610ء میں آپ کو نبوت ملی۔ اس کے بعد آپ
آپ نے لوگوں کواقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ(
آپ نے لوگوں کو دعا اور عبادت کے طریقے بتائے۔ لوگوں کو اخلاق اورانسانیت کی تعلیم دی۔ لوگوں کو بتایا کہ دوسرے لوگ جب تم کو ستائیں تب بھی تم صبر واعراض کے ساتھ زندگی گزارو۔ آپ نے قرآن کوایک اصلاحی کتاب اور ایک دعوتی کتاب کے طور پر لوگوں کے درمیان عام
کیا۔ آپ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ دار الندوہ (مکہ کی پارلیمنٹ) میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کے بجائے جنت میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ آپ نے لوگوں کواپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ کعبہ جیسی مقدس عمارت میں 360 بت رکھے ہوئے ہوں تب بھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیے بغیر تم اپنامشن پُرامن طورپر شروع کر سکتے ہو۔ آپ نے یہ نمونہ قائم کیا کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ آدمی اشتعال انگیز حالات کے درمیان اپنے آپ کو لوگوں کے خلاف نفرت سے بچائے اور پر امن رہ کر لوگوں کی خیرخواہی کا کام انجام دے، وغیرہ۔
پیغمبر اسلام نے اپنی زندگی میں اس قسم کے جو غیر متشددانہ کام کیے وہ سب بلاشبہ عظیم اسلامی کام تھے۔بلکہ یہی نبوت کا اصل مشن ہے۔ اور جہاں تک جنگ کا تعلق ہے وہ صرف ایک استثنائی ضرورت ہے، اسی لیے فقہاء نے جنگ کو حسن لغیرہ بتایا ہے۔
Not for the sake of Islam, but due to some practical reasons.
صلح حدیبیہ کیا ہے۔ صلح حدیبیہ اسلام کی ابتدائی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جب یہ صلح ہوئی تو اس کے بعد قرآن میں یہ آیت اتری: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا(
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مشن 610 ء میں شروع کیا۔آپ کا یہ مشن توحید کا مشن تھا۔ اُس وقت عرب میں بہت سے مشرک لوگ رہتے تھے۔ یہ لوگ آپ کے مشن کو پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ کے سخت مخالف بن گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے آپ کے خلاف لڑائی چھیڑ دی۔ کئی سال تک لڑائی کا ماحول قائم رہا۔ لڑائی کے ماحول کی بنا پر دعوت اور تعمیر کا کام معتدل طورپر جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔
اس ناموافق ماحول کو ختم کرنے کے لیے پیغمبراسلام نے اپنے مخالفین سے صلح کی بات چیت شروع کردی۔ یہ بات چیت حدیبیہ کے مقام پر ہوئی۔وہ لوگ کڑی شرطیں پیش کرتے رہے۔ دو ہفتہ کی بات چیت کے بعد پیغمبر اسلام نے یہ کیا کہ اپنے مخالفین کی پیش کی ہوئی شرطوں کو یک طرفہ طورپر مانتے ہوئے ان سے امن کا معاہدہ کر لیا اور اس طرح جنگ کی حالت کو موقوف کردیا۔ اور اپنے اور مخالفین کے درمیان امن کی حالت قائم کردی۔
اس معاہدہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل اسلام کو دعوت وتعمیر کے مواقع حاصل ہوگئے۔ چنانچہ مثبت تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہوگیا۔ اس کے بعد صرف دو سال کے اندر اسلام کو اتنا زیادہ استحکام حاصل ہوا کہ جلد ہی خون بہائے بغیر پورے عرب میں اسلام کا غلبہ قائم ہوگیا۔
صلح حدیبیہ کوئی منفرد قسم کا واقعہ نہیں، یہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کو ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی کہا جاسکتا ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی فرد یا قوم تنہانہیں ہے، بلکہ یہاں دوسرے بہت سے لوگ ہیں۔ ہر ایک کا انٹرسٹ الگ الگ ہے۔ اس بنا پر بار بار ایک اور
دوسرے کے درمیان مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ایسی حالت میں صرف دو ممکن صورتیں ہیں—مسائل سے ٹکراؤ شروع کر دینا یا مسائل سے اعراض کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا۔ پہلا طریقہ جنگ کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ صلح کا طریقہ۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَالصُّلْحُ خَیْر(
صلح یا ایڈجسٹمنٹ کا یہ طریقہ خود فطرت کا طریقہ ہے۔ مثال کے طورپر ایک بہتے ہوئے چشمہ کو لیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ چشمہ کے راستہ میں جب بھی کوئی پتھر آتا ہے تو وہ پتھر کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ پتھر کے کنارے سے راستہ نکال کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک شخص سڑک پر اپنی گاڑی دوڑاتا ہے تو وہ سامنے کی طرف سے آنے والی گاڑی سے ٹکراؤ نہیں کرتا۔ وہ کنارے کی طرف مڑکر آگے بڑھ جاتا ہے۔
اسی مصالحانہ طریقہ کا نام حدیبیہ ہے۔ حدیبیہ کے طریقہ کو ایک لفظ میں اس طرح بیا ن کیا جاسکتا ہے— مسائل کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو استعمال کرو۔ یہ ایک ابدی اصول ہے جس کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ خاندان کا معاملہ ہو یا سماج کا معاملہ یا کوئی بین اقوامی معاملہ، ہر جگہ کامیاب زندگی کا یہی واحد اصول ہے۔ صلح حدیبیہ کا طریقہ چھوڑنے کا انجام صرف ٹکراؤ ہے اور ٹکراؤ سے کوئی مسئلہ کبھی حل نہیں ہوتا۔ صلح حدیبیہ کا طریقہ اگر زندگی ہے تو ٹکراؤ اور جنگ کا طریقہ صرف موت۔
صلح حدیبیہ کا طریقہ موجودہ دنیا میں کامیابی کا واحد طریقہ ہے۔ یہ طریقہ آدمی کو منفی سوچ سے ہٹا کر مثبت سوچ کی طرف لاتا ہے۔ وہ آدمی کو اس نقصان سے بچاتا ہے کہ وہ ٹکراؤ میں وقت ضائع کرتا رہے اور ممکن دائرہ میں موجود مواقع کو استعمال نہ کرسکے۔ صلح حدیبیہ کا طریقہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے ڈس ایڈوانٹج کو ایڈوانٹج میں تبدیل کرلے۔ وہ اپنے مائنس کو پلس بنا سکے۔ وہ اپنے نہیں میں ہے کا راز دریافت کرلے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ پہلے انسان حضرت آدم کے بیٹے قابیل نے ایک ذاتی سبب سے اپنے بھائی ہابیل کو مار ڈالا۔ اس کے بعد قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔ اور ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلے ہوئے احکام لے کر آئے۔ اس کے باوجود ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں کرتے ہیں۔(
اس سے معلوم ہوا کہ خدائی شریعت میں انسان کو قتل کرنا ہمیشہ سے ایک بدترین جرم قرار دیا گیا ہے۔ مگر انسان اپنی سرکشی کی بناپر ہر زمانہ میں اس کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ تاہم اس معاملہ میں قدیم وجدید کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے۔ قدیم انسان یا تو ذاتی مفاد کے لیے کسی کو قتل کرتا تھا یا انتقام کے لیے۔ اس لیے قدیم زمانہ میں قتل کا معاملہ ایک حد کے اندر رہتا تھا۔ وہ لامحدود سفاکی کے درجہ کو نہیں پہنچتا تھا۔
موجودہ زمانہ میں قتل انسان کی ایک نئی صورت ظہور میں آئی ہے۔ اس کو نظریاتی قتل کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک نظریہ بنا کر لوگوں کو قتل کرنا، نظریاتی جواز(ideological justification) کے تحت انسانوں کا خون بہانا۔ مبنی بر نظریہ قتل کے اس تصور نے انسان کے لیے ممکن بنا دیا کہ وہ قصور وار اور بے قصور کے فرق کو ملحوظ رکھے بغیر اندھا دھند لوگوں کو قتل کرے، اس کے باوجود اس کے ضمیر میں کوئی خلش پیدانہ ہو۔ کیوں کہ اپنے مفروضہ عقیدے کے مطابق وہ سمجھتا ہے کہ وہ حق کے لیے لوگوں کا قتل کر رہا ہے۔
نظریاتی قتل کے اس طریقہ کو بیسویں صدی کے نصف اول میں کمیونسٹوں نے ایجاد کیا۔ یہ لوگ کمیونزم کے فلسفہ جدلیاتی مادیت (dialectical materialism) میں عقیدہ رکھتے تھے۔
اس عقیدہ کے مطابق، انقلاب صرف اس طرح آسکتا تھا کہ ایک طبقہ دوسرے طبقہ کو متشددانہ طورپر مٹا دے۔ اس عقیدے کے تحت ان لوگوں نے مختلف ملکوں میں پچاس ملین سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
نظریاتی قتل کی دوسری زیادہ بھیانک مثال وہ ہے جو مسلم دنیا میں ظہور میںآئی۔بیسویں صدی کے نصف اول میں اس انتہا پسندانہ نظریہ کو فروغ حاصل ہوا۔ اس نظریہ کو وضع کرنے اور پھیلانے میں موجودہ زمانہ کی دو مسلم جماعتیں خاص طورپر ذمہ دار ہیں—عرب دنیا میں الاخوان المسلمون، اور غیرعرب دنیا میں جماعت اسلامی۔
الاخوان المسلمون نے اپنے مخصوص نظریہ کے تحت یہ نعرہ اختیار کیا: القرآن دستورنا والجہاد منھجنا۔ یعنی قرآن ہمارا آئین ہے اور جہاد (متشددانہ طریقِ کار) کے ذریعہ ہمیں اس کو ساری دنیا میں نافذ کرنا ہے۔ عرب دنیا میں یہ نعرہ اتنا مقبول ہوا کہ سڑکوں پر یہ نغمہ سنائی دینے لگا:
ھلم نقاتل ھلم نقاتل فإن القتال سبیل الرشاد
فلسطین سے لے کر افغانستان تک اور چیچنیا اور بوسنیا تک جہاںجہاں اسلامی جہاد کے نام پر تشدد کیا گیا وہ سب اسی نظریہ کا نتیجہ تھا۔
اسی طرح جماعت اسلامی نے یہ نظریہ بنایا کہ موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں جو نظام رائج ہے وہ طاغوتی نظام ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طاغوتی نظام کو مٹائے اور اس کی جگہ اسلامی نظام کو نافذ کرے۔ یہ کام اتنا ضروری ہے کہ اگر وہ فہمائش کے ذریعہ پورا نہ ہو تو اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ تشدد کی طاقت کو استعمال کرکے اہل طاغوت سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیںاور اسلامی قانون کی حکومت ساری دنیا میں نافذ کردیں۔ پاکستان اور کشمیر جیسے مقامات پر اسلام کے نام سے جو تشدد ہورہا ہے وہ مکمل طورپر اسی خود ساختہ نظریہ کا نتیجہ ہے۔
انقلابی تحریکوں کا نتیجہ ہے۔
ان دونوں جماعتوں کے بانیوں کی غلط فکری کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ انہوں نے جماعت اور اسٹیٹ کے فرق کو نہیں سمجھا۔ جو کام صرف ایک منظم اسٹیٹ کی ذمہ داری تھی اس کو انہوں نے اپنی بنائی ہوئی جماعت کی ذمہ داری سمجھ لیا۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، جہاد بمعنیٰ قتال اوراجتماعی شریعت کا نفاذجیسا کام مکمل طورپر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان مقاصد کے لیے جماعت بنا کر ہنگامہ آرائی کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں۔
اسلام میں جماعت کے جو حدود کار ہیں وہ قرآن کی ایک آیت سے معلوم ہوتے ہیں۔ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے: اور چاہیے کہ تم میںایک جماعت ہو جو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم کرے اور منکر سے منع کرے، یہی لوگ فلاح کو پہنچنے والے ہیں(آل عمران،
اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے بانیوں نے جو خود ساختہ نظریہ سازی کی وہ شریعت کے بھی خلاف تھی اور فطرت کے بھی خلاف۔ اس قسم کی غیر فطری نظریہ سازی ہمیشہ تشدد سے شروع ہوتی ہے اور منافقت پر ختم ہوتی ہے۔لوگوں کے ذہن میں جب تک اپنے رومانی تصورات کا جنون ہوتا ہے وہ اپنے مفروضہ انقلاب کے لیے اتنے دیوانے ہوجاتے ہیں کہ استشہاد کے نام پر خود کش بمباری کو بھی جائز قرار دے لیتے ہیں۔ مگر جب حقائق کی چٹان ان کے جنون کو ٹھنڈا کر دیتی ہے تو اس کے بعد وہ منافقانہ روش اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی فکر ی اور اعتقادی اعتبارسے بدستور اپنے سابق نظریہ کو ماننا، مگر عملی اعتبار سے مکمل ہم آہنگی کا طریقہ اختیارکرکے اپنے دنیوی مفادات کو محفوظ کر لینا۔
آج کل آتنک واد یا دہشت گردی (terrorism) کا بہت زیادہ چرچا ہے۔ تقریباً ہر ملک میں اس موضوع پر لکھا اور بولا جارہا ہے۔ مگر میرے علم کے مطابق، ابھی تک اس کی کوئی واضح تعریف سامنے نہ آسکی۔ لوگ آتنک واد کی مذمت کرتے ہیں، مگر وہ بتا نہیں پاتے کہ آتنک واد متعین طور پر ہے کیا۔
راقم الحروف نے اس سوال کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق، غیر حکومتی تنظیموں کا ہتھیار اُٹھانا آتنک واد ہے:
Armed struggle by non-governmental organisations
اسلام آزادی کا حق تسلیم کرتا ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، قومی یا سیاسی مقصد کے لیے پُر امن تحریک چلانے کا حق کسی بھی شخص یا جماعت کو حاصل ہے۔ یہ حق اُس کو اس وقت تک حاصل رہے گا جب تک وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر جارحیت کا ارتکاب نہ کرے۔ اسلام میں ہتھیار کا استعمال یا کسی حقیقی ضرورت کے تحت مسلّح عمل کا حق صرف باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت کوحاصل ہے۔ غیرحکومتی تنظیمیں (NGOs) کو کسی بھی عذر کی بنا پر ہتھیار اٹھانے کا حق حاصل نہیں (اس اسلامی حکم کی تفصیل میری کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے)۔
مجرم کو سزا دینا، حملہ آور کے مقابلہ میں دفاع کرنا، اس طرح کے امور جو بین اقوامی اُصول کے مطابق، کسی قائم شدہ حکومت کو مسلّح کارروائی کا حق دیتے ہیں۔ یہی خود اسلام کا اصول بھی ہے۔ اس اُصول کی روشنی میں ٹیررزم کی تعریف یہ ہے — ٹیررزم اُس مسلح کارروائی کا نام ہے جو کسی غیرحکومتی تنظیم نے کی ہو۔ یہ غیر حکومتی تنظیم خواہ کوئی بھی عذر پیش کرے مگر وہ ہر حال میں ناقابلِ قبول ہوگا۔ ایک غیر حکومتی تنظیم اگر یہ محسوس کرتی ہے کہ ملک میں کوئی بے انصافی ہوئی ہے یا حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اُس کو صرف یہ حق ہے کہ وہ پُر امن جدوجہد کے دائرہ میں رہـتے ہوئے اپنی کوشش کو جاری کرے۔ وہ کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہ اختیار کرے۔
کوئی فرد یا کوئی غیر حکومتی تنظیم اگر یہ کہے کہ ہم تو پُر امن عمل چاہتے ہیں مگر فریقِ ثانی پُر امن عمل کے ذریعہ ہمیں ہمارا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی حالت میں ہم کیا کریں۔ جواب یہ ہے کہ اس معاملہ کی ذمہ داری حکومت پر ہے، نہ کہ غیر حکومتی تنظیم پر۔ اگر کسی کا یہ احساس ہو کہ حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے تب بھی اُس کے لیے جائز نہیں کہ وہ حکومت کا کام خود کرنے لگے۔ ایسی حالت میں بھی اُس کے لیے صرف دو میں سے ایک راستہ کا انتخاب ہیــــصبر یا پُر امن جدوجہد۔ یعنی یا تو پُر امن عمل کرنا، یا سِرے سے کوئی عمل ہی نہ کرنا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی دہشت گردی یا حکومتی تشدد کا حکم کیا ہے۔ یعنی حکومت اگر غیر مطلوب تشدد کا وہی کام کرے جو کوئی غیرحکومتی تنظیم کرتی ہے تو ایسی حالت میں اُس کا حکم کیا ہوگا۔ جواب یہ ہے کہ حکومتی تشدد حکومت کے لیے اپنے حق کا بے جا استعمال ہے، جب کہ غیر حکومتی تنظیم کے لیے تشدد ایک ایسا فعل ہے جس کو کرنے کا اُسے کوئی حق ہی نہیں۔ اور یہ واضح ہے کہ حق کے بغیر کسی فعل کو کرنا اور حکماً حق رکھتے ہوئے اُس کا بےجا استعمال(misuse) کرنا، دونوں ایک دوسرے سے نوعی طورپر مختلف ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر غیر حکومتی تنظیم تشدد کرتی ہے تو اُس سے اُس کا جواز پوچھے بغیر تشدد سے باز رہنے کا حکم دیا جائے گا۔ اس کے برعکس، اگر کوئی باقاعدہ حکومت بے جا تشدد کرتی ہے تو اُس سے کہا جائے گا کہ تم کو چاہیے کہ اپنے حاصل شدہ حق کا صرف جائز استعمال کرو۔ حق کا ناجائز استعمال کرکے حکومت بھی اپنے آپ کو اُسی طرح مجرم بنالیتی ہے جس طرح کوئی غیر حکومتی تنظیم۔
مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ کوئی باضابطہ سرجن اگر جسم کے غلط حصہ پر نشتر چلائے تو وہ اپنے حق کا بے جا استعمال کرنے کا مجرم ہوگا۔ ایک تربیت یافتہ سرجن کو صحیح مقام پر نشتر چلانے کا حق تو ضرور ہے مگر غلط مقام پر نشتر چلانے کا اُس کو کوئی حق نہیں۔ اس کے برعکس، اگر ایک غیر سرجن کسی انسان کے جسم پر نشتر چلانے لگے تو اُس کا ایسا کرنا ہر حال میں غلط ہوگا۔ کیونکہ ایک غیر سرجن کو نہ بظاہر درست مقام پر نشتر چلانے کا حق ہے اور نہ غلط مقام پر۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لیے مکہ میں داخل ہونا چاہتے تھے مگر مکہ کے سرداروں نے سراسر ناحق طورپر آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اس طرح دونوں فریقوں کے درمیان نزاع کی صورت قائم ہوگئی۔ آپ نے اس کا حل اس طرح نکالا کہ مکہ میں اپنے داخلہ کے حق کو واپس لے لیا۔ اس کے جواب میں اہل مکہ نے آپ کو یہ ضمانت دی کہ وہ آپ کے خلاف جنگ کو ختم کر دیں گے تا کہ دونوں کے درمیان پر امن ماحول قائم ہوسکے۔
صلح حدیبیہ کی تکمیل کے فورًا بعد قرآن کی سورہ نمبر
اس بات کو دوسرے لفظوں میں اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی ان لوگوں کے لیے ہے جو احساس شکست کے بغیر پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہوں۔ اس دنیا میں پانا صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو دوسروں کو دینے کے لیے راضی ہو جائے۔ اس دنیا میںکامیاب اقدام کی خوش قسمتی صرف اس کو ملتی ہے جو دوسروں کو راستہ دینے کا حوصلہ اپنے اندر رکھتا ہو۔
اب اس اصول کی روشنی میںکشمیر کے مسئلہ کو سمجھیے۔پاکستان کے لیڈروں نے کشمیر کے نزاع کو حل کرنے کے لیے جو پالیسی اختیار کی، وہ مکمل طورپر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں مذکورہ قرآنی اصول کو اختیار کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں
نے اپنے آپ کو جانا مگر انہوں نے فطرت کے قانون کو نہیں جانا۔
1947ء میں یہ مسئلہ بالکل سادہ تھا۔ جیسا کہ الرسالہ میں ایک سے زیادہ بار لکھا جاچکا ہے، اس وقت یہ مسئلہ اپنی فطری حالت میں تھا۔ اس وقت پاکستانی لیڈروں کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ حیدرآباد پر اپنے دعویٰ کو چھوڑدیںاور اس کے نتیجہ میں پورا کشمیر انہیں حاصل ہوجائے۔ مگر پاکستان کے لیڈراپنی ناقابل فہم نادانی کی بناپر ایسا نہ کرسکے اور یہ مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک تباہ کن نزاع کے طورپر باقی رہا۔
بنگلہ دیش کی جنگ کے بعد 1971ء میں پاکستان کے
2001ء کے آخر میںآگرہ میں کشمیر کے سوال پر دونوں ملکوں کے لیڈروں کی کانفرنس ہوئی۔ اس موقع پر راقم الحروف نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ صورت موجودہ (status quo) کو مان کر اس کا تصفیہ کر لیا جائے۔ یعنی کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے قبضہ میںہے وہ پاکستان کا حصہ بن جائے اور اس کا جو حصہ انڈیا کے زیر انتظام ہے، اس کو انڈیا کا مستقل حصہ مان لیا جائے۔ مگر اس بار بھی دونوں ملکوں کے لیڈروں کے درمیان کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا اور یہ نزاعی معاملہ پہلے جہاں تھا وہیں اب بھی باقی رہا۔
آخری صورت کے طورپر راقم الحروف نے الرسالہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس معاملہ میں ایک قسم کی ڈی لنکنگ پالیسی (delinking policy) اختیار کر لی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے سیاسی سوال کو دوسرے اہم تر انسانی سوالات سے الگ کر دیا جائے۔ کشمیر کے مسئلہ کوسختی کے ساتھ پرامن بات چیت کی میز پر رکھ دیا جائے اوراس کے سوا جو اہم تر غیر سیاسی معاملات ہیں ان میں پوری طرح نارمل پالیسی اختیار کر لی جائے۔ مثلاً تجارت، تعلیم، آمد ورفت، سیاحت، ثقافتی تعلقات اور دوسرے انسانی معاملات میںاسی طرح معتدل تعلقات قائم کر لیے جائیں جس طرح انڈیا اورنیپال
کے درمیان یا یورپ کے ایک ملک اور دوسرے ملک کے درمیان ہیں۔ اس پالیسی کا یہ فائدہ ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ دوسری انسانی اور قومی ترقیوں میںرکاوٹ نہ رہے گا، جیسا کہ وہ اب بنا ہوا ہے۔
کشمیر کے معاملہ میں پاکستانی لیڈروں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ ابھی تک ماضی میں جی رہے ہیں۔ وہ اپنی غلطی کی قیمت دوسرے فریق سے وصول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ فطرت کے ناقابلِ تغیر اصول کو نظر انداز کرکے اپنے خود ساختہ مفروضات کی بنیاد پر اپنی ایک دنیا بنانا چاہتے ہیں۔ مگرعالم حقیقت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔
کشمیر کے بارے میں پاکستان کی موجودہ غیر حقیقت پسندانہ روش نے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر پاکستان اپنی اس غیر حقیقت پسندانہ روش پر باقی رہتا ہے تو اس کا آخری نتیجہ دونوں ملکوں کے درمیان تباہ کن جنگ ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ جنگ ہوتی ہے تو وہ دونوں ملکوں کے لیے سخت نقصان کا باعث ہوگی۔ اگر چہ دونوں ملکوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ انڈیا ایک بڑا ملک ہونے کی بنا پر پھر بھی اس کو سہار لے گا۔ مگر جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ نسبتاً بہت چھوٹا ملک ہے۔ جنگ کی صورت میںاس کا انجام یقینی طورپر یہ ہوگا کہ اب تو وہ کشمیر پر انڈیا کی بالادستی ماننے پر راضی نہیں لیکن جنگ کے بعد وہ اتنا تباہ ہوگا کہ وہ اپنی بحالی کے لیے کئی دوسرے ملکوں کی بالا دستی قبول کر لے گا تاکہ وہ ان کے تعاون کے ذریعہ زندہ رہ سکے۔ اور جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے، اس کا سیاسی نقشہ کسی تبدیلی کے بغیر وہی رہے گا جو کہ آج ہمیں نظر آتاہے۔
جنگ تخریب ہے اور امن تعمیر۔ جنگ فطرت کے نقشہ کے خلاف ہے اور امن فطرت کے نقشہ کے مطابق ۔ جنگ کی تاریخ بربادی کی تاریخ ہے اور امن کی تاریخ آبادی کی تاریخ - جنگ کا نتیجہ فساد ہے اور امن کا نتیجہ ترقی۔ امن کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے کوئی بھی قیمت زیادہ مہنگی قمیت نہیں۔ زیرِ نظر کتاب قاری کو اسی حقیقت سے باخبر کرتی ہے۔
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2024 CPS USA.